’’سید ریحان معظمی‘‘
خانوادہ اعلی حضرت پر عدم احترام سادات کا الزام ہمیں برداشت نہیں
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ(ولادت ۱۲۷۲ھ، وصال۱۳۴۰ھ)بیسویں صدی کی اس عظیم شخصیت کا نام ہے، جس نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وقف کردی تھی اور اپنی زندگی کو سنت رسول کی پیروی میں بسر کیا۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ(ولادت ۱۲۷۲ھ، وصال۱۳۴۰ھ)بیسویں صدی کی اس عظیم شخصیت کا نام ہے، جس نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وقف کردی تھی اور اپنی زندگی کو سنت رسول کی پیروی میں بسر کیا۔
آپ نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کو عام کیا۔اپنے علم و عمل اور اخلاق وکردار سےمعاشرے میں پھیلی برائیوں کو ختم کیااور امت مسلمہ کی ہر موڑ پر رہنمائی کی ۔آپ اپنےدور کے فقیہ اعظم تھے ،علوم وفنون کے سمندر تھے ،تمام علوم مروجہ پر آپ کو دسترس حاصل تھی ،ساتھ ہی آپ ایک سچے عاشق رسول تھے،بلکہ یوں کہا جائے تو بجاہوگا کہ اعلیٰ حضرت عشق رسالت کا مجسمہ تھے ۔ آپ کے علمی سرمائے سےعشق رسالت مترشح تھا ۔آپ نے عشق رسول میں جینا مرنا سکھایا۔سرکار دوعالم ﷺکی آل کا ادب سکھایا ۔ خود بھی ادب واحترام کا خوب خیال کیا۔ یہ احترام کیوں تھا ؟کیوں کہ آپ کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل عشق رسالت مآب ﷺسے سرشارتھا۔آپ کی زندگی عشق مصطفیٰ ﷺکا آئینہ دار تھی۔امام احمد رضا نے اپنے قول و عمل سے محبت رسول کا ثبوت دیا ۔ محبتِ رسول ہواور محبتِ آل نہ ہو تو محبت کامل نہیں ہوتی۔ جب سرکار دوعالم ﷺ سے سچی محبت ہوگی، تو سرکار کی آل سے بھی ہوگی۔اس محبت کا ثبوت اما م احمد رضا نے اپنے کردار و معاملات سے دیا ۔ آپ کی سادات کرام سے محبت دیکھنے والوں نے دیکھا،سننے والوں نے سنا اور عمل کرنے والوں نےعمل بھی کیا ۔
تعظیم وتوقیر اور احترام سادات کے تعلق سےتلمیذِ اعلیٰ حضرت ،ملک العلما علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :
تعظیم وتوقیر اور احترام سادات کے تعلق سےتلمیذِ اعلیٰ حضرت ،ملک العلما علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :
ساداتِ کرام جز و رسول ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مستحقِ توقیر و تعظیم ہیں اور اس پر پورا عمل کرنے والا ہم نے اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کو پایا۔ اس لیے کہ وہ کسی سید صاحب کو ان کی ذاتی حیثیت و لیاقت سے نہیں دیکھتے بلکہ ا س حیثیت سے ملاحظہ فرماتے کہ سرکار دو عالم ﷺ کا جزو ہیں۔
(حیات اعلیٰ حضرت۱؍۲۲۳)
اعلیٰ حضرت کا خاندان سادات کی عزت وعظمت کے لیے مدت سے مشہور ہے ۔ اعلیٰ حضرت قبلہ کے دادا مولا نا رضاعلی خاں روزانہ نماز فجر پڑھ کر سادات کرام نو محلہ کی خیریت معلوم کرنے اور سلام عرض کرنے جایا کرتے تھے ۔ان کے اس معمول میں کسی مجبوری ہی سے فرق پڑتا تھا۔ یہ خاندان نجیب بھی سادات کرام کا عجیب خاندان تھا ۔ ان کے اخلاق کریمہ یہ کہوا لیتے تھے کہ ان کی رگوں میں خونِ سرکارِ رسالت ہے اور سارا خاندان حسین وجمیل خوبصورت اور خوب سیرت تھا ۔ مولانا رضا علی خاں صاحب کے بعد مولا نانقی علی خاں بھی اسی خاندان سے وابستہ رہے۔ ہر تقریب میں ہر دعوت میں وہ اپنے یہاں سادات کرام کو ضرورت شریک کرتے تھے اور ان کا اعزازی حصہ سب سے دوگنا ہوتا تھا ۔
