Type Here to Get Search Results !

ایران،فلسطین،صدر رئیسی چند حقائق!


ایران،فلسطین،صدر رئیسی چند حقائق!
______________ایک تجزیہ_____________
چند روز قبل ایک یونورسٹی کے دوست نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی حادثاتی موت پر اظہار افسوس کیا۔ابھی اُس کی فکر کا قبلہ درست نہیں ہوا تھا۔
کہ اُس کے چند روز بعد ہی ایک مشہور سنی ادارے کے متخصص فی الفقہ طالب علم کا مضمون سوشل میڈیا پر گردش کرتا نظر آیا جس میں رئیسی کی موت پر نہ صرف اظہار تاسف کیا گیا تھا،بلکے اُسے عالم اسلام کے ایک عظیم ہیرو کے رُوپ میں پیش کیا گیا تھا۔
اور اب یہ تحریر پڑھ کر محو حیرت ہوں۔
کہ ہم اسلامی تاریخ سے نا آشنا نوجوانوں کو حقائق کا شعور کیسے عطا کر سکتے ہیں؟جب کہ انہیں مواد اور قوت خود ہمارے ایسے ٫٫ممتاز،، اسکالرز،اہل علم سے دستیاب ہو رہا ہے۔
پہلے کیا ٫٫انقلاب ایران،، نے کم ہمارے سادہ لوح،عام مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ کو کمزور کیا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ آج قریبا اکثر خانقاہوں کے مشائخ میں رافضیت کے جراثیم گھر کر چکے ہیں۔
میری نظر میں اس طرح کی تحریر کا محرک،سیاسی بصیرت سے محروم، شخص ہی ہوسکتا ہے۔قاسم سلیمانی کی موت کو جس طرح سے شہادت ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیا یہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف نہیں ہے؟
اور اس تگ ودو میں جانے کتنے لوگوں کے ایمان کا جنازہ نکل چکا ہے اور انہیں اس کا شعور بھی نہیں!!
ابھی حال ہی میں اس کا انکشاف ہوا کہ قاسم سلیمانی کی موت کے پیچھے خود ایران تھا،جس سے اُس کے کئی سیاسی مقاصد جڑے ہوئے تھے۔
اگر چہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن جہاں تک راقم سطور نے سیاسی پیچ و خم اور اُس میں بپا انقلاب کو مطالعہ کی میز پر رکھا اور جن لوگوں کا مقصد ہی اُس کی زلف برہم کو سنوارنا ہے۔اُن کی تحقیقات کی روشنی میں مُجھے محسوس ہوا کہ صدر ایران کی موت بظاہر ایک حادثہ ہے،لیکن اس کے پیچھے خود ایران کی سازش کارفرما ہے،جس کا انکشاف جلد ہی ہوجائے گا۔
شاید میری تحریر کو بھی تعصب پر مبنی قرار دے کر نظر انداز کر دیا جائے۔لیکن اہل علم سے گزارش ہے کہ تحقیق احوال کے لیے ٫٫ایرانی انقلاب،، کی خود ساختہ کہانی جسے شیعہ لکھاریوں نے افسانوی انداز و اُسلوب میں خوب مرچ،مسالا لگا کرمیں بیان کیا ہے۔ اُس سے صرف نظر کرتے ہوئے غیر جانبدار محققین کی حقیقت افشاں عینی تحقیقات کو مطالعہ کی میز پر رکھ کر سنئے اور پڑھیے۔ممکن ہے بہت سے معمے اور گھتیاں سلجھ جائیں۔
جہاں تک صدر رئیسی کی موت کو شہادت کا رنگ دینے کی کوشش جاری ہے اور اسے فلسطین ہم درد ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔اگر تاریخی اوراق کی ورق گردانی کی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے۔کہ ایران خصوصا رئیسی کو نہ ہی فلسطین سے کوئی لگاؤ تھا اور نہ ہی اُس کی موت سے عالم اسلام میں کسی غم و الم کا کوئی نقش ملتا ہے۔
اولا اس حقیقت کو جاننا ضروری ہے کہ فلسطین اور ایران کی نظریاتی سرحدیں اور اُن کا مطمح نظر بالکل جدا ہے۔
