کمزور وکیل
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
✍️: محمد سلیم رضوی۔
✍️: محمد سلیم رضوی۔
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
کسی مقدمے میں کامیابی اور ناکامی کا بہت حد تک انحصار اس مقدمہ کو لڑنے والے وکیل پر ہوتا ہے۔ بعض اوقات کیس کمزور ہوتا ہے لیکن وکیل مضبوط ہوتا ہے اور وہ زورِ بیان و پیشہ وارانہ مہارت کی بنیاد پر اپنے مؤقف کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کبھی معاملہ برعکس ہوتا ہے یعنی کیس مضبوط لیکن وکیل کمزور ہوتا ہے اور نتیجہ مقدمہ میں ناکامی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
درج بالا مثال کی روشنی میں اگر ہم غور کریں تو کچھ اسی طرح کی صورت حال سے ہم بھی دو چار ہیں۔ وہ اس طرح کہ الحمدللہ عزوجل ہم اہلِ سنت و جماعت کے عقائد و نظریات نقلی و عقلی دلائل کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں یوں ہمارا کیس تو بہت مضبوط ہے لیکن افسوس ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں خدمت دین کے ہر شعبہ میں ہی ایسے کمزور وکیل بکثرت ملے ہیں کہ جن کی بدولت ہمارے مسلک کی صحیح تصویر اور درست پیغام آگے منتقل نہیں ہو پاتا بلکہ بسا اوقات جو ان نادان دوستوں کی ”کاوشوں“ سے صورت حال پیدا ہوتی ہے وہ ہمارے لئے تشویش ناک حد تک پریشان کن ہوتی ہے اور اس کا خمیازہ ہمیں بلخصوص تبلیغی محاذ پر اٹھانا پڑتا ہے۔۔۔ ہمارے نظریاتی مخالفین کے جھوٹے پراپیگنڈے کو بھی تقویت دینے والے یہی ہمارے ”کمزور وکیل“ ہوتے ہیں۔۔۔
یوں تو کئی شعبہ جات ہیں جن میں ہمیں اس پہلو سے غور کرنے اور اصلاحات کرنے کی حاجت ہے لیکن سردست میں وعظ و خطابت کی بابت چند باتیں عرض کروں گا۔
وعظ و خطابت کی اہمیت و فضیلت:
خدمتِ دین کا ایک بہت اہم شعبہ ”وعظ و خطابت“ بھی ہے۔ بیان کے ذریعے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا سنتِ انبیاء علیہم السلام ہے۔ واعظِ باعمل جو دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ اس سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمَنْ اَحْسَنُ قَولاً مّمن دَعَا اِلَى اللهِ وعَمِلَ صالِحاً وَقَالَ اِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِيْن﴾
کسی مقدمے میں کامیابی اور ناکامی کا بہت حد تک انحصار اس مقدمہ کو لڑنے والے وکیل پر ہوتا ہے۔ بعض اوقات کیس کمزور ہوتا ہے لیکن وکیل مضبوط ہوتا ہے اور وہ زورِ بیان و پیشہ وارانہ مہارت کی بنیاد پر اپنے مؤقف کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کبھی معاملہ برعکس ہوتا ہے یعنی کیس مضبوط لیکن وکیل کمزور ہوتا ہے اور نتیجہ مقدمہ میں ناکامی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
درج بالا مثال کی روشنی میں اگر ہم غور کریں تو کچھ اسی طرح کی صورت حال سے ہم بھی دو چار ہیں۔ وہ اس طرح کہ الحمدللہ عزوجل ہم اہلِ سنت و جماعت کے عقائد و نظریات نقلی و عقلی دلائل کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں یوں ہمارا کیس تو بہت مضبوط ہے لیکن افسوس ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں خدمت دین کے ہر شعبہ میں ہی ایسے کمزور وکیل بکثرت ملے ہیں کہ جن کی بدولت ہمارے مسلک کی صحیح تصویر اور درست پیغام آگے منتقل نہیں ہو پاتا بلکہ بسا اوقات جو ان نادان دوستوں کی ”کاوشوں“ سے صورت حال پیدا ہوتی ہے وہ ہمارے لئے تشویش ناک حد تک پریشان کن ہوتی ہے اور اس کا خمیازہ ہمیں بلخصوص تبلیغی محاذ پر اٹھانا پڑتا ہے۔۔۔ ہمارے نظریاتی مخالفین کے جھوٹے پراپیگنڈے کو بھی تقویت دینے والے یہی ہمارے ”کمزور وکیل“ ہوتے ہیں۔۔۔
