Type Here to Get Search Results !

آزادی اور ہم ایک نظر میں

آزادی اور ہم ایک نظر میں
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
‏ارض گنگ بھی میری خـــطۂ جمن میرا 
میں غلام خواجہ ہوں ہند ہے وطن میرا
نظمی میاں مارہروی

اراضی ہند کا دامن قسم قسم کے بیل بوٹے، انواع و اقسام کے پیڑ پودے، اور رنگ برنگے پھولوں کی بہار سے آراستہ و پیراستہ ہے۔ یہاں کی فضائی حسن و جمال اور ماحولیات (Environment) کے تعلق سے سر دست بس اتنا کہا جا سکتا کہ یہاں مختلف رنگ و نسل، ادیان و زبان، تہذیب و تمــدن اور افــکار ونظــریات پروان پاتے ہیں۔ اس طـرح سے وطــن مـــالوف کی بنا اور عـــروج و ارتقا میں بلا تفریق و تمیز، ہم سب شریک و سہیم اور حصے دار ہیں۔ زمانے کو پتہ ہے کہ اس باغ و بہار کی رونق افزائی میں ہم نے کتنا تگ و دَو کیا، کس قدر مشقتیں اٹھائیں اور تکالیف برداشت کیں۔ ہم سب نے یک آواز ہوکر آزادی ہند کا بغل بجایا اور وسعت و حیثیت بھر خــوب خــوب بہــادری کے جـوہر دکھـائے تھے، جس سے دشمـنان وطن کے دانت کھٹے ہوگئے۔ بسمل عظیم آبــادی نے حــالت قید و بند میں گوروں کو للکارتے ہوئے کہا تھا جـو بعد میں ہر ایک مجاہد حریت کی زبان پر عام ہوگیا:-؎
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قــــاتل میں ہے
تحریک انقلاب اور علمائے اہل سنت:-
علامہ یاسین اختر مصباحی صاحب لکھتے ہیں:
"آزادی کی پوری تاریخ علمائے اہل سنت کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ آزادی ہند کی صحیح تاریخ دنیا کے سامنے پیش کریں اور بتلائیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت اہلسنت و جماعت نے کی ہے اور اس دیش کی آزادی کے لیے خون کے قطرات ہمارے اسلاف نے بہائے ہیں۔
میدان جنگ میں تیروسنان کے مقابلے کی جب بھی ضرورت پیش آئی ہے تو ہم نے اپنا سینہ پیش کیا ہے۔ اگر کوئی نام نہاد مؤرخ اہل سنت و جماعت کی خدمات اور قربانیوں کو نظر انداز کرتا ہے، تاریخ گڑھتا ہے اور تاریخ کا چہرہ مسخ کرتا ہے تو یہ اس کی بد بختی ہے اور وہ تاریخ کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا ہے بلکہ تاریخ کے ساتھ ظلم کر رہا ہے۔ تقریباً دو سو سال کی تاریخ ایسی لکھی گئی ہے کہ علمائے اہل سنت کے کردار کو فراموش کرنے یا داغ دار بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اب ہمارا اور آپ کا فرض ہے کہ اس تاریخ کو درست کریں۔ سب سے پہلے تاریخ کو سجھیں، سمجھائیں، پوچھیں، تحقیق کریں اور اس کے بعد اس تاریخ کو صحیح و درست کرکے دنیا کے سامنے پیش کریں کہ ہم یہ ہیں اور ہمارا یہ کام ہے۔
(جنگ آزادی 1857ء میں علما کا مجاہدانہ کردار۔ص،62)
اب کچھ داستان سنیں کہ انگریزوں نے کس طرح کی حد بندیاں اور شرائط و قیود جاری کر رکھے تھے۔
