روایت بے آب و دانہ کی تحقیق کا رد
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
مولانا ارسلان رضا بریلی شریف کی pdf موصول ہوئی جس میں آپ نے میدان کربلا میں پانی نہ ہونے پر کلام کیا ہے اور فقیر کی ذکر کردہ روایات کو نہ قابل قبول متعارض روایات ٹھرایا ہے۔ میں مختصر طور پر ان عبارات پر کلام کروں گا جو عبارات موصوف کے زعم میں قوی ہیں جس کی بنیاد پر موصوف نے اشکالات پیدا کر کے ان کو متعارض قرار دیا ہے۔۔
اشکال نمبر 1
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
مولانا ارسلان رضا بریلی شریف کی pdf موصول ہوئی جس میں آپ نے میدان کربلا میں پانی نہ ہونے پر کلام کیا ہے اور فقیر کی ذکر کردہ روایات کو نہ قابل قبول متعارض روایات ٹھرایا ہے۔ میں مختصر طور پر ان عبارات پر کلام کروں گا جو عبارات موصوف کے زعم میں قوی ہیں جس کی بنیاد پر موصوف نے اشکالات پیدا کر کے ان کو متعارض قرار دیا ہے۔۔
اشکال نمبر 1
صفحہ 11 کے آخر میں موصوف فرماتے ہیں۔۔
امام حسین نے اپنے بھائی عباس ابن علی کو 30 سواروں اور 20 پیادوں کے ساتھ 20 مشکیں لیکر فرات پر پانی لینے بھیجا اور وہ کسی طرح لڑ جھگڑ کر پانی لینے میں کامیاب ہو گئے جیسے کی ابن اثیر طبری وغیرہ کی روایت میں ہے ۔ مزید فرماتے ہیں مگر یہ سکے اور تصویر کا محض ایک رخ ہے۔ دوسری روایات میں واضح طور پر حر بن یزید کا یزیدیوں کو لعنت ملامت کرنے کا یہ قول بھی ملتا ہے۔وہ فرات جس سے یہود نصاری اور مجوسی تو پئیں اور کتے خنزیر تو اس پر آئیں جائیں مگر ان نفوس قدسیہ کو پیاس ہلاک کرے۔
فرماتے ہیں مذکورہ روایت کا جز صرعھم العطش کہ پیاس کی شدت انہیں ہلاک کر رہی ہے یا پیاس انہیں مار ڈال رہی ہے یہ خطبہ 10 محرم کا ہے۔
اشکال 1 کا جواب :-
اس کا جواب یہ ہے طبری نے حر بن یزید کا خطبہ ابو مخنف سے روایت کیا ہے۔ اور مقتل ابو مخنف میں صرعھم العطش کے الفاظ نہیں ہیں۔ جب ایسا ہے تو ممکن ہے بعد میں صرعھم العطش کا اضافہ ہوا ہو۔ یعنی جو اس واقعہ کو بیان کرنے والا اصل راوی ہے اس کے کلام میں مذکورہ کلمات نہیں ہیں جس سے ظاہر ہوا یہ بعد میں اضافہ شدہ ہیں ابو مخنف کی عبارت یہ رہی۔
و منعتموہ و اہلبیتہ من شرب الماء الذی تشرب منہ الیھود النصاری و الکلاب والخنازیر بئس واللہ ما خلفتم نبیکم فی اہلبیتہ و ذریتہ۔(مقتل ابو مخنف صفحہ 122)
اس خطبہ میں وہ کلمات نہیں ہیں جن کو موصوف نے ذکر کیا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا طبری میں یہ کلمات اضافہ شدہ ہیں۔
طبری کی طرح ابن کثیر نے بھی ابو مخنف سے ہی روایت کیا ہے البدایتہ و النہایہ کا صفحہ 172 دیکھا جا سکتا ہے۔
جب یہ کلمات اصل ماخذ میں ہے ہی نہیں بلکہ بعد کہ اضافہ شدہ ہیں۔ تو اس سے دلیل پکڑنا کیسے صحیح ہوگا؟ اور اگر بالفرض یہ کلمات ہوں بھی تو بھی لائق قبول نہیں چونکہ ابو مخنف کے 4 چار نسخے ہیں اور چاروں میں شدید اختلاف ہے۔ لہذا محض ان کلمات سے صاف و صریح روایات میں شبہ ڈالنا کہاں کی دانشمندی ہے ؟
اور بالفرض یہ کلمات ہوں بھی تو بھی اس قابل نہیں محض ان کلمات کی وجہ سے صریح روایات کو رد کردیا جائے۔
اور صرعھم العطش کا جو معنی آپ نے لیا ہے یعنی پیاس کی وجہ سے ہلاک ہونا ۔ یہ معنی اس کے کہیں سے کہیں تک نہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں۔ صرع کا لغوی معنی ہے پچھاڑنا زمین پر گرنا، ہلاک ہونا ،اس کا معنی نہیں جیسا آپ نے قارئین کو غلط ترجمہ کر کے دھوکا دینے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ بات ہم نے ثابت کردی ہے امام عالی مقام کے ساتھیوں نے کنویں کھود رکھے تھے پانی پینے کے لئے۔
صرعھم العطش کا معنی یہ ہوگا امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کو پیاس کی شدت کی وجہ سے کنویں کھودنے کے لئے زمین کے اندر تک جانا پڑ رہا ہے۔ صرعھم کا معنی یہی کیا جائےگا جو ہم نے ذکر کیا ہے بندہ زمین پر 2 وجہ سے گرتا ہے یا تو بھوک پیاس کی شدت کی وجہ سے یا پھر محنت و مشقت کے سبب اور یہاں دونوں ہی باتے متحقق ہیں یعنی بھوک پیاس محنت مشقت۔ لہٰذا آپ کا صرعھم کلمات سے دلیل پکڑ کر اس کا غلط ترجمہ کرنا فاسد و باطل ہوا۔موصوف مزید لکھتے ہیں۔
