(سوال نمبر 7430)
اسد الدین اویسی نے پارلیمنٹ میں جے بھیم کہا کیا یہ کفریہ جملہ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیانِ عظام مسںٔلہ ذیل کہ
ابھی حال میں اویسی نے پارلیمنٹ ایک جملہ کہا جس پر لوگ طعنہ زنی کر رہے ہیں
اویسی نے اپنی گفتگو کے آخر میں ''جے بھیم'' کہا اور لوگ اس پر فتاویٰ شارح بخاری (ج،2 ص۔548) کا حوالہ دے رہے ہیں کہ یہ جملہ کفریہ ہے شارح بخاری نے ایسے کو کافر کہا
تو کیا یہ جملہ واقعی کفریہ ہے
اور اویسی پر توبہ لازم ہے
رہنمائی فرمادیں
سائل:- آمن رضا الہ آباد انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ سوال کے جواب میں کچھ تفصیل ہے اور اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بوقت ضرورت جے ہند اور جے نیپال بول سکتے ہیں
اس میں کوئی حرج نہیں ہے
چونکہ جے اصل میں سنسکرت کا لفظ ہے ۔اسم مذکر ہے جَے کے اردو معانی۔
جیت بول بالا 'سلامتی یا خوشی (عموماً کسی کی فتح سلامتی تحسین اور خوشی کا نعرہ) (رکھتا ڈکشندی)
اسی طرح فیروز الغات میں ہے ۔جے کا معنی ۔فتح و نصرت جیت ظفر مندی 'ترقی عروج 'اقبال 'شاباش 'زندہ باد ہرے 'مسرت 'شادمانی (فیروز الغات ص 504)
جے کا عرفی معنی ۔
ملک کا نعرہ یا ملک کے فتح و نصرت کا نعرہ
اب مذکورہ لغوی معانی کے اعتبار اور عرفی معانی کے اعتبار سے جے ہند اور جے نیپال بولنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
آج کے وقت میں صرف جے ہند یا جے نیپال بولنے سے کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ یہ غیر مسلم ہے جس طرح ایک وقت پینٹ شرٹ غیر مسلم کا لباس مخصوص تھا پر آج نہیں ۔
نیز ہند و نیپال میں کوئی دیوی یا دیوتا کا بھی نام نہیں ہند و نیپال نہ تو دیوتا ہے اور نہ ہندئوں کا معبود باطل بلکہ ہند و نیپال ایک ملک ہے اور اس ملک کی جے بمعنی فتح بولنے میں کوئی حرج نہیں ہے
یاد رہے کہ پہلے جے کا لفظ غیر مسلم ہندو ہی بولا کرتے تھے ان کا شعار تھا لیکن اب یہ لفظ ہندئوں کا شعار نہیں رہا اب اس لفظ کے بولنے سے ہندو کے بولنے کا تصور نہیں ہوتا ۔
اسی طرح الجامعہ الاشرفیہ مبارک پور فتاوی نمبر 346 میں علامہ مفتی بدر عالم مصباحی نے حالات حاضرہ کے پیش نظر جائز لکھا ہے
واضح رہے کہ کلچر زمان و مکان سوسائٹی اور بول چال کے بدلنے سے معانی بدلتے ہیں اور جب معانی بدلیں گے تو حکم شرع بھی بدلے گا جیسا کہ اہل علم سے مخفی نہیں ہے ۔
اور جیسا کہ کبار علماء و فقہاء کے کئی فقہی مسائل میں آج ہم تغیر و تبدل۔ دیکھتے ہیں ۔
یاد رہے کہ میرا موقف یہی ہے کہ حالات حاضرہ کے پیش نظر بوقت ضرورت جے ہند و جے نیپال بولنا جائز ہے۔
حضور قاضی نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی صدر مفتی و قاضی مرکزی ادارہ شرعیہ کاٹھمنڈو نیپال کا بھی یہی موقف ہے ۔
اب رہی بات جے بھیم بولنے کا تو بھیم (لغوی معنی خوف ناک) پانڈو کا ایک بیٹا۔ طاقت، قد و قامت اور پر خوری کے لیے مشہور تھا۔ ویراٹ کے راجا کے پاس باورچی کا کام کیا تھا۔ مہابھارت میںدریودھن کی دھوکے سے پنڈلی توڑ دی۔ جس کے صدمے کی تاب نہ لا کر مر گیا۔
جے بھیم کا ترجمہ 'زندہ باد بھیم' کیا جا سکتا ہے، یہ ایک ایسا نعرہ ہے جسے دلت سکالر، انڈین آئین کے معمار اور پہلے وزیر قانون بی آر امبیڈکر کے پیروکاروں نے مقبول بنایا۔
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ جے بھیم یہ ایک دلت کا نعرہ یے اور جے بھیم سے مراد بھیم کی سوچ جو اس نے مظلوم اور دلت کے حق میں بولا یے۔
ہم سب کو ہتا یے مسلم کی سیاسی قوت کیا ہے۔ لہذا بوقت ضرورت کسی وجہ سے اسد الدین اویسی نے جے بھیم بول دیا تو اس کا قطعی مطلب نہیں کہ بھیم کے لیے جنت میں جانے کی دعا کی یا اسے مسلمان سمجھا کیوں کہ اسد الدین اویسی کو اتنی سمجھ تو یے کہ کفریہ جملے کیا ہوتے ہیں۔ بس حالات کے تناظر میں انہوں نے بول دیا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بہار شریعت میں ہے
ہاں اگر معلوم ہو کہ قائل نے معنی کفر کا ارادہ کیا مثلاً وہ خود کہتا ہے کہ میری مراد یہی ہے تو کلام کا محتمل ہونا نفع نہ دیگا۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ کلمہ کے کفر ہونے سے قائل کا کافر ہونا ضرور نہیں۔ (بہارشریعت ح 9 ص 458 مکتبہ المدینہ)
یاد رہےکہ اس سے پوچھا جائے اگر وہ بھیم کو مسلمان سمجھا یا مسلمان سمجھ کر جے بھیم کہا اور اپنی بات پر قائم یے ہھر یہ کفر ہے کیونکہ کسی کافر کو عمدا مسلان کہنا کفر یے کافر کو کافر کہنا ضرورت دین سے ہے۔ پھر توبہ کے ساتھ تجدید ایمان و نکاح ضروری ہے۔
بہارشریعت میں ہے ۔
جو کسی کافر کے لیے اُس کے مرنے کے بعد مغفرت کی دعا کرے، یا کسی مردہ مُرتد کو مرحوم یا مغفور، یا کسی مُردہ ہندو کو بیکنٹھ باشی (جنّتی) کہے، وہ خود کافر ہے۔مسلمان کو مسلمان، کافر کو کافر جاننا ضروریاتِ دین سے ہے۔
اسد الدین اویسی نے پارلیمنٹ میں جے بھیم کہا کیا یہ کفریہ جملہ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیانِ عظام مسںٔلہ ذیل کہ
ابھی حال میں اویسی نے پارلیمنٹ ایک جملہ کہا جس پر لوگ طعنہ زنی کر رہے ہیں
اویسی نے اپنی گفتگو کے آخر میں ''جے بھیم'' کہا اور لوگ اس پر فتاویٰ شارح بخاری (ج،2 ص۔548) کا حوالہ دے رہے ہیں کہ یہ جملہ کفریہ ہے شارح بخاری نے ایسے کو کافر کہا
تو کیا یہ جملہ واقعی کفریہ ہے
اور اویسی پر توبہ لازم ہے
رہنمائی فرمادیں
سائل:- آمن رضا الہ آباد انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ سوال کے جواب میں کچھ تفصیل ہے اور اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بوقت ضرورت جے ہند اور جے نیپال بول سکتے ہیں
اس میں کوئی حرج نہیں ہے
چونکہ جے اصل میں سنسکرت کا لفظ ہے ۔اسم مذکر ہے جَے کے اردو معانی۔
جیت بول بالا 'سلامتی یا خوشی (عموماً کسی کی فتح سلامتی تحسین اور خوشی کا نعرہ) (رکھتا ڈکشندی)
اسی طرح فیروز الغات میں ہے ۔جے کا معنی ۔فتح و نصرت جیت ظفر مندی 'ترقی عروج 'اقبال 'شاباش 'زندہ باد ہرے 'مسرت 'شادمانی (فیروز الغات ص 504)
جے کا عرفی معنی ۔
ملک کا نعرہ یا ملک کے فتح و نصرت کا نعرہ
اب مذکورہ لغوی معانی کے اعتبار اور عرفی معانی کے اعتبار سے جے ہند اور جے نیپال بولنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
آج کے وقت میں صرف جے ہند یا جے نیپال بولنے سے کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ یہ غیر مسلم ہے جس طرح ایک وقت پینٹ شرٹ غیر مسلم کا لباس مخصوص تھا پر آج نہیں ۔
نیز ہند و نیپال میں کوئی دیوی یا دیوتا کا بھی نام نہیں ہند و نیپال نہ تو دیوتا ہے اور نہ ہندئوں کا معبود باطل بلکہ ہند و نیپال ایک ملک ہے اور اس ملک کی جے بمعنی فتح بولنے میں کوئی حرج نہیں ہے
یاد رہے کہ پہلے جے کا لفظ غیر مسلم ہندو ہی بولا کرتے تھے ان کا شعار تھا لیکن اب یہ لفظ ہندئوں کا شعار نہیں رہا اب اس لفظ کے بولنے سے ہندو کے بولنے کا تصور نہیں ہوتا ۔
اسی طرح الجامعہ الاشرفیہ مبارک پور فتاوی نمبر 346 میں علامہ مفتی بدر عالم مصباحی نے حالات حاضرہ کے پیش نظر جائز لکھا ہے
واضح رہے کہ کلچر زمان و مکان سوسائٹی اور بول چال کے بدلنے سے معانی بدلتے ہیں اور جب معانی بدلیں گے تو حکم شرع بھی بدلے گا جیسا کہ اہل علم سے مخفی نہیں ہے ۔
اور جیسا کہ کبار علماء و فقہاء کے کئی فقہی مسائل میں آج ہم تغیر و تبدل۔ دیکھتے ہیں ۔
یاد رہے کہ میرا موقف یہی ہے کہ حالات حاضرہ کے پیش نظر بوقت ضرورت جے ہند و جے نیپال بولنا جائز ہے۔
حضور قاضی نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی صدر مفتی و قاضی مرکزی ادارہ شرعیہ کاٹھمنڈو نیپال کا بھی یہی موقف ہے ۔
اب رہی بات جے بھیم بولنے کا تو بھیم (لغوی معنی خوف ناک) پانڈو کا ایک بیٹا۔ طاقت، قد و قامت اور پر خوری کے لیے مشہور تھا۔ ویراٹ کے راجا کے پاس باورچی کا کام کیا تھا۔ مہابھارت میںدریودھن کی دھوکے سے پنڈلی توڑ دی۔ جس کے صدمے کی تاب نہ لا کر مر گیا۔
جے بھیم کا ترجمہ 'زندہ باد بھیم' کیا جا سکتا ہے، یہ ایک ایسا نعرہ ہے جسے دلت سکالر، انڈین آئین کے معمار اور پہلے وزیر قانون بی آر امبیڈکر کے پیروکاروں نے مقبول بنایا۔
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ جے بھیم یہ ایک دلت کا نعرہ یے اور جے بھیم سے مراد بھیم کی سوچ جو اس نے مظلوم اور دلت کے حق میں بولا یے۔
ہم سب کو ہتا یے مسلم کی سیاسی قوت کیا ہے۔ لہذا بوقت ضرورت کسی وجہ سے اسد الدین اویسی نے جے بھیم بول دیا تو اس کا قطعی مطلب نہیں کہ بھیم کے لیے جنت میں جانے کی دعا کی یا اسے مسلمان سمجھا کیوں کہ اسد الدین اویسی کو اتنی سمجھ تو یے کہ کفریہ جملے کیا ہوتے ہیں۔ بس حالات کے تناظر میں انہوں نے بول دیا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بہار شریعت میں ہے
ہاں اگر معلوم ہو کہ قائل نے معنی کفر کا ارادہ کیا مثلاً وہ خود کہتا ہے کہ میری مراد یہی ہے تو کلام کا محتمل ہونا نفع نہ دیگا۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ کلمہ کے کفر ہونے سے قائل کا کافر ہونا ضرور نہیں۔ (بہارشریعت ح 9 ص 458 مکتبہ المدینہ)
یاد رہےکہ اس سے پوچھا جائے اگر وہ بھیم کو مسلمان سمجھا یا مسلمان سمجھ کر جے بھیم کہا اور اپنی بات پر قائم یے ہھر یہ کفر ہے کیونکہ کسی کافر کو عمدا مسلان کہنا کفر یے کافر کو کافر کہنا ضرورت دین سے ہے۔ پھر توبہ کے ساتھ تجدید ایمان و نکاح ضروری ہے۔
بہارشریعت میں ہے ۔
جو کسی کافر کے لیے اُس کے مرنے کے بعد مغفرت کی دعا کرے، یا کسی مردہ مُرتد کو مرحوم یا مغفور، یا کسی مُردہ ہندو کو بیکنٹھ باشی (جنّتی) کہے، وہ خود کافر ہے۔مسلمان کو مسلمان، کافر کو کافر جاننا ضروریاتِ دین سے ہے۔
(بہارشریعت ح 1 ص 187 مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال