Type Here to Get Search Results !

گانا گانا اور سننا کیسا ہے؟ قسط اول


گانا گانا اور سننا کیسا ہے؟ قسط اول
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید گانا گاتا ہے تو بکر نے کہا کہ گانا گانا حرام ہے اور زید نے کہا کہ گانا گانا جائز ہے تو ان یہ دونوں قول میں کون صحیح قول ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں 
سائل:- ریحان انصاری آزاد چوک سیتا مڑھی بہار انڈیا
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
گانا اپنے ظاہری و اصطلاحی اور عرفی معنی کے لحاظ سے گانا گانا اور سننا اور پڑھنا دونوں ناجائز و حرام ہے کہ گانا اسی کو کہا جاتا ہے جو میوزک کے سے ساتھ گایا جاتا ہے اس لئے گانا گانا اور سننا دونوں ناجائز ہے ۔
تفصیل..
 (1) ایک گانا مزا میر کے ساتھ گایا جاتا ہے 
 (2).دوسرا گانا بغیر مزامیر کے گایا جاتا ہے 
 صورت اول تو ناجائز و حرام ہے
حضور سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مزامیر یعنی آلات لہو ولعب بروجہ لہو ولعب بلا شبہ حرام ہیں جن کی حرمت اولیاء و علماء دونوں فریق مقتدا کے کلمات عالیہ میں مصرح ۔ان کا سننے سنانے کے گناہ ہونے میں شک نہیں کہ بعد اصرار کبیرہ ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 24 ص 79)
پھر فتاوی رضویہ میں ہے کہ گانا مع مزامیر مطلقا ناجائز ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 24ص 134)
 مگر صورت دوئم کی دو صورتیں ہیں
(1) اول ۔ فحش کلام ۔یا تالی اور سیٹھی بجاکر گانا گانا 
(2) دوم ۔سادہ گانا یعنی جس میں کوئی فحش باتیں نہ ہو۔جن کے اشعار موجب فتنہ نہ ہو  
صورت اول فحش گانا مزامیر کے ساتھ یا بغیر مزار کہ دونوں صورتوں میں ناجائز و بے حرام ہے اور اگر بغیر مزامیر کے سادہ گانا یا بغیر فحش کے گانا ہو تو جائز ہے جبکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو اور جس سے لوگ یا اقارب یا احباء حیا یا عار محسوس نہ کریں تو جائز ہے اگر فتنہ کا اندیشہ یا حیا وعار ہو تو یہ بھی ناجائز ہے کیونکہ دراصل گانہ محل فتنہ ہے ۔
 گانا فتنہ کے لئے اسباب دعوت ہیں یعنی فتنہ کا دروازہ کھولنے کے ذرائع اور وسائل ہیں اور مزامیر کی حرمت پر نص وارد یہ بذات خود ناجائز اور گانا بطور لہو ولعب بھی ناجائز و حرام ہے بلکہ خود لہو ولعب کی حرمت پر نص وارد لہذا گانا ان تینوں طریقے سے ناجائز و حرام ہے۔
شریعت مطہرہ فتنہ کا دروازہ بند کرتی ہے ۔
 مطلقا گانا گانے یاسننے کو ناجائز و حرام کا حکم تو نہیں دیا جائے گا جیسا کہ فتاوی رضویہ کی اس عبارت سے ظاہر ہے کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم سے ایک سوال ہوا کہ گانا سننا جائز ہے یا نہیں ؟ مزامیر باجے کے ساتھ یا شادی یا سنت ( ختنہ) وغیرہ میں جائز ہے یا نہیں یعنی بچی کی سنت وغیرہ میں ؟ اس سوال کے جواب میں حضور اعلٰی حضرت عظیم فرماتے ہیں کہ مزامیر حرام ہے ۔بغیر باجے کے سادہ گانا سنت وغیرہ کی شادی میں جائز جبکہ نہ اندیشہ فتنہ ہو نہ خفیف الحرکاتی
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 24 ص 557)
لہزا اگر گانا سے فتنہ پیدا ہو اس سادہ گانا سے بھی لوگ حیا و عار محسوس کریں تو یہ بھی ناجائز ہوگا
 چونکہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز نے جس سادہ گانا کو جائز فرمایا وہاں بھی ان دونوں شرطوں کے ساتھ جائز فرمایا اگر یہ دونوں شرطیں نہ پائیں جائے تو اب قسم دوم بھی ناجائز ہوگا اور تجربہ ہے کہ گانا میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں ۔سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ نے جس سادہ گانے کو جائز فرمایا وہاں ان دو شرطوں کا بھی ذکر فرمایا کہ 
(2) اولا کہ جبکہ نہ اندیشہ فتنہ ہو یعنی اندیشہ فتنہ کی وجہ سے گانا گانا جائز نہ ہوگا۔
(2) ثانیا کہ نہ خفیف الحرکاتی ہو یعنی اگر گانا گانے میں خفیف الحرکات ہو تو اب بھی منع ہوگا ۔
جبکہ تجربہ ہے کہ گانا ان دونوں باتوں پر مشتمل ہے اسی لئے مطلقا سادہ گانا کو جائز کہنا بھی صحیح نہیں جیسا کہ امام اہل سنت کی اس تحریر کو غور سے پڑھیں 
  سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز سے ایک سوال ہوا کہ گانا سننا جائز ہے یا نہیں ؟ مزامیر باجے کے ساتھ یا شادی یا سنت ( ختنہ) وغیرہ میں جائز ہے یا نہیں یعنی بچہ کی سنت وغیرہ میں ؟ اس سوال کے جواب میں حضور اعلٰی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت فرماتے ہیں کہ مزامیر حرام ہے ۔بغیر باجے کے سادہ گانا سنت وغیرہ کی شادی میں جائز جبکہ نہ اندیشہ فتنہ ہو نہ خفیف الحرکاتی
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 24 ص 557)
اس فتویٰ میں مطلقا سادہ گانا گانے کو جائز نہیں فرمایا گیا بلکہ تین شرطوں کے ساتھ جائز فرمایا گیا  
(1) گانا بغیر باجے کے 
(2) اور بغیر باجے کے بھی جبکہ نہ اندیشہ فتنہ ہو
(3) اور نہ خفیف الحرکاتی ہو
اگر وہ گانا ان تین باتوں سے خالی ہے تب جائز ہے ورنہ یہ بھی جائز نہیں ہے ۔
گانا کا لغوی معنی ہیں کہ راگ گانا ۔ترنم سے آواز نکالنا ۔
یہودہ باتیں کرنا ۔سراہنا ۔تعریف کرنا ۔اپنے مطلب کی بات کرنا ۔راگ ۔نغمہ
(فیروز اللغات ص 1078).
غنا کا معنی ہیں راگ ۔نغمہ ۔گانا
(فیروز اللغات ص 917)
عرف میں گانا اسی کو کہتے ہیں جو مزامیر ۔میوزک ۔ہارمونیم ۔باجے ۔ڈھول ۔سارنگی ۔ سیٹی یا تالی بجانے کے ساتھ وغیرہ گانا گایا جاتا ہے اور یہی معنی غالب ہے اسی کا نام گانا یا قوالی یا گیت ہے ۔ اور فقہی احکام غالب حالات پر مبنی ہوتے ہیں وانما تبتنی الاحکام الفقھیۃ علی الغالب فلا ینظر الی النادر ولا یحکم الا بالمنع کما افادہ المحقق فی الفتح فی مسئلۃ مجاورۃ الحرم و فی الدر فی مسئلۃ الحمام ۔ یعنی فقہی احکام غالب حالات پر مبنی ہوتے ہیں لہذا نادر الوقوع پر نگاہ نہیں کی جاتی اس لئے ممانعت کا فیصلہ ہی کیا جائے گا جیسا کہ محقق ابن ہمام نے فتح القدیر میں میں ہمسائیگی حرم کے مسئلہ میں افادہ بخشا اور درمختار میں مسئلہ حمام میں یہی فرمایا ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 24 ص 76.77)
تو اس اصول کی بنا پر گانا گانا اور سننا مطلقا ممانعت کی جائے گی کیونکہ سننا بھی فعل کی طرح ہے  
 حدیث میں ہے کہ عن انس ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم قال من قعد الی قینۃ یستمع منھا صب اللہ فی اذنیہ الآتک یوم القیامۃ 