یوں تو کئی شعبہ جات ہیں جن میں ہمیں اس پہلو سے غور کرنے اور اصلاحات کرنے کی حاجت ہے لیکن سردست میں وعظ و خطابت کی بابت چند باتیں عرض کروں گا۔
وعظ و خطابت کی اہمیت و فضیلت:
خدمتِ دین کا ایک بہت اہم شعبہ ”وعظ و خطابت“ بھی ہے۔ بیان کے ذریعے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا سنتِ انبیاء علیہم السلام ہے۔ واعظِ باعمل جو دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ اس سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمَنْ اَحْسَنُ قَولاً مّمن دَعَا اِلَى اللهِ وعَمِلَ صالِحاً وَقَالَ اِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِيْن﴾
اس سے زیادہ اچھی بات کہنے والا کون ہے جو اللہ کی جانب بلائے اور خود بھی اچھے عمل کرے اور کہے کہ بلاشبہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔
(سورۃ حٰم سجدہ، آیت33،پ25)
اشاعتِ علم صدقہ ہے:
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انسان کا علم حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا اور اس کی اشاعت کرنا سب صدقہ ہے۔
(جامع بیان العلم و فضلہ ،باب جامع نشر العلم، ص167)
سرخ اونٹوں سے بہتر:
ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اشاعتِ علم صدقہ ہے:
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انسان کا علم حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا اور اس کی اشاعت کرنا سب صدقہ ہے۔
(جامع بیان العلم و فضلہ ،باب جامع نشر العلم، ص167)
سرخ اونٹوں سے بہتر:
ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ عزوجل تیرے ذریعے ایک آدمی کو بھی ہدایت بخش دے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ۔
(صحیح البخاری ،باب غزوۃ خیبر)
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میرے گمان میں اس سے زیادہ افضل کوئی عبادت نہیں کہ علم کی اشاعت کروں۔ (جامع بیان العلم وفضلہ، باب تفضیل العلم علی العبادۃ،ص41)
غیر ذمہ دار واعظین کا وبال:
واعظ و مبلغ اوپر ذکر کردہ فضائل اور اس کے علاوہ بھی بے شمار فضائل و برکات کا مستحق ہوتا ہے لیکن اگر اسی شعبے کو کوئی غیرِ عالم اختیار کرے جو کہ وعظ و بیان کہنے کا اہل نہ ہو تو پھر نتیجہ دنیا و آخرت کے نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ دنیا میں تو نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایسے واعظ مسلک کے لئے کوئی خدمت انجام دینے کے بجائے مسلک کی بدنامی اور لوگوں کی ہدایت کے بجائے گمراہی کا باعث بنتے ہیں۔ آخرت کا نقصان سب پر واضح ہے۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت، امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا: ایک شخص اسلام و ایمان و شرع شریف کے احکام کو جانتا ہے اور لوگوں کو گناہ سے بچنے کی ہدایت اس آیت کے وسیلے ”فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰىؕ(۹)“ کے تحت کر سکتا ہے یا نہیں؟
اعلیٰ حضرت نے جواب دیا: اگر عالم ہے تو اس کا یہ منصب ہے اور جاہل کو وعظ کہنے کی اجازت نہیں، وہ جتنا سنوارے گا اس سے زیادہ بگاڑے گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
(فتاویٰ رضویہ جلد 23ص717)
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر امام اہلسنت فرماتے ہیں: جاہل کی وعظ گوئی بھی گناہ ہے۔ وعظ میں قرآن مجید کی تفسیر یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث یا شریعت کا مسئلہ ہوتا ہے اور جاہل کو ان میں کسی چیز کا بیان جائز نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ”من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوا مقعدہ من النار“ یعنی جو بغیر علم کے قرآن کی تفسیر بیان کرے وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔ (جامع الترمذی، باب ماجاء فی الذی یفسر القرآن)
