خطبئہ جمعہ ( سلسلہ نمبر3)
عنوان :حلال روزی اور حلال رزق کے ذرائع
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
مرتب:- محمد قمرانجم قادری فیضی
میڈیا سکریٹری ایم ایس او، یوپی
پیشکش:- کل ہند مرکزی امام فاؤنڈیشن دہلی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
نَحمَدہُ و نُصلی علی رسولہ الکریم
اَمّاَ بَعَدْ! فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الْشَّیْطٰنِ الْرّجِیْمِ بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الْرَّحِیْمِ!
یَٰاَیُّھَا النّاَسُ کُلُوْا مِمّاَ فیِ الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّباً وَّ لاَتَتَّبِعُواْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہ لَکُمْ عَدُوُ مُّبِیْن۔
(پارہ 2: سورہ بقرہ: آیت 168)
ترجمہ:
اے لوگو! کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (کنز الایمان)
حضرات محترم : میری تلاوت کردہ آیت کریمہ میں حلال روزی اور حلال رزق کے ذرائع کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ رزق حلال سے مراد حلال اور جائز طریقے سے روزی کمانا ہے۔ کیا آپ نے کبھی اسلام میں کمائی کے تصور کے بارے میں سوچا ہے؟ دولت اور روزی کس طرح کمائی جائے اور مذہب اسلام اس بارے میں ہمیں کیا حکم دیتا ہے؟ کمائی کا کون سا طریقہ بہتر ہے اور کس طریقے کی اسلام میں مذمت کی گئی ہے؟ ان سب باتوں کی وضاحت کی جائے گی.
اسلام اور رزق حلال کا کیا تعلق ہے؟
مسلمانوں کا خیال ہے کہ دولت اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں میں سے ایک ہے جسے قرآن کریم کی کچھ آیات میں خیر یعنی نیکی کے مفہوم میں کہا جاتا ہے ایک آیت میں، اس کا دنیاوی زندگی کی توجہ کے طور پر (سورة الكہف آیت 46) میں ذکر کیا گیا ہے۔
مال اور بیٹے تو دنیا کی زندگی کی (رونق و) زینت ہیں اور نیکیاں جو باقی رہنے والی ہیں وہ ثواب کے لحاظ سے تمہارے پروردگار کے یہاں بہت اچھی اور امید کے لحاظ سے بہت بہتر ہیں۔
مزید یہ کہ مذہب اسلام میں دولت حاصل کرنے کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ہر مسلمان کے لئے حلال آمدنی کی تلاش لازمی ہے.
اسلام بھی سختی اور جدوجہد کے ذریعہ خدا کی طرف سے فراہم کردہ رزق کو حاصل کرنے کی سنجیدگی سے حکم کرتا ہے۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو آمدنی کے لئے دعا کرتا ہو جبکہ اس نے کمائی چھوڑ دی ہو اور اس کے لئے کوشش نہ کرے۔ قرآن پاک میں یہ بھی بیان کردہ ہے: کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی۔ پھر اس کو اس کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا۔(سورة النجم آیت 39-41)
رزق حلال کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
اسلام محنت کے ذریعہ دولت حاصل کرنے کی اہمیت کے ساتھ، انسان کو حلال طریقوں سے پیسہ کمانے پر زیادہ زور دیتا ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے: لوگو جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ۔ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اس آیت کریمہ کی بنیاد پر، صرف وہی کمانا جو حلال ہے، اور غیر قانونی (حرام) چیزوں سے پرہیز کرنا ہی، اسلامی طرز زندگی کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔ بہت ساری اسلامی روایات منصفانہ ذرائع سے معاش کے حصول کے لئے مشورے اور تعریف کرتی ہیں، چوری، دھوکہ دہی، جوئے وغیرہ کے ذریعے نہیں۔
اسلام دراصل پیداواری کاروباری اداروں کی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے جو پیداوار میں اضافہ اور روزگار پیدا کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوئے کے ذریعے پیسہ کمانا ہمارے مذہب اسلام میں حرام ہے۔
اسلام میں حلال کمانے کے فوائد:
خدائے تعالی کا قرب حاصل کرنا ایک ایسا کام ہے جس سے انسان کی دنیا و آخرت میں بھی مدد ہو سکتی ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کریں گے تو لازمی ہے کہ اس کی قربت حاصل کرسکتے ہیں۔ اللہ رب العزت کی قربت حاصل کرنے سے اور اس کے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دعاؤں کی قبولیت ہوگی جو ہم رب تعالیٰ کے حضور مانگتے ہیں۔ اگر اسی طرح ہم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے گئے اور اس کی خوشنودی حاصل کرتے گئے تو قیامت کے دن خدائے وحدہ لاشریک کی شان و شوکت کے سائے تلے رہ سکیں گے۔ ان سب باتوں سے ہمارا ایمان بھی مضبوط ہوتا ہے اور ہم اللہ پاک کی عطا کردہ برکات و احسانات سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔
اسلام میں غیر قانونی کمائی کے منفی اثرات:
جس معاشرے میں ناجائز ذرائع آمدنی یعنی نا انصافی، بد دیانتی، رشوت ستانی، سود خوری، چوری، ڈاکہ زنی، ذخیرہ اندوزی، فریب دہی اور سٹے بازی کا رواج عام ہو جائے تو اس معاشرے کی کشتی بربادی کے گرداب میں پھنس کر رہ جاتی ہے اور بربادی اس معاشرے کا مقدر بن کر رہ جاتی ہے۔ اسلام ہر معاملے میں کسبِ معاش کے ان تمام غلط طریقوں سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اور ناجائز ذرائع اختیار کرنے والوں کو جہنم کی خبر دیتا ہے۔ اسلام کاروباری لین دین، خاص طور پر حلال اور حرام پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ اللہ نے قرآن مجید میں حلال (جائز) اور حرام (ناجائز) کی واضح طور پر تعریف کی ہے۔ انسان کو آمدنی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم پڑھنا چاہئے تاکہ وہ کمائی کے راستے پر اپنا فیصلہ خود کرے۔ اسلام نے کاروبار پر آمدنی اور منافع کے جواز کی پیمائش کے لئے ایک پیمانہ بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: کہ ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اورنہ اس کو (رشوةً) حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو۔
آج کے اس مادی دور نے حلال اور حرام کے فرق کو مٹا دیا جو رزق حلال کماتا ہے اسکا دل نور سے معمور ہوتا ہے، حکمت اور عقلمندی رزق حلال کو بڑھاتی ہے کسب حلال کے معنی ہیں حلال روزی کمانا اس سے مراد یہ ہے کہ رزق کمانے کے ایسے طریقے استعمال کرنا ہے جسے اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز قرار دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان اس کرہ ارض پر اپنی ضرورتیں لیکر پیدا ہوا ہے۔ مثلاً اسے کھانے کیلئے غذا، پینے کیلئے پانی، پہننے کیلئے لباس، گرمی، سردی، بارش اور طوفان یا دیگر موسمی کیفیات سے بچنے کیلئے گھر چاہئے یہ انسان کی بنیادی ضروریات ہیں۔ زندہ رہنے کا دارومدار بھی ان ہی پر ہے۔انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے شب و روز بڑی محنت و مشقت کرتا ہے۔ بے حد دوڑ دھوپ کے بعد اپنا روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے کیونکہ یہ انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں اور اس کے زندہ رہنے کا دارومدار ان ہی ضرورتوں کے پورا ہونے پر ہے۔ خالق کائنات نے تمام بنیادی ضروریات و سہو لتیں تو اس زمین میں پیدا کرکے رکھ چھوڑی ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ہم نے تمہارے لئے اس زمین میں وسائل پیدا کردیئے ہیں اور انکے لئے بھی جن کو تم رزق نہیں پہنچاتے۔ ہر شخص خود محنت و مشقت کرکے ان وسائل کو حاصل کرکے اپنے لئے رزق تلاش کرے یا پھر ان سے اپنی ضروریات اور اپنی جائز خواہشات کی تکمیل کرے۔ اسی جدوجہد او رمحنت کو احکام الہیٰ اور سنت رسول کے مطابق انجام دے تو یہ سب عین عبادت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسب حلال کی اہمیت پر بے حد زور دیا ہے اور کہا کہ حلال روزی، اللہ کی عبادات کے بعد فرض ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اپنے اہل و عیال کیلئے حلال رزق کا بندوبست کرو اور یہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ یعنی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر اور کوئی کمائی نہیں۔ ویسے بھی زرق حلال کی طلب تو ہر مسلمان میں ہونی چاہئے لیکن افسوس آج کے اس مادی دور نے انسان میں حلال اور حرام کے فرق کو مٹا دیا ہے جو حلال روزی کماتا ہے اسکا دل نور سے معمور ہوتا ہے حکمت اور عقلمندی رزق حلال کو بڑھاتی ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ
اے طاہر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
حلال رزق کے ذرائع :
تجارت ، صنعت، زراعت، مویشی پالنا، محنت مزدوری وغیرہ کرنا یہ سارے جائز اور حلال طریقے ہیں۔ روزی روٹی کمانے کیلئے شرط ہے کہ اس میں اسلامی احکامات اپنائے جائیں ۔جب کوئی شخص اپنے لئے کسی پیشے کا انتخاب کرتا ہے تو اللہ رب العزت اس کے مال میں برکت عطا فرماتا ہے اور اس کے گھر میں مال و دولت کے انبار لگا دیتا ہے اور انسان کو اللہ کی اس عنایت پر شکر بجا لانا چاہئے۔ ہمارا دین ہمیں جائز طریقوں سے روزی روٹی کمانے کا حکم دیتا ہے۔حرام مال کے نقصانات اور اسکے مہلک اثرات سے بھی خبردار کرتا ہے تاکہ انسان مال و دولت کی لالچ میں حلال و حرام کی تمیز ہی نہ کھو بیٹھے لیکن افسوس: آج کل دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ لوگ دولت کی حرص میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ ان کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ دولت ناجائز طریقے سے حاصل ہورہی ہے۔کسب حلال شرافت کی علامت اور عزت اور وقار کی دلیل ہے۔ جب تک انسان حلال زرق کی تلاش میں سرگرم رہتا ہے تو اس کو نہ سستی چھوتی ہے اور نہ ہی وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے
بے شک دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا معیوب بات ہے اسلئے کہا جاتا ہے کہ انسان کو حصول رزق کے لئے استقلال سے کام لینا چاہئے۔ جتنا رزق انسان کے مقدر میں اللہ نے رکھ دیا ہوتا ہے وہ اسے مل کر ہی رہتا ہے کوئی اس کے منہ سے نوالہ تک نہیں چھین لیتا ہے۔ خواہ کوئی اسکی راہ میں کتنی ہی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کیوں نہ کرے۔ اسکے حصے کا رزق کوئی نہیں چھین سکتا۔ یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ اللہ کی رضا شامل نہ ہو تو اکوئی پتا اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا۔
انسان اپنی روزی کمانے کیلئے جو اور جیسی بھی محنت کرتا ہے خواہ وہ محنت جسمانی ہو یا دماغی اور اپنا پیسہ بہا کر اپنی روزی روٹی حاصل کرتا ہے۔ اس کوعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پیشے کی حقارت مٹانے کیلئے محنت اور مزدوری کی عزت افزائی کیلئے حضورﷺ نے خود بھی اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ طلب معاش اور کسب حلال ایسا مشغلہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام اور عوام کو جمع فرما دیا۔ اس لئے کسب حلال سنت رسول سمجھ کر کرنا چاہئے۔ اس میں دنیا کی عزت بھی ہے۔ اور آخرت کی سرخروئی بھی ہے اسلئے ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف انبیائے کرام، اولیاء کا ملین، علمائے کرام نے مختلف پیشے اپنائے مثلاً
(1)حضرت آدم علیہ السلام، حضرت لوط علیہ السلام، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے
(2) حضرت نوح علیہ السلام لکڑی کا کام کرتے تھے
(3)حضرت ادریس علیہ السلام کپڑا سینے کا کام کرتے تھے
(4)حضرت ہود اور صالح علیہما السلام تجارت کا کام کرتے تھے
(5) حضرت شعیب علیہ السلام جانور پالنے اور ان کا دودھ بیچنے کا کام کرتے تھے
(6)حضرت داوٗد علیہ السلام لوہے کا کام کرتے تھے
(7)حضرت سلیمٰن علیہ السلام (درخت کے) پَتوں سے پنکھے اور برتن بنانے کا کام کرتے تھے
(8) ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے بکریاں بھی چرائیں اور تجارت کا کام بھی کیا ہے
(9) خلفائے راشدین میں سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ تجارت کا کام کرتے تھے
(10)عظیم صحابی حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ گوشت کا کام کرتے تھے
(11)عشرہ مُبَشَّرَہ سے ایک حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ تجارت کا کام کرتے تھے
(12)امام الأئمہ امام اعظم کپڑا بیچنے کا کام کرتے تھے