اشکال نمبر 2 :-
امام حسین نے اپنے بھائی عباس ابن علی کو 30 سواروں اور 20 پیادوں کے ساتھ 20 مشکیں لیکر فرات پر پانی لینے بھیجا اور وہ کسی طرح لڑ جھگڑ کر پانی لینے میں کامیاب ہو گئے جیسے کی ابن اثیر طبری وغیرہ کی روایت میں ہے ۔ مزید فرماتے ہیں مگر یہ سکے اور تصویر کا محض ایک رخ ہے۔ دوسری روایات میں واضح طور پر حر بن یزید کا یزیدیوں کو لعنت ملامت کرنے کا یہ قول بھی ملتا ہے۔وہ فرات جس سے یہود نصاری اور مجوسی تو پئیں اور کتے خنزیر تو اس پر آئیں جائیں مگر ان نفوس قدسیہ کو پیاس ہلاک کرے۔
فرماتے ہیں مذکورہ روایت کا جز صرعھم العطش کہ پیاس کی شدت انہیں ہلاک کر رہی ہے یا پیاس انہیں مار ڈال رہی ہے یہ خطبہ 10 محرم کا ہے۔
اشکال 1 کا جواب :-
اس کا جواب یہ ہے طبری نے حر بن یزید کا خطبہ ابو مخنف سے روایت کیا ہے۔ اور مقتل ابو مخنف میں صرعھم العطش کے الفاظ نہیں ہیں۔ جب ایسا ہے تو ممکن ہے بعد میں صرعھم العطش کا اضافہ ہوا ہو۔ یعنی جو اس واقعہ کو بیان کرنے والا اصل راوی ہے اس کے کلام میں مذکورہ کلمات نہیں ہیں جس سے ظاہر ہوا یہ بعد میں اضافہ شدہ ہیں ابو مخنف کی عبارت یہ رہی۔
و منعتموہ و اہلبیتہ من شرب الماء الذی تشرب منہ الیھود النصاری و الکلاب والخنازیر بئس واللہ ما خلفتم نبیکم فی اہلبیتہ و ذریتہ۔(مقتل ابو مخنف صفحہ 122)
اس خطبہ میں وہ کلمات نہیں ہیں جن کو موصوف نے ذکر کیا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا طبری میں یہ کلمات اضافہ شدہ ہیں۔
طبری کی طرح ابن کثیر نے بھی ابو مخنف سے ہی روایت کیا ہے البدایتہ و النہایہ کا صفحہ 172 دیکھا جا سکتا ہے۔
جب یہ کلمات اصل ماخذ میں ہے ہی نہیں بلکہ بعد کہ اضافہ شدہ ہیں۔ تو اس سے دلیل پکڑنا کیسے صحیح ہوگا؟ اور اگر بالفرض یہ کلمات ہوں بھی تو بھی لائق قبول نہیں چونکہ ابو مخنف کے 4 چار نسخے ہیں اور چاروں میں شدید اختلاف ہے۔ لہذا محض ان کلمات سے صاف و صریح روایات میں شبہ ڈالنا کہاں کی دانشمندی ہے ؟
اور بالفرض یہ کلمات ہوں بھی تو بھی اس قابل نہیں محض ان کلمات کی وجہ سے صریح روایات کو رد کردیا جائے۔
اور صرعھم العطش کا جو معنی آپ نے لیا ہے یعنی پیاس کی وجہ سے ہلاک ہونا ۔ یہ معنی اس کے کہیں سے کہیں تک نہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں۔ صرع کا لغوی معنی ہے پچھاڑنا زمین پر گرنا، ہلاک ہونا ،اس کا معنی نہیں جیسا آپ نے قارئین کو غلط ترجمہ کر کے دھوکا دینے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ بات ہم نے ثابت کردی ہے امام عالی مقام کے ساتھیوں نے کنویں کھود رکھے تھے پانی پینے کے لئے۔
صرعھم العطش کا معنی یہ ہوگا امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کو پیاس کی شدت کی وجہ سے کنویں کھودنے کے لئے زمین کے اندر تک جانا پڑ رہا ہے۔ صرعھم کا معنی یہی کیا جائےگا جو ہم نے ذکر کیا ہے بندہ زمین پر 2 وجہ سے گرتا ہے یا تو بھوک پیاس کی شدت کی وجہ سے یا پھر محنت و مشقت کے سبب اور یہاں دونوں ہی باتے متحقق ہیں یعنی بھوک پیاس محنت مشقت۔ لہٰذا آپ کا صرعھم کلمات سے دلیل پکڑ کر اس کا غلط ترجمہ کرنا فاسد و باطل ہوا۔موصوف مزید لکھتے ہیں۔
اشکال نمبر 2 :-
امام عالی مقام کو پیاس کا غلبہ ہوا تو آپ پانی پینے کے لئے بڑھے اب آپ کا یہ بڑھنا فرات کی طرف تھا یا خیمے کی طرف؟ تو موصوف اس کے متعلق فرماتے ہیں قرین قیاس یہ ہے آپ فرات کی طرف بڑھے۔
اشکال 2 کا جواب :-
اصل میں موصوف نے یہاں اس بات کو ثابت کرنا چاہا ہے روایت میں خیمے اور فرات کا ذکر نہیں ہے صرف اتنا ہے پیاس کے غلبہ کی وجہ سے پانی کے لئے بڑھے۔ موصوف نے سوچا شاید یہاں خیمہ مراد نہ لے لیا جائے کہ جب پانی خیمے میں تھا تو اس طرف جائیں گے۔ اس لئے موصوف نے کہا قرین قیاس ہے آپ فرات کی طرف بڑھے مگر محض یہ قیاس ہے اس کی تائید نہ تو کسی روایت سے ہے اور نہ ہی قیاس سے۔ چونکہ ایسی صورتحال میں 2 Option ہوتے ہیں یا تو خیمے میں جائیں یا فرات پر۔ ان دونوں میں سے صحیح یہ ہے آپ دشمنوں کے بیچ گھرے ہوئے تھے۔ اور جو آپ کے قریب تھا خیمہ یا فرات آپ اس طرف بڑھے۔ لہذا ہماری ذکر کردہ روایت پر کوئ اعتراض نہیں۔
