Type Here to Get Search Results !

مفتی سید عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی : شخصیت اور نعتیہ شاعری


مفتی سید عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی : شخصیت اور نعتیہ شاعری
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
(اردو کے منتخب نعت گو علما : سلسلہ 2)
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
 ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
 گلشن آباد ناسک کی سرزمین صدیوں سے علم و ادب اور دین و دانش کامرکز رہی ہے۔
اس کی خاکِ کیمیا اثر سے نہ جانے کتنے ذرّے رشک آفتاب و ماہتاب ہوئے ہیں، جن کی فیض بخش کرنوں نے برصغیر کے اطراف و اکناف کو نور ایمان و یقین سے منور و مجلیٰ کیا۔ خوش عقیدگی کے اسی مرکز ناسک کی ایک ذاتِ ستودہ صفات کا نام ہے مفتی سید عبد الفتاح عرف اشرفؔ علی گلشن آبادی۔ جن کی مایۂ ناز اور گراں قدر تصنیفات و تالیفات نے حقیقی معنوں میں اسلام کے گلشن میں لہلہاتی فصلیں اگاکر اُس کو سرسبز وشاداب کیا ہے۔ علامہ برصغیر کے اُن اکابر علما میں تھے جن کے وجود سے چودہویں صدی کو فخر و اِعزاز حاصل تھا۔ آپ امام اہلسنّت بھی ہیں، اور مجاہد سنیت بھی۔ آپ کے دم قدم سے ناسک اور اس کے اطراف میں عقیدۂ اہل سنت خوب پھلا پھولا، اور آپ جیتے جی اس کی آبیاری کا مؤمنانہ فریضہ سرانجام دیتے رہے۔
 آپ کا پورا نام سید عبد الفتاح گلشن آبادی اوران کی عرفیت اور تخلص ’’اشرفؔ علی‘‘ ہے۔ اس کی وضاحت اس قطعۂ تاریخ سے ہوتی ہے جو سید عبدالفتاح گلشن آبادی کے نعتیہ دیوان کے لیے سید اولاد حسین ابن مولوی سید قطب الدین تجلی ؔ نے کہا تھا، یہ گیارہ اشعار کا قطعہ ہے جس کا ایک شعر یوں ہے:
اشرف علی نام اور تخلص بھی ہے اشرفؔ
اس نظم کا ناظم وہ فصیح الفصحا ہے
 آپ مذہباً حنفی اور مشرباً قادری ہیںجب کہ نسباً حسینی سادات ہیں، آپ کا سلسلۂ نسب ساتویں پشت میں گلشن آباد ناسک کے مشہور عالم ، ولیِ کامل ، صوفیِ باصفا حضرت سید محمد صادق شاہ الحسینی نور اللہ مرقدہٗ سے ملتا ہے۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے:
 ’’سید عبدالفتاح بن سید عبد اللہ حسینی قادری پیرزادہ گلشن آبادی، بن سید شمس الدین، بن زین العابدین، سید محی الدین، بن سید عبدالفتاح، بن سید شیر محمد، بن سید محمد صادق شاہ حسینی الخ، قدس اللہ اسرارہم۔‘‘
 مولانا سید عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی کی ولادت علم و فضل اور زہد و تقویٰ کے مرکز اسی مذہبی اور علمی گھرانے میں 1234ھ/1818ء میںہوئی ۔جب کہ آپ کی وفات 15؍صفر1323ھ کو ممبئی میں ہوئی، اور وہیں مشہور و معروف مینارہ مسجد کے بیس منٹ (Basement)کے سمت مغرب میں سپردِخاک کیے گئے۔ حسینی سادات ہونے کی وجہ سے علاقۂ دکن میں آپ کا خاندان ’پیرزادہ خاندان‘ کہلاتا تھاپورے خطےمیں آپ کے گھرانے کو احترام و عقیدت سے دیکھا جاتا تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر کے روحانی اور علمی ماحول میں ہوئی۔آپ کے اندر علم حاصل کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، یہی وجہ ہے کہ علم کے شوق نے آپ کو کبھی گھر بیٹھنے نہیں دیا۔ جب بھی موقع ملتا علاقے کے علما و مشائخ سے اکتسابِ علم و فیض کے لیے نکل جاتے۔ نیز آپ نے حصولِ علم و فقہ کے سلسلے میں دور دراز کا سفر بھی اختیار فرمایا۔آپ کے معروف اساتذہ میں کچھ کے اسماے گرامی یہ ہیں :
’’حضرت سید میاں سورتی، مولوی شاہ عالم بڑودوی، مولوی بشارت اللہ کابلی، مولوی عبد القیوم کابلی، مولوی بدرالدین کابلی، محمد عمر پشاوری، مولوی اشرف آخونزادہ، مولوی محمد صالح بخاری، مولوی محمد اسحق محدث دہلوی، مفتی عبدالقادر تھانوی، مولانا خلیل الرحمن مصطفیٰ آبادی، مولانا فضل رسول عثمانی بدایونی، مولوی محمد اکبر کشمیری، اور حضرت مولانا معلم ابراہیم باعکظہ وغیرہ -رحمہم اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ (تذکرہ علمائے ہند مترجم:272،273)
 ان عظیم و جلیل بارگاہوں سے آپ نے کتب درسیہ کا فیض لیا۔ معقول و منقول میں مہارت و حذاقت پیدا کی۔ خصوصاً علوم فقیہ اور صرف و نحو میں تبحر حاصل کیا۔ 1264ھ/1848ء میں امتحان سے فارغ ہوئے اور مفتی کی سند حاصل کرنے کے بعد اردو فارسی کی تعلیم و تدریس میں مشغول ہوئے۔ میاں محمد منظور صاحب اپنے قطعۂ تاریخ میں کچھ یوں رقم طراز ہیں:
میر اشرف علی حبیب شریف
یہاں بے شبہ شیخِ علما ہیں
عربی ، اردو اور انگریزی 
فارسی ، دکنی میں وہ یکتا ہیں
مولوی ، سید اور مدرس ہیں
شایق ان کے امیر امرا ہیں
کہا دیوان انھوں نے نعت میں وہ
جس کے قائل بلیغ و فضلا ہیں
 اسی دوران 1848 ء میں عربی اور فارسی کے نائب مترجم کی حیثیت سے ان کا تقرر سپریم کورٹ ممبئی میں ہوا۔ ان کی مختلف تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ وہ ناسک ( گلشن آباد)میں کم اور ممبئی طویل عرصے تک مقیم رہے۔ سپریم کورٹ ممبئی کے بعد وہ 1271ھ/1856ھ میں عدالت دھولیہ ضلع خاندیس میں منصب افتا پر فائز ہوئے۔ جہاں 1284ھ/1868ء تیرہ سال تک بہ حیثیت مفتی ہر سال خصومات و نکاح و طلاق و میراث و ہبہ و وصیت وغیرہ سے متعلق سیکڑوں سوال و استفتا کے شافی و کافی جوابات مرحمت کرتے رہے۔ ان مسائل واستفتا کے مسودوں سے کئی دفتر تیار ہوئے۔الجھے ہوئے مسائل کو سلجھاتے ہوئے منصفانہ فیصلے صادر کرتے رہے ۔ لوگوں کی دینی و شرعی اور عائلی و معاشرتی رہنمائی کرتے رہے۔ 
 آپ نے درس و تدریس کی محفل بھی آراستہ فرمائی اور منصبِ تدریس پر فائز رہتے ہوئے نہ جانے کتنے تشنگانِ علومِ و فنوں کو عرصۂ دراز تک سیراب کیا۔دھولیہ کے بعد1284ھ/ 1868ء میں ان کا تقرر الفنسٹن کالج و ہائی اسکول ممبئی میں عربی وفارسی کے پروفیسر کے عہدے پر ہوا۔ یہاں بھی آپ نے اوقاتِ درس کے علاوہ دینِ متین کی خوب خدمت انجام دی۔ آپ کے تلامذہ ومستفیدین کی تعداد خاصی ہے، جن میں بعض ممتاز یہ ہیں : مولوی سید نظام الدین، شیخ قطب الدین، قاضی سید مرتضیٰ علی عرف بچو میاں خاندیسی ایرنڈول، مولوی سید امام الدین احمد وغیرہ۔
 آپ کی خدماتِ جلیلہ کے اِعتراف میں انگریزی حکومت نے آپ کو’’جسٹس آف پیس ‘‘ (Justice of Peace)اور خان بہار کے خطاب و اعزاز سے نوازا۔ حکومت کی یہ مہربانی آپ برداشت نہیں کرسکے اور سارے مراتب و مناصب سے مستعفی ہو کر گلشن آباد (ناسک) میں آ کر فروکش ہو گئے،اور یکسو ہو کردین و مذہب کی خدمت میںمصروف ہوگئے۔ 
 مولانا عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی نے دو شادیاں کیں۔ ان کا پہلا عقد پیرزادہ خاندان کی ایک خاتون شریف النساء بی بی سے ہوا تھا۔ ان کی وفت 2؍ ربیع الاول 1255ھ کوہوئی ۔ مولانا سید عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی کا دوسرا عقد عائشہ بی بنت عبدالرحمٰن سے 16؍ ربیع الاول 1256ھ کو ہوا ۔ دوسری زوجۂ محترمہ سے ان کی دو اولادِ نرینہ ہوئیں(1)سید احمد اور (2) مولوی سراج الدین، اول الذکر فرزند کے دو لڑکے ہوئے مولوی بشیر الدین اور مولوی فضل الدین ، بڑے صاحب زادے سید احمد کا انتقال مولانا سید عبدالفتاح کی حیات میں ہی ہوگیا تھا۔ دوسرے فرزند مولوی سراج الدین کے بھی دو لڑکے ہوئے مولوی منیر الدین اور مولوی علی الدین ۔ ان دونوں میں بڑے مولوی منیر الدین صاحبِ علم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ ثروت و مال بھی تھے۔ 
 مولانا عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی اکثر و بیشتر اپنے وطنِ مالوف گلشن آباد ناسک سے دور دراز مقامات میں قیام پذیر رہا کرتے تھے ۔آپ کا زیادہ تر وقت دھولیہ اور ممبئی میں گزرا ہے ۔ وہ ممبئی میں رہ کر نہ صرف تدریسی و تصنیفی کاموں میں مشغول رہتے بلکہ سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ 1857ء کی ناکام جنگ ِ آزادی کے بعد ممبئی کے متمول اور باثروت مسلمانوں نے مل کر ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود اور تعلیمی ترقی کے لیے ’’ انجمن اسلام ‘‘ نامی ادارے کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا تو مولانا سید عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی نے نہ صرف اس فیصلے کی بھرپور تائید کی بلکہ عملی طور پر اس کے قیام کے لیے کوشاں افراد کے شانہ بہ شانہ کام بھی کیا چوں کہ آپ اس وقت ممبئی میں مسلمانوں کاایک بڑا تعلیمی چہرہ تھے ۔خود الفنسٹن کالج کے پروفیسر بھی تھے اور ممبئی کے بہترین اور نامور علما میں آپ کاشمار بھی ہوتا تھا اور آپ کی تصنیف کردہ بیشتر کتب گورنمنٹ کی اسکولوں میں پڑھائی جاتی تھیں ۔ چناں 25؍ محرم الحرام 1293ھ مطابق 21؍ فروری 1874ء بروز جمعہ کو قمرالدین طیب جی ( بدرالدین طیب جی کے بھائی ) کے مکان پر جب مسلمانوں کی ہمہ جہت فلاح و بہبود اور ترقی و بقا کے لیے انجمن اسلام کی بنیاد ڈالنے کے لیے مشورتی اجلاس کا انعقاد عمل میں آیا تو آپ نے اس میٹنگ میں شرکت کی اور اس انجمن کے عہدیداران اور کمیٹی کے ارکان کا جب انتخاب عمل میں آیا تو آپ کو مجلس منتظمہ میں اول مقام کی حیثیت سے ممبر منتخب کیا گیا۔ 
 مولانا سید عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی اپنے ممبئی کے دورانِ قیام کتب و رسائل کی تصنیف و تالیف اور دینی بحث و مباحثے میں بھی مشغول رہے ۔ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل خصوصاً وہابی فکر و نظر کاسخت تعاقب کیا۔ چوں کہ آپ ایک عظیم حسینی سادات خاندان کے فرد تھے جس میں ہر دور میں اہلِ شریعت و طریقت حضرات نے جنم لیا ۔آپ نے اپنے خاندانی روایات کو بھی تھامے رکھا ۔ تصوف و معرفت اور روحانی اقدار کے فروغ میں مصروف رہے۔ لوگوں کے تزکیۂ نفس اور طہارتِ قلبی کے لیے پیری مریدی کاسلسلہ بھی جاری رکھا۔ کئی باشندگانِ ممبئی آپ کے مرید اور عقیدت مندوں میں شامل تھے ۔
 آپ خوش خوراک، خوش پوشاک، با مروّت، با وضع، اور پیکر اخلاق ووفا تھے۔ چھوٹے بڑے ہر کسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے۔ بزرگوں کے ساتھ آپ کی عقیدت دیدنی تھی۔ تقویٰ و طہارت، اور لطافت و نظافت آپ کی گھٹی میں پڑی تھی۔خداترسی، ہم دردی اور منکسر المزاجی کے پیکرمجسم تھے۔ حق گوئی و بے باکی آپ کا نشانِ امتیاز تھا۔حق کے معاملے میں آپ نے کبھی کسی مداہنت سے کام نہیں لیا۔ اور اس سلسلے میں لومۃ لائم کو کبھی آڑے نہ آنے دیا۔ 
 آپ نے تادمِ زیست علم و فن کی خدمت انجام دی۔ احقاقِ حق اور بطالِ باطل کے لیے اپنا لمحہ لمحہ بسر کیا۔ نثر و نظم دونوں ہی میدانوںکے ایک مہتم بالشان شہسوار کی حیثیت سے آپ اپنے عہدمیں مرکزی مقام کے حامل تھے۔ آپ کے فتاؤوں کے مجموعہ’’ جامع الفتاویٰ‘‘ سے آپ کی فقہی بصیرت و بصارت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں آپ کی دیگر کتب و رسائل کا مطالعہ کرنے کے بعد اُن کےمعاصر علما نے انھیں’’ امامِ اہل سنت ‘‘اور ’’مجاہدِ سنیت‘‘ جیسے خطاب سے یاد کیا۔ 
 آپ کی پوری زندگی درس وتدریس اور وعظ و خطابت کی نذر ہو گئی۔ علم و فضل کے لحاظ سے آپ کا مقام معاصرین میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ کامیاب مدرس و فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ بے مثال خطیب اور زود رقم مصنف و محقق بھی تھے۔ عربی وفارسی اور اُردو میں کئی لکھی گئیں اپنی تصانیف کاذکرکرتے ہوئے اپنی کتاب ’’ تاریخ الاولیاء کی تقریظ ، مطبوعہ مطبع مرغوب ، بمبئی جلد اول کے صفحہ 476 پر خود لکھتے ہیں: 
’’قریب چالیس کتابیں خورد و بزرگ ہندی و فارسی و عربی میں تحریرکیںاور اکثر ان میں سے مطبوع ہوئیں، شمار ابیات اَسّی ہزار تک تالیفات کا ہوا ہے۔‘‘
جامع الفتاویٰ کے دیباچے میں فرماتے ہیں :
’’ تحفۂ محمدیہ ، تائید الحق ، خزانۃ العلم ، اشرف القوانین ، صد حکایات، اشرف الانشاء ، تحفۃ المقال ، مصادر الافعال ، کلید ِ دانش ، تعلیم اللسان وغیرہ چالیس کتب و رسائل عربی و فارسی و ہندی میں سرکاری مدرسوں وغیرہ کے واسطے لکھنے کا اشتغال رکھا۔‘‘ ( جامع الفتاویٰ ، جلد اول ص3)
اسی طرح اپنی ایک دوسری کتاب’’ تحفۃ المقال فی الاصطلاح والامثال کے صفحہ 2 پر لکھتے ہیں:
’’اشر ف اللغات و تعلیم اللسان و خزانۃ العلوم وغیرہ چونتیش کتابیں مفید عام مدرسہائے گورنمنٹ کے واسطے لکھی گئیں۔ ان دنوں سرجان ویلزلی صاحب کی عربی ضرب المثل کی کتاب اور ریوبک صاحب کی فارسی ضرب المثل کا نسخہ مطالعہ میں آیا۔ تب ---تب فقرات کار آمدنی ان کتابوں سے منتخب کرلیے ۔ اور ہندوستانی فارسی عربی اور انگریزی فقرات مترادفات ہم معنی مقابل یک دیگر اس کتاب خزینۃ الامثال میں ایک ہزار سے زیادہ جمع کیے اور اس کے چار باب بنائے۔‘‘
 مولانا سید عبدالفتاح اشرف ؔ علی گلشن آبادی کے مرقومہ درج بالا چند حوالوں سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ انھوں نے درسی علوم کے علاوہ جغرافیہ ، تاریخ اور مذہبی علوم کے تراجم کے علاوہ’’ اَسّی ہزار اشعار ‘‘ کا خزانہ بھی یادگار کے طور پر چھوڑا ہے۔ انھیں اپنے زمانے کے جملہ مروجہ علوم و فنون میں کامل دسترس حاصل تھی۔ درس و تدریس میں مہارتِ تامہ کے ساتھ ساتھ علم فقہ و تفسیر و حدیث وغیرہ میں اعلیٰ درجے کی بصیرت رکھتے تھے۔ ان کی لکھی گئیں درسی کتب و رسائل کے کئی کئی ایڈیشنز منظر عام پر آچکے تھے اور وہ کتابیں ممبئی کے کالجوں اور اسکولوں میں باضابطہ طور پر پڑھائی جاتی تھیں سید عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی نے اپنی تصانیف کی تعداد چالیس تک بتائی ہیں۔ ان کی اپنی ایک’’ تشریح الحروف و الفاظ - 1881ء مطبع فتح کریم بمبئی ‘‘ کے صفحہ آخر پران کی30؍ تصانیف پر مبنی ایک اشتہار اس طرح ملتا ہے:
اشتہار
فہرست کتب مطبوعہ مؤلفہٗ حضرت مولوی سید عبدالفتاح عرف سید اشرف ؔ علی گلشن آبادی مدرس عربی و فارسی الفنتسن ہائی اسکول در بمبئی بر دوکان قاضی فتح محمد صاحب دستیاب می شود۔ 
 (1) ہندوستانی پہلی کتاب قیمت 3؍
 (2) ہندوستانی دوسری کتاب 5؍
 (3) ہندوستانی تیسری کتاب 12؍
 (4) صرف و نحو اردو یک آنہ؍
 (5) خلاصہ علم جغرافیہ 10؍
 (6) تاریخِ افغانستان عسہ ور
 (7) تحفۂ محمدیہ عہ صم
 (8) تائید الحق عہ صم
 (9) کلید دانش ہندی 3؍
 (10) دیوان اشرف الاشعار عہ صم
 (11) سراج الفقراء 2؍
 (12) تعلیم اللسان صرف و نحو انگریزی 12؍
 (13) تحفۃ المقال فی الاصطلاح و الامثال
 عربی ، فارسی ، انگریزی و اردو عہ
 (14) کلید دانش 3؍
 (15) اشرف القوانین 6؍
 (16) صرف و نحو- اشرف الانشاء فارسی عہ ص
 (17) الباقیات الصالحات فی مولد اشرف المخلوقات ع ؍
 (18) اشرف المجالس 3؍
 (19) رحمۃ للعالمین مولود شریف 3؍
 (20) تاریخ انگلستان عہ ص
 (21) تاریخ الاولیاء دو روپیا عہ ص
 (22) فیض عام -و -دولت بے زوال عہ ص
 (23) مصادر الافعال چہار زبان 12؍
 (24) خزانۃ العلوم عربی مع ترجمہ 8؍
 (25) خزانۃ العلوم جلد دوم عربی 12؍
 (26) فارسی آموز جلد اول 2؍
 (27) فارسی آموز جلد دوم 3؍
 (28) اصول فارسی آموز جلد سوم 4؍
 (29) فارسی خزانۂ دانش جلد چہارم 12؍
 (30) صد حکایت فارسی 8؍
 عبدالحلیم ساحلؔ صاحب نے ان کی کل 30؍ کتابوں ( نثری و شعری) کا ذکر کیا ہے ۔ میر وارث علی نے کل 39؍کتابوں کے نام لکھے ہیں ۔ ڈاکٹر میمونہ دلوی نے ’’ بمبئی میں اردو‘‘ میں ان کی کل 32؍ کتابو ںکے نام لکھے ہیں جو اردو فارسی اور عربی میں ہیں ۔ مولانا افروز قادری چریاکوٹی نے اپنی ایک کتاب میں درج ذیل کتب کے نام بھی شمار کیے ہیں جو گذشتہ صفحات پر درج کیے گئے اشتہار میں شامل نہیں ہیں:
 (1) جامع الفتاوی (چار جلدیں )
 (2) مرغوب الشعراء
  (3) تاریخ روم
 (4) مجامع الاسماء
 (5) تشریح الحروف و الالفاظ
 (6) جغرافیۂ عالم
 (7) عربی بول چال
 (8) مناظرۂ مرشد آباد
 (9) تحفۃ الموحدین
 (10) اظہار الحق 
 (11) تحفۂ عطرین
 (12) تائید الحق در ردِّ وہابی
 (13) توشۂ عاقبت
 (14) ترجمہ قصیدہ ٔبردہ
 درج بالا تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مولاناسید عبدالفتاح اشرف علی گلشن آبادی کثیر التصانیف برزگ تھے۔ انھوں نے گرامر، مصادر اور افعال وغیرہ پر جو کتابیں تحریر کیں وہ اس قدر معیاری تھیں کہ بمبئی کے اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں شامل تھیں ۔ آپ کے موے قلم سے نکلی ہوئی تمام تر کتابیں بڑی فائدہ مند ، لائقِ دید و قابلِ شنید ہیں۔ 
 آپ نے نثر و نظم دونوں ہی میدانوں میں اپنے جوہر بکھیرے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی فرمائی۔ پیشِ نظر کتاب ’’دیوان اشرف الاشعار‘‘ آپ کے زرنگار قلم سے نکلے ہوے اشعارِ آب دار و تاب دار کا حسین و جمیل مجموعہ ہے ۔ جس میں حمد و مناجات، نعت و سلام، مناقب و قصائد اور غزلیات شامل ہیں ۔اس دیوان پر روشنی ڈالتے ہوئے محترمہ ڈاکٹر سعیدہ پٹیل اپنی کتاب ’’سید عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی اور قصیدۂ بردہ ( ایک تحقیقی مطالعہ)‘‘ میں لکھتی ہیں: 
’’ان کا مشہور و معروف نعتیہ دیوان رضا لائبریری رام پور میں ہے۔ اس دیوان میں 27؍ قصیدے رسول ﷺ کی مدح میں ہیں۔ اردو شاعری اپنی ابتدا سے ہی اسلامی تصورات و عقائد کی ترجمان بنی ۔ توحید، رسالت ،نعت ِ پیمبر ، عشقِ خداوندی ، حمد اور عشقِ رسول پاک(ﷺ) وغیرہ اردو شاعری کا موضوع رہے ہیں ۔ مختلف اصناف ِ سخن میں اسلامی عقائد ، اسلام اور اسلامی فکر پر مختصر اور طویل نظمیں لکھنا شعرا کادلچسپ مشغلہ رہا ہے اور یہ تسلسل تاحال برقرار ہے--- شاعر کے ہر شعر سے والہانہ عقیدت اور محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی نعتوں میں ادب و احترام کو بھی ملحوظ رکھا ہے ۔ اس دیوان کے خاتمے میں صرف وہ یہی کہتے ہیں کہ انھوں نے نعتیہ دیوان ’مولود خوانوں‘ اور ’مشامِ جان سامعین کو معطر‘ کرنے کے لیے لکھا ہے۔ وہ تاحیات علم حدیث و فقہ ، تصنیف و تالیف ، شاعری اور تدریس میں مقبول رہے ان کی یہ خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔‘‘ (ص 16/17)
 مولانا سید عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی نے جہاں دیگر علوم و فنون پر خوب روشن نقش اجلاتے ہوئے تصنیف و تالیف کے جوہر بکھیرے وہیں انھوں نے عربی ، فارسی اور اردو شاعری کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی ۔انھوںنے خود اَسّی ہزار اشعار لکھنے کاذکر کیا ہے۔ انھیں علم و ادب سے بڑا گہر اشغف تھا۔ وہ بیک وقت کئی زبانوں پر عالمانہ و فاضلانہ دسترس رکھتے تھے۔ ان کی عربی ، فارسی اور اردو شاعری کے اشعار ،حمد و مناجات، نعت و مناقب، سلام، قصیدے ، غزلیں اور قطعات وغیرہ ان کی کتابوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کا ایک نعتیہ دیوان ’’ دیوان اشرف الاشعار ‘‘ کا تذکرہ ان کے حالاتِ زندگی پر لکھے گئے مقالات و مضامین اور کتب و رسائل میں ملتا ہے۔ چناں چہ ڈاکٹر میمونہ دلوی نےاپنی کتاب ’’ بمبئی میں اردو ‘‘ میں اس دیوان کا تذکرہ یوں کیا ہے:
’’دیوان اشرف الاشعار: اشرفؔ کا یہ دیوان 1279ھ میں مرتب ہوا تھا۔ اس میں غزلیات، نعت اور مناقب شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اشرف المجالس کے نام سے سورۂ قدر کی منظوم تفسیر بھی دی گئی ہے۔ یہ دونوں اب نایاب ہیں۔ اس کا تذکرہ کریمی لائبریری کی فہرست کتب میں موجود ہے۔‘‘
 ڈاکٹر میمونہ دلوی نے جس دیوان کو نایاب بتایا ہے وہ راقم الحروف مشاہد رضوی کو گلشن آباد ناسک سےعزیز محترم پیرزادہ سید فرقان علی صاحب نے اس امید کے ساتھ عنایت کیا کہ اس کی جدیدترتیب و تہذیب کرتے ہوئے اشاعتِ نو عمل میں لائی جائے ۔ چناں چہ راقم نے اس پر کام شروع کیا ۔ اولاً مولانا مفتی مشتاق احمد قادری عزیزی امجدی ( استاذ و مفتی جامعہ صادق العلوم و خطیب شاہجہانی مسجد ، ناسک) کے اشارہ و ایما پر حضرت مولانا سید عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی کی مرقومہ سورۂ قدر کے منظوم ترجمے ’’ اشرف المجالس ‘‘ پر کام شروع کیا گیا الحمد للہ! ’’ بزم برکات رجب، ناسک‘‘ نے 1437ھ/ 2016ء میں اسے کتابی شکل میں شائع بھی کیا جو ایک وسیع حلقے میں پسند کی گئی۔ 
 بعد ازاں مولانامفتی مشتاق احمد قادری عزیزی امجدی اور پیرزادہ سید فرقان علی صاحبان کی حوصلہ افزائی سے پیشِ نظر کتاب’’دیوان اشرف الاشعار‘‘ کی جدید ترتیب و تہذیب کا سلسلہ شروع ہوا جو بفضلہ تعالیٰ کامیاب رہا۔
  واضح ہونا چاہیے کہ مولاناسید عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی کا دور وہ دور تھا جب کہ اردو اپنے تشکیلی عہد سے گزر رہی تھی ،جب اردو کو ہندی اور ہندوی کہا جاتاتھا۔ لہٰذاحضرت سید عبد الفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی علیہ الرحمہ کی زبان میں فارسیت کے ساتھ ساتھ ہندوی /ہندی اور علاقائی بولیوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے ۔ ساتھ ہی کہیں کہیں جمع الجمع کا استعمال بھی کیا گیا۔ اس ترتیب میں ان تمام مقامات کو جوں کا توں رکھا گیا ہے جب کہ بعض مقامات پر اس عہد کے رسم الخط کے اعتبار سے املا میں کچھ الفاظ اصل نسخے میں جس طرح درج تھے ان کا املا دورِ جدید کی طرز پر کردیا گیا ہے۔ 
 اس دیوان میں غزلیات، نعت اورمستزاد کے علاوہ ان کا منظوم ترجمہ کردہ مشہور نعتیہ قصیدۂ بردہ شریف بھی شامل ہے، جسےقصیدۂ بردہ کے اولین منظوم اردو ترجمے کااعزاز و شرف حاصل ہے۔سرورق پر اس کا نام اور سنۂ تصنیف یوں تحریر ہے:
’’دیوان اشرف الاشعار
مفتی سید عبدالفتاح الحسینی القادری عرف سید اشرف علی گلشن آبادی کا معمورہ ممبئی کے مطبع حیدری میں باہتمام قاضی ابراہیم صاحب پلبندری چھاپا گیا
1868ء/ 1285ہجری‘‘
 اندرونی سرورق پر اوپر کی طرف یہ صیغۂ دُرود شریف بھی درج ہے:
’’اَللّٰھُمَّ صَلی عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ آلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ‘‘
 اس دیوان کے صفحۂ اول پر شاعرِ محترم سید عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی کے دیباچے سے ظاہر ہوتا ہےکہ انھوں نے یہ نعتیہ دیوان طلبہ کے پڑھنے اور سننے کے لیے لکھا تاکہ ان کے دلوں میں حضور اکرم نبیِ مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وصحبہٖ وبارک وسلم کی محبت و الفت اور عظمت و رفعت بسی اور جمی رہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’شکر ہے اُس خالقِ ذوالجلال والجمال کا؛ کہ جس نے اپنے قدرتِ کاملہ اور صفتِ بالغہ سے اوّل نورِ محمدی (ﷺ)پیدا کرکے اُسے ابوالارواح بنایا اور اجرامِ علوی و سفلی ان کے نور سے ظہور میں لاکر ، خلعت ِخلافت ِکبریٰ و صغریٰ سے ابوالبشر (علیہ السلام)کو زیب و زینت بخشااور دُرود نامحدود اُوپر رسولِ اکرم اور نبیِ معظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحابہٖ وسلم کے ، کہ جنھوں نے سبھوں کو شریعت کا رستہ بتایا اور فیضانِ ظاہری و باطنی مومنین کے دلوں میں مالامال کرکے اُن کو منزلِ ولایت سے محلِّ کرامت پر پہنچایا،اور اُوپر آل و اصحاب اُن کے ؛جو رہنماے دین اور پیشواے اہلِ یقین ہیں۔ ہمیشہ نازل ہوجیو۔
امابعد! فقیر حقیر مفتی سید عبدالفتاح الحسینی القادری عرف سید اشرفؔ علی ابن مرحوم و مغفور سید عبداللہ حسینی پیرزادہ گلشن آبادی عفی اللہ عنہما و عن جمیع المسلمین ؛ ----
 عرض رکھتا ہے کہ چند اشعارِ مدح ، ہندی و فارسی نعت و منقبت میں انبیا و اولیاکے ، کہ حقیقتاً گوہرِ شب چراغ جن کے رشک سے خود کو صدف کے حجرے میں مخفی کرتا ہے اور جواہرِ آب دار جن کے وزن و رنگینی کی حسرت سے معدنِ زمین میں پوشیدہ رہتا ہے۔ اپنی سعادتِ دارین اور برکتِ کونین جان کر شوقِ ازلی اور ذوقِ لم یزلی کے باعث زبانِ قلم اور قلم ِزبان پر لاتاہے۔تا طلباؤں( طلبہ)کو اُن کے پڑھنے اور سننے سے محبت نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بڑھےاور عارفوں کو جذبۂ شوق و حالت ِذوق حاصل ہووے۔شایقین ،مومنین و مریدین ، معتقدین کے واسطے لکھ دیا اور ثوابِ جزیل اور اجرِ جمیل کی اُمّید سے تمام منظومات اس دیوانِ نعتِ رسول(ﷺ)میں جمع کیا ، تامقبول ہووے اور نجات ملے۔وَمَا تَوْفِیقِی اِلّابِاللہِ وَعَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ -۔
 اس دیوان میں 27؍ قصیدے رسول اللہ ﷺ کی مدح و ثنا میں ہیں۔ دوسرے قصیدوں کے نام اس طرح ہیں:
’’قصیدہ در مدحِ اہل بیت ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم / قصیدہ منقبت ِ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ / قصیدہ درمدحِ حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ / قصیدہ در مناقب ِ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ / قصیدہ درمدحِ حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ / قصیدہ درمدحِ حضرت امام حسن مجتبیٰ ابن علی رضی اللہ عنہما / قصیدہ در مدح حضرت سید الشہداء حسین ابن علی رضی اللہ عنہما / قصیدہ در مدح حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ / قصیدہ در مدح امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ/ قصیدہ مدحِ غوث اعظم دستگیر / قصیدہ مناجات فاتحہ/ قصیدہ قومہ / قصیدہ شکریہ / قصیدہ بہاریہ / قصیدہ ملمع/ قصیدہ سلام / قصیدہ نورانی / قصیدہ وجدانی /قصیدہ صنعت ِ ابجد / ترجمہ قصیدۂ مولانا شاہ عبدالحق علیہ الرحمہ موسوم بہ قصیدہ حقانی شہودی۔‘‘
  ان قصیدوں کے علاوہ ایک اور’’ قصیدہ تاریخ مطبوع‘‘ اردو زبان کا سترہ اشعار پرمشتمل ہے ۔ جس سے اس دیوان کی تاریخِ مطبوعہ و تصنیف کا پتا چلتا ہے۔ مؤخر الذکر قصیدے کے تاریخی اشعار یہ ہیں : 
ہوا دیوانِ مدحِ احمدی مطبوع جب ایسا
حضورِ قدس میں طبعِ مقدس کی رسائی ہے
کہا رضواں نے دیواںدیکھ ،دو تاریخِ مطبوعی
بہارِ قول فیضاں ، باغِ مدحِ مصطفائی ہے
        1285ھ 1285ھ
 ان قصیدوں کے علاوہ اس دیوان میں غزلیں ، مسدس ، مخمس اور مستزاد بھی شامل ہیں ۔ مسد س میں’’ شفاعت نامہ ‘‘اور ’’ قیامت نامہ‘‘بھی ہے ۔ اسی طرح کئی سلام بھی ہیں۔ قصیدہ بردہ شریف کا اردو منظو

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area