Type Here to Get Search Results !

توکل علی اللہ (توحید کی بنیاد) بنیادی باتیں

(خطبات جمعہ  خطابی سلسلہ 4)
 توکل علی اللہ (توحید کی بنیاد) بنیادی باتیں
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
جامع و مرتب : مولانا محمد ظفر الدین برکاتی،
مدیر ماہ نامہ کنز الایمان دہلی 
موضوع :- توکل علی اللہ (توحید کی بنیاد) بنیادی باتیں :
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
1- کسی بھی انسان پر کسی بھی نوعیت کا اعتماد اور بھروسہ انسان کی فطرت کا لازمی حصہ ہے. 
2- توکل ، بندے کی اسی لازمی فطرت کا وکیل ہوتا ہے جو ، رب العالمین پر ہو تو ایمان و عقیدہ ہے اور کسی بندے اور خود پر ہو تو بھروسہ ہے. 
3- خوش گوار ٹینشن فری زندگی کے لئے ہر انسان کے لئے توکل ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان اپنے آپ سے بھی نفرت کرنے لگتا ہے. 
4- توکل نہیں تو انسان کبھی احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے یا پھر احساس برتری کا گناہ گار ہو سکتا ہے.. 
5- شیطان کسی بھی انسان کو رب العالمین سے دور کرنے کے لئے سب سے پہلے اللہ رب العزت پر اس کے توکل کو ختم کرتا ہے. 
6- تدبیر سے آزاد لوگ کسب نہ کرنے والے انسان ہرگز متوکل نہیں بلکہ وہ بدعتی ہیں : حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ 
7- توکل. علم و تجربہ ، نوعیت و کیفیت اور اقدام و عمل کے مجموعے کا نام ہے جو تکبر و غرور کو دفن کر دے : حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ و الرضوان 
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم. أما بعد. 
فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ- (پ۲۸، الطلاق:۳ ) جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ (کنز الایمان)
 اللہ عَزَّ وَ جَلَّ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (المائدۃ: ۲۳) اللہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تمہیں ایمان ہے۔ (کنز الایمان)
توکل علی اللہ کا یہ مفہوم و مطلب قطعاً نہیں کہ انسان ذرائع و اسباب سے کام لینا چھوڑ دے بلکہ یہ ہے کہ انسان اپنے کام کیلئے مناسب تدابیر اور تمام ممکنہ اسباب و ذرائع اختیار کرے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے سبب اور مسبب، عمل اور نتیجے میں ربط کو ظاہر فرمایا ہے، اس لئے انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اسباب و ذرائع کو اپنائے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو مکلف قرار دیا ہے اس کا فطری تقاضے کی بنیاد پر انسان اسباب و ذرائع کا محتاج ہے۔ یعنی اسباب کو ترک کرنا ، فطرت کے خلاف چلنا ہے اور نظام قدرت کی صریح مخالفت ہے۔ قرآن مجید میں جابجا اسباب کو اپنانے پر زور دیا گیا ہے۔ یہاں چند آیتیں بطور مثال پیش کی جاتی ہیں :
’’ تم زمین کی راہوں پر چلو ، اور خدا کا دیا ہوا رزق کھائو۔‘‘ (الملک:۱۵) 
’’ زادِ راہ لے لیا کرو اور بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔‘‘ (البقرۃ: ۱۹۷)
اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو مخاطب کر کے مندرجہ ذیل حکم دیا تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کو بچا سکیں ، تاکہ وہ عذابِ الٰہی سے نجات پائیں :
’’ تم کچھ رات رہے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو۔‘‘ (ہود:۸۱)
اسی طرح ایک موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا:
’’ پھر تم میرے بندوں کو راتوں رات لے کر چلے جاؤ، بے شک تمہارا تعاقب کیا جائے گا۔‘‘ (الدخان:۲۳)
قصہ یوسف علیہ السلام میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی یہ نصیحت نقل فرمائی ہے:
’’ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ، نہیں تو وہ تمہارے خلاف ضرور کوئی فریب کی چال چلیں گے۔‘‘ (یوسف:۵)
اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا ہی ایک اور قول نقل کیا ہے:
’’ اے میرے بیٹو ! ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدا دروازوں سے داخل ہونا۔‘‘ (یوسف:۶۷)
رسولِ خدا ﷺ نے علاج معالجہ کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:
’’اے لوگو ! دوا کیا کرو۔ اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں پیدا کی جس کی شفا نہ بنادی ہو (یعنی ہر مرض کی دوا ہے اور شفا بنائی ہے)۔‘‘
مذکورہ سبھی آیتوں میں دیکھ لیں کہ اللہ کے عظیم ترین بندوں نے بھی قدرت الٰہی پر مکمل یقین و ایمان ہونے کے باوجود تدبیر کرنے کی تعلیم و تلقین کی ہے اور ہمارے پیارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو سید المتوکلین ہیں ، پھر بھی ہر کام کی مکمل تیاری فرماتے ہیں ۔ دشمن سے مقابلے کیلئے مقدور بھر تیاری فرماتے، فتح و ظفر کیلئے تمام ممکنہ وسائل کو کام میں لاتے، خود محنت اور کوشش فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمایا کرتے ۔ آپ نے کبھی بھی پیش نظر مقصد و منزل کیلئے لازمی اور فطری اسباب کو ترک نہیں فرمایا۔ اس لئے کہ ترکِ اسباب ، اُس نظام سے بے رخی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زندگی کیلئے طے فرمایا ہے اور نظامِ حیات سے بے توجہی کر کے کبھی کوئی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ 
تاریخ اسلام کا ایک مناسب حال واقعہ سنیں کہ ایک شخص بارگاہِ رسالت مآب میں حاضر ہوا، اس نے ارادہ کیا کہ وہ اپنی اونٹنی کو مسجد کے دروازے کے پاس باندھے بغیر یوں ہی چھوڑ دے۔ اس نے آپ کی خدمت میں عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں ؟ حضور نے فرمایا کہ اسے باندھ اور پھر اللہ پر توکل کر.
یعنی توکل تو اسی صورت میں درست ہوسکتا ہے کہ انسان اسباب اختیار کرے، اللہ تعالیٰ کے قوانین و احکام کی پیروی کرے پھر اللہ پر اعتماد کرے، اپنا معاملہ اس کو سونپ دے اور پھر نتائج اسی کے حوالے کردے۔ ارشادِ الٰہی ہے ’’ آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم خدا ہی کو ہے اور تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں ، تو اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو۔‘‘ (سورہ ہود:۱۲۳)
حضرت عمر نے کچھ لوگوں کو دیکھا جنہیں یہ غلط فہمی تھی کہ توکل ترک ِاسباب کا نام ہے۔ ان لوگوں نے کام کاج چھوڑ رکھا تھا، عجز اور بے عملی کا شکار تھے۔ حضرت عمر نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا: ہم متوکل ہیں ۔ فرمایا: تم جھوٹ کہتے ہو۔ تم متوکل نہیں ۔ توکل تو یہ ہے کہ ایک شخص زمین میں دانہ بوئے پھر اللہ پر توکل کرے۔ 
اپنے مقصد کے حصول کی خاطر ، ترکِ عمل کرنے والا اس شخص کی مانند ہے ، جو فضا میں بغیر پروں کے اڑنا چاہے ، یا، ایندھن کے بغیر مشینوں کو متحرک کرنا چاہے یا محنت کے بغیر زمین سے فصل اگانا چاہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ توکل سے پہلے اسباب کی فکر کیجئے، تبھی نصرت ِ خداوندی شامل حال ہوتی ہے۔
 توکل کو سمجھنے کے لئے آپ کے پاس وقت ہے تو حضرت امام محمد بن محمد غزالی کی کتاب احیاء العلوم اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی کی کتاب غنیۃ الطالبین کو پڑھیں اور دل و دماغ میں توکل کو رچانا بسانا ہے تو حضرت امام غزالی کی کتاب مکاشفۃ القلوب کو پڑھیں جس کی تاثیر یہ ہے کہ آپ اس کے ورق الٹ پلٹ کر پڑھیں گے اور وہ آپ کے دل کے دریچے کھول دے گی. انہی دونوں کتابوں کے حوالے سے چند کار آمد باتیں عرض کرتے ہیں توکل کو برتنے کے لئے : 