یعنی حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔جو کوئی گانے والی گویا کے پاس بیٹھ کر اس کا گانا سنے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دونوں کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دے گا
فتاوی برکاتیہ میں ہے کہ بے شک عورتوں کو شادی وغیرہ کسی تقریب میں گانا معصیت ہے ہر گز جائز نہیں کہ ان کا گانا آواز کے ساتھ ہوتا ہے اور فتنہ ہے یہاں تک کہ اسی فتنہ کے سبب ان کو اذان بھی کہنا جائز نہیں اور گانے میں عموماً وصال ہجر کے اشعار ہوتے ہیں اور ایسا گانا بہر حال برا ہے کہ وہ زنا کا منتر ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ الغنا رقیۃ الزنا
(فتاویٰ برکاتیہ ص 345 بحوالہ مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد ثانی ص 249)
مرد یا امرد یا عورت کو گانا گانے کی اجازت فتنہ کا دروازہ کھولنا ہے۔مرد یا امرد یا عورت کے گانے کا جواز بغیر کچھ شرطوں کے ثابت کرنا کھلی ہوئی غلطی ہے کہ یہ فتنہ کا دروازہ کھولنا ہوگا 
(1) سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ 
فتاوی رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ 
سماع بے مجرد بے مزامیر
اس کی چند صورتیں ہیں۔
اول ۔رنڈیوں ۔ڈومنیوں ۔محل فتنہ امردوں کا گانا ۔
دوم ۔جو چیز گائی جائے معصیت پر مشتمل ہو ۔مثلا فحش یا کذب یا کسی مسلمان یا ذمی کی ہجو یا شراب وزنا وغیرہ فسقیات کی ترغیب یا کسی زندہ عورت خواہ امرد کی بالیقین تعریف حسن یا کسی معین عورت کا اگرچہ مردہ ہو ایسا ذکر جس سے اقارب احباء کو حیا و عار آئے ۔
سوم ۔بطور لہو ولعب سنا جائے اگرچہ اس میں کوئی ذکر مذموم نہ ہو 
تینوں صورتیں ممنوع ہیں آخری وہ بلحاظ ذات اور پہلی درحقیقت ذریعہ ہے ایسا ہی گانا لہو الحدیث ہے اس کی تحریم میں اور کچھ نہ ہو تو صرف حدیث کل لعب ابن آدم حرام آلا ثلثۃ (,یعنی ابن آدم کا ہر کھیل حرام ہے سوائے تین کھیلوں کے کافی ہے ۔
ان کے علاؤہ وہ گانا جس میں نہ مزامیر ہو نہ گانے والے محل فتنہ ۔نہ لہو ولعب مقصود نہ کوئی ناجائز کلام گائیں بلکہ سادے عاشقانہ گیت ۔غزلیں ۔ذکر باغ و بہار و خط و خال و رخ و زلفِ وحسن و عشق وہجر و وصل و وفائے عشاق و جفایے معشوق وغیرہا امور عشق وتغزل پر مشتمل سنے جائیں تو فساق و فجار واہل شہوات دنیہ کو اس سے بھی روکا جائے گا
وذلک من باب الاحتیاط القاطع و نصح الناصح وسد الذرائع المخصوص بہ ھذا الشرع البارع والدین الفارع یعنی یہ رکاوٹ یقینی احتیاط کے باب میں سے ہے اس میں خیر خواہ کی خیر خواہی اور ذرائع کی روک تھام موجود ہے جو اس یکتا وفائق شریعت اور خوبصورت دین سے محفوظ ہے 
اسی طرح حدیث شریف میں 
الغنا ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء البقل ۔ یعنی گانا بجانا دل میں اس طرح نفاق اگاتا ہے جس طرح پانی ساگ پات اگاتا ہے ۔
  اور اہل اللہ۔کے حق میں یقینا جائز بلکہ مستحب کہئے تو دور نہیں ہوگا ۔ گانا کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتا بلکہ دبی بات کو ابھارتا ہے جب دل میں بری خواہش بیہودہ آلائشیں ہوں تو انہیں ترقی دے گا اور جوپاک مبارک ستھرے دل شہوات سے خالی اور محبت خدا و رسول سے مملوہیں ان کے اس شوق محمود و عشق مسعود کو افزائش دے گا وحکم المقدمۃ حکم ماھی مقدمۃ لہ انصافا یعنی مقدمہ کا حکم وہی ہے جو اس چیز کا حکم کہ جس کے لیے مقدمہ وضع کیا گیا 
یہ اس چیز کا بیان تھا جسے عرف میں گانا کہتے ہیں
اور اگر اشعار حمد ونعت ومنقبت ووعظ و پند و ذکر آخرت بوڑھے یا جوان مرد خوش الحانی سے پڑھیں اور یہ نیت نیک سنے جائیں کہ عرف میں گانا نہیں بلکہ پڑھنا کہتے ہیں تو اس کے منع پر شرع سے آصلا دلیل نہیں ۔حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا حسان بن ثابت انصاری رضی آللہ تعالیٰ عنہ کے لئے خاص مسجد اقدس منبر رکھنا اور ان کا اس پر کھڑے ہوکر نعت اقدس سنانا اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم و صحابہ کرام کا استماع فرمانا خود حدیث صحیح بخاری شریف سے واضح اور عرب کے رسم حدی زمانہ صحابہ و تابعین بلکہ عہد اقدس رسالت میں رائج رہنا خوش رجال کے جواز پر دلیل لائح ۔انجشہ رضی آللہ تعالیٰ عنہ کے حدی پر حضور والا صلوات اللہ و سلامہ علیہ نے انکار نہ فرمایا بلکہ بلحاظ عورات یا انجشۃ رویدا لاتکسر القواریر ارشاد ہوا کہ ان کی آواز دلکش و دل نواز تھی عورتیں نرم نازک شیشیاں ہیں جنہیں تھوڑی ٹھیس بہت ہوتی ہے ۔غرض مدار کار تحقق و توقع فتنہ ہے ۔جہاں فتنہ ثابت ہو وہاں حکم حرمت ۔جہاں توقع و اندیشہ وہاں ںنظر سد ذریعہ حکم ممانعت ۔جہاں نہ یہ نہ وہ ۔نہ یہ نہ وہ بلکہ نیت محمود استحباب موجود ۔بحمدہ تعالیٰ یہ چند سطروں میں تحقیق نفیس ہے کہ ان شاءاللہ العزیز حق اس سے متجاوز نہیں۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 24 ص 83.84.85)
اس عبارت سے واضح ہوا کہ گانا گانا سننا دونوں ناجائز ہے اور اشعار حمد ونعت ومنقبت ووعظ و پند و ذکر آخرت پڑھنا جائز ہے یہی صحیح ہے کہ 
عرف اور اصطلاح میں گانا مزامیر کے ساتھ ہی گایا جاتا ہے جیسے کہ فلمی گانے اور فلمی گانا سے یہی مراد ہوتا ہے اور یہی معنی غالب ہے اور اصول فقہ ہے کہ احکام فقہیہ میں غالب کا لحاظ ہوتا ہے۔
اور فتاوی رضویہ میں ہے کہ
ناچ یا باجے یا ناجائز گانے کی آواز بھی سننا ممنوع ہے ۔اور اگر جائز آواز ہو کہ نہ اس میں کوئی منکر شرعی نہ وہ کچھ محل ادب. تو اس کے سننے میں فی نفسہ حرج نہیں. ہاں لہو کا جلسہ ہو تو اس میں شرکت کی ممانعت ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 24 ص 134)
اس میں کوئی شک نہیں کہ گانا مفسد قلب و محرک شہوت و منبت نفاق و مثبت غفلت ہیں اس لئے اس کو روکنے میں خیر و بھلائی ہے
گانا گاتے وقت یا سنتے وقت تالیاں بجانا ۔سیٹیاں بجانا ۔ناچنا ۔مذاق کرنا سب مکروہ ہے بلکہ تالی بجانا عادات کفار سے ہے اور یہ سب فتنہ ہے ۔
شریعت مطہرہ فتنہ کا دروازہ بند کرتی ہے ۔اور وہ گانا جس کے کلام یا اشعار فحش یا کذب یا شہوات ابھارنی والی باتیں ہوں یا جس گانا سننے سے لوگ حیا و عار محسوس کریں اور جس سے اندیشہ فتنہ ہو وہ وہ یقینا فتنہ ہے اور شریعت مطہرہ فتنہ کا دروازہ بند کرنے کا حکم دیتی ہے ۔ اور اگر ان تمام باتوں سے پاک ہو تو گانا بغیر میوزک کے جائز ہے ورنہ ناجائز ہی کا حکم ہوگا
اگر گانا میں عشقیہ اشعار ہو جس سے دوسرے کو حیاء و عار ہو یا کسی کے جذبات کو ابھارے ایسا گانا گانا یا گوانا اور سننا ناجائز و ممنوع ہے جیسا کہ حضور سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ عشقیہ اشعار گانا گوانا نوجوان عورتوں کے جذبات کو ابھارنا مقصود ہو تو اس کے حرام ہونے میں کیا کلام۔
(فتاوی مصظفویہ ص 518)
پھر کسی کو خوبصورتی یا خوش آوازی سے گانا گانے سے محل اندیشہ فتنہ ہو یہ گانا بھی ناجائز و حرام یا پھر کسی نوجوان لڑکے جو خوبصورت اور بے ریش ہو یعنی امرد اس کا گانا اور موجب فتنہ ہے اور عورت یا امرد کا گانا گانا بے شک ناجائز ہے کیونکہ عورت کے ساتھ دو شیطان ہوتے ہیں اور امرد کے ساتھ ستر (70) علماء فرماتے ہیں کہ امرد کا حکم مثل عورت کے ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23 ص 721)
اسی میں ہے کہ لڑکا جب مردوں کے حد کو پہنچ جائے اور خوبصورت نہ ہو تو وہ مردوں کا حکم رکھتا ہے یعنی اس پر مردوں والے حکم کا اطلاق ہوگا اور اگر وہ خوبصورت ہو تو عورتوں کا حکم رکھتا ہے
(فتاوی رضویہ جلد جدید 23 ص 722)
حضور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ مشائخ چشت کے ایک بزرگ کا قول نقل فرماتے ہیں کہ ۔ہمارے مشائخ کرام رضی آللہ تعالیٰ عنہم کا سماع اس مزامیر کے بہتان سے بری ہے وہ صرف قوال کی آواز ہے ان اشعار کے ساتھ جو کمال صنعت الہی سے خبر دیتے ہیں ۔(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 24 ص 116).
پھر امام اہل سنت کتاب سیری الاولیاء کے حوالہ سے نقل فرماتے ہیں کہ
سلطان المشائخ قدس سرہ العزیز نے ارشاد فرمایا چند اشیاء ہوں تو سماع جائز اور مباح ہوں ۔(1)۔ مسمع یعنی سنانے والا ۔(2). مستمع یعنی سننے والا (3). مسموع یعنی جو کچھ سنا جائے (4) آلات سماع 
تفصیل ۔مسمع یعنی سنانے اور کہنے والا بالغ مرد ہو بچہ اور عورت نہ ہو ۔مستمع یعنی سننے والا جو کچھ سنے یاد حق سے خالی نہ ہو ۔مسموع یعنی جو کچھ سنین اور کہیں اس میں فحش گوئی اور مسخرہ پن نہ ہو ۔اور آلات سماع مزامیر ہیں جیسے سارنگی اور رباب وغیرہ ۔چایئے یہ کہ وہ درمیان میں نہ ہوں ۔پس اس طرح کی قوالی (سماع) جائز اور حلال ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 24 ص 117)
اس اصول کی بنا پر گانا یا قوالی سماع یعنی سننے والا وہ چایئے جس کے قلب پر شہوات ردیہ کا استیلا نہ ہو کہ سماع یا گانا کوئی نئی بات پیدا نہیں کرتا بلکہ اسی کو ابھارتا ہے جو دل میں دبی ہو ۔مسموع یعنی جو کچھ سنین یا کہیں یعنی گائیں میں ضرور ہے کہ نہ فحش ہو نہ کوئی خلاف شرع مطہرہ ۔نہ کسی زندہ امرد کا ذکر ہو نہ کسی زندہ عورت کی تعریف ۔نہ ایسی قریب مردہ کا نام ہو جس کے اعزہ زندہ ہوں اور انہیں اس سے عار لاحق ہو ۔امثال لیلے سلمے سعاد میں حرج نہیں مسمع بالضم یعنی پڑھنے یا گانے والا مرد بوڑھا یا جوان ہو ۔امرد یا عورت نہ ہو ۔ اور نہ عاشقانہ اشعار ہوں نہ نوجوان عورتوں کے جذبات بد کو ابھارنا مقصود ہو ۔نہ وہ عاشقانہ اشعار ہو جن کو سننے میں والدین ۔ اولادین رشتہ داروں احباء اور حاظرین محفل کے لوگوں کو حیا عار لاحق ہو ۔۔اور مسمع بالکسر یعنی آلہ سماع مزامیر نہ ہوں ۔اگر ہو تو صرف دف بے جلاجل ( یعنی جھانج نہ ہوں) جو ہیئات تطرب پر نہ بجایا جائے یعنی وہ موسیقی کے تال سر (یعنی سین پر پیش ) پر نہ بجائے جائے تو گانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ مسمع بالفتح جائے سماع مجلس فساق نہ ہو اور اگر حمد و نعت و منقبت کے سوا عاشقانہ غزل گیت ۔تھمری وغیرہ ہو تو مسجد میں مناسب نہیں 
جو لوگ مطلقا گانا ۔یا قوالی یا سماع کو بغیر کچھ شرائط کے جائز کہتے ہیں ان کے متعلق سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ کا یہ پیغام کافی ہے کہ آپ رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ائمہ فرماتے ہیں اے گروہ علماء ! اگر تم مستحبات چھوڑ کر مباحات کی طرف جھکو گے عوام مکروہات پر گرینگے ۔اگر تم مکروہ کروگے عوام حرام میں پڑیں گے ۔اگر تم حرام کے مرتکب ہوگے عوام کفر میں مبتلا ہوں گے ۔
بھائیوں ! لللہ ( یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے) اپنے اوپر رحم کرو ۔اپنے اوپر رحم نہ کرو امت محمدیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر رحم کرو ۔چرواہے کہلاتے ہو بھیڑیئے نہ بنو ۔اللہ ہدایت دے ۔امین و صلی اللہ علیہ وسلم سے آمین۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 24 ص 133)
الحاصل ۔
(1) مطلقا گانا نہ ناجائز ہے اور نہ ہی جائز ہے 
(2) گانا مزامیر کے ساتھ ناجائز و حرام ہے ۔
(3) گانا کے اشعار فحش یا کذب وغیرہ ہو تو بغیر مزامیر کے ناجائز ہے
(4) جو گانا سادہ اشعار مثلا بطور نصیحت یا استاد ۔کسی بزرگ کی تعریف یا والدین کے ادب پر اشعار یا معرفت الٰہی پانے والا اشعار وغیرہ ہو تو اشعار بغیر مزامیر کے جائز 
(5) اور سادہ گانا گانے سے اگر اندیشہ فتنہ ہو یا خفیف الحرکاتی ہو تو اس صورت میں بھی بغیر مزامیر کے ناجائز ہے
الشعر کلام فحسنہ حسن ق قبیحہ قبیح یعنی شعر ایک کلام ہے ۔جو اچھا ہے وہ اچھا ہے ۔اور جو برا ہے وہ برا
ان تمام وضاحت کے بعد ایک بات ذہن میں رکھا جائے کہ ہر چیز آپنے نام سے پہچانی جاتی ہے مثلاً گانا کو سماج میں میوزک کے ساتھ گانے کو کہا جاتا ہے جو ناجائز و حرام ہے اگر بغیر مزامیر کے سادہ گانا ہو وہ بنفسہ جائز ہے کیونکہ سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ گانا مع مزامیر مطلقا ناجائز ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 24 ص 134)
اور اس کو برعکس پڑھیں تو واضح ہوگا کہ گانا بغیر مزامیر کے جائز ہے ہاں گانا کو جو معنی لوگوں کے ذہن میں ہے اس لحاظ سے اس سے بھی روکا جائے تاکہ فتنہ کا دروازہ بند ہو جائے۔
اقول ۔سادہ گانا بغیر مزامیر کے جائز ہے جبکہ فتنہ نہ ہو یہ بھی اس صورت میں جب کہ سادہ گانا گانے میں اندیشہ فتنہ یقینی ہے یعنی ایسا ظن غالب کہ فقہیات میں ملتحق بہ یقین ہے تو بلاشبہ ایسا گانا سے بھی روکا جائے گاچل بلکہ روکنا ضروری ہوگا کہ اس میں کوئی دینی و دنیوی فائدہ بھی نہیں ہے ہاں اگر صرف اندیشہ فتنہ کا وہم ہے تو روکنا ضروری نہیں ہوگا بلکہ روکنا احتیاط ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
صدر رکن اکیڈمی:-
شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی اعظم مہاراشٹر حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی ثنائی صاحب میرا روڈ ممبئی
رکن خاص اکیڈمی:- 
عالم نبیل فاضل جلیل موہر درس و تدریس مفکر قوم وملت حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ صاحب بریلی شریف

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area