اعلیٰ حضرت کی ناگواری کا واقعہ :
اعلیٰ حضرت اگر کبھی نا خوش ہوئے تو کھا نا یا حقہ یا پان چھوڑ دیتے تھے جس سے انہیں سخت تکلیف ہوتی تھی،کبھی یہ مجاہدہ ہو ہی جاتا تھا۔ پہلے تو خاندان والے اور احباب اس غصے کے فروکرنے کی کوشش کرتے ۔ اگر وہ اس مجاہدےکو نہ ختم کرا سکے تو سید صاحبان سے عرض کیا جا تا تھا۔اعلیٰ حضرت کو سید صاحب کے حکم کی تعمیل کرنا پڑتی تھی ۔اعلیٰ حضرت قبلہ نے ایک بارکھانا چھوڑا اور صرف ناشتے پر قناعت کی ۔اس میں بھی کوئی اضافہ منظور نہ فرمایا۔سارے خاندان اور ان کے احباب کی کوشش رائگاں گئی ۔ سید مقبول صاحب کی خدمت میں نومحلہ حاضر ہوئے،عرض کیا: آج دو مہینے ہونے کو آئے کہ اعلیٰ حضرت نے کھانا چھوڑ دیا ہے ، ہم سب کوشش کر کے تھک گئے ہیں ، آپ ہی انہیں مجبور کر سکتے ہیں۔اس پر انہوں نے فرمایا کہ ہماری زندگی میں انہیں یہ ہمت ہوگئی ہے کہ وہ کھانا چھوڑ بیٹھے ہیں،ابھی کھانا تیار کرا تا ہوں اور لے کر آتا ہوں ، حسب وعدہ سید مقبول صاحب ایک نعمت خانہ میں کھانا لے کرخودتشریف لائے، اعلیٰ حضرت قبلہ زنانے مکان میں تھے ۔ سید صاحب کی اطلاع پاتے ہی باہر آ گئے ۔سید صاحب سے قدم بوس ہوئے۔اب بات چیت شروع ہوئی ۔سید صاحب نے فرمایا میں نے سنا ہے کہ آپ نے کھانا چھوڑ دیا ہے ۔ اعلیٰ حضرت نے عرض کیا کہ میں تو روز کھا تا ہوں ۔سید صاحب نے فرمایا مجھے معلوم ہے جیسا آپ کھاتے ہیں ۔ اعلیٰ حضرت نے عرض کیا کہ حضور میرے معاملات میں اب تک کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ میں اپنا سب کام بدستور کر رہا ہوں، مجھے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی تو سید صاحب قبلہ برہم ہو گئے اور کھڑے ہو کر فرمانے گئے: اچھا ! تو میں کھانا لیے جا تا ہوں،کل میدان قیامت میں سرکار دوجہاں کا دامن پکڑ کر عرض کروں گا کہ ایک سیدانی نے بڑے شوق سے کھانا پکا یا او رسید لے کر آیا مگر آپ کے احمد رضا خاں نے کسی طرح نہ کھایا۔ اس پراعلیٰ حضرت کانپ گئے ،عرض کیا کہ میں تعمیلِ حکم کے لیے حاضر ہوں ۔ابھی کھائےلیتا ہوں ۔سید صاحب قبلہ نے فرمایا کہ اب تو یہ کھانا تم جب ہی کھا سکتے ہوجب یہ وعدہ کرو کہ اب عمر بھر کھانا نہ چھوڑو گے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت قبلہ نے عمر بھر کھانا نہ چھوڑ نے کا وعدہ کیا تو سید صاحب قبلہ نے اپنے سامنے انہیں کھلا یا اور خوش خوش تشریف لے گئے ۔
اعلیٰ حضرت کے لیے سادات کرام کا جائز حکم آخری ہوتا تھا ۔ سادات کرام کے حکم کے بعد اعلیٰ حضرت کو سواے تعمیلِ حکم کے کوئی چارہ کا رہی نہ ہوتا تھا۔ ہم نے ان کے والد ماجد کا دور تو نہ دیکھا مگر یہ دیکھا کہ اللہ اور رسول کے حکم کے بعد اعلیٰ حضرت کے یہاں سادات کرام ہی کا حکم نافذ ہوسکتا تھا ۔ یہ نا قابل انکار حقیقت ہے کہ سرکار دو عالم کی آخری وصیت’’انـى تـارك فيكم الثقلين كتاب الله و عترتی‘‘۔ ( ترجمہ ) میں تم میں دو بھاری امانتیں چھوڑ تا ہوں ، اللہ کی کتاب اوراپنی اولاد۔اس پر پورا پوراعمل کر کے اس دور میں اعلیٰ حضرت قبلہ ہی نے دکھایا۔(سیرت اعلیٰ حضرت،ص۹۵، ۹۷)
