زندوں کی قدر
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
تحریر: محمد جسیم اکرم مرکزی پورنوی
متخصص فی الفقہ جامعۃ الرضا بریلی شریف
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
جو جا چکے ہیں ان پہ صنم صبر کیجے
زندہ ابھی ہوں میں تو مری قدر کیجیے
اللہ جل جلالہ کے نیک بندوں سے زمین کبھی خالی نہ ہوگی علم کے ساتھ ساتھ ولایت کی سب سے بڑی دلیل تقوی باللہ الحب فی اللہ و البغض فی اللہ استقامت فی سبیل اللہ ہوتی ہے جس کے اندر یہ خوبیاں نہیں ہوتیں تو وہ ولایت کا حامل ہر گز نہیں ہو سکتا ہے لیکن ولایت ایک مخفی شی ہے جس کا پتہ ہر کس و ناکس کو نہیں ہوتا ہے کہ کون ولی ہے اور کون نہیں اس کے لیے وہی قاعدۂ پارینہ ہے ولی را ولی می شناسد
لیکن جن کے اندر متذکرہ بالا صفات ہوں تو وہ ضرور اللہ کا نیک بندہ متقی پرہیزگار عامل سنت عالم با عمل کہے جانے کے مستحق ہوں گے ایسی ذوات کی تعریف و توصیف و ثنا باعث برکت و نجات ہوگی خواہ وہ حیات میں ہو یا بعد وفات ،
آج بعض حضرات کا کہنا ہے کہ جب کوئی متبحر عالم دین با حیات ہوتے ہیں تو ادبا حضرات ان پر خامہ فرسائی نہیں کرتے ہیں کہ ان کا تعارف ہو سکے اور ان سے استفادہ کیا جا سکے لیکن جب داعی اجل کو لبیک کہ دیتے ہیں پھر پتہ چلتا ہے کہ ہم جس سونے کی تلاش میں ادھر ادھر در بدر بھٹکتے رہے تھے آج اسے اپنے ہاتھوں سے سپرد خاک کر دیا اب کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں رہتا ہے یہ بات از قبیل حقیقت بھی ہے
لیکن اس میں ہماری بھی کمیاں ہیں کہ ہم خود ایسی ذوات کو تلاش کر کے ان کے پاس نہیں جاتے ہیں یا جاتے بھی ہیں تو فردا فردا جاتے ہیں ایک ذات فردا فردا کتںے اشخاص کو جام علم و ادب سے سیراب کر سکتی ہے ہاں اگر ایک جماعت ہو اور وہ اس سے اکتساب فیض کرنا چاہے تو وہ کبھی منع نہیں کرے گی ہاں جب کہ کوئی ضروری مصروفیت در پیش ہو
نیز تعصب پرستی ہے کہ کوئی کسی کی کھل کر تعریف حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہتا ہے اگر کوئی کرتا بھی ہے تو دبے الفاظ میں اکثر لوگ یہی چاہتے ہیں کہ میری واہ وائی ہو میں خود بڑا ہوں میں خود اپنے وقت کا ایک خاندانی باقار ذی علم شخص ہوں میں کسی کی تعریف اس کے سوا زیادہ کچھ کیوں لکھوں کہ "فلاں مولانا اچھا کام کرتے ہیں" اگر چہ وہ اپنے وقت کا کتنا ہی بڑا مفکر و مدبر ہو،
ایک بات یہ بھی ہے اس دور پر فتن میں القاب اتنے سستے ہو گئے ہیں کہ اگر کسی کو علامہ فہامہ ڈاکٹر مفکر متقی لکھ کر بھی ان کی ذات کی خصوصیات بتانا چاہو تو لوگ خود فیصلہ کر لیتے ہیں کہ القاب تو محض تحسین نام کے لیے ہے باقی وہ بھی ایک مولوی صاحب ہیں اور بس القاب دینے والا صرف اپنی دکان چمکانا چاہتا ہے اب قارئین و سامعین ایک چند کتاب کے مطالع کو اور ایک جید باشرع عالم دین کو برابر سمجھ لیتے ہیں جس کی وجہ سے مستحقین توجہ کی طرف توجہ مبذول نہیں ہوتی ہے
