کامیاب طالب علم قسط نمبر سوم
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ازقلم:- محمدمنیرالدین مصباحی
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ازقلم:- محمدمنیرالدین مصباحی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
مطالعہٕ کتب اورطالب علم
طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ سبق میں حاضرہونے سے پہلےکم ازکم اتنی مقدار سبق کامطالعہ ضرورکرلیاکرے ،جتنااس دن سبق ہونے کااندازہ ہو-
لیکن مطالعہ کامطلب یہ نہیں کہ سرسری نظرسے صرف عبارت خوانی پر اکتفاکرے بلکہ مطالعہ کامطلب ہوتاہے کہ کتاب کواس طرح پڑھنا کہ مصنف کی مراد ظاہر ہوجاۓ،خیرالاذکیاعلامہ محمداحمدمصباحی صاحب مدظلہ العالی نے ایک موقعے پر طلباۓ اشرفیہ کونصیحت کرتے ہوۓ فرمایاتھا ”مطالعہ“ ھوالاطلاع علی مرادالمصنف
یعنی مطالعہ کامطلب ہوتاہے مصنف علیہ الرحمہ کی مراد پر مطلع ہونا،واقف ہونا-
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ طلبا جب سبق خود سمجھ لیں گے تواستاذ کے پاس جانے کی کیاضرورت ؟اس کاجواب یہ ہے کہ استاذ کے پاس اس غرض سے جاۓ کہ میں نے جوسمجھاہے وہ صحیح سمجھاہے یااس میں کچھ کمی ہے اگرکچھ کمی ہے تودورجاۓگی،اوراگرکہیں بھول سمجھاہے تواس کی اصلاح ہوجاۓ گی،اوراگر کہیں انتہاٸی کوشش کے باوجود سبق سمجھ میں نہ آۓ تو استاذ کے پاس سمجھ لیں گے
طالب علم کے لئے مطالعہ اورتکرار کی اہمیت
اور یہ بات کسی دلیل کے محتاج نہیں ہے کہ طالب علم کے لئے سبق میں حاضری
اوراستاذکے سامنے عبارت پڑھنے سے قبل اُس کا مطالعہ کرنا از حد ضروری ہے۔
*اس بارے میں سلف صالحین سے بہت سے اقوال منقول ہیں*-
*الف*: - علامہ زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ نے علماء کا یہ مقولہ نقل کیا ہے کہ السَّبَقُ حَرف وَالتَّكْرَارُ أَلف (یعنی سبق کی مقدارا اگر چہ کم ہو، لیکن درس میں حاضری سے قبل اس کا تکرار ہاربارہوناچاہیے
ب :۔ اسی ضمن میں آپ نے فرمایا کہ ذہن میں سبق اچھی طرح محفوظ ہونے کے لئے مناسب ہے کہ طالب علم تکرار کی ایک تعداد مقرر کرلے؛ کیوں کہ عام طور پر بار بار دہرائے بغیر بات ذہن میں راسخ نہیں ہوتی ہے-
*ج*: علامہ ابوالحق شیرازی کے حالات میں لکھا ہے کہ انہیں ” باقلا “کے شور بے والا ثرید بہت پسند تھا؛ لیکن مسلسل سبق کی مشغولی اور عبارت خوانی کے شوق کی
وجہ سے آپ کووہ ثرید کھانے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ آپ خود فرماتے تھے کہ میں سبق کے ہر حصہ کو ایک ہزار مرتبہ دو ہرایا کرتا تھا ، اور اگر کسی معاملے میں کوئی شعر دلیل میں پیش کیا جاتا تو میں
صرف ایک شعر کے بجائے پورا قصیدہ ہی یاد کر لیا کرتا تھا ۔
(معالم ارشاد یہ ۵ ۲۵-۲۵۶)
*تکرار کا بے مثال معمول*
علامہ سبکی نے” الطبقات الکبر“میں لکھا ہے کہ علامہ ابوالحسن الکیا ہر اسی جب نیشا پور کے ”مدرسہ سر ہنگ“ میں زیر تعلیم تھے ، تو وہاں ایک چشمہ نما نہر تھی ، جس میں اُترنے کے لئے
سیڑھی کے ۷۰ درجات تھے، تو جب سبق ختم ہو جاتا ، تو موصوف اس نہر میں
اترتے اورسیڑھی کے ہر دروجہ میں ایک مرتبہ سبق دوہراتے تھے ، اور چڑھتے ہوئے بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
(اس طرح اترتے چڑھتے ہوئے ١٤۰ مرتبہ تکرار ہو جاتا تھا )
اور بعض کتابوں میں ہے کہ ہر درجہ پر ے ٧ مرتبہ سبق دوہراتے تھے، تو اس حساب سے تکرار کی تعداد ٤۹۰ مرتبہ ہو جاتی ہے۔