جناب سید ایوب علی کا بیان کرتے ہیں’’فقیر اور برادرم سید قناعت علی کے بیعت ہونے پر بموقع عیدالفطر بعد ِنماز دست بوسی کے لیے عوام نے ہجوم کیا ۔ مگر جس وقت قناعت علی دست بوس ہوئے، حضور پر نور اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے ان کے ہاتھ چوم لیے،یہ خائف ہوئےاور دیگر مقربان خاص سے تذکرہ کیا ،تو معلوم ہوا کہ حضور کا یہ معمول ہے کہ بموقع عیدین دوران مصافحہ سب سے پہلے جو سید صاحب مصافحہ کرتے ہیں ، اعلیٰ حضرت ان کی دست بوسی فر ما یا کرتے ہیں ۔ غالباً آپ موجود سادات کرام میں سب سے پہلے دست بوس ہوئےہوں گے ۔(حیات اعلیٰ حضرت،ج۱،ص۲۲۴)
ملک العلمالکھتے ہیں:۔ ’’جس زمانہ میں اعلیٰ حضرت کے دولت کدہ کی مغربی سمت جس میں کتب خانہ نیا تعمیر ہورہا تھا، عورتیں اعلیٰ حضرت کے قدیمی آبائی مکان میں جس میں حضرت مولانا حسن رضا خان صاحب برادر اوسط اعلیٰ حضرت مع متعلقین تشریف رکھتے تھے، قیام فرما تھیں اور اعلیٰ حضرت کا مکان مردانہ کردیا گیا تھا کہ ہر وقت راج مزدوروں کا اجتماع رہتا، اسی طرح کئی مہینہ تک وہ مکان مردانہ رہا جن صاحب کو اعلیٰ حضرت کی خدمت میں باریابی کی ضرورت پڑتی بے کھٹکے پہنچ جایا کرتے جب وہ کتب خانہ مکمل ہوگیا، مستورات حسب دستور سابق اس مکان میں چلی آئیں، اتفاق وقت کہ ایک سید صاحب جو کچھ دن پہلے تشریف لائے تھے اور اس مکان کو مردانہ پایا تھے پھر تشریف لائے اور اس خیال سے کہ مکان مردانہ ہے بے تکلف اندر چلے گئے، جب آدھے آنگن میں پہنچے تو مستورات کی نظر پڑی جو زنانہ مکان میں خانہ داری کے کاموں میں مشغول تھیں، انہوں نے جب سید صاحب کو دیکھا تو گھبراکر اِدھر اُدھر پردہ میں ہوگئیں ان کے جانے کی آہٹ سے جناب سید صاحب کو علم ہوا کہ یہ مکان زنانہ ہوگیا ہے، مجھ سے سخت غلطی ہوئی جو میں چلا آیا اور ندامت کے مارے سر جھکائے واپس ہونے لگے کہ اعلیٰ حضرت دکھن طرف کے سائبان سے فوراً تشریف لائے اور جناب سید صاحب کو لے کر اس جگہ پہنچے جہاں حضرت تشریف رکھا کرتے اور تصنیف وتالیف میں مشغول رہتے اور سید صاحب کو بٹھاکر بہت دیر تک باتیں کرتے رہے جس میں سید صاحب کی پریشانی اور ندامت دور ہو، پہلے تو سید صاحب خفت کے مارے خاموش رہے پھر معذرت کی اور اپنی لاعلمی ظاہر کی کہ مجھے زنانہ مکان ہونے کا کوئی علم نہ تھا۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ حضرت یہ سب تو آپ کی باندیاں ہیں آپ آقا اور آقا زادے ہیں ،معذرت کی کیا حاجت ہے میں خود سمجھتا ہوں حضرت اطمینان سے تشریف رکھیں، غرض بہت دیر تک سید صاحب کو وہیں بٹھاکر ان سے بات چیت کی، پان منگوایا، ان کو کھلایا، جب دیکھا کہ سید صاحب کے چہرہ پر آثار ندامت نہیں ہیں اور سید صاحب نے اجازت چاہی، ساتھ ساتھ تشریف لائے اور باہر کے پھاٹک تک پہنچا کر ان کو رخصت فرمایا وہ دست بوس ہوکر رخصت ہوئے عجب اتفاق کہ وہ وقت مدرسہ کا تھا اور رحم اللہ خاں خادم بھی بازار گئے ہوئے تھے، کوئی شخص باہر کمرہ پر نہ تھا جو سید صاحب کو مکان کے زنانہ ہوجانے کی خبر دیتا، جناب سید صاحب نے اس واقعہ کو خود مجھ سے بیان فرمایا اور مذاق سے کہا کہ ہم نے تو سمجھا کہ آج خوب پٹے مگر ہمارے پٹھان نے وہ عزت و قدر کی کہ دل خوش ہوگیا واقعی حب رسول ہو تو ایسا ہو‘‘۔(حیات اعلیٰ حضرت ۱،ص۲۳۱، ۲۳۳)
یہ وہ نقشوش یار ہیں جو چھپے نہیں چَھپے ہیں
مولوی جہاں گیر صاحب اگر اب بھی تسلی نا ملی ہو تو سنو !!!!
