حضرت عثمان کی شہادت میں صحابہ بھی ملوث تھے۔ اگر ملوث نہیں تھے تو مدد کیوں نہیں کی؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
رافضی اعتراض:-
رافضی اعتراض:-
حضرت عثمان کی شہادت میں صحابہ بھی ملوث تھے۔ اگر ملوث نہیں تھے تو مدد کیوں نہیں کی؟
الجواب: خلیفة المسلمین حضرت سیدنا عثمان ابن عفان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی شہادت میں کوئی بھی صحابی ملوث نہ تھا بلکہ صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم اجمعین بارہا آپ سے جنگ کی اجازت طلب کرتے رہے مگر آپ نے بحیثیت خلیفہ "حکم" جاری فرما دیا کہ حرمِ مدینہ میں میری وجہ سے خون نہ بہے۔
کوئی_صحابی_ملوث_نہ_تھا
ابن كثير القرشي الدمشقی (٧٠٠ - ٧٧٤هـ) نقل کرتے ہیں:
وَلَيْسَ فِيهِمْ صَحَابِيٌّ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
یعنی:
حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی شہادت میں کوئی بھی صحابی ملوث نہ تھا۔ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
[البداية والنهاية، جلد 10، صفحہ 451، امير المؤمنين علي بن أبي طالب من المدينة إلى البصرة بدلا عن مسيره إلى الشام ، مطبوعہ بدار الھجرة بیروت]
انصارومہاجرین_میں_کوئی_ایک_صحابی_بھی قتلِ_عثمان_میں_شریک_نہ_تھا
امام بخاری سے ماقبل امام أبو عمرو خليفة بن خياط بن خليفة الشيباني العصفري البصري (ت ٢٤٠هـ) روایت نقل کرتے ہیں:
عَبْد الْأَعْلَى بْن الْهَيْثَم قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ قلت لِلْحسنِ أَكَانَ فِيمَن قتل عُثْمَان أحد من الْمُهَاجِرين وَالْأَنْصَار قَالَ لَا كَانُوا أعلاجا من أهل مصر
یعنی: ابو الہیثم کہتے ہیں کہ میں نے (عینی شاھد) حضرتِ حسنِ بصری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے پوچھا کہ کیا انصار اور مہاجرین صحابہ کرام میں سے کوئی ایک بھی حضرتِ عثمان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم کے قتل میں شریک تھا؟ تو حضرت حسن بصری نے فرمایا: نہیں بلکہ وہ (قاتل) تو مصر کے بدمعاش تھے۔“
(سندہ صحیح)
[تاريخ خليفة بن خياط ، 76، مطبوعہ دار القلم، مؤسسة الرسالة ، بيروت دمشق]
صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم اجمعین کے بار بار قِتال کی اجازت طلب کرنے کے باوجود خلیفة المسلمین نے اجازت نہیں دی بلکہ مسندِ خلافت سےقِتال سے باز رہنے کا حکم جاری فرما دیا۔
صحابہ_کا_قتال_کی_اجازت_طلب_کرنا
إمام أحمد بن حنبل علیہ الرحمہ (١٦٤ - ٢٤١ هـ) روایت نقل فرماتے ہیں:
عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ: أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ وَهُوَ مَحْصُورٌ، فَقَالَ: إِنَّكَ إِمَامُ الْعَامَّةِ، وَقَدْ نَزَلَ بِكَ مَا تَرَى، وَإِنِّي أَعْرِضُ عَلَيْكَ خِصَالًا ثَلاثًا، اخْتَرْ إِحْدَاهُنَّ: إِمَّا أَنْ تَخْرُجَ فَتُقَاتِلَهُمْ، فَإِنَّ مَعَكَ عَدَدًا وَقُوَّةً، وَأَنْتَ عَلَى الْحَقِّ، وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ، وَإِمَّا أَنْ نَخْرِقَ لَكَ بَابًا سِوَى الْبَابِ الَّذِي هُمْ عَلَيْهِ، فَتَقْعُدَ عَلَى رَوَاحِلِكَ، فَتَلْحَقَ بِمَكَّةَ، فَإِنَّهُمْ لَنْ يَسْتَحِلُّوكَ وَأَنْتَ بِهَا، وَإِمَّا أَنْ تَلْحَقَ بِالشَّامِ، فَإِنَّهُمْ أَهْلُ الشَّامِ، وَفِيهِمْ مُعَاوِيَةُ.
فَقَالَ عُثْمَانُ: أَمَّا أَنْ أَخْرُجَ فَأُقَاتِلَ، فَلَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ خَلَفَ رَسُولَ اللهِ ﷺ فِي أُمَّتِهِ بِسَفْكِ الدِّمَاءِ، وَأَمَّا أَنْ أَخْرُجَ إِلَى مَكَّةَ فَإِنَّهُمْ لَنْ يَسْتَحِلُّونِي بِهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «يُلْحِدُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ، يَكُونُ عَلَيْهِ نِصْفُ عَذَابِ الْعَالَمِ» فَلَنْ أَكُونَ أَنَا إِيَّاهُ، وَأَمَّا أَنْ أَلْحَقَ بِالشَّامِ فَإِنَّهُمْ أَهْلُ الشَّامِ، وَفِيهِمْ مُعَاوِيَةُ، فَلَنْ أُفَارِقَ دَارَ هِجْرَتِي، وَمُجَاوَرَةَ رَسُولِ اللهِ ﷺ
یعنی: محاصرہ کے دوران حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے آکر (حضرت عثمان سے) عرض کیا: میری تین باتوں میں سے ایک مان لیجئے، آپکے حامیوں کی عظیم بات یہاں موجود ہے اس کو لے کر نکلئے اور ان باغیوں کا مقابلہ کرکے ان کو نکال دیجئے، دوسری صورت یہ ہے کہ پچھلی طرف سے نکل کے مکہ معظمہ چلے جائیں مکہ حرم ہے، وہاں یہ آپ پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کریں گے تیسری صورت یہ ہے کہ شام میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی پناہ میں چلے جائیں ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلی صورت کا یہ جواب دیا کہ اگر میں باہر نکل کر ان سے جنگ کرو تو میں اس امت کا وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جو اپنی حکومت کی بقا کے لیے مسلمانوں کا خون بہائے، دوسری صورت کا جواب یہ دیا کہ مجھے ان لوگوں سے یہ توقع نہیں ہے کہ یہ حرمِ مکہ کی حُرمت کا کوئی لحاظ رکھیں گے اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے اس شہر گھر کی حرمتیں پامال ہوں، اور تیسری صورت کا جواب یہ تھا کہ دارالھجرت اور دیارِ رسول کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جانا چاہتا ۔
[مسند أحمد بن حنبل، جلد 1، 519،حدیث: 481 ، مطبوعہ مؤسسة الرسالة بیروت]
حضرت_ابوھریرہ_کااجازت_طلب_کرنا
محّدث محمد بن سعد بن منيع الزهري (ت ٢٣٠ هـ) روایت نقل فرماتے ہیں:
الجواب: خلیفة المسلمین حضرت سیدنا عثمان ابن عفان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی شہادت میں کوئی بھی صحابی ملوث نہ تھا بلکہ صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم اجمعین بارہا آپ سے جنگ کی اجازت طلب کرتے رہے مگر آپ نے بحیثیت خلیفہ "حکم" جاری فرما دیا کہ حرمِ مدینہ میں میری وجہ سے خون نہ بہے۔
کوئی_صحابی_ملوث_نہ_تھا
ابن كثير القرشي الدمشقی (٧٠٠ - ٧٧٤هـ) نقل کرتے ہیں:
وَلَيْسَ فِيهِمْ صَحَابِيٌّ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
یعنی:
حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی شہادت میں کوئی بھی صحابی ملوث نہ تھا۔ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
[البداية والنهاية، جلد 10، صفحہ 451، امير المؤمنين علي بن أبي طالب من المدينة إلى البصرة بدلا عن مسيره إلى الشام ، مطبوعہ بدار الھجرة بیروت]
انصارومہاجرین_میں_کوئی_ایک_صحابی_بھی قتلِ_عثمان_میں_شریک_نہ_تھا
امام بخاری سے ماقبل امام أبو عمرو خليفة بن خياط بن خليفة الشيباني العصفري البصري (ت ٢٤٠هـ) روایت نقل کرتے ہیں:
عَبْد الْأَعْلَى بْن الْهَيْثَم قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ قلت لِلْحسنِ أَكَانَ فِيمَن قتل عُثْمَان أحد من الْمُهَاجِرين وَالْأَنْصَار قَالَ لَا كَانُوا أعلاجا من أهل مصر
یعنی: ابو الہیثم کہتے ہیں کہ میں نے (عینی شاھد) حضرتِ حسنِ بصری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے پوچھا کہ کیا انصار اور مہاجرین صحابہ کرام میں سے کوئی ایک بھی حضرتِ عثمان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم کے قتل میں شریک تھا؟ تو حضرت حسن بصری نے فرمایا: نہیں بلکہ وہ (قاتل) تو مصر کے بدمعاش تھے۔“
(سندہ صحیح)
[تاريخ خليفة بن خياط ، 76، مطبوعہ دار القلم، مؤسسة الرسالة ، بيروت دمشق]
صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم اجمعین کے بار بار قِتال کی اجازت طلب کرنے کے باوجود خلیفة المسلمین نے اجازت نہیں دی بلکہ مسندِ خلافت سےقِتال سے باز رہنے کا حکم جاری فرما دیا۔
صحابہ_کا_قتال_کی_اجازت_طلب_کرنا
إمام أحمد بن حنبل علیہ الرحمہ (١٦٤ - ٢٤١ هـ) روایت نقل فرماتے ہیں:
عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ: أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ وَهُوَ مَحْصُورٌ، فَقَالَ: إِنَّكَ إِمَامُ الْعَامَّةِ، وَقَدْ نَزَلَ بِكَ مَا تَرَى، وَإِنِّي أَعْرِضُ عَلَيْكَ خِصَالًا ثَلاثًا، اخْتَرْ إِحْدَاهُنَّ: إِمَّا أَنْ تَخْرُجَ فَتُقَاتِلَهُمْ، فَإِنَّ مَعَكَ عَدَدًا وَقُوَّةً، وَأَنْتَ عَلَى الْحَقِّ، وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ، وَإِمَّا أَنْ نَخْرِقَ لَكَ بَابًا سِوَى الْبَابِ الَّذِي هُمْ عَلَيْهِ، فَتَقْعُدَ عَلَى رَوَاحِلِكَ، فَتَلْحَقَ بِمَكَّةَ، فَإِنَّهُمْ لَنْ يَسْتَحِلُّوكَ وَأَنْتَ بِهَا، وَإِمَّا أَنْ تَلْحَقَ بِالشَّامِ، فَإِنَّهُمْ أَهْلُ الشَّامِ، وَفِيهِمْ مُعَاوِيَةُ.
فَقَالَ عُثْمَانُ: أَمَّا أَنْ أَخْرُجَ فَأُقَاتِلَ، فَلَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ خَلَفَ رَسُولَ اللهِ ﷺ فِي أُمَّتِهِ بِسَفْكِ الدِّمَاءِ، وَأَمَّا أَنْ أَخْرُجَ إِلَى مَكَّةَ فَإِنَّهُمْ لَنْ يَسْتَحِلُّونِي بِهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «يُلْحِدُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ، يَكُونُ عَلَيْهِ نِصْفُ عَذَابِ الْعَالَمِ» فَلَنْ أَكُونَ أَنَا إِيَّاهُ، وَأَمَّا أَنْ أَلْحَقَ بِالشَّامِ فَإِنَّهُمْ أَهْلُ الشَّامِ، وَفِيهِمْ مُعَاوِيَةُ، فَلَنْ أُفَارِقَ دَارَ هِجْرَتِي، وَمُجَاوَرَةَ رَسُولِ اللهِ ﷺ
یعنی: محاصرہ کے دوران حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے آکر (حضرت عثمان سے) عرض کیا: میری تین باتوں میں سے ایک مان لیجئے، آپکے حامیوں کی عظیم بات یہاں موجود ہے اس کو لے کر نکلئے اور ان باغیوں کا مقابلہ کرکے ان کو نکال دیجئے، دوسری صورت یہ ہے کہ پچھلی طرف سے نکل کے مکہ معظمہ چلے جائیں مکہ حرم ہے، وہاں یہ آپ پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کریں گے تیسری صورت یہ ہے کہ شام میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی پناہ میں چلے جائیں ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلی صورت کا یہ جواب دیا کہ اگر میں باہر نکل کر ان سے جنگ کرو تو میں اس امت کا وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جو اپنی حکومت کی بقا کے لیے مسلمانوں کا خون بہائے، دوسری صورت کا جواب یہ دیا کہ مجھے ان لوگوں سے یہ توقع نہیں ہے کہ یہ حرمِ مکہ کی حُرمت کا کوئی لحاظ رکھیں گے اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے اس شہر گھر کی حرمتیں پامال ہوں، اور تیسری صورت کا جواب یہ تھا کہ دارالھجرت اور دیارِ رسول کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جانا چاہتا ۔
[مسند أحمد بن حنبل، جلد 1، 519،حدیث: 481 ، مطبوعہ مؤسسة الرسالة بیروت]
حضرت_ابوھریرہ_کااجازت_طلب_کرنا
محّدث محمد بن سعد بن منيع الزهري (ت ٢٣٠ هـ) روایت نقل فرماتے ہیں:
عن أبي هُريرة قال: دخلتُ على عثمان يوم الدّار فقلتُ يا أمير المؤمنين طَابَ الضَّرْبُ! فقال: يا أبا هُريرة أيَسُرّكَ أنْ تَقْتُلَ النّاسَ جميعًا وإيّاىَ؟ قال: قلت لا، قال: فإنّك والله إن قتلتَ رجلًا واحدًا فكأنّما قَتَلْتَ النّاسَ جميعًا، قال: فرجعتُ ولم أقاتل.
یعنی: حضرت سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے محاصرے کے دنوں حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے گھر جا کر عرض کی کہ اے امیرالمؤمنین جنگ کی اجازت دیجئے تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ مجھ سمیت تمام دنیا کو قتل کردو؟ عرض کیا نہیں ۔آپ کے اس فرمان میں اس آیت کی طرف اشارہ تھا کہ "جس شخص نے بغیر کسی قصاص کے یا فساد کے لیے کسی شخص کو قتل کیا گویا اس نے تمام دنیا کے انسانوں کو قتل کیا(المائدہ:32)
[الطبقات الكبير، جلد3، صفحہ 66، ذكر ما قيل لعثمان في الخلع وما قال لهم، مكتبة الخانجي، القاهرة مصر]
انصارصحابہ_کامددکی_اجازت_مانگنا
امام أبو بكر أحمد الخَلَّال البغدادي الحنبلي (ت ٣١١هـ) روایت نقل فرماتے ہیں:
عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: جَاءَ زَيْدٌ إِلَى عُثْمَانَ فَقَالَ: «قَدْ جَاءَنِي الْأَنْصَارُ، وَهُمْ يَقُولُونَ: نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ: أَمَّا الْقِتَالُ فَلَا»
حضرت ابنِ سرین سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سیدنا عثمانِ غنی کے پاس گئے اور جا کر عرض کیا کہ انصار میرے پاس آ کر کہہ رہے ہی کہ ہم دوبارہ ”انصارُ اللّٰه” بننے کے لیے تیار ہیں (بس ایک بار اجازت دیجئے) سیدنا عثمان نے جواب دیا کہ جنگ کسی صورت نہیں۔
(اسنادہ صحیح)
[السنة لأبي بكر بن الخلال، جلد 2، صفحہ333، خلافة عثمان بن عفان أمير المؤمنين، رقم:431 ، مطبوعہ دار الراية - الرياض]
سات_سوصحابہ_کامددکی_اجازت_مانگنا
عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: «كَانَ مَعَ عُثْمَانَ فِي الدَّارِ يَوْمَئِذٍ سَبْعُمِائَةٍ، لَوْ يَدْعُوهُمْ ⦗٣٣٤⦘. . . . . لَضَرَبُوهُمْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ حَتَّى يُخْرِجَهُمْ مِنْ أَقْطَارِهَا، وَلَكِنْ، مِنْهُمُ ابْنُ عُمَرَ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَابْنُ الزُّبَيْرِ»
