تاویٰ رضویہ میں عشق رسولﷺکی جلوہ سامانیاں
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- مفتی محمدعبدالرحیم نشترؔفاروقی
ایڈیٹرماہنامہ سنی دنیاومفتی مرکزی دارالافتا،بریلی شریف
از قلم:- مفتی محمدعبدالرحیم نشترؔفاروقی
ایڈیٹرماہنامہ سنی دنیاومفتی مرکزی دارالافتا،بریلی شریف
••────────••⊰❤️⊱••───────••
یوں تو فتاویٰ رضویہ یہ خالص فقہی شاہکار ہے ،اس کی مکمل بارہ جلدیں صرف علمی اور فقہی مذاق پر مشتمل ہیں ،لیکن اس میں بھی عشق رسالت کی عطر بیزی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے اور اس کا ہر مسئلہ عشق رسالت کاآئینہ دار ہے،جسے قاری کا دل و دماغ اس کی بھینی بھینی خوشبوسے معطر ہو اٹھتا ہے، امام اہل سنت کا یہ عظیم الشان شاہکار بھی ان کے نزدیک نبی ناز رحمت کا فیضان وعطیہ ہے ،اسی لئے آپ نے اپنے فتاویٰ کا نام بھی ایسا ہی رکھا جس کے الفاظ آپ کی اس عقیدت و محبت کا برملا اظہار کر رہے ہیں’’ العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ‘‘ آپ کا قلم جس موضوع پر بھی اٹھا ہے، اس کی سرخیوں میں عشق ومحبت کے شرارے ابھرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مصطفیٰ جان رحمت ﷺکی عظمت وتقدس کا خیال لمحہ بھر کو آپ کی ذات سے جدا نہ ہوا، ملاحظہ فرمائیے کہ فتویٰ نویسی کے وقت مختلف فقہی مسائل کے ہجوم میں بھی عشق رسول اور عظمت رسالت کی پاس داری کا رنگ کتنا گہرا ہے۔
تقبیل الابہامین یعنی ’’اشہد ان محمد رسول اللہ‘‘ یااسم رسالت سن کر انگوٹھے چومنے کے جواز پر نہایت ہی مفصل ومدلل و تحقیقی جواب تحریرفرمایا اور یہ ثابت کیا کہ نام اقدس ﷺکو سن کر انگوٹھوں کو چومنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ باعث حفظ صحت وبصر اور کار ثواب و اجر ہے،اس رسالہ کو پڑھنے کے بعد ایک طرف آپ کی فقہی بصیرت وبصارت میں بے مثل و جداگانہ کرو فر کی تخصیص ہوتی ہے تو دوسری طرف حضور اکرمﷺ کی ذات محسن کائنات سے آپ کی بے پناہ عشق و الفت کا عرفان بھی ہوتا ہے، ذیل میں مسئلہ کی قدر تفصیل ملاحظہ فرمائیے اور اس کے حرف حرف سے نکلنے والی عشق و محبت کی کرنوں سے دلوں کو روشن و منور کیجئے :
’’حضور پر نور، شفیع یوم النشور، صاحب لولاک ﷺ کا نام پاک اذان میں سنتے وقت انگوٹھے یا انگشتان شہادت چوم کر آنکھوں سے لگانا قطعاً جائز ۔‘‘
یوں تو فتاویٰ رضویہ یہ خالص فقہی شاہکار ہے ،اس کی مکمل بارہ جلدیں صرف علمی اور فقہی مذاق پر مشتمل ہیں ،لیکن اس میں بھی عشق رسالت کی عطر بیزی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے اور اس کا ہر مسئلہ عشق رسالت کاآئینہ دار ہے،جسے قاری کا دل و دماغ اس کی بھینی بھینی خوشبوسے معطر ہو اٹھتا ہے، امام اہل سنت کا یہ عظیم الشان شاہکار بھی ان کے نزدیک نبی ناز رحمت کا فیضان وعطیہ ہے ،اسی لئے آپ نے اپنے فتاویٰ کا نام بھی ایسا ہی رکھا جس کے الفاظ آپ کی اس عقیدت و محبت کا برملا اظہار کر رہے ہیں’’ العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ‘‘ آپ کا قلم جس موضوع پر بھی اٹھا ہے، اس کی سرخیوں میں عشق ومحبت کے شرارے ابھرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مصطفیٰ جان رحمت ﷺکی عظمت وتقدس کا خیال لمحہ بھر کو آپ کی ذات سے جدا نہ ہوا، ملاحظہ فرمائیے کہ فتویٰ نویسی کے وقت مختلف فقہی مسائل کے ہجوم میں بھی عشق رسول اور عظمت رسالت کی پاس داری کا رنگ کتنا گہرا ہے۔
تقبیل الابہامین یعنی ’’اشہد ان محمد رسول اللہ‘‘ یااسم رسالت سن کر انگوٹھے چومنے کے جواز پر نہایت ہی مفصل ومدلل و تحقیقی جواب تحریرفرمایا اور یہ ثابت کیا کہ نام اقدس ﷺکو سن کر انگوٹھوں کو چومنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ باعث حفظ صحت وبصر اور کار ثواب و اجر ہے،اس رسالہ کو پڑھنے کے بعد ایک طرف آپ کی فقہی بصیرت وبصارت میں بے مثل و جداگانہ کرو فر کی تخصیص ہوتی ہے تو دوسری طرف حضور اکرمﷺ کی ذات محسن کائنات سے آپ کی بے پناہ عشق و الفت کا عرفان بھی ہوتا ہے، ذیل میں مسئلہ کی قدر تفصیل ملاحظہ فرمائیے اور اس کے حرف حرف سے نکلنے والی عشق و محبت کی کرنوں سے دلوں کو روشن و منور کیجئے :
’’حضور پر نور، شفیع یوم النشور، صاحب لولاک ﷺ کا نام پاک اذان میں سنتے وقت انگوٹھے یا انگشتان شہادت چوم کر آنکھوں سے لگانا قطعاً جائز ۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ ،جلد دوم ، ص۴۲۵]
آگے حضرت ملّا علی قاری کے حوالے سے لکھتے ہیں
’’قلت واذاثبت رفعہ الی الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فیکفی للعمل بہ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام علیم بسنتی وسنۃ الخلفاءالراشدین۔یعنی صدیق اکبر رضی اللہ اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی اس فعل کاثبوت عمل کابس ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:میںتم پرلازم کرتاہوںاپنی سنت اور اپنے خلفائے راشدین کی سنت،رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
توصدیق سے کسی شئے کاثبوت بعینہٖ حضورسیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ثبوت ہے ،اگرچہ بالخصوص حدیث مرفوع درجۂ صحت تک مرفوع نہ ہو۔‘‘
آگے حضرت ملّا علی قاری کے حوالے سے لکھتے ہیں
’’قلت واذاثبت رفعہ الی الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فیکفی للعمل بہ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام علیم بسنتی وسنۃ الخلفاءالراشدین۔یعنی صدیق اکبر رضی اللہ اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی اس فعل کاثبوت عمل کابس ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:میںتم پرلازم کرتاہوںاپنی سنت اور اپنے خلفائے راشدین کی سنت،رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
توصدیق سے کسی شئے کاثبوت بعینہٖ حضورسیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ثبوت ہے ،اگرچہ بالخصوص حدیث مرفوع درجۂ صحت تک مرفوع نہ ہو۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ،جلددوم،ص۵۲۶۔۵۲۷]
اسی طرح خوشبو سونگھتے وقت حضور شفیع یوم النشورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کے جوازپر علما و صلحااورصحابۂ کرام کے اقوال وافعال پیش کرکے ثابت فرمایا کہ یہ عمل باعث ثواب کثیر اور فضل جمیل ہے
’’خوشبولگاناسنت ہےاورخوشبوکی چیزیں پھول پتی وغیرہ پسندیدۂ بارگاہ رسالت ہیں،صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ وعلیٰ آلہ و بارک وسلم فرماتے ہیں:حبب الی من دنیاکم النساءو الطب وجعلت قرۃ عینی فی الصلاۃ۔تمہاری دنیامیں سے دوچیزوں کی محبت میرے دل میں ڈالی گئی،نکاح اورخوشبواورمیری آنکھ کی ٹھنڈک نمازمیں رکھی گئی ۔‘‘
اسی طرح خوشبو سونگھتے وقت حضور شفیع یوم النشورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کے جوازپر علما و صلحااورصحابۂ کرام کے اقوال وافعال پیش کرکے ثابت فرمایا کہ یہ عمل باعث ثواب کثیر اور فضل جمیل ہے
’’خوشبولگاناسنت ہےاورخوشبوکی چیزیں پھول پتی وغیرہ پسندیدۂ بارگاہ رسالت ہیں،صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ وعلیٰ آلہ و بارک وسلم فرماتے ہیں:حبب الی من دنیاکم النساءو الطب وجعلت قرۃ عینی فی الصلاۃ۔تمہاری دنیامیں سے دوچیزوں کی محبت میرے دل میں ڈالی گئی،نکاح اورخوشبواورمیری آنکھ کی ٹھنڈک نمازمیں رکھی گئی ۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ ،جلدنہم ،ص۲۲۵]
