کیا امام عالی مقام نے حضرت علی اصغر کے لئے پانی طلب کیا تھا
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
چھے ماہ کے علی اصغر اور ان کے پیاس کا افسانوی قصہ بھی غیر معتبر ھے ، عموما واعظین کہتے ہیں کہ شہزادہ علی اصغر رضی اﷲ عنہ کو امام حسین نے یزیدیوں کے سامنے لے جا کر پانی مانگا یہ پانی مانگنے کا غیرمعتبر قصہ ہے "خاک کربلا" جیسی کتب میں بغیر حوالے کے درج ہے بلا تحقیق غور و خوض کے عوام الناس میں بیان کیا جاتا ہے، جب کہ یہ واقعہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان عزیمت کے بالکل خلاف ہے اور ان کی شایان شان قطعاً نہیں ہے،۔ پہلی بات تو یہ ہے حضرت علی اصغر کا نام عبداللہ ہے،، علی اصغر آپ کو کہا جاتا ہے،،
جب پانی اتنی مقدار میں موجود تھا کہ امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے غسل کیا حضرت زینب بے ہوش ہوکر گری تو آپ کے چہرے پر پانی ڈالا گیا تو کیا حضرت عبداللہ یعنی علی اصغر کے پینے کے لیۓ نہ تھا ؟ کتنی ہی عجیب بات ہے سچ تو یہ ہے امام عالی مقام اس بچہ کو لیکر پانی مانگنے نہیں گۓ تھے ۔، بلکہ آپ اپنے اس بچہ کو پیار کر رہے تھے تو دشمنوں نے تیر مارا جو کے اس بچہ علی اصغر کے آکر لگا جس سے وہ شہید ہو گۓ۔
جی ہاں یہ بات تو شیعوں کی کتب میں بھی لکھی ہوی ہے،
میں کچھ حوالے نقل کرتا ہوں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام عالی مقام پانی مانگنے نہیں گۓ تھے طبری میں ہے،
اتی الحسین بصبی لہ فھو فی حجرہ اذ رماہ احد کم یا بنی اسد بسھم فذبحہ
ایک بچہ کو امام عالی مقام کے پاس لایا گیا یہ بچہ عبداللہ بن حسین تھا آپ نے اس کو گود میں لیا بنی اسد میں سے ایک شخص نے تیر مارا بچہ ذبحہ ہوگیا
تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 448
اسی طرح بدایہ والنہایہ میں ہے
کہ امام عالی مقام بیٹھے ہوۓ تھے آپ کے پاس آپ کا بچہ لایا گیا جس کا نام عبد اللہ تھا، آپ نے اسکو پیار کیا بوسہ دیا
بنی اسد کے ایک مرد نے تیر مارا جو کہ بچے کو لگا جس سے وہ ذبح ہوگیا،۔
ثم ان الحسین أعیا قعد علی باب فطاطاہ و أتی بصبی صغیر من أولادہ اسمہ عبد اللہ ، فأجلسہ فی حجرہ ثم جعل یقبلہ و یشمہ و بودعہ و بوصی اھلہ فرماہ رجل من بنی اسد،۔
البدایتہ والنہایتہ جلد 8 صفحہ 186۔۔،
بدایہ کی اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا اس بچہ کا نام عبد اللہ تھا یعنی حضرت علی اصغر کا نام عبد اللہ ہے۔،
اسی طرح علامہ مفتی غلام رسول قاسمی صاحب سانحہ کربلا میں لکھتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ یعنی علی اصغر جو شیر خوار بچے تھے امام عالی مقام خیمے کے دروازے پر انہیں گود میں لیکر بیٹھے انہیں بوسے دینے الوداع اور گھر والوں کو وصیت کرنے لگے ۔ بنی اسد میں سے ایک شخص نے تیر مارا جو کے ننھے شہزادے کی گردن مبارک میں آکر لگا اور جام شہادت نوش فرما گۓ،،
سانحہ کربلا صفحہ 9
اسی طرح ایک شیعہ عالم ملا باقر مجلسی لکھتا ہے،۔
امام عالی مقام نے فرمایا میرے چھوتے فرزند عبد اللہ کو لاؤ کہ اسے وداع کروں بعضوں نے انہیں علی اصغر کہا ہے،۔جب امام عالی مقام نے اس بچے کو اپنے ہاتھو پر لیا انہیں پیار کیا ۔ہرملہ بن کاہل نے ایک تیر مارا جو کی بچے کی گردن پر آکر لگا اور وہ شہید ہوگیا۔،
(جلاء العیون جلد 2 صفحہ 249 مترجم)
قارئین کرام دیکھا آپ نے کہیں بھی ان کتب میں یہ نہیں لکھا کہ امام عالی مقام پانی مانگنے گۓ تھے بچے کے لیے اور دودھ بھی خشک ہوگیا تھا وغیرہ وغیرہ، اس طرح کا جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے یہ محض ایک افسانہ جس کا کوئ ثبوت نہیں ہے اس کا مقصد صرف اس شہادت کو دردناک بنانا ہے اور لوگوں کو رلانا ہے ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلا حضرت علی اضعر کا اصل نام عبد اللہ ہے۔
واضح ہو کہ ہم نے اس تحریر میں کربلا میں پانی موجود ہونے کا ذکر کیا ہے، میدان کربلا میں پانی موجود ہونے اور اس کے روای کا جائزہ میدان کربلا ریگستان نہ تھا شیعہ حضرات کے یہاں اس کو کس طرح دیکھا جاتا ہے،
اس پر تفصیلی تحریر بہت جلد اۓ گی انشاء اللہ
اللہ کریم حق بولنے صواب لکھنے
کی توفیق عطا فرماۓ،
غلط بولنے اور غلط لکھنے سے محفوظ فرماۓ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی النورانی ہلدوانی نینیتال
چھے ماہ کے علی اصغر اور ان کے پیاس کا افسانوی قصہ بھی غیر معتبر ھے ، عموما واعظین کہتے ہیں کہ شہزادہ علی اصغر رضی اﷲ عنہ کو امام حسین نے یزیدیوں کے سامنے لے جا کر پانی مانگا یہ پانی مانگنے کا غیرمعتبر قصہ ہے "خاک کربلا" جیسی کتب میں بغیر حوالے کے درج ہے بلا تحقیق غور و خوض کے عوام الناس میں بیان کیا جاتا ہے، جب کہ یہ واقعہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان عزیمت کے بالکل خلاف ہے اور ان کی شایان شان قطعاً نہیں ہے،۔ پہلی بات تو یہ ہے حضرت علی اصغر کا نام عبداللہ ہے،، علی اصغر آپ کو کہا جاتا ہے،،
جب پانی اتنی مقدار میں موجود تھا کہ امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے غسل کیا حضرت زینب بے ہوش ہوکر گری تو آپ کے چہرے پر پانی ڈالا گیا تو کیا حضرت عبداللہ یعنی علی اصغر کے پینے کے لیۓ نہ تھا ؟ کتنی ہی عجیب بات ہے سچ تو یہ ہے امام عالی مقام اس بچہ کو لیکر پانی مانگنے نہیں گۓ تھے ۔، بلکہ آپ اپنے اس بچہ کو پیار کر رہے تھے تو دشمنوں نے تیر مارا جو کے اس بچہ علی اصغر کے آکر لگا جس سے وہ شہید ہو گۓ۔
جی ہاں یہ بات تو شیعوں کی کتب میں بھی لکھی ہوی ہے،
میں کچھ حوالے نقل کرتا ہوں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام عالی مقام پانی مانگنے نہیں گۓ تھے طبری میں ہے،
اتی الحسین بصبی لہ فھو فی حجرہ اذ رماہ احد کم یا بنی اسد بسھم فذبحہ
ایک بچہ کو امام عالی مقام کے پاس لایا گیا یہ بچہ عبداللہ بن حسین تھا آپ نے اس کو گود میں لیا بنی اسد میں سے ایک شخص نے تیر مارا بچہ ذبحہ ہوگیا
تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 448
اسی طرح بدایہ والنہایہ میں ہے
کہ امام عالی مقام بیٹھے ہوۓ تھے آپ کے پاس آپ کا بچہ لایا گیا جس کا نام عبد اللہ تھا، آپ نے اسکو پیار کیا بوسہ دیا
بنی اسد کے ایک مرد نے تیر مارا جو کہ بچے کو لگا جس سے وہ ذبح ہوگیا،۔
ثم ان الحسین أعیا قعد علی باب فطاطاہ و أتی بصبی صغیر من أولادہ اسمہ عبد اللہ ، فأجلسہ فی حجرہ ثم جعل یقبلہ و یشمہ و بودعہ و بوصی اھلہ فرماہ رجل من بنی اسد،۔
البدایتہ والنہایتہ جلد 8 صفحہ 186۔۔،
بدایہ کی اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا اس بچہ کا نام عبد اللہ تھا یعنی حضرت علی اصغر کا نام عبد اللہ ہے۔،
اسی طرح علامہ مفتی غلام رسول قاسمی صاحب سانحہ کربلا میں لکھتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ یعنی علی اصغر جو شیر خوار بچے تھے امام عالی مقام خیمے کے دروازے پر انہیں گود میں لیکر بیٹھے انہیں بوسے دینے الوداع اور گھر والوں کو وصیت کرنے لگے ۔ بنی اسد میں سے ایک شخص نے تیر مارا جو کے ننھے شہزادے کی گردن مبارک میں آکر لگا اور جام شہادت نوش فرما گۓ،،
سانحہ کربلا صفحہ 9
اسی طرح ایک شیعہ عالم ملا باقر مجلسی لکھتا ہے،۔
امام عالی مقام نے فرمایا میرے چھوتے فرزند عبد اللہ کو لاؤ کہ اسے وداع کروں بعضوں نے انہیں علی اصغر کہا ہے،۔جب امام عالی مقام نے اس بچے کو اپنے ہاتھو پر لیا انہیں پیار کیا ۔ہرملہ بن کاہل نے ایک تیر مارا جو کی بچے کی گردن پر آکر لگا اور وہ شہید ہوگیا۔،
(جلاء العیون جلد 2 صفحہ 249 مترجم)
قارئین کرام دیکھا آپ نے کہیں بھی ان کتب میں یہ نہیں لکھا کہ امام عالی مقام پانی مانگنے گۓ تھے بچے کے لیے اور دودھ بھی خشک ہوگیا تھا وغیرہ وغیرہ، اس طرح کا جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے یہ محض ایک افسانہ جس کا کوئ ثبوت نہیں ہے اس کا مقصد صرف اس شہادت کو دردناک بنانا ہے اور لوگوں کو رلانا ہے ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلا حضرت علی اضعر کا اصل نام عبد اللہ ہے۔
واضح ہو کہ ہم نے اس تحریر میں کربلا میں پانی موجود ہونے کا ذکر کیا ہے، میدان کربلا میں پانی موجود ہونے اور اس کے روای کا جائزہ میدان کربلا ریگستان نہ تھا شیعہ حضرات کے یہاں اس کو کس طرح دیکھا جاتا ہے،
اس پر تفصیلی تحریر بہت جلد اۓ گی انشاء اللہ
اللہ کریم حق بولنے صواب لکھنے
کی توفیق عطا فرماۓ،
غلط بولنے اور غلط لکھنے سے محفوظ فرماۓ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی النورانی ہلدوانی نینیتال