Type Here to Get Search Results !

جو تو ہے وہی میں ہوں تفریق ذرا سی ہے تو حسن کا مالک ہے ، میں حسن کا دیوانہ

 سوال:
ایک شاعر نے برسرِ منبر یہ شعر پڑھا:
جو تو ہے وہی میں ہوں تفریق ذرا سی ہے
تو حسن کا مالک ہے ، میں حسن کا دیوانہ

اور وہاں موجود علما نے بھی داد دی ۔ کیا رسولِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں اس شعر کو پڑھنا جائز ہے؟ کیا اس میں کوئی ادبا یا عقیدتا قباحت ہے؟ بینوا توجروا
المستفتی: محمد شمس تبریز قادری منظری
──────⊹⊱✫⊰⊹───── 
 الجواب بعون الملک الوھاب
نعت میں وہی کلام جائز ہے جو آداب پر مشتمل ہو ۔
ڈاکٹر وصی واجدی نیپالی دام ظلہ علینا کے نعتیہ کلام کا ایک شعر ہے ۔ 
زبان دھولو گلابِ جل سے یا عطر ریزی کرو کنول سے
یہ سارے آداب پھر بھی کم ہے نبی کے ذکر و بیاں سے پہلے 
حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جب بھی نعتیہ کلام پیش کی جاۓ یا لکھی جا تو لفظ اور لہجہ دونوں کا ادب واجب ہے ، اور جس کلام میں بے ادبی کا احتمال ہو وہ جائز نہیں ۔
اسی طرح اس شعر کا جو پہلا حصہ ہے اس میں مساوات کا معنی پایا جاتا ہے اور امت کے کسی بھی فرد کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ خود کے لئے یا کسی اور کے لئے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے مساوات و مماثلت کا صیغہ لاۓ ۔ 
اعلی حضرت عظیم المرتبت قاطعِ شرک و بدعت امامِ اہلِ سنت مجددِ دین و ملت حضرت مولانا مفتی الشاہ احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
جو لفظ باعثِ توہین یا ادنیٰ درجے میں بھی مساوات کا وہم پیدا کرے
اس سے اجتناب لازم ہے۔”
(فتاویٰ رضویہ، ج 14، ص 600)
معلوم ہوا کہ نعت میں ایسا اسلوب نہ اپنایا جائے جس سے ذاتِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور مخلوق میں کسی قسم کا تشبیہ ، مماثلت یا برابری کا وہم پیدا ہو ۔
اب اس شعر کو دیکھیں ! 
جو تو ہے وہی میں ہوں بس فرق ذرا سی ہے 
یہ اسلوب شرعی حدود و قیود سے باہر ہے اور الفاظ میں “مساوات” اور “مماثلت” کا صریح معنی پایا جاتا ہے ۔
یہ ۔مصرعہ اگرچہ شاعر کے ذہن میں شاید محض محبّت کے اظہار کے لیے ہو لیکن الفاظ میں مساوات کا مفہوم موجود ہے۔ اسی باعث علماۓ اہلِ سنت فرماتے ہیں۔ 
ذاتِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ادنیٰ درجہ کی مساوات بھی کفر کی طرف لے جاتی ہے ، خواہ شعر میں ہو کہ نثر میں ، یا بطورِ مبالغہ ہی کیوں نہ ہو ۔ 
( فتاویٰ رضویہ، ج 14، ص 601 )
  یہ مصرعہ ادب سے خالی ہے اس لئے منبر یا محفلِ میلاد میں اس مصرعہ کا پڑھنا جائز نہیں ۔ 
دوسرے مصرعہ کا حکم بھی ملاحظہ ہو ۔ 
“ تو حسن کا مالک ہے ، میں حسن کا دیوانہ”
 اس مصرعہ میں جن الفاظ کی بندش کی گئی ہے وہ عقیدت و محبت ، نیز شرعی اعتبار سے درست ہے ۔
یقینا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم"مالکِ حسن" ہیں اور امت ان کے حسنِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا "عاشق"۔ اعلی حضرت عظیم المرتبت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نغمہ سنج ہیں۔ 
جلی جلی بو کی ان کی پیدا ہے سوزشِ چشم عشق والا
کبابِ آہو میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب میں ہے 
 بہر حال شعرِ مزکور کے دوسرا مصرعہ تو یہ اسلوب نعت کی معروف روایت کے مطابق ہے ۔ لیکن پہلا مصرعہ چونکہ محلِ اشکال ہے ، اسی باعث مجموعی شعر ناقابلِ قبول ہے ۔
اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نعت کے اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ 
وہ مبالغہ جو حدودِ شریعت سے خارج ہو ، جائز نہیں بلکہ ناجائز و ممنوع ہے ۔
(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ج 2، ص 274)
حضرت صدرالشریعہ مفتی امجد علی رضوی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔ 
ادبِ نعت یہ ہے کہ ایسا لفظ نہ لایا جائے جس میں مساواتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم یا نسبتِ خدائی کا وہم ہو ۔
(بہارِ شریعت، ج 1، ص 74)
حضرت علامہ نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ 
محبتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے باب میں بھی الفاظ کا احتیاط واجب ہے ۔
نعتیہ اشعار میں کوئی لفظ ایسا نہ ہو جو جمالِ جہاں آرا کے آداب کے خلاف ہو ۔
( مفہوم خزائن العرفان ، مقدّمہ)
میں نے از خود ایک ویڈیو میں ایک شاعر کو منبرِ رسول پر براجمان علما کو داد دیتے ہوۓ دیکھا ۔ بہت افسوس ہوا ۔ اگر یہ علما شعر کو تحقیقی نظر اور دلجمعی سے سن رہے ہوتے تو اس طرح داد و تحسین نہیں دیتے ۔ اور محض ظاہری حسنِ کلام پر داد دے دی تو یہ ضرور لغزشِ فہم ہے ۔ ان علماۓ ظواہر کی تصدیق سے شعر شرعاً صحیح نہیں ہو جاتا اور نہ ہی شعر جائز ہوجاتا ہے ۔ شرعی حکم باریک بیں علما ہی الفاظ سے نکال پاتے ہیں ۔ نہ کہ لوگوں کے داد یا تائید سے نکلتا ہے ۔ 
یہ شعر بطورِ نعت ، برسرِ منبر یا محفل میں پڑھنا جائز نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے مصرعہ سے لفظی و معنوی اعتبار سے “مساوات و مماثلات ” کا وہم پیدا ہوتا ہے ، جو آدابِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہے اور اہلِ سنت کے اصول کے مطابق سخت مکروہ و ممنوع ہے اور اگر کسی نے قصدا ایسے معنی پر مشتمل الفاظ کا استعمال اپنی 
نعتیہ شعر و شاعری میں کرتا ہے تو یہ ارتداد کے حکم میں ہے ۔ 
بعض اہلِ سلسلہ وارثیہ نے بتایا کہ یہ شعر منقبت کا ہے جو حضرت وارثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں لکھی گئی ہے تو بھی وارثِ پاک کے مقامِ ارفع کے خلاف ہے ۔ کہاں وہ ، کہاں ہم ۔ بزرگانِ دین کے لئے بھی ایسی باتیں جن سے مماثلت و مساوات کا پہلو غالب آۓ ان سے بچنا ہی بہتر ہے ۔ 
واللہ اعلم
══════ ༺❀༻ ══════
کتبہ:- ڈاکٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی عفی عنہ 
صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی 
05/12/ 2025 ۶
9224455977
ترسیل: ثنائی دارالبنات ایجوکیشنل ٹرسٹ 
کڑوس بھیونڈی مہاراشٹرا

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area