اسی طرف مختلف قسم پانی کاحکم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
’’ وہ پانی جس سے وضو صحیح ہے، مینھ، دریا، نہر،چشمہ، جھرنے، جھیل، بڑے تالاب، کوئیں کے پانی تو ظاہر ہیں بالخصوص قابل ذکر مائے مبارک زمزم شریف ہے کہ ہمارے ائمہ کرام کے نزدیک اس سے وضو وغسل بلا کراہت جائز ہے اور ڈھیل کے بعد استنجا مکروہ اور نجاست دھونا ممنوع ہے۔‘‘
یہ مسئلہ بیان کرتے ہوئے آپ کا عشق وعرفان انگڑائیاں لیتا ہوا پردۂ ذہن پر چھا گیا کہ کہیں لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ زمزم شریف ہی تمام پانیوں سے اعلیٰ و ارفع ہے جبکہ ان تمام پانیوں سے اعلیٰ و ارفع ایک اور پانی ہے،حاشیئےمیں آپ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھتےہیں
’’سب سے اعلیٰ، سب سے افضل ،دونوں جہاں کے سب پانیوں سے افضل ،زمزم سے افضل، کوثر سے افضل وہ مبارک پانی ہے کہ بارہا براہ ِاعجاز حضور انور سید اطہر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی انگشتان مبارک سے دریا کی طرح بہا اور ہزاروں نے پیا اور وضو کیا ،علما تصریح فرماتے ہیں کہ وہ پانی کوثر و زمزم سب سے افضل ہے مگر اب وہ کہاں نصیب۔‘‘
اسی طرف مختلف قسم پانی کاحکم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
’’ وہ پانی جس سے وضو صحیح ہے، مینھ، دریا، نہر،چشمہ، جھرنے، جھیل، بڑے تالاب، کوئیں کے پانی تو ظاہر ہیں بالخصوص قابل ذکر مائے مبارک زمزم شریف ہے کہ ہمارے ائمہ کرام کے نزدیک اس سے وضو وغسل بلا کراہت جائز ہے اور ڈھیل کے بعد استنجا مکروہ اور نجاست دھونا ممنوع ہے۔‘‘
یہ مسئلہ بیان کرتے ہوئے آپ کا عشق وعرفان انگڑائیاں لیتا ہوا پردۂ ذہن پر چھا گیا کہ کہیں لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ زمزم شریف ہی تمام پانیوں سے اعلیٰ و ارفع ہے جبکہ ان تمام پانیوں سے اعلیٰ و ارفع ایک اور پانی ہے،حاشیئےمیں آپ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھتےہیں
’’سب سے اعلیٰ، سب سے افضل ،دونوں جہاں کے سب پانیوں سے افضل ،زمزم سے افضل، کوثر سے افضل وہ مبارک پانی ہے کہ بارہا براہ ِاعجاز حضور انور سید اطہر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی انگشتان مبارک سے دریا کی طرح بہا اور ہزاروں نے پیا اور وضو کیا ،علما تصریح فرماتے ہیں کہ وہ پانی کوثر و زمزم سب سے افضل ہے مگر اب وہ کہاں نصیب۔‘‘
[ فتاویٰ رضویہ قدیم،جلد اوّل، ص ۴۰۸]
انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر ندیا ںپنجاب رحمت کی ہیں جاری واہ واہ
نور کے چشمے لہرائیں، دریا بہیں انگلیوں کی کرامت پہ لاکھوں سلام
امام اہل سنت کی نبی ناز رحمت سے وارفتگی وشیفتگی کا عالم یہ تھا کہ جن ادنی سے ادنیٰ چیزوں کو رسول اکرم سے قرب یا ان سے ادنی سی بھی نسبت حاصل ہو، ان کا بھی ادب و احترام اور ان کی عظمت وتقدس کا پورا پورا خیال فرماتے ،چنانچہ پانی ہی کے بیان میں فرماتے ہیں
’’حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا موئے مبارک یا جبہ شریف یا کاسہ مطہرہ تبرک کے لئے جس پانی میں دھویا قابل وضو ہے، اگر چہ اس میں قصد قربت بھی ہو ،ہاں پاؤں پر نہ ڈالا جائے کہ خلاف ادب ہے، اگر منھ پر جاری کیا تو منھ کا وضو ہو گیا ،ان کا تو نام پاک لینے سے دل کا وضو ہو جاتا ہے........................................الحمدللہ!ان پاک کرنے والے پانیوںکی ابتدازمزم شریف بلکہ اس آب اقدس سے ہوئی جوانگشتان مبارک حضورپرنورسیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بکمال رحمت جوش زن ہوااور انتہااس پانی پرہوئی جوحضورکے آثار شریفہ کودھوکر برکات عالیہ کامنبع ومخزن ہوا۔‘‘
انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر ندیا ںپنجاب رحمت کی ہیں جاری واہ واہ
نور کے چشمے لہرائیں، دریا بہیں انگلیوں کی کرامت پہ لاکھوں سلام
امام اہل سنت کی نبی ناز رحمت سے وارفتگی وشیفتگی کا عالم یہ تھا کہ جن ادنی سے ادنیٰ چیزوں کو رسول اکرم سے قرب یا ان سے ادنی سی بھی نسبت حاصل ہو، ان کا بھی ادب و احترام اور ان کی عظمت وتقدس کا پورا پورا خیال فرماتے ،چنانچہ پانی ہی کے بیان میں فرماتے ہیں
’’حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا موئے مبارک یا جبہ شریف یا کاسہ مطہرہ تبرک کے لئے جس پانی میں دھویا قابل وضو ہے، اگر چہ اس میں قصد قربت بھی ہو ،ہاں پاؤں پر نہ ڈالا جائے کہ خلاف ادب ہے، اگر منھ پر جاری کیا تو منھ کا وضو ہو گیا ،ان کا تو نام پاک لینے سے دل کا وضو ہو جاتا ہے........................................الحمدللہ!ان پاک کرنے والے پانیوںکی ابتدازمزم شریف بلکہ اس آب اقدس سے ہوئی جوانگشتان مبارک حضورپرنورسیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بکمال رحمت جوش زن ہوااور انتہااس پانی پرہوئی جوحضورکے آثار شریفہ کودھوکر برکات عالیہ کامنبع ومخزن ہوا۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ قدیم،جلد اوّل،ص ۴۵۶]
واللہ کیا عاشقانہ جملہ ہے ،ایک ایک حرف عشق و الفت کا مہکتاہواگلاب معلوم ہو رہا ہے،رسول رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آثاروتبرکات کی تعظیم وتوقیراوران کے فیوض وبرکات تحریرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’فی الواقع آثارشریفہ حضورسیدالمرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تبرک سلفاًوخلفاًزمانۂ اقدس حضورپرنورسیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم وصحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے آج تک بلانکیررائج ومعمول اور باجماع مسلمین مندوب ومحبوب ،بکثرت احادیث صحیحہ صحیح بخاری ومسلم وغیرہماصحاح وسنن وکتب حدیث اس پرناطق ،جن میںبعض کی تفصیل فقیرکی کتاب البارقۃ الشارقۃ علی مارقۃ المشارقۃ میںذکر کی اورایسی جگہ ثبوت یقینی یاسندمحدثانہ کی اصلاًحاجت نہیں،اس کی تحقیق وتنقیح کے پیچھے پڑنااوربغیراس کے تعظیم وتبرک سے بازرہنا سخت محرومی وکم نصیبی ہے ،ائمۂ دین نے صرف حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام سے اس شئے کامعروف ہوناکافی سمجھاہے ، امام قاضی عیاض شفاشریف میںفرماتے ہیں:من اعظامہ و إکبارہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم إعظام جمیع أسبابہ و اکرام مشاھدہ وامکنۃ من مکمۃ والمدینۃ ومعاھدہ و مالمسہ علیہ الصلاۃ والسلام اوعرف بہ۔(یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم کاایک جزیہ بھی ہے کہ جس چیزکو حضور سے کچھ علاقہ ہو،جوچیزحضورکی طرف منسوب ہو،جس چیزکوحضورنے چھواہویاجوچیزحضورکے نام پاک پہچانی جاتی ہو،اس کی تعظیم کی جائے ۔)
اسی طرح طبقۃً فطبقۃً شرقاًغرباً،عجماًعرباًعلمائے دین وائمۂ معتمدین نعل مطہرحضورسیدالبشرعلیہ افضل الصلاۃ واکمل السلام کے نقشے کاغذوں پربناتے،کتابوں پرتحریرفرماتے آئے اورانھیں بوسہ دینے،آنکھوں سے لگانے،سرپررکھنے کاحکم فرماتے رہے اوردفع امراض وحصول اغراض میںاس سے توسل فرمایاکئےاوربفضل الٰہی عظیم وجلیل برکات وآثاراس سے پایاکئے ...............