ہند و بیرون ہند میں بہت کم ایسی خانقاہیں ہیں جن کا تعلق خاندان اعلیٰ حضرت سے ان کے والد گرامی وقار علامہ نقی علی خاں رحمہ اللہ کے زمانے سے آج تک قائم ہے انہی میں سے ایک عظیم خانقاہ جو ہندوستان کے صوبہ اتر پردیس کے ضلع سنبھل کے تاریخی گاؤں (جِن ہٹا) جنیٹہ شریف میں واقع ہے جس کو عوام و خواص خانقاہ معظمیہ کے نام سے جانتے ہیں راقم بھی اسی خانوادہ کا ایک فرد ہے ۔
رائیس المتکلمین علامہ نقی علی خاں رحمہ اللہ سے لیکر آج تک اسی جزوِ رسول ہونے کی حیثیت سے تعلق قائم ہے-
آپ کی چشم کشائی کے لئے ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں..
میرے دادا محترم فخر السادات سرکار سید جعفر میاں رحمہ اللہ جب اپنے والد گرامی وقار گل گلزار سیادت عارف باللہ سرکار سید بہادر شاہ رحمہ اللہ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے بریلی شریف کے لئے عازم سفر ہوئے،اور جب بارگاہ حضور مفتی اعظم میں حاضر ہوئے تو تمام حاضرین کی طرح آپ بھی نیچے بیٹھ گئے ابھی بیٹھے ہوئے لمحہ بھی نا ہوا کہ حضور مفتی اعظم نے فورا فرمایا سید صاحب آپ کی جگہ وہاں نہیں یہاں ہے یہ کہ کر آپ نے سرھانے بیٹھا لیا۔ #علی_محمد(ملاجی (جنیٹہ شریف ہی کے رہنے والے ہیں تغمد اللہ بغفرانہ ) جو سفر کے ساتھی تھے کہتے ہیں میں گیا تو کسی اور ارادے سے تھا لیکن جب آپ کی یہ کرامت دیکھی تو میں حضور مفتی اعظم کا طالب و مرید ہوگیا ۔
اس کے بعد جب لوگوں کا رش کم ہوا تو دادا جان نے عرض مدعی رکھا کہ حضور میں چاہتا ہوں اور میرے والد گرامی وقار کی وصیت بھی تھی کہ آپ مجھے اپنے حلقہ ارادت میں شامل فرما لیں……
اتنا سننا تھا کہ عشق آل رسول جوش میں آیا اور فرمایا کہ سید صاحب کیسی باتیں کرتے ہیں میں بھلا اس لائق کہاں کہ سید آقا زادوں کو اپنا مرید کروں اور یہ بات کئی بار دھراتے رہے ….مگر ادھر بھی عشق ہے کہ مان نے میں عشق کی توہیں ہے بالآخر پے ہم اصرار کے بعد آپ نے ایک تجویز رکھی کہ سید صاحب میں آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دیتا ہوں اور آپ میرے ہاتھ میں ہاتھ دے دیجیئے ۔
“کہاں ہیں وہ کم ظرف اور ضمیر کو گیہواں کے دام بیچنے والے اگر یہ عشق آل رسول نہیں تو کیا ہے ؟
اس کے بعد حضور مفتی اعظم نے اجازت و خلافت سے بھی نوازہ ۔
خاندان اعلی حضرت کے دامن پر عدم احترام سادات کا دھبہ لگانے کی کوشش کرنے والوں ابھی سادات زندہ ہیں اور جب تک زندہ ہیں ان مکر و فریب کے جالوں اور ایرانی جبوں کو تار تار کیا جاتا رہے گا
اس خاندان پر اہل بیت کا خاص سایہ ہے جو جنت میں بھی موجود ہوگا انشاء اللہ ۔
اور سنو جہاںگیر صاحب اور اپنے بچوں کو بھی سناؤ کہ کم سے کم ان کی آخرت تو خراب نہیں ہوگی :-
سادات کرام کے بچوں کے ساتھ خانوادہ اعلی حضرت کا حسن سلوک:-
“میرے دادا جان نے ایک مرتبہ گیارویں شریف کے موقع پر شہزادہ اعلیٰ حضرت مفکر قوم و ملت علامہ ریحان میاں المعروف رحمانی میاں (والد گرامی وقار پیر طریقت علامہ سبحان رضا خاں سبحانی میاں زیب سجادہ آستانہ عالیہ قادریہ رضویہ )کو اپنے گھر مدعو کیا اور حضور تشریف بھی لائے اس موقع پر آپ نے سیرت غوث اعظم پر
وہ جازب قلب تقریر فرمائی کہ اہل محفل عش عش کرتے رہ گئے۔ ۔بعدہ محفل طعام لگی حضور ریحان ملت ہاتھ دوھنے کے لئے اُٹھے تو میرے والد محتر فورا پیتل کا آفتابہ لیکر سامنے آگئے کہ ہاتھ دوھلا سکیں اس پر شہزادہ اعلی حضرت نے فرمایا کہ سید صاحب آپ عمر کم ہوئے تو کیا ہوا آپ بھی آقا زادے ہیں یہ کہ کر لوٹا ہاتھ میں لیا اور خود سے ہاتھ دھو لئے جس حاضرین محفل نے ایک نعرہ لگایا (محب اہل بیت زندہ باد شہزادہ اعلی حضرت زندہ باد)..