1- متوکلین کی صحبت اختیار کیجئے: کہ صحبت اثر رکھتی ہے، جب بندہ توکل کرنے والوں کی صحبت اختیار کرتا ہے تو اس کا بھی توکل کا ذہن بن جاتا ہے اور جو نا شکرے لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی بن جاتا ہے، لہٰذا توکل کی دولت حاصل کرنے کے لئے متوکلین کی صحبت اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔
2- مخلوق کی محتاجی سے بچنے کا عز م کر لیجیے :‏ کہ اس طرح بندہ مخلوق سے بے نیاز ہو کر فقط خالق عَزَّوَجَل ہی پر بھروسہ کرے گا کیونکہ توکل کی بے شمار برکتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ مخلوق کی محتاجی سے بچ جاتا ہے ۔حضرت سیدنا سلیمان خواص رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص صدق نیت سے اللہ ‏سُبحانہ وتَعَالٰی پر توکل کرے، تو اُمراء اور غیر اُمراء سب اُس کے محتاج ہو جائیں گے اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہوگا کیونکہ اس کا مالک عَزَّوَجَل غنی و حمید ہے۔
3- پرسکون اور خوشحال زندگی پر نظر رکھیے :‏ ہماری کامیابی میں ذہنی اور قلبی سکون کا بہت بڑا کردار ہے، ذہنی اور قلبی طور پر مطمئن شخص عموماً پرسکون اور خوشحال زندگی گزارتا ہے اور توکل سے ذہنی و قلبی سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے۔ایک بزرگ ‏فرماتے ہیں کہ میرے شیخ اکثر مجلس میں فرمایا کرتے کہ اپنی تدبیر اُس ذات کے سپرد کردے جس نے تجھے پیدا فرمایا ہے ( فقط اللہ رَبّ العزت پر توکل کر) تو راحت پائے گا۔
4- ربّ تَعَالٰی کی بارگاہ میں توکل کی دعا کیجئے: کہ اس کی رحمت بہت بڑی ہے، اس سے جو مانگو وہ اپنے فضل سے عطا فرماتا ہے، توکل کی یوں دعا مانگئے: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! مجھے اپنے حبیب، ہم گناہگاروں کے طبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّم کے وسیلہ سے توکل کی دولت عطا فرما، مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کرنا، مجھے ہر ہر معاملے میں بس تیری ہی ذات پر بھروسہ کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین 
ایک اللہ والے نے فرمایا ہر آدمی کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے ذمے نہ ہو جائے بلکہ کسب کرے تاکہ خود اور اس کے اہل و عیال خوش حال ہوں۔ حضرت امام احمد بن حنبل سے ا یسے لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا جو کسب نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم متوکل ہیں تو جواب میں حضرت امام نے فرمایا کہ یہ لوگ بدعتی ہیں۔ 
چند احادیث مبارکہ بھی یاد کر لیں جن سے عظمتِ کار کی اہمیت واضح ہو جائے اور کسی کے ذمہ ہو جانے کی مذمت بھی جسے امام احمد بن حنبل نے بدعت فرمایا ہے. 
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے وہ گویا اپنے ہاتھ میں انگارے چنتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ) 
ایک اور جگہ فرمایا کہ جو شخص اپنے کو مانگنے کا عادی بنالے وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کی کوئی بوٹی نہیں ہوگی۔ (متفق علیہ) 
ایک اور جگہ فرمایا کہ کسی شخص کا رسی لے جانا اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لانا اور اسے بیچ دینا کہ اللہ اس کے ذریعہ اس کی آبرو کو بچالے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے اور پھر لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔ (متفق علیہ)
مذکورہ احادیث پاک سے ایک بات سمجھ میں آ چکی ہے کہ بھیک مانگنے یا پوری طرح دوسروں پر منحصر ہو جانے والے متوکل نہیں بلکہ بدعتی ہیں البتہ واقعی مجبور بندہ تو مجبور ہی ہوتا ہے.