علما فرماتے ہیں جس کے پاس نقشۂ متبرکہ ہوظلم ظالمین و شرشیاطین وچشم زخم حاسدین سے محفوظ رہے،عورت دردزہ کے وقت اپنے ہاتھ میں لے آسانی ہو،جوہمیشہ پاس رکھے نہ لُٹے،جس کشتی میں ہونہ ڈوبے،جس مال میں ہونہ چُرے،جس حاجت میںاس سے توسل کیا جائے پوری ہو،جس مرادکی نیت سے پاس رکھیں حاصل ہو،موضع دردومرض پراسے رکھ کرشفائیں ملی ہیں،مہلکوں مصیبتوں میں اس سے توسل کرکے نجات وفلاح کی راہیں کھلی ہیں۔‘‘
واللہ کیا عاشقانہ جملہ ہے ،ایک ایک حرف عشق و الفت کا مہکتاہواگلاب معلوم ہو رہا ہے،رسول رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آثاروتبرکات کی تعظیم وتوقیراوران کے فیوض وبرکات تحریرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’فی الواقع آثارشریفہ حضورسیدالمرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تبرک سلفاًوخلفاًزمانۂ اقدس حضورپرنورسیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم وصحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے آج تک بلانکیررائج ومعمول اور باجماع مسلمین مندوب ومحبوب ،بکثرت احادیث صحیحہ صحیح بخاری ومسلم وغیرہماصحاح وسنن وکتب حدیث اس پرناطق ،جن میںبعض کی تفصیل فقیرکی کتاب البارقۃ الشارقۃ علی مارقۃ المشارقۃ میںذکر کی اورایسی جگہ ثبوت یقینی یاسندمحدثانہ کی اصلاًحاجت نہیں،اس کی تحقیق وتنقیح کے پیچھے پڑنااوربغیراس کے تعظیم وتبرک سے بازرہنا سخت محرومی وکم نصیبی ہے ،ائمۂ دین نے صرف حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام سے اس شئے کامعروف ہوناکافی سمجھاہے ، امام قاضی عیاض شفاشریف میںفرماتے ہیں:من اعظامہ و إکبارہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم إعظام جمیع أسبابہ و اکرام مشاھدہ وامکنۃ من مکمۃ والمدینۃ ومعاھدہ و مالمسہ علیہ الصلاۃ والسلام اوعرف بہ۔(یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم کاایک جزیہ بھی ہے کہ جس چیزکو حضور سے کچھ علاقہ ہو،جوچیزحضورکی طرف منسوب ہو،جس چیزکوحضورنے چھواہویاجوچیزحضورکے نام پاک پہچانی جاتی ہو،اس کی تعظیم کی جائے ۔)
اسی طرح طبقۃً فطبقۃً شرقاًغرباً،عجماًعرباًعلمائے دین وائمۂ معتمدین نعل مطہرحضورسیدالبشرعلیہ افضل الصلاۃ واکمل السلام کے نقشے کاغذوں پربناتے،کتابوں پرتحریرفرماتے آئے اورانھیں بوسہ دینے،آنکھوں سے لگانے،سرپررکھنے کاحکم فرماتے رہے اوردفع امراض وحصول اغراض میںاس سے توسل فرمایاکئےاوربفضل الٰہی عظیم وجلیل برکات وآثاراس سے پایاکئے ...............
علما فرماتے ہیں جس کے پاس نقشۂ متبرکہ ہوظلم ظالمین و شرشیاطین وچشم زخم حاسدین سے محفوظ رہے،عورت دردزہ کے وقت اپنے ہاتھ میں لے آسانی ہو،جوہمیشہ پاس رکھے نہ لُٹے،جس کشتی میں ہونہ ڈوبے،جس مال میں ہونہ چُرے،جس حاجت میںاس سے توسل کیا جائے پوری ہو،جس مرادکی نیت سے پاس رکھیں حاصل ہو،موضع دردومرض پراسے رکھ کرشفائیں ملی ہیں،مہلکوں مصیبتوں میں اس سے توسل کرکے نجات وفلاح کی راہیں کھلی ہیں۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ قدیم ،جلدنہم ،ص۹۲]
ایک دوسرے مقام پرجان کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اپنے عشق ومحبت کادریابہاتے ہوئےیوں فرماتےہیں:
’’جب نقشے کی یہ برکت وعظمت ہے توخودنعل اقدس کی عظمت وبرکت کوخیال کیجئے ،پھرردائے اقدس ،جبہ مقدسہ وعمامہ مکرمہ پر نظرکیجئے، پھر ان تمام آثاروتبرکات شریفہ سے ہزاروں درجے اعظم واعلیٰ واکرم واولیٰ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ناخن پاک کاتراشہ کہ یہ سب ملبوسات تھے اوروہ جزء بدن والاہے ،اس سے اجل واعظم و ارفع واکرم حضورپرنورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ریش مبارک کاموئے مطہرہے ۔
مسلمان کاایمان گواہ ہے کہ ہفت آسمان وزمین ہرگزاس ایک موئے مبارک کی عظمت کونہیں پہنچتے اورتصریحات ائمہ سے معلوم ہولیاکہ تعظیم کے لئے نہ یقین درکارہے نہ کوئی خاص سند،بلکہ صرف نام پاک سے اس شئے کااشتہارکافی ہے ،ایسی جگہ بے ادراک سندتعظیم سے بازنہ رہے گامگربیماردل ،پرآزاردل !جس میں نہ عظمت شان محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بروجہ کافی ،نہ ایمان کامل۔‘‘
ایک دوسرے مقام پرجان کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اپنے عشق ومحبت کادریابہاتے ہوئےیوں فرماتےہیں:
’’جب نقشے کی یہ برکت وعظمت ہے توخودنعل اقدس کی عظمت وبرکت کوخیال کیجئے ،پھرردائے اقدس ،جبہ مقدسہ وعمامہ مکرمہ پر نظرکیجئے، پھر ان تمام آثاروتبرکات شریفہ سے ہزاروں درجے اعظم واعلیٰ واکرم واولیٰ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ناخن پاک کاتراشہ کہ یہ سب ملبوسات تھے اوروہ جزء بدن والاہے ،اس سے اجل واعظم و ارفع واکرم حضورپرنورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ریش مبارک کاموئے مطہرہے ۔
مسلمان کاایمان گواہ ہے کہ ہفت آسمان وزمین ہرگزاس ایک موئے مبارک کی عظمت کونہیں پہنچتے اورتصریحات ائمہ سے معلوم ہولیاکہ تعظیم کے لئے نہ یقین درکارہے نہ کوئی خاص سند،بلکہ صرف نام پاک سے اس شئے کااشتہارکافی ہے ،ایسی جگہ بے ادراک سندتعظیم سے بازنہ رہے گامگربیماردل ،پرآزاردل !جس میں نہ عظمت شان محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بروجہ کافی ،نہ ایمان کامل۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ جدید ،جلد۱۷؍ص۲۲۷]
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت اپنے معشوق صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مزار اقدس کی قدر و منزلت کے بارے میں فرماتے ہیں
’’تربت اطہر یعنی وہ زمین جو جسم انور سے متصل ہے کعبۂ معظمہ بلکہ عرش سے بھی افضل ہے،صّرح بہ ابن عقیل الحنبلی و تلقاہ العلماء بالقول باقی مزار شریف کابالائی حصہ اس میں داخل نہیں، کعبۂ معظمہ ،مدینہ طیبہ سے افضل ہے، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ مدینہ طیبہ سوائے موضع تربت اطہر اور مکہ معظمہ سوائے کعبہ مکرمہ! ان دونوں میں کون افضل ہے، اکثر جانب ثانی ہیں اور اپنا مسلک اوّل اور یہی مذہب فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے، طبرانی کی حدیث میں تصریح ہے کہ المدینۃ افضل من المکۃواللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت اپنے معشوق صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مزار اقدس کی قدر و منزلت کے بارے میں فرماتے ہیں