اور اگر ہم فرات کی طرف بڑھنا تسلیم کریں تو بھی یہ لازم نہیں آتا کہ خیمے میں پانی نہ ہو۔ چونکہ فرات بڑی نہر ہے اور اس کے مقابل خیمے میں پانی کالعدم کی منزل میں ہوگا اور یہ فطری بات ہے جو چیز ظاہر ہو اور کثیر ہو انسان اسی طرف جاتا ہے۔ اس لئے اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے آپ فرات کی طرف بڑھے۔ تو اس سے ہر گز خیمے میں پانی کی نفی ثابت نہیں ہوتی جسے موصوف نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
اشکال نمبر 3:-
موصوف مزید لکھتے ہیں امام عالی مقام نے بے آب و دانہ مرنے کی یزیدی کو بد دعا دی تو وہ ایسے ہی مرا۔ اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے امام عالی مقام بے آب و دانہ تھے چونکہ آپ بے آب و دانہ تھے اس لئے آپ نے اس کو بے آب و دانہ مرنے کی بد دعا دی
اشکال 3 کا جواب :-
موصوف کا اس روایت کو ذکرنا بھی پانی کی نفی نہیں کرتا۔
انسان کو جب پینے کے لئے پانی نہ ہو اور محنت و مشقت کرکے پانی نکالنا پڑے جبکہ اس کے سامنے نہر جاری ہو اس میں سے پانی نہ لینے دیا جائے یہ بے حد درجہ کا ظلم ہے جو کے امام عالی مقام پر کیا گیا نہر فرات کی طرف اشارہ کر کے یہ کہنا آپ اس میں سے پانی نہیں پی سکتے ظلم پر مزید ظلم ہے۔ اسی ظلم کی وجہ سے تو آپ نے اس کو بد دعا دی اور وہ بے آب و دانہ مرا۔۔ اگر اس سے یہ نتیجہ نکالا جائے جو موصوف نے نکالا یعنی خیمے میں پانی نہ ہونے کا جس وجہ سے امام عالی مقام نے اس کو بد دعا دی
تو میرا موصوف سے سوال ہے پھر تو جتنی یزیدی فوج فرات پر پہرا دے رہی تھی ہر ایک بے آب و دانہ مرتا مگر ایسا نہیں ہوا۔۔ تو ثابت ہوا امام عالی مقام نے اس کو بد دعا اس کے ظلم کرنے کی وجہ سے دی تھی۔ اس سے یہ نتیجہ ہر گز نہیں نکلتا جو موصوف نے نکالنا چاہا ہے۔
اشکال نمبر 4:-
اشکال 2 کا جواب :-
اصل میں موصوف نے یہاں اس بات کو ثابت کرنا چاہا ہے روایت میں خیمے اور فرات کا ذکر نہیں ہے صرف اتنا ہے پیاس کے غلبہ کی وجہ سے پانی کے لئے بڑھے۔ موصوف نے سوچا شاید یہاں خیمہ مراد نہ لے لیا جائے کہ جب پانی خیمے میں تھا تو اس طرف جائیں گے۔ اس لئے موصوف نے کہا قرین قیاس ہے آپ فرات کی طرف بڑھے مگر محض یہ قیاس ہے اس کی تائید نہ تو کسی روایت سے ہے اور نہ ہی قیاس سے۔ چونکہ ایسی صورتحال میں 2 Option ہوتے ہیں یا تو خیمے میں جائیں یا فرات پر۔ ان دونوں میں سے صحیح یہ ہے آپ دشمنوں کے بیچ گھرے ہوئے تھے۔ اور جو آپ کے قریب تھا خیمہ یا فرات آپ اس طرف بڑھے۔ لہذا ہماری ذکر کردہ روایت پر کوئ اعتراض نہیں۔
اور اگر ہم فرات کی طرف بڑھنا تسلیم کریں تو بھی یہ لازم نہیں آتا کہ خیمے میں پانی نہ ہو۔ چونکہ فرات بڑی نہر ہے اور اس کے مقابل خیمے میں پانی کالعدم کی منزل میں ہوگا اور یہ فطری بات ہے جو چیز ظاہر ہو اور کثیر ہو انسان اسی طرف جاتا ہے۔ اس لئے اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے آپ فرات کی طرف بڑھے۔ تو اس سے ہر گز خیمے میں پانی کی نفی ثابت نہیں ہوتی جسے موصوف نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
اشکال نمبر 3:-
موصوف مزید لکھتے ہیں امام عالی مقام نے بے آب و دانہ مرنے کی یزیدی کو بد دعا دی تو وہ ایسے ہی مرا۔ اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے امام عالی مقام بے آب و دانہ تھے چونکہ آپ بے آب و دانہ تھے اس لئے آپ نے اس کو بے آب و دانہ مرنے کی بد دعا دی
اشکال 3 کا جواب :-
موصوف کا اس روایت کو ذکرنا بھی پانی کی نفی نہیں کرتا۔
انسان کو جب پینے کے لئے پانی نہ ہو اور محنت و مشقت کرکے پانی نکالنا پڑے جبکہ اس کے سامنے نہر جاری ہو اس میں سے پانی نہ لینے دیا جائے یہ بے حد درجہ کا ظلم ہے جو کے امام عالی مقام پر کیا گیا نہر فرات کی طرف اشارہ کر کے یہ کہنا آپ اس میں سے پانی نہیں پی سکتے ظلم پر مزید ظلم ہے۔ اسی ظلم کی وجہ سے تو آپ نے اس کو بد دعا دی اور وہ بے آب و دانہ مرا۔۔ اگر اس سے یہ نتیجہ نکالا جائے جو موصوف نے نکالا یعنی خیمے میں پانی نہ ہونے کا جس وجہ سے امام عالی مقام نے اس کو بد دعا دی
