ناموسِ رسالت ﷺ میں بے ادبی و جرأت اور علماے دیوبند
علمی وتحقیقی مطالعہ کی روشنی میں قسط-3
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- غلام مصطفیٰ رضوی نوری مشن، مالیگاؤں
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
تھانوی صاحب کو مسندِ نبوت پر بٹھانے کی کوشش:
خواب کی الگ ہی دُنیا ہوتی ہے؛ لیکن یہ بھی کتنا بڑا المیہ ہے کہ کوئی خواب میں تھانوی صاحب کا کلمہ پڑھے! پھربیداری میں تھانوی صاحب کا نام درود میں لے۔ پھر تعجب کا لمحہ یہ کہ تھانوی صاحب تائید و تسلّی کی سوغات نذر کریں- حیرت بھی محو حیرت کہ خواب و بیداری کے احوال تحریری شکل میں پیش ہو!! پھر اُسے اشاعت سے مزین کیا جائے!! یہ شعور میں تہ در تہ بیٹھے ہوئے عقیدے کی لہریں ہی تو ہیں؛ جس کا اظہار خواب میں اور پھر حالتِ بیداری میں لفظوں کے پیرہن میں ہو رہا ہے۔
تھانوی صاحب کے مرید نے انہیں ایک مکتوب ارسال کیا اور اس میں اپنے ایک خواب کا تذکرہ کیا کہ میں نے خواب میں کلمہ طیبہ پڑھنے کی کوشش کی، لیکن ہر دفعہ منھ سے یہی نکلتا ہے: لا الٰہ الا اللہ اشرف علی رسول اللہ (لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللّٰہ) صرف خواب ہی میں یہ کیفیت نہیں، بیدار ہونے کے بعد بھی وہ تھانوی صاحب ہی کا کلمہ پڑھتا ہے۔
واقعہ خواب بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے:
اتنے میں بندہ خواب سے بیدار ہو گیا، لیکن بدن میں بدستور بے حسی تھی اور وہ اثر ناطاقتی بھی بدستور تھا، لیکن حالتِ خواب اور بیداری میں حضور (تھانوی صاحب) کا ہی خیال تھا، لیکن حالتِ بیداری میں کلمہ شریف کی غلطی پر جب خیال آیا تو اس بات کا ارادہ ہوا کہ اس خیال کو دل سے دور کیا جائے، بہ ایں خیال بندہ بیٹھ گیا اور پھر دوسری کروٹ لیٹ کر کلمہ شریف کی غلطی کے تدارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتا ہوں، لیکن پھر بھی یہی کہتا ہوں اللّٰہم صلِ علٰی سیدنا ونبینا ومولانا اشرف علی حالانکہ اب بیدار ہوں، خواب میں نہیں، لیکن بے اختیار ہوں، مجبور ہوں، زبان اپنے قابو میں نہیں۔
(رسالہ الامداد، مطبوعہ تھانہ بھون، بابت شوال ۱۳۳۵ھ، ص۳۴)
اسے کہتے ہیں غلبۂ عقیدت کا فتور کہ مرید کی زبان پیرو مرشد کی گستاخی میں بے قابو نہیں ہوتی، بے قابو ہوتی ہے تو اپنے مرشد کو منصبِ نبوت پر بٹھانے میں ہوتی ہے۔ اس واقعے کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ ’’پیرِ مغاں‘‘ اس صریح کلمۂ کفر پر اپنے مرید کو سرزنش کرنے کی بجائے ان کلمات سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں:
اس واقعہ میں تسلی تھی کہ جس کی طرف تم رجوع کرتے ہو وہ بعونہٖ تعالیٰ متبعِ سنت ہے۔
(رسالہ الامداد، مطبوعہ تھانہ بھون، بابت شوال ۱۳۳۵ھ، ص۳۴)