’’تربت اطہر یعنی وہ زمین جو جسم انور سے متصل ہے کعبۂ معظمہ بلکہ عرش سے بھی افضل ہے،صّرح بہ ابن عقیل الحنبلی و تلقاہ العلماء بالقول باقی مزار شریف کابالائی حصہ اس میں داخل نہیں، کعبۂ معظمہ ،مدینہ طیبہ سے افضل ہے، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ مدینہ طیبہ سوائے موضع تربت اطہر اور مکہ معظمہ سوائے کعبہ مکرمہ! ان دونوں میں کون افضل ہے، اکثر جانب ثانی ہیں اور اپنا مسلک اوّل اور یہی مذہب فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے، طبرانی کی حدیث میں تصریح ہے کہ المدینۃ افضل من المکۃواللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ قدیم،جلد چہارم، ص۶۸۷]
آپ کوشہرمحبوب سے اس قدرمحبت تھی کہ’ ’مدینہ منورہ‘‘کےلئے لفظ ’’یثرب‘‘ سننا گوارہ نہیں فرماتے تھے ،جب بھی کوئی مدینہ منورہ کے لئے لفظ ’’یثرب‘‘استعمال کرتاآپ ٹرپ جاتے ،چنانچہ ارشادفرماتے ہیں:
’’مدینہ طیبہ کویثرب کہناناجائزوممنوع وگناہ ہے اورکہنے والاگنہگار، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:سمی المدینۃ یثرب فلیستغفراللہ ھی طابۃ ھی طابۃ ۔جومدینہ کویثرب کہے ،اس پرتوبہ واجب ہے ،مدینہ طابہ ہے ،مدینہ طابہ ہے..... .........علامہ مناوی تیسیرشرح جامع صغیرمیں فرماتے ہیں:فتسمیتھابذلک حرام لان الاستغفارانماھو عن خطیئۃ۔ یعنی اس حدیث سے معلوم ہواکہ مدینہ طیبہ کایثرب نام رکھناحرام ہے کہ یثرب کہنے سے استغفارکاحکم فرمایااوراستغفار گناہ ہی سے ہوتاہے۔‘‘
آپ کوشہرمحبوب سے اس قدرمحبت تھی کہ’ ’مدینہ منورہ‘‘کےلئے لفظ ’’یثرب‘‘ سننا گوارہ نہیں فرماتے تھے ،جب بھی کوئی مدینہ منورہ کے لئے لفظ ’’یثرب‘‘استعمال کرتاآپ ٹرپ جاتے ،چنانچہ ارشادفرماتے ہیں:
’’مدینہ طیبہ کویثرب کہناناجائزوممنوع وگناہ ہے اورکہنے والاگنہگار، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:سمی المدینۃ یثرب فلیستغفراللہ ھی طابۃ ھی طابۃ ۔جومدینہ کویثرب کہے ،اس پرتوبہ واجب ہے ،مدینہ طابہ ہے ،مدینہ طابہ ہے..... .........علامہ مناوی تیسیرشرح جامع صغیرمیں فرماتے ہیں:فتسمیتھابذلک حرام لان الاستغفارانماھو عن خطیئۃ۔ یعنی اس حدیث سے معلوم ہواکہ مدینہ طیبہ کایثرب نام رکھناحرام ہے کہ یثرب کہنے سے استغفارکاحکم فرمایااوراستغفار گناہ ہی سے ہوتاہے۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ،جلدنہم،ص۶۱]
آپ در محبوبﷺ کی حاضری کو قریب الواجب قرار دیتے ہیں کیوں کہ حج بھی تو انہیں کے طفیل نصیب ہوتا ہے۔ ؎
ان کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دیئے
اصل مراد حاضری اس پاک در کی ہے
در محبوب پہ آپ کا عشق و ادب اتنا محتاط ہے کہ جالی شریف کے بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بھی اجتناب فرماتے ہیںکہ کہیں کوئی بے ادبی نہ ہوجائے، آپ رحمت عالم ﷺ کی رحمت پر اتراتے ہوئے سراپا عجزو انکسار بن جاتے ہیں کہ ’’یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ اپنے حضور بلایا اور مواجہہ اقدس میں جگہ بخشی‘‘ آپ کوچۂ جاناں میں حاضری کے آداب و ضوابط ،عشق ومحبت کی روشنی میں رقم کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
’’(۱)زیارت اقدس قریب بواجب ہے ،بہت لوگ دوست بن کر طرح طرح ڈراتے ہیں،راہ پرخطرہے،وہاں بیماری ہے، خبردارکسی کی نہ سنواورہرگزمحرومی کاداغ لے کرنہ پلٹو،جان ایک دن جانی ضرور ہے ، اس سے کیابہترکہ ان کی راہ میں جائے اور تجربہ ہے کہ جوان کا دامن تھام لیتاہے ،اسے اپنےسایہ میںبآرام لے جاتے ہیں،کیل کاکھٹکا نہیں ہوتا،واللہ الحمد۔
(۲)حاضری میں خاص زیات اقدس کی نیت کرو،یہاں تک کہ امام ابن الہمام فرماتے ہیں،اس بارمسجدشریف کی بھی نیت نہ کرے۔
(۳)راستہ بھردرودوذکرشریف میں ڈوب جاؤ۔
(۴)جب حرم مدینہ نظرآئے ،بہتر کہ پیادہ ہولو،روتے سرجھکائے، آنکھیں نیچی کئے اورہوسکے توننگے پاؤں چلوبلکہ ؎
جائے سراست ایںکہ توپامی نہی پائے نہ بینی کہ کجامی نہی
حرم کی زمیںاورقدم رکھ کے چلنا ارے سرکاموقع ہے اوجانے والے
(۵)جب قبۂ انورپرنگاہ پڑے درودوسلام کی کثرت کرو۔
(۶)جب شہراقدس تک پہنچو،جلال وجمال محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے تصورمیں غرق ہوجاؤ۔
(۷)حاضری مسجدسے پہلے تمام ضروریات جن کالگاؤدل بٹنے کاباعث ہو،اورنئے بہترسرمہ اورخوشبولگاؤاورمشک افضل ہے۔
(۸)اب فوراًآستانۂ اقدس کی طرف نہایت خشوع وخضوع سے متوجہ ہو،رونے کامنہ بناؤاوردل بزوررونے پرلاؤاوراپنی سنگ دلی سے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف التجاکرو۔
(۹)جب درمسجدپرحاضری ہو،صلوٰۃ وسلام عرض کرکے تھوڑاٹھہرو جیسے سرکارسے حاضری کی اجازت مانگتے ہو،بسم اللہ کہہ کر سیدھا پاؤں پہلے رکھ کرہمہ تن ادب ہوکرداخل ہو۔
(۱۰)اس وقت جوادب وتعظیم فرض ہے ہرمسلمان کادل جانتاہے ، آنکھوں،کان،زبان،ہاتھ،پاؤں،دل سب خیال غیرسے پاک کرو، مسجداقدس کے نقش ونگارنہ دیکھو۔
(۱۱)اگرکوئی ایساسامنے آجائے ،جس سے سلام وکلام ضرورہوتو جہاں تک ہوکتراجاؤ،ورنہ ضرورت سے زیادہ نہ بڑھو،پھربھی دل سرکارہی کی طرف ہو۔
(۱۲)ہرگزہرگزمسجداقدس میںکوئی حرف چلاکرنہ نکلے۔
(۱۳)یقین جانوکہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سچی حقیقی دنیاوی جسمانی حیات سے ویسے ہی زندہ ہیں جیسے وفات شریف سے پہلے تھے،ان کی اورتمام انبیاءعلیہم الصلوٰۃ والسلام کی موت صرف وعدۂ خداکی تصدیق کوایک آن کے لئے تھی،ان کاانتقال صرف نظرعوام سے چھپ جاناہے۔
امام محمدبن حاج مکی مدخل اورامام احمدقسطلانی ہواہب لدنیہ میں اورائمۂ دین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین فرماتے ہیں لا فرق بین موتہ وحیاتہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فی مشاہدتہ لامتہ ومعرفتہ باحوالہم ونیاتھم وعزائمھم و خواطرھم وذلک عندہ جلی لاخفائفہ ۔ترجمہحضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیات ووفات میں اس بات میں کچھ فرق نہیں کہ وہ اپنی امت کودیکھ رہے ہیں اور ان کی حالتوں اوران کی نیتوں،ان کے ارادوں،ان کے دلوں کے خیالوں کوپہچانتے ہیں اوریہ سب حضورپر ایساروشن ہے جس میں اصلاًپوشیدگی نہیں۔
امام رحمۃ اللہ تلمیذامام محقق ابن الہمام مسلک متوسط اور اعلی قاری مکی اس کی شرح مسلک متقسط میںفرماتے ہیںانہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عالم (بحضورک وقیامک وسلامک ) أی بجمیع احوالک وافعالک وارتحالک و مقامک۔ترجمہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تیری حاضری اورتیرے کھڑے ہونے اورتیرے سلام بلکہ تیرے تمام افعال واحوال وکوچ و مقام سے آگاہ ہیں۔
(۱۴)اب اگرجماعت قائم ہوشریک ہوجاؤکہ اس میں تحیۃ المسجدبھی اداہوجائے گی ورنہ اگرغلبۂ شوق مہلت دے اوراس وقت کراہت نہ ہوتودورکعت تحیۃ المسجدوشکرانۂ حاضری درباراقدس صرف قل یاقل سے بہت ہلکی مگررعایت سنت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے نمازپڑھنے کی جگہ جہاںاب وسط مسجدکریم میں محراب بنی ہے اوروہاں نہ ملے توجہاں تک ہوسکے اس کے نزدیک اداکرواوردعاکرو کہ الٰہی اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاادب اوران کااپناقبول نصیب کر،آمین۔
(۱۵)اب کمال ادب میں ڈوبے ہوئے گردن جھکائے ،آنکھیں نیچی کئے ،لرزتے ،کانپتے ،گناہوں کی ندامت سے پسینہ پسینہ ہوتے ، حضورپرنورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عفووکرم کی امیدرکھتے حضوروالا کی پائیں یعنی مشرق کی طرف سے مواجہہ عالیہ میں حاضر ہوکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مزارانورمیں روبقبلہ جلوہ فرماہیں،اس سمت سے حاضرہو،کہ حضورکی نگاہ بیکس پناہ تمہاری طرف ہوگی اوریہ بات تمہارے لئے دونوں جہان میں کافی ہے ،والحمدللہ -
(۱۶)اب کمال ادب وہیبت وخوف وامیدکے ساتھ زیرقندیل اس چاندی کی کیل کے جوحجرۂ مطہرہ کی جنوبی دیوارمیںچہرۂ انور کے مقابل لگی ،کم ازکم چارہاتھ کے فاصلے سے قبلہ کوپیٹھ اورمزارانورکومنہ کرکے نمازکی طرح ہاتھ باندھے کھڑے ہو،لباب وشرح لباب و اختیارشرح مختارفتاوائے علم گیری وغیرہامعتمدکتابوںمیںاس ادب کی تصریح فرمائی کہ یقف کمافی الصلوٰۃحضورکے سامنے ایساکھڑا ہو جیسانمازمیں کھڑاہوتاہے ،یہ عبارت عالم گیری واختیارکی ہے اورلباب میں فرمایاواضعاًیمنہ علی شمالہ دست بستہ دہناہاتھ بائیں ہاتھ پررکھ کرکھڑاہو۔
(۱۷)خبردارجالی شریف کوبوسہ دینے یاہاتھ لگانے سے بچوکہ خلاف ادب ہے بلکہ چارہاتھ فاصلے سے زیادہ قریب نہ جاؤ،یہ ان کی رحمت کیاکم ہے کہ تم کواپنے حضوربلایا،اپنے مواجہہ اقد س میں جگہ بخشی، ان کی نگاہ کریم اگرچہ ہرجگہ تمہاری طرف تھی ،اب خصوصیت اوراس درجہ قربت کے ساتھ ہے ،والحمدللہ -
(۸)الحمدللہ اب کہ دل کی طرح تمہارامنہ بھی اس پاک جالی کی طرف ہے جواللہ عزوجل کے محبوب عظیم الشان صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی آرام گاہ ہے ،نہایت ادب ووقارکے ساتھ بآوازحزیں وصورت دردآگیں ودل شرمناک وجگرچاک چاک معتدل آوازسے نہ بلندوسخت (کہ ان کے حضورآوازبلندسے عمل اکارت ہوجاتے ہیں)نہ نہایت نرم و پست (کہ سنت کے خلاف ہے اگرچہ وہ تمہارے دلوں کے خطروں تک سے آگاہ ہیں جیساکہ ابھی تصریحات ائمہ سے گزرا)مجراوتسلیم بجالاؤاورعرض کروالسلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،السلام علیک یارسول اللہ ،السلام علیک یاخیرخلق اللہ،السلام علیک یاشفیع المذنبین،السلام علیک وعلیٰ آلک و اصحابک وامتک اجمعین-
(۱۹)جہاں تک ممکن ہواورزبان یاری دے اورملال وکسل نہ ہوصلوٰۃ وسلام کی کثرت کرو،حضورسے اپنے لئے اوراپنے ماں باپ ، پیر، استاد، اولاد،عزیزوں،دوستوں اورسب مسلمانوں کے لئے شفاعت مانگو، باربارعرض کرواسئلک الشفاعۃ یارسول اللہ -
(۲۰)پھراگرکسی نے عرض کی وصیت کی بجالاؤ،شرعاًاس کاحکم ہے اوریہ فقیرذلیل ان مسلمانوں کی جواس رسالہ کودیکھیں،وصیت کرتا ہے کہ جب انھیں حاضری بارگاہ نصیب ہو،فقیرکی زندگی میں یابعدکم ازکم تین بارمواجہہ اقدس میں ضروریہ الفاظ عرض کرکے اس نالائق ننگ خلائق پراحسان فرمائیں،اللہ ان کودونوں جہاں میں جزابخشے،آمینالصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ و علیٰ آلک وذویک فی کل آن ولحظۃ عددکل ذرۃ الف الف مرۃ من عبیدک احمد رضاابن نقی علی یسئلک الشفاعۃ فاشفع لہ وللمسلمین-
(۲۱)پھراپنے دہنے ہاتھ یعنی مشرق کی طرف ہاتھ بھرہٹ کرحضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرۂ نورانی کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کروالسلام علیک یاخلیفۃ رسول اللہ ،السلام علیک یا صاحب رسول اللہ فی الغارورحمۃ اللہ وبرکاتہ-
(۲۲)پھراتناہی اورہٹ کرحضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روبروکھڑے ہوکرعرض کروالسلام علیک یاامیرالمؤمنین والسلام علیک یامتمم الاربعین،السلام علیک یاعزالاسلام والمسلمین و رحمۃ اللہ وبرکاتہ-
(۲۳)پھربالشت بھرمغرب کی جانب پلٹواورصدیق وفاروق کے درمیان کھڑے ہوکرعرض کروالسلام علیکمایاخیفتی رسول اللہ ،السلام علیکما یا وزیری رسول اللہ ،السلام علیکما یاضجیع رسول اللہ و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ، أسئلکماالشفاعۃ عندرسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وعلیماوبارک وسلّم-
(۲۴)یہ سب حاضریاں محل اجابت ہیں،دعامیں کوشش کرو، دعائے جامع کرو،درودپرقناعت بہتر۔
(۲۵)پھرمنبراطہرکے قریب دعامانگو۔
(۲۶)پھرروضۂ جنت میں(یعنی جوجگہ منبرووحجرۂ منورہ کے درمیان ہے اوراسے حدیث میں جنت کی کیاری فرمایا)آکر دو رکعت نفل غیرمکروہ وقت میں پڑھ کردعاکرو۔
(۲۷)یونہی مسجدشریف کے ہرستونوں کے پاس نمازپڑھواوردعا مانگوکہ محل برکات ہیں خصوصاًبعض میں خاص خصوصیت۔
(۲۸)جب تک مدینہ طیبہ کی حاضری نصیب ہو ایک سانس(بھی) بیکارنہ جانے دو،ضروریات کے سواکثروقت مسجدشریف میں باطہارت حاضررہو،نمازوتلاوت ،درودمیں گزارو،دنیاکی بات کسی مسجدمیں نہیں چاہئے نہ کہ یہاں۔
(۲۹)ہمیشہ ہرمسجدمیں جاتے اعتکاف کی نیت کرلو،یہاں تمہاری یاددہانی ہی کودروازے سے بڑھتے ہی یہ کتبہ ملے گانویت سنۃ الاعتکاف-