یعنی: "اگر سیدنا عثمان انہیں (اہل مدینہ کو) جنگ کا حکم دیتے تو وہ ان شا اللّٰه باغیوں کو ضرور مدینے سے نکال باھر نکال پھینکتے اہل مدینہ کہ جو سیدنا عثمان کے ساتھ تھے ، وہ تقریبا سات سو افراد تھے ، ان صحابہ میں عبد اللہ ابن عمر بھی تھے حسن بن علی بھی تھے اور ابن زبیر بھی تھے۔
(اسنادہ صحیح)
[السنة لأبي بكر بن الخلال، جلد2، صفحہ333 ، خلافة عثمان بن عفان أمير المؤمنين، رقم:432 ، مطبوعہ دار الراية، الرياض]
میرےلئےمدینہ_میں_کسی_کاخون_نہ_بہانا
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: قُلْتُ لِعُثْمَانَ: «يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ مَعَكَ فِي الدَّارِ عِصَابَةً يَنْصُرُ اللَّهُ ﷻ بِأَقَلَّ مِنْهُمْ، فَأَذَنْ فَنُقَاتِلْ، فَقَالَ: أُذَكِّرُ اللَّهَ رَجُلًا، أَوْ قَالَ: أَنْشُدُ اللَّهُ رَجُلًا أَهْرَاقَ فِيَّ دَمَهُ»، قَالَ أَيُّوبُ: أَوْ قَالَ: «أَهْرَاقَ فِيَّ دَمًا»
یعنی: حضرت سیدنا عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ سیدنا عثمان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے پاس آئے اور عرض کی کہ :”اے امیر المومنین ، اللّٰه ﷻ نے تو اس سے بھی کم افراد کی جماعت کی مدد کی ہے آپ ہمیں قتال کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟
حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے جواب دیا کہ: اللّٰه کے واسطے میرے لیے (حرمِ پاک مدینے میں) کسی کا خون نہ بہانا۔
(اسنادہ صحیح)
[السنة لأبي بكر بن الخلال، جلد2، صفحہ 333 ، خلافة عثمان بن عفان أمير المؤمنين، رقم:432 ، مطبوعہ دار الراية، الرياض]
امام_حسن_نےدوتلواروں_سےپہرہ_دیا
امام الآجُرِّيُّ البغدادي (ت ٣٦٠ هـ) نقل فرماتے ہیں:
وَحَدَّثَنَا ابْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي الْحَارِثِ قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ الْمُحَبَّرِ قَالَ: حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: كَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما «يَرُدُّ النَّاسَ عَنْ عُثْمَانَ رضي اللّٰه عنه يَوْمَ الدَّارِ بِسَيْفَيْنِ يَضْرِبُ بِيَدَيْهِ جَمِيعًا»
یعنی:مبارک بن فضالہ کہتے ہیں کہ جن دِنوں باغیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا تو حضرت سیدنا امام حسن ابنِ علی رضی اللّٰه عنہما کے دنونوں ہاتھوں میں دو تلواریں تھیں اور اپنے دونوں ہاتھوں سے مزاحمت کر کے حضرت عثمان غنی کے گھر جانے سے (باغی) لوگوں کو روک رہے تھے۔“
[الشريعة للآجري،باب:162، حدیث1334، جلد4، صفحہ 1160، مطبوعہ دار الوطن الرياض سعودیہ]
ان تصریحات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی شہادت میں کوئی صحابی ملوث نہ تھا۔ اور صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم اجمعن نے بار بار آپ سے جنگ کی اجازت طلب کی مگر آپ نے خلیفة المسلمین کی حیثیت سے "حُکماً" منع فرما دیا تھا۔ کہ حرمِ پاک مدینہ طیبہ میں میری وجہ سے خون نہ بہے۔ جسکی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم نے خلیفہ کے حکم کی اطاعت کی۔
یہ جو رضوان کی آیت میں لَقَد آیا ہے
اے مؤرخ ! تیری تحقیق کا رَد آیا ہے
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ [الفتح:18]
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
مدینے پاک کا بھکاری
کتبہ:- محمد اُویس رضاعطاری