(1)ہندوستان میں اب تک جتنے مدرسے اور جامعات،اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کر رہے ہیں اور جہاں پر اہل سنت و جماعت کے علما درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں،ان تمام درس گاہوں کو بند کر دیا جائے اور اسکول و کالج قائم کی جائیں جو انگریزی حکومت کے زیر انتظام ہوں گی اور ان میں بلا تفریق مذہب صرف ایک تعلیم ہوگی جو ہر مذہب کے ماننے والوں کو پڑھنا ہوگا۔ تعلیم کیا تھی ؟ شروع میں تو دوسرے سبجیکٹ رکھے جاتے۔لیکن آخر میں پہنچ کر وہی عیسائیت کا زہر گھولا جاتا تعلیمی لحاظ سے انگریزوں نے یہ اسکیم تیار کی۔ یہ پہلا فرمان نہ تھا۔
 (2)دوسرا حکم انھوں نے یہ نافذ کیا کہ ہندوستان میں جتنی طرح کی پیداوار، اناج، غلے اور معدنیات ہیں ان تمام کو کوئی بھی شخص براہ راست بیچ نہیں سکتا ہے بلکہ وہ ہم سے بیچے گا پھر ہم جس طرح چاہیں گے بیچیں گے۔ اس سے کیا ہو گا؟ یہ کہ بازار پر ہمارا کنٹرول ہو جائے گا اور بازار پر کنٹرول ہونے کی وجہ سے لوگ بھکمری کے شکار ہوں گے تو پھر ہمارے دروازے پر آئیں گے اور ہم جس بھاؤ میں چاہیں گے انھیں دیں گے اس طرح وہ معاشی بدحالی کا شکار ہوں گے اور انسانومعاشی بد حالی میں بسا وقات دوسرے کا مذہب قبول کر لیتا ہے۔ 
(3)کسی بھی مسلمان شخص کو ختنہ کرنے/ کرانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ 
((4)عورتیں بغیر پردہ باہر نکلیں گی، ان پر نقاب پہننے کی پابندی عائد رہے گی۔ 
(5)چوں کہ اس وقت فوج میں مسلمان بھی تھے اور غیر مسلم بھی۔ اور بندوق کی گولیوں کے منھ پر چربی لگی ہوتی تھی جسے بندوق چلاتے وقت دانت سے توڑنا پڑتا تھا تو اب انگریزوں نے فوجیوں کو اپنے مذہب سے متنفر کرنے اور عیسائی بنانے کے لیے پانچواں فرمان یہ جاری کیا کہ کچھ گولیوں کے منھ پر خنزیر کی چربی لگائی جائے اور کچھ گولیوں کے منھ پر گائے کی چربی لگائی جائے جو مسلمان فوجی تھے ان کو خنزیر کی چربی والی گولی دی جاتی اور جو غیر مسلم تھے انھیں گائے کی چربی والی گولی دی جاتی۔ انگریزوں کی اس سازش سے لوگوں میں بددلی پیدا ہو گئی اور فوج ان کے خلاف کھڑی ہو گئی۔
انقلابی دور کا آغاز:-
گوروں نے ہندوستان پر جب مکمل تسلط اور غلبہ پایا تو انھوں نے پس پردہ ہاہم میٹنگیں کی اور باشندگان وطن، بالخصوص مسلمانوں پر طرح طرح کے شرائط و ضوابط اور ناقابلِ برداشت پابندیاں عائد کیں۔ جیساکہ اوپر کے سطور میں ہم نے ملاحظہ کیا۔ تو ان تمام تر پابندیوں کو دیکھ کر علامہ فضلِ حق خیرآبادی نے مسلمانوں کو یکجا کرنے کے لیے دہلی کی جامع مسجد میں جمعہ کے دن آزادی کے موضوع پر باضابطہ خطاب کیا اور پھر ایک سوال نامہ ترتیب دے کر، خود ہی اس کی متعلق فتویٰ جاری کیا کہ اب جب کہ ہم پر ہماری شریعت کا گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے بلکہ ہمارے مذہب کے بنیادی اصولوں پر آنچ آئی ہے تو اب ہم پر انگریزوں کے خلاف جہاد فرض ہے کہ جب ہم شریعت مطہرہ پر بنا نہیں کرسکتے تو یہ کس بات کی زندگی ہے اور اس طرح موجو دین علمائے اہل سنت سے جو تعداد میں تقریباً 30/ کے آس پاس تھے، سب سے دستخط لے کر اس فتوے کو اخبار کے ذریعہ شائع کرادیا گیا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ پورے ہند سے اوسطاً نوے ہزار فوجیوں کا ایک دستہ تیار ہوگیا۔ اس طرح ایک لمبی تفصیل ہے کہ علامہ فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ،بہادر شاہ ظفر کے پرچم تلے جنگ چاہتے تھے تاکہ لوگوں پر اس کا مثبت اثر ہو کہ جب بادشاہ خود پیش پیش ہیں تو ہمیں بھی بہ دل و جان شرکت کرنی چاہیے۔ مگر شومی قسمت کہ بہادر شاہ ظفر اپنی بیوی اور سالے احسن اللہ خان کے مشورے پر خود نہ شریک ہوئے اور دوسروں کو سپہ سالار بناکر بھیجا۔ ادھر آپ کی بیوی اور سالے صاحب نے گوروں سے سازباز کرلیا تھا، معرکے ہوئے تو بہ ظاہر، مجاہدین حریت کو شکست و ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔اس جنگ کو انگریز غدر سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب کہ یہ ہم ہندوستانیوں کے زاویۂ نظر سے حقیقت میں"جہاد آزادی" ہے۔ یہ تحریک 1857ء میں انگریزوں کے خلاف چھیڑی گئی تھی۔ جو کسی صورت نہیں تھمی، مجاہدین حریت کے سینوں میں جلائی ہوئی آزادی کی آگ، دن بدن مادۂ آتش سیال بن کر آگے بڑھتا رہا۔ سارے کے سارے ہندوستانی اک نئی صبح بہاراں کا منتظر تھے، آخر وہ خوب صورت سویرا 15/ اگست 1947ء کو طلوع ہوا، اپنے ساتھ مژدۂ جاں فزاں ساتھ لایا اور ہندوستان کی مکدر فضا میں خوشبو پھیل گئی، یعنی ہمارا پیارا وطن، ملک ہند آزاد ہوگیا۔ (ماخوذ از: جنگ آزادی میں علمائے اہل سنت کا کردار۔)
اک اک نفس میں بوئے وطــــــن ہے بسی ہوئی
نبض وطن میں خون کی صورت رواں ہیں ہم
اب آزاد ہند کی تصویر بدلتی ہے:-
2014ء کا پارلیمانی انتخابات اور اس کے نتائج مثبت فکر کے ساتھ، بھارت کی تعمیر و ترقی کے لحاظ سے خوش آئند رہے گا۔(ہماری سوچ تھی) برسر اقتدار پارٹی کو وزارت عظمیٰ کی کرسی چھوڑنا پڑی، حزب مخالف نے حکومت سازی میں چمتکار کیا اور کم و بیش ساٹھ سالہ حکمران جماعت کو کرسی صدارت سے نیچے اتار دیا۔ تب سے تا دم تحریر، ہندوستان نے ڈھیروں ترقیاتی منازل طے کیے، بہت کچھ کھویا، بہت کچھ پایا، بہت ساری اونچائیاں اور بلندیاں دیکھیں۔ مگر اتنا کچھ کرنے اور ہونے کے بعد بھی یہ جماعت کم از کم اقلیتی طبقوں کا اعتماد بحال کرنے میں ناکام ثابت ہوئی، اس کے وجوہات اور اسباب کیا ہیں، آگے دیکھیں!