(۳۰)مدینہ طیبہ میں روزہ نصیب ہوخصوصاًگرمی میں توکیاکہناکہ اس پروعدۂ شفاعت ہے ۔
(۳۱)یہاں ہرنیکی ایک کی پچاس لکھی جاتی ہے ،لہٰذاعبادت میں زیادہ کوشش کرو،کھانے پینے کی کمی ضرورکرو۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ قدیم،جلد چہارم،ص ۲۳؍تا ۷۲۰]
روضۂ انورکی نقل یاتصویرکے تعلق سے اپنی عقیدت ومحبت کااظہاریوں فرماتے ہیں:
’’روضۂ منورہ حضورپرنورسیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نقل صحیح بلاشبہ معظمات دینیہ سے ہے ،اس کی تعظیم وتکریم بروجہ شرعی ہر مسلمان صحیح الایمان کامقتضائے ایمان ہے ، ع اے گل بتوخرسندم توبوئے کسے داری
اس کی زیارت بآداب شریعت اوراس وقت درودشریف کی کثرت ہرمومن کی شہادت قلب وبداہت عقل سے مستحب و مطلوب ہے۔‘‘
آپ در محبوبﷺ کی حاضری کو قریب الواجب قرار دیتے ہیں کیوں کہ حج بھی تو انہیں کے طفیل نصیب ہوتا ہے۔ ؎
ان کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دیئے
اصل مراد حاضری اس پاک در کی ہے
در محبوب پہ آپ کا عشق و ادب اتنا محتاط ہے کہ جالی شریف کے بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بھی اجتناب فرماتے ہیںکہ کہیں کوئی بے ادبی نہ ہوجائے، آپ رحمت عالم ﷺ کی رحمت پر اتراتے ہوئے سراپا عجزو انکسار بن جاتے ہیں کہ ’’یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ اپنے حضور بلایا اور مواجہہ اقدس میں جگہ بخشی‘‘ آپ کوچۂ جاناں میں حاضری کے آداب و ضوابط ،عشق ومحبت کی روشنی میں رقم کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
’’(۱)زیارت اقدس قریب بواجب ہے ،بہت لوگ دوست بن کر طرح طرح ڈراتے ہیں،راہ پرخطرہے،وہاں بیماری ہے، خبردارکسی کی نہ سنواورہرگزمحرومی کاداغ لے کرنہ پلٹو،جان ایک دن جانی ضرور ہے ، اس سے کیابہترکہ ان کی راہ میں جائے اور تجربہ ہے کہ جوان کا دامن تھام لیتاہے ،اسے اپنےسایہ میںبآرام لے جاتے ہیں،کیل کاکھٹکا نہیں ہوتا،واللہ الحمد۔
(۲)حاضری میں خاص زیات اقدس کی نیت کرو،یہاں تک کہ امام ابن الہمام فرماتے ہیں،اس بارمسجدشریف کی بھی نیت نہ کرے۔
(۳)راستہ بھردرودوذکرشریف میں ڈوب جاؤ۔
(۴)جب حرم مدینہ نظرآئے ،بہتر کہ پیادہ ہولو،روتے سرجھکائے، آنکھیں نیچی کئے اورہوسکے توننگے پاؤں چلوبلکہ ؎
جائے سراست ایںکہ توپامی نہی پائے نہ بینی کہ کجامی نہی
حرم کی زمیںاورقدم رکھ کے چلنا ارے سرکاموقع ہے اوجانے والے
(۵)جب قبۂ انورپرنگاہ پڑے درودوسلام کی کثرت کرو۔
(۶)جب شہراقدس تک پہنچو،جلال وجمال محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے تصورمیں غرق ہوجاؤ۔
(۷)حاضری مسجدسے پہلے تمام ضروریات جن کالگاؤدل بٹنے کاباعث ہو،اورنئے بہترسرمہ اورخوشبولگاؤاورمشک افضل ہے۔
(۸)اب فوراًآستانۂ اقدس کی طرف نہایت خشوع وخضوع سے متوجہ ہو،رونے کامنہ بناؤاوردل بزوررونے پرلاؤاوراپنی سنگ دلی سے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف التجاکرو۔
(۹)جب درمسجدپرحاضری ہو،صلوٰۃ وسلام عرض کرکے تھوڑاٹھہرو جیسے سرکارسے حاضری کی اجازت مانگتے ہو،بسم اللہ کہہ کر سیدھا پاؤں پہلے رکھ کرہمہ تن ادب ہوکرداخل ہو۔
(۱۰)اس وقت جوادب وتعظیم فرض ہے ہرمسلمان کادل جانتاہے ، آنکھوں،کان،زبان،ہاتھ،پاؤں،دل سب خیال غیرسے پاک کرو، مسجداقدس کے نقش ونگارنہ دیکھو۔
(۱۱)اگرکوئی ایساسامنے آجائے ،جس سے سلام وکلام ضرورہوتو جہاں تک ہوکتراجاؤ،ورنہ ضرورت سے زیادہ نہ بڑھو،پھربھی دل سرکارہی کی طرف ہو۔
(۱۲)ہرگزہرگزمسجداقدس میںکوئی حرف چلاکرنہ نکلے۔
(۱۳)یقین جانوکہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سچی حقیقی دنیاوی جسمانی حیات سے ویسے ہی زندہ ہیں جیسے وفات شریف سے پہلے تھے،ان کی اورتمام انبیاءعلیہم الصلوٰۃ والسلام کی موت صرف وعدۂ خداکی تصدیق کوایک آن کے لئے تھی،ان کاانتقال صرف نظرعوام سے چھپ جاناہے۔
امام محمدبن حاج مکی مدخل اورامام احمدقسطلانی ہواہب لدنیہ میں اورائمۂ دین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین فرماتے ہیں لا فرق بین موتہ وحیاتہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فی مشاہدتہ لامتہ ومعرفتہ باحوالہم ونیاتھم وعزائمھم و خواطرھم وذلک عندہ جلی لاخفائفہ ۔ترجمہحضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیات ووفات میں اس بات میں کچھ فرق نہیں کہ وہ اپنی امت کودیکھ رہے ہیں اور ان کی حالتوں اوران کی نیتوں،ان کے ارادوں،ان کے دلوں کے خیالوں کوپہچانتے ہیں اوریہ سب حضورپر ایساروشن ہے جس میں اصلاًپوشیدگی نہیں۔
امام رحمۃ اللہ تلمیذامام محقق ابن الہمام مسلک متوسط اور اعلی قاری مکی اس کی شرح مسلک متقسط میںفرماتے ہیںانہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عالم (بحضورک وقیامک وسلامک ) أی بجمیع احوالک وافعالک وارتحالک و مقامک۔ترجمہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تیری حاضری اورتیرے کھڑے ہونے اورتیرے سلام بلکہ تیرے تمام افعال واحوال وکوچ و مقام سے آگاہ ہیں۔
(۱۴)اب اگرجماعت قائم ہوشریک ہوجاؤکہ اس میں تحیۃ المسجدبھی اداہوجائے گی ورنہ اگرغلبۂ شوق مہلت دے اوراس وقت کراہت نہ ہوتودورکعت تحیۃ المسجدوشکرانۂ حاضری درباراقدس صرف قل یاقل سے بہت ہلکی مگررعایت سنت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے نمازپڑھنے کی جگہ جہاںاب وسط مسجدکریم میں محراب بنی ہے اوروہاں نہ ملے توجہاں تک ہوسکے اس کے نزدیک اداکرواوردعاکرو کہ الٰہی اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاادب اوران کااپناقبول نصیب کر،آمین۔
(۱۵)اب کمال ادب میں ڈوبے ہوئے گردن جھکائے ،آنکھیں نیچی کئے ،لرزتے ،کانپتے ،گناہوں کی ندامت سے پسینہ پسینہ ہوتے ، حضورپرنورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عفووکرم کی امیدرکھتے حضوروالا کی پائیں یعنی مشرق کی طرف سے مواجہہ عالیہ میں حاضر ہوکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مزارانورمیں روبقبلہ جلوہ فرماہیں،اس سمت سے حاضرہو،کہ حضورکی نگاہ بیکس پناہ تمہاری طرف ہوگی اوریہ بات تمہارے لئے دونوں جہان میں کافی ہے ،والحمدللہ -