 سید المتوکلین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تم اللہ پر اس طرح بھروسہ کرو جیسے اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے، تو وہ تمہیں اس طرح رزق عطا فرمائے گا جیسے پرندوں کو عطا فرماتا ہے کہ وہ صبح کے ‏وقت خالی پیٹ نکلتے ہیں اورشام کو سیر ہو کر لوٹتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت اِمامِ اَہلسنت فرماتے ہیں کہ اللہ پر (مطلق) توکل کرنا فرضِ عین ہے۔ یعنی اَسباب اور تدابیر کو ترک کر کے گوشی نشینی اِختیار کر لینے اور کسب ( رِزقِ حلال کمانا) ترک کر دینے کی شرعاً اِجازت نہیں۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: توکل ترکِ اَسباب کا نام نہیں بلکہ اِعتماد علی الاسباب کا ترک (توکل) ہے۔ یعنی اَسباب کو چھوڑ دینا توکل نہیں بلکہ اسباب پر اعتماد نہ کرنے ( ربّ تَعَالٰی پر اعتماد کرنے)کا نام توکل ہے۔
پھر متوکل کے اَعمال کی مختلف صورتیں اور اُن کے مختلف اَحکام ہیں: اگر کوئی شخص ایسے یقینی اَسباب کو ترک کرے جو اللہ کے حکم سے چیزوں کے ساتھ قائم ہو چکے ہیں کہ اُن سے جدا نہیں ہوں گے تو وہ متوکل نہیں، مثلاً سامنے کھانا رکھا ہو، بھوک بھی ہو اور کھانے کی ضرورت بھی ہو لیکن بندہ اپنا ہاتھ اس کی طرف نہ بڑھائے اور یوں کہے کہ ’’ میں توکل کرتا ہوں ۔‘‘ تو ایسا کرنا توکل نہیں بلکہ وقوفی اور پاگل پن ہے۔ ایسے غیر یقینی اسباب کو ترک کر دینا جن کے بارے میں غالب گمان ہے کہ چیزیں ان کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتیں، مثلاً کوئی شخص شہروں اور قافلوں سے جدا ہو کر سنسان راستے پر سفر کرے جن پر کبھی کبھار ہی کوئی آتا ہے تو اگر اس کا سفر بغیر زاد راہ کے ہو تو یہ (عام شخص کے لئے ) توکل نہیں کیونکہ بزرگانِ دہن کا طریقہ یہ رہا ہے کہ ایسے راستوں پر زادِ راہ لے کر سفر کرتے اور توکل بھی باقی رہتا کیونکہ ان کا اعتماد زادِ راہ پر نہیں بلکہ اللہ کے فضل پر ہوتا، اگرچہ زاد راہ کے بغیر سفر کرنا بھی جائز ہے لیکن یہ توکل کا بلند ترین درجہ ہے اور اسی مرتبہ پر فائز ہونے کی وجہ سے حضرت سیدنا ابراہیم خواص کا سفر بغیر زادِ راہ کے ہوتا ۔
 اگر کوئی شخص کمانے کی بالکل تدبیر نہ کرے تو یہ توکل نہیں بلکہ یہ چیز توکل کو بالکل ختم کر دیتی ہے۔البتہ اگر وہ اپنے گھر یا مسجد میں ایسی جگہ بیٹھ جائے جہاں لوگ اس کی خبر گیری کرتے ہیں تو یہ توکل کے خلاف نہیں۔ سنت کے مطابق رِزقِ حلال کمانا توکل کے خلاف نہیں جبکہ اُس کا اِعتماد سامان اور مال وغیرہ پر نہ ہو. اس کی علامت یہ ہے کہ وہ مال کے چوری یا ضائع ہونے پر غمزدہ نہ ہو۔عیال دار شخص کا اپنے اہل خانہ کے حق میں توکل کرنا درست نہیں، ان کے لئے بقدر حاجت کمانا ضروری ہے، اسی طرح سال بھر کے لئے کھانا وغیرہ جمع کر کے رکھنا بھی توکل کے منافی نہیں۔ البتہ توکل کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ بندہ اس وقت کے لئے ضرورت کے مطابق رکھ لے اور بقیہ مال ذخیرہ نہ کرے بلکہ فقراء میں تقسیم کر دے۔ اپنے آپ کو تکلیف دہ چیزوں سے بچانا بھی توکل کے خلاف نہیں۔ یعنی اپنی اور اپنے اہل و عیال کی خیر خواہی اور بھلائی کے لئے کوئی بھی جایز قدم، توکل کے خلاف اور منافی نہیں.
