عید قرباں ایک طائرانہ نظر
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم :- سبطین رضا مرتضوی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
قربانی خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ وہ بڑھاپے میں ملنے والے اکلوتے لخت جگر اور نور چشم کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں ذبح کرنے کے لیے تیار ہوئے اور سعادت مند بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السّلام بھی ذبح ہونے کے لیے تیار ہوئے ۔ اللہ رؤوف و رحیم کو باپ بیٹے کی یہ بے مثال اطاعت اور تابع داری پسند آئی اور انہوں نے بیٹے کے عوض اپنی طرف سے مینڈھا ارسال فرمادیا ، جس کو حضرت ابراہیم علیہ سلام نے ذبح فرمایا ۔ اللہ مالک الملک نے ان کی اس سنت کو ان کے بعد آنے والے لوگوں میں ہمیشہ کے لیے جاری فرما دیا۔ اس واقعہ کا ذکر اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں بایں الفاظ فرمایا ہے:” اور [ابراہیم علیہ السلام نے] کہا میں [ہجرت کرکے] اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں اب وہ مجھے راہ دے گا۔ الہٰی مجھے لائق اولاد دے۔ تو ہم نے اسے خوش خبری سنائی ایک عقل مند لڑکے کی۔پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے؟ کہا اے میرے باپ کیجیے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھ اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم۔ بیشک تو نے خواب سچ کردکھائی ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔ بے شک یہ روشن جانچ تھی۔اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے صدقہ میں دے کر اسے بچالیا۔
[الصٰفٰت: ٩٩-١٠٨، کنزالایمان]
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سنت ابراہیمی کا اہتمام فرماتے اور امت کو بھی اس کا اہتمام کرنے کی تاکید فرماتے تھے؛ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت سے یہاں تک فرمادیا کہ جو استطاعت رکھتے ہوں اس کے باوجود قربانی نہ کریں وہ ہماری عیدگاہ کی طرف نہ آئے یعنی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں پر غصہ و ناراضی کا اظہار فرمایا۔ یاد رہے کہ قربانی کرنا واجب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ہرسال قربانی فرمائی ، کسی سال ترک نہیں فرمائی۔ جس عمل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگاتار کیا اور کسی سال بھی نہ چھوڑا ہو تو یہ اس عمل کے واجب ہونے کی دلیل ہے۔ علاوہ ازیں خود قرآن میں بعض آیات سے بھی قربانی کا وجوب ثابت ہے۔
قربانی کی فضیلت و اہمیت:-
احادیث مبارکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت بیان فرمائی ہے؛چنانچہ حضرتِ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے والد ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے“، لوگوں نے عرض کیا: تو ہم کو اس میں کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی“ لوگوں نے عرض کیا: اور بھیڑ میں اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھیڑ میں (بھی) ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے“
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سنت ابراہیمی کا اہتمام فرماتے اور امت کو بھی اس کا اہتمام کرنے کی تاکید فرماتے تھے؛ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت سے یہاں تک فرمادیا کہ جو استطاعت رکھتے ہوں اس کے باوجود قربانی نہ کریں وہ ہماری عیدگاہ کی طرف نہ آئے یعنی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں پر غصہ و ناراضی کا اظہار فرمایا۔ یاد رہے کہ قربانی کرنا واجب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ہرسال قربانی فرمائی ، کسی سال ترک نہیں فرمائی۔ جس عمل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگاتار کیا اور کسی سال بھی نہ چھوڑا ہو تو یہ اس عمل کے واجب ہونے کی دلیل ہے۔ علاوہ ازیں خود قرآن میں بعض آیات سے بھی قربانی کا وجوب ثابت ہے۔
قربانی کی فضیلت و اہمیت:-
احادیث مبارکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت بیان فرمائی ہے؛چنانچہ حضرتِ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے والد ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے“، لوگوں نے عرض کیا: تو ہم کو اس میں کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی“ لوگوں نے عرض کیا: اور بھیڑ میں اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھیڑ میں (بھی) ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے“
[ابن ماجہ، رقم: ٣١٢٧]
اس حدیث پاک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کرنے کا کتنا عظیم ثواب بیان فرمایا ہے کے جانوروں کے بالوں کے بقدر جو کہ گننا ناممکن ہے بندے کو اللہ تبارک و تعالیٰ نیکیاں عطافرماتا ہے__
دوسری حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنی سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو“۔
دوسری حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنی سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو“۔
[ترمذی، رقم: ١٤٩٣]
ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی ،تووہ آتَش جہنم سے حجاب ہو جائے گی۔
[المعجم الکبیر: رقم ٢٧٣٦]
حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے فاطمہ! اپنی قربانی کے پاس موجود رہو کیونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرے گا تمہارے سارے گناہ معاف کر دے جائیں گے۔ [السنن الکبریٰ للبیہقی ، رقم ١٩١٦١]
قربانی کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث ہیں، اس لیے امت مسلمہ سے درخواست ہے کہ اس عبادت کو ہرگز ترک نہ کریں جو اسلام کے شعائر میں سے ہے۔ اور اس سلسلہ میں جن شرائط وآداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے،انہیں اپنے سامنے رکھیں اور قربانی کا جانور خوب دیکھ بھال کر خریدیں۔ قربانی سے متعلق مسائل آئندہ سطور میں درج کئے جارہے ہیں:
قربانی کے متعلق چند اہم مسائل:-
مسئلہ: یہ ضروری نہیں کہ دسویں ہی کو قربانی کر ڈالے اس لیے کہ گنجائش ہے کہ پورے وقت میں جب چاہے کرے۔ [عالمگیری]
قربانی کے متعلق چند اہم مسائل:-
مسئلہ: یہ ضروری نہیں کہ دسویں ہی کو قربانی کر ڈالے اس لیے کہ گنجائش ہے کہ پورے وقت میں جب چاہے کرے۔ [عالمگیری]
مسئلہ: قربانی کے وقت میں قربانی کرنا ہی لازم ہے کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی مثلا بجائے قربانی اس نے بکری یا اس کی قیمت صدقہ کردی یہ ناکافی ہے۔ [عالمگیری]
مسئلہ: شرکت میں گائے کی قربانی ہوئی تو ضروری ہے کہ گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے، اندازہ سے تقسیم نہ ہوکیوں کہ ہوسکتا ہے کسی کو زائد یا کم ملے اور یہ ناجائز ہے۔ [در مختار، ردالمحتار]
مسئلہ: قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے۔یعنی تین، دو راتیں۔ [عالمگیری]
مسئلہ: پہلا دن یعنی دسویں تاریخ سب میں افضل ہے، پھر گیارہویں اور پچھلا دن یعنی بارہویں سب میں کم درجہ ہے۔ [عالمگیری]
مسئلہ: شہر میں قربانی کی جائے تو شرط یہ ہے کہ نماز ہوچکے، لہٰذا نماز عید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہوسکتی اور دیہات میں چونکہ نماز عید نہیں ہے یہاں طلوع فجر کے بعد سے ہی قربانی ہوسکتی ہے۔ [عالمگیری] مسئلہ: قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں: اونٹ،گائے، بکری۔ ہر قسم میں اس کی جتنی نوعیں ہیں سب داخل ہیں۔ نر اور مادہ ، خصی اور غیر خصی سب کا ایک حکم ہے یعنی سب کی قربانی ہوسکتی ہے۔ بھینس گائے میں شمار ہے اس کی بھی قربانی ہوسکتی ہے۔ بھیڑ اور دنبہ بکری میں داخل ہیں ان کی بھی قربانی ہوسکتی ہے۔ [عالمگیری]
مسئلہ: وحشی جانور جیسے نیل گائے اور ہرن ان کی قربانی نہیں ہوسکتی۔[عالمگیری] مسئلہ: قربانی کے جانور کی عمر یہ ہونی چاہیے: اونٹ پانچ سال کا، گائے دوسال کی اور بکری ایک سال کی۔ اس سے عمر کم ہو تو قربانی جائز نہیں۔[درمختار] مسئلہ: بکری کی قیمت اور گوشت اگر گائے کے ساتویں حصہ کی برابر ہو تو بکری افضل ہے اور گائے کے ساتویں حصہ میں بکری سے زیادہ گوشت ہو تو گائے افضل ہے یعنی جب دونوں کی ایک ہی قیمت ہو اور مقدار بھی ایک ہی ہو تو جس کا گوشت اچھا ہو وہ افضل ہے اور اگر گوشت کی مقدار میں فرق ہو تو جس میں گوشت زیادہ ہو وہ افضل ہے اور مینڈھا بھینر سے اور دنبہ دنبی سے افضل ہے جب کہ دونوں کی ایک قیمت ہو اور دونوں میں گوشت برابر ہو۔ بکری بکرے سے افضل ہے مگر خصی بکرا بکری سے افضل ہے اور اونٹنی اونٹ سے اور گائے بیل سے افضل ہے جبکہ گوشت اور قیمت میں برابر ہوں۔[درمختار، ردالمحتار]
مسئلہ: قربانی کے جانور کوعیب سے خالی ہونا چاہیے اور تھوڑا ساعیب ہو تو قربانی ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی اور زیادہ عیب ہوتو ہوگی ہی نہیں ۔ جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں اس کی قربانی جائز ہے اور اگر سینگ تھے مگر ٹوٹ گیا اور مینگ تک ٹوٹا تو نا جائز ہے، اس سے کم ٹوٹا ہے تو جائز ہے۔ [عالمگیری] مسئلہ: اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں۔ اتنا لاغر جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو اور لنگڑا جو قربان گاہ تک اپنے پاؤں سے نہ جاسکے اور اتنا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو اور جس کے کان یا دم یا چکی کٹے ہوں یعنی وہ عضو تہائی سے زیادہ کٹا ہو ان سب کی قربانی ناجائز ہے۔ جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو اس کی قربانی ناجائز ہے اور جس کے کان چھوٹے ہوں اس کی جائز ہے۔ [ہدایہ]
مسئلہ: جس جانور کے دانت نہ ہوں یا جس کے تھن کٹے ہوں اس کی قربانی ناجائز ہے۔ [درمختار] مسئلہ: گائے کے شرکا میں سے ایک کافر ہے یا ان میں ایک شخص کا مقصود قربانی نہیں ہے بلکہ گوشت حاصل کرنا ہے تو کسی کی قربانی نہ ہوئی۔
[در مختار] [ملخصاً، بہار شریعت، ج:٣، ص: ٣٣١-٣٤٣]
قربانی کے متعلق ملحدین کا اعتراض:-
آج کل بعض نام نہاد دانشور اور کچھ ملحد و بے دین لوگ قربانی پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قربانی کرناپیسے اور وقت کا ضیاع ہے، ہرسال قربانی کرنے کے بجایے رقم فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف ہونی چاہیے، قربانی پر پیسے ضائع کرنے کے بجائے یہی اگر کسی غریب کو دے دیا جائے تو کئی لوگوں کا بھلا ہوجائے، قربانی کرنے سے جانوروں کی قلت کا خدشہ ہوتا ہے اس لیے جانوروں سے پیار کرتے ہوئے ان کی قربانی نہیں کرنی چاہیے۔ حالانکہ ان کی یہ باتیں شرعاً وعقلاً قابل قبول نہیں۔ اس جدید ذہن کی حالت یہ ہے کہ اسے غریبوں کا خیال صرف عید قربان پر خرچ ہونے والی رقم کے وقت ہی آتا ہے جو کہ ہر لحاظ سے غریب دوست رسم ہے۔ البتہ اسے ان کھربوں روپے کا ضیاع دکھائی نہیں دیتا جو ہر روز امیر لوگ پیزوں اور برگروں پر اڑا دیتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ جانوروں سے پیار کرتے ہوئے ان کی قربانی نہیں کرنی چاہیے اور دوسری طرف جانورں کی چربی سے چراغ جلانے پر بھی ان کے سینے میں درد نہیں اٹھتا۔ جانوروں کے بال اور جسمانی اعضاء اور ہڈی وغیرہ سے بنائے جانے والے مختلف پراڈکٹس کے استعمال کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ جانوروں کے بھوکے پیاسے مر جانے تک ان کی جیبوں سے ایک پھوٹی کوڑی باہر نہیں نکلتی۔!! اعتراض ہے تو قربانی عید پر جانوروں کے ذبح ہونے پر۔۔۔!! سارا سال گائے ، مرغی کے گوشت کے برگر ، چکن مٹن کڑائیاں، روسٹ، بروسٹ، سالم بکروں کی سجیاں، چرغے ڈکار جانے والوں کو قربانی عید پر جانوروں پر رحم آنا شروع ہو جاتا ہے اور غریبوں کے لیے مرے جاتے ہیں۔ حالانکہ قربانی عید ایک غریب پرور تہوار ہی ہے۔۔ قربانی کے گوشت کا اک بڑا حصہ انہی غریبوں کو ملتا ہے جنہیں سال بھر گوشت نصیب نہیں ہوتا۔ وہ بھی ایک غریب ہی ہے جو سارا سال بکریاں اس امید پر چراتا ہے کہ عید پر بیچ کر اپنے سال کے خرچے نکالے گا، بچوں کی شادی کرے گا۔ اسی طرح قصائی بھی کسی وزیر مشیر کے خاندان سے تعلق نہیں رکھتے۔۔۔۔ ان لوگوں کا اصل مسئلہ محبت جانور اور غریب پروری نہیں بلکہ مذہب دشمنی ہے جس کے لیے یہ ہر موقع کے بے موقع استعمال کرنے سے نہیں چوکتے۔ اہل ایمان کو ایسے لوگوں کی باتوں کی طرف التفات نہیں کرنا چاہیے۔سیدی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ فتاویٰ رضویہ شریف میں تحریر فرماتے ہیں: ”جس پر قربانی واجب ہے وہ اگر وہ ایام قربانی میں بجائے قربانی دس لاکھ اشرفیاں تصدق کرے قربانی ادا نہ ہوگی۔ واجب نہ اترے گا۔ گنہگار و مستحق عذاب رہے گا۔“
قربانی کے متعلق ملحدین کا اعتراض:-
آج کل بعض نام نہاد دانشور اور کچھ ملحد و بے دین لوگ قربانی پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قربانی کرناپیسے اور وقت کا ضیاع ہے، ہرسال قربانی کرنے کے بجایے رقم فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف ہونی چاہیے، قربانی پر پیسے ضائع کرنے کے بجائے یہی اگر کسی غریب کو دے دیا جائے تو کئی لوگوں کا بھلا ہوجائے، قربانی کرنے سے جانوروں کی قلت کا خدشہ ہوتا ہے اس لیے جانوروں سے پیار کرتے ہوئے ان کی قربانی نہیں کرنی چاہیے۔ حالانکہ ان کی یہ باتیں شرعاً وعقلاً قابل قبول نہیں۔ اس جدید ذہن کی حالت یہ ہے کہ اسے غریبوں کا خیال صرف عید قربان پر خرچ ہونے والی رقم کے وقت ہی آتا ہے جو کہ ہر لحاظ سے غریب دوست رسم ہے۔ البتہ اسے ان کھربوں روپے کا ضیاع دکھائی نہیں دیتا جو ہر روز امیر لوگ پیزوں اور برگروں پر اڑا دیتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ جانوروں سے پیار کرتے ہوئے ان کی قربانی نہیں کرنی چاہیے اور دوسری طرف جانورں کی چربی سے چراغ جلانے پر بھی ان کے سینے میں درد نہیں اٹھتا۔ جانوروں کے بال اور جسمانی اعضاء اور ہڈی وغیرہ سے بنائے جانے والے مختلف پراڈکٹس کے استعمال کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ جانوروں کے بھوکے پیاسے مر جانے تک ان کی جیبوں سے ایک پھوٹی کوڑی باہر نہیں نکلتی۔!! اعتراض ہے تو قربانی عید پر جانوروں کے ذبح ہونے پر۔۔۔!! سارا سال گائے ، مرغی کے گوشت کے برگر ، چکن مٹن کڑائیاں، روسٹ، بروسٹ، سالم بکروں کی سجیاں، چرغے ڈکار جانے والوں کو قربانی عید پر جانوروں پر رحم آنا شروع ہو جاتا ہے اور غریبوں کے لیے مرے جاتے ہیں۔ حالانکہ قربانی عید ایک غریب پرور تہوار ہی ہے۔۔ قربانی کے گوشت کا اک بڑا حصہ انہی غریبوں کو ملتا ہے جنہیں سال بھر گوشت نصیب نہیں ہوتا۔ وہ بھی ایک غریب ہی ہے جو سارا سال بکریاں اس امید پر چراتا ہے کہ عید پر بیچ کر اپنے سال کے خرچے نکالے گا، بچوں کی شادی کرے گا۔ اسی طرح قصائی بھی کسی وزیر مشیر کے خاندان سے تعلق نہیں رکھتے۔۔۔۔ ان لوگوں کا اصل مسئلہ محبت جانور اور غریب پروری نہیں بلکہ مذہب دشمنی ہے جس کے لیے یہ ہر موقع کے بے موقع استعمال کرنے سے نہیں چوکتے۔ اہل ایمان کو ایسے لوگوں کی باتوں کی طرف التفات نہیں کرنا چاہیے۔سیدی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ فتاویٰ رضویہ شریف میں تحریر فرماتے ہیں: ”جس پر قربانی واجب ہے وہ اگر وہ ایام قربانی میں بجائے قربانی دس لاکھ اشرفیاں تصدق کرے قربانی ادا نہ ہوگی۔ واجب نہ اترے گا۔ گنہگار و مستحق عذاب رہے گا۔“
[فتاویٰ رضویہ، ج:٢٢، ص:٦٩٤، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف]
اگر قربانی کرنا پیسے اور وقت کا ضیاع ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنے کی اتنی زیادہ تاکید وارد نہ ہوتی۔ قربانی کو جاری رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس جہان رنگ و بو میں جو بھی کیا جائے اس کے پس منظر اور پیش منظر صرف اور صرف یہی جذبہ کار فرما ہو:
اگر قربانی کرنا پیسے اور وقت کا ضیاع ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنے کی اتنی زیادہ تاکید وارد نہ ہوتی۔ قربانی کو جاری رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس جہان رنگ و بو میں جو بھی کیا جائے اس کے پس منظر اور پیش منظر صرف اور صرف یہی جذبہ کار فرما ہو:
”اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ“
[الانعام: ١٦٢]
یعنی بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو رب سارے جہان کا۔
[کنزالایمان] اگر کام کرتے وقت یہ تصور ملحوظ خاطر نہ رہے تو پھر کچھ فائدہ نہیں کیوں کہ:
”لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰـكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ“
[الحج: ٣٧]
یعنی اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔
[کنزالایمان]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور عمل سے یہ بات ثابت ہے کہ قربانی کرنا اللہ تبارک و تعالی کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہے،اور اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ عشق و محبت کا اظہار بھی ، اور مومن بندے کی مغفرت کا باعث بھی ہے۔ مسلمانان عالم کے گزارش ہے کہ عید الاضحٰی کے مبارک موقع پر قربانی کا اہتمام کریں اور ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کریں۔ اللہ رب العالمین ہم سب کو کتاب و سنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
از: سبطین رضا مرتضوی، دھامی گچھ، سوناپور، ضلع اتردیناج پور ، بنگال، الہند____
از: سبطین رضا مرتضوی، دھامی گچھ، سوناپور، ضلع اتردیناج پور ، بنگال، الہند____