(۱۶)اب کمال ادب وہیبت وخوف وامیدکے ساتھ زیرقندیل اس چاندی کی کیل کے جوحجرۂ مطہرہ کی جنوبی دیوارمیںچہرۂ انور کے مقابل لگی ،کم ازکم چارہاتھ کے فاصلے سے قبلہ کوپیٹھ اورمزارانورکومنہ کرکے نمازکی طرح ہاتھ باندھے کھڑے ہو،لباب وشرح لباب و اختیارشرح مختارفتاوائے علم گیری وغیرہامعتمدکتابوںمیںاس ادب کی تصریح فرمائی کہ یقف کمافی الصلوٰۃحضورکے سامنے ایساکھڑا ہو جیسانمازمیں کھڑاہوتاہے ،یہ عبارت عالم گیری واختیارکی ہے اورلباب میں فرمایاواضعاًیمنہ علی شمالہ دست بستہ دہناہاتھ بائیں ہاتھ پررکھ کرکھڑاہو۔
(۱۷)خبردارجالی شریف کوبوسہ دینے یاہاتھ لگانے سے بچوکہ خلاف ادب ہے بلکہ چارہاتھ فاصلے سے زیادہ قریب نہ جاؤ،یہ ان کی رحمت کیاکم ہے کہ تم کواپنے حضوربلایا،اپنے مواجہہ اقد س میں جگہ بخشی، ان کی نگاہ کریم اگرچہ ہرجگہ تمہاری طرف تھی ،اب خصوصیت اوراس درجہ قربت کے ساتھ ہے ،والحمدللہ -
(۸)الحمدللہ اب کہ دل کی طرح تمہارامنہ بھی اس پاک جالی کی طرف ہے جواللہ عزوجل کے محبوب عظیم الشان صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی آرام گاہ ہے ،نہایت ادب ووقارکے ساتھ بآوازحزیں وصورت دردآگیں ودل شرمناک وجگرچاک چاک معتدل آوازسے نہ بلندوسخت (کہ ان کے حضورآوازبلندسے عمل اکارت ہوجاتے ہیں)نہ نہایت نرم و پست (کہ سنت کے خلاف ہے اگرچہ وہ تمہارے دلوں کے خطروں تک سے آگاہ ہیں جیساکہ ابھی تصریحات ائمہ سے گزرا)مجراوتسلیم بجالاؤاورعرض کروالسلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،السلام علیک یارسول اللہ ،السلام علیک یاخیرخلق اللہ،السلام علیک یاشفیع المذنبین،السلام علیک وعلیٰ آلک و اصحابک وامتک اجمعین-
(۱۹)جہاں تک ممکن ہواورزبان یاری دے اورملال وکسل نہ ہوصلوٰۃ وسلام کی کثرت کرو،حضورسے اپنے لئے اوراپنے ماں باپ ، پیر، استاد، اولاد،عزیزوں،دوستوں اورسب مسلمانوں کے لئے شفاعت مانگو، باربارعرض کرواسئلک الشفاعۃ یارسول اللہ -
(۲۰)پھراگرکسی نے عرض کی وصیت کی بجالاؤ،شرعاًاس کاحکم ہے اوریہ فقیرذلیل ان مسلمانوں کی جواس رسالہ کودیکھیں،وصیت کرتا ہے کہ جب انھیں حاضری بارگاہ نصیب ہو،فقیرکی زندگی میں یابعدکم ازکم تین بارمواجہہ اقدس میں ضروریہ الفاظ عرض کرکے اس نالائق ننگ خلائق پراحسان فرمائیں،اللہ ان کودونوں جہاں میں جزابخشے،آمینالصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ و علیٰ آلک وذویک فی کل آن ولحظۃ عددکل ذرۃ الف الف مرۃ من عبیدک احمد رضاابن نقی علی یسئلک الشفاعۃ فاشفع لہ وللمسلمین-
(۲۱)پھراپنے دہنے ہاتھ یعنی مشرق کی طرف ہاتھ بھرہٹ کرحضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرۂ نورانی کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کروالسلام علیک یاخلیفۃ رسول اللہ ،السلام علیک یا صاحب رسول اللہ فی الغارورحمۃ اللہ وبرکاتہ-
(۲۲)پھراتناہی اورہٹ کرحضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روبروکھڑے ہوکرعرض کروالسلام علیک یاامیرالمؤمنین والسلام علیک یامتمم الاربعین،السلام علیک یاعزالاسلام والمسلمین و رحمۃ اللہ وبرکاتہ-
(۲۳)پھربالشت بھرمغرب کی جانب پلٹواورصدیق وفاروق کے درمیان کھڑے ہوکرعرض کروالسلام علیکمایاخیفتی رسول اللہ ،السلام علیکما یا وزیری رسول اللہ ،السلام علیکما یاضجیع رسول اللہ و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ، أسئلکماالشفاعۃ عندرسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وعلیماوبارک وسلّم-
(۲۴)یہ سب حاضریاں محل اجابت ہیں،دعامیں کوشش کرو، دعائے جامع کرو،درودپرقناعت بہتر۔
(۲۵)پھرمنبراطہرکے قریب دعامانگو۔
(۲۶)پھرروضۂ جنت میں(یعنی جوجگہ منبرووحجرۂ منورہ کے درمیان ہے اوراسے حدیث میں جنت کی کیاری فرمایا)آکر دو رکعت نفل غیرمکروہ وقت میں پڑھ کردعاکرو۔
(۲۷)یونہی مسجدشریف کے ہرستونوں کے پاس نمازپڑھواوردعا مانگوکہ محل برکات ہیں خصوصاًبعض میں خاص خصوصیت۔
(۲۸)جب تک مدینہ طیبہ کی حاضری نصیب ہو ایک سانس(بھی) بیکارنہ جانے دو،ضروریات کے سواکثروقت مسجدشریف میں باطہارت حاضررہو،نمازوتلاوت ،درودمیں گزارو،دنیاکی بات کسی مسجدمیں نہیں چاہئے نہ کہ یہاں۔
(۲۹)ہمیشہ ہرمسجدمیں جاتے اعتکاف کی نیت کرلو،یہاں تمہاری یاددہانی ہی کودروازے سے بڑھتے ہی یہ کتبہ ملے گانویت سنۃ الاعتکاف-
(۳۰)مدینہ طیبہ میں روزہ نصیب ہوخصوصاًگرمی میں توکیاکہناکہ اس پروعدۂ شفاعت ہے ۔
(۳۱)یہاں ہرنیکی ایک کی پچاس لکھی جاتی ہے ،لہٰذاعبادت میں زیادہ کوشش کرو،کھانے پینے کی کمی ضرورکرو۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ قدیم،جلد چہارم،ص ۲۳؍تا ۷۲۰]
روضۂ انورکی نقل یاتصویرکے تعلق سے اپنی عقیدت ومحبت کااظہاریوں فرماتے ہیں:
’’روضۂ منورہ حضورپرنورسیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نقل صحیح بلاشبہ معظمات دینیہ سے ہے ،اس کی تعظیم وتکریم بروجہ شرعی ہر مسلمان صحیح الایمان کامقتضائے ایمان ہے ، ع اے گل بتوخرسندم توبوئے کسے داری
اس کی زیارت بآداب شریعت اوراس وقت درودشریف کی کثرت ہرمومن کی شہادت قلب وبداہت عقل سے مستحب و مطلوب ہے۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ جدید،جلد ۱۷؍ص۲۳۱]
ایک مقام پر حضرت علامہ تاج الدین فاکہانی علیہ الرحمۃ الربانی کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:
’’روضۂ مبارک سیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نقل میں ایک فائدہ یہ ہے کہ جسے اصل روضۂ اقدس کی زیارت نہ ملے ،وہ اس کی زیارت کرے اورشوق دل کے ساتھ اسے بوسہ دے کہ یہ نقل اسی اصل کے قائم مقام ہے، جیسے نعل مبارک کانقشہ منافع وخواص میں یقیناًخوداس کاقائم مقام ہے، جس پرصحیح تجربہ گواہ ہے ،ولہٰذاعلمائے دین نے اس کی نقل کااعزازواکرام وہی رکھاجواصل کا رکھتے ہیں۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ جدید،جلد ۱۷؍ص۲۳۱]
نعلین مقدس کے متعلق ابن عساکرکے حوالے سے ایک عاشق رسول ﷺ کی واردات قلب بیان کرتے ہوئے رقم طرازہیں:
’’اے فانی کی یادکرنے والے !ان چیزوں کی یادچھوڑاورتبرکات شریفہ مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خاک بوسی کر!زہے نصیب اگرتجھے اس تصویرنعل مبارک کابوسہ ملے،اپناخسارہ (رخسار)اس پررکھ اور اس کی خاک پراپناچہرہ مل ،اے نعل مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تصویر!تیری عزت وشرف بلندپرمیری جان قربان،تجھے دیکھ کر آنکھیں ایسی بہ نکلیں کہ اب تھمنابہت دورہے، تجھے دیکھ کرانھیں مدینے کی وادی عقیق میں مصطفےٰ ﷺکی رفتاریادآگئی،لہٰذااب اپنے اشک رواںکے سرخ سرخ عقیق نچھاور کر رہے ہیں،اے تصویر نعل مبارک!تونے مجھے وہ قدم پاک یاددلادیاجس کے لئے بلندی وجودواحسان وفضل قدیم سے ہیں،اگر میرخسارہ(رخسار)تراش کر اس قدم پاک کے لئے کفش بناتے تودل کی تمنابرآتی یامیری آنکھ ان کی فش مبارک کے لئے زمین ہوتی تواس زمین ہونے سے عزت کا آسمان بن جاتی،ع جزاک اللہ خیرا یاابا الیمین-‘‘
ایک مقام پر حضرت علامہ تاج الدین فاکہانی علیہ الرحمۃ الربانی کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:
’’روضۂ مبارک سیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نقل میں ایک فائدہ یہ ہے کہ جسے اصل روضۂ اقدس کی زیارت نہ ملے ،وہ اس کی زیارت کرے اورشوق دل کے ساتھ اسے بوسہ دے کہ یہ نقل اسی اصل کے قائم مقام ہے، جیسے نعل مبارک کانقشہ منافع وخواص میں یقیناًخوداس کاقائم مقام ہے، جس پرصحیح تجربہ گواہ ہے ،ولہٰذاعلمائے دین نے اس کی نقل کااعزازواکرام وہی رکھاجواصل کا رکھتے ہیں۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ جدید،جلد ۱۷؍ص۲۳۱]
نعلین مقدس کے متعلق ابن عساکرکے حوالے سے ایک عاشق رسول ﷺ کی واردات قلب بیان کرتے ہوئے رقم طرازہیں:
’’اے فانی کی یادکرنے والے !ان چیزوں کی یادچھوڑاورتبرکات شریفہ مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خاک بوسی کر!زہے نصیب اگرتجھے اس تصویرنعل مبارک کابوسہ ملے،اپناخسارہ (رخسار)اس پررکھ اور اس کی خاک پراپناچہرہ مل ،اے نعل مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تصویر!تیری عزت وشرف بلندپرمیری جان قربان،تجھے دیکھ کر آنکھیں ایسی بہ نکلیں کہ اب تھمنابہت دورہے، تجھے دیکھ کرانھیں مدینے کی وادی عقیق میں مصطفےٰ ﷺکی رفتاریادآگئی،لہٰذااب اپنے اشک رواںکے سرخ سرخ عقیق نچھاور کر رہے ہیں،اے تصویر نعل مبارک!تونے مجھے وہ قدم پاک یاددلادیاجس کے لئے بلندی وجودواحسان وفضل قدیم سے ہیں،اگر میرخسارہ(رخسار)تراش کر اس قدم پاک کے لئے کفش بناتے تودل کی تمنابرآتی یامیری آنکھ ان کی فش مبارک کے لئے زمین ہوتی تواس زمین ہونے سے عزت کا آسمان بن جاتی،ع جزاک اللہ خیرا یاابا الیمین-‘‘
[فتاویٰ رضویہ جدید،جلد۱۷؍ص۲۵۴]
نعل مقدس سے متعلق ایک اورعاشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلبی تأثرات کو اپنے لفظوں میں بیان فرماتے ہیں:
’’اپنے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تصویرنعل پاک کومیں دوست رکھتاہوں اوررات دن اسے بوسہ دیتاہوں،اپنے سراوراپنے منہ پر رکھتااورکبھی چومتااورکبھی سینے سے لگاتاہوں،میں اپنے دھیان اسے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پائے اقدس میں تصور کرتاہوں تو شدت صدق تصورگویااپنی آنکھوں سے جاگتے ہوئے دیکھتاہوں،اس نقشہ پاک کواپنے رخسارپررکھ کرجنبش دیتاہوں اوریہ خیال کرتاہوں کہ گویاوہ اسے پہنے ہوئے میرے رخسارپرچل رہے ہیں،آہ!کون ایسی صورت کردے کہ وہ پائے مبارک جو ستارگان آسمان ہشتم کے سروں پربلندہوئے،ان کی کفش مبارک چلنے میں میرے رخسارپرپڑے ، میں نقشہ مبارک کواپنے سینے پر دل کاتعویذبناکررکھوں گا،شایددل کی آگ ٹھنڈی ہو،میں اسے سرپرآنکھوں کاتعویذبناکرباندھوں گا، شاید بہتی پلکیں رکیں،سن لو! تصویرکفش مقدس پرمیراباپ نثار!کیااچھا ہے اسے بنانے والااورجواس کی خدمت کرے پاک ہوجائے ،ماہ نو کی تمناہے کاش آسمان سے اترکراس نقشہ مبارک کے بوسے میں ہم اوروہ باہم مزاحمت کریں،اللہ عزوجل کاسلام اترے محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر جب تک بادصباچلے اورجب تک درخت اراک کی ڈالیوں پرکبوترگونجیں،اللھم صل وسلم وبارک علیہ وعلی آلہ وامتہ ابدا،آمین-‘‘
نعل مقدس سے متعلق ایک اورعاشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلبی تأثرات کو اپنے لفظوں میں بیان فرماتے ہیں:
’’اپنے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تصویرنعل پاک کومیں دوست رکھتاہوں اوررات دن اسے بوسہ دیتاہوں،اپنے سراوراپنے منہ پر رکھتااورکبھی چومتااورکبھی سینے سے لگاتاہوں،میں اپنے دھیان اسے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پائے اقدس میں تصور کرتاہوں تو شدت صدق تصورگویااپنی آنکھوں سے جاگتے ہوئے دیکھتاہوں،اس نقشہ پاک کواپنے رخسارپررکھ کرجنبش دیتاہوں اوریہ خیال کرتاہوں کہ گویاوہ اسے پہنے ہوئے میرے رخسارپرچل رہے ہیں،آہ!کون ایسی صورت کردے کہ وہ پائے مبارک جو ستارگان آسمان ہشتم کے سروں پربلندہوئے،ان کی کفش مبارک چلنے میں میرے رخسارپرپڑے ، میں نقشہ مبارک کواپنے سینے پر دل کاتعویذبناکررکھوں گا،شایددل کی آگ ٹھنڈی ہو،میں اسے سرپرآنکھوں کاتعویذبناکرباندھوں گا، شاید بہتی پلکیں رکیں،سن لو! تصویرکفش مقدس پرمیراباپ نثار!کیااچھا ہے اسے بنانے والااورجواس کی خدمت کرے پاک ہوجائے ،ماہ نو کی تمناہے کاش آسمان سے اترکراس نقشہ مبارک کے بوسے میں ہم اوروہ باہم مزاحمت کریں،اللہ عزوجل کاسلام اترے محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر جب تک بادصباچلے اورجب تک درخت اراک کی ڈالیوں پرکبوترگونجیں،اللھم صل وسلم وبارک علیہ وعلی آلہ وامتہ ابدا،آمین-‘‘
[فتاویٰ رضویہ جدید،جلد۱۷؍ص۲۵۵]
قارئین کرام فتاویٰ رضویہ کاکوئی ایساگوشہ نہیں پائیں گے جہاںامام عشق ومحبت شرعی احکام کوعشق ومحبت کی خوشبومیں بسائے نظر نہ آتے ہوں،بلاشبہ فتاویٰ رضویہ احکام شرعیہ کے ساتھ محبت رسول ﷺکی خیرات کامنبع ومصدرہے، مولائے کریم امام اہل سنت کی مرقدانورکوتاحشرعاشقان رسول ﷺکامرجع بنائے رکھے ،آمین
قارئین کرام فتاویٰ رضویہ کاکوئی ایساگوشہ نہیں پائیں گے جہاںامام عشق ومحبت شرعی احکام کوعشق ومحبت کی خوشبومیں بسائے نظر نہ آتے ہوں،بلاشبہ فتاویٰ رضویہ احکام شرعیہ کے ساتھ محبت رسول ﷺکی خیرات کامنبع ومصدرہے، مولائے کریم امام اہل سنت کی مرقدانورکوتاحشرعاشقان رسول ﷺکامرجع بنائے رکھے ،آمین