جنگِ آزادی میں علماء اہلِ سنت کا کردار
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بنگال، ہندوستان میں عیسائیوں کے سیاسی دور کا پہلا پڑاؤ ہے۔ بنگال پر قبضہ کرنے کے بعد ان کی اپنی سیاسی طاقت بن چکی تھی اور مغل سلطان بادشاہ شاہ عالم چوں کہ دہلی اور اس کے آس پاس ہی میں گھرا ہوا تھا اس سے زیادہ آگے بڑھنے کی اس میں طاقت وقوت بھی نہ تھی اس لئے ۱۱۷۹ھ مطابق ۱۷۲۵ء میں انگریز ، بادشاہ کے پاس پہنچے اور بادشاہ سے جبراً یہ فرمان جاری کروایا کہ بنگال، بہار، اُڑیسہ اور اِلٰہ آباد پر کمپنی کی حکومت رہےگی ان علاقوں پر مُغلیہ حکومت نہیں رہے گی ۔ بنگال اور پھر بہار، اڑیسہ اور الٰہ آباد پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے اپنی پرانی چال لڑاؤ اور حکومت کرو کے پیشِ نظر دوسرے نوابوں اور راجاؤں کے آپس میں پھوٹ ڈالنا شروع کر دیا اِس نواب کو اُس راجہ سے لڑوایا اُس راجہ کو اِس نواب سے لڑوایا جب یہ آپس میں لڑتے ان کی طاقت کمزور ہوتی پھر انگریز مداخلت کرتا کہیں پر قبضہ کرتا کبھی کسی ایک کے ساتھ مل کر دوسری جگہ کو خالی کروا کے نصف نصف پر قبضہ کیا جاتا غرض یہ کہ اسی پالیسی لڑاؤ اور حکومت کرو پر عمل کر کے انگریزوں نے ۱۸۵۶ء میں پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ اور پھر ۱۸۵۷ء کا زمانہ آتا ہے۔
۱۸۵۶ء کو یاد رکھئے اور اب ایک دوسرا پہلو آج کی گفتگو کا سماعت کریں ۱۸۵۷ء میں جو جنگِ آزادی لڑی گئی اس میں اہلِ سنت و جماعت کے بےشمار علماء نے حصہ لیا اور انگریزوں سے جہاد کیا جب انگریز پورے ہندوستان پر قابض ہو گئے تو انہوں نے ہندوستان میں کچھ نئے احکامات جاری کئے ان احکامات کو مجاہدِ آزادی بطلِ حریت استاذ مطلق امام منطق و فلسفه حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ نے اپنی تصنیف لطیف ” الثورۃ الہندیہ" میں بیان فرمایا ہےیہ کتاب عربی زبان میں ہے اس کا خلاصہ اور ترجمہ سماعت کریں:
جب پورے ہندوستان پر انگریز قابض ہو گئے تو پھر انہوں نے کچھ خاص فرمان جاری گئے ۔ وہ خاص فرمان کیا تھے؟
(1) پہلا فرمان یہ تھا کہ ہندوستان میں اب تک جتنے مدرسے اور جامعات اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کر رہے ہیں جہاں پر اہلِ سنت و جماعت کے علماء درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں ان تمام درسگاہوں کو بند کر دیا جائے اور اسکولیں قائم کی جائیں جو انگریزی حکومت کے زیرِانتظام ہوں گی اور اسکولوں میں بلا تفریق مذہب صرف ایک تعلیم ہوگی جو ہر مذہب کے ماننے والوں کو پڑھنا ہوگا۔ تعلیم کیا تھی ؟ شروع میں تو دوسرے سبجیکٹ رکھے جاتے لیکن آخر میں پہنچ کر وہی عیسائیت کا زہر گھولا جاتا تعلیمی لحاظ سے انگریزوں نے یہ اسکیم تیار کی۔
(۲) دوسرا حکم انہوں نے یہ نافذ کیا کہ ہندوستان میں جتنی طرح کی پیداوار ، اناج، غلے ہوتے ہیں اور معدنیات ہیں ان تمام کو کوئی بھی شخص براہ راست بیچ نہیں سکتا ہے بلکہ وہ ہم سے بیچےگا پھر ہم جس طرح چاہیں گے بیچیں گے۔ اس سے کیا ہوگا ؟ یہ کہ بازار پر ہمارا کنٹرول ہو جائے گا اور بازار پر کنٹرول ہونے کی وجہ سے لوگ بھکمری کے شکار ہوں گے تو پھر ہمارے دروازے پر آئیں گے اور ہم جس بھاؤ میں چاہیں گے انھیں دیں گے اس طرح وہ معاشی بَدحالی کا شکار ہوں گے اور انسان معاشی بدحالی میں بسا اوقات دوسرے کا مذہب قبول کر لیتا ہے۔
(۳) تیسرا فرمان انہوں نے یہ جاری کیا کہ کوئی بھی مسلمان شخص ختنہ نہیں کر سکتا ہے۔ (۴) چوتھا فرمان یہ جاری کیا کہ عورتیں بغیر پردہ باہر نکلیں گی کسی کو بھی نقاب پہننے کی اجازت نہیں ہوگی۔
(۵) چونکہ اس وقت فوج میں مسلمان بھی تھے اور غیر مسلم بھی۔ اور بندوق کی گولیوں کے منھ پر چربی لگی ہوتی تھی جسے بندوق چلاتے وقت دانت سے توڑنا پڑتا تھا تو اب انگریزوں نے فوجیوں کو اپنے مذہب سے مُتَنَفِِّر کرنے اور عیسائی بنانے کے لئے کچھ گولیوں کے منھ پر خنزیر کی چربی لگائی جائے اور کچھ گولیوں کے منھ پر گائے کی چربی لگائی جائے جو مسلمان فوجی تھے ان کو خنزیر کی چربی والی گولی دی جاتی اور جو غیر مسلم تھے انھیں گائے کی چربی والی گولی دی جاتی۔ انگریزوں کی اس سازش سے لوگوں میں بد دِلِی پیدا ہو گئی اور فوج ان کے خلاف کھڑی ہو گئی۔ یہیں سے جنگِ آزادی کا آغاز ہوتا ہے۔
جنگ آزادی میں ہمارے علماء نے کس کس طرح سے اور کیا کیا حصہ لیا ہے اسے مختصراً سماعت کریں۔
اس جنگ آزادی میں جو سب سے بڑا کردار ہمیں نظر آتا ہے وہ بطل حریت علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کا نظر آتا ہے۔ یہ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کون ہیں؟ سیدنا عمر فاروق عظم رضی اللہ عنہ کی ۱۹/ویں پشت میں ایران میں ایک بزرگ ہمیں نظر آتے ہیں حضرت شیر الملک، ان کے دو صاحبزادے تھے مولانا بہاؤالدین اور مولانا شمس الدین رحمهما الله یہ دونوں ایک ساتھ ایران سے ہندوستان تشریف لائے ذی علم عالم و فاضل تھے مولانا بہاؤالدین صاحب بدایوں کے مفتی مقرر کئے گئے اور حضرت شمس الدین روہتک کے قاضی اور مفتی مقرر کئے گئے۔ مولانا شمس الدین کی نسل میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی پیدا ہوئے جن کے فرزند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور شاہ عبدالقادر محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ ہیں اور مولانا بہاؤالدین کے سلسلۂ اخلاف میں چھٹی پشت میں ایک فرزند ہوئے شیخ ارزانی اور شیخ ارزانی کے صاحبزادے شیخ عمادالدین میں شیخ عماد الدین تعلیم حاصل کرنے کے لئے سیتا پور کے علاقے ہرگام گئے اور ہرگام کے قاضی وقت سے تعلیم حاصل کی۔ شیخ عمادالدین کے صاحبزادے شیخ ارشد ہوئے، شیخ ارشد ہرگام سے خیر آباد تشریف لائے اس طرح حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ سلسلہ نسب عرب سے ایران اور ایران سے بدایوں اور بدایوں سے ہرگام اور ہرگام سے خیر آباد پہنچتا ہے خیر آباد میں شیخ ارشد کے یہاں علامہ فضل امام خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ پیدا ہوئے، فضل امام خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ اپنے وقت کے نہایت جلیل القدر عالمِ دین تھے معقولات اور منقولات دونوں میں ان کا سکہ چلتا تھا، انہیں منطق و فلسفہ جسے آج کی زبان میں لوجک کہہ سکتے ہیں میں بڑا کمال حاصل تھا ایک واقعہ سماعت کریں، ایک غیر مسلم شخص تھا اس نے کچھ منطق و فلسفہ سیکھ لیا، مسلمانوں کے پاس بیٹھتا اور انہیں پریشان کرتا، اس کی خبر کسی طرح سے علامہ فضل امام تک پہنچی، علامہ فضل امام خیر آبادی نے اسے بلا کر فرمایا:
بنگال، ہندوستان میں عیسائیوں کے سیاسی دور کا پہلا پڑاؤ ہے۔ بنگال پر قبضہ کرنے کے بعد ان کی اپنی سیاسی طاقت بن چکی تھی اور مغل سلطان بادشاہ شاہ عالم چوں کہ دہلی اور اس کے آس پاس ہی میں گھرا ہوا تھا اس سے زیادہ آگے بڑھنے کی اس میں طاقت وقوت بھی نہ تھی اس لئے ۱۱۷۹ھ مطابق ۱۷۲۵ء میں انگریز ، بادشاہ کے پاس پہنچے اور بادشاہ سے جبراً یہ فرمان جاری کروایا کہ بنگال، بہار، اُڑیسہ اور اِلٰہ آباد پر کمپنی کی حکومت رہےگی ان علاقوں پر مُغلیہ حکومت نہیں رہے گی ۔ بنگال اور پھر بہار، اڑیسہ اور الٰہ آباد پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے اپنی پرانی چال لڑاؤ اور حکومت کرو کے پیشِ نظر دوسرے نوابوں اور راجاؤں کے آپس میں پھوٹ ڈالنا شروع کر دیا اِس نواب کو اُس راجہ سے لڑوایا اُس راجہ کو اِس نواب سے لڑوایا جب یہ آپس میں لڑتے ان کی طاقت کمزور ہوتی پھر انگریز مداخلت کرتا کہیں پر قبضہ کرتا کبھی کسی ایک کے ساتھ مل کر دوسری جگہ کو خالی کروا کے نصف نصف پر قبضہ کیا جاتا غرض یہ کہ اسی پالیسی لڑاؤ اور حکومت کرو پر عمل کر کے انگریزوں نے ۱۸۵۶ء میں پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ اور پھر ۱۸۵۷ء کا زمانہ آتا ہے۔
۱۸۵۶ء کو یاد رکھئے اور اب ایک دوسرا پہلو آج کی گفتگو کا سماعت کریں ۱۸۵۷ء میں جو جنگِ آزادی لڑی گئی اس میں اہلِ سنت و جماعت کے بےشمار علماء نے حصہ لیا اور انگریزوں سے جہاد کیا جب انگریز پورے ہندوستان پر قابض ہو گئے تو انہوں نے ہندوستان میں کچھ نئے احکامات جاری کئے ان احکامات کو مجاہدِ آزادی بطلِ حریت استاذ مطلق امام منطق و فلسفه حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ نے اپنی تصنیف لطیف ” الثورۃ الہندیہ" میں بیان فرمایا ہےیہ کتاب عربی زبان میں ہے اس کا خلاصہ اور ترجمہ سماعت کریں:
جب پورے ہندوستان پر انگریز قابض ہو گئے تو پھر انہوں نے کچھ خاص فرمان جاری گئے ۔ وہ خاص فرمان کیا تھے؟
(1) پہلا فرمان یہ تھا کہ ہندوستان میں اب تک جتنے مدرسے اور جامعات اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کر رہے ہیں جہاں پر اہلِ سنت و جماعت کے علماء درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں ان تمام درسگاہوں کو بند کر دیا جائے اور اسکولیں قائم کی جائیں جو انگریزی حکومت کے زیرِانتظام ہوں گی اور اسکولوں میں بلا تفریق مذہب صرف ایک تعلیم ہوگی جو ہر مذہب کے ماننے والوں کو پڑھنا ہوگا۔ تعلیم کیا تھی ؟ شروع میں تو دوسرے سبجیکٹ رکھے جاتے لیکن آخر میں پہنچ کر وہی عیسائیت کا زہر گھولا جاتا تعلیمی لحاظ سے انگریزوں نے یہ اسکیم تیار کی۔
(۲) دوسرا حکم انہوں نے یہ نافذ کیا کہ ہندوستان میں جتنی طرح کی پیداوار ، اناج، غلے ہوتے ہیں اور معدنیات ہیں ان تمام کو کوئی بھی شخص براہ راست بیچ نہیں سکتا ہے بلکہ وہ ہم سے بیچےگا پھر ہم جس طرح چاہیں گے بیچیں گے۔ اس سے کیا ہوگا ؟ یہ کہ بازار پر ہمارا کنٹرول ہو جائے گا اور بازار پر کنٹرول ہونے کی وجہ سے لوگ بھکمری کے شکار ہوں گے تو پھر ہمارے دروازے پر آئیں گے اور ہم جس بھاؤ میں چاہیں گے انھیں دیں گے اس طرح وہ معاشی بَدحالی کا شکار ہوں گے اور انسان معاشی بدحالی میں بسا اوقات دوسرے کا مذہب قبول کر لیتا ہے۔
(۳) تیسرا فرمان انہوں نے یہ جاری کیا کہ کوئی بھی مسلمان شخص ختنہ نہیں کر سکتا ہے۔ (۴) چوتھا فرمان یہ جاری کیا کہ عورتیں بغیر پردہ باہر نکلیں گی کسی کو بھی نقاب پہننے کی اجازت نہیں ہوگی۔
(۵) چونکہ اس وقت فوج میں مسلمان بھی تھے اور غیر مسلم بھی۔ اور بندوق کی گولیوں کے منھ پر چربی لگی ہوتی تھی جسے بندوق چلاتے وقت دانت سے توڑنا پڑتا تھا تو اب انگریزوں نے فوجیوں کو اپنے مذہب سے مُتَنَفِِّر کرنے اور عیسائی بنانے کے لئے کچھ گولیوں کے منھ پر خنزیر کی چربی لگائی جائے اور کچھ گولیوں کے منھ پر گائے کی چربی لگائی جائے جو مسلمان فوجی تھے ان کو خنزیر کی چربی والی گولی دی جاتی اور جو غیر مسلم تھے انھیں گائے کی چربی والی گولی دی جاتی۔ انگریزوں کی اس سازش سے لوگوں میں بد دِلِی پیدا ہو گئی اور فوج ان کے خلاف کھڑی ہو گئی۔ یہیں سے جنگِ آزادی کا آغاز ہوتا ہے۔
جنگ آزادی میں ہمارے علماء نے کس کس طرح سے اور کیا کیا حصہ لیا ہے اسے مختصراً سماعت کریں۔
اس جنگ آزادی میں جو سب سے بڑا کردار ہمیں نظر آتا ہے وہ بطل حریت علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کا نظر آتا ہے۔ یہ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کون ہیں؟ سیدنا عمر فاروق عظم رضی اللہ عنہ کی ۱۹/ویں پشت میں ایران میں ایک بزرگ ہمیں نظر آتے ہیں حضرت شیر الملک، ان کے دو صاحبزادے تھے مولانا بہاؤالدین اور مولانا شمس الدین رحمهما الله یہ دونوں ایک ساتھ ایران سے ہندوستان تشریف لائے ذی علم عالم و فاضل تھے مولانا بہاؤالدین صاحب بدایوں کے مفتی مقرر کئے گئے اور حضرت شمس الدین روہتک کے قاضی اور مفتی مقرر کئے گئے۔ مولانا شمس الدین کی نسل میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی پیدا ہوئے جن کے فرزند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور شاہ عبدالقادر محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ ہیں اور مولانا بہاؤالدین کے سلسلۂ اخلاف میں چھٹی پشت میں ایک فرزند ہوئے شیخ ارزانی اور شیخ ارزانی کے صاحبزادے شیخ عمادالدین میں شیخ عماد الدین تعلیم حاصل کرنے کے لئے سیتا پور کے علاقے ہرگام گئے اور ہرگام کے قاضی وقت سے تعلیم حاصل کی۔ شیخ عمادالدین کے صاحبزادے شیخ ارشد ہوئے، شیخ ارشد ہرگام سے خیر آباد تشریف لائے اس طرح حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ سلسلہ نسب عرب سے ایران اور ایران سے بدایوں اور بدایوں سے ہرگام اور ہرگام سے خیر آباد پہنچتا ہے خیر آباد میں شیخ ارشد کے یہاں علامہ فضل امام خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ پیدا ہوئے، فضل امام خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ اپنے وقت کے نہایت جلیل القدر عالمِ دین تھے معقولات اور منقولات دونوں میں ان کا سکہ چلتا تھا، انہیں منطق و فلسفہ جسے آج کی زبان میں لوجک کہہ سکتے ہیں میں بڑا کمال حاصل تھا ایک واقعہ سماعت کریں، ایک غیر مسلم شخص تھا اس نے کچھ منطق و فلسفہ سیکھ لیا، مسلمانوں کے پاس بیٹھتا اور انہیں پریشان کرتا، اس کی خبر کسی طرح سے علامہ فضل امام تک پہنچی، علامہ فضل امام خیر آبادی نے اسے بلا کر فرمایا:
ہم نے سنا ہے کہ تم نے کچھ منطق و فلسفہ سیکھ لیا ہے ؟ کہا: ہاں حضور! فرمایا: ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھی تمہیں کچھ پڑھا دیں۔ بولا: اس سے اچھی بات کیا ہوگی آپ جیسا استاذ مجھے پڑھائے۔ فرمایا: کل سے آجانا ، دوسرے دن حضرت فضل امام خیر آبادی نے اسے ایک سبق پڑھایا اور فرمایا: جاؤ، کل آنا۔ جب وہ اگلے دن آیا توجو سبق پہلے دن پڑھایا تھا اس سبق کو علامہ فضل امام نے آج پھر پڑھایا لیکن انداز یہ تھا کہ پہلے دن جو سمجھایا تھا آج وہ سب کا سب غلط، بڑا حیران ہوا کہ کل میں ان سے جو سن کر گیا تھا سمجھا تھا کہ یہی صحیح ہے لیکن آج یہ ہو رہا ہے کہ وہ سب کا سب غلط ۔ فرمایا: اچھا کل آنا ۔ اگلے دن حضرت نے پھر اسی سبق کو پڑھایا، انداز وہی پچھلے دن جو کچھ پڑھایا تھا آج سب کا سب غلط ، اس میں کچھ بھی صحیح نہیں بچتا بہت حیران و پریشان ہوا کہ آخر کیا ماجرا ہے۔ فرمایا: ٹھیک ہے جاؤ، کل آنا۔ چالیس دن اسی طرح گزر گئے کہ ہر اگلا سبق پچھلے کو رد کر دیتا چالیسویں دن جب وہ سبق پڑھ کر اٹھا تو پاگل ہو چکا تھا ، علامہ فضل امام خیر آبادی نے فرمایا:
مسلمانوں کو پریشان کرتا تھا میں نے یہی چاہا تھا، ایسی ذی علم شخصیت کا نام فضل امام خیر آبادی ہے، اور انہیں فضل امام خیر آبادی کے دولت سرائے عالی میں جو بچہ پیدا ہوا دنیا انہیں ”علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کے نام سے جانتی ہے۔
کون علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ؟ وہ جنہوں نے جہاد آزادی (جنگ، آزادی کہا جاتا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں اسے جنگ آزادی کے بجائے جہاد آزادی کہا جانا چاہئے ،) میں بہت ہی نمایاں کردار ادا کیا۔ جو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے بتیسویں شہزادے ہیں۔ حاضرین گرامی ! یہاں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ آپ شہزادے، خلیفہ دوم فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے ہیں اور جب ہم سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا زمانہ دیکھتے ہیں تو سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے دورخلافت میں اسلامی جہاد سب سے زیادہ عیسائیوں ہی سے ہوا ہے تو یہ والد کا ہی اثر تھا جو اس بتیسویں بیٹے میں ہمیں نظر آرہا ہے، یہ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی جلالت تھی ، ان کی شجاعت و بہادری تھی جو علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ میں ہمیں نظر آرہی ہے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کی حیات طیبہ کا مختصر خاکہ بھی دیکھتے چلئے ۱۲۱۲ھ مطابق ۱۷۹۷ء میں آپ کی ولادت ہوئی اور ۱۲۲۵ھ م ۱۸۰۹ء میں صرف ۱۳/سال کی عمر میں آپ تمام علوم متداولہ پڑھ کر عالم فاضل بن چکے تھے چار(۴)سال کچھ ماہ کی عمر میں آپ نے قرآن عظیم حفظ فرمالیا تھا ، آپ حضرت شیخ دھومن دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے سلسلۂ چشتیہ میں مرید تھے اور آپ کا دور انگریزی دور تھا ہر جگہ انگریز قابض تھے اس لئے معاشی لحاظ سے بہت زیادہ پریشانیاں اور مشکلات و مصائب سامنے تھے کئی علماء نے انگریزی ملازمت کی مخالفت بھی کی تھی اور بعض نے حالات زمانہ کےپیش نظر اجازت بھی دی تھی علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے بھی ۱۹/سال کی عمر میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی سولہ(۱۶)سال تک آپ نے ایسٹ انڈیا میں ملازمت کی اس عرصے میں آپ کا عہدہ تھا چیف کچہری ۱۸۳۱ء میں آپ نے کمپنی سے استعفیٰ دےدیا آپ کمپنی کی ملازمت تو کرتے تھے لیکن یہ ملازمت آپ کو پسند نہ تھی کیوں کہ یہ ملازمت انگریزوں کی ملازمت تھی۔ ۱۸۳۲ء سے لے کر ۱۸۵۷ء تک علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ جھنجھر، الور،لکھنو اور سہارنپور میں نظر آتے ہیں آخری دور ملازمت آپ کا الور میں گزرا ہے اور اسی زمانے میں انگریزوں نے وہ نئے احکامات جاری کئے تھے جو آپ نے ابھی سماعت کئے ان نئے احکامات کے سامنے آتے ہی جہادآزادی اور انگریزوں کی زبان میں بغاوت کی شروعات ہوئی سب سے پہلے ۱۰/مئی ۱۸۵۷ء کو میرٹھ چھاؤنی کے مسلم اور غیر مسلم فوجیوں نے مشترکہ طور پر بغاوت کیا اور میرٹھ میں موجود بہت سارے عیسائیوں کو قتل کیا اور پھر یہ لوگ دہلی پہنچ گئے اور بہادر شاہ ظفر کو اپنا بادشاہ بنالیا جس وقت یہ فوج میرٹھ سے دہلی پہنچی اس زمانے میں علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ الور میں موجود تھے الور سے آپ کو بلایا گیا اب تک صرف یہ چند فوجی بغاوت پر آمادہ تھے لیکن علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ جب تشریف لائے اور بادشاہ سے ملاقات کی اور دہلی کی با اثر شخصیت جنرل بخت خاں کے ساتھ مل کر آپ نے لوگوں کو جہاد پر ابھارا، جہاد پر ابھارنے کی جو کوشش و کاوش آپ کی رہی وہ کچھ اس طرح سامنے آتی ہے۔
(۱) علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے دہلی کی جامع مسجد میں نمازِجمعہ کے بعد سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف ایک زبردست تقریر کیا تھا، اور اسی تقریر میں لوگوں کو جہاد پر آمادہ کیا ، جہاد کی فرضیت و اہمیت سے روشناس کرایا ، اس تقریر سے آپ نے عام مسلمانوں میں جہاد کی خاطر جوش و جذ بہ پیدا کر دیا۔
(۲) اس کے ساتھ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے ایک دوسری کاوش یہ انجام دی کہ اسی روز نمازِجمعہ کے بعد ایک استفتاء مرتب کیا تھا ایک سوال نامہ مرتب کیا تھا اور وہ سوال نامہ اس وقت کے اکابر اور جید علماء کی خدمت میں پیش کیا گیا اور اس سوال نامے میں یہی تھا کہ انگریز جو ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ رکھتا ہے اور اسلامی شعار کو مٹا رہا ہے اسلامی تعلیمات کو بند کر رہا ہےعورتوں کے حجاب پر پابندی نافذ کر دی ہے مسلمانوں کی ختنہ پر پابندی لگادی ہے کیا ایسے وقت میں مسلمانوں پر جہاد فرض ہے یا نہیں؟
