Type Here to Get Search Results !

حضور ﷺ طائف کے بازار میں کتنے صحابہ کی جماعت لے کر گۓ تھے ؟

(سوال نمبر 5257)
حضور ﷺ طائف کے بازار میں کتنے صحابہ کی جماعت لے کر گۓ تھے ؟
........................................
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس مسئلہ کے ذیل میں
حضورﷺ نے طائف کے بازار میں کتنے صحابہ کی جماعت لے کر گۓ تھے 
سائل:- حافط عبدالسبحان نظامی گورکھپور یویی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 
تعداد صاحبہ کے بابت مجھے علم نہیں کہ اقا علیہ السلام کتنے صحابہ کو لے کر بازار طائف گئے تھے اس کے لئے اپ سیرت مصطفی کا مطالعہ کریں 
البتہ سفر طائف میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے غلام حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے ہمراہ تھے۔ طائف میں بڑے بڑے اُمراء اور مالدار لوگ رہتے تھے۔ ان رئیسوں میں عمرو کا خاندان تمام قبائل کا سردار شمار کیا جاتا تھا۔ یہ لوگ تین بھائی تھے۔ عبدیالیل۔مسعود۔ حبیب۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ان تینوں کے پاس تشریف لے گئے اور اسلام کی دعوت دی۔ ان تینوں نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ انتہائی بیہودہ اور گستاخانہ جواب دیا۔ ان بدنصیبوں نے اسی پر بس نہیں کیابلکہ طائف کے شریر غنڈوں کو ابھار دیا کہ یہ لوگ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے ساتھ برا سلوک کریں ۔چنانچہ لچوں لفنگوں کا یہ شریر گروہ ہر طرف سے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر ٹوٹ پڑا اور یہ شرارتوں کے مجسمے آپ پر پتھر برسانے لگے یہاں تک کہ آپ کے مقدس پاؤں زخموں سے لہولہان ہو گئے
اور آپ کے موزے اور نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔ جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم زخموں سے بے تاب ہو کر بیٹھ جاتے تو یہ ظالم انتہائی بے دردی کے ساتھ آپ کا بازو پکڑ کر اٹھاتے اورجب آپ چلنے لگتے تو پھر آپ پر پتھروں کی بارش کرتے اور ساتھ ساتھ طعنہ زنی کرتے۔ گالیاں دیتے۔ تالیاں بجاتے۔ ہنسی اڑاتے۔ حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دوڑ دوڑ کر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر آنے والے پتھروں کو اپنے بدن پر لیتے تھے اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو بچاتے تھے یہاں تک کہ وہ بھی خون میں نہا گئے اور زخموں سے نڈھال ہو کر بے قابو ہو گئے۔ یہاں تک کہ آخر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے انگور کے ایک باغ میں پناہ لی۔ یہ باغ مکہ کے ایک مشہور کافر عتبہ بن ربیعہ کا تھا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا یہ حال دیکھ کر عتبہ بن ربیعہ اور اس کے بھائی شیبہ بن ربیعہ کو آپ پر رحم آگیا اور کافر ہونے کے باوجود خاندانی حمیت نے جوش مارا۔ چنانچہ ان دونوں کافروں نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اپنے باغ میں ٹھہرایا اور اپنے نصرانی غلام ’’عداس‘‘ کے ہاتھ سے آپ کی خدمت میں انگور کا ایک خوشہ بھیجا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے بسم اﷲ پڑھ کر خوشہ کو ہاتھ لگایا تو عداس تعجب سے کہنے لگا کہ اس اطراف کے لوگ تو یہ کلمہ نہیں بولا کرتے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارا وطن کہاں ہے؟ عداس نے کہا کہ میں ’’شہر نینویٰ‘‘ کا رہنے والا ہوں ۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ حضرت یونس بن متی عَلَیْہِ السَّلام کا شہر ہے۔ وہ بھی میری طرح خدا عَزَّوَجَلَّ کے پیغمبر تھے۔ یہ سن کر عداس آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگا اور فوراً ہی آپ کا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا (زرقانی علی المواہب ج۱ ص۳۰۰)
اسی سفر میں جب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم مقام ’’نخلہ‘‘ میں تشریف فرما ہوئے اور رات کو نماز تہجد میں قرآن مجید پڑھ رہے تھے تو ’’ نصیبین‘‘ کے جنوں کی ایک جماعت آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور قرآن سن کر یہ سب جن مسلمان ہو گئے ۔پھر ان جنوں نے لوٹ کر اپنی قوم کو بتایا تو مکہ مکرمہ میں جنوں کی جماعت نے فوج در فوج آ کر اسلام قبول کیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں سورۂ جن کی ابتدائی آیتوں میں خداوند عالم نے اس واقعہ کا تذکرہ فرمایا ہے۔(زرقانی ج۱ ص۳۰۳)
مقام نخلہ میں حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے چند دنوں تک قیام فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم مقام ’’حراء‘‘ میں تشریف لائے اور قریش کے ایک ممتاز سردار مطعم بن عدی کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ کیا تم مجھے اپنی پناہ میں لے سکتے ہو؟ عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی شخص ان سے حمایت اور پناہ طلب کرتاتو وہ اگرچہ کتنا ہی بڑا دشمن کیوں نہ ہو وہ پناہ دینے سے انکار نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ مطعم بن عدی نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اپنی پناہ میں لے لیا اور اس نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ تم لوگ ہتھیار لگا کر حرم میں جاؤ اور مطعم بن عدی خود گھوڑے پر سوار ہو گیااور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو اپنے ساتھ مکہ لایااور حرم کعبہ میں اپنے ساتھ لے کر گیا اور مجمع عام میں اعلان کر دیاکہ میں نے محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم
کو پناہ دی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے سیرت النبی اور سیرت مصطفی کا مطالعہ کریں۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
27/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area