اس طرح کے واقعات بے شمار ہیں۔۱۲۲۳ھ سے لیکر ۱۴۴۵ھ تک خانوادہ معظمیہ گواہ ہے کہ زمانہ بدلا لیکن جو احترام سادات خاندان نقی کی میراث ہے آج بھی باقی اور انشان اللہ قیامت تک رہے گا..
اور اگر اب بھی یقین نا آئے تو بارگاہ اعلی حضرت پہچ اور قبر انور سے آرہی آواز کو ایمان کے کانوں سے سن آج بھی آواز آتی ہے۔ع
دو جہاں میں خادم آل رسول اللہ کر
حضرت آل رسول مقتدی کے واسطے
اللہ ہم سب کو سچ قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
🖌️معظمی منظری
اعلیٰ حضرت کا خاندان سادات کی عزت وعظمت کے لیے مدت سے مشہور ہے ۔ اعلیٰ حضرت قبلہ کے دادا مولا نا رضاعلی خاں روزانہ نماز فجر پڑھ کر سادات کرام نو محلہ کی خیریت معلوم کرنے اور سلام عرض کرنے جایا کرتے تھے ۔ان کے اس معمول میں کسی مجبوری ہی سے فرق پڑتا تھا۔ یہ خاندان نجیب بھی سادات کرام کا عجیب خاندان تھا ۔ ان کے اخلاق کریمہ یہ کہوا لیتے تھے کہ ان کی رگوں میں خونِ سرکارِ رسالت ہے اور سارا خاندان حسین وجمیل خوبصورت اور خوب سیرت تھا ۔ مولانا رضا علی خاں صاحب کے بعد مولا نانقی علی خاں بھی اسی خاندان سے وابستہ رہے۔ ہر تقریب میں ہر دعوت میں وہ اپنے یہاں سادات کرام کو ضرورت شریک کرتے تھے اور ان کا اعزازی حصہ سب سے دوگنا ہوتا تھا ۔
اعلیٰ حضرت کی ناگواری کا واقعہ :
اعلیٰ حضرت اگر کبھی نا خوش ہوئے تو کھا نا یا حقہ یا پان چھوڑ دیتے تھے جس سے انہیں سخت تکلیف ہوتی تھی،کبھی یہ مجاہدہ ہو ہی جاتا تھا۔ پہلے تو خاندان والے اور احباب اس غصے کے فروکرنے کی کوشش کرتے ۔ اگر وہ اس مجاہدےکو نہ ختم کرا سکے تو سید صاحبان سے عرض کیا جا تا تھا۔اعلیٰ حضرت کو سید صاحب کے حکم کی تعمیل کرنا پڑتی تھی ۔اعلیٰ حضرت قبلہ نے ایک بارکھانا چھوڑا اور صرف ناشتے پر قناعت کی ۔اس میں بھی کوئی اضافہ منظور نہ فرمایا۔سارے خاندان اور ان کے احباب کی کوشش رائگاں گئی ۔ سید مقبول صاحب کی خدمت میں نومحلہ حاضر ہوئے،عرض کیا: آج دو مہینے ہونے کو آئے کہ اعلیٰ حضرت نے کھانا چھوڑ دیا ہے ، ہم سب کوشش کر کے تھک گئے ہیں ، آپ ہی انہیں مجبور کر سکتے ہیں۔اس پر انہوں نے فرمایا کہ ہماری زندگی میں انہیں یہ ہمت ہوگئی ہے کہ وہ کھانا چھوڑ بیٹھے ہیں،ابھی کھانا تیار کرا تا ہوں اور لے کر آتا ہوں ، حسب وعدہ سید مقبول صاحب ایک نعمت خانہ میں کھانا لے کرخودتشریف لائے، اعلیٰ حضرت قبلہ زنانے مکان میں تھے ۔ سید صاحب کی اطلاع پاتے ہی باہر آ گئے ۔سید صاحب سے قدم بوس ہوئے۔اب بات چیت شروع ہوئی ۔سید صاحب نے فرمایا میں نے سنا ہے کہ آپ نے کھانا چھوڑ دیا ہے ۔ اعلیٰ حضرت نے عرض کیا کہ میں تو روز کھا تا ہوں ۔سید صاحب نے فرمایا مجھے معلوم ہے جیسا آپ کھاتے ہیں ۔ اعلیٰ حضرت نے عرض کیا کہ حضور میرے معاملات میں اب تک کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ میں اپنا سب کام بدستور کر رہا ہوں، مجھے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی تو سید صاحب قبلہ برہم ہو گئے اور کھڑے ہو کر فرمانے گئے: اچھا ! تو میں کھانا لیے جا تا ہوں،کل میدان قیامت میں سرکار دوجہاں کا دامن پکڑ کر عرض کروں گا کہ ایک سیدانی نے بڑے شوق سے کھانا پکا یا او رسید لے کر آیا مگر آپ کے احمد رضا خاں نے کسی طرح نہ کھایا۔ اس پراعلیٰ حضرت کانپ گئے ،عرض کیا کہ میں تعمیلِ حکم کے لیے حاضر ہوں ۔ابھی کھائےلیتا ہوں ۔سید صاحب قبلہ نے فرمایا کہ اب تو یہ کھانا تم جب ہی کھا سکتے ہوجب یہ وعدہ کرو کہ اب عمر بھر کھانا نہ چھوڑو گے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت قبلہ نے عمر بھر کھانا نہ چھوڑ نے کا وعدہ کیا تو سید صاحب قبلہ نے اپنے سامنے انہیں کھلا یا اور خوش خوش تشریف لے گئے ۔
اعلیٰ حضرت کے لیے سادات کرام کا جائز حکم آخری ہوتا تھا ۔ سادات کرام کے حکم کے بعد اعلیٰ حضرت کو سواے تعمیلِ حکم کے کوئی چارہ کا رہی نہ ہوتا تھا۔ ہم نے ان کے والد ماجد کا دور تو نہ دیکھا مگر یہ دیکھا کہ اللہ اور رسول کے حکم کے بعد اعلیٰ حضرت کے یہاں سادات کرام ہی کا حکم نافذ ہوسکتا تھا ۔ یہ نا قابل انکار حقیقت ہے کہ سرکار دو عالم کی آخری وصیت’’انـى تـارك فيكم الثقلين كتاب الله و عترتی‘‘۔ ( ترجمہ ) میں تم میں دو بھاری امانتیں چھوڑ تا ہوں ، اللہ کی کتاب اوراپنی اولاد۔اس پر پورا پوراعمل کر کے اس دور میں اعلیٰ حضرت قبلہ ہی نے دکھایا۔(سیرت اعلیٰ حضرت،ص۹۵، ۹۷)
جناب سید ایوب علی کا بیان کرتے ہیں’’فقیر اور برادرم سید قناعت علی کے بیعت ہونے پر بموقع عیدالفطر بعد ِنماز دست بوسی کے لیے عوام نے ہجوم کیا ۔ مگر جس وقت قناعت علی دست بوس ہوئے، حضور پر نور اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے ان کے ہاتھ چوم لیے،یہ خائف ہوئےاور دیگر مقربان خاص سے تذکرہ کیا ،تو معلوم ہوا کہ حضور کا یہ معمول ہے کہ بموقع عیدین دوران مصافحہ سب سے پہلے جو سید صاحب مصافحہ کرتے ہیں ، اعلیٰ حضرت ان کی دست بوسی فر ما یا کرتے ہیں ۔ غالباً آپ موجود سادات کرام میں سب سے پہلے دست بوس ہوئےہوں گے ۔(حیات اعلیٰ حضرت،ج۱،ص۲۲۴)
ملک العلمالکھتے ہیں:۔ ’’جس زمانہ میں اعلیٰ حضرت کے دولت کدہ کی مغربی سمت جس میں کتب خانہ نیا تعمیر ہورہا تھا، عورتیں اعلیٰ حضرت کے قدیمی آبائی مکان میں جس میں حضرت مولانا حسن رضا خان صاحب برادر اوسط اعلیٰ حضرت مع متعلقین تشریف رکھتے تھے، قیام فرما تھیں اور اعلیٰ حضرت کا مکان مردانہ کردیا گیا تھا کہ ہر وقت راج مزدوروں کا اجتماع رہتا، اسی طرح کئی مہینہ تک وہ مکان مردانہ رہا جن صاحب کو اعلیٰ حضرت کی خدمت میں باریابی کی ضرورت پڑتی بے کھٹکے پہنچ جایا کرتے جب وہ کتب خانہ مکمل ہوگیا، مستورات حسب دستور سابق اس مکان میں چلی آئیں، اتفاق وقت کہ ایک سید صاحب جو کچھ دن پہلے تشریف لائے تھے اور اس مکان کو مردانہ پایا تھے پھر تشریف لائے اور اس خیال سے کہ مکان مردانہ ہے بے تکلف اندر چلے گئے، جب آدھے آنگن میں پہنچے تو مستورات کی نظر پڑی جو زنانہ مکان میں خانہ داری کے کاموں میں مشغول تھیں، انہوں نے جب سید صاحب کو دیکھا تو گھبراکر اِدھر اُدھر پردہ میں ہوگئیں ان کے جانے کی آہٹ سے جناب سید صاحب کو علم ہوا کہ یہ مکان زنانہ ہوگیا ہے، مجھ سے سخت غلطی ہوئی جو میں چلا آیا اور ندامت کے مارے سر جھکائے واپس ہونے لگے کہ اعلیٰ حضرت دکھن طرف کے سائبان سے فوراً تشریف لائے اور جناب سید صاحب کو لے کر اس جگہ پہنچے جہاں حضرت تشریف رکھا کرتے اور تصنیف وتالیف میں مشغول رہتے اور سید صاحب کو بٹھاکر بہت دیر تک باتیں کرتے رہے جس میں سید صاحب کی پریشانی اور ندامت دور ہو، پہلے تو سید صاحب خفت کے مارے خاموش رہے پھر معذرت کی اور اپنی لاعلمی ظاہر کی کہ مجھے زنانہ مکان ہونے کا کوئی علم نہ تھا۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ حضرت یہ سب تو آپ کی باندیاں ہیں آپ آقا اور آقا زادے ہیں ،معذرت کی کیا حاجت ہے میں خود سمجھتا ہوں حضرت اطمینان سے تشریف رکھیں، غرض بہت دیر تک سید صاحب کو وہیں بٹھاکر ان سے بات چیت کی، پان منگوایا، ان کو کھلایا، جب دیکھا کہ سید صاحب کے چہرہ پر آثار ندامت نہیں ہیں اور سید صاحب نے اجازت چاہی، ساتھ ساتھ تشریف لائے اور باہر کے پھاٹک تک پہنچا کر ان کو رخصت فرمایا وہ دست بوس ہوکر رخصت ہوئے عجب اتفاق کہ وہ وقت مدرسہ کا تھا اور رحم اللہ خاں خادم بھی بازار گئے ہوئے تھے، کوئی شخص باہر کمرہ پر نہ تھا جو سید صاحب کو مکان کے زنانہ ہوجانے کی خبر دیتا، جناب سید صاحب نے اس واقعہ کو خود مجھ سے بیان فرمایا اور مذاق سے کہا کہ ہم نے تو سمجھا کہ آج خوب پٹے مگر ہمارے پٹھان نے وہ عزت و قدر کی کہ دل خوش ہوگیا واقعی حب رسول ہو تو ایسا ہو‘‘۔(حیات اعلیٰ حضرت ۱،ص۲۳۱، ۲۳۳)
یہ وہ نقشوش یار ہیں جو چھپے نہیں چَھپے ہیں
مولوی جہاں گیر صاحب اگر اب بھی تسلی نا ملی ہو تو سنو !!!!
ہند و بیرون ہند میں بہت کم ایسی خانقاہیں ہیں جن کا تعلق خاندان اعلیٰ حضرت سے ان کے والد گرامی وقار علامہ نقی علی خاں رحمہ اللہ کے زمانے سے آج تک قائم ہے انہی میں سے ایک عظیم خانقاہ جو ہندوستان کے صوبہ اتر پردیس کے ضلع سنبھل کے تاریخی گاؤں (جِن ہٹا) جنیٹہ شریف میں واقع ہے جس کو عوام و خواص خانقاہ معظمیہ کے نام سے جانتے ہیں راقم بھی اسی خانوادہ کا ایک فرد ہے ۔
رائیس المتکلمین علامہ نقی علی خاں رحمہ اللہ سے لیکر آج تک اسی جزوِ رسول ہونے کی حیثیت سے تعلق قائم ہے-
آپ کی چشم کشائی کے لئے ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں..
میرے دادا محترم فخر السادات سرکار سید جعفر میاں رحمہ اللہ جب اپنے والد گرامی وقار گل گلزار سیادت عارف باللہ سرکار سید بہادر شاہ رحمہ اللہ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے بریلی شریف کے لئے عازم سفر ہوئے،اور جب بارگاہ حضور مفتی اعظم میں حاضر ہوئے تو تمام حاضرین کی طرح آپ بھی نیچے بیٹھ گئے ابھی بیٹھے ہوئے لمحہ بھی نا ہوا کہ حضور مفتی اعظم نے فورا فرمایا سید صاحب آپ کی جگہ وہاں نہیں یہاں ہے یہ کہ کر آپ نے سرھانے بیٹھا لیا۔ #علی_محمد(ملاجی (جنیٹہ شریف ہی کے رہنے والے ہیں تغمد اللہ بغفرانہ ) جو سفر کے ساتھی تھے کہتے ہیں میں گیا تو کسی اور ارادے سے تھا لیکن جب آپ کی یہ کرامت دیکھی تو میں حضور مفتی اعظم کا طالب و مرید ہوگیا ۔
اس کے بعد جب لوگوں کا رش کم ہوا تو دادا جان نے عرض مدعی رکھا کہ حضور میں چاہتا ہوں اور میرے والد گرامی وقار کی وصیت بھی تھی کہ آپ مجھے اپنے حلقہ ارادت میں شامل فرما لیں……
اتنا سننا تھا کہ عشق آل رسول جوش میں آیا اور فرمایا کہ سید صاحب کیسی باتیں کرتے ہیں میں بھلا اس لائق کہاں کہ سید آقا زادوں کو اپنا مرید کروں اور یہ بات کئی بار دھراتے رہے ….مگر ادھر بھی عشق ہے کہ مان نے میں عشق کی توہیں ہے بالآخر پے ہم اصرار کے بعد آپ نے ایک تجویز رکھی کہ سید صاحب میں آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دیتا ہوں اور آپ میرے ہاتھ میں ہاتھ دے دیجیئے ۔
“کہاں ہیں وہ کم ظرف اور ضمیر کو گیہواں کے دام بیچنے والے اگر یہ عشق آل رسول نہیں تو کیا ہے ؟
اس کے بعد حضور مفتی اعظم نے اجازت و خلافت سے بھی نوازہ ۔
خاندان اعلی حضرت کے دامن پر عدم احترام سادات کا دھبہ لگانے کی کوشش کرنے والوں ابھی سادات زندہ ہیں اور جب تک زندہ ہیں ان مکر و فریب کے جالوں اور ایرانی جبوں کو تار تار کیا جاتا رہے گا
اس خاندان پر اہل بیت کا خاص سایہ ہے جو جنت میں بھی موجود ہوگا انشاء اللہ ۔
اور سنو جہاںگیر صاحب اور اپنے بچوں کو بھی سناؤ کہ کم سے کم ان کی آخرت تو خراب نہیں ہوگی :-
سادات کرام کے بچوں کے ساتھ خانوادہ اعلی حضرت کا حسن سلوک:-
“میرے دادا جان نے ایک مرتبہ گیارویں شریف کے موقع پر شہزادہ اعلیٰ حضرت مفکر قوم و ملت علامہ ریحان میاں المعروف رحمانی میاں (والد گرامی وقار پیر طریقت علامہ سبحان رضا خاں سبحانی میاں زیب سجادہ آستانہ عالیہ قادریہ رضویہ )کو اپنے گھر مدعو کیا اور حضور تشریف بھی لائے اس موقع پر آپ نے سیرت غوث اعظم پر
وہ جازب قلب تقریر فرمائی کہ اہل محفل عش عش کرتے رہ گئے۔ ۔بعدہ محفل طعام لگی حضور ریحان ملت ہاتھ دوھنے کے لئے اُٹھے تو میرے والد محتر فورا پیتل کا آفتابہ لیکر سامنے آگئے کہ ہاتھ دوھلا سکیں اس پر شہزادہ اعلی حضرت نے فرمایا کہ سید صاحب آپ عمر کم ہوئے تو کیا ہوا آپ بھی آقا زادے ہیں یہ کہ کر لوٹا ہاتھ میں لیا اور خود سے ہاتھ دھو لئے جس حاضرین محفل نے ایک نعرہ لگایا (محب اہل بیت زندہ باد شہزادہ اعلی حضرت زندہ باد)..
اس طرح کے واقعات بے شمار ہیں۔۱۲۲۳ھ سے لیکر ۱۴۴۵ھ تک خانوادہ معظمیہ گواہ ہے کہ زمانہ بدلا لیکن جو احترام سادات خاندان نقی کی میراث ہے آج بھی باقی اور انشان اللہ قیامت تک رہے گا..
اور اگر اب بھی یقین نا آئے تو بارگاہ اعلی حضرت پہچ اور قبر انور سے آرہی آواز کو ایمان کے کانوں سے سن آج بھی آواز آتی ہے۔ع
دو جہاں میں خادم آل رسول اللہ کر
حضرت آل رسول مقتدی کے واسطے
اللہ ہم سب کو سچ قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
🖌️معظمی منظری