جب یہ استفتاء پیش ہوا اس وقت جتنے اکابر علماء اہلِ سنت و جماعت جامع مسجد دہلی میں موجود تھے ان سب نے فتوٰی دیا کہ : آج کی حالت ایسی ہے کہ شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں مسلمانوں پر انگریزوں سے جہاد کرنا فرض ہے۔ یہ فتوٰی جہاد جاری کرنے والے مندرجہ ذیل ۳۳ ر علماء ومفتیانِ اہل سنت تھے۔
(۱) محمد نذیر حسین صاحب
(۲) رحمت اللہ صاحب
(۳) مفتی صدر الدین آزرده صاحب
(۴) مفتی اکرام الدین صاحب
(۵) محمد میر خاں صاحب
(۶) مولانا عبدالقادر صاحب
(۷) احمد سعید احمدی صاحب
(۸) محمد ضیاء الدین صاحب
(۹) محمد عبد الکریم صاحب
(۱۰) سکندر علی صاحب
(۱۱) محمد کریم اللہ صاحب
(۱۲) مولوی محمد سرفراز صاحب
(۱۳) سید محبوب علی جعفری صاحب
(۱۴) محمد حامی الدین صاحب
(۱۵) سید احمد علی صاحب
(۱۶) الٰہی بخش صاحب
(۱۷) محمد انصار علی صاحب
(۱۸) مولوی سعید الدین صاحب
(۱۹) حفیظ اللہ خان صاحب
(۲۰) محمد نور الحق صاحب
(۲۱) حیدر علی صاحب
(۲۲) یوسف الرحمن صاحب
(۲۳) مولوی فرید الدین صاحب
(۲۴) سید عبد الحمید صاحب (۲۵) محمد ہاشم صاحب
(۲۶) محمد امداد علی صاحب
(۲۷) محمد مصطفیٰ خان صاحب
(۲۸) محمد امداد علی صاحب
(۲۹) مفتی محمد رحمت علی صاحب مفتی عدالت عالیہ
(۳۰) سید محمد صاحب
(۳۱) محمد علی حسینی صاحب قاضی القضاة
(۳۱) مولوی عبد الغنی صاحب
(۳۲) مولوی محمد علی صاحب
(۳۳) ایک اور عالم دین جن کا نام غالباً عبد الغنی صاحب سے علیہم الرحمۃ والرضوان
( فضل حق خیر آبادی، ص: ۳۶۳) یہاں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ جب پورے ملک پر انگریز قابض تھے صنعت و تجارت سے لیکر تعلیم تک ان کے قبضہ میں تھی، لوگوں کو طرح طرح سے سنا یا جا رہا تھا تو ایسی کنڈیشن میں آغاز کرنا انتہائی اہم ہوتا ہے، چاہ تو ہر کوئی رہا تھا، ہر کسی کی چاہت یہی تھی کہ انگریزوں کو سات(٧)سمندر پار واپس بھیج دیا جائے ان سے اپنے ملک کو آزاد کرالیا جائے لیکن معاملہ یہ تھا شروعات کون کرے؟ تو شروعات میرٹھ کے ان چند فوجیوں کی تھی لیکن وہ صرف فوجی تھے ان کے ساتھ دوسرے لوگ شامل نہیں ہوئےتھے لیکن علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے جب یہ استفتاء علما کی خدمت میں پیش کیا اور اس پر مندرجہ بالا ۳۳ علماء نے اپنے تائیدی دستخط ثبت کئے اور پھر یہ فتوٰی دہلی کے اخبار "الظفر اردو" میں شائع ہوا اور اس کے بعد والے شمارے میں خود علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے اپنا ایک فتوٰی جہاد سے متعلق لکھ کر اسے بھی اخبار "الظفر “ میں شائع کروایا، ان دونوں فتوؤں کے شائع ہونے کے بعد مؤرخین کہتے ہیں کہ: ان دو فتوؤں کے سامنے آنے کے بعد عام لوگوں میں شورش بہت زیادہ بڑھ چکی تھی اور نتیجہ تھوڑے ہی دنوں میں نوےہزار(۹۰,۰۰۰) عام مجاہدین بہادر شاہ ظفر کے جھنڈے تلے جمع ہو چکے تھے ، یہ نوے ہزار (۹۰,۰۰۰)مجاہدین جو جمع ہوئے یہ فوجی نہیں تھے فوج کے علاوہ شہری اور دیہاتی لوگ تھے یہ سب علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ اور ان ۳۳ علماء کے فتوؤں پر جمع ہونے والے تھے، اس لئے بجا طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ باضابطہ طور سے جہادآزادی کی شروعات اہل سنت و جماعت کے ہمارے ان علماء نے کیا ہے اور ان سے فتویٰ لینے کا کام چونکہ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے کیا ہے اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین جنگ آزادی کےامیر کارواں اور سرخیل“ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ ہیں۔ اس فوج کی کچھ مقامات پر انگریزوں سے جھڑپیں بھی ہوئیں لیکن اس موقع پر بھی انگریزوں نے وہی پرانی سازش رچی کہ نوابوں اور حکومت کے لوگوں کو پھوڑنا شروع کیا جہادآزادی کو ناکام بنانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ علامہ یہ چاہتے تھے کہ بہادر شاہ ظفر خود نکل کر میدان جنگ میں آئیں کیونکہ جب لوگ بہادر شاہ ظفر کو دیکھیں گے تو ان میں ایک نیا جذبہ، نیا ولولہ، نیا جوش پیدا ہو گا اور پھر ہم منٹوں میں انگریزوں کا صفایا کر سکتے ہیں لیکن بہادر شاہ ظفر کی بیوی اور ان کا سالہ حکیم احسن اللہ خان ان دونوں نے انگریزوں سے ساز باز کر رکھا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہادر شاہ ظفر میدان جنگ میں نہ آئے اور دوسرا برا کام یہ ہوا کہ بہادر شاہ ظفر نے علامہ کے مشورے کے برخلاف اپنے خاندان کے نا اہل شہزادوں کو لشکر پر سردار متعین کر دیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ جب کمان سنبھالنے والا خود ہی نا اہل ہوگا تو وہ لشکر کو کہاں لیجائے گا یہی حال ان نا اہل شہزادوں نے کیا اور یہ ساری سازشیں انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کے سالے احسن اللہ خاں اور ان کی بیوی کے ذریعے سے کروائیں اس طرح سے یہ جہاد آزادی جو علامہ اور دیگر علماء نے لڑا وہ ناکام ہوا لیکن یہ علماء ہارے نہیں۔
(۳)علامہ نے مجاہدین تک سامان رسد، کھانے پینے کے سامان اور دیگر اوزار و اسلحہ پہنچانے کا خود انتظام کیا ۔ لال قلعے میں ایک خاص میٹنگ ہوئی اور اس خاص میٹنگ میں علامہ نے بہت ساری باتیں پیش کیں کہ ان باتوں پر عمل ہونا چاہئے ان تجاویز کے ذریعے بہت سارےمجاہدین کی نصرت و حمایت بھی کی گئی۔ اس کے بعد پھر
(۴) مئی جون ۱۸۵۷ء میں جب بہادر شاہ ظفر کی حکومت کے آثار نظر آنے لگے چونکہ یہ وقت ایسا تھا کہ مجاہدین دم بدم آگے بڑھتے ہی جا رہے تھے جس سے یہ سماں بندھ چکا تھا کہ اب ہمارے گئے ہوئے دن واپس لوٹ آئیں گے، تو پھر یہ سوال اٹھا کہ اب اگر ہمارے دن یا پلٹ کر آتے ہیں تو ہمیں کس دستور کے تحت کس آئین کے تحت کس قانون کے تحت حکومت کو باقی رکھنا ہوگا اس پر علامہ نے بہادر شاہ ظفر سے مشورہ کیا تو بہادر شاہ ظفر نے کہا: اس دستور ر کو آپ ہی بنائیں۔
لہٰذا علامہ نے متوقع حکومت کا دستور بھی مرتب کیا۔ مگر وائے رے محرومی قسمت ۱۹ ستمبر ۱۸۵۷ء کو دہلی پر انگریزوں نے مکمل طور سے قبضہ کر لیا اس کے پہلے تک تو دہلی پر مغل شہزادوں کی حکومت تھی اگرچہ برائے نام ہی سہی لیکن اب جو انہوں نے قبضہ کیا تھا تو اب مکمل طور سے اپنا راستہ صاف کر لیا تھا۔ لہذا ، ۱۹/ستمبر سے ۲۴/ستمبر تک علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنے گھر دہلی میں نظر بند رہے، ۲۴/ستمبر کے بعد علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ دہلی سے روانہ ہوئے اور کس حال میں روانہ ہوئے ؟ آپ سوچیں کہ جو حضرت فضل امام خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کا بیٹا ہو، ہزاروں علما کا استاذ ہو، اسے علم وفن سے کیسا لگاؤ رہا ہوگا، کتابوں سے کیسی محبت رہی ہوگی ، کیسا عشق رہا ہوگا مگر یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ"الثورۃ الہندیہ" میں خود لکھتے ہیں کہ: میں اپنے قیمتی اور نایاب کتب خانے کو دہلی چھوڑ کر کسی طرح بچتا بچاتا اپنے وطن کو روانہ ہوا۔ دہلی سے خیر آباد کوئی بہت دور نہیں ہے مگر حالات ایسے تھے مشکلات و مصائب اتنی تھیں کہ ۲/مہینے کے بعد رام پور اور علی گڑھ ہوتے ہوئے دسمبر کے درمیانی عرصے میں علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ اپنے وطن خیر آباد پہنچے ہیں۔ علامہ ہی کی طرح دوسرے بہت سارے علماء نے جہاد آزادی میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔
مولانا شاہ احمد اللہ مدراسی رحمۃ اللہ علیہ کوہی دیکھ لیں آپ عالم ہی نہیں شیخ طریقت بھی تھے آپ کے ہزاروں مریدین تھے آپ نے اپنے بے شمار مریدوں کو اکٹھا کیا سب کو فوجی تربیت دی انگریزوں کے خلاف جہاد کیا، جہاد کرتے ہوئے لکھنو تک پہنچ گئے آدھے لکھنو پر قبضہ بھی کر لیا تھا لیکن یہاں پھر وہی معاملہ آیا کہ ایک نااہل شخص جو کہ انگریزوں کے ساتھ مل چکا تھا اس کی وجہ سے مولانا شاہ احمد اللہ مدراسی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو آدھے مقبوضہ لکھنو سے ہاتھ دھونا پڑا اور آپ شہید ہو گئے ۔
(علامہ فضل حق خیر آبادی حیات و خدمات ص ۲۳۱،۲۳۰)
اسی طرح مولانا لیاقت علی الٰہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی دیکھیں آپ بھی عالم و شیخ طریقت تھے آپ کے بھی ہزاروں مریدین تھے آپ نے بھی اپنے مریدین کو جہاد کے لئے آمادہ کیا اور خود بھی ان کے ساتھ مل کر جہاد آزادی میں حصہ لیا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں علامہ لیاقت علی الٰہ آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو بھی گرفتار کیا گیا اور آپ کو بھی جزیرہ انڈمان بھیج دیا گیا جسے کالا پانی بھی کہا جاتا ہے وہیں پر مولانا لیاقت علی صاحب الٰہ آبادی کی قبر آج بھی موجود ہے۔
(علامہ فضل حق خیر آبادی حیات و خدمات ، ص ۲۳۴، ۲۳۵)
ایسے ہی مفتی عنایت احمد صاحب کا کوروی رحمۃ اللہ علیہ ہیں یہ بھی اہلِ سنت و جماعت کے جلیل القدر عالمِ دین گزرے ہیں آپ نے اپنے قیام بریلی کے دوران انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوٰی دیا تھا، وہی فتوٰی بغاوت سرد ہونے کے بعد جب انگریزوں تک پہنچا تھا تو انگریزوں نے آپ کو بھی گرفتار کر لیا اور کالا پانی کی سزادی ۔
(علامہ فضل حق خیر آبادی حیات و خدمات ، ص ۲۳۲ ۲۳۳)
اسی طرح مفتی کفایت علی کافی مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ ہیں انہوں نے بھی انگریزوں کےخلاف جہاد آزادی میں حصہ لیا تھا اور ان کو بھی انگریزوں نے پھانسی کی سزادی تھی۔
جہاد آزادی کے قائدین علماء میں سے یہ چند کا مختصر تعارف ہے نام تو بہت سارے ہیں مگر وقت اجازت نہیں دیتا بس ایک آخری نام میں پیش کردوں
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے دادا مفتی رضا علی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی جہاد آزادی میں بھر پور حصہ لیا ہے آپ بریلی میں بیٹھ کر مجاہدین کو گھوڑے ، اوزار و ہتھیار بھیجا کرتے تھے ساتھ ہی کھانے پینے کے سامان بھی بھیجا کرتے تھے اور یہ ساری چیزیں انگریزوں سے چھپا کر بھیجی جاتی تھیں ورنہ انگریز ان پر غاصبانہ قبضہ کر سکتا تھا۔
("العاقب“ کا مولانا فضل حق خیر آبادی و جنگ آزادی نمبر ص:۴۹۴)
مگر نتیجہ یہ ہوا کہ غداروں کی وجہ سے یہ جہاد آزادی ظاہراً کامیاب نہ ہو سکا اور ہمارے ان اجلہ اکابر علماء کو طرح طرح کی سزائیں دی گئیں تاریخ کہتی ہے کہ انگریزوں کے مکمل تسلّط کے بعد جب گلیوں کو دیکھا جاتا تو گلیوں میں لاشیں پڑی ہوئی نظر آتیں ، درختوں کو دیکھا جاتا تو اس پر لاشیں لٹکتی ہوئی نظر آتیں۔ غرض یہ کہ ظلم و ستم کا کوئی ایسا شعبہ نہ تھا جسے انگریزوں نے چھوڑ دیا ہو اور یہ سارے ظلم و ستم سب سے زیادہ مسلمانوں پر ڈھائے گئے تھے کیوں کہ انہیں سب سے زیادہ خدشہ اور ڈر مسلمانوں ہی سے تھا کہ ہماری حکومت کی بساط اگر کوئی پلٹ سکتا ہے تو وہ مسلمان ہے اس لئے انہوں نے سب سے زیادہ ظلم و ستم مسلمانوں پر ڈھائے تھے۔
(جنگِ آزادی میں علماء اہلِ سنت کا کردار صفحہ۱۱ تا ۲۰
مؤلف:مولانا محمد حسان ملک نوری برہانپوری)
حاضرین گرامی ! ہم پھر سرخیل مجاہدین آزادی علامہ خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کی طرف چلتے ہیں، خیر آباد میں علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو گرفتار کر کے آپ پر مقدمہ چلایا گیا انگریز جج نے آپ کو بھی جزیرہ انڈمان بھیجنے کا حکم سنایا آپ کے اسیری کے دن کیسے تھے ؟ چند جملے علامہ فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کی زبانی سنئے "الثورة الہندیہ" میں مجاہدین پر ہونے والے ظلم وستم کی لمبی چوڑی داستان سنانے کے بعد کہتے ہیں:
اب میرا ماجرا سنئے عیسائیوں نے مکر و فریب سے جب مجھے قید کر لیا تو ایک قید خانےسے دوسرے قید خانے میں لے جاتے رہے ایک سخت زمین سے دسری سخت زمین میں منتقل کرتے رہے مصیبت پر مصیبت ڈھاتے رہے اور غم پر غم ڈھاتے رہے (کیسے غم ؟ انتہا یہ کر دی کہ) میرا جوتا اور لباس تک اتار لیا گیا اور اس کی جگہ مجھے موٹا کپڑا پہننے کے لئے دیا گیا (جب کہ ایک وقت وہ تھا کہ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ ہاتھی کی پالکی پر آمد ورفت کیا کرتے تھے لیکن آج آپ پر مصیبتوں کے ایسے پہاڑ ڈھائے گئے کہ کہتے ہیں:)ایک شخص ہے جو بہت ہی ظالم و جابر ہے وہ طرح طرح کے سختی و مشقت کے کام بھی ہم سے کرواتا ہے انتہائی غلیظ کام بھی کرواتا ہے۔ میرا بدن زخموں سے چھلنی بن چکا ہے روح کو تحلیل کر دینے والے درد و تکلیف کے ساتھ زخموں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے وہ وقت دور نہیں جب یہ پھنسیاں مجھے ہلاکت کے قریب پہنچادیں۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب عیش و مسرت ، راحت و عافیت میں زندگی بسر ہوتی تھی اب محبوس و قریبِ ہلاکت ہوں ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ میں محسود خلائق، غنی تھا اور صحیح و سالم تھا اور اب اپاہچ وزخمی ہوں بڑی سخت مصیبتیں اورصعوبتیں جھیلنا پڑ رہی ہیں ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جس طرح لکڑی اور پٹی کا بوجھ اٹھاتی ہیں اسی طرح ہم بھی ناقابل برداشت تکلیفیں اٹھا رہے ہیں
(جنگِ آزادی میں علماء اہلِ سنت کا کردار صفحہ۲۰)
(۱) علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے دہلی کی جامع مسجد میں نمازِجمعہ کے بعد سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف ایک زبردست تقریر کیا تھا، اور اسی تقریر میں لوگوں کو جہاد پر آمادہ کیا ، جہاد کی فرضیت و اہمیت سے روشناس کرایا ، اس تقریر سے آپ نے عام مسلمانوں میں جہاد کی خاطر جوش و جذ بہ پیدا کر دیا۔
(۲) اس کے ساتھ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے ایک دوسری کاوش یہ انجام دی کہ اسی روز نمازِجمعہ کے بعد ایک استفتاء مرتب کیا تھا ایک سوال نامہ مرتب کیا تھا اور وہ سوال نامہ اس وقت کے اکابر اور جید علماء کی خدمت میں پیش کیا گیا اور اس سوال نامے میں یہی تھا کہ انگریز جو ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ رکھتا ہے اور اسلامی شعار کو مٹا رہا ہے اسلامی تعلیمات کو بند کر رہا ہےعورتوں کے حجاب پر پابندی نافذ کر دی ہے مسلمانوں کی ختنہ پر پابندی لگادی ہے کیا ایسے وقت میں مسلمانوں پر جہاد فرض ہے یا نہیں؟
جب یہ استفتاء پیش ہوا اس وقت جتنے اکابر علماء اہلِ سنت و جماعت جامع مسجد دہلی میں موجود تھے ان سب نے فتوٰی دیا کہ : آج کی حالت ایسی ہے کہ شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں مسلمانوں پر انگریزوں سے جہاد کرنا فرض ہے۔ یہ فتوٰی جہاد جاری کرنے والے مندرجہ ذیل ۳۳ ر علماء ومفتیانِ اہل سنت تھے۔
(۱) محمد نذیر حسین صاحب
(۲) رحمت اللہ صاحب
(۳) مفتی صدر الدین آزرده صاحب
(۴) مفتی اکرام الدین صاحب
(۵) محمد میر خاں صاحب
(۶) مولانا عبدالقادر صاحب
(۷) احمد سعید احمدی صاحب
(۸) محمد ضیاء الدین صاحب
(۹) محمد عبد الکریم صاحب
(۱۰) سکندر علی صاحب
(۱۱) محمد کریم اللہ صاحب
(۱۲) مولوی محمد سرفراز صاحب
(۱۳) سید محبوب علی جعفری صاحب
(۱۴) محمد حامی الدین صاحب
(۱۵) سید احمد علی صاحب
(۱۶) الٰہی بخش صاحب
(۱۷) محمد انصار علی صاحب
(۱۸) مولوی سعید الدین صاحب
(۱۹) حفیظ اللہ خان صاحب
(۲۰) محمد نور الحق صاحب
(۲۱) حیدر علی صاحب
(۲۲) یوسف الرحمن صاحب
(۲۳) مولوی فرید الدین صاحب
(۲۴) سید عبد الحمید صاحب (۲۵) محمد ہاشم صاحب
(۲۶) محمد امداد علی صاحب
(۲۷) محمد مصطفیٰ خان صاحب
(۲۸) محمد امداد علی صاحب
(۲۹) مفتی محمد رحمت علی صاحب مفتی عدالت عالیہ
(۳۰) سید محمد صاحب
(۳۱) محمد علی حسینی صاحب قاضی القضاة
(۳۱) مولوی عبد الغنی صاحب
(۳۲) مولوی محمد علی صاحب
(۳۳) ایک اور عالم دین جن کا نام غالباً عبد الغنی صاحب سے علیہم الرحمۃ والرضوان
( فضل حق خیر آبادی، ص: ۳۶۳) یہاں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ جب پورے ملک پر انگریز قابض تھے صنعت و تجارت سے لیکر تعلیم تک ان کے قبضہ میں تھی، لوگوں کو طرح طرح سے سنا یا جا رہا تھا تو ایسی کنڈیشن میں آغاز کرنا انتہائی اہم ہوتا ہے، چاہ تو ہر کوئی رہا تھا، ہر کسی کی چاہت یہی تھی کہ انگریزوں کو سات(٧)سمندر پار واپس بھیج دیا جائے ان سے اپنے ملک کو آزاد کرالیا جائے لیکن معاملہ یہ تھا شروعات کون کرے؟ تو شروعات میرٹھ کے ان چند فوجیوں کی تھی لیکن وہ صرف فوجی تھے ان کے ساتھ دوسرے لوگ شامل نہیں ہوئےتھے لیکن علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے جب یہ استفتاء علما کی خدمت میں پیش کیا اور اس پر مندرجہ بالا ۳۳ علماء نے اپنے تائیدی دستخط ثبت کئے اور پھر یہ فتوٰی دہلی کے اخبار "الظفر اردو" میں شائع ہوا اور اس کے بعد والے شمارے میں خود علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے اپنا ایک فتوٰی جہاد سے متعلق لکھ کر اسے بھی اخبار "الظفر “ میں شائع کروایا، ان دونوں فتوؤں کے شائع ہونے کے بعد مؤرخین کہتے ہیں کہ: ان دو فتوؤں کے سامنے آنے کے بعد عام لوگوں میں شورش بہت زیادہ بڑھ چکی تھی اور نتیجہ تھوڑے ہی دنوں میں نوےہزار(۹۰,۰۰۰) عام مجاہدین بہادر شاہ ظفر کے جھنڈے تلے جمع ہو چکے تھے ، یہ نوے ہزار (۹۰,۰۰۰)مجاہدین جو جمع ہوئے یہ فوجی نہیں تھے فوج کے علاوہ شہری اور دیہاتی لوگ تھے یہ سب علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ اور ان ۳۳ علماء کے فتوؤں پر جمع ہونے والے تھے، اس لئے بجا طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ باضابطہ طور سے جہادآزادی کی شروعات اہل سنت و جماعت کے ہمارے ان علماء نے کیا ہے اور ان سے فتویٰ لینے کا کام چونکہ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے کیا ہے اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ مجاہدین جنگ آزادی کےامیر کارواں اور سرخیل“ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ ہیں۔ اس فوج کی کچھ مقامات پر انگریزوں سے جھڑپیں بھی ہوئیں لیکن اس موقع پر بھی انگریزوں نے وہی پرانی سازش رچی کہ نوابوں اور حکومت کے لوگوں کو پھوڑنا شروع کیا جہادآزادی کو ناکام بنانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ علامہ یہ چاہتے تھے کہ بہادر شاہ ظفر خود نکل کر میدان جنگ میں آئیں کیونکہ جب لوگ بہادر شاہ ظفر کو دیکھیں گے تو ان میں ایک نیا جذبہ، نیا ولولہ، نیا جوش پیدا ہو گا اور پھر ہم منٹوں میں انگریزوں کا صفایا کر سکتے ہیں لیکن بہادر شاہ ظفر کی بیوی اور ان کا سالہ حکیم احسن اللہ خان ان دونوں نے انگریزوں سے ساز باز کر رکھا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہادر شاہ ظفر میدان جنگ میں نہ آئے اور دوسرا برا کام یہ ہوا کہ بہادر شاہ ظفر نے علامہ کے مشورے کے برخلاف اپنے خاندان کے نا اہل شہزادوں کو لشکر پر سردار متعین کر دیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ جب کمان سنبھالنے والا خود ہی نا اہل ہوگا تو وہ لشکر کو کہاں لیجائے گا یہی حال ان نا اہل شہزادوں نے کیا اور یہ ساری سازشیں انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کے سالے احسن اللہ خاں اور ان کی بیوی کے ذریعے سے کروائیں اس طرح سے یہ جہاد آزادی جو علامہ اور دیگر علماء نے لڑا وہ ناکام ہوا لیکن یہ علماء ہارے نہیں۔