شعوری اور غیر شعوری طور پر جہالت کا بدنما داغ جو ہمارے چہرے پر لگے ہوئے ہیں، پڑھ لکھ کر اسے ہم دھونا اور ماضی کی تاریکیوں کو بھول کر روشن مستقبل کی طرف ترقی کرنا چاہتے ہیں تب بھی ایک مخصوص طبقےکا ہاضمہ خراب ہونے لگتاہے اور کہتے ہیں یہ UPSC جہاد ہے۔ بھئی! یہ کیسی خیر خواہی ہے کہ ایک طرف کبھی ہمدردی جتاتے ہو اور ہمیں ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہو تو دوسری طرف کبھی ہماری دانش گاہوں، مزاروں اور خانقاہوں کو مسمار کرنے کی نت نئی ترکیبیں تلاشتے پھرتے ہو، تاکہ ہم اَن پڑھ اور لاعلم ہی رہ جائیں۔ یہ کیسی منافقت ہے؟۔
در اصل یہ ہمیں پریشان کرنا اور اَن پڑھ دیکھنا چاہتے ہیں۔تاکہ بھبھتیاں کسنے کا موقع ہاتھ سے نہ چلا جائے جیسا کہ یہ لوگ اپنی تربیت اور پرورش و پرداخت کا جوہر گاہے بہ گاہے دکھاتے رہتے ہیں اور مسلمانوں کو کبھی سڑک چھاپ، کبھی پنکچر والا اور طرح طرح کے عجیب و غریب القابات سے نواز کر زک پہنچاتے اور اپنے سیاہ اور نامراد دل کو تسلی دیتے ہیں۔
آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ باتیں ایک دم سے یوں ہی نہیں کرتے بلکہ ان کی پوری پلاننگ ہوئی، ہوئی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے مذہب و ملت، شکل و صورت، تہذیب و تمدن، زبان و بیان، پہناؤ اڑھاؤ، کھان پان کو لے کر اتنا عار دلاؤ اور اس قدر ذلیل و رسوا کردو کہ وہ مسلمان رہے بھی تو ہندوستانی مسلمان (شرعی مسلمان کے بالمقابل)۔ اور اس (اسلامیات) کے دیگر لوازمات و ضروریات سے Liberalism (آزاد خیالی) کی خو بو نظر آئے۔ وہ راستہ چلے تو تمیز نہ ہو کہ جانے والا کس برادری کا ہے۔ وہ بولے تو اسلام کا خون کرے۔ ان کے محرکات اور ان کے محرمات کے ملبوسات ہی گواہی دیں کہ یہ کوئی مغرب پرست ہے۔ یہ قوم، بہ حیثیت مسلم، اکل حلال کا فرق جانے اور ناہی شرب حرام کے مابین خط امتیاز کھینچے۔ یہی تو اسلام دشمن طاقتوں کا منشور ہے، جس میں جزوی طور پر یہ کہیں سو فیصد، کہیں نوے فیصد، کہیں اسی فیصد اور کہیں ستر پچہتر فیصد کام یاب ہیں۔ اس سے نیچے کا گراف کم از کم مجھے تو معلوم نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ہندوستانی ہونا ذاتی طور پر میرے لیے بھی اتنا ہی باعث فخر ہے جتنا کہ دیگر مذاہب کے افراد کے لیے۔ مگر میرے نزدیک وہ ترتیب سہی نہیں جو خود ساختہ ہو، بلکہ وہ ترتیب درست ہوگی جو خدا ساختہ ہے، یعنی ہم اولاً مسلمان ہیں، پھر کچھ ہیں،
ڈاکٹر اقبال فرماتے ہیں:-؎
مذہب نہیں سکھـاتا آپس بَیر رکھنــا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا 
