اجتماعی قربانی یا شرکت کی قربانی کے متعلق تحقیق
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ آج کل اجتمائی قربانی کے لئے اس طرح اعلان کیا جاتا ہے کہ اجتماعی حصہ والی قربانی فی حصہ 1500 روپے اور گوشت تقسیم کردیا جائے گا یا پھر 3500 فی حصہ ۔ اس حصہ میں گوشت حصے والے کو دیا جائے گا"سوال طلب امر یہ ہے کہ اس اعلان پر قربانی کے لئے روپیہ بھیجنا اور قربانی کروانا صحیح ہے ؟کیا قربانی ہو جائے گی؟
المستفتی سلیم الدین کوئلی
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
اس طریقہ کار میں کئی وجوہات کی بناء پر قربانی کا حصہ لینا مناسب نہیں ہے
(1) کس جانور میں کس کا حصہ ہے یہ اسے نہیں معلوم ہوتا اور یہ جہالت ہے
(2) ذابح کون ہیں سنی صحیح العقیدہ مسلمان یا گمراہ مرتد یا گمراہ بدمذہب اس کی بھی خبر نہیں ہوتی ہے؛ یہ بھی جہالت ہے
(3) تیسری بات کہ یہ اعلان واٹس ایپ پر کیا جاتا ہے جو اکثر اڑیسہ، مالے گاؤں، مہاراشٹر، یوپی وغیرہ جگہوں سے اعلان کیا جاتا ہے کہ بغیر حصہ لئے یہ رقم اور حصہ کا گوشت لینے پر یہ رقم جمع کریں اگر اس اعلان پر عمل کرکے کوئی شخص سیتامڑھی سے حصہ لیا تو وہ گوشت لینےاڑیسہ یا مہاراشٹر یا یوپی کیسے جائے گا ٹرین سے یا پلین سے ، تو پتہ چلا کہ کوئی اتنی دور سے گوشت لینے جائے گا نہیں اور اس کے بدلے اسے زیادہ روپیہ جمع کرنا ہوتا ہے یہ بھی شرعی غلطی ہے
(4) اسی طرح کے اعلان پر کلک رضا گروپ کے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے علاقہ گوالپوکھر اتر دیناج پور سے سستا شاید کہیں پر ہو لیکن وہاں پر بھی 2 ہزار سے زائد کا حصہ ہوتا ہے لیکن یہاں 14 سو میں ۔ تو پھر یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔
انہوں نے بھی صحیح فرمایا
(5) 1400 سو کے حساب سے سات حصے پر کل رقم 9800 ہوتا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ اگر سو جانور لیا گیا تو سب کو خریدنے پر اتنی ہی رقم آئے گا مثلا ایک سو جانور یا اس سے زائد جانور خریدا ہر ایک جانور 9800 ہی سو کا مل جائے گا یہ بات بھی ہضم نہیں ہوتی کہ کسی جانور پر دس ہزار بھی آسکتا ہے کوئی 8000 پر بھی مل سکتا کوئی 9000 کا بھی مل سکتا لیکن تعجب ہے سو جانور بھی خریدا جائے تو سو جانور پر 9800 سو روپیہ آرہا ہے یہ بات ہضم ہونے کے لائق نہیں ہے اسی لئے 1400 فی حصہ قیمت متعین کرکے بیچا جارہا ہے جبکہ کم و بیش بھی آسکتا ہے ہم لوگوں کے یہاں کوئی جانور 26000 کوئی 30000 کوئی 35000 کوئی 37000 یا اس سے زیادہ کے اعتبار سے ہر ایک حصے کی قیمت طے کی جاتی ہے
اس لئے اس اعلان پر کوئی شخص عمل نہ کریں
یہ ہوسکتا ہے کہ بعض علاقے میں سستے جانور ملتے ہوں گے لیکن تعجب ہے کہ ایک حصے پر 1400 ہے کرکے اعلان کیا جاتا ہے تو کیا ہر جانور پر اسی اعتبار سے رقم آئے گا کیا تمام جانور 9800 سو روپے میں مل جائیں گے یا مل گیا ہوگا یہ سمجھ سے باہر کی بات ہے۔
صورت مسئولہ کی دو صورتیں ہیں ایک صورت سے ناجائز اور دوسری صورت سے جائز ۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار صاحب اس طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ صورت مسئولہ میں دو صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ایک صورت یہ ہے کہ اعلان کرنے والے قیمت متعین کرکے حصے فروخت کریں یہ تو حرام ہے اور بیع باطل ہے ۔ (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے)اس لئے کہ جو چیز ابھی بیچنے والوں کی ملکیت میں نہیں ہے اور اس کو بیچ رہے ہیں ۔اور بیع باطل کا حکم یہ ہوتا ہے *کہ قبضہ کرنے کے بعد خریدار اس کا مالک نہیں ہوتا اور بیچنے والے پر عمر بھر یہ واجب ہے کہ یہ قیمت واپس کریں*=
دوسری صورت یہ ہے کہ اعلان کرنے والے یہ اعلان کریں کہ قربانی کرنے والے اتنی رقم جمع کرادیں گائے خریدنے کے بعد جو فی حصہ کی قیمت ہوگی وہ لی جائے گی اور کم زیادہ کا حساب کرلیا جائے گا یہ صورت جائز تو ہے مگر اعلان کرنے والوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خریدتے وقت ہر گائے کی قیمت علیحدہ علیحدہ طے کریں ۔پھر ایک ایک گائے میں سات معین اشخاص کو شریک کریں پھر قیمت اور مصارف ملاکر ان پر تقسیم کریں اور ہر شریک سے اس کے حصہ کی قیمت وصول کریں اور ہر گائے کا گوشت وزن کرکے اس کے شرکاء میں تقسیم کریں ۔
یہ نہیں کرسکتے کہ جتنی گائے خریدی ہیں ان کی قیمت اور مصارف جوڑ کر سب شرکاء پر تقسیم کردیں ۔اس لئے کہ گایوں کی قیمت میں فرق ہوگا اس کو سب شرکاء کیوں برداشت کریں گے ( فتاوی مفتی اعظم بہار جلد اول ص 144 بحوالہ وقار الفتاویٰ ۔جلد دوم ۔ص 470 + 471)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلی صورت میں بغیر جانور خریدے قیمت طے کر لی گئی یہ حرام ہے کہ قربانی کا جانور بیچنے والے کی ملکیت میں ابھی تک نہیں آیا ۔اور دوسری صورت میں گائے خرید کر قیمت طے کی گئی یہ صورت جائز ہے (فتاوی مفتی اعظم بہار جلد اول ص 145)
یا پھر بڑا جانور خریدنے کے پہلے یہ اعلان کریں کہ قربانی کرنے والے اتنی رقم یعنی مثلا 4000 فی حصہ جمع کرادیں قربانی کرنے والے نے جمع کردیا اب جو جانور خرید کر لایا گیا اس کی قیمت فی حصہ 3500 آیا تو باقی 500روپیہ اسے واپس کردیں لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے اس لئے یہ 500روپیہ اس پر قرض باقی رہ جائے گا واپس کرنا واجب ہوگا لہذا اس طرح کا اعلان نہ کریں تو بہتر ہے ۔
پھر یہ بھی اشکال رہتا ہے کہ کس جانور میں کس کا حصہ ہے یہ بھی متعین نہ ہوپاتا ہے ہاں اگر شرعی اعتبار سے کام کریں تو جائز ہے ورنہ نہیں لہذا صورت مسئولہ میں طریقہء اعلان غلط ہے کیونکہ اس میں قیمت متعین کرکے حصے فروخت کیا جارہا ہے
(1) کس جانور میں کس کا حصہ ہے یہ اسے نہیں معلوم ہوتا اور یہ جہالت ہے
(2) ذابح کون ہیں سنی صحیح العقیدہ مسلمان یا گمراہ مرتد یا گمراہ بدمذہب اس کی بھی خبر نہیں ہوتی ہے؛ یہ بھی جہالت ہے
(3) تیسری بات کہ یہ اعلان واٹس ایپ پر کیا جاتا ہے جو اکثر اڑیسہ، مالے گاؤں، مہاراشٹر، یوپی وغیرہ جگہوں سے اعلان کیا جاتا ہے کہ بغیر حصہ لئے یہ رقم اور حصہ کا گوشت لینے پر یہ رقم جمع کریں اگر اس اعلان پر عمل کرکے کوئی شخص سیتامڑھی سے حصہ لیا تو وہ گوشت لینےاڑیسہ یا مہاراشٹر یا یوپی کیسے جائے گا ٹرین سے یا پلین سے ، تو پتہ چلا کہ کوئی اتنی دور سے گوشت لینے جائے گا نہیں اور اس کے بدلے اسے زیادہ روپیہ جمع کرنا ہوتا ہے یہ بھی شرعی غلطی ہے
(4) اسی طرح کے اعلان پر کلک رضا گروپ کے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے علاقہ گوالپوکھر اتر دیناج پور سے سستا شاید کہیں پر ہو لیکن وہاں پر بھی 2 ہزار سے زائد کا حصہ ہوتا ہے لیکن یہاں 14 سو میں ۔ تو پھر یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔
انہوں نے بھی صحیح فرمایا
(5) 1400 سو کے حساب سے سات حصے پر کل رقم 9800 ہوتا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ اگر سو جانور لیا گیا تو سب کو خریدنے پر اتنی ہی رقم آئے گا مثلا ایک سو جانور یا اس سے زائد جانور خریدا ہر ایک جانور 9800 ہی سو کا مل جائے گا یہ بات بھی ہضم نہیں ہوتی کہ کسی جانور پر دس ہزار بھی آسکتا ہے کوئی 8000 پر بھی مل سکتا کوئی 9000 کا بھی مل سکتا لیکن تعجب ہے سو جانور بھی خریدا جائے تو سو جانور پر 9800 سو روپیہ آرہا ہے یہ بات ہضم ہونے کے لائق نہیں ہے اسی لئے 1400 فی حصہ قیمت متعین کرکے بیچا جارہا ہے جبکہ کم و بیش بھی آسکتا ہے ہم لوگوں کے یہاں کوئی جانور 26000 کوئی 30000 کوئی 35000 کوئی 37000 یا اس سے زیادہ کے اعتبار سے ہر ایک حصے کی قیمت طے کی جاتی ہے