(معالم ارشاد یہ ۲۵۷)
ان واقعات سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ سلف ،صالحین بزرگان کوتکراراورمطالعہ کاکتناشوق تھااس عشرعشیر بھی آج کےطلباکے اندار پیداہوجاۓ توکامیابی قدم چومیگی -
کتابوں کے مطالعہ اور تکرار کے محیر العقول واقعات
مطالعہٕ کتب اورطالب علم
طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ سبق میں حاضرہونے سے پہلےکم ازکم اتنی مقدار سبق کامطالعہ ضرورکرلیاکرے ،جتنااس دن سبق ہونے کااندازہ ہو-
لیکن مطالعہ کامطلب یہ نہیں کہ سرسری نظرسے صرف عبارت خوانی پر اکتفاکرے بلکہ مطالعہ کامطلب ہوتاہے کہ کتاب کواس طرح پڑھنا کہ مصنف کی مراد ظاہر ہوجاۓ،خیرالاذکیاعلامہ محمداحمدمصباحی صاحب مدظلہ العالی نے ایک موقعے پر طلباۓ اشرفیہ کونصیحت کرتے ہوۓ فرمایاتھا ”مطالعہ“ ھوالاطلاع علی مرادالمصنف
یعنی مطالعہ کامطلب ہوتاہے مصنف علیہ الرحمہ کی مراد پر مطلع ہونا،واقف ہونا-
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ طلبا جب سبق خود سمجھ لیں گے تواستاذ کے پاس جانے کی کیاضرورت ؟اس کاجواب یہ ہے کہ استاذ کے پاس اس غرض سے جاۓ کہ میں نے جوسمجھاہے وہ صحیح سمجھاہے یااس میں کچھ کمی ہے اگرکچھ کمی ہے تودورجاۓگی،اوراگرکہیں بھول سمجھاہے تواس کی اصلاح ہوجاۓ گی،اوراگر کہیں انتہاٸی کوشش کے باوجود سبق سمجھ میں نہ آۓ تو استاذ کے پاس سمجھ لیں گے
طالب علم کے لئے مطالعہ اورتکرار کی اہمیت
اور یہ بات کسی دلیل کے محتاج نہیں ہے کہ طالب علم کے لئے سبق میں حاضری
اوراستاذکے سامنے عبارت پڑھنے سے قبل اُس کا مطالعہ کرنا از حد ضروری ہے۔
*اس بارے میں سلف صالحین سے بہت سے اقوال منقول ہیں*-
*الف*: - علامہ زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ نے علماء کا یہ مقولہ نقل کیا ہے کہ السَّبَقُ حَرف وَالتَّكْرَارُ أَلف (یعنی سبق کی مقدارا اگر چہ کم ہو، لیکن درس میں حاضری سے قبل اس کا تکرار ہاربارہوناچاہیے
ب :۔ اسی ضمن میں آپ نے فرمایا کہ ذہن میں سبق اچھی طرح محفوظ ہونے کے لئے مناسب ہے کہ طالب علم تکرار کی ایک تعداد مقرر کرلے؛ کیوں کہ عام طور پر بار بار دہرائے بغیر بات ذہن میں راسخ نہیں ہوتی ہے-
*ج*: علامہ ابوالحق شیرازی کے حالات میں لکھا ہے کہ انہیں ” باقلا “کے شور بے والا ثرید بہت پسند تھا؛ لیکن مسلسل سبق کی مشغولی اور عبارت خوانی کے شوق کی
وجہ سے آپ کووہ ثرید کھانے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ آپ خود فرماتے تھے کہ میں سبق کے ہر حصہ کو ایک ہزار مرتبہ دو ہرایا کرتا تھا ، اور اگر کسی معاملے میں کوئی شعر دلیل میں پیش کیا جاتا تو میں
صرف ایک شعر کے بجائے پورا قصیدہ ہی یاد کر لیا کرتا تھا ۔
(معالم ارشاد یہ ۵ ۲۵-۲۵۶)
*تکرار کا بے مثال معمول*
علامہ سبکی نے” الطبقات الکبر“میں لکھا ہے کہ علامہ ابوالحسن الکیا ہر اسی جب نیشا پور کے ”مدرسہ سر ہنگ“ میں زیر تعلیم تھے ، تو وہاں ایک چشمہ نما نہر تھی ، جس میں اُترنے کے لئے
سیڑھی کے ۷۰ درجات تھے، تو جب سبق ختم ہو جاتا ، تو موصوف اس نہر میں
اترتے اورسیڑھی کے ہر دروجہ میں ایک مرتبہ سبق دوہراتے تھے ، اور چڑھتے ہوئے بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
(اس طرح اترتے چڑھتے ہوئے ١٤۰ مرتبہ تکرار ہو جاتا تھا )
اور بعض کتابوں میں ہے کہ ہر درجہ پر ے ٧ مرتبہ سبق دوہراتے تھے، تو اس حساب سے تکرار کی تعداد ٤۹۰ مرتبہ ہو جاتی ہے۔
