Type Here to Get Search Results !

کامیابی کے تعلق‌ سے چند‌ معروضات!

کامیابی کے تعلق‌ سے چند‌ معروضات!
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کامیابی کسی ٹھہراؤ کا نام نہیں ہے۔
بلکہ کامیابی ایک خاص بہاؤ کو کہتے ہیں۔
جو ضبط و تکنیک کے ساتھ، بغیر افراط و تفریط کے،ایک طرح پر، رواں دواں رہنے اور ایک کے بعد ایک درجہ ترقی کرنے کا طلب گار ہے۔ اس لیے تو کسی کامیاب شخص کو نہیں دیکھا ہوگا کہ وہ مختصر کوشش کے بعد، تھک ہار کر، مستقلاً کسی منزل پر پڑاؤ ڈال دیا ہو۔
سُستانے کے لیے ضرور چند ثانیے یا چند عرصے وقفہ کرتا ہے۔ مگر تراش خراش کرکے زیادہ تر وقت، خود کو چمکانے میں ہی بِتاتا ہے۔ تبھی تو ان کی سوچ وفکر کا گھوڑا سرپٹ دوڑتا ہے۔ اور زمانہ حیرت انگیز نگاہوں سے انھیں تکتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال فرماتے ہیں:-؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں 
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تو شـــاہیں ہے پـــــرواز ہے کام تیــرا 
تـــــرے ســامنے آسماں اور بھی ہیں
کامیابی کا معیار:
کامیابی کو کمیت و کیفیت اور چھوٹے و بڑے ہونے کے معیار سے پرکھنا مناسب نہیں ہے، بلکہ ہر کامیابی ایک مخصوص وقت میں، محدود پیمانے پر، اس کے حاصل کرنے والے افراد کے زاویۂ نظر سے بہت بڑی ہوتی ہے۔ پھر جوں جوں عمر کے اندر پختگی آتی ہے تو اب وہی Achievement ( کامیابی) دوسرے شخص کے پانے پر، پہلے فرد کے لیے کم ترین درجے کا معلوم ہوتاہے۔ یعنی چیزیں اکثر وہی رہتی ہیں بس زمانے کے تقاضوں کے حساب سے ہماری سوچ و فکر کا قبلہ بدلتا رہتا ہے۔ تو کامیابی ایک حال پر ٹکے رہنے کا نام نہیں ہے اور ناہی یہ چیز اس کے لیے موزوں ہے۔ بالفاظ دیگر یوں کہ لیں کہ Creativity and Innovation (تخلیقی صلاحیت اور جدت طرازی) کے اندر بنیادی خصوصیات وہی پائی جاتی ہیں، جب کہ اشیا ارتقائی دور کے اولین مرحلے میں تھیں۔نسلاً بعد نسلٍ، تھوڑی تھوڑی تغیرات آتی گئیں، چیزوں پر ملمع سازی ہوتی رہیں، اصطلاحات و تعبیرات بدل گئے اور دیکھیے زمانہ آج کس طلسماتی انداز میں، دنیاوی منظر نامے پر پوری رعونت کے ساتھ قائم ہے۔۔۔
کامیابی حاصل کرنے کا طریقہ:
کسی خاص منزل تک پہنچنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ہدف متعین کرلیں۔ مثال کے طور پر ہمیں سو تک گنتی یاد کرنی ہو تو اس کو دس حصوں میں منقسم کرلیں۔ اب آپ کا پہلا ہدف ایک سے دس تک گنتی ہے۔ جب فرسٹ ٹارگیٹ کو Chase کرلیں گے، تو یہ پہلی کامیابی ہے۔ اور یہ اس وقت آپ کے لیے بہت اہم ہے۔ کیوں کہ آپ نے صفر سے شروع کیا تھا۔ یوں اصل ہدف تک پہنچنے میں اب بھی آپ کو نو دفعہ مزید انرجی صرف کرنا بڑے گی، تب کہیں سو تک گنتی یاد ہوگی۔ مگر جس طرح سو کے ہندسے کو چھونے لینے سے نچلے اعداد کی اہمیت کم نہیں ہوجاتی ہے ویسے ہی ہر طرح کی کامیابی اپنی جگہ، خوب خوب اہمیت کا حامل ہے۔ اور اب آپ کو ایک حد تک کامیاب شخص کی گنتی میں شمار کیا جا سکتا ہے۔۔۔ 
کامیابی کی راہ پر غربت کا قہر:
اس مادّی دور میں کسی مقام و منصب تک رسائی پانے کے لیے Financially مضبوط ہونا کس قدر ضروری ہے وہ اہل نظر سے مخفی نہیں ہے۔ وہ پرانا دور تھا اور لوگ مخلص تھے، جب ملبوسات، ظاہرداری اور وضع قطع کے لحاظ سے، اتنے اچھے تو نہیں تھے (باطل نظریہ) مگر ہاں! دھن کے وہ پکے،باطن کے سچے اور انسانیت سے لبالب بھرے ہوتے تھے۔ تدریس کا مدرس بے لوث خادم تھا تو تعلیم کا متعلم بھی تحصیل علم کی خاطر جذبات سے لبریز تھا۔ تعلیم کی راہ میں کہیں سے کوئی روڑا اٹکانے والا نہ تھا۔ حکام رعایا گیری کے لیے فکر مند رہتا تو ملک میں، ہر جگہ امن و امان قائم تھا۔ یعنی زمانۂ ماضی کے ہر شعبے میں اکثر دین دار ہی بیٹھتے تھے تو معاشرتی سطح پر اس کا مثبت اثر دکھتا تھا۔ گذشتہ زمانے میں آج کے جتنے وسائل نہیں تھے وہ سادگی پسند اور سادہ مزاج لوگ تھے۔ اور آج ذرائع بڑھ گئے تو کرائم کی شرح بھی بڑھی ہوئی ہے، سوچنے پرکھنے کا زاویہ بدل گیا تو سماج، ننگ پن پر اتر آیا ہے۔ یہ دور مرعوبیت، تعصب پرستی، اخلاقی تنزلی، ذہنی پسماندگی، معاشرتی چشمک، انتہا پسندی اور ریا کاری سے بھرا ہوا دور ہے۔۔۔
سوال یہ ہے کہ اتنی ساری رکاوٹوں کے ہوتے ہوئے تعلیم و ترقی اور دیگر منصوبوں کی تکمیل کے لیے کیسے ہمت و حوصلہ جٹایا جائے؟ تو تصویر کے دوسرے رخ کی جانب غور کریں گے تو اعصابی قوت و توانائی کے اندر ضرور تحریک آئے گی۔ یاد رکھیں! دنیا، عالمِ اسباب اور رب تبارک وتعالٰی، مسبِّبُ الاسباب ہے۔اپنی عمر،صلاحیت اور وسعت و حیثیت کے مطابق وقت پر ذمہ داری سے کام کرتے جائیں۔ پروردگار عالم کسی نہ کسی راستے کی طرف، یقیناً یدایت و رہنمائی فرمائے گا:-؎
سرخ رو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد 
رنگ لاتی ہے حنا پتھـــر پہ پِس جــانے کے بعد
غلام محمد مست کلکتوی
اگر کسی کے دل و دماغ میں احساس کمتری اور مغلوبیت کا زہر، گھل مِل گیا ہے تو اس ضمن میں، فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ کی حالات زندگی کا مطالعہ کریں، یہ تریاق کا کام کرے گی۔
آپ کی تعلیم کا پہلا مرحلہ:
آپ نہایت ذہین اور اخاذ طبیعت کے مالک تھے۔ دس سال کی چھوٹی عمر اور ساڑھے تین برس کے اندر،حافظ قرآن ہوگئے تھے۔ لوگ آپ کو نابالغ حافظ کہتے، بلکہ دور کی آبادی والے حافظ کہنے میں بھی تأمل کرتے تھے۔ اردو لکھنا پڑھنا اور فارسی وغیرہ چند ابتدائی کتب، دورۂ حفظ سنانےکے دوران ہی مکمل کرلیا۔ حفظ قرآن کی تکمیل کے قریب، آپ کےجوان بھائی نظام الدین کا انتقال ہوگیا جو گھر بار سنبھالتے تھے۔ پھر آٹھ دس ماہ کے وقفے کے بعد گھر میں ایسی زبردست چوری ہوئی کہ پانی پینے کا گلاس تک چوروں نے نہ چھوڑا۔
پھر موسلا دھار بارش کے سبب آپ کے والدِ گرامی کی چھتری پر ایسی بجلی گری کہ تین آدمی فوراً مر گئے، آپ کے والد صاحب اگرچہ بچ گئے مگر کمزوری اتنی آگئی کہ وہ زیادہ کام کے قابل نہ رہے۔ آپ اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے۔پے درپے اتنے حادثات ہوئے کہ غربت و افلاس نے چاروں جوانب سے گھیرا بندی کرلیا یہاں تک کہ تعلیم کا جاری رکھنا نا ممکن سا ہوگیا۔ مگر والد بزرگوار نے نہ رکوایا۔ آخر آپ نے تنگ دستی کو دیکھ کر 10/ روپے ماہوار اس شرط کے ساتھ نوکری شروع کی کہ صبح وشام دو،دو گھنٹے پڑھنے جایا کروں گا۔ ایک سال یوں ہی گزارا۔ زمانے نے ایک اور ستم کیا کہ اب افراد خانہ اور متعلقین، تعلیم بند کرنے اور مستقل کام لگانے کی باتیں کرنے لگے آخر یہ مسلئہ آپ کے والد محترم نے آپ کے سامنے رکھا تو آپ نے تمام لوگو کو تعلیم جاری رکھنے پر راضی کرلیا۔ کیوں کہ بڑے بھائی محمد نظام الدین مرحوم نے انتقال سے پہلے کہا تھا کہ میری تمنا تھی کہ میں تمھیں پڑھنے کے لیے بریلی شریف بھیجتا اور تمھیں عالم دین بناتا مگر افسوس کہ میں اب زندہ نہ رہوں گا۔ آپ کو ان کی تمنا پوری کرنے کی لگن تھی اور پھر آپ کی سوچ یہ تھی کہ لوگ مجھے حافظ کہتے ہیں مگر میں تو جاہل ہوں کہ جاہلوں کی طرح میں بھی مسئلہ مسائل کچھ نہیں جانتا فرق صرف اتنا ہے کہ وہ قرآن مجید دیکھ کر پڑھتے ہیں اور میں زبانی پڑھتا ہوں اس لیے میں عالم ضرور بنوں گا۔۔۔
تعلیم کا دوسرا مرحلہ:
اب آپ کو ایسے مدرسے کی تلاش تھی کہ جہاں رات میں بھی تعلیم ہوتی ہو اور وہ شہر میں ہو، تا کہ آپ رات کو پڑھائی بھی کریں اور دن میں شہر میں کوئی کام کر کے اپنے والدین کی خدمت بھی کرتے رہیں۔ معلوم ہوا کہ شہر ناگ پور میں رات کو تعلیم ہوتی ہے تو1947ء کے ہنگامے کے فوراً بعد جب کہ ٹرین میں مسلم ڈبے مخصوص ہوتے تھے آپ نا گ پور پہنچ گئے۔ وہاں حضرت علامہ ارشد القادری رحمۃ اللہ علیہ فاتح جمشید پور، مدرسہ اسلامیہ شمس العلوم کے صدر المدرسین تھے۔ صبح 8/ بجے سے 12/ بجے اور رات میں 8/ بجے سے 10/ بجے رات تک درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھتے۔ بیس پچیس لڑکے ان سے رات میں پڑھتے تھے۔ آپ بھی بعد مغرب کھانے کے بعد پڑھنے کےلیے حاضر ہو جاتے اور گیارہ بارہ بجے رات تک پڑھتے پھر اپنی قیام گاہ پر آکر سو جاتے اور صبح سے شام تک کام کرتے جس سے پچیس تیس روپے ماہانہ اپنے والدین کی خدمت کرتے اور اپنے کھانے پینے اور دیگر ضروریات زندگی کا انتظام کرتے اس طرح آخر تک ناگ پور میں آپ کی تعلیمی سلسلے جاری رہے۔( ماخوذ از:انوار الحدیث-تعارف مصنف)
کامیاب لوگوں کے اوصاف:
ان تمام ابحاث کے بعد آئیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ قران پاک میں کامیاب لوگوں کے اوصاف و خصائص کس انداز سے بیان ہوا ہے۔ دیکھیں! قرآن پاک کے اندر بہت سی آیات ایسی ہیں جن کی ابتدا یا انتہا میں کامیاب لوگوں کی صفات کا تذکرہ ہے۔ یہاں چند آیات بطور دلیل پیش کی جارہی ہیں:
(1) کامیاب لوگوں کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ عقائد کی درستگی کے ساتھ اعمال صالحہ بھی انجام دیتے ہوں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
هُدًى لِلْمُتَّقِينَ-الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ-وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ۔ أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔
ترجمہ: اس (قرآن) میں ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے کچھ (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ اور وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تمھاری طرف نازل کیا اور جو تم سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اوریہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔(سورۃ البقرة)
(2) کامیاب لوگوں کی صفات میں سے یہ ہےکہ وہ خشوع و خضوع کے ساتھ نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، ہر قسم کی لغویات اور ہرقسم کی فحش مجلس سے دور رہتے ہیں،اللہ کے فرض کردہ زکاۃ ادا کرتے ہیں، اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہیں، امانت داری برتتے ہیں اور عہد و میثاق کو پورا کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ-الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ-وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ-وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ-وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ-إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ-فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ -وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ-وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ-أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ-الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔
ترجمہ: بےشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں۔ اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس بےشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ تو جو اِن کے سوا کچھ اور چاہے تو وہی حد سے بڑھنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں۔اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔یہی لوگ وارث ہیں۔ یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(سورۃ المؤمنون)
(3) کامیاب لوگوں کی صفات میں سے یہ ہے کہ وہ اللہ کا صبح و شام ذکر کرتے ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔
ترجمہ: اور اللہ کو کثرت سے یادکرو تاکہ فلاح پاؤ۔(سورۃ الأنفال)
(4) کامیاب لوگوں کی صفات میں سے یہ ہے کہ وہ حلال و حرام کی تمیز رکھتے ہیں،خبیث و طیب کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور حلال و طیب کو اختیار کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ان صفات حمیدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
قُلْ لَا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔
 
ترجمہ: تم فرمادو کہ گندا اور پاکیزہ برابر نہیں ہیں اگرچہ گندے لوگوں کی کثرت تمہیں تعجب میں ڈالے تو اے عقل والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(سورۃ المائدة)
(5) کامیاب لوگوں کی صفات میں سے یہ ہےکہ ہر قسم کے شیطانی اعمال اور گناہ سے پرہیز کرتے ہیں، مثلا شراب نوشی، جوا اور دیگر منشیات وغیرہم۔جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔
ترجمہ: اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (سورۃ المائدة)
جب ہم مقصد تخلیق پہ غور کریں گے تو اصل کامیابی سمجھ میں آئے گی کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۔
 ترجمہ: اور میں نے جن اور آدمی اسی لیے بنائے کہ میری عبادت کریں۔(سورۃ الذاریات)
اور اصل کامیابی تو اس دن کی کامیابی ہے جس دن بندہ اپنے رب سے ملاقات کرے اور اس کا رب اس سے راضی ہو جائے،اور عذاب جہنم سے نجات پاکر اس کی نعمتوں والی جنت میں داخل ہو جائے۔
اللہ پاک ہمیں دین و دنیا کی ہر خوبیاں،بھلائیاں پانا نصیب فرمائے،آمین یارب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- محمد خورشید رضا مصباحی گریڈیہ،جھارکھنڈ 
1/ اگست 2024ء بروز جمعرات

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area