ہاں ایک راستہ ہے ایسے انمول حضرات کی طرف جو دینی کاموں میں ہمیشہ مشغول رہتے ہیں دن کو دن رات کو رات نہیں سمجھتے ہیں بس رضائے الٰہی کے لیے خدمت دین میں لگے رہتے ہیں بڑے لوگ متوجہ ہو جائیں انھیں عوام و خواص کے سامنے دینی کاموں کی خدمات پر انعامات سے نوازیں حوصلہ افزائی کریں اور ان کے دینی خدماتی پہلؤں کو عوام و خواص پر اجاگر کریں تو اس سے یہ ہوگا کہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت رچ بس جائے گی سب کو یقینی طور پر معلوم ہو جائے گا کہ ہاں یہ بہت بڑے عالم دین ہیں پھر ان سے طلبا علما استفادہ بھی کر سکیں گے ورنہ ظاہری جبہ و دستار والوں کی وجہ سے باطنی جبہ و دستار والوں کی بھی عزت اور خاطر خواہ خدمت نہیں ہو پاتی ہے
آج بھی بہت ساری ہستیاں ہیں جو گوشۂ گمنامی میں عشرت منامی کے مزے لوٹ رہے ہیں لیکن شاید ہی کسی کو ان کی عظمت و رفعت علم و جلالت تقوی و طہارت کے بارے معلوم ہو چند عبقری شخصیات ، جو خلوت پسند ہیں ان کے اسماء اور مختصر حالات یہاں ذکر کر دیتا ہوں تاکہ جو استفادہ کے شائقین حضرات ہیں ان سے استفادہ کر سکیں
مقبول العلما دام ظلہ العالی ______
خلیفۂ حضور مفتی اعظم ہند و منظور نظر، مقبول العلما استاذ الاساتذہ استاذ محدث بریلوی شیخ صالح صاحب قبلہ، صوفی با صفا، زینت اتقیا حضور علامہ خواجہ محمد مقبول صاحب قبلہ پورنوی دام ظلہ العالی [سنگھیا ٹھاٹھول بائسی پورنیہ بہار] کی ذات ستودہ صفات گوناگوں خوبیوں کی حامل ہے آپ صوفی صفت ذی علم شخصیت ہیں جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف میں درس و تدریس کی خدمات انجام دیے آپ کے شاگردوں میں جید متبحر علماء کرام ہیں انھیں میں حضور شیخ صالح محدث بریلوی ہیں جو آپ کی بہت ہی زیادہ عزت و قدر کرتے ہیں جب خواجہ آصف مصباحی صاحب قبلہ اطال اللہ عمرہ شہزادۂ مقبول العلما جامعۃ الرضا میں بحیثیت مدرس قیام پذیر تھے اور حضرت شیخ صاحب سے ملاقات کے لیے جاتے تو حضور شیخ صاحب ان کو اپنے قریب بٹھاتے اس لیے کہ وہ ان کے استاذ کے صاحب زادے ہیں
تاجدار اہل سنت شہزادۂ اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہند رضی اللہ عنہ کو حضور مقبول العلما سے اس قدر محبت تھی کہ حضور مفتی اعظم ہند، مقبول العلما کی شادی میں بائسی پورنیہ تشریف لے گئے اور بارات بھی گئے اسی بارات میں حضور مفتی اعظم کی ایک کرامت ظاہر ہوئی جس کے راوی آج بھی کثیر تعداد میں بائسی میں موجود ہیں کرامت یہ ہے کہ حضور مفتی اعظم ہند پالکی میں بارات جا رہے تھے منہ میں پان تھا آپ نے جو پس خوردہ نیچے پھینکا وہ ایک معذور شخص کے پیر میں جا گرا خدا کا کرم ہوا کہ اس پس خوردۂ حضور مفتی اعظم کی برکت سے وہ پیر سے معذور شخص صحت یاب ہو گیا
حضور مقبول العلما فی الوقت اپنے دولت کدہ سنگھیا ٹھاٹھول بائسی پورنیہ بہار میں قیام پذیر ہیں اس ضعیف العمری میں بھی کبھی ایک وقت کی نماز قضا نہیں ہوتی آپ کی ذات میں تقوی طہارت علم و فراست میں حضور مفتی اعظم رضی اللہ عنہ کی جھلک نمایاں ہیں
شیخ صالح محدث بریلوی دام ظلہ العالی _______