(معالم ارشاد یہ ۲۵۷)
ان واقعات سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ سلف ،صالحین بزرگان کوتکراراورمطالعہ کاکتناشوق تھااس عشرعشیر بھی آج کےطلباکے اندار پیداہوجاۓ توکامیابی قدم چومیگی -
کتابوں کے مطالعہ اور تکرار کے محیر العقول واقعات
علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے بعض علماء کے حوالے سے مالکیہ کے بڑے عالم امام ابوبکر الا بہری کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے ابن عبد الحکم کی ”المختصر“ ۵/سو مرتبہ پڑھی۔ اور ”الاسدیہ“ ۷۵ مرتبہ، اور "المؤطا“ ٤۵ مرتبہ، اور ”مختصر البرقی“
٧٠مرتبہ اور مبسوط ۳۰ مرتبہ پڑھی ہے۔
اور قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اُستاذ محترم الامام الحافظ الناقد غالب بن عبد الرحمن ابن عطیہ الغرناطی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں تحریر فرمایا ہے کہ آں موصوف نے اپنی ٧٧ سالہ زندگی میں نے ٧/سو مرتبہ مکمل بخاری شریف پڑھی تھی ، اس حساب سے گویا کہ انہوں نے
گویاکہ انہوں نے٦۰ سال تک ہر مہینے میں ایک مرتبہ بخاری شریف کا ختم فرمایا۔
اور علامہ محمد بن علی بن علوی خرد التریمی (المتوفی ۹٦۰ھ) نے اپنی کتاب
”غرراالبھا ٕالضوی“ میں نوّے صدی ہجری کے معروف عالم : علامہ محقق العصر
فضل بن عبداللہ بن ابی فضل
العلوى التریمی کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ نے ایک ہزار مرتبہ بخاری شریف کا مکمل ختم فرمایا تھا۔ اور بقول مصنف تاریخ میں آپ کے علاوہ کسی کے بارے
میں اتنی مرتبہ بخاری شریف پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا۔
اور علامہ سیوطی کی کتاب ”المنہاج السوی“ میں حضرت امام نووی
( شارح مسلم)
کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت امام نووی نے اپنی بعض تالیفات میں امام
غزالی کی کتاب ”الوسیط“ سے کوئی عبارت نقل کی، تو بعض لوگ اس عبارت کے بارے میں آپ سے بحث کرنے لگے، تو آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ مجھ سے بحث کر رہے ہیں، حالاں کہ میں نے اس
کتاب ”الوسط“ کا مکمل٤ سو مرتبہ مطالعہ کر رکھا ہے۔
ان تمام حوالوں سے معلوم ہوا کہ سلف صالحین نہ صرف درس کا تکرار کرتے
تھے ،بلکہ دیگر کتابوں کا بھی بار بار مطالعہ کرتے تھے؛ تا کہ کتا بیں اچھی طرح یاد ہو جائیں ۔ اس عمل کی وجہ سے ان کے لئے بعد میں تدریس اور تصنیف کا عمل آسان ہو جاتا تھا۔
(معالم ارشاد یہ ۲۵۸-۲۵۹)
طالب علم سبق کامطالعہ اورتکرار کتنی مرتبہ کرے
علامہ زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ مناسب ہے کہ تازہ سبق کو ۱۵ مرتبہ
دوہرائیں ، اور گذشتہ سبق کو ٤ مرتبہ، اور اس سے پہلے کے سبق کو ۳ مرتبہ ، اوراس
سے قبل والے کو۲ مرتبہ دو ہرایا کریں۔ اس سے یادرکھنے اور سمجھنے میں مدد ملے گی۔
(معالم ارشاد یہ ۲۶۰)
طالب علم بالجہر کتابوں کامطاللعہ اورتکرار کرے
طالب علم اسباق کامطالعہ اورتکرارمناسب آواز سے کرے کیوں تیز آواز پڑھنے سے کتاب جلدیادہوجاتی ہے-
علامہ زرنوجی رحمةاللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ طالب علم کو چاہئے کہ
چپکےچپکے بلاآوازسبق کے مطالعہ اور تکرار کی عادت نہ ڈالے؛ بلکہ متوسط آواز سے تکرار کا معمول بنائے؛ کیوں کہ