احادیث میں اسے صحیح و غلط و موضوع کی تمیز نہ ہوگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ”من یقل علی مالم اقل فلیتبوا مقعدہ من النار“ یعنی جو مجھ پر وہ بات کہے جو میں نے نہ کہی وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔
(صحیح البخاری، کتاب العلم باب اثم من کذب علی النبی)
ایک اور حدیث میں نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ”افتو بغير العلم فضلوا واضلوا “یعنی بے علم مسئلہ بیان کیا تو آپ (خود) بھی گمراہ ہوئے اور لوگوں کو بھی گمراہ کیا۔ (صحیح مسلم، مقدمۃ الکتاب)
دوسری حدیث میں آیا، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”من افتی بغیر علم لعنتہ ملائکۃ السمآء و الارض “یعنی جو بغیر علم فتویٰ دے اسے زمین وآسمان کے فرشتے لعنت کریں۔ (الفقیہ والمتفقہ ماجاء من الوعید الخ ۱۰۴۳،فتاوی رضویہ ج 23 ص727)
وعظ میں من گھڑت باتوں کا گناہ:
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت لکھتے ہیں: روایتِ موضوعہ پڑھنا بھی حرام سننا بھی حرام؛ ایسی مجالس سے اللہ عزوجل اور حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمال ناراض ہیں، ایسی مجالس اور ان کا پڑھنے والا اور اس حال سے آگاہی پا کر بھی حاضر ہونے والا سب مستحق غضبِ الٰہی ہیں۔ یہ جتنے حاضرین اس وبالِ شدید میں جدا جدا گرفتار ہیں اور ان سب کے وبال کے برابر اس پڑھنے والے پر وبال ہے اور خود اس کا اپنا گناہ اس پر علاوہ اور ان حاضرین و قاری سب کے برابر گناہ ایسی مجلس کے بانی پر ہے اور اپنا گناہ اس پر مثلاً ہزار شخص حاضرین مذکور ہوں تو ان پر ہزار گناہ اور اس کذاب قاری پر ایک ہزار ایک گناہ اور بانی پر دو ہزار دو گناہ ایک ہزار حاضرین کے اور ایک ہزار ایک اس قاری کے اور ایک خود اپنا، پھر یہ شمار ایک ہی بار نہ ہوگا بلکہ جس قدر روایاتِ موضوعہ، جس قدر کلماتِ نامشروعہ وہ قاری جاہل جری پڑھے گا ہر روایت ہر کلمہ پر یہ حساب و وبال تازہ ہوگا مثلاً فرض کیجئے ایسے سو کلماتِ مردودہ اس مجلس میں اس نے پڑھے تو ان حاضرین میں ہر ایک پر سو سو گناہ اور اس قاری علمِ دین سے عاری پر ایک لاکھ ایک سو گناہ اور بانی پر دو لاکھ دو سو، و قس علی ھذا (فتاویٰ رضویہ ج23ص734)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے فتویٰ سے معلوم ہوا کے جاہل کے بیان کے باعث سب سے زیادہ گناہ منتظمین محفل کے حصے میں آتے ہیں کیونکہ یہی لوگ اس مجلس کے انعقاد کا باعث بنتے ہیں۔ اگر آج ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو دینی جلسہ منعقد کرنے والوں کی اکثریت علماء کو نظر انداز کرکے ایسے لوگوں کو مدعو کرتی ہے جو اس منصب کے اہل نہیں ہوتے اور ان کے پاس لطیفوں، چٹکلوں، طرز و تال اور بے مقصد شعلہ بیانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ یہ حضرات ”کچھ کا کچھ“ بیان کرتے ہیں اور اپنی اجرت لے کر چلتے بنتے ہیں۔ منتظمینِ محفل کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ بری الذمہ نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے مدعو کئے گئے مہمان کے گناہ میں برابر کے شریک ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑے مجرم ہیں۔ لہٰذا اچھے سلجھے ہوئے، معتمد و مستند علماء کو وعظ کیلئے مدعو کرنا چاہیے اور اس حوالے سے ذی علم حضرات سے مشاورت کے بعد کسی خطیب کا انتخاب کرنا چاہیے نہ کہ شعلہ بیانی اور دیگر چیزوں کو معیار بنا کر فیصلہ کیا جائے۔ ہم نے ذی علم سے مشورے کی قید اس لئے لگائی ہے کہ کون عالم ہے اور کون عالم نہیں نیز کس کا علمی مقام کیا ہے اور کس کا مبلغ علم کیا ہے اس کا اندازہ لگانا عوام کے بس کی بات نہیں۔۔ جس طرح ہر فن سے متعلق کسی کے معیار و مقام اور اس کے کام کو اسی شعبہ و پیشہ سے وابستہ شخص ہی بہتر جانتا ہے بالکل اسی طرح اہل ِعلم ہی جان سکتے ہیں کہ کونسا واعظ ”کمزور وکیل“ ہے اور کونسا نہیں۔
جاہل واعظ کا شر:
غیر عالم اپنے وعظ کے ذریعے دین اور سامعین کے لئے کتنے نقصانات کا باعث بنتے ہیں اس کا اندازہ آپ حضرت ابوادریس خولانی رضی اللہ عنہ کے فرمان سے لگائیں، فرماتے ہیں: میں مسجد کو آگ میں جلتا ہوا دیکھوں یہ آسان ہے اس سے کہ میں کسی ایسے شخص کو وعظ کرتے ہوئے دیکھوں جو فقیہ عالم نہ ہو۔ (القصاص والمذکرین ،ص351)
اسی طرح ”احیاء العلوم“ میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دور کے جاہل خطیبوں کا حال کچھ یوں بیان کیا ہے: ایک گروہ دوسرا ہے جو وعظ و تذکیر کے اصل منہاج سے انحراف کر چکا ہے، اس زمانے کے سارے واعظین اس میں مبتلا ہیں سوائے ان نادر اہل علم کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس شرور نفس سے محفوظ فرما لیا ہے۔
کچھ آگے چل کر امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ان چند مستثنیات کے سوا ہو سکتا ہے کہ ملک کے بعض علاقوں میں ایسے پاکیزہ نفوس لوگ موجود ہوں، لیکن ہمیں ان کا علم نہیں۔ (احیاء العلوم ،جلد3 ص486)
حضرت سیدنا امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کو بار بار بغور پڑھئے اور سوچئے کہ کہاں ان کا دور اور کہا ہمارا زمانہ! جب ان کے دور میں یہ حال تھا تو اب ہمارا حال کس قدر خراب ہوگا۔
حاصل کلام: آج وعظ و خطابت کے شعبہ میں ”کمزور وکیلوں“ کی بہتات ہے۔ اس مضمون کے محرک بھی چند کمزور وکیل ہی ہیں جن کا بارہا میں نے مشاہدہ کیا اور محسوس کیا کہ ان کے وعظ سے کسی کو فائدہ ملنے کی امید رکھنا تو فضول بلکہ حماقت ہے۔ ہاں ان کی "زورِ بیانی" سے یقیناً مسلک کا نقصان ضرور ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اشیاء کے دھوکے سے محفوظ رکھے اور خوب خدمتِ دین کرنے کا جذبہ اور ہمت و صلاحیتوں سے نوازے۔ جاہل خطبا کے شر سے محفوظ رکھے۔ اٰمین
نوٹ: کسی عالمِ دین کی کتاب کو پڑھ کر بغیر حذف و اضافے اور تشریح و وضاحت کے سنانے والا اگرچہ غیرِ عالم ہو لیکن اسے بیان کی اجازت ہے کیوں کہ یہ وعظ اصل میں اس کا اپنا نہیں بلکہ یہ اس عالم کا وعظ ہے جس کی وہ کتاب پڑھ کر سنا رہا ہے اور اس کی مثال سفیر محض کی سی ہے۔
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میرے گمان میں اس سے زیادہ افضل کوئی عبادت نہیں کہ علم کی اشاعت کروں۔ (جامع بیان العلم وفضلہ، باب تفضیل العلم علی العبادۃ،ص41)
غیر ذمہ دار واعظین کا وبال:
واعظ و مبلغ اوپر ذکر کردہ فضائل اور اس کے علاوہ بھی بے شمار فضائل و برکات کا مستحق ہوتا ہے لیکن اگر اسی شعبے کو کوئی غیرِ عالم اختیار کرے جو کہ وعظ و بیان کہنے کا اہل نہ ہو تو پھر نتیجہ دنیا و آخرت کے نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ دنیا میں تو نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایسے واعظ مسلک کے لئے کوئی خدمت انجام دینے کے بجائے مسلک کی بدنامی اور لوگوں کی ہدایت کے بجائے گمراہی کا باعث بنتے ہیں۔ آخرت کا نقصان سب پر واضح ہے۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت، امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا: ایک شخص اسلام و ایمان و شرع شریف کے احکام کو جانتا ہے اور لوگوں کو گناہ سے بچنے کی ہدایت اس آیت کے وسیلے ”فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰىؕ(۹)“ کے تحت کر سکتا ہے یا نہیں؟
اعلیٰ حضرت نے جواب دیا: اگر عالم ہے تو اس کا یہ منصب ہے اور جاہل کو وعظ کہنے کی اجازت نہیں، وہ جتنا سنوارے گا اس سے زیادہ بگاڑے گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
(فتاویٰ رضویہ جلد 23ص717)
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر امام اہلسنت فرماتے ہیں: جاہل کی وعظ گوئی بھی گناہ ہے۔ وعظ میں قرآن مجید کی تفسیر یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث یا شریعت کا مسئلہ ہوتا ہے اور جاہل کو ان میں کسی چیز کا بیان جائز نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ”من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوا مقعدہ من النار“ یعنی جو بغیر علم کے قرآن کی تفسیر بیان کرے وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔ (جامع الترمذی، باب ماجاء فی الذی یفسر القرآن)
احادیث میں اسے صحیح و غلط و موضوع کی تمیز نہ ہوگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ”من یقل علی مالم اقل فلیتبوا مقعدہ من النار“ یعنی جو مجھ پر وہ بات کہے جو میں نے نہ کہی وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔
(صحیح البخاری، کتاب العلم باب اثم من کذب علی النبی)
ایک اور حدیث میں نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ”افتو بغير العلم فضلوا واضلوا “یعنی بے علم مسئلہ بیان کیا تو آپ (خود) بھی گمراہ ہوئے اور لوگوں کو بھی گمراہ کیا۔ (صحیح مسلم، مقدمۃ الکتاب)
دوسری حدیث میں آیا، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”من افتی بغیر علم لعنتہ ملائکۃ السمآء و الارض “یعنی جو بغیر علم فتویٰ دے اسے زمین وآسمان کے فرشتے لعنت کریں۔ (الفقیہ والمتفقہ ماجاء من الوعید الخ ۱۰۴۳،فتاوی رضویہ ج 23 ص727)
وعظ میں من گھڑت باتوں کا گناہ:
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت لکھتے ہیں: روایتِ موضوعہ پڑھنا بھی حرام سننا بھی حرام؛ ایسی مجالس سے اللہ عزوجل اور حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمال ناراض ہیں، ایسی مجالس اور ان کا پڑھنے والا اور اس حال سے آگاہی پا کر بھی حاضر ہونے والا سب مستحق غضبِ الٰہی ہیں۔ یہ جتنے حاضرین اس وبالِ شدید میں جدا جدا گرفتار ہیں اور ان سب کے وبال کے برابر اس پڑھنے والے پر وبال ہے اور خود اس کا اپنا گناہ اس پر علاوہ اور ان حاضرین و قاری سب کے برابر گناہ ایسی مجلس کے بانی پر ہے اور اپنا گناہ اس پر مثلاً ہزار شخص حاضرین مذکور ہوں تو ان پر ہزار گناہ اور اس کذاب قاری پر ایک ہزار ایک گناہ اور بانی پر دو ہزار دو گناہ ایک ہزار حاضرین کے اور ایک ہزار ایک اس قاری کے اور ایک خود اپنا، پھر یہ شمار ایک ہی بار نہ ہوگا بلکہ جس قدر روایاتِ موضوعہ، جس قدر کلماتِ نامشروعہ وہ قاری جاہل جری پڑھے گا ہر روایت ہر کلمہ پر یہ حساب و وبال تازہ ہوگا مثلاً فرض کیجئے ایسے سو کلماتِ مردودہ اس مجلس میں اس نے پڑھے تو ان حاضرین میں ہر ایک پر سو سو گناہ اور اس قاری علمِ دین سے عاری پر ایک لاکھ ایک سو گناہ اور بانی پر دو لاکھ دو سو، و قس علی ھذا (فتاویٰ رضویہ ج23ص734)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے فتویٰ سے معلوم ہوا کے جاہل کے بیان کے باعث سب سے زیادہ گناہ منتظمین محفل کے حصے میں آتے ہیں کیونکہ یہی لوگ اس مجلس کے انعقاد کا باعث بنتے ہیں۔ اگر آج ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو دینی جلسہ منعقد کرنے والوں کی اکثریت علماء کو نظر انداز کرکے ایسے لوگوں کو مدعو کرتی ہے جو اس منصب کے اہل نہیں ہوتے اور ان کے پاس لطیفوں، چٹکلوں، طرز و تال اور بے مقصد شعلہ بیانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ یہ حضرات ”کچھ کا کچھ“ بیان کرتے ہیں اور اپنی اجرت لے کر چلتے بنتے ہیں۔ منتظمینِ محفل کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ بری الذمہ نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے مدعو کئے گئے مہمان کے گناہ میں برابر کے شریک ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑے مجرم ہیں۔ لہٰذا اچھے سلجھے ہوئے، معتمد و مستند علماء کو وعظ کیلئے مدعو کرنا چاہیے اور اس حوالے سے ذی علم حضرات سے مشاورت کے بعد کسی خطیب کا انتخاب کرنا چاہیے نہ کہ شعلہ بیانی اور دیگر چیزوں کو معیار بنا کر فیصلہ کیا جائے۔ ہم نے ذی علم سے مشورے کی قید اس لئے لگائی ہے کہ کون عالم ہے اور کون عالم نہیں نیز کس کا علمی مقام کیا ہے اور کس کا مبلغ علم کیا ہے اس کا اندازہ لگانا عوام کے بس کی بات نہیں۔۔ جس طرح ہر فن سے متعلق کسی کے معیار و مقام اور اس کے کام کو اسی شعبہ و پیشہ سے وابستہ شخص ہی بہتر جانتا ہے بالکل اسی طرح اہل ِعلم ہی جان سکتے ہیں کہ کونسا واعظ ”کمزور وکیل“ ہے اور کونسا نہیں۔
جاہل واعظ کا شر:
غیر عالم اپنے وعظ کے ذریعے دین اور سامعین کے لئے کتنے نقصانات کا باعث بنتے ہیں اس کا اندازہ آپ حضرت ابوادریس خولانی رضی اللہ عنہ کے فرمان سے لگائیں، فرماتے ہیں: میں مسجد کو آگ میں جلتا ہوا دیکھوں یہ آسان ہے اس سے کہ میں کسی ایسے شخص کو وعظ کرتے ہوئے دیکھوں جو فقیہ عالم نہ ہو۔ (القصاص والمذکرین ،ص351)
اسی طرح ”احیاء العلوم“ میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دور کے جاہل خطیبوں کا حال کچھ یوں بیان کیا ہے: ایک گروہ دوسرا ہے جو وعظ و تذکیر کے اصل منہاج سے انحراف کر چکا ہے، اس زمانے کے سارے واعظین اس میں مبتلا ہیں سوائے ان نادر اہل علم کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس شرور نفس سے محفوظ فرما لیا ہے۔
کچھ آگے چل کر امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ان چند مستثنیات کے سوا ہو سکتا ہے کہ ملک کے بعض علاقوں میں ایسے پاکیزہ نفوس لوگ موجود ہوں، لیکن ہمیں ان کا علم نہیں۔ (احیاء العلوم ،جلد3 ص486)
حضرت سیدنا امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کو بار بار بغور پڑھئے اور سوچئے کہ کہاں ان کا دور اور کہا ہمارا زمانہ! جب ان کے دور میں یہ حال تھا تو اب ہمارا حال کس قدر خراب ہوگا۔
حاصل کلام: آج وعظ و خطابت کے شعبہ میں ”کمزور وکیلوں“ کی بہتات ہے۔ اس مضمون کے محرک بھی چند کمزور وکیل ہی ہیں جن کا بارہا میں نے مشاہدہ کیا اور محسوس کیا کہ ان کے وعظ سے کسی کو فائدہ ملنے کی امید رکھنا تو فضول بلکہ حماقت ہے۔ ہاں ان کی "زورِ بیانی" سے یقیناً مسلک کا نقصان ضرور ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اشیاء کے دھوکے سے محفوظ رکھے اور خوب خدمتِ دین کرنے کا جذبہ اور ہمت و صلاحیتوں سے نوازے۔ جاہل خطبا کے شر سے محفوظ رکھے۔ اٰمین
نوٹ: کسی عالمِ دین کی کتاب کو پڑھ کر بغیر حذف و اضافے اور تشریح و وضاحت کے سنانے والا اگرچہ غیرِ عالم ہو لیکن اسے بیان کی اجازت ہے کیوں کہ یہ وعظ اصل میں اس کا اپنا نہیں بلکہ یہ اس عالم کا وعظ ہے جس کی وہ کتاب پڑھ کر سنا رہا ہے اور اس کی مثال سفیر محض کی سی ہے۔
(دیکھئے فتاویٰ رضویہ جلد 23ص409 )