(سوال نمبر 5246)
نکاح کے وقت نکاح پڑھانے والا دلہن سے اجازت کس طرح لے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں میں بحیثیت نکاح خاں قاضی محمد اعظم نواز برکاتی ابن نور محمد صاحب سلمہ بانو بنت رضوان صاحب کی نیک دختر آپ کے عقد مسنون علی جناب رضوان صاحب ابن عرفان صاحب کے ساتھ اپ کا نکاح کیا جا رہا ہے آپ کا مہر مطلق دس ہزار سات سو چھیاسی روپے سکے رائج الوقف مع نان ونفقہ و سکنی کے دو گواہوں کی موجودگی میں گواہ اول علی جناب شبیر صاحب گواہ دوم علی جناب برکت صاحب وکیل علی جناب عظمت صاحب کیا آپ اپنی عقد مسنون کرانے کی اجازت دیتی ہے کیا اس طرح کا لفظ استعمال کرنے سے ایجاب و قبول ہو جائے گی لڑکی سے؟
سائل:- محمد اعظم نواز برکاتی بھاگلپور بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت صحیح ہے
یاد رہے نکاح پڑھانے والا خود وکیل ہے لڑکی سے یوں کہے میں بحیثیت وکیل اپ کا نکاح فلاں کے ساتھ اتنے مہر کے عوض مع نان و نفقہ و سکنی کے اپ قبول کرتی ہیں یا نکاح پڑھانے کی اجازت دیتی ہے لڑکی ہاں کہے پھر مجلس نکاح میں اکر مروجہ نکاح پڑھائے۔
بلکہ بہتر یہی ہے کہ لڑکی کا ولی یا کوئی قریبی رشتہ دار خود جاکر اجازت لے تاکہ بغیر پردے کے لڑکی کی آواز سن سکے اور اس کے رونے سسکنے یا خاموشی کو دیکھ سکے اس لئے کہ اجنبی کے سامنے لڑکی بول نہیں پاتی پھر پردے کے پیچھے سے کسی کی بھی آواز آسکتی ہے جو شبہ سے خالی نہیں ہے البتہ اجازت لینے والا لڑکی کا محرم ہو یا اجنبی ہو، اجازت لیتے وقت گواہوں کا موجود رہنا بہتر ہے۔
فتاوی شامی میں ہے
قال الشامي (وشرط حضور شاہدین) أي یشہدان علی العاقدین، أما الشہادة علی التوکیل بالنکاح فلیست بشرط لصحّتہ کما قدّمناہ عن البحر وإنما فائدتہا الإثبات عند جحود التوکیل(شامی: ۴/۸۷،)
بہارشریعت میں ہے
عورت سے اذن لیتے وقت گواہوں کی ضرورت نہیں یعنی اُس وقت اگر گواہ نہ بھی ہوں اور نکاح پڑھاتے وقت ہوں تو نکاح ہوگیا، البتہ اذن کے لیے گواہوں کی یوں حاجت ہے کہ اگر اُس نے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ میں نے اذن نہیں دیا تھا تو اب گواہوں سے اس کا اذن دینا ثابت ہو جائے گا
نکاح کاوکیل خود نکاح پڑھائے دوسرے سے نہ پڑھوائے
یہ جو تمام ہندوستان میں عام طور پر رواج پڑا ہوا ہے کہ عورت سے ایک شخص اذن لے کر آتا ہے جسے وکیل کہتے ہیں وہ نکاح پڑھانے والے سے کہہ دیتا ہے میں فلاں کا وکیل ہوں آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ نکاح پڑھا دیجیے یہ طریقہ محض غلط ہے وکیل کو یہ اختیار نہیں کہ اُس کام کے لیے دوسرے کو وکیل بنا دے اگر ایسا کیا تو نکاح فضولی ہوا اجازت پر موقوف ہے اجازت سے پہلے مرد و عورت ہر ایک کو توڑ دینے کا اختیار حاصل ہے بلکہ یوں چاہیے کہ جو پڑھائے وہ عورت یا اُس کے ولی کا وکیل بن خواہ یہ خود اُس کے پاس جا کر وکالت حاصل کرے یا دوسرا اس کی وکالت کے لیے اذن لائے کہ فلاں بن فلاں بن فلاں کو تُو نے وکیل کیا کہ وہ تیرا نکاح فلاں بن فلاں بن فلاں سے کر دے۔ عورت کہے ہاں