درس وتکرارمیں جوش اور نشاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ (اور اس کے لئے آواز مناسب ہے ) البتہ اتنی بلند آواز نہ ہو کہ جلدی تھک کر بیٹھ جائے ؛ بلکہ میانہ روی کا خیال رکھا جائے۔
٧٠مرتبہ اور مبسوط ۳۰ مرتبہ پڑھی ہے۔
اور قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اُستاذ محترم الامام الحافظ الناقد غالب بن عبد الرحمن ابن عطیہ الغرناطی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں تحریر فرمایا ہے کہ آں موصوف نے اپنی ٧٧ سالہ زندگی میں نے ٧/سو مرتبہ مکمل بخاری شریف پڑھی تھی ، اس حساب سے گویا کہ انہوں نے
گویاکہ انہوں نے٦۰ سال تک ہر مہینے میں ایک مرتبہ بخاری شریف کا ختم فرمایا۔
اور علامہ محمد بن علی بن علوی خرد التریمی (المتوفی ۹٦۰ھ) نے اپنی کتاب
”غرراالبھا ٕالضوی“ میں نوّے صدی ہجری کے معروف عالم : علامہ محقق العصر
فضل بن عبداللہ بن ابی فضل
العلوى التریمی کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ نے ایک ہزار مرتبہ بخاری شریف کا مکمل ختم فرمایا تھا۔ اور بقول مصنف تاریخ میں آپ کے علاوہ کسی کے بارے
میں اتنی مرتبہ بخاری شریف پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا۔
اور علامہ سیوطی کی کتاب ”المنہاج السوی“ میں حضرت امام نووی
( شارح مسلم)
کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت امام نووی نے اپنی بعض تالیفات میں امام
غزالی کی کتاب ”الوسیط“ سے کوئی عبارت نقل کی، تو بعض لوگ اس عبارت کے بارے میں آپ سے بحث کرنے لگے، تو آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ مجھ سے بحث کر رہے ہیں، حالاں کہ میں نے اس
کتاب ”الوسط“ کا مکمل٤ سو مرتبہ مطالعہ کر رکھا ہے۔
ان تمام حوالوں سے معلوم ہوا کہ سلف صالحین نہ صرف درس کا تکرار کرتے
تھے ،بلکہ دیگر کتابوں کا بھی بار بار مطالعہ کرتے تھے؛ تا کہ کتا بیں اچھی طرح یاد ہو جائیں ۔ اس عمل کی وجہ سے ان کے لئے بعد میں تدریس اور تصنیف کا عمل آسان ہو جاتا تھا۔
(معالم ارشاد یہ ۲۵۸-۲۵۹)
طالب علم سبق کامطالعہ اورتکرار کتنی مرتبہ کرے
علامہ زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ مناسب ہے کہ تازہ سبق کو ۱۵ مرتبہ
دوہرائیں ، اور گذشتہ سبق کو ٤ مرتبہ، اور اس سے پہلے کے سبق کو ۳ مرتبہ ، اوراس
سے قبل والے کو۲ مرتبہ دو ہرایا کریں۔ اس سے یادرکھنے اور سمجھنے میں مدد ملے گی۔
(معالم ارشاد یہ ۲۶۰)
طالب علم بالجہر کتابوں کامطاللعہ اورتکرار کرے
طالب علم اسباق کامطالعہ اورتکرارمناسب آواز سے کرے کیوں تیز آواز پڑھنے سے کتاب جلدیادہوجاتی ہے-
علامہ زرنوجی رحمةاللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ طالب علم کو چاہئے کہ
چپکےچپکے بلاآوازسبق کے مطالعہ اور تکرار کی عادت نہ ڈالے؛ بلکہ متوسط آواز سے تکرار کا معمول بنائے؛ کیوں کہ
درس وتکرارمیں جوش اور نشاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ (اور اس کے لئے آواز مناسب ہے ) البتہ اتنی بلند آواز نہ ہو کہ جلدی تھک کر بیٹھ جائے ؛ بلکہ میانہ روی کا خیال رکھا جائے۔
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
راقم الحروف:محمدمنرالدین رضوی مصباحی،خادم التدریس مدرسہ کنزالعلوم اسلامیہ گوپی ناتھ پور ،تھانہ اسلام پور،مرشدآباد
بنگال
راقم الحروف:محمدمنرالدین رضوی مصباحی،خادم التدریس مدرسہ کنزالعلوم اسلامیہ گوپی ناتھ پور ،تھانہ اسلام پور،مرشدآباد
بنگال