(13)ائمَّۂ اَربَعَہ سے ایک امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ کبھی قلی کا کام کرتے تھے تو کبھی پا جامے کا ناڑہ سِل کر بیچتے تھے تو کبھی کچھ کرتے تھے
(14)حضرت عبد اللہ بن مبارک تجارت کا کام کرتے تھے
(15)مصنفین صحاح ستہ سے ایک امام مسلم کپڑے کا کام کرتے تھے
(16)علامہ قاسم بن قطلوبغا حنفی سِلائی کا کام کرتے تھے۔
(17)قُرَّاءِ سَبعَہ سے ایک حضرت حمزہ بن حبیب تمیمی زَیَّات زَیت یعنی زیتون کا تیل بیچنے کا کام کرتے تھے
(18) شمس الائمہ حَلوانی حَلواء یعنی مٹھائی بیچنے کا کام کرتے تھے
(19)صاحب الواقعات و النوازل امام ناطِفی ناطِف یعنی ایک مخصوص مٹھائی بنانے اور بیچنے کا کام کرتے تھے
(20)امام یحیی بن سعید قَطَّان قُطن یعنی روئی بیچنے کا کام کرتے تھے۔
(21) مؤلف کتاب الجوھرہ النیرة امام حَدَّادی حدید یعنی لوہے کا کام کرتے تھے
(22)مؤلف کتاب المغنی فی اصول الفقہ امام صابونی صابون بنانے اور بیچنے کا کام کرتے تھے
(23)امام حسن بن زیاد لُؤلُؤی لُؤلُؤ یعنی موتی بیچنے کا کام کرتے تھے
(24)امام رازی جَصَّاص جَصّ یعنی چونا لگا کر دیوار کو سفید کرنے کا کام کرتے تھے
(25)امام رازی حنفی ابو علی دقَّاق دقیق یعنی آٹا بیچنے یا سونا چاندی کوٹنے کا کام کرتے تھے
(26)امام طحاوی کے استاذ محترم محمد بن احمد جَوارِبی جَوارِب یعنی موزے بنانے یا بیچنے کا کام کرتے تھے
(27)فقیہ حنفی صاحب الفتاوی امام بزّازی بَزّ یعنی کپڑے کا کام کرتے تھے
(28)علامہ جلال الدین عمر بن محمد حنفی خَبَّازی خُبز یعنی روٹی بیچنے کا کام کرتے تھے
(29)علامہ فَنَاری فَنَار یعنی سینگ یا لکڑی کا برتن جس میں چراغ رکھتے تھے تاکہ ہوا سے بجھ نہ جائے، اسے بنانے کا کام کرتے تھے
(30)امام ابو بکر ایوب سَِختِیانی سَِختِیان یعنی بکری کی دباغت شدہ کھال بیچنے کا کام کرتے تھے
(31)امام ابو الحسن علی بن محمد شافعی ماوَردی ماءِ وَرد یعنی گلاب کا عرق بیچنے کا کام کرتے تھے
(32)صاحب المسند احمد بن عمرو بَزَّار بزر یعنی ایک دانہ جس سے چراغ کے لیے تیل نکالا جاتا ہے، اسی تیل کے بیچنے کا کام کرتے تھے
(33)امام ذَہَبی ذَہَب یعنی سونا بیچنے کا کام کرتے تھے
(34)شیخ فرید الدین عَطَّار عطر بیچنے کا کام کرتے تھے
(35)قاضی ابو بکر باقِلَّانی باقِلَّاء یعنی ایک مخصوص سبزی بیچنے کا کام کرتے تھے
(36)شیخ سری سَقَطی سَقَط یعنی چھوٹی موٹی معمولی چیزیں بیچنے کا کام کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ محنت مزدوری کرنا ہاتھ سے کما کر کھانا کوئی کسب اختیار کرنا ،کسی ہنر، فن یا کسی بھی قسم کی کاریگری اور صنعت و حرفت کو ذریعہ معاش کیلئے بطور پیشہ اختیار کرنا کوئی معیوب چیز نہیں اسی لئے محنت کش اللہ کا دوست ہوتا ہے ۔
بلاشبہ ہنر کسی چیز کا بھی ہو وہ اس شخص کے کام آتا ہے۔ اس پر انسان کو چاہئے کہ کچھ نہ کچھ مزید ہنر سیکھتا رہے۔ اسلئے کہا جاتا ہے کہ تعلیم اور ہنر انسان کا زیور ہوتا ہے جسے ہم سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ زندگی میں انسان کو ہر طرح کے وقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چاہے خوشی ہو یا غم پرسکون زندگی ہو یا پھر غربت و مفلسی کی کڑی دھوپ ہو جینا تو ہر حال میں پڑتا ہی ہے۔ خوشی غم میں غم خوشی میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ پیسہ مال بزنس سب ختم ہوسکتا ہے مگر ہنر ایک ایسی دولت ہے جو انسان کا زندگی بھر ساتھ دینا ہے جب سب کچھ ختم ہوجاتا ہے اور غربت کے کالے بادل چھاجائیں اور انسان مایوسیوں کی اندھیری کوٹھری میں بند ہوکر رہ جاتا ہے ایسی صورت میں انسان کے ہاتھ کا ہنر ہی اس کے کام آتا ہے اور وہ اپنے ہنر کو بروئے کار لاتے ہوئے غربت کے اندھیرے سے نکل سکتا ہے اس لئے انسان کو کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنا چاہئے اس سے ملک میں بھی خوشحالی آتی ہے۔