تو میرا موصوف سے سوال ہے پھر تو جتنی یزیدی فوج فرات پر پہرا دے رہی تھی ہر ایک بے آب و دانہ مرتا مگر ایسا نہیں ہوا۔۔ تو ثابت ہوا امام عالی مقام نے اس کو بد دعا اس کے ظلم کرنے کی وجہ سے دی تھی۔ اس سے یہ نتیجہ ہر گز نہیں نکلتا جو موصوف نے نکالنا چاہا ہے۔
اشکال نمبر 4:-
مولانا موصوف صفحہ 15 پر لکھتے ہیں۔۔
حضرت زینب پر پانی چھڑکنے والی روایت تو ابعد نہیں کیونکہ ذکر ہوا جنگ و جھڑپ کے بعد 20 مشکیں پانی کسی طرح حاصل کرنے میں کامیابی مل گئ تھی تو قلیل مقدار میں پانی چھڑک دیا ہوگا مگر غسل بھر پانی ہونا کسی طرح ثابت نہیں ہوتا
مزید لکھتے ہیں البتہ صب الماء والی روایت تاریخ کی دیگر کتب میں بھی موجود ہے مگر یہ روایت ہمارے مدعی کے خلاف نہیں کیونکہ یہ روایت محتم المعانی ہے اور یہ روایت محکم مفصر روایات کے معارض ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ قیاس سے جو مختلف امکانات آتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے بمنزلہ عدم قلیل مقدار میں پانی ہو جو کسی ایک کو بھی کافی نہ ہو اور اہل خاندان میں سے حیاء و وفاء کی وجہ سے اس کی طرف اصلا ملتفت نہ ہوتا ہو
مزید لکھتے ہیں اقل قلیل لا یبعا بہ کی منزل میں کسی مشکیزے میں چھڑکنے بھر پانی بچا ہوا ہو اور جا نثار و وفادار ہمرایان و اہل خاندان اسے شمار ہی نہ کرتے ہوں پھر جب حضرت زینب بے ہوش
ہو کر گر پڑی تو وہ باقی مانندہ پانی ان پر چھڑک دیا گیا ہو یا یہ کہ وہ پانی پینے کے قابل ہی نہ ہو۔
مفتی صاحب احتمالات ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں اس روایت میں احتمالات ہیں محکم روایت سے متعارض ہے اس میں تطبیق کیسے ہوگی اہل علم و دانش کو بتانے کی ضرورت نہیں
اشکال 4 کا جواب ۔۔۔
اس کا جواب یہ ہے پانی موجود ہونے پر 2 روایات ہیں ایک تو یہ حضرت عباس مشکیں بھر کر کسی طرح لائیں ۔ دوسری روایت حضرت زینب پر پانی چھڑکنے والی روایات ان دو روایات کو مفتی صاحب نے بھی قبول کیا ہے جیسا کی اوپر مفتی صاحب کی ہم نے عبارت ذکر کی ۔مفتی صاحب پانی چھڑکنے والی روایت کے متعلق فرماتے ہیں اس میں احتمالات ہیں اور یہ مفصر محکم روایات کے معارض ہے۔
قارئین کرام قبلہ مفتی صاحب کی آپ شروع سے آخر تک pdf کا مطالعہ فرمالیں اس میں آپ کو کہیں بھی کوئی بھی ایسی روایت نہیں ملے گی جو مفصر محکم ہو۔ تین دن پانی بند رہا ایک قطرہ بھی خیمے اہلبیت میں پانی نہ تھا اگر اس طرح کی ہمیں محکم مفصر تو دور مجمل روایت بھی مل جاتی جس میں اتنا اشارہ بھی ہوتا کے ایک قطرہ بھی تین دن خیمے میں پانی نہ تھا تو ہم اس کو قبول کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہ کرتے۔ مگر ایسی کوئ روایت نہیں ہے۔ مفتی صاحب نے نہ جانے کیوں اور کیسے فرما دیا پانی نہ ہونے کی روایت مفصر محکم ہے، اور پانی ہونے والی روایت وہ معارض ہے قارئین کرام جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ پانی موجود ہونے والی روایت ہی مفصر ہے حضرت عباس کے پانی لانے والی اور حضرت زینب پر پانی چھڑکنے والی یہ روایت بالکل محکم مفصر ہیں اس میں کسی طرح کی کوئ تاویل نہیں اور نہ ہی احتمالات ہیں۔ اور مفتی صاحب نے یہ جو کہا ہو سکتا ہے وہ پانی قلیل مقدار میں ہو پینے کے قابل نہ ہو۔ یہ بات بھی ہمارے مدعی کے خلاف نہیں دونوں صورتوں میں ہماری تائید ہورہی ہے چاہے پانی قلیل ہو یا کثیر۔ البتہ مفتی صاحب کے قلیل مقدار میں مان لینے سے خطبات محرم کی اس عبارت پر اعتراض لازم ہے فقیہ ملت 420 صفحہ پر لکھتے ہیں۔ پیاسی ماں کے سینے میں دودھ خشک ہو چکا ہے۔ خیمے میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے اسی طرح بعض بزرگوں نے ایک بھی قطرہ نہ ہونے کا ذکر کیا ہے۔ مفتی صاحب اس کا جواب کیا دیں گے یہ مفتی صاحب پر چھوڑتے ہیں۔
مفتی صاحب کی عبارت ہم نے اوپر ذکر کی فرمایا ہو سکتا ہے مشکزیں میں پانی ہو اور وہی پانی حضرت زینب پر چھڑکا گیا ہو۔
قارئین کرام مفتی صاحب کی یہ عبارت 10 محرم تک پانی ہونے پر دلالت کر رہی ہے حضرت زینب 10محرم کو ہوتی ہیں۔
ان روایات میں کس طرح تطبیق ہوگی اس کا جواب ہم نے اپنی کتاب میں لکھ دیا ہے اس لئے اس کو دوبارہ ذکر نہیں کرتے۔