متوکلین کی طرح بننے اور توکل کا ذہن سوچ بنانے کی ہمیں کوشش کرنا چاہیے جیسے : 
1- توکل کی معلومات حاصل کیجئے: در اصل جب تک ہمیں کسی چیز کے بارے میں تفصیلی معلومات نہ ہوں تب تک اس چیز کو اختیار کرنا یا اس کا ذہن بنانا بہت مشکل ہے، توکل کا ذہن بنانے اور اسے اختیار کرنے کے لئے بھی توکل کی معلومات ہونا ضروری ہے اور ہم نے ابھی عرض کیا ہے کہ توکل کی معلومات کے لئے احیاء العلوم اوت مکاشفۃ القلوب کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
2- توکل اور متوکل سے متعلق بزرگانِ دِین کے اَقوال کا مطالعہ کیجئے: جیسے حضرت سہل بن عبد اللہ نے فرمایا کہ متوکل کی تین نشانیاں ہیں: سوال نہیں کرتا، جب کوئی اسے چیز دے تو رد نہیں کرتا اور جب چیز پاس
آ جائے تو اسے جمع نہیں کرتا۔ خلیفہ اعلیٰ حضرت قطب مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین احمد مدنی اسی کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کرتے کہ ’’ طمع نہیں ، منع نہیں ، جمع نہیں۔" حضرت حمدون فرماتے ہیں کہ توکل، اللہ کے ساتھ مضبوط تعلق کا نام ہے۔ حضرت سہل بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ توکل کا پہلا مقام یہ ہے کہ بندہ اللہ کے سامنے اس طرح ہو جس طرح مردہ غسل دینے والے کے سامنے ہوتا ہے، وہ اسے جس طرح چاہے الٹ پلٹ کرتا ہے۔ حضرت ابو عبداللہ قرشی نے فرمایا کہ ہر وقت اللہ سے تعلق قائم رہنا توکل ہے۔ حضرت اِبن مسروق فرماتے ہیں کہ اللہ کے فیصلے اور احکام کے سامنے سر جھکانا توکل ہے۔ حضرت ابو عثمان حیری فرماتے ہیں کہ اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے اسی پر اکتفا کرنا توکل ہے۔
3- ربّ تَعَالٰی کی قدرت ِ کاملہ پر یقین رکھیے:‏ بندہ رِزق اور دیگر ضرورتوں سے متعلق اللہ کے ضامن اور کفیل ہونے کا تصور رکھے اور اللہ کے کمالِ علم، اس کی کمالِ قدرت کا تصور کرے اور اِس بات پر یقین رکھے کہ اللہ خلافِ وعدہ ، بھول ، عجز اور ہر نقص سے منزہ اور پاک ہے، جب ہمیشہ ایسا تصور ذہن میں رکھے گا تو ضرور اُسے رِزق کے بارے میں ربّ تَعَالٰی پر توکل کی سعادت نصیب ہوجائے گی۔
 4- متوکل کے آداب کا مطالعہ کیجئے: حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی نے متوکل کے لئے گھریلو سامان سے متعلق درج ذیل 6 آداب بیان فرمائے ہیں: پہلا ادب: دروازہ بند کر دے، البتہ زیادہ حفاظتی انتظامات نہ کرے جیسے تالا لگانے کے باوجود پڑوسی کو دیکھ بھال کا کہنا یا کئی تالے لگا دینا۔ دوسرا ادب: گھر میں ایسا سامان نہ رکھے جو چوروں کو چوری پر آمادہ کرے کہ یہ ان کے گناہ میں پڑنے کا سبب ہوگا یا ان کی دل چسپی کا باعث ہوگا۔ تیسرا ادب: بحالت مجبوری کوئی چیز چھوڑکر جانا پڑے تو یہ نیت کرے کہ چور کو مسلط کرنے کا جو فیصلہ اللہ نے فرمایا ہے اس پر راضی ہوں اور یوں کہے: چور جو مال لے گا وہ اس کے لئے حلال ہے یا وہ اللہ کی رضا کے لئے مباح ہے اور اگر چور فقیر ہوا تو اس پر صدقہ ہے، بہتر یہ ہے کہ فقیر کی شرط نہ لگائے۔ چوتھا ادب: جب لوٹ کر آئے اور مال چوری پائے تو غم نہ کرے بلکہ ممکن ہو تو خوش ہو کر یہ کہے: اگر چوری ہونے میں بہتری نہ ہوتی تو اللہ مال واپس نہ لیتا۔ اگر مال وقف نہ کیا تھا تو اسے زیادہ تلاش نہ کرے ، نہ کسی مسلمان پر بدگمانی کرے۔اگر وقف کی نیت کے بعد وہ مال مل جائے تو بہتر یہ ہے کہ اسے قبول نہ کرے اور اگر قبول کر بھی لیا تو فتوی کی رو سے جائز ہے کیونکہ فقط نیت کرنے سے ملکیت ختم نہیں ہوتی، البتہ متوکلین کے نزدیک یہ عمل ناپسندیدہ ہے۔ پانچواں ادب: چور کے لئے بددعا نہ کرے، اگر بد دعا کرے گا تو پھر توکل ختم ہو جائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے چوری ہونے کو ناپسند کیا اور افسوس کیا یوں اس کا زُہد ختم ہوگیا اور اگر بددعا کی تو وہ ثواب بھی نہ ملے گا جو اس مصیبت پر ملتا، فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم ہے : جس نے اپنے اوپر ظلم کرنے والے کو بددعا دی اس نے بدلہ لے لیا۔ چھٹا ادب: اس بات پر غمگین ہو کہ چور چوری کر کے گناہ گار ہو اور عذابِ الٰہی کا مستحق ٹھہرا اور اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرے کہ وہ ظالم کی بجائے مظلوم بنا اور اسے دنیا کا نقصان پہنچا دِین کا نہیں۔