آج دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی ترقی کا راز بھی یہی ہے کہ انکی عوام ہنر مند ہے ۔ وہاں کے لوگ اپنے گھروں کے اندر چھوٹی چھوٹی صنعتیں لگا کر بیٹھے ہیں۔ جو ان کے ہنر پر منحصر ہے اور وہ اپنے ہنر سے خاک کو سونے میں تبدیل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ بیکار کی چیزوں کو بھی کارآمد بنا دیتے ہیں اور اپنے ملک کیلئے زرمبادلہ بھی کماتے ہیں اور اپنی زندگی کو بھی بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے ہنر کبھی ضائع نہیں ہوتا وہ انسان کے برے وقت کا ساتھی ہوتا ہے۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ لوگوں کو اس جانب راغب کرے لوگوں کو کسی نہ کسی ہنر کے سیکھنے پر مجبور کرے آج دنیا میں جتنے بھی مشہور لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنا نام پیدا کیا ان میں ایک چیز قابل مشترک ہے کہ انہوں نے ا پنے وقت کا بہترین استعمال کیا ہے اور وقت کو اپنی بہتری کیلئے اپنے ملک و قوم کی بہتری کیلئے استعمال کیا ہے اسلئے وقت کا بہترین استعمال کرنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ(51)
ترجمہ:اے رسولو !پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو، بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں۔ (پارہ 18، سورۃ المومنون:51)
عزیزان ملت اسلامیہ : رزقِ حلال کھانے اور نیک اعمال کرنے کا حکم صرف امتیوں کو ہی نہیں بلکہ تمام تمام رُسلان عظام کو بھی دیا گیا تھا ۔ ہر رسول کو اُن کے زمانے میں یہ ندا فرمائی گئی تھی۔ پاک رسولوں کو دیا گیا حکم ذکر کرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ رزقِ حلال اور اعمالِ صالحہ (نیکیوں) کی عظمت و اہمیت اُجاگر ہو۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ ہر نبی علیہ السَّلام کا عمل اس کی اُمت کے لئے نمونہ ہوتا ہے، یوں جب امت اپنے نبی علیہ السَّلام کے عمل یعنی رزقِ حلال کو نہایت اہمیت دینے اور نیکیوں کی طرف رغبت کا مشاہدہ کرے گی تو ان اعمال میں پیروی کرے گی جیسے نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اخلاقِ حسنہ اور عبادت و ریاضت کے واقعات بیان کئے جائیں تو لوگوں کو بہت ترغیب ملتی ہے۔ رزقِ حلال کھانے کا یہی حکم اہل ِ ایمان کو بھی دیا گیا چنانچہ اسی آیت کے متعلق نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:”اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں فرماتا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا۔
حلال کمانے کی بہت بڑی فضیلت ہے، رزقِ حلال کھانے والا جنّتی ہے چنانچہ نبیِّ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص پاکیزہ یعنی حلال چیز کھائے اور سنت کے مطابق عمل کرے اور لوگ ا س کے شر سے محفوظ رہیں تو وہ جنّت میں داخل ہو گا۔“
رزقِ حلال کھانے والے کی دعائیں قبول ہوتی ہیں چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ یَارَسول ﷲ:
آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے مُسْتَجَابُ الدَّعوَات بنادے (یعنی ميری سب دعائیں قبول ہوں)رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:”لقمۂ حلال اپنے لئے لازم کرلو تو مُسْتَجَابُ الدَّعْوَات ہوجاؤ گے۔“
حلال و حرام روزی کے متعلق قرآن کے احکام ملاحظہ ہوں:
(1)پاکیزہ رزق کھانے کا حکم پروردگارِ عالَم نے یوں دیا:”اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔ (پ2، البقرۃ: 172)
(2) ناحق مال كھانے اور تھانے کچہری میں لوگوں کو گھسیٹ کر مال بنانے والوں کو یوں منع فرمایا: کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر جان بوجھ کر کھالو۔ (پ2، البقرۃ: 188)
(3)مالِ یتیم ہڑپ کرنے والوں کو سخت وعید سناتے ہوئے فرمایا:
بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔
(پارہ 4،سورۃ النساء:10)
(4)امانت کی ادائیگی کے متعلق حکم دیا: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کرو(پ5،النساء:58)
رزقِ حرام کے متعلق احادیث کریمہ:
(1)نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو اور ایسا حرام گوشت دوزخ کا زیادہ