اس لئے اس اعلان پر کوئی شخص عمل نہ کریں
یہ ہوسکتا ہے کہ بعض علاقے میں سستے جانور ملتے ہوں گے لیکن تعجب ہے کہ ایک حصے پر 1400 ہے کرکے اعلان کیا جاتا ہے تو کیا ہر جانور پر اسی اعتبار سے رقم آئے گا کیا تمام جانور 9800 سو روپے میں مل جائیں گے یا مل گیا ہوگا یہ سمجھ سے باہر کی بات ہے۔
صورت مسئولہ کی دو صورتیں ہیں ایک صورت سے ناجائز اور دوسری صورت سے جائز ۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار صاحب اس طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ صورت مسئولہ میں دو صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ایک صورت یہ ہے کہ اعلان کرنے والے قیمت متعین کرکے حصے فروخت کریں یہ تو حرام ہے اور بیع باطل ہے ۔ (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے)اس لئے کہ جو چیز ابھی بیچنے والوں کی ملکیت میں نہیں ہے اور اس کو بیچ رہے ہیں ۔اور بیع باطل کا حکم یہ ہوتا ہے *کہ قبضہ کرنے کے بعد خریدار اس کا مالک نہیں ہوتا اور بیچنے والے پر عمر بھر یہ واجب ہے کہ یہ قیمت واپس کریں*=
دوسری صورت یہ ہے کہ اعلان کرنے والے یہ اعلان کریں کہ قربانی کرنے والے اتنی رقم جمع کرادیں گائے خریدنے کے بعد جو فی حصہ کی قیمت ہوگی وہ لی جائے گی اور کم زیادہ کا حساب کرلیا جائے گا یہ صورت جائز تو ہے مگر اعلان کرنے والوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خریدتے وقت ہر گائے کی قیمت علیحدہ علیحدہ طے کریں ۔پھر ایک ایک گائے میں سات معین اشخاص کو شریک کریں پھر قیمت اور مصارف ملاکر ان پر تقسیم کریں اور ہر شریک سے اس کے حصہ کی قیمت وصول کریں اور ہر گائے کا گوشت وزن کرکے اس کے شرکاء میں تقسیم کریں ۔
یہ نہیں کرسکتے کہ جتنی گائے خریدی ہیں ان کی قیمت اور مصارف جوڑ کر سب شرکاء پر تقسیم کردیں ۔اس لئے کہ گایوں کی قیمت میں فرق ہوگا اس کو سب شرکاء کیوں برداشت کریں گے ( فتاوی مفتی اعظم بہار جلد اول ص 144 بحوالہ وقار الفتاویٰ ۔جلد دوم ۔ص 470 + 471)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلی صورت میں بغیر جانور خریدے قیمت طے کر لی گئی یہ حرام ہے کہ قربانی کا جانور بیچنے والے کی ملکیت میں ابھی تک نہیں آیا ۔اور دوسری صورت میں گائے خرید کر قیمت طے کی گئی یہ صورت جائز ہے (فتاوی مفتی اعظم بہار جلد اول ص 145)
یا پھر بڑا جانور خریدنے کے پہلے یہ اعلان کریں کہ قربانی کرنے والے اتنی رقم یعنی مثلا 4000 فی حصہ جمع کرادیں قربانی کرنے والے نے جمع کردیا اب جو جانور خرید کر لایا گیا اس کی قیمت فی حصہ 3500 آیا تو باقی 500روپیہ اسے واپس کردیں لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے اس لئے یہ 500روپیہ اس پر قرض باقی رہ جائے گا واپس کرنا واجب ہوگا لہذا اس طرح کا اعلان نہ کریں تو بہتر ہے ۔
پھر یہ بھی اشکال رہتا ہے کہ کس جانور میں کس کا حصہ ہے یہ بھی متعین نہ ہوپاتا ہے ہاں اگر شرعی اعتبار سے کام کریں تو جائز ہے ورنہ نہیں لہذا صورت مسئولہ میں طریقہء اعلان غلط ہے کیونکہ اس میں قیمت متعین کرکے حصے فروخت کیا جارہا ہے
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
پیش کردہ :محمد محب اللہ خان
ناظم اعلی حضور مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک سیتامڑھی بہار
از قلم مفتی اعظم بہار مصباح ملت شیخ طریقت مفتی محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
بواسطہ ۔۔تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی دارالعلوم امجدیہ ثناءالمصطفی مرپاشریف
سربراہ اعلی ۔۔حضور تاج السنہ ولی ابن ولی خطیب عرب و ایشیاء حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان بریلوی شریف
نائب گدی نشین خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ بریلی شریف
صدر رکن ۔شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی شہر ممبئی مصنف کتب کثیرہ حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی صاحب
رکن اکیڈمی ۔ماہر درس وتدریس خطیب باکمال مقررشیریں بیان ساحراللسان حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ صاحب بریلوی
رکن اکیڈمی ۔سراج العلماء مفتی سراج احمد مصباحی مرغیاچک سیتامڑھی بہار
حضرت مفتی محمد شمس الحق رضوی کھٹونوی نیپال
رکن اکیڈمی :حضرت علامہ مولانا مفتی محمد علی خان قادری رضوی ثنائی غفرلہ نیتاجی نگر گھاٹکوپر مشرق ممبئی مہاراشٹر
رکن اکیڈمی ۔شیخ طریقت ۔حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الغفار خاں صاحب نوری. صدرالمدرسین مدرسہ ھذا
رکن اکیڈمی۔ ناشر مسلک اعلی حضرت ماہر وید و پران حضرت علامہ مولانا محمد جمیل اختر صاحب مصباحی
ناظم اعلی ۔دارالعلوم ھذا
رکن اکیڈمی ۔ماہر علم وسخن ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا محمد جنید عالم شارق مصباحی بیتاہی مدرسہ رضویہ فیض العلوم پرسا
رکن اکیڈمی ۔حضرت مولانا محمد مستجاب رضاقادری رضوی پیپرادادنوی رکن اعلی ۔افکار اہل سنت اکیڈمی میرا روڈ ممبئ ۔صاحبزادہ حضور شیر مہاراشٹر
رکن اکیڈمی ۔حضرت مولانا محمد شاہد رضا ثنائی بجھارپوروی۔میرا روڈ ممبئی
رکن اکیڈمی حضرت مفتی محمد شہنواز حسین امجدی
پیش کردہ :محمد محب اللہ خان
ناظم اعلی حضور مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک سیتامڑھی بہار
از قلم مفتی اعظم بہار مصباح ملت شیخ طریقت مفتی محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
بواسطہ ۔۔تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی دارالعلوم امجدیہ ثناءالمصطفی مرپاشریف
سربراہ اعلی ۔۔حضور تاج السنہ ولی ابن ولی خطیب عرب و ایشیاء حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان بریلوی شریف
نائب گدی نشین خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ بریلی شریف
صدر رکن ۔شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی شہر ممبئی مصنف کتب کثیرہ حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی صاحب
رکن اکیڈمی ۔ماہر درس وتدریس خطیب باکمال مقررشیریں بیان ساحراللسان حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ صاحب بریلوی
رکن اکیڈمی ۔سراج العلماء مفتی سراج احمد مصباحی مرغیاچک سیتامڑھی بہار
حضرت مفتی محمد شمس الحق رضوی کھٹونوی نیپال
رکن اکیڈمی :حضرت علامہ مولانا مفتی محمد علی خان قادری رضوی ثنائی غفرلہ نیتاجی نگر گھاٹکوپر مشرق ممبئی مہاراشٹر
رکن اکیڈمی ۔شیخ طریقت ۔حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الغفار خاں صاحب نوری. صدرالمدرسین مدرسہ ھذا
رکن اکیڈمی۔ ناشر مسلک اعلی حضرت ماہر وید و پران حضرت علامہ مولانا محمد جمیل اختر صاحب مصباحی
ناظم اعلی ۔دارالعلوم ھذا
رکن اکیڈمی ۔ماہر علم وسخن ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا محمد جنید عالم شارق مصباحی بیتاہی مدرسہ رضویہ فیض العلوم پرسا
رکن اکیڈمی ۔حضرت مولانا محمد مستجاب رضاقادری رضوی پیپرادادنوی رکن اعلی ۔افکار اہل سنت اکیڈمی میرا روڈ ممبئ ۔صاحبزادہ حضور شیر مہاراشٹر
رکن اکیڈمی ۔حضرت مولانا محمد شاہد رضا ثنائی بجھارپوروی۔میرا روڈ ممبئی
رکن اکیڈمی حضرت مفتی محمد شہنواز حسین امجدی