خلیفۂ حضور تحسین ملت منظور نظر مفتی اعظم ہند یادگار اسلاف فقیہ بے نظیر نمونۂ تصوف جلیل القدر عالم استاذی الکریم شیخ مفتی محمد صالح قادری بریلوی دام ظلہ العالی شیخ الحدیث جامعۃ الرضا بریلی شریف متبحر عالم دین مفتی اعظم ہند کے پروردہ ہیں حضور تاج الشریعہ رضی اللہ عنہ آپ کی ولایت کے قائل تھے علم و ادب میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ مستجاب الدعوات بزرگ ہیں جن کی کوئی دعا رد نہیں ہوتی اس پر بہت سارے واقعات شاہد ہیں راقم الحروف نے خود ایک ایسے شخص کے لیے جو بیس سال سے شراب نوشی میں مشغول تھا بہت تجربے اپنانے کے باوجود وہ چھوڑ نہیں پاتا تھا اس کے لیے دعا کروائی خدا کا کرم ہوا کہ اب وہ ایسا ہو گیا لگتا ہی نہیں کہ کبھی وہ شراب کے قریب بھی گیا ہو اب وہ خود ان چیزوں سے گھن کرتا ہے اور دوسروں کو روکتا ہے حضور شیخ صالح صاحب کے تقوے کی کوئی مثال نہیں ہے ہمیشہ یاد الہی میں محو رہتے ہیں دنیا میں رہ کر بھی دنیا سے بے گانہ ہیں
ذکری للذاکرین ترجمہ تنبیہ الغافلین علاوہ ازیں آپ کی اردو عربی میں کئی تصانیف ہیں
جب ہمیں بخاری شریف پڑھاتے تھے تو بعض جگہ پر فرماتے علامہ بدر الدین عینی نے اس کی تشریح یوں کی ہے اور بہت لمبی بحث کی ہے لیکن وہ انگلی رکھنے [اعترض کرنے] کی جگہ ہے اگر اس کا ترجمہ یوں کر دیتے تو کوئی لمبی تمہید نہیں باندھنی پڑتی پھر آپ وہ ترجمہ کرتے اور طلبہ سن کر اش اش کر اٹھتے
حضور شیخ صالح صاحب محدث بریلوی دام ظلہ العالی فی الوقت بریلی شریف میں قیام پذیر ہیں جو حضرات اکتساب فیض کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں
علامہ قمر الدین پورنوی حفظہ اللہ تعالی__________
تلمیذ ملک العلما قمر قطب پورنیہ حضرت علامہ محمد قمر الدین پورنوی دام ظلہ العالی
[لعل گنج پورنیہ بہار] حضور رئیس العلما مولانا مسلم علیہ الرحمہ کے چھوٹے بھائی ہیں بڑے ہی متقی پرہیز گار تقوی شعار ہیں نمازوں کی پابندی ضعیف العمری میں بھی ایسی ہی ہے جیسی جوانی میں تھی آپ کے تقوے کو دیکھ کر حضور قطب پورنیہ مجدد سلسلۂ رشیدیہ زعیم العلما علامہ یسین رشیدی پورنوی رضی اللہ عنہ آپ کو مصلی امامت میں کھڑ کیے اور جب تک وہ خانقاہ رشیدیہ چمنی بازار میں رہے تو نماز پڑھاتے رہے اگر کبھی نظر نہ آتے تو حضور زعیم العلما فرماتے میرا قمر کدھر چھپ گیا
بحر العلوم کٹیہار میں رہ کر خلیفۂ اعلی حضرت حضور ملک العلما سید ظفر الدین بہاری مصنف صحیح البہاری رضی اللہ عنہ سے تعلیم حاصل کی اور اکتساب فیض کیا خاص کر حضور ملک العلما کے تقوے سے بہت متاثر ہوئے اور اپنی زندگی کو ان کے نقش قدم پر ڈھال دی ابھی حضرت لعل گنج ملکی پورنیہ بہار میں جلوہ افروز ہیں شائقین حضرات مل کر دعائیں لے سکتے ہیں
علامہ قاضی شہید عالم کٹیہاری دم ظلہ العالی _______
شاگرد حضور امام علم و فن وارث علوم امام علم و فن نیر برج سخن نازش علم و ادب رونق مسند افتاء جامع معقولات و منقولات ادیب بے نظیر ماہر فلکیات حاوی منطق و فلسفہ و توقیت و جفر علامہ قاضی شہید عالم کٹیہاری دام ظلہ العالی عرصۂ دراز سے جامعہ نوریہ باقر گنج بریلی شریف میں درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں جن نادر و نایاب علوم و فنون میں آپ کو ید طولی حاصل ہیں پورے ہند و پاک میں شاید ہی کسی کو ان علوم میں مہارت ہو