اشکال 5 ۔۔۔۔
مفتی صاحب مزید لکھتے ہیں جن بزرگوں نے بدایہ کی عبارت سے لفظ اغتسل کا ترجمہ غسل کرنا کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کثیر الاستعمال معنی اخذ کر کے غسل کرنا ترجمہ کردیا ۔ کیونکہ یہاں غسل کرنا مراد نہیں ہے بلکہ خوشبو لگانا ہے ۔
اشکال 5 کا جواب۔۔
اس کا جواب یہ ہے جب مجھ جیسے چھوٹے سے طالب علم کو یا موصوف کو خود یہ بات معلوم ہے لفط اغتسل کے ساتھ بالماء مذکور نہ ہو تو اس کا ترجمہ خوشبو لگانا بھی ہوا کرتا ہے۔ تو کیا اس بات کا علم ہمارے بزرگوں کو نہیں تھا ؟ جو اس کا ترجمہ غسل کرنا کردیا۔ کہاں وہ اہل علم اور کہاں ہم طالب علم یہ کتنی ہی عجیب اور حیرت میں ڈالنے والی بات ہے مجھے یا آپ کو تو اس کا معلوم ہو اور ترجمہ کرتے وقت بھی ذہن میں رہے اگرچہ کثر الاستعمال ہوتا ہے۔۔ لفظ اغتسل ہمارے بزرگ نہ سمجھیں۔ سیدھی اور صحیح بات یہ ہے جن بزرگوں نے اغتسل کا معنی غسل کرنا لیا ہے وہ معنی غسل متعین ہونے کی وجہ سے لیا ہے ۔ر بالفرض اگر ہم یہ مان لیں اغتسل کا ترجمہ انہوں نے غسل کرنا کردیا جو کہ غلط ہے تو بھی اس سے فرق نہیں پڑھتا چونکہ ان حضرات نے صریح طور پر یہ فرما دیا ہے پانی موجود ہونے والی روایت بھی ملتی ہے۔ جب ایسا ہے تو کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ اس کے جواب میں اتنا کہہ دینا کافی تھا جتنا لکھدیا البتہ میں لفظ اغتسل پر کلام کردیتا ہوں تاکہ واضح ہو جاۓ اغتسل سے مراد غسل کرنا ہی ہے۔۔۔
لفظ اغتسل کے ساتھ جب بالماء ہوگا تب غسل کا معنی لیا جائے گا شاید مفتی صاحب نے اس کور قاعدہ کلیہ سمجھ لیا مگر آپ کا یہ وہم ہر گز صحیح نہیں ہے، بعض اوقات بالماء محذوف ہو تو بھی اس کے معنی غسل کے ہوں گے، آپ کے اس وہم کو سنن ابو داؤد کی اس روایت سے دور کرتا ہوں،۔۔
- عن عبد الله بن عمرو بن العاص، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «من اغتسل يوم الجمعة ومس من طيب امرأته إن كان لها، ولبس من صالح ثيابه، ثم لم يتخط رقاب الناس، ولم يلغ عند الموعظة كانت كفارة لما بينهما، ومن لغا وتخطى رقاب الناس كانت له ظهرا
سنن ابو داؤد حدیث 347۔
اس روایت میں کلمہ طیب موجود ہے بالماء محذوف ہے، مگر اس روایت کے معنی یہاں وہ نہیں ہیں جو آپ نے وہم کیا ہے خوشبو لگانے کے بلکہ یہاں اس کے معنی غسل کرنا اور خوشبو لگانا ہیں، ہو سکتا ہے آپ فرمائیں یہاں آپ نے خود سےت اغتسل سے غسل کے معنی لئے ہیں، تو یہ بھی غلط ہے، چونکہ مکحول نے اغتسل کے معنی غسل کے لئے ہیں۔ علی بن خوشب کہتے ہیں کہ۔
سالت مکحولا عن ھاذا القول غسل و اغتسل فقال غسل راسہ و غسل جسدہ
میں نے مکحول سے پوچھا کہ غسل اور اغتسل کا کیا مطلب ہے فرمایا غسل کا معنی ہے اپنا سر دھونا اور اغتسل کا معنی ہے اپنا جسم دھونا،
امید کرتا مفتی صاحب کو جو وہم ہوا تھا وہ دور ہو جاۓ گا۔، اس روایت میں واضح طور پر اغتسل کے معنی جسم دھونے کے بتایا گیق ہے اگرچہ طیب کلمہ اس میں موجود ہے ۔۔ موصوف اگر بدایہ کی اسی عبارت پر ہی غور فرماتے تو ہر گز ایسی بات نہ کہتے، اس عبارت میں ہرتال چونا جسم پر لگانے کا ذکر ہے اور موصوف کو یہ معلوم ہوگا چونا ہرتال وغیرہ کا استعمال جسم کی صاف صفائی کے لئے ہوتا ہے، اس کو پانی میں استعمال کیا جاتا ہے جیسے کی فتاوی رضویہ میں ہے، کیا مولانا موصوف بتائیں گے ایسا کونسا انسان ہے، یا مولانا موصوف نے کبھی خود ایسا کام کیا ہو کہ، جس چیز کو جسم کی صاف صفائی کے لئے استعمال کیا جاتا ہو، وہ جسم پر لگانے کے بعد جسم کو نہ دھویا ہو بلکہ اس پر خوشبو لگا لی ہو، ظاہر بات ہے ایسا ہرگز کوئی نہیں کرتا بلکہ جسم پر پانی ڈالتا ہے تاکہ وہ صاف ہوجائے ، تو بس یہی تو امام عالی مقام نے کیا تھا، ہرتال چونا پانی ہی سے صاف ہوتا ہے جب اس بات پر قرینہ موجود ہے تو پھر بالماء کا لفظ لانے کی کیا ضرورت ہے ، ہرتال چونا پانی ہی سے صاف ہوتا ہے، اسی لئے وہاں بالماء محذوف ہے، صاحب بدایہ کو عبارت میں بالطیب کا ذکر کرنا لازم تھا اگر ذکر نہ ہوتا تو خوشبو کے معنی کہاں سے لئے جاتے ؟ جبکہ اس پر قرینہ موجود بھی نہیں، مگر ہرتال چونا یہ قرینہ موجود ہے پانی سے صاف ہونے کا جس وجہ سے بالماء کو محذوف کردیا،۔
اسی وجہ سے شارح بخاری علامہ شریف الحق صاحب اور دیگر بزرگوں نے یہاں اغتسل کا معنی غسل کرنا لیا ہے ۔ کسی ایک بزرگ نے وہ معنی نہیں لیا جو آپ فرما رہے ہیں یعنی خوشبو لگانا ہمارا اغتسل کا معنی غسل کرنا لینا بزرگوں سےہماری تائید کرتا ہے ۔
اگر اتنی عبارت پر ہی غور کرلیا جاتا تو موصوف دھوکا نہ کھاتے، اور نہ ہی اس میں تاویلات کرنے کی ضرورت پڑتی
ہم نے کنوئیں کھودنے والی. روایت بھی نقل کی ہے
اور ہم نے شیعوں کی کتب سے بھی پانی ہونا ثابت کیا ہے ۔
نیز کربلا ایسا میدان تھا جہاں کنوئیں کھودنے سے پانی نکل آتا تھا اس پر بھی ہم نے دلائل کے ساتھ تفصیلی کلام کیا ہے مگر قبلہ مفتی صاحب نے ان روایات پر کوئی کلام نہ فرمایا۔ صرف نظر کرتے ہوئے نکل گئے۔
خلاصلہ کلام یہ ہے مفتی صاحب کے نزدیک بدایہ کی روایت جس میں غسل کرنے کا ذکر ہے۔ باقی دو روایات حضرت عباس کی پانی لانے والی اور حضرت زینب پر پانی چھڑکنے والی یہ دو روایات ثابت تو ہیں مگر متعارض ہیں۔ اگر مفتی صاحب بدایہ کی روایت کو نہ بھی مانے باقی دو روایات چونکہ ان کے نزدیک بھی ثابت ہیں اگرچہ متعارض ہی صحیح یہ روایات ہمارے ان بزرگوں کی وہ عبارات جن میں ایک قطرہ بھی پانی نہ ہونے کا ذکر ہے اعتراض پیدا کرتی ہیں۔ خاص بات یہ ہے مفتی صاحب نے کافی طویل کلام کیا نہ ہی اپنا مدعی ثابت کر پائیں اور نہ ہی ان عبارتوں کا تعارض دور کر پائیں۔ سمجھ نہیں آتا جب مفتی صاحب بھی 2 روایات پانی موجود ہونے کے متعلق اگرچہ پانی قلیل تھا اگرچہ متعارض ہیں تسلیم کر رہے ہیں تو آپ کو لکھنے کی کیا ضرورت پڑی چونکہ ہمارا کلام اسی پر ہے پانی موجود تھا اگرچہ قلیل مقدار میں ہی کیا نہ ہو اور یہ بات کہ ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا قابل قبول نہیں۔ جب ایسا ہے تو ہر صورت ہمارا مدعی ثابت ہو رہا ہے۔واللہ اعلم بالصواب
اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے اللہ کریم حق بولنے لکھنے قبول کرنے کی توفیق دے۔ من گھڑت روایات سے ہمیں بچنے کی توفیق دے۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی النورانی ہلدوانی نینیتال
11_7_2024
حضرت زینب پر پانی چھڑکنے والی روایت تو ابعد نہیں کیونکہ ذکر ہوا جنگ و جھڑپ کے بعد 20 مشکیں پانی کسی طرح حاصل کرنے میں کامیابی مل گئ تھی تو قلیل مقدار میں پانی چھڑک دیا ہوگا مگر غسل بھر پانی ہونا کسی طرح ثابت نہیں ہوتا
مزید لکھتے ہیں البتہ صب الماء والی روایت تاریخ کی دیگر کتب میں بھی موجود ہے مگر یہ روایت ہمارے مدعی کے خلاف نہیں کیونکہ یہ روایت محتم المعانی ہے اور یہ روایت محکم مفصر روایات کے معارض ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ قیاس سے جو مختلف امکانات آتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے بمنزلہ عدم قلیل مقدار میں پانی ہو جو کسی ایک کو بھی کافی نہ ہو اور اہل خاندان میں سے حیاء و وفاء کی وجہ سے اس کی طرف اصلا ملتفت نہ ہوتا ہو
مزید لکھتے ہیں اقل قلیل لا یبعا بہ کی منزل میں کسی مشکیزے میں چھڑکنے بھر پانی بچا ہوا ہو اور جا نثار و وفادار ہمرایان و اہل خاندان اسے شمار ہی نہ کرتے ہوں پھر جب حضرت زینب بے ہوش
ہو کر گر پڑی تو وہ باقی مانندہ پانی ان پر چھڑک دیا گیا ہو یا یہ کہ وہ پانی پینے کے قابل ہی نہ ہو۔
مفتی صاحب احتمالات ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں اس روایت میں احتمالات ہیں محکم روایت سے متعارض ہے اس میں تطبیق کیسے ہوگی اہل علم و دانش کو بتانے کی ضرورت نہیں
اشکال 4 کا جواب ۔۔۔
اس کا جواب یہ ہے پانی موجود ہونے پر 2 روایات ہیں ایک تو یہ حضرت عباس مشکیں بھر کر کسی طرح لائیں ۔ دوسری روایت حضرت زینب پر پانی چھڑکنے والی روایات ان دو روایات کو مفتی صاحب نے بھی قبول کیا ہے جیسا کی اوپر مفتی صاحب کی ہم نے عبارت ذکر کی ۔مفتی صاحب پانی چھڑکنے والی روایت کے متعلق فرماتے ہیں اس میں احتمالات ہیں اور یہ مفصر محکم روایات کے معارض ہے۔
قارئین کرام قبلہ مفتی صاحب کی آپ شروع سے آخر تک pdf کا مطالعہ فرمالیں اس میں آپ کو کہیں بھی کوئی بھی ایسی روایت نہیں ملے گی جو مفصر محکم ہو۔ تین دن پانی بند رہا ایک قطرہ بھی خیمے اہلبیت میں پانی نہ تھا اگر اس طرح کی ہمیں محکم مفصر تو دور مجمل روایت بھی مل جاتی جس میں اتنا اشارہ بھی ہوتا کے ایک قطرہ بھی تین دن خیمے میں پانی نہ تھا تو ہم اس کو قبول کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہ کرتے۔ مگر ایسی کوئ روایت نہیں ہے۔ مفتی صاحب نے نہ جانے کیوں اور کیسے فرما دیا پانی نہ ہونے کی روایت مفصر محکم ہے، اور پانی ہونے والی روایت وہ معارض ہے قارئین کرام جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ پانی موجود ہونے والی روایت ہی مفصر ہے حضرت عباس کے پانی لانے والی اور حضرت زینب پر پانی چھڑکنے والی یہ روایت بالکل محکم مفصر ہیں اس میں کسی طرح کی کوئ تاویل نہیں اور نہ ہی احتمالات ہیں۔ اور مفتی صاحب نے یہ جو کہا ہو سکتا ہے وہ پانی قلیل مقدار میں ہو پینے کے قابل نہ ہو۔ یہ بات بھی ہمارے مدعی کے خلاف نہیں دونوں صورتوں میں ہماری تائید ہورہی ہے چاہے پانی قلیل ہو یا کثیر۔ البتہ مفتی صاحب کے قلیل مقدار میں مان لینے سے خطبات محرم کی اس عبارت پر اعتراض لازم ہے فقیہ ملت 420 صفحہ پر لکھتے ہیں۔ پیاسی ماں کے سینے میں دودھ خشک ہو چکا ہے۔ خیمے میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے اسی طرح بعض بزرگوں نے ایک بھی قطرہ نہ ہونے کا ذکر کیا ہے۔ مفتی صاحب اس کا جواب کیا دیں گے یہ مفتی صاحب پر چھوڑتے ہیں۔
مفتی صاحب کی عبارت ہم نے اوپر ذکر کی فرمایا ہو سکتا ہے مشکزیں میں پانی ہو اور وہی پانی حضرت زینب پر چھڑکا گیا ہو۔
قارئین کرام مفتی صاحب کی یہ عبارت 10 محرم تک پانی ہونے پر دلالت کر رہی ہے حضرت زینب 10محرم کو ہوتی ہیں۔
ان روایات میں کس طرح تطبیق ہوگی اس کا جواب ہم نے اپنی کتاب میں لکھ دیا ہے اس لئے اس کو دوبارہ ذکر نہیں کرتے۔
اشکال 5 ۔۔۔۔
مفتی صاحب مزید لکھتے ہیں جن بزرگوں نے بدایہ کی عبارت سے لفظ اغتسل کا ترجمہ غسل کرنا کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کثیر الاستعمال معنی اخذ کر کے غسل کرنا ترجمہ کردیا ۔ کیونکہ یہاں غسل کرنا مراد نہیں ہے بلکہ خوشبو لگانا ہے ۔
اشکال 5 کا جواب۔۔
اس کا جواب یہ ہے جب مجھ جیسے چھوٹے سے طالب علم کو یا موصوف کو خود یہ بات معلوم ہے لفط اغتسل کے ساتھ بالماء مذکور نہ ہو تو اس کا ترجمہ خوشبو لگانا بھی ہوا کرتا ہے۔ تو کیا اس بات کا علم ہمارے بزرگوں کو نہیں تھا ؟ جو اس کا ترجمہ غسل کرنا کردیا۔ کہاں وہ اہل علم اور کہاں ہم طالب علم یہ کتنی ہی عجیب اور حیرت میں ڈالنے والی بات ہے مجھے یا آپ کو تو اس کا معلوم ہو اور ترجمہ کرتے وقت بھی ذہن میں رہے اگرچہ کثر الاستعمال ہوتا ہے۔۔ لفظ اغتسل ہمارے بزرگ نہ سمجھیں۔ سیدھی اور صحیح بات یہ ہے جن بزرگوں نے اغتسل کا معنی غسل کرنا لیا ہے وہ معنی غسل متعین ہونے کی وجہ سے لیا ہے ۔ر بالفرض اگر ہم یہ مان لیں اغتسل کا ترجمہ انہوں نے غسل کرنا کردیا جو کہ غلط ہے تو بھی اس سے فرق نہیں پڑھتا چونکہ ان حضرات نے صریح طور پر یہ فرما دیا ہے پانی موجود ہونے والی روایت بھی ملتی ہے۔ جب ایسا ہے تو کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ اس کے جواب میں اتنا کہہ دینا کافی تھا جتنا لکھدیا البتہ میں لفظ اغتسل پر کلام کردیتا ہوں تاکہ واضح ہو جاۓ اغتسل سے مراد غسل کرنا ہی ہے۔۔۔
لفظ اغتسل کے ساتھ جب بالماء ہوگا تب غسل کا معنی لیا جائے گا شاید مفتی صاحب نے اس کور قاعدہ کلیہ سمجھ لیا مگر آپ کا یہ وہم ہر گز صحیح نہیں ہے، بعض اوقات بالماء محذوف ہو تو بھی اس کے معنی غسل کے ہوں گے، آپ کے اس وہم کو سنن ابو داؤد کی اس روایت سے دور کرتا ہوں،۔۔
- عن عبد الله بن عمرو بن العاص، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «من اغتسل يوم الجمعة ومس من طيب امرأته إن كان لها، ولبس من صالح ثيابه، ثم لم يتخط رقاب الناس، ولم يلغ عند الموعظة كانت كفارة لما بينهما، ومن لغا وتخطى رقاب الناس كانت له ظهرا
سنن ابو داؤد حدیث 347۔
اس روایت میں کلمہ طیب موجود ہے بالماء محذوف ہے، مگر اس روایت کے معنی یہاں وہ نہیں ہیں جو آپ نے وہم کیا ہے خوشبو لگانے کے بلکہ یہاں اس کے معنی غسل کرنا اور خوشبو لگانا ہیں، ہو سکتا ہے آپ فرمائیں یہاں آپ نے خود سےت اغتسل سے غسل کے معنی لئے ہیں، تو یہ بھی غلط ہے، چونکہ مکحول نے اغتسل کے معنی غسل کے لئے ہیں۔ علی بن خوشب کہتے ہیں کہ۔
سالت مکحولا عن ھاذا القول غسل و اغتسل فقال غسل راسہ و غسل جسدہ
میں نے مکحول سے پوچھا کہ غسل اور اغتسل کا کیا مطلب ہے فرمایا غسل کا معنی ہے اپنا سر دھونا اور اغتسل کا معنی ہے اپنا جسم دھونا،
امید کرتا مفتی صاحب کو جو وہم ہوا تھا وہ دور ہو جاۓ گا۔، اس روایت میں واضح طور پر اغتسل کے معنی جسم دھونے کے بتایا گیق ہے اگرچہ طیب کلمہ اس میں موجود ہے ۔۔ موصوف اگر بدایہ کی اسی عبارت پر ہی غور فرماتے تو ہر گز ایسی بات نہ کہتے، اس عبارت میں ہرتال چونا جسم پر لگانے کا ذکر ہے اور موصوف کو یہ معلوم ہوگا چونا ہرتال وغیرہ کا استعمال جسم کی صاف صفائی کے لئے ہوتا ہے، اس کو پانی میں استعمال کیا جاتا ہے جیسے کی فتاوی رضویہ میں ہے، کیا مولانا موصوف بتائیں گے ایسا کونسا انسان ہے، یا مولانا موصوف نے کبھی خود ایسا کام کیا ہو کہ، جس چیز کو جسم کی صاف صفائی کے لئے استعمال کیا جاتا ہو، وہ جسم پر لگانے کے بعد جسم کو نہ دھویا ہو بلکہ اس پر خوشبو لگا لی ہو، ظاہر بات ہے ایسا ہرگز کوئی نہیں کرتا بلکہ جسم پر پانی ڈالتا ہے تاکہ وہ صاف ہوجائے ، تو بس یہی تو امام عالی مقام نے کیا تھا، ہرتال چونا پانی ہی سے صاف ہوتا ہے جب اس بات پر قرینہ موجود ہے تو پھر بالماء کا لفظ لانے کی کیا ضرورت ہے ، ہرتال چونا پانی ہی سے صاف ہوتا ہے، اسی لئے وہاں بالماء محذوف ہے، صاحب بدایہ کو عبارت میں بالطیب کا ذکر کرنا لازم تھا اگر ذکر نہ ہوتا تو خوشبو کے معنی کہاں سے لئے جاتے ؟ جبکہ اس پر قرینہ موجود بھی نہیں، مگر ہرتال چونا یہ قرینہ موجود ہے پانی سے صاف ہونے کا جس وجہ سے بالماء کو محذوف کردیا،۔
اسی وجہ سے شارح بخاری علامہ شریف الحق صاحب اور دیگر بزرگوں نے یہاں اغتسل کا معنی غسل کرنا لیا ہے ۔ کسی ایک بزرگ نے وہ معنی نہیں لیا جو آپ فرما رہے ہیں یعنی خوشبو لگانا ہمارا اغتسل کا معنی غسل کرنا لینا بزرگوں سےہماری تائید کرتا ہے ۔
اگر اتنی عبارت پر ہی غور کرلیا جاتا تو موصوف دھوکا نہ کھاتے، اور نہ ہی اس میں تاویلات کرنے کی ضرورت پڑتی
ہم نے کنوئیں کھودنے والی. روایت بھی نقل کی ہے
اور ہم نے شیعوں کی کتب سے بھی پانی ہونا ثابت کیا ہے ۔
نیز کربلا ایسا میدان تھا جہاں کنوئیں کھودنے سے پانی نکل آتا تھا اس پر بھی ہم نے دلائل کے ساتھ تفصیلی کلام کیا ہے مگر قبلہ مفتی صاحب نے ان روایات پر کوئی کلام نہ فرمایا۔ صرف نظر کرتے ہوئے نکل گئے۔
خلاصلہ کلام یہ ہے مفتی صاحب کے نزدیک بدایہ کی روایت جس میں غسل کرنے کا ذکر ہے۔ باقی دو روایات حضرت عباس کی پانی لانے والی اور حضرت زینب پر پانی چھڑکنے والی یہ دو روایات ثابت تو ہیں مگر متعارض ہیں۔ اگر مفتی صاحب بدایہ کی روایت کو نہ بھی مانے باقی دو روایات چونکہ ان کے نزدیک بھی ثابت ہیں اگرچہ متعارض ہی صحیح یہ روایات ہمارے ان بزرگوں کی وہ عبارات جن میں ایک قطرہ بھی پانی نہ ہونے کا ذکر ہے اعتراض پیدا کرتی ہیں۔ خاص بات یہ ہے مفتی صاحب نے کافی طویل کلام کیا نہ ہی اپنا مدعی ثابت کر پائیں اور نہ ہی ان عبارتوں کا تعارض دور کر پائیں۔ سمجھ نہیں آتا جب مفتی صاحب بھی 2 روایات پانی موجود ہونے کے متعلق اگرچہ پانی قلیل تھا اگرچہ متعارض ہیں تسلیم کر رہے ہیں تو آپ کو لکھنے کی کیا ضرورت پڑی چونکہ ہمارا کلام اسی پر ہے پانی موجود تھا اگرچہ قلیل مقدار میں ہی کیا نہ ہو اور یہ بات کہ ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا قابل قبول نہیں۔ جب ایسا ہے تو ہر صورت ہمارا مدعی ثابت ہو رہا ہے۔واللہ اعلم بالصواب
اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے اللہ کریم حق بولنے لکھنے قبول کرنے کی توفیق دے۔ من گھڑت روایات سے ہمیں بچنے کی توفیق دے۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالی النورانی ہلدوانی نینیتال
11_7_2024