Type Here to Get Search Results !

اسلام نے انسان کو درخت لگانے کی ترغیب دی ہے


اسلام نے انسان کو درخت لگانے کی ترغیب دی ہے
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
 از قلم:- حافظ افتخاراحمدقادری 
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
 انسانی سماج کا ایک اہم احساس اور تشویشناک مسئلہ ماحولیاتی آلودگی کا ہے۔اس کی تباہ کاریوں سے انسانی معاشرہ لرز رہا ہے۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس سے متعلق اصولی ہدایات کیسے روشن ہیں ملاحظہ فرمائیں۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
جو مسلمان درخت لگائے اس سے جو انسان یا پرندہ بھی کچھ کھائے تو اس کا ثواب درخت لگانے والے کو ملے گا۔
ہرے بھرے درختوں کو کاٹنے سے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے دوران جنگ بھی منع فرمایا۔
ابنِ ابی درداء رضی الله عنہ سے مروی ہے:
وہ دمشق میں پودے لگا رہے تھے کہ دریں اثنا ایک شخص کا ان کے پاس سے گزر ہوا وہ کہنے لگے کہ آپ صحابی رسول ہیں اور یہ کام کر رہے ہیں؟تو ابنِ درداء رضی الله عنہ نے کہا:مجھ پر ملامت مت کرو کیونکہ میں نے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص شجر کاری کرے اور کوئی پودا لگائے اور اس سے انسان اور الله رب العزت کی دیگر مخلوق کھائے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔
(المجمع الزوائد للہیمثی، جلد/ 04 صفحہ/ 68)
معلوم ہوا کہ پیڑ پودے لگانا کار عبث اور لہو ولعب نہیں بلکہ حد درجہ مفید اور اجر و ثواب کا کام ہے۔
مذہبِ اسلام نے انسان کو درخت لگانے کی ترغیب دی ہے اور ویسے بھی انسان کو اپنی اس مختصر سی زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے۔نیک کام کرتے رہنا چاہیے،چاہیں وہ کام تھوڑا ہو یا زیادہ،کیونکہ مرنے کے بعد بھی اس عمل خیر کا فائدہ اور ثواب انسان کو ملتا رہے اور قیامت تک کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے شجر کاری کا حکم اس لیے دیا کہ اس سے ملک و معاشرہ میں ہریالی اور شادابی کا خوشنما منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔جس سے دل ودماغ کو سکون اور قلب کو فرحت و تازگی کی دولت نصیب ہوتی ہے۔شجر کاری ایک ایسا عمل ہے جس کا دینی و دنیاوی نفع کبھی ضائع نہیں ہوتا بلکہ انسان کو اس کا ثمرہ مل کر رہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر کسی شخص کے لگائے ہوئے درخت اور پیڑ پودے کو کوئی چرا لے،انسان جانور یا چرند پرند ان میں سے کچھ کھالیں تو ہر حال میں اس کا ثواب درخت لگانے والے کو ملے گا اور اس کا یہ عمل اس کے حق میں صدقہ جاریہ ہوگا۔ہمیں چاہیے کہ ہم زمین کو یوں ہی برباد اور بے کار نہ چھوڑ دیں بلکہ درخت اور پیڑ پودے لگا کر اسے آباد کریں اور مصالح عامہ و مفادات عامہ کی خاطر نیک کام کرنے میں پیش پیش رہیں۔شجر کاری کا سماجی فائدہ یہ ہے کہ اس سے سماج خوشگوار اور چاروں طرف ہریالی دکھائی دیتی ہے۔جو طبیعت میں تازگی اور معاشرے میں رہنے والے افراد درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں-انہیں تازہ ہوائیں بآسانی دستیاب ہوتی ہیں۔علاوہ ازیں درختوں سے لکڑیوں کی شکل میں ایندھن فراہم ہوتا ہے جو آگ جلانے اور کھانا بنانے کے کام آتا ہے۔انسان جو ایک معاشرتی جانور ہے اس کے زندہ رہنے کے لئے غذا،میوہ پھل،اناج،سالن وغیرہ کی ضرورتیں پڑتی ہے اور یہ ساری چیزیں درختوں پودوں کھیتوں اور باغوں سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔انسان اپنے مویشیوں کے لیے پتے انہیں درخت سے توڑتا ہے اور جانوروں کے چارہ پانی کا انتظام کرتا ہے۔سماج کو گھر مکان اور محل تعمیر کرنے کے لئے لکڑیوں کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ لکڑیاں پیڑوں سے حاصل کی جاتی ہیں۔درختوں اور پودوں کا ایک اہم معاشرتی فائدہ یہ بھی ہے کہ جب لوگ ایک جگہ رہتے رہتے اکتا جاتے ہیں تو تفریح کرنے اور دل بہلانے کے لیے باغوں اور پارکوں میں جاتے ہیں جہاں قسم قسم کے پھول پودے خوشنما درخت اور جھاڑیاں ہوا کرتی ہیں۔لوگ ان پرکشش مناظر کو دیکھ کر قلبی سکون محسوس کرتے ہیں۔
    دنیا اس وقت گلوبل وارمنگ کے مسائل سے جوجھ رہی ہے۔کہیں سیلاب آرہے ہیں تو کہیں سوکھا پڑرہا ہے۔ان سب کے پیچھے پیڑ پودوں کی کٹائی اصل سبب ہے۔ شجرکاری کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ درخت لگانے کے فضائل بیان کیے گئے تو دوسری طرف درخت کاٹنے پر تنبیہ بیان کی گئی ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
’’بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا؟ پھر ہم نے اس پانی سے بارونق باغ اگائے،تمہارے بس میں نہیں تھا کہ تم ان کے درختوں کو اُگا سکتے۔ کیا (پھر بھی تم کہتے ہو کہ)اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے؟نہیں! بلکہ ان لوگوں نے راستے سے منہ موڑ رکھا ہے‘‘۔(سورۃ النمل)
انسانوں کی بھلائی کے لیے درخت لگانا چاہئے۔راستوں کے اطراف درخت لگانا چاہئے تاکہ سفر کے دوران کوئی اس کے سایہ میں آرام کرسکے۔اس کے پھل پرندے کھا سکے۔درخت کی وجہ سے آکسیجن حاصل ہوتی ہے۔درخت ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔اس لئے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
  شجرکاری کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے بھی ہوتا ہے
جس میں رسول اللؐه صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں درخت ہو اور وہ اس بات پر قادر ہو کہ قیامت قائم ہونے سے پہلے وہ اسے لگا لے گا تو ضرور لگائے۔
(مسند احمد)
درخت لگانے کی بعد اگر وہ ضائع ہونے کا امکان ہوتب بھی ہمیں یہ نیکی اور بھلائی کا کام کرنے میں پس و پیش نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کام کو انجام دے دینا چاہئے۔ درخت کی اسی افادیت کے پیش نظر آپؐ نے ایسے درخت وغیرہ جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے، کاٹنے یا برباد کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ نبی ؐ نے حالت جنگ میں بھی اشجار کو کانٹے سے منع فرمایا ہے، آپ لشکر کی روانگی کے وقت دیگر ہدایات کے ساتھ ایک ہدایت یہ بھی فرماتے تھے کہ: کھیتی کو نہ جلانا اور کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دورِ اقتدار میں باغ بانی اور شجرکاری میں گہری دل چسپی دکھائی ہے اور اسے علوم وفنون کی شکل دے کر دنیا میں خوب فروغ دیا ہے۔ بعض احادیث میں پھل دار درخت کو کاٹنے سخت قابل سزا جرم قرار دیا ہے۔ ناحق کسی کو تکلیف پہنچانے کے لیے یا ایک فائدے کی چیز کو ختم کرنا ویسے بھی گناہ کا کام ہے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ شجرکاری کرنے اور انسانیت کی بھلائی کے لیے نیکی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- حافظ افتخار احمد قادری 
استاذ مرکز العلوم الاسلامیہ،پورن پور،پیلی بھیت مغربی اترپردیش  

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area