مرید کی عقیدت کے غلو کی جس طرح تائید کی گئی ہے اس میں دوسرے مریدین کے لیے کتنے اشارے مضمر ہیں؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، مانا کہ مرید کے غلو پر زبان کے بے قابو ہونے کا پردہ ڈال دیا گیا ہے، لیکن یہ سوال تو اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ پیرِ مغاں کا قلم تو قابو میں تھا، انہوں نے مسندِ افتا پر بیٹھ کر کلمۂ کفر کہنے پر مرید کی تائید کیوں کی؟ اسے توبہ کی تلقین کیوں نہ کی…؟
اس افسوس ناک واقعے پر بیگانے تو بیگانے اپنے بھی چیخ اٹھے، دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ کے رُکن مولانا احمد سعید اکبر آبادی اپنے ماہ نامہ ’’برہان‘‘ دہلی میں تھانوی صاحب سے متعلق لکھتے ہیں:
اپنے معاملات میں تاویل و توجیہہ اور اغماض و مسامحت (چشم پوشی) کرنے کی (مولانا تھانوی) میں جو خٗو تھی اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی مرید نے مولانا کو لکھا (اس کے بعد واقعۂ خواب بیان کر کے لکھتے ہیں) ظاہر ہے اس کا صاف اور سیدھا جواب یہ تھا کہ یہ کلمۂ کفر ہے، شیطان کا فریب اور نفس کا دھوکہ ہے، تم فوراً توبہ کرو اور استغفار کرو، لیکن مولانا تھانوی صرف یہ فرما کر بات آئی گئی کر دیتے ہیں کہ تم کو مجھ سے غایت محبت ہے، یہ کچھ اسی (چشم پوشی) کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔
(برہان فروری ۱۹۵۲ء، ص۱۰۷)
مشہور صحافی مولانا ظفر علی خاں نے یہی واقعہ اہلِ حدیث امرتسر کے شمارہ ۲۵ ؍جنوری ۱۹۱۸ء میں پڑھا تو وہ تڑپ اٹھے اور ’’ستارۂ صبح‘‘ میں ایک (مقام پر) تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا:
قادیان تھانہ بھون میں
پیغمبر بہر خانہ، نبوت بہر بازار
اس … میں انہوں نے تحریر کیا:
قادیان نے اخبار فاروق کے ذریعہ سے اعلان کیا ہے کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے دروازے کو بند کرنے والے نہیں ہیں، بلکہ اس فیضان خداوندی کو جاری کرنے والے ہیں اور دوسرے رسول تو صرف مومنوں کے روحانی باپ ہیں، مگر حضور انور علاوہ اس کے خاتم النبیین بھی ہیں، یعنی آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور آپ کے فیضِ تعلیم سے منصبِ نبوت ہو سکتا ہے۔‘‘
تھانہ بھون (ضلع مظفر گڑھ) نے قادیان کے اس متن متین کی شرح کی ہے اور عملی شرح کی ہے۔
اس کے بعد مرید کے خواب اور تھانوی صاحب کا جواب نقل کر کے مولانا ظفر علی خاں لکھتے ہیں:
اگر یہ سوال و جواب صحیح ہے اور بظاہر اس کو صحیح نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں تو کیا اسلام کے لیے یہ ایک ’’عجیب و غریب فتنہ‘‘ نہیں ہے جسے الامداد نے سوتے سے بیدار کیا ہے، یہ فتویٰ خود حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب دیں گے کہ فتنہ کو بیدار کرنے والے کی نسبت حدیث نبوی میں کیا حکم ہے؟
(رسالہ فتنہ عجیب، ص۸-۶، شائع کردہ مشتاق احمد چشتی ، راولپنڈی)
اب آپ خود ہی سوچ لیں کہ تبلیغی جماعت جو تھانوی صاحب کی تعلیمات کی اشاعت ہی کے لیے قائم کی گئی ہے، آپ کو کہاں لے جائے گی؟
(تبلیغی جماعت!ایک تعارف، مطبوعہ مالیگاؤں،صفحہ۶۔۸)
تھانوی صاحب کی اِس روش سے قادیانیت کو کیسا فائدہ پہنچ سکتا ہے اس کا اندازہ قارئین بہ آسانی کر سکتے ہیں۔ مزید ایسے انکشافات بھی ملتے ہیں جن سے قادیانی کے تئیں وابستگی کے پختہ ثبوت بہم ہوتے ہیں۔ علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری کے تبصرے کے ساتھ چند دلائل ملاحظہ فرمائیں:
مرزائے قادیانی سے استفادہ:
پاکستان کے ایک قلم کار عبداللہ ایمن زئی نے کمالاتِ اشرفیہ (مذہبی دنیا میں زلزلہ) کے عنوان سے پچاس صفحات کا ایک رسالہ لکھا اور شائع کیا ہے، جس میں اس نے تھانوی صاحب کی کتاب ’’احکام اسلام عقل کی نظر میں‘‘ کا تجزیہ بڑی دیدہ وری سے کیا ہے، اس کا بیان ہے:
مئی ۱۹۸۳ء کے سخت گرم دنوں میں ایک صاحبِ علم نے بعض عجیب و غریب اور حیرت ناک انکشافات کر کے موسم کو گرم تر بنا دیا۔ یہ ایسے انکشافات ہیں جن سے مذہبی دنیا میں زلزلہ برپا ہو جائے گا۔
انکشافات کے مطابق دیوبندی مکتبِ فکر کے سب سے بڑے عالم اور دیوبندیوں کے پیشوا مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی مشہور و معروف کتاب ’’احکام اسلام عقل کی نظر میں‘‘ ایک ایسی پُر معارف تصنیف ہے جس کے اسرار و معارف مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی مختلف اور متعدد کتابوں سے نقل کئے گئے ہیں، مگر کسی ایک جگہ بھی مرزا صاحب کا نام یا ان کی کتاب کا حوالہ درج نہیں کیا گیا۔
زیر نظر رسالہ کے مرتب (عبداللہ ایمن زئی) کو پہلے اس دعوے یا انکشاف پر یقین نہ آیا اور خیال ہوا کہ محض مذہب دشمنی کی بنا پر حضرت تھانوی پر الزام لگا دیا گیا ہے۔ مگر جب حضرت تھانوی اور مرزا صاحب کی کتابوں کو سامنے رکھ کر مقابلہ کیا تو یہ الزام سو فیصد درست اور صحیح پایا۔ عقل دنگ رہ گئی کہ اپنے زمانے کا اتنا بڑا عالم جس نے لاکھوں انسانوں کو علم دین پڑھایا وہ اپنی کتاب ’’احکام اسلام عقل کی نظر میں‘‘ لکھتے ہوئے اتنا بے بس ہو گیا کہ روحانی معارف بیان کرنے کے لئے اسے مرزا صاحب کی کتابوں کا سہارا لینا پڑا جن کے کفر کے بارے میں خود حضرت تھانوی کا فتویٰ موجود ہے۔
(کمالاتِ اشرفیہ، عبداللہ ایمن زئی، مکتبہ اور سن طبع ندارد)
مولانا شاہ حسین گردیزی لکھتے ہیں:
مولانا اشرف علی تھانوی جو دیوبندی مکتبِ فکر کے دوسرے درجہ کے اکابر میں آتے ہیں، مرزا قادیانی کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے، اور پھر ان ہی کی وجہ سے ان کے خلیفہ مولانا عبدالماجد دریا آبادی بھی قادیانیوں کو خارج از اسلام تصور نہیں کرتے تھے، مولانا تھانوی نے تو مرزا قادیانی کی مختلف کتابوں کی بعض عبارات اپنی کتابوں میں من و عن نقل کی ہیں، ہم مزید تحقیق تو اہلِ تحقیق کے سپرد کرتے ہیں۔ اس وقت مولانا تھانوی کی ایک کتاب ’’المصلح العقلیہ للاحکام النقلیۃ‘‘ زیر نظر ہے (جس کا اردو نام ’’احکام اسلام عقل کی نظر میں‘‘ ہے) ہم دونوں حوالے پیش کرتے ہیں اور فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ خنزیر کی وجہِ حرمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مرزا قادیانی: اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ نجاست خور اور تیز بے عزت اور دیوث ہے۔ اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانونِ قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بدجانور کے گوشت کا اثر بھی بدن اور روح پر بھی پلید ہی ہو کیوں کہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذاؤں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہوتا ہے۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بدکا اثر بھی بد ہی پڑے گا۔ جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوثی کو بڑھاتا ہے۔
(غلام احمد قادیانی مرزا، اسلامی اصول کی فلاسفی، ص۲۴)
مولانا تھانوی: اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خوار ہے بے غیرت و دیوث ہے۔ اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بدن اور روح پر بھی پلید ہی ہوگا۔ کیوں کہ یہ بات ثابت شدہ اور مسلم ہے کہ غذاؤں کا اثر بھی انسان کی روح پر ضرور ہوتا ہے۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بدکا اثر بھی بد ہی ہوگا۔ جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصہ حیا کی قوت کو کم کر دیتا ہے اور دیوثاتی کو بڑھاتا ہے-
(اشرف علی تھانوی مولانا،المصلح العقلیہ للاحکام النقلیۃ، ص۲۰۹)
(تجلیات ِمہرِ انور، مکتبہ مہریہ گولڑا شریف ۱۹۹۲ء، ص۵۵۳)
جناب شیدا جعفری ’’مقدمہ عوامی عدالت میں‘‘ کا عنوان قائم کر کے لکھتے ہیں:
جس طرح علامہ اقبال ؔ اپنے کلام میں مولانا جلال الدین رومیؔ کے ترجمان نظر آتے ہیں، قارئین کرام جان سکتے ہیں کہ مولانا اشرف علی تھانوی اپنی اس حرکت سے مرزا غلام احمد قادیانی کے ترجمان دکھائی دیتے ہیں، ثبوت یہ بھی ہے کہ کمالاتِ اشرفیہ کے مرتب میرزائی ہیں اور مولانا اشرف علی تھانوی کے معترف نظر آتے ہیں، راقم الحروف نے ذاتی طور پر تحقیق کر لی ہے کہ حوالے بالکل درست ہیں۔
شیدا ؔجعفری
(کمالاتِ اشرفیہ کے ٹائٹل کی پشت)
(تبلیغی جماعت! ایک تعارف، مطبوعہ مالیگاؤں،صفحہ۱۱۔۱۳)
خیالات کے سوتے اگر خشک نہیں ہوئے ہوں گے اور سوچنے سمجھنے کا مادہ باقی ہوگا تو دل کی گہرائی سے اِس بات پر غور کریں کہ کیا اِس طرح کے عقائد و افکار دین کی خدمت ہیں یا ’’تخریب کاری‘‘، یہی وہ دل آزار عبارتیں ہیں جن کی بنیاد پر ’’اتحاد‘‘ کی فضا خراب ہوئی۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ایک بندۂ مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تمام سے اپنا رشتۂ محبت استوار رکھے جو رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتے ہیں، ان کی بے ادبی پر بے چین ہو جاتے ہیں، عشقِ رسول ﷺ کم کرنے والے محرکات پر تڑپ اُٹھتے ہیں۔ پھر چاہے گستاخی کا زہر ’’مولانا‘‘ کی تحریر سے برآمد ہو یا ’’اسکالر‘‘ کی گفتگو سے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا جن جرأتوں پر ’’رشدی‘‘ و "تسلیمہ نسرین" سے ہم بیزار و متنفر ہیں اُنھیں طرز کی بلکہ اُن سے شدید ’’مولوی‘‘ کی جسارتوں اور گستاخیوں پر ہمارے تیور کیسے ہوں گے؟
(جاری.....)