ایک خاص طبقے کی مانیں تو اردو نام والا کوئی عام بندہ اپنے مذہب کے حدود کو پھلانگ کر، عشق لڑا بیٹھے تو وہ LOVE جہاد ہے۔ حالاں کہ ہر سنجیدہ مزاج انسان، اسے بے غیرتی اور بے حیائی سے ہی تعبیر کرتا ہے۔ ایسی حرکات شنیعہ، قبیحہ افعال کو پیار و محبت جیسے پاکیزہ جذبات و الفاظ سے کبھی تعبیر و تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور نا ہی اسے جہاد کہنا درست ہے کہ یہ دونوں کلمے ترکیبی ہیئت اور معنوی جہت ہر دو زاویے سے بھی غلط ہیں۔ جو آپس میں بالکل میل نہیں کھاتے ہیں۔ اور ادھر مذہب اسلام بھی ایسے ذہنی مریض افراد کی کبھی ہمت و حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے۔ کیوں کہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے: 
       اِنَّ اللّٰهَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِؕ-
       ترجمہ: بےشک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔
(الأعراف، ٢٨)
 ترکیبی ہیئت: "Love" اور "جہاد"یہ دونوں الگ الگ زبان کے الفاظ ہیں۔ "Love انگریزی اور "جہاد" عربی زبان سے ماخوذ ہے۔ تو عام طور سے زبان و ادب میں اس طرح کی ترکیب درست نہیں مانی جاتی ہے اور ناہی اہل زبان اسے قبول کرتے ہیں۔ جہاں تک شہرت کی بات ہے تو آج کے اس ترقی یافتہ ٹیکنیکل دور میں کچھ بھی اور کوئی بھی ٹرینڈ میں رہتا ہے۔ لوگوں کو بس انٹرٹینمنٹ کا سامان چاہیے، Jio 5G انلمیٹڈ ہے۔جیسے پڑوسی ملک کے بے سرے انسان چاہت فتح علی خان کو یوٹیوب پر لوگوں نے ملینوں کے حساب سے ویوز دیا۔ حالاں کہ اس کو سننے کے بعد؛ ذوق سلیم رکھنے والے انسان کا طبعی ذوق بھی برباد ہو کر رہ جائے گا۔ گو کہ یہ مشہور ضرور ہے، مگر مقبول نہیں ہے۔ قبولیت اور شہرت میں لطیف سا فرق ہے، جسے محسوس کیا جاسکتا ہے۔
معنوی جہت:-
لفظِ پیار۔ محبت، شفقت، مہربانی، اور کرم نوازی وغیرہ نرمی اور ہمدردی جیسی صفات سے متصف ہے۔ جب کہ لفظ جہاد۔ عام اصطلاح میں شعائر اسلام اور مذہبی فرائض میں رکاوٹ ڈالنے پر اثبات دین اور اعلاء کلمۃ الحق کے لیے باطل قوتوں کے خلاف لڑنے کو کہتے ہیں۔ بہ لفظ دیگر حق کی سر بلندی کے لیے منفی طاقتوں کےخلاف مزاحمت کرنا جہاد کہلاتاہے۔ یعنی لفظ جہاد کے اندر سختی والی صفات پائی جاتی ہیں۔ تو اس طور پر بھی یہ دونوں اجتماع نقیضین ٹھہرے۔ 
اس معاملے میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان دونوں مرکبات کو جس پس منظر کی ترجمانی کے لیے وضع کیا گیا ہے وہ معنی بھی باطل ہے۔ کہا جاتاہے کہ "Love جہاد" ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تبدیلی مذہب کے لیے کیا جاتاہے۔ حالاں کہ یہ بات سراسر غلط اور محض بہتان تراشی ہے۔ کیوں کہ کورٹ میں کئی دفعہ کے چیلنجوں کی باوجود بھی کبھی ثابت نہ ہوسکا کہ اس میں کوئی تنظیم و تحریک سرگرم عمل ہے۔ اور جو لوگ اس فعل حرام کے مرتکب ہوتے/ہوئے بھی ہیں، تو وہ ان کی ذاتی راۓ ہوتی ہے اور وہ بھی مغرب پرستی کا نتیجہ ہے۔
ابھی کا حالیہ تنازع وقف پراپرٹی کے حوالے سے اس میں بھی بے جا شوشہ چھوڑا گیا کہ ہم وقف کے قوانین میں اصلاح چاہتے ہیں وہ بھی جذبۂ خیر سگالی کے تحت۔ اگر آپ مسلمانوں کے اتنے بڑے ہمدرد ہیں تو اکبر نگر (لکھنؤ یوپی) جو مسلم اکثریتی علاقہ ہے، وہاں کے باشندوں کے مکانات کیوں بلڈوز کر، پوری آبادی کو بے گھر کردیا گیا؟ یوں ہی آئے دن مسلمان، کیوں ہجومی تشدد کا شکار ہوتے ہیں؟ اور پھر سیاسی، سماجی دباؤ کے بعد اگر کسی طرح ملزم/ مجرم کی گرفتاری ہو بھی جاتی ہے تو وہ صرف وقتی، تاکہ معاملات شانت ہوجائیں۔ ضمانت پر رہائی ملنے کے بعد اس کا آفشیلی شاندار استقبال ہوتاہے۔ جس سے ان غنڈوں کے ساتھ ساتھ، ایسی ذہنیت رکھنے والے دیگر افراد کے بھی حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ اب ہمارا سوال یہ ہے کہ مسلمانان ہند کے حالات کے تئیں، حکومتی سطح پر ان معاملات کو لے کر کبھی منتھن اور ڈسکشن ہوا؟ ہاں! اگر ہوا ہوگا تو مجھے پورا یقین ہے کہ ہماری خیر خواہی اور بھلائی کے لیے نہیں بلکہ؛ اپنی سیاسی روٹی ہی سینکنے کے لیے۔ جبھی تو ایک بھی ایمان دار، سنجیدہ اور سلجھے ہوئے مسلمان کو آپ اپنے اعتماد میں نہ لے سکے۔ 
درد دل سنیں! اگر آپ کے دل میں چور نہیں چھپا ہوا ہے تو پکڑیے ان لٹیروں اور ڈاکؤوں کو جو آئے دن مسلما نوں کے گھر بار پر حملہ آور ہوکر تاخت و تاراج کرتے ہیں۔ اور ہجومی تشدد کے ذریعے معصوموں کی جان تک چھین لیتے ہیں۔ اس ظلم و بر بریت سے ناجانے کتنی عورتیں بیوا ہوگئیں اور کتنے ہی بے گناہ بچے یتیم ہوگئے۔ ع 
انصاف کو آواز دو، انصاف کہاں ہے؟
تعصب اور تنگ نظری سے کچھ ہاتھ نہیں آنے والا ہے، صرف اور صرف نقصان ہوگا۔ جیسا گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں سب نے مشاہدہ کیا۔ تو آخر میں ہم تمام اور بالخصوص رولنگ پارٹی سے گزارش کرتے ہیں کہ آئین ہند میں جو مراعات ہمیں دی گئی ہیں،ان کو اپنی حالت پر ہی برقرار رکھی جائیں۔ اور بلا ضرورت اس میں کسی قسم کی ترامیم (Amendments) اور دخل اندازی (Interference) نہ کیا جائے کہ ہم وطن پریشان ہوں، کیوں کہ تختہ کسی کا بھی پلٹ سکتاہے۔ ہمیں ظاہری اسباب پر تو کوئی بھروسہ نہیں ہے مگر جو قادر مطلق، مسبب الاسباب، رب الارباب ہے۔ وہ مظلومین کی آہ اور سسکاری سن کر ضرور کسی نہ کسی طرف راہ دے گا کہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے لیے دریا کو پھاڑ دیا اور فرعون کو اس میں غرق کردیا۔ اللھم اھدنا الصراط المستقیم۔
اللہ پاک چمن ہند کو تاقیامت سرسبز و شاداب رکھے، ملک کے اندر امن و امان قائم فرمائے، آمین یارب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین۔
تمام باشندگان وطن کو یوم آزادی خوب خوب مبارک ہو!
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
محمد خورشید رضا مصباحی گریڈیہ،جھارکھنڈ 
14/اگست 2024ء بروز چہار شنبہ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area