قارئین کرام پہلے حضور امام علم و فن خواجہ مظفر حسین رضی اللہ عنہ سے ایک انٹرویو میں جو سوالات کیے گیے ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیں اور قاضی شہید کٹیہاری دام ظلہ العالی کی علمی لیاقت کو سمجھیں
سوال :۔ عالم اسلام میں آپ کم یاب علوم و فنونِ قدیمہ کے واحد امین و علم بردار ہیں ۔ آپ نے اپنی علمی وفنی امانت کو کس طرح محفوظ کیا ہے۔؟
جواب : موجودہ زمانہ میں چونکہ حصول علم برائے معاش ہو گیا ہے اس لیے اس سلسلے میں صعوبات برداشت کرنے اور ان بھاری بھر کم بوجھوں کو اٹھانے والے نہیں ملتے۔ سب سہل پسند ہو گئے ہیں ۔ ویسے یہ امانت مولانا قاضی شہید عالم کٹیہاری اور مفتی مطیع الرحمن مضطر پورنوی کی طرف کچھ حد تک منتقل ہو چکی ہے۔
مزید کریدنے پر انہوں نے بتایا کہ مولانا قاضی شہید عالم علوم دیمہ کا کچھ زیادہ علم رکھتے ہیں جب کہ مفتی مطیع الرحمن علوم قدیمہ کا علم کچھ کم مگر فقہ میں گہرائی زیادہ رکھتے ہیں۔
سوال :۔ چونکہ آپ نے مذکورہ علوم و فنون کو بغیر کسی استاد کے صرف اپنی کوششوں ، مطالعہ اور تحقیقات وغیرہ کے ذریعہ حاصل کیا ہے۔ کیا مختلف مسائل کے حل و نتائج اخذ کرتے وقت آپ کبھی خطا نہیں کرتے ؟
جواب: میرا اخذ شده حل و نتائج بالکل درست و معتبر ہوتے ہیں۔ میرے پاس پوری دنیا سے ہیئت و فلکیات سے متعلق سوالات آتے ہیں جن کا میں بالکل درست اور تشفی بخش جوابات دیتا ہوں ۔
سوال: کیا علوم قدیمہ سے متعلق آپ کی تصانیف بھی ہیں؟
جواب : ان علوم و فنون پر کوئی تصنیف تو نہیں ہے البتہ ان سے متعلق مضامین میں مسلسل لکھتا آرہا ہوں ۔ ( ویسے خواجہ صاحب ، صاحب تصانیف بھی ہیں ۔ )
سوال: آپ نے مذکورہ علوم وفنون کی حفاظت کے لئے جتن کیوں نہیں کیا ؟
جواب : میری مصروفیات اتنی زیادہ ہیں کہ اس کام کے لئے وقت ہی نہیں بچتا ہے۔
سوال: کیا اب یہ سمجھا جائے کہ آپ کے ساتھ ہی مذکورہ نایاب و کم یاب علوم فنون بھی دنیا سے اٹھ جائیں گے؟
جواب : جی ہاں، شاید ایسا ہی ہو۔
[تحقیقات امام علم و فن ص: ۱۰]
اور ایسا دکھ بھی رہا ہے بہت سے علوم و فنون وہ ہیں جو فقط کتابوں میں ہیں صدور انسان سے غائب ہیں یہاں تک کہ فتاوی رضویہ کے بہت سارے گوشے ایسے ہیں جن کو سمجھنے والے اب نہیں ملتے اگر چراغ جلا کر ڈھونڈیں گے تو گھوم پھر کر پھر وہیں علامہ قاضی شہید عالم کٹیہاری دام ظلہ العالی کے پاس پہنچیں گے میں نے سیمنار میں ان کے رسوخ فی العلم کو دیکھا ہے جزئیات میں ایسی پکڑ کہ انگشت بدنداں رہ جائیں جب بولے تو لگے کہ کوئی راسخ فی العلم بول رہا ہے لیکن سوال یہ ہے جو علوم امام علم و فن کے سینے سے منتقل ہو کر ان تک پہنچے کیا ان علوم کو کسی نے ان سے حاصل کیا ؟
یا پھر یہ علوم بھی ان کے ساتھ ساتھ اٹھ جائیں گے؟
اے طلباء علم و فن اے بارگاہ مقتدر اے حاملان جبہ و دستار آج ان کی قدر کر لو ان سے اکتساب فیض کر لو اگر یہ سورج ڈھل گیا تو زمانے میں تاریکی چھا جائے گی
علامہ ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی
امیر القلم زینت بزم علم و ادب درویش صفت محنت کش جفا کش سیاح وقت نمونۂ اسلاف حضرت علامہ ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی دام ظلہ العالی آپ بھی انھیں ہستیوں میں سے ہیں جسے دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے جب آپ تحقیقی مراحل کو طے کرنے کے لیے پاکستان تشریف لے گئے تو علامہ شاہ تراب الحق قادری رضی اللہ عنہ آپ کو اپنے گھر لے گئے عزت و احترام سے خواب نوازے ایک جلسہ کرایا جس میں آپ کو علامہ تراب الحق علیہ الرحمہ نے انعامات و اکرام سے نوازا اس کے بعد بھی بعض جلسے کیے گیے جس میں آپ کو مہمان خصوصی کے طور پر اور آپ کے کاموں کو سراہنے کے لیے مدعو کیا گیا افسوس کہ دوسرے ملک کے علما نے تو آپ کی پذیرائی کی لیکن اپنے علما نے آپ کو سراہنے سے اپنے ہاتھوں کو کھینچ لیا زبانوں کو منہ میں بند کر لیا حتی کہ بہار کے علما نے بھی آپ کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی جب کہ ان علماء کرام کو جن کو کوئی جانتا نہیں تھا جن کو لوگوں نے بھلا دیا تھا جو پردۂ گمنامی میں جنت الفردوس کی بھینی بھینی ہواؤں سے لطف اندوز ہو رہے تھے حضرت نے ان کی حیات و خدمات پر "کاملان پورنیہ" لکھ کر پورنیہ کے عوام و خواص کو ان کے اسلاف کی تاریخ سے روشناس کرایا اور فرزندان پورنیہ پر احسان عظیم فرمایا بلکہ علما پورنیہ کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر دیا
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ پر آپ کے ایسے گرانقدر کارنامے ہیں شاید آپ سے پہلے کسی نے اس طرف توجہ بھی نہ دی ہو کئی جلدوں میں خطوط اعلی حضرت کو جمع کیا جن میں علمی فنی بیش بہا جواہر پارے ہیں
پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد لکھتے ہیں:
ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی عربی فارسی اور اردو علوم وفنون کے عالم و فاضل ہیں عمر چونتیس سال ہے [ابھی آپ کی عمر ترپن سال ہے پروفیسر مسعود صاحب کی یہ تحریر انیس سال پہلے کی ہے] مگر کام ماشاء اللہ عمر سے بہت زیادہ ہیں، بہت سی ڈگریاں ہیں مگر غرور علم سے پاک ہیں۔ بہار یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کے لئے امام احمد رضا محدث بریلوی کی مکتوب نگاری پر تحقیقی مقالہ پیش کیا بس پھر لکھتے چلے گئے اور ایک دو نہیں اس کام کے صدقے سترہ کتابیں لکھ ڈالیں جن میں سے بعض کی دو دو اور تین تین جلدیں ہیں۔ دیندار خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ اُن کی زندگی عمل سے عبارت ہے۔ وہ عہد جدید کے جوانوں کے لئے ایک چمکتی دمکتی مثال ہیں کامیابیوں نے قدم چومے، بحیثیت طالب علم بھی کامیاب رہے اور بحیثیت استاد بھی اور بحیثیت محقق و دانشور بھی کامیاب رہے۔ دنیا سے بیزار و بے نیاز، حق کے طلب گار، لگن کے پکے، ارادے کے پختہ سیاست سے دور، صداقت شعار، سادہ و بے تکلف غریب و غم خوار، دردمند و دم ساز ......
[پرواز خیال ص ۹]
یہ تو انیس سال پہلے کا تاثر ہے ابھی تو آپ کی عمر ترپن سال ہو چکی ہے اور تصانیف کی تعداد درجنوں بڑھ چکی ہیں اگر کوئی علامہ ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی کا درد دل پڑھنا چاہے تو وہ آپ کی تصنیف "بولتی تصویریں" پڑھ لے قاری کے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور سوچ میں پڑ جائے گا کہ کیا دنیا ایسے محسن و مربی کے ساتھ بھی اجنبی پن کا اظہار کرتی ہے
یہی وہ مرد درویش ہے جس نے کشن گنج میں امام احمد رضا یونیورسٹی بنانے کا عزم مصمم کیا بیس ایکڑ زمین خریدی لیکن ابھی تک یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا کیونکہ ہماری قوم ابھی پیروں کو خوش کرنے میں لگی ہے اعراس و اجلاس قوالی ڈھول تاشے سے فرصت ہی نہیں ہے بے چاری قوم خرافات میں ڈوبی ہوئی ہے اگر ایک سال جلسے کے روپے ہماری قوم اس طرف لگا دیتی تو امام احمد رضا یونیورسٹی کی عمارتیں آسمان سے آنکھیں ملاتی ہوئی نظر آتیں لیکن افسوس کثیر تعداد بچیاں کشن گنج میں بھی مرتد ہو رہی ہیں لیکن سب خواب خرگوش میں ہیں یہ مرد درویش چیخ چیخ کر جگانا چاہتا ہے لیکن کوئی جاگنا ہی نہیں چاہتا ہے آہ کیسی قوم ہے ایسے بلبل کی پکار کو بھی صدائے باز گشت ثابت کرنا چاہتی ہے، پھر بھی!
اک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے جزبوں کا تلاطم اب تک
ابھی بھی بہت ساری ہستیاں ہیں جو پردۂ گمنامی میں عشرت منامی کے مزے لوٹ رہے ہیں لیکن اس تنگ تحریر میں کس کس کو بیان کروں کس کو چھوڑ دوں بس یہی کہوں کہ جو ذرہ جہاں پر وہیں آفتاب ہے چاہتا تو یہی ہوں کہ تحریر مختصر ہو لیکن پھر بھی طویل ہو جاتی ہے امید ہے کہ قارئین معذور گردانیں گے
خلاصۂ کلام
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انزلوا الناس منازلھم کہ لوگوں کو ان کے مرتبے پر رکھو جن کا جو مرتبہ ہے ان کو دو ان سے چشم پوشی مت کرو اور جو نا اہل ہو اسے جبہ و دستار پہنا کر اہل کی صف میں کھڑا نہ کرو
یہ "انزلوا" کی روشنی میں کہتا ہے جسیم
جو منزلیں ہیں جن کی انھیں نذر کیجیے
دنیا گواہ ہے اس بات پر جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور کی تصدیق کی تو حضور نے انھیں صدیق کا لقب دیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب حق و باطل میں تفریق کر دی تو انھیں فاروق کا لقب دیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شان سخاوت پر قرآن کی آیت حضور نے سنائی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مولی، ابو تراب کا لقب دیا یہ بارگاہ رسالت سے صحابہ کرام کی حوصلہ افزائی تو ہے ان کو ان کی منزل عطا کرنا ہی تو ہے حق دار کو ان کا حق ہہنچانا یہ تو درس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جسے آج ہم نے بھلا دیا اور اپنے اکابر کی قدر کھو دی
اس دور پر فتن میں عزیزان محترم
اللہ والے درمیاں ہیں فخر کیجیے
اللہ جل و علا ہمیں اپنے اکابر کی عزت و احترام کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم