Type Here to Get Search Results !

فرقۂ ضالہ "مولائی" کا رد بلیغ دلائل کی روشنی میں


فرقۂ ضالہ "مولائی" کا رد بلیغ دلائل کی روشنی میں
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ازقلم:- محمد جسیم اکرم مرکزی
متعلم جامعۃ الرضا بریلی شریف

••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے 
جس حال میں جینا مشکل ہو اس حال میں جینا لازم ہے

اللہ جل و علا وحدہ لاشریک کا بے پناہ احسان ہے کہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا فرمایا اور احسان بالائے احسان یہ کہ مسلک اہل سنت و جماعت کے دامن سے وابستہ فرمایا جس کو عرف عام میں مسلک اعلی حضرت کے نام سے دنیا یاد کرتی ہے،       
   یہ وہی مسلک ہے جس پر تمام صحابہ کرام ائمۂ عظام تابعین تبع تابعین مجتھدین اغواث اقطاب ابدال مفسرین محدثین محققین متکلمین خطبا اصفیا اولیا نجبا شرفا فقہا قائم و دائم رہے 
اور جنھوں نے مسلک اہل سنت و جماعت سے روگردانی کی تو وہ فرقۂ خارجی، رافضی، ناصبی، معتزلی، شیعی، زیدی، سبائی، نجدی، وہابی، دیوبندی، نیچری، قادیانی کی شکل میں رونما ہوئے انھیں میں سے ایک فرقۂ ضالہ "مولائی" ہے 
جنھوں نے افضلیت شیخین کا انکار کیا اور شیخین رضی اللہ عنھما سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل بتایا جو چودہ سو سال کے متفقہ فیصلۂ افضلیت سے کھلا انحراف ہے ،
ایمان ابو طالب ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور جو نہ مانے ان کو ناصبی و خارجی تک کہہ ڈالا ، 
جو صحابہ کرام کربلا معلی تشریف نہ لے گئے ان پر بے جا اعتراض کیا، 
جنگ جمل میں اور صفین میں شریک ہونے والے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین خصوصا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تبرا بازی کی ،
عید غدیر خم کو صحیح ثابت کرنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے،
ان شاءاللہ تعالیٰ عزیز اس تحریر میں حق و باطل کے مابین خط امتیاز کھینچ دیا جائے گا جس سے ان مولائیوں کا اصل چہرہ کھل کر قارئین کے سامنے آ جائے گا اور یہ بھی آشکار ہو جائے گا کہ یہ حضرات مولائی ہیں یا حجاب مولائی میں رہزن دین و ایمان ہیں،     
مولائی اور افضلیت شیخین _________
مولائی حضرات کہتے ہیں:
حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم شیخین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنھما و ارضاھما سے افضل ہیں،
 فرقۂ ضالہ مولائی کے اس عقیدے کی حقیقت کیا ہے ؟ آئیے قرآن و احادیث اور اجماع گئےکے تناظر میں پرکھتے ہیں ،
آیات قرآنیہ__________
اللہ جل و علا کا فرمان ہے :
ان اکرمکم عند اللہ اتقکم [سورۃ الحجرات رقم الآیت ١٣]
     بے شک تم سب میں بزرگ تر اللہ کے نزدیک تمہارا اتقی ہے یعنی بڑا پرہیز گار ،
اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
      وَسَیُجَنَّبُهَا ٱلۡأَتۡقَى ٱلَّذِی یُؤۡتِی مَالَهُۥ یَتَزَكَّىٰ وَمَا لِأَحَدٍ عِندَهُۥ مِن نِّعۡمَةࣲ تُجۡزَىٰۤ إِلَّا ٱبۡتِغَاۤءَ وَجۡهِ رَبِّهِ ٱلۡأَعۡلَىٰ وَلَسَوۡفَ یَرۡضَىٰ
[سورة الليل رقم الآية ١٧ تا ٢٠]
     یعنی اور نزدیک ہے کہ جھنم سے بچایا جائے وہ بڑا پرہیز گار جو اپنا مال دیتا ہے ستھرا ہونے کو اور اس پر کسی کا احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے گا ، مگر تلاش اپنے برتر پروردگار کی رضامندی کی ، اور بے شک قریب ہے کہ وہ راضی ہو جائے گا ، 
     آیت کریمہ میں باجماع مفسرین "اتقی" سے جناب سیدنا امام المتقین ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مراد ہیں ،
امام محی السنہ بغوی فرماتے ہیں : یعنی ابابکر فی قول الجمیع [تفسیر معالم التنزیل، تفسیر سورۃ اللیل ، آیت نمبر ١٨ ج ٨، صفحہ ٤٤٨]
     اور امام علامہ شمس الدین ابن الجوزی نے بھی اس پر اجماع نقل کیا ، [علامہ ابن جوزی نے لکھا ہے : "الاتقی یعنی ابابکر الصدیق فی قول جمیع المفسرین" حوالہ: زاد المسیر فی علم التفسیر، تفسیر سورۃ و اللیل ، آیت ١٧ ، ج٦ ، ص ١٦٧]
     اس آیت کے لیے دوسرا محمل صحیح متصور ہی نہیں کہ بالضرور یہاں وہی مقصود جو افضل امت محمدی ہے (مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین ص ١٦٧ تا ١٧٠)     
    اللہ جل و علا کا فرمان ہے:
  " وَمَا لِأَحَدٍ عِندَهُۥ مِن نِّعۡمَةࣲ تُجۡزَىٰۤ" [سورۃ اللیل آیت نمبر ١٩]
  اس پر کسی کا ایسا احسان نہیں جس کا عوض دیا جائے ،
  اور دوسری جگہ فرمایا :
    وَمَاۤ أَسۡـَٔلُكُمۡ عَلَیۡهِ مِنۡ أَجۡرٍۖ إِنۡ أَجۡرِیَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِینَ
  [سورۃ الشعرا آیت نمبر١٠٩]
    کہ میں نہیں مانگتا ہدایت پر تم سے کچھ نیگ ، میرا نیگ تو اللہ ہی پر ہے جو پالنے والا سارے جہان کا ۔
    شاید اسی لحاظ سے قرآن میں قید "تجزی" فرمائی گئی ،
       اب اس آیت کو صغری اور پہلی کو کبری کیجیے تو شکل اول بدیہی الانتاج سے یہ نتیجہ بشہادت قرآن عزیز نکلتا ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل امت ہیں ،
      [ تلخیصا مطلع القمرین ص ١٧٢ تا ١٧٣]      
     نتیجہ کی تفصیل______
صغری کبری
      صدیق اکبر اتقی ہر اتقی اکرم عند اللہ         
نتیجہ صدیق اکبر اکرم عند اللہ  
        یہاں سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اکرمیت ثابت ہوئی
صغری کبری   
مولی علی اکرم عند اللہ ہر اکرم عند اللہ اجر میں زیادہ
     نتیجہ مولی علی اجر میں زیادہ
     یہاں سے مولی علی رضی اللہ عنہ کے لیے اجر و ثواب میں زیادتی ثابت ہوئی     
    مولائی تو کہتا تھا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اجر و ثواب میں زیادہ تو ہیں لیکن اکرمیت حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے لیے ہے لیکن بار بار مذکورہ آیات کو پڑھیے اور غور کیجیے کہ قرآنی آیات کے ذریعے مولائی کے اس اعتقاد کا بطلان ہوا اور اکرمیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لیے ثابت ہوئی ، اور اس کے بر عکس جن کی اکرمیت کا دعویٰ تھا ان کے لیے کثرت ثواب ظہور پا گیا ، دلیل دونوں دعوؤں پر صاف لوٹ گئی اب کوئی اشکال باقی نہ رہا، فتدبر   
     احادیث نبویہ______     
طبرانی سیدنا حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں حضور سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
       ما طلعت الشمس علی احد منکم افضل من ابی بکر
[المتفق و المفترق للخطیب بغدادی ، من اسمہ اسماعیل بن زیاد الابلی ، جلد ١، صفحہ ٥١٧، رقم الحدیث ١٨١]
ترجمہ: تم میں سے کسی ایسے پر آفتاب نہ نکلا جو ابو بکر سے افضل ہو ،
مسند امام احمد بن حنبل میں ہے:
عن أبي جُحَيفةَ، قال: كُنتُ أرى أنّ عليًّا أفضَلَ النّاسِ بعدَ رسولِ اللهِ ﷺفذكَر الحديثَ- قُلتُ: لا واللهِ يا أميرَ المُؤمِنينَ، إنِّي لم أكُنْ أرى أنّ أحَدًا منَ المُسلِمينَ بعدَ رسولِ اللهِ ﷺ أفضَلَ منكَ. قال: أفلا أُحدِّثُكَ بأفضَلِ النّاسِ كان بعدَ رسولِ اللهِ ﷺ؟ قال: قُلتُ: بَلى، فقال: أبو بكْرٍ، فقال: أفلا أُخبِرُكَ بخَيرِ النّاسِ كان بعدَ رسولِ اللهِ ﷺ، وأبي بكْرٍ؟ قُلتُ: بَلى. قال: عمرُ [مسند امام احمد بن حنبل جلد اول حدیث نمبر ١٠٥٤]
ترجمہ: حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی علیہ السلام کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تمام لوگوں میں سب سے افضل سمجھتا تھا میں کہا نہیں بخدا اے امیر المومنین میں نہیں سمجھتا کہ نبی علیہ السلام کے بعد مسلمانوں میں آپ سے افضل بھی کوئی ہوگا انھوں نے فرمایا کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں اس امت میں نبی علیہ السلام کے بعد سب سے افضل شخص کون ہے میں نے عرض کیا کیوں نہیں انھوں نے فرمایا وہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں اور میں تمہیں بتاؤں کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص کون ہے میں کہا کیوں نہیں انھوں نے فرمایا وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں ،
      قارئین کرام اس حدیث شریف کو بار بار پڑھیں اور غور کریں کہ خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے جب حضرت جحیفہ نے کہا میں آپ کو افضل سمجھتا ہوں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ افضل میں نہیں بلکہ افضل تمام امتوں میں انبیا علیھم السلام کے بعد حضرت شیخین کریمین رضی اللہ عنہما ہیں      
اگر یہ حضرات واقعی مولائی ہیں تو انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ مولا علی کے فرمان کو دل و جان سے مانتے اور کبھی یہ نہ کہتے کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ شیخین کریمین سے افضل ہیں بلکہ جو یہ کہتے تو اسے منع کرتے لیکن نہیں انھیں تو اپنے نفس کی ماننی ہے جماعت بندی کرنی ہے اسلاف کے عقائد ونظریات سے انحراف ان کا اپنا محبوب مشغلہ ہے یہ کہاں کی محبت ہے کہ جن سے محبت کا دعویٰ کرے انھیں کے فرامین سے رو گردانی کر لے اور اپنے من کی بات کرے
      اگر حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم ان مولائیوں کی خرق اجماع باتوں کو سنتے تو ضرور حد مفتری لگاتے ،
      تاریخ مدینہ دمشق میں ہے:
      "قال علی : لا اجد احدا یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری"
[تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر جلد ٣٠ ص ٣٨٣ مطبوعہ بیروت]
      ترجمہ: حضرت مولا علی نے فرمایا جس کو بھی میں پاؤں گا کہ وہ مجھے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دے رہا ہے تو اسے وہی سزا دوں گا جو مفتری کی سزا (اسی کوڑے) ہیں، 
      حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اس فرمان سے پتہ چلا کہ یہ مولائی اسی کوڑے کھانے حقدار ہیں اگر حضرت مولا علی ہوتے تو ضرور ان کی عقلیں ٹھکانے لگ جاتیں اور ایسی بہکی بہکی باتیں کرنے سے باز آجاتے ،      
      ایمان ابو طالب اور مولائی__________
فرقۂ مولائی ایمان ابو طالب کا قائل تو ہے ہی لیکن جو ایمان ابو طالب کا قائل نہیں ہے اس پر ناصبیت اور خارجیت کا الزام لگاتا ہے جب کہ جمہور کفر ابو طالب کے قائل ہیں 
     دور حاضر میں اکثر و بیشتر جو شخص ایمان ابو طالب کے قائل ہوتا ہے وہ یا تو شیعوں میں سے ہوتا ہے یا رافضیوں میں سے ہوتا ہے 
ایک بار راقم الحروف مکتبہ رحمانیہ [بریلی شریف دیار اعلی حضرت] میں کتابیں دیکھ رہا تھا کہ "شہید ابن شہید" پر نظر پڑی تو اس کو اٹھایا پڑھا تو انکشاف ہوا کہ صاحب کتاب ایمان ابو طالب کے قائل ہیں تو میرے دل میں شک گزرا کہیں یہ شیعہ تو نہیں جب اس پر مزید تفتیش کی تو پتہ چلا کہ صاحب کتاب صائم چشتی رافضیوں کا ہمنوا ہے انھیں کی بولی بولتا ہے جس پر اس کی کتاب "مشکل کشا" صریح دال ہے نیز صائم چشتی کے باطل عقائد و نظریات کی تردید پر "دشمنان امیر معاویہ کا علمی محاسبہ" قابل مطالعہ ہے
کفر ابو طالب خود مولا علی کی زبانی_______
     کفر ابو طالب کے قائل خود حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں 
    مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے مولا علی نے عرض کی :
ان عمك الشيخ الكافر قد مات فما تری فیہ ، قال ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اری ان تغسلہ و امرہ بالفعل ، 
[المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الجنائز باب فی الرجل یموت لہ قرابۃ المشرک ادارۃ القرآن کراچی ٣٤٨/٣ بحوالہ شرح المطالب فی مبحث ابی طالب ص ٢٧٨]
      ترجمہ: حضور کا چچا وہ بڈھا کافر مر گیا ، اس کے بارے میں حضور کی کیا رائے ہے یعنی غسل وغیرہ دیا جائے یا نہیں ؟ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہلا کر دبا دو ،
      امام شافعی کی روایت میں ہے :
"فقلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انه مات مشرکا قال اذھب فوارہ"
[نصب الرایۃ بحوالۃ الشافعی کتاب الصلاۃ فصل، فی الصلاۃ علی المیت النوریۃ الرضویہ ٢٩٠/٢ بحوالہ سابق]
       اس حدیث کریمہ سے خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی زبانی ثابت ہوا کہ ابو طالب کفر و شرک کی حالت میں فوت ہوا ایمان نہ لایا ورنہ ضرور حضور نماز جنازہ کا حکم دیتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جاؤ دبا دو" 
      کفر ابو طالب پر تفاسیر، کثیر احادیث دال ہیں جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ابو طالب کافر و مشرک ہے ،
   تو اب مولائیوں پر سوال وارد ہوتا ہے :
کیا مذہب جمہور کے مطابق عقیدہ رکھنا ناصبی ہے ؟ 
کیا اس اصول پر امام شافعی رحمہ اللہ ناصبی نہیں ٹھہرتے؟
کیا یہی بنو امیہ سے محبت اور اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین سے عداوت کی دلیل ہے ؟ 
 کفر ابو طالب تو مذہب جمہور ہے تو کیا جمہور صحابہ ، علما مولائیوں کے اصول کے مطابق ناصبی کہلائیں گے ؟ مثلا:
  امیر المومنین ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
امیر المومنین مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم
حبرۃ الامہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
یہ ایک لمبی فہرست ہے جس میں جمہور صحابہ کرام و علماء عظام کے اسماء گرامی ہیں جس کو ضبط تحریر میں لانے کے لیے ایک دفتر درکار پھر بھی بہت سارے اسماء "شرح المطالب فی مبحث ابی طالب" کی فصل نہم میں مندرج ہیں اہل ذوق وہاں دیکھ لیں ،
عید غدیر اور مولائی___________
        جامع القرآن ذو النورین امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات جس دن ہے اسی دن اہل تشیع عید غدیر مناتے ہیں اس لیے کہ اہل تشیع کے عقیدے کے مطابق آج ہی کے دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو خلافت بلا فصل ملی تھی ، اس لیے عید غدیر ان کے لیے عید اکبر مذہبی تہوار ہے ،
ابن اثیر جزری لکھتے ہیں:
     "و فیھا فی الثامن عشر ذی الحجہ ، امر معز الدولہ باظہار الزینۃ فی البلد ، و اشعلت النیران بمجلس الشرطۃ ، و اظھر الفرح ، و فتحت الاسواق باللیل ، کما یفعل لیالی الاعیاد فعل ذلك فرحا بعید الغدیر ، و ضربت الدبادب و البوقات ، وکان یوما مشہودا"
[الکامل فی التاریخ جلد ٧ ص ٢٤٦]
ترجمہ: اور سن ٣٥٢ ھ ١٨ ذي الحجه کو معز الدولہ نے شہر سجانے کا حکم دیا ، اور درباریوں کی مجلس میں چراغاں کیا گیا ، اور خوشی کا اظہار کیا گیا ، بازار کھولے گئے رات کو ، جس طرح عیدوں کی راتوں کو جاتے، خوب خوشیاں منائی گئی عید غدیر خم میں باجے بگل بجائے گئے اور وہ دیکھنے کا دن تھا ،
     قارئین کرام مذکورہ بالا اقتباس سے آپ پر یہ واضح ہو گیا ہوگا کہ عید غدیر کیوں منائی جاتی ہے لیکن آئیے اس مستدل پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں جس سے یہ حضرات خلافت بلا فصل ملنے کا استدلال کرتے ہیں، 
حدیث میں ہے: 
"من کنت مولاہ فعلی مولاہ " 
[مسند البزار مسند زید بن ارقم جلد ٣ ص ٦٧ رقم الحديث ٤٢٩٨ ، السنن للترمذي مناقب علي ابن ابي طالب ، جلد ٢ ص ١٧٠ رقم الحديث ٣٦٤٦]
اس حدیث کا پس منظر شارحین حدیث نے یہ بیان کیا ہے:
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے مولا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نہیں ہیں میرے مولا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو حضور نے فرمایا: 
"من کنت مولاہ فعلی مولاہ"
میں جس کا مولی ہوں علی اس کا مولی ہے،
[مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد ١١ ص ٢٤٧]
      اس سے مولی کا معنی اہل تشیع نے خلیفہ لیا جو بالکل غلط ہے کسی مفسر کسی محدث و شارح و ماہر لغت نے یہ معنی بیان نہیں کیا جو اہل تشیع نے گڑھا،
     مولی کے متعدد معنی ہوتے ہیں انھیں میں سے حامی و ناصر ہے اور اس جگہ یہی معنی مراد ہے "الصوعق المحرقہ" میں مولی کا معنی خلیفہ بتانے والوں کا رد بلیغ موجود مسطور "مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین" ص ١٣٧ تا ١٣٨ کا مطالعہ بھی مفید ثابت ہوگا یہ مقام اس تفصیل کا متحمل نہیں لیکن اتنی وضاحت سے یہ بات ضرور سامنے آجاتی ہے کہ مولائی فقط نام کا مولائی ہے ورنہ در حقیقت مولائی اور شیعہ دونوں سگے بھائی ہے جس کا باپ ایک "معز الدولہ" ہے،
حضرت امیر معاویہ اور مولائی_________
       امیر المومنین حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کرنا ان بدعتیوں کا وطیرہ رہا ہے بعض حامیان مولائیت وہ ہے جو جگر گوشۂ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ذمہ دار حضرت امیر معاویہ کو ٹھہراتے ہیں، جیسا کہ بعض مولائی نے لکھا:
"اگر کوئی حضرت امیر معاویہ کی ان خطاؤں کا ذکر کر دے جن کی قیمت یہ امت خلافت راشدہ کے انہدام اور امام حسین کی شہادت کے ساتھ آج تک چکا رہی ہے تو وہ گستاخ صحابہ اور جہنمی ہوجاتا ہے، "
کیا موصوف نے اکابرین کی کتابوں میں یہ نہیں پڑھا کہ مشاجرات صحابہ میں پڑنا نہیں چاہئے تمام صحابہ عادل ہیں ، کوئی ذکر کرے تو خیر کے ساتھ کرے ان کی ذات کو نشانہ نہ بنائے ،
ترمذی شریف میں ہے :
       "لما عزل عمرُ بنُ الخطّابِ عُميرَ بنَ سعدٍ عن حمصَ ولّى معاويةَ فقال الناسُ عزلَ عُميرًا وولّى معاويةَ فقال عميرُ لا تذكروا معاويةَ إلّا بخيرٍ فإني سمعتُ رسولَ اللهِ ﷺ يقول اللهمَّ اهدِ بِهِ" 
[ترمذی شریف جلد دوم فصل ذکر معاویہ]
ترجمہ: جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کو حمص سے معزول کر کے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو حمص کا والی بنا دیا تو لوگوں نے کہا: حضرت عمیر کو معزول کر کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ کو حمص کا والی بنادیا ؟
تو حضرت عمیر بولے حضرت امیر معاویہ کا ذکر صرف خیر کے ساتھ کرو کیونکہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اے اللہ معاویہ کو ھادی بنا ،
إھدَہُ إھدَ بهِ کی دی دعا سرکار نے
کیا مقام و رتبۂ ابن ابو سفیان ہے
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین تو فرما رہے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ کا ذکر خیر کے ساتھ کرو لیکن یہ کیسا مولائی ہے جو اس مقدس ہستی پر الزام لگاتے ہوئے بھی خدا کا خوف نہیں کھاتے ،
        ہاں اگر کوئی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرتا ہے جیسا کہ مولائی وغیرہ تو ضرور وہ کلب من کلاب النار ہے 
ہمارا عقیدہ تو وہی ہے جو ہمارے امام ، امام عشق و محبت اعلی حضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز نے بتایا ، 
 فرقِ مراتب بے شمار اور حق بدست حیدر کرار، 
 مگر معاویہ بھی ہمارے سردار، طعن اُن پر بھی کارِ فجّار،
  جو معاویہ کی حمایت میں عیاذباﷲاسد اﷲ کے سبقت واولیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ نا صبی یزیدی، اور جو علی کی محبت میں معاویہ کی صحا بیت و نسبت بارگاہِ حضرت رسالت بُھلادے وہ شیعی زیدی، یہی روشِ آداب بحمد اﷲتعالےٰ ہم اہلِ توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے، 
  [فتاوی رضویہ شریف جلد ١٠ کتاب الزکوۃ ص ١٩٩]   
     صرف حضرت امیر معاویہ پر ہی نہیں بلکہ جنگ جمل جنگ صفین میں شرکت کرنے والے صحابہ پر یہ حضرات طعن و تشنیع کرتے ہیں اگر فردا فردا تمام باتوں کا ذکر کرنا چاہوں تو اس مختصر سی تحریر میں سب کا احاطہ کرنا ایک امر مشکل ہے لیکن یہ اجمالی تحریر بحمدہ تعالی چشم بینا اہل خرد حق پسند کے لیے کافی وافی و شافی ثابت ہوگی     
خلاصۂ کلام________
          فتنۂ و فساد ہر دور میں سر اٹھاتے رہے اور اٹھاتے رہیں گے لیکن علماء حق کی یہ ذمہ داری ہے اس کی سرکوبی کے لیے مستعد رہیں اور جہاں جیسا موقع میسر آئے فرقۂ ضالہ کو دندان شکن جواب دیں قعر مذلت میں گرائیں ہاں اگر حق تسلیم کر لے تو گلے سے لگا لیں ، 
          معاشرے کو ان فتنۂ و فساد سے محفوظ رکھنا فرقۂ ضالہ باطلہ کی تردید کرنا علما کرام کا اہم فریضہ ہے خاص کر مولائی کیونکہ یہ حضرات خود کو شیعہ بھی نہیں کہتے ہیں بلکہ جماعت اہل سنت و جماعت میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن عقائد ونظریات شیعوں جیسے رکھتے ہیں تو ان با پردہ چہروں سے نقاب اٹھانا ہمارے لیے از حد ضروری ہے ،          
بد بخت ریا کار ہے مولائی نہیں ہے
مکار ہے عیار ہے مولائی نہیں ہے 
ہے اس کی ہر اک بات سے یہ ظاہر و باہر
شیعوں کا وفادار ہے مولائی نہیں ہے          
اللہ جل و علا ہمارے دین و ایمان کی حفاظت فرمائے مسلک اہل سنت و جماعت المعروف مسلک اعلی حضرت پر قائم و دائم رکھے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area