تھانوی صاحب کو مسندِ نبوت پر بٹھانے کی کوشش:
خواب کی الگ ہی دُنیا ہوتی ہے؛ لیکن یہ بھی کتنا بڑا المیہ ہے کہ کوئی خواب میں تھانوی صاحب کا کلمہ پڑھے! پھربیداری میں تھانوی صاحب کا نام درود میں لے۔ پھر تعجب کا لمحہ یہ کہ تھانوی صاحب تائید و تسلّی کی سوغات نذر کریں- حیرت بھی محو حیرت کہ خواب و بیداری کے احوال تحریری شکل میں پیش ہو!! پھر اُسے اشاعت سے مزین کیا جائے!! یہ شعور میں تہ در تہ بیٹھے ہوئے عقیدے کی لہریں ہی تو ہیں؛ جس کا اظہار خواب میں اور پھر حالتِ بیداری میں لفظوں کے پیرہن میں ہو رہا ہے۔
تھانوی صاحب کے مرید نے انہیں ایک مکتوب ارسال کیا اور اس میں اپنے ایک خواب کا تذکرہ کیا کہ میں نے خواب میں کلمہ طیبہ پڑھنے کی کوشش کی، لیکن ہر دفعہ منھ سے یہی نکلتا ہے: لا الٰہ الا اللہ اشرف علی رسول اللہ (لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللّٰہ) صرف خواب ہی میں یہ کیفیت نہیں، بیدار ہونے کے بعد بھی وہ تھانوی صاحب ہی کا کلمہ پڑھتا ہے۔
واقعہ خواب بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے:
اتنے میں بندہ خواب سے بیدار ہو گیا، لیکن بدن میں بدستور بے حسی تھی اور وہ اثر ناطاقتی بھی بدستور تھا، لیکن حالتِ خواب اور بیداری میں حضور (تھانوی صاحب) کا ہی خیال تھا، لیکن حالتِ بیداری میں کلمہ شریف کی غلطی پر جب خیال آیا تو اس بات کا ارادہ ہوا کہ اس خیال کو دل سے دور کیا جائے، بہ ایں خیال بندہ بیٹھ گیا اور پھر دوسری کروٹ لیٹ کر کلمہ شریف کی غلطی کے تدارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتا ہوں، لیکن پھر بھی یہی کہتا ہوں اللّٰہم صلِ علٰی سیدنا ونبینا ومولانا اشرف علی حالانکہ اب بیدار ہوں، خواب میں نہیں، لیکن بے اختیار ہوں، مجبور ہوں، زبان اپنے قابو میں نہیں۔
(رسالہ الامداد، مطبوعہ تھانہ بھون، بابت شوال ۱۳۳۵ھ، ص۳۴)
اسے کہتے ہیں غلبۂ عقیدت کا فتور کہ مرید کی زبان پیرو مرشد کی گستاخی میں بے قابو نہیں ہوتی، بے قابو ہوتی ہے تو اپنے مرشد کو منصبِ نبوت پر بٹھانے میں ہوتی ہے۔ اس واقعے کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ ’’پیرِ مغاں‘‘ اس صریح کلمۂ کفر پر اپنے مرید کو سرزنش کرنے کی بجائے ان کلمات سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں:
اس واقعہ میں تسلی تھی کہ جس کی طرف تم رجوع کرتے ہو وہ بعونہٖ تعالیٰ متبعِ سنت ہے۔
(رسالہ الامداد، مطبوعہ تھانہ بھون، بابت شوال ۱۳۳۵ھ، ص۳۴)
مرید کی عقیدت کے غلو کی جس طرح تائید کی گئی ہے اس میں دوسرے مریدین کے لیے کتنے اشارے مضمر ہیں؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، مانا کہ مرید کے غلو پر زبان کے بے قابو ہونے کا پردہ ڈال دیا گیا ہے، لیکن یہ سوال تو اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ پیرِ مغاں کا قلم تو قابو میں تھا، انہوں نے مسندِ افتا پر بیٹھ کر کلمۂ کفر کہنے پر مرید کی تائید کیوں کی؟ اسے توبہ کی تلقین کیوں نہ کی…؟
اس افسوس ناک واقعے پر بیگانے تو بیگانے اپنے بھی چیخ اٹھے، دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ کے رُکن مولانا احمد سعید اکبر آبادی اپنے ماہ نامہ ’’برہان‘‘ دہلی میں تھانوی صاحب سے متعلق لکھتے ہیں:
اپنے معاملات میں تاویل و توجیہہ اور اغماض و مسامحت (چشم پوشی) کرنے کی (مولانا تھانوی) میں جو خٗو تھی اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی مرید نے مولانا کو لکھا (اس کے بعد واقعۂ خواب بیان کر کے لکھتے ہیں) ظاہر ہے اس کا صاف اور سیدھا جواب یہ تھا کہ یہ کلمۂ کفر ہے، شیطان کا فریب اور نفس کا دھوکہ ہے، تم فوراً توبہ کرو اور استغفار کرو، لیکن مولانا تھانوی صرف یہ فرما کر بات آئی گئی کر دیتے ہیں کہ تم کو مجھ سے غایت محبت ہے، یہ کچھ اسی (چشم پوشی) کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔
(برہان فروری ۱۹۵۲ء، ص۱۰۷)
مشہور صحافی مولانا ظفر علی خاں نے یہی واقعہ اہلِ حدیث امرتسر کے شمارہ ۲۵ ؍جنوری ۱۹۱۸ء میں پڑھا تو وہ تڑپ اٹھے اور ’’ستارۂ صبح‘‘ میں ایک (مقام پر) تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا:
قادیان تھانہ بھون میں
پیغمبر بہر خانہ، نبوت بہر بازار
اس … میں انہوں نے تحریر کیا:
قادیان نے اخبار فاروق کے ذریعہ سے اعلان کیا ہے کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے دروازے کو بند کرنے والے نہیں ہیں، بلکہ اس فیضان خداوندی کو جاری کرنے والے ہیں اور دوسرے رسول تو صرف مومنوں کے روحانی باپ ہیں، مگر حضور انور علاوہ اس کے خاتم النبیین بھی ہیں، یعنی آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور آپ کے فیضِ تعلیم سے منصبِ نبوت ہو سکتا ہے۔‘‘
تھانہ بھون (ضلع مظفر گڑھ) نے قادیان کے اس متن متین کی شرح کی ہے اور عملی شرح کی ہے۔
اس کے بعد مرید کے خواب اور تھانوی صاحب کا جواب نقل کر کے مولانا ظفر علی خاں لکھتے ہیں:
اگر یہ سوال و جواب صحیح ہے اور بظاہر اس کو صحیح نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں تو کیا اسلام کے لیے یہ ایک ’’عجیب و غریب فتنہ‘‘ نہیں ہے جسے الامداد نے سوتے سے بیدار کیا ہے، یہ فتویٰ خود حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب دیں گے کہ فتنہ کو بیدار کرنے والے کی نسبت حدیث نبوی میں کیا حکم ہے؟
(رسالہ فتنہ عجیب، ص۸-۶، شائع کردہ مشتاق احمد چشتی ، راولپنڈی)
اب آپ خود ہی سوچ لیں کہ تبلیغی جماعت جو تھانوی صاحب کی تعلیمات کی اشاعت ہی کے لیے قائم کی گئی ہے، آپ کو کہاں لے جائے گی؟
(تبلیغی جماعت!ایک تعارف، مطبوعہ مالیگاؤں،صفحہ۶۔۸)
تھانوی صاحب کی اِس روش سے قادیانیت کو کیسا فائدہ پہنچ سکتا ہے اس کا اندازہ قارئین بہ آسانی کر سکتے ہیں۔ مزید ایسے انکشافات بھی ملتے ہیں جن سے قادیانی کے تئیں وابستگی کے پختہ ثبوت بہم ہوتے ہیں۔ علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری کے تبصرے کے ساتھ چند دلائل ملاحظہ فرمائیں:
مرزائے قادیانی سے استفادہ:
پاکستان کے ایک قلم کار عبداللہ ایمن زئی نے کمالاتِ اشرفیہ (مذہبی دنیا میں زلزلہ) کے عنوان سے پچاس صفحات کا ایک رسالہ لکھا اور شائع کیا ہے، جس میں اس نے تھانوی صاحب کی کتاب ’’احکام اسلام عقل کی نظر میں‘‘ کا تجزیہ بڑی دیدہ وری سے کیا ہے، اس کا بیان ہے:
مئی ۱۹۸۳ء کے سخت گرم دنوں میں ایک صاحبِ علم نے بعض عجیب و غریب اور حیرت ناک انکشافات کر کے موسم کو گرم تر بنا دیا۔ یہ ایسے انکشافات ہیں جن سے مذہبی دنیا میں زلزلہ برپا ہو جائے گا۔
انکشافات کے مطابق دیوبندی مکتبِ فکر کے سب سے بڑے عالم اور دیوبندیوں کے پیشوا مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی مشہور و معروف کتاب ’’احکام اسلام عقل کی نظر میں‘‘ ایک ایسی پُر معارف تصنیف ہے جس کے اسرار و معارف مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی مختلف اور متعدد کتابوں سے نقل کئے گئے ہیں، مگر کسی ایک جگہ بھی مرزا صاحب کا نام یا ان کی کتاب کا حوالہ درج نہیں کیا گیا۔
زیر نظر رسالہ کے مرتب (عبداللہ ایمن زئی) کو پہلے اس دعوے یا انکشاف پر یقین نہ آیا اور خیال ہوا کہ محض مذہب دشمنی کی بنا پر حضرت تھانوی پر الزام لگا دیا گیا ہے۔ مگر جب حضرت تھانوی اور مرزا صاحب کی کتابوں کو سامنے رکھ کر مقابلہ کیا تو یہ الزام سو فیصد درست اور صحیح پایا۔ عقل دنگ رہ گئی کہ اپنے زمانے کا اتنا بڑا عالم جس نے لاکھوں انسانوں کو علم دین پڑھایا وہ اپنی کتاب ’’احکام اسلام عقل کی نظر میں‘‘ لکھتے ہوئے اتنا بے بس ہو گیا کہ روحانی معارف بیان کرنے کے لئے اسے مرزا صاحب کی کتابوں کا سہارا لینا پڑا جن کے کفر کے بارے میں خود حضرت تھانوی کا فتویٰ موجود ہے۔
(کمالاتِ اشرفیہ، عبداللہ ایمن زئی، مکتبہ اور سن طبع ندارد)
مولانا شاہ حسین گردیزی لکھتے ہیں:
مولانا اشرف علی تھانوی جو دیوبندی مکتبِ فکر کے دوسرے درجہ کے اکابر میں آتے ہیں، مرزا قادیانی کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے، اور پھر ان ہی کی وجہ سے ان کے خلیفہ مولانا عبدالماجد دریا آبادی بھی قادیانیوں کو خارج از اسلام تصور نہیں کرتے تھے، مولانا تھانوی نے تو مرزا قادیانی کی مختلف کتابوں کی بعض عبارات اپنی کتابوں میں من و عن نقل کی ہیں، ہم مزید تحقیق تو اہلِ تحقیق کے سپرد کرتے ہیں۔ اس وقت مولانا تھانوی کی ایک کتاب ’’المصلح العقلیہ للاحکام النقلیۃ‘‘ زیر نظر ہے (جس کا اردو نام ’’احکام اسلام عقل کی نظر میں‘‘ ہے) ہم دونوں حوالے پیش کرتے ہیں اور فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ خنزیر کی وجہِ حرمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مرزا قادیانی: اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ نجاست خور اور تیز بے عزت اور دیوث ہے۔ اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانونِ قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بدجانور کے گوشت کا اثر بھی بدن اور روح پر بھی پلید ہی ہو کیوں کہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذاؤں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہوتا ہے۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بدکا اثر بھی بد ہی پڑے گا۔ جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوثی کو بڑھاتا ہے۔
(غلام احمد قادیانی مرزا، اسلامی اصول کی فلاسفی، ص۲۴)
مولانا تھانوی: اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خوار ہے بے غیرت و دیوث ہے۔ اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بدن اور روح پر بھی پلید ہی ہوگا۔ کیوں کہ یہ بات ثابت شدہ اور مسلم ہے کہ غذاؤں کا اثر بھی انسان کی روح پر ضرور ہوتا ہے۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بدکا اثر بھی بد ہی ہوگا۔ جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصہ حیا کی قوت کو کم کر دیتا ہے اور دیوثاتی کو بڑھاتا ہے-
(اشرف علی تھانوی مولانا،المصلح العقلیہ للاحکام النقلیۃ، ص۲۰۹)
(تجلیات ِمہرِ انور، مکتبہ مہریہ گولڑا شریف ۱۹۹۲ء، ص۵۵۳)
جناب شیدا جعفری ’’مقدمہ عوامی عدالت میں‘‘ کا عنوان قائم کر کے لکھتے ہیں:
جس طرح علامہ اقبال ؔ اپنے کلام میں مولانا جلال الدین رومیؔ کے ترجمان نظر آتے ہیں، قارئین کرام جان سکتے ہیں کہ مولانا اشرف علی تھانوی اپنی اس حرکت سے مرزا غلام احمد قادیانی کے ترجمان دکھائی دیتے ہیں، ثبوت یہ بھی ہے کہ کمالاتِ اشرفیہ کے مرتب میرزائی ہیں اور مولانا اشرف علی تھانوی کے معترف نظر آتے ہیں، راقم الحروف نے ذاتی طور پر تحقیق کر لی ہے کہ حوالے بالکل درست ہیں۔
شیدا ؔجعفری
(کمالاتِ اشرفیہ کے ٹائٹل کی پشت)
(تبلیغی جماعت! ایک تعارف، مطبوعہ مالیگاؤں،صفحہ۱۱۔۱۳)
خیالات کے سوتے اگر خشک نہیں ہوئے ہوں گے اور سوچنے سمجھنے کا مادہ باقی ہوگا تو دل کی گہرائی سے اِس بات پر غور کریں کہ کیا اِس طرح کے عقائد و افکار دین کی خدمت ہیں یا ’’تخریب کاری‘‘، یہی وہ دل آزار عبارتیں ہیں جن کی بنیاد پر ’’اتحاد‘‘ کی فضا خراب ہوئی۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ایک بندۂ مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تمام سے اپنا رشتۂ محبت استوار رکھے جو رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتے ہیں، ان کی بے ادبی پر بے چین ہو جاتے ہیں، عشقِ رسول ﷺ کم کرنے والے محرکات پر تڑپ اُٹھتے ہیں۔ پھر چاہے گستاخی کا زہر ’’مولانا‘‘ کی تحریر سے برآمد ہو یا ’’اسکالر‘‘ کی گفتگو سے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا جن جرأتوں پر ’’رشدی‘‘ و "تسلیمہ نسرین" سے ہم بیزار و متنفر ہیں اُنھیں طرز کی بلکہ اُن سے شدید ’’مولوی‘‘ کی جسارتوں اور گستاخیوں پر ہمارے تیور کیسے ہوں گے؟
(جاری.....)