(۳)علامہ نے مجاہدین تک سامان رسد، کھانے پینے کے سامان اور دیگر اوزار و اسلحہ پہنچانے کا خود انتظام کیا ۔ لال قلعے میں ایک خاص میٹنگ ہوئی اور اس خاص میٹنگ میں علامہ نے بہت ساری باتیں پیش کیں کہ ان باتوں پر عمل ہونا چاہئے ان تجاویز کے ذریعے بہت سارےمجاہدین کی نصرت و حمایت بھی کی گئی۔ اس کے بعد پھر
(۴) مئی جون ۱۸۵۷ء میں جب بہادر شاہ ظفر کی حکومت کے آثار نظر آنے لگے چونکہ یہ وقت ایسا تھا کہ مجاہدین دم بدم آگے بڑھتے ہی جا رہے تھے جس سے یہ سماں بندھ چکا تھا کہ اب ہمارے گئے ہوئے دن واپس لوٹ آئیں گے، تو پھر یہ سوال اٹھا کہ اب اگر ہمارے دن یا پلٹ کر آتے ہیں تو ہمیں کس دستور کے تحت کس آئین کے تحت کس قانون کے تحت حکومت کو باقی رکھنا ہوگا اس پر علامہ نے بہادر شاہ ظفر سے مشورہ کیا تو بہادر شاہ ظفر نے کہا: اس دستور ر کو آپ ہی بنائیں۔
لہٰذا علامہ نے متوقع حکومت کا دستور بھی مرتب کیا۔ مگر وائے رے محرومی قسمت ۱۹ ستمبر ۱۸۵۷ء کو دہلی پر انگریزوں نے مکمل طور سے قبضہ کر لیا اس کے پہلے تک تو دہلی پر مغل شہزادوں کی حکومت تھی اگرچہ برائے نام ہی سہی لیکن اب جو انہوں نے قبضہ کیا تھا تو اب مکمل طور سے اپنا راستہ صاف کر لیا تھا۔ لہذا ، ۱۹/ستمبر سے ۲۴/ستمبر تک علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنے گھر دہلی میں نظر بند رہے، ۲۴/ستمبر کے بعد علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ دہلی سے روانہ ہوئے اور کس حال میں روانہ ہوئے ؟ آپ سوچیں کہ جو حضرت فضل امام خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کا بیٹا ہو، ہزاروں علما کا استاذ ہو، اسے علم وفن سے کیسا لگاؤ رہا ہوگا، کتابوں سے کیسی محبت رہی ہوگی ، کیسا عشق رہا ہوگا مگر یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ"الثورۃ الہندیہ" میں خود لکھتے ہیں کہ: میں اپنے قیمتی اور نایاب کتب خانے کو دہلی چھوڑ کر کسی طرح بچتا بچاتا اپنے وطن کو روانہ ہوا۔ دہلی سے خیر آباد کوئی بہت دور نہیں ہے مگر حالات ایسے تھے مشکلات و مصائب اتنی تھیں کہ ۲/مہینے کے بعد رام پور اور علی گڑھ ہوتے ہوئے دسمبر کے درمیانی عرصے میں علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ اپنے وطن خیر آباد پہنچے ہیں۔ علامہ ہی کی طرح دوسرے بہت سارے علماء نے جہاد آزادی میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔
مولانا شاہ احمد اللہ مدراسی رحمۃ اللہ علیہ کوہی دیکھ لیں آپ عالم ہی نہیں شیخ طریقت بھی تھے آپ کے ہزاروں مریدین تھے آپ نے اپنے بے شمار مریدوں کو اکٹھا کیا سب کو فوجی تربیت دی انگریزوں کے خلاف جہاد کیا، جہاد کرتے ہوئے لکھنو تک پہنچ گئے آدھے لکھنو پر قبضہ بھی کر لیا تھا لیکن یہاں پھر وہی معاملہ آیا کہ ایک نااہل شخص جو کہ انگریزوں کے ساتھ مل چکا تھا اس کی وجہ سے مولانا شاہ احمد اللہ مدراسی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو آدھے مقبوضہ لکھنو سے ہاتھ دھونا پڑا اور آپ شہید ہو گئے ۔
(علامہ فضل حق خیر آبادی حیات و خدمات ص ۲۳۱،۲۳۰)
اسی طرح مولانا لیاقت علی الٰہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی دیکھیں آپ بھی عالم و شیخ طریقت تھے آپ کے بھی ہزاروں مریدین تھے آپ نے بھی اپنے مریدین کو جہاد کے لئے آمادہ کیا اور خود بھی ان کے ساتھ مل کر جہاد آزادی میں حصہ لیا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں علامہ لیاقت علی الٰہ آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو بھی گرفتار کیا گیا اور آپ کو بھی جزیرہ انڈمان بھیج دیا گیا جسے کالا پانی بھی کہا جاتا ہے وہیں پر مولانا لیاقت علی صاحب الٰہ آبادی کی قبر آج بھی موجود ہے۔
(علامہ فضل حق خیر آبادی حیات و خدمات ، ص ۲۳۴، ۲۳۵)
ایسے ہی مفتی عنایت احمد صاحب کا کوروی رحمۃ اللہ علیہ ہیں یہ بھی اہلِ سنت و جماعت کے جلیل القدر عالمِ دین گزرے ہیں آپ نے اپنے قیام بریلی کے دوران انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوٰی دیا تھا، وہی فتوٰی بغاوت سرد ہونے کے بعد جب انگریزوں تک پہنچا تھا تو انگریزوں نے آپ کو بھی گرفتار کر لیا اور کالا پانی کی سزادی ۔
(علامہ فضل حق خیر آبادی حیات و خدمات ، ص ۲۳۲ ۲۳۳)
اسی طرح مفتی کفایت علی کافی مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ ہیں انہوں نے بھی انگریزوں کےخلاف جہاد آزادی میں حصہ لیا تھا اور ان کو بھی انگریزوں نے پھانسی کی سزادی تھی۔
جہاد آزادی کے قائدین علماء میں سے یہ چند کا مختصر تعارف ہے نام تو بہت سارے ہیں مگر وقت اجازت نہیں دیتا بس ایک آخری نام میں پیش کردوں
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے دادا مفتی رضا علی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی جہاد آزادی میں بھر پور حصہ لیا ہے آپ بریلی میں بیٹھ کر مجاہدین کو گھوڑے ، اوزار و ہتھیار بھیجا کرتے تھے ساتھ ہی کھانے پینے کے سامان بھی بھیجا کرتے تھے اور یہ ساری چیزیں انگریزوں سے چھپا کر بھیجی جاتی تھیں ورنہ انگریز ان پر غاصبانہ قبضہ کر سکتا تھا۔
("العاقب“ کا مولانا فضل حق خیر آبادی و جنگ آزادی نمبر ص:۴۹۴)
مگر نتیجہ یہ ہوا کہ غداروں کی وجہ سے یہ جہاد آزادی ظاہراً کامیاب نہ ہو سکا اور ہمارے ان اجلہ اکابر علماء کو طرح طرح کی سزائیں دی گئیں تاریخ کہتی ہے کہ انگریزوں کے مکمل تسلّط کے بعد جب گلیوں کو دیکھا جاتا تو گلیوں میں لاشیں پڑی ہوئی نظر آتیں ، درختوں کو دیکھا جاتا تو اس پر لاشیں لٹکتی ہوئی نظر آتیں۔ غرض یہ کہ ظلم و ستم کا کوئی ایسا شعبہ نہ تھا جسے انگریزوں نے چھوڑ دیا ہو اور یہ سارے ظلم و ستم سب سے زیادہ مسلمانوں پر ڈھائے گئے تھے کیوں کہ انہیں سب سے زیادہ خدشہ اور ڈر مسلمانوں ہی سے تھا کہ ہماری حکومت کی بساط اگر کوئی پلٹ سکتا ہے تو وہ مسلمان ہے اس لئے انہوں نے سب سے زیادہ ظلم و ستم مسلمانوں پر ڈھائے تھے۔
(جنگِ آزادی میں علماء اہلِ سنت کا کردار صفحہ۱۱ تا ۲۰
مؤلف:مولانا محمد حسان ملک نوری برہانپوری)
حاضرین گرامی ! ہم پھر سرخیل مجاہدین آزادی علامہ خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کی طرف چلتے ہیں، خیر آباد میں علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کو گرفتار کر کے آپ پر مقدمہ چلایا گیا انگریز جج نے آپ کو بھی جزیرہ انڈمان بھیجنے کا حکم سنایا آپ کے اسیری کے دن کیسے تھے ؟ چند جملے علامہ فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کی زبانی سنئے "الثورة الہندیہ" میں مجاہدین پر ہونے والے ظلم وستم کی لمبی چوڑی داستان سنانے کے بعد کہتے ہیں:
اب میرا ماجرا سنئے عیسائیوں نے مکر و فریب سے جب مجھے قید کر لیا تو ایک قید خانےسے دوسرے قید خانے میں لے جاتے رہے ایک سخت زمین سے دسری سخت زمین میں منتقل کرتے رہے مصیبت پر مصیبت ڈھاتے رہے اور غم پر غم ڈھاتے رہے (کیسے غم ؟ انتہا یہ کر دی کہ) میرا جوتا اور لباس تک اتار لیا گیا اور اس کی جگہ مجھے موٹا کپڑا پہننے کے لئے دیا گیا (جب کہ ایک وقت وہ تھا کہ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ ہاتھی کی پالکی پر آمد ورفت کیا کرتے تھے لیکن آج آپ پر مصیبتوں کے ایسے پہاڑ ڈھائے گئے کہ کہتے ہیں:)ایک شخص ہے جو بہت ہی ظالم و جابر ہے وہ طرح طرح کے سختی و مشقت کے کام بھی ہم سے کرواتا ہے انتہائی غلیظ کام بھی کرواتا ہے۔ میرا بدن زخموں سے چھلنی بن چکا ہے روح کو تحلیل کر دینے والے درد و تکلیف کے ساتھ زخموں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے وہ وقت دور نہیں جب یہ پھنسیاں مجھے ہلاکت کے قریب پہنچادیں۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب عیش و مسرت ، راحت و عافیت میں زندگی بسر ہوتی تھی اب محبوس و قریبِ ہلاکت ہوں ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ میں محسود خلائق، غنی تھا اور صحیح و سالم تھا اور اب اپاہچ وزخمی ہوں بڑی سخت مصیبتیں اورصعوبتیں جھیلنا پڑ رہی ہیں ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جس طرح لکڑی اور پٹی کا بوجھ اٹھاتی ہیں اسی طرح ہم بھی ناقابل برداشت تکلیفیں اٹھا رہے ہیں
(جنگِ آزادی میں علماء اہلِ سنت کا کردار صفحہ۲۰)
لیکن اس کے بعد والا جملہ سنئے : لیکن اپنے رب عزیز ورحیم ، رؤف وکریم کی رحمت سے نا امیدنہیں ہوں وہی تو جابر فرعونوں سے عاجز ضعیفوں کو نجات دلاتا ہے ، وہی تو زخمی مظلوموں کے زخموں کو اپنے رحم وکرم کے مرہم سے بھر دیتا ہے وہ ہر سرکش کے لئے جَبّار و قَہّار ہے، ہر ٹوٹے ہوئے دل کا جوڑنے والا ہے، ہر نقصان رسیدہ فقیر کو کامیاب بنانے والا ہے ، اسی نے حضرت نوح علیہ السلام کو ڈوبنے سے بچایا، اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ کی تپش اور حرارت سے بچایا ، اس نے حضرت ایوب علیہ السلام کو صبر عطا فرمایا اور مرض و مصیبت سے نجات دیا ، اس نے حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ و سلامت رکھا ، اسی نے بنی اسرائیل کو تباہی و بربادی سے نجات دی ، اسی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام و حضرت ہارون علیہ السلام کو ہامان و فرعون و قارون پر اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اور اپنے حبیب صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کو کفار کے دجل و فریب پر غالب کیا
پھر اگر مجھے مشقتوں، مصیبتوں ، حوادثات اور گناہوں نے گھیر لیا ہے تو اس کی رحمت و فضل سے مَیں کیوں مایوس ہوں ؟ وہی میرا رب شافی و کافی ہے، میرے گناہوں پر پردہ ڈالنے والا ہے میرے گناہوں کو معاف فرمانے والا ہے، بہت بیمار ایسے ہیں جو موت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں لیکن وہ انہیں شفا دے دیتا ہے، بہت سارے خطا کار ایسے ہیں جب توبہ کرتے ہیں وہ انہیں معاف کر دیتا ہے، بہت سارے دردمند دل جب اس کو مصیبتوں میں پکارتے ہیں تو وہ انہیں نجات دے دیتا ہے، بہت سارے قیدی ایسے ہوتے ہیں جوزنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ کرم فرماتا ہے بغیر فدیہ دیئے وہ آزاد ہو جاتے ہیں
(مرجع سابق، ص ۸۱ تا ۸۳)
اب ایک آخری جملہ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کا آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں اسےسماعت کریں، کہتے ہیں: میں بھی مظلوم و دل شکستہ اور مضطر اور مسکین اور ذلیل اور محتاج بن کر اسی خدائے برتر کو پکارتا ہوں (لیکن کیسے پکارتا ہوں) اس کے حبیب صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کو وسیلہ بنا کر پکارتا ہوں ، اور اس کی رحمت سے امیدیں لگائے ہوئے ہوں غرض یہ ساری داستان جو علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے بیان فرمایا یہ تصویر کا ایک رخ آپ نے دیکھا ہے کہ ہمارے علماء نے انگریزوں کے خلاف کیسے کیسے کارنامے انجام دئے ہیں انہیں بھگانے کے لئے کتنی ساری کوششیں اور کاوشیں کی ہیں۔ اب تصویر کا دوسرا رُخ بھی دیکھئے اور وہ بھی دیکھنے کے قابل ہے اس لئے کہ اگر انسان کسی چیز کا ایک ہی رُخ دیکھے تو اس کا دیکھنا مکمل نہیں ہوتا ہے دونوں رُخ دیکھنا ہمیں ضروری ہوتا ہے ، وہ دوسرا رخ کیا ہے؟ جب انگریزوں نےہندوستان پر قبضہ کر لیا اس وقت ایک انگریز سالار تھالارڈ میکالے، اس نے ایک بات کہی تھی ، کہ: ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہئے جو ہم میں اور ہماری کروڑوں رعایا کے درمیان مترجّم ہو (ہماری باتیں ان تک پہنچانے والی ہو اور یہ جماعت کیسی ہونی چاہئے اس کو خاص طور سے سنیں ، وہ کہتا ہے ) یہ ایسی جماعت ہونی چاہئے جو خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر رائے، زبان اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو
(سوانح علامہ خیر آبادی:
مصنفه:مولانا عبدالشاہد خان شیروانی ص ۲۳۵،
جنگ آزادی میں علمائے اہلِ سنت کا کردار ص ٢١ تا ٢٢)
اللّٰه(عزوجل)
پیارےمحبوبﷺو
انبیاۓِکرام(علیھم السّلام)و
صحابہ کرام(علیھم الرضوان)و اولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه)کےصدقےمیں
میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے(آمین)
جملہ مؤمنین و مومنات کے لئے مغفرت کی دعا کی التجاء ہے
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
طالبِ دعا
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبد الوحید قادری
شاہ پور بلگام کرناٹک
نوٹ:-
ٹائپنگ(لکھنے)میں اگر کوئی غلطی پائیں تو فورًا مطّلع فرمائیں نوازش ہوگی