5- ہر وقت اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگئے:‏ کہ یہ عمل توکل اور اس میں پختگی پیدا کرنے میں بہت معاون ہے۔حضرت امام غزالی فرماتے ہیں کہ شیطان خبیث ہے اور تیری عداوت پر ہر وقت کمر بستہ ہے، تو اس لعین کتے سے بچنے کے لئے ہر وقت اللہ سے پناہ مانگتا رہے اور کسی وقت بھی اس کی مکاریوں اور عیاریوں سے غافل نہ ہو بلکہ اللہ کے ذکر سے اس کتے کو بھگا دے، جب تو مردانِ خدا جیسا عزم و یقین اپنے اندر پیدا کرلے گا تو بفضل خدا اِس لعین کے دائو تجھے کچھ ضرر نہیں پہنچا سکیں گے۔ سورۃ النحل آیت ۹۹ میں ربّ تَعَالٰی نے خود فرمایا ہے: اِنَّهٗ لَیْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَ(آیت 99) ) کہ بیشک اس کا کوئی قابو اُن پر نہیں جو ایمان لائے اور اپنے ربّ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ (کنز الایمان) یعنی وہ شیطانی وسوسے قبول نہیں کرتے ۔
6- توکل کے فوائد اور فضائل پر غور کیجیے :‏ جیسے کہ توکل کرنے والا اللہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم کے فرمان پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ توکل کرنے والا لوگوں سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ توکل کرنے والے کو اللہ غیب سے رز ق عطا فرماتا ہے۔ توکل کرنے والے اللہ کو پسند ہیں۔ توکل کرنے والے کو دنیا وآخرت کی بے شمار بھلائیاں نصیب ہوتی ہیں۔ توکل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے ایمان محفوظ ہوجاتا ہے، کیونکہ شیطان جب کسی کے ایمان پر حملہ آور ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کا اللہ تعالیٰ پر یقین اور بھر وسہ کمزور کر دیتا ہے۔ لہٰذا گر آپ اپنے ایمان کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پرکامل بھر وسہ رکھیے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میرے ایک دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ میری ایک نیک آدمی سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا ’’ کیا حال ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’حال تو اُن کا ہی اچھا ہے جن کا ایمان محفوظ ہے اور وہ صرف متوکلین ہی ہیں جن کا اِیمان محفوظ ہے۔"
خلاصہ یہ ہے کہ
 اپنے خالق و مالک رب العالمین پر ایمان و یقین کی حد تک توکل، بنیادی عقیدہ ہے جس کو ہلکے میں نہیں لینا چاہیے اور ٹھیک اسی طرح ہر بندے کو اپنی قابلیت، علم و تجربہ اور محنت و لگن پر جو بھروسہ اور اعتماد ہوتا ہے وہ بھی انتہائی قابل تعریف اور سب کے لئے قابل تقلید ہے. جیسے جھارکھنڈ میں رانچی کے دیہی باشندی جناب صابر علی انصاری کی بیٹی زینت پروین نے پوری ریاست میں بارہویں کے امتحان میں اول مقام حاصل کیا ہے اور قابل تعریف بات یہ ہے کہ نہ کوئی ٹیوشن لیا ہے نہ ٹیلی ویژن دیکھا ہے اور نہ سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھایا ہے، اس لئے اس کے والد محترم سبزی فروش ہیں، اس طرح اس نے ثابت کیا ہے کہ خوش حال گھر کا بیٹا بیٹی ہونا ہی کامیابی کے لئے ضروری نہیں بلکہ کڑی محنت اور لگن کے بھروسے بہت سی کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں اور قوم کی بیٹیوں کو پیغام دیا ہے کہ تعلیم، عزت و شہرت و مقبولیت کا با عزت وسیلہ ہے جس کے لئے کڑی محنت اور لگن چاہیے. اسی طرح جامعہ نگر اوکھلا کی اقصٰی تنویر نے بارہویں کے امتحان میں نناوے فیصد نمبر حاصل کر کے اول مقام حاصل کیا ہے اور دونوں بیٹیوں نے موجودہ ہندوستان میں دوسری بیٹیوں کے لئے حوصلہ مندیوں کا خوش گوار ماحول قائم کیا ہے__

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area