نکاح کے وقت نکاح پڑھانے والا دلہن سے اجازت کس طرح لے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں میں بحیثیت نکاح خاں قاضی محمد اعظم نواز برکاتی ابن نور محمد صاحب سلمہ بانو بنت رضوان صاحب کی نیک دختر آپ کے عقد مسنون علی جناب رضوان صاحب ابن عرفان صاحب کے ساتھ اپ کا نکاح کیا جا رہا ہے آپ کا مہر مطلق دس ہزار سات سو چھیاسی روپے سکے رائج الوقف مع نان ونفقہ و سکنی کے دو گواہوں کی موجودگی میں گواہ اول علی جناب شبیر صاحب گواہ دوم علی جناب برکت صاحب وکیل علی جناب عظمت صاحب کیا آپ اپنی عقد مسنون کرانے کی اجازت دیتی ہے کیا اس طرح کا لفظ استعمال کرنے سے ایجاب و قبول ہو جائے گی لڑکی سے؟
سائل:- محمد اعظم نواز برکاتی بھاگلپور بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت صحیح ہے
یاد رہے نکاح پڑھانے والا خود وکیل ہے لڑکی سے یوں کہے میں بحیثیت وکیل اپ کا نکاح فلاں کے ساتھ اتنے مہر کے عوض مع نان و نفقہ و سکنی کے اپ قبول کرتی ہیں یا نکاح پڑھانے کی اجازت دیتی ہے لڑکی ہاں کہے پھر مجلس نکاح میں اکر مروجہ نکاح پڑھائے۔
بلکہ بہتر یہی ہے کہ لڑکی کا ولی یا کوئی قریبی رشتہ دار خود جاکر اجازت لے تاکہ بغیر پردے کے لڑکی کی آواز سن سکے اور اس کے رونے سسکنے یا خاموشی کو دیکھ سکے اس لئے کہ اجنبی کے سامنے لڑکی بول نہیں پاتی پھر پردے کے پیچھے سے کسی کی بھی آواز آسکتی ہے جو شبہ سے خالی نہیں ہے البتہ اجازت لینے والا لڑکی کا محرم ہو یا اجنبی ہو، اجازت لیتے وقت گواہوں کا موجود رہنا بہتر ہے۔
فتاوی شامی میں ہے
قال الشامي (وشرط حضور شاہدین) أي یشہدان علی العاقدین، أما الشہادة علی التوکیل بالنکاح فلیست بشرط لصحّتہ کما قدّمناہ عن البحر وإنما فائدتہا الإثبات عند جحود التوکیل(شامی: ۴/۸۷،)
بہارشریعت میں ہے
عورت سے اذن لیتے وقت گواہوں کی ضرورت نہیں یعنی اُس وقت اگر گواہ نہ بھی ہوں اور نکاح پڑھاتے وقت ہوں تو نکاح ہوگیا، البتہ اذن کے لیے گواہوں کی یوں حاجت ہے کہ اگر اُس نے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ میں نے اذن نہیں دیا تھا تو اب گواہوں سے اس کا اذن دینا ثابت ہو جائے گا
نکاح کاوکیل خود نکاح پڑھائے دوسرے سے نہ پڑھوائے
یہ جو تمام ہندوستان میں عام طور پر رواج پڑا ہوا ہے کہ عورت سے ایک شخص اذن لے کر آتا ہے جسے وکیل کہتے ہیں وہ نکاح پڑھانے والے سے کہہ دیتا ہے میں فلاں کا وکیل ہوں آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ نکاح پڑھا دیجیے یہ طریقہ محض غلط ہے وکیل کو یہ اختیار نہیں کہ اُس کام کے لیے دوسرے کو وکیل بنا دے اگر ایسا کیا تو نکاح فضولی ہوا اجازت پر موقوف ہے اجازت سے پہلے مرد و عورت ہر ایک کو توڑ دینے کا اختیار حاصل ہے بلکہ یوں چاہیے کہ جو پڑھائے وہ عورت یا اُس کے ولی کا وکیل بن خواہ یہ خود اُس کے پاس جا کر وکالت حاصل کرے یا دوسرا اس کی وکالت کے لیے اذن لائے کہ فلاں بن فلاں بن فلاں کو تُو نے وکیل کیا کہ وہ تیرا نکاح فلاں بن فلاں بن فلاں سے کر دے۔ عورت کہے ہاں
( بہارشریعت ح 7 ص 16 مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
27/11/2023
27/11/2023