کیوں کہ حماس کی ساری جد و جہد قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی لیے ہے جب کہ ایران محض سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہے اور وہ بھی صرف زبانی تیر اندازی کر رہا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم اسلام کے تمام سنی،غیر شیعہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ بیت المقدس ہمارا قبلہ اول،انبیا کرام کا مسکن ہے اور شب معراج اُسے نبی کریم کے قدوم ناز سے مس ہونے کا شرف حاصل ہے۔
وہ ہماری عقیدت اور عقیدے کا مرکز اول ہے۔
جب کہ شیعہ تاریخ کی ورق گردانی کرنے پر معلوم پڑتا ہے کہ شیعہ مذہب میں دور دور تک قبلہ اول کے نام سے بیت المقدس نامی کوئی عمارت متعارف ہی نہیں ہے۔بلکے اُن کے عقیدے کے مطابق بیت المقدس نامی ایک عمارت آسمانوں میں ہے۔گویا اہل تشیع کے ہاں قبلہ اول کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔
اور جہاں تک رئیسی کے عقائد و نظریات کا تعلق ہے تو اُس کے لیے اتنا جان لینا کافی ہوگا کہ خمینی ایران انقلاب کا سفیر اول تھا اور آج اُسی کا جانشین خامنہ ای ہے۔اور یہ بات طے تھی کہ خامنہ ای کے بعد صدر رئیسی اُس کی جگہ براجمان ہوگا۔
اور اس عہدے اور منصب کا مستحق صرف وہی شخص ہوسکتا ہے،جو خمینی نظریات کا حامل ہو۔خمینی کے نظریات کیا تھے؟ اسے جاننے کے لیے اُس کی تین کتابیں کافی ہیں۔اہل علم گوگل سے ڈاؤنلوڈ کر کے استفادہ کر سکتے ہیں۔(۱) الحکومۃ الاسلامیہ (۲) کشف الاسرار (۳) تحریر الوسیلہ۔
چُنانچہ خمینی اپنی کتاب٫٫الحکومۃ الاسلامیہ،،میں لکھتا ہے٫٫ان الفقه‍اء ه‍م اوصياء الرسول من بعد الائمة و في حال غيابه‍م وقد كلفوا بالقيام بجميع ما كلف الائمة بالقيام به،،
یعنی فقہا ائمہ معصومین کی بعد اور اُن کے زمانہ میں رسول اللہ کے وصی ہیں۔اور وہ مکلف ہیں اُن سب امور و معاملات کی انجام دہی کے جن کی انجام دہی کے مکلف ائمہ معصومین تھے۔
اس عبارت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل تشیع کے نزدیک فقہا کا مقام و مرتبہ وہی ہے جو ائمہ معصومین (اُن کے زعم میں) کا ہے۔اور ہم ثابت کر چکے کہ اس دور میں ائمہ کا جانشین خامنہ ای ہے اور اُس کے بعد صدر رئیسی کا تقرر ہونا تھا۔
تو یہ تسلیم کرنا کیسے ممکن ہے کہ صدر رئیسی کے نظریات سیکولر ازم پر مبنی تھے۔جب کہ اُس کی تعلیم و تربیت ایک شیعہ مدرسہ میں ہوئی۔
جب صدر رئیسی کا خامنہ ای کے بعد امام ہونا ثابت ہوچکا تو اب یہ جاننا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ اہل تشیع کے ہاں امام کا مقام کیا ہے۔
چُنانچہ شیعہ مذہب کے ایک بڑے امام٫٫علامہ باقر مجلسی،،اپنی کتاب٫٫حیات القلوب،،میں لکھتے ہیں٫٫امامت بالا تر از رتبہ پیغمبری است،،
امامت کا درجہ،نبوت و پیغمبری کے درجہ سے بالا تر ہے۔
تو گویا ایران کا نیا صدر٫٫رئیسی،،بحیثیت امام درجہ نبوت سے بڑے مقام پر فائز ہوتا جو کہ یقینی تھا۔
اِن دلائل کی روشنی میں ثابت ہوگیا کہ صدر رئیسی کا مقام و مرتبہ کیا اہمیت رکھتا ہے۔
برسبیل تنزل مان بھی لیا جائے کہ صدر رئیسی،ان نظریات کا حامل نہیں تھا لیکن یہ تو چار و ناچار ہر شخص کو ماننا ہوگا کہ شِیعہ مذہب کے مطابق ہر دور میں ایک امام مجتہد کا وجود ضروری ہے۔جس کا حکم گویا نہ صرف نبی کی طرح بلکے اُس سے بھی موکد ہوتا ہے۔جس پر ایمان لانا ہر شیعہ پر لازم و فرض ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُس کا حکم،حکم الہی کی طرح نافذ العمل ہوتا ہے۔جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں ثابت کر آئے۔
اور دور حاضر میں ساری دنیا کے روافض کا امام برحق،مجتہد خامنہ ای ہے۔کیا رئیسی کے نزدیک اُس کا حکم حکم الٰہی کی حیثیت نہیں رکھتا تھا؟
بالکل رکھتا تھا اس لیے کہ اگر اس کا انکار کر دیا جائے تو رئیسی کا ایمان ہی نہیں بچتا۔
نیز مذہب شیعہ کی ورق گردانی کرنے نیز عام سے عام شعہ کا جائزہ لینے پر یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔کہ اُن کے نزدیک صحابہ کرام خصوصا شیخین کریمین پر لعن،طعن کرنا ایمان کی بنیاد ہے۔جس کو خمینی نے اپنی مذکورہ کتب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔
خصوصا صدر رئیسی کے بارے میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ اس لعین نے شیخین کریمین اور سیدہ عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہما و عنہا کے اسمائے مبارکہ پوسٹر پر چھپوا کر اُنھیں اپنے ناپاک قدموں تلے روندا۔
چند روز قبل میرے دوست نے ایک صاحب کی ویڈیو بھیجی۔سوئے اتفاق کہ یہ صاحب میرے بڑے قریبی رشتے دار ہیں( بلکے تھے)
ویڈیو دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔وہ ابراہیم رئیسی کے ایصال ثواب کی محفل میں خطاب کرتے ہوئے اُسے دعائے مغفرت اور فلسطین کی حمایت پر ہدیہ تبریک و تشکر پیش کر رہے تھے۔
یقینا اصلاح حال کے لیے اُن کا رد کرنا میرا فریضہ تھا لیکن جب چند مولوی نما،بلکے علما کے لباس میں ملبوس شیاطین کی تحریریں نظر نواز ہوئیں۔ تو میں سکتے کی حالت میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ جن کا منصب سادہ لوح عوام کی رہنمائی تھا،جب وہی اُسے عالم اسلام کے ہیرو کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔تو عوام کالانعام سے کیا شکوہ؟
لیکن موصوف سے چوں کہ میرا خونی رشتہ ہے اور اتفاق سے کافی پڑھے،لکھے اور سوج،بوجھ کے مالک ہیں۔اس لیے چند سولات صرف مردہ ضمیر کو بیدار کرنے کے ل پیش خدمت ہیں۔
*(۱) آپ جس محفل میں شریک تھے،وہاں صدر رئیسی کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام ہوا کیا گیا تھا
*جو قرآن پڑھا گیا وہ پورا تھا یا ادھورا میرا مطلب ساری دنیا(کما فی کتبہ)کے اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ موجودہ قرآن ادھورا ہے اصل مصحف فاطمہ چالیس پاروں پر مشتمل تھا جسے حضرت عثمان کی بکریاں کھا گئیں یا دیگر خلفا نے اپنے مقصد کے لیے حضرت علی کی خلافت سے متعلق تمام آیات و سور کو قرآن سے نکال دیا۔
(۲) آپ تو شیخین کریمین( ابو بکر صدیق و عمر فاروق اعظم) کی عظمتوں کو تسلیم کرتے ہیں جب کہ شیعہ مذہب کی مستند ترین کتاب٫٫کتاب الروضۃ،،نیز٫٫فروع کافی،،کی یہ عبارت پڑھیے اور اپنے ضمیر سے سوال کیجئے کیا آپ کی غیرت ایمانی اب بھی باقی ہے۔اگر باقی ہے تو فورا بارگاہ خدا میں رجوع کر صحابہ کرام سے معذرت کیجئے۔
امام باقر سے روایت ہے( یہ شیعہ کا افترا ہے)
"قال كان الناس اه‍ل ردة بعد النبي صلى الله عليه وآله وسلم الا ثلاثة.فقلت و من الثلاثة؟"
فقال المقداد بن الأسود و ابو ذر الغفاري و سلمان الفارسي.
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد تمام لوگ (صحابہ) مرتد ہوگئے تھے سوائے تین افراد کے۔میں نے پوچھا وہ تین کون ہیں فرمایا: حضرت مقداد بن اسود،ابو ذر غفاری اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہم۔
فرمائیے کیا آپ کا بھی یہی عقیدہ ہے؟
اگر ایسا نہیں تو ایسے خبیث عقیدہ کے حامل افراد شیاطین کی محفل میں ایک شیطان کے لیے ایصال ثواب چہ معنی دارد؟
(۳) آپ تو سیدہ عائشہ صدیقہ و سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہما کی عظمتوں کو تسلیم کرتے ہیں نہ صرف تسلیم بلکے اُن سے محبت کو ایمان کا جز سمجھتے ہیں۔
اب اپنے اُن احباب کا عقیدہ بھی ملاحظہ کیجئے۔اور اگر ذرہ برابر بھی ایمانی غیرت باقی ہے تو ضمیر کو ملامت کیجئے اور فورا توبہ کیجئے۔
چُنانچہ مشہور شیعہ عالم علامہ باقر مجلسی اپنی کتاب٫٫ حیات القلوب،،میں سیدہ عائشہ اور سیدنا صدیق اکبر و فاروق اعظم کے متعلق لکھتا ہے۔
"پس آں دو منافق و آں دو منافقہ بیکدیگر اتفاق کردند کہ آنحضرت بزہر شہید کنند"
یعنی سیدنا ابو بکر و عمر اور سیدہ عائشہ و حفصہ نے اتفاق رائے سے نبی کریم کو زہر دے کر شہید کیا۔(العیاذ باللہ)
وہ لوگ بھی ہوش کے ناخن لیں اور اپنے ایمان کی فکر کریں جو اخبارات میں اپنا تحریری لوہا نیز خود کو مثبت فکر (منافقانہ پالیسی) کا پجاری ثابت کرنے کے لیے رافضیت زدہ ذہنیت کو عام کر رہے ہیں۔
اس وقت جب کہ رافضیت کا دور دورہ ہے،ایسے میں اس طرح کی تحریریں کتنی خطرناک کن ثابت ہو سکتی ہیں؟ اس سے ارباب بصیرت بخوبی واقف ہیں۔
آخر ہمارے اِن اہل علم کے قلم اُس وقت کیوں جمود کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی ساری قلمی صلاحتیں کیوں زنگ آلود ہوجاتی ہیں؟ جب ایران کے مظالم پر خامہ فرسائی کی دعوت دی جاتی ہے۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے عراق،یمن،شام جس آگ میں جل رہا ہے۔اُس کے پیچھے صدر رئیسی جیسے شہدا کا دماغ کارفرما ہے۔
آج فلسطین جن مصائب کا سامنا کر رہا ہے میں یہ سمجھتا ہُوں کہ عالم عرب کے ساتھ ساتھ اس کا سب سے بڑا ذمدارخود ایران ہے۔
کیا کسی میں اتنی جسارت ہے کہ تاریخ کے اِن نقوش کو مٹا دے جس میں صاف طور پر لکھا نظر آتا ہے اور خود کئی شیعہ اسکالرز بھی اس کا اعتراف کر چکے ہیں کہ جب انقلاب ایران کے بعد اور عراق پر صدر صدام حسین رحمہ اللہ کو ملک گیری ملنے کے بعد صدام حسین نے اپنا ایک وفد خمینی کے پاس بھیجا اور اُس نے عالم کفر کے سامنے سیاسی طور پر یکجا ہونے کی پیش کش کی۔خمینی نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ تمہاری حیثیت ہی کیا ہے؟
صرف اسی پر بس نہیں بلکے خمینی نے ساری دنیا خصوصا عراق کے شیعہ مسلمانوں کے نام ایک فتویٰ صادر کیا کہ اس وقت صدام کی فوج میں جتنے جرنیل ہیں اور عام شیعہ مسلمانوں پر عراقی صدر صدام حسین کے خلاف جہاد( بغاوت) فرض ہوچکا ہے۔
ایسے موقعہ پر صدام نے وہی کیا جو ہر ملک کا حاکم ایک باغی کے ساتھ کرتا۔دنیا آج تک حیرت میں ہے کہ صدام نے شیعہ جرنیلوں کو قتل کیا لیکن اُس کا انتقام صدام سے ایران کے سب سے بڑے حریف امریکہ نے لیا۔کُچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
نوٹ: ایرانی انقلاب پر مطالعہ کے دوران مذکورہ تمام حوالاجات کو ڈاؤنلوڈ کر کے بالاستیعاب مطالعہ کیا اُس کے بعد انتہائی اختصار کے ساتھ یہ خلاصہ افادہ عام کے لیے حاضر خدمت ہے۔نیز بعض عقائد تشیع علامہ محمد علی نقشبندی کی کتب سے مستفاد ہیں۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
✍️: راشد خان آتشِ علیمی متعلم دورہ حدیث،سال اخیر،دار العلوم علیمیہ،جمدا شاہی،بستی۔
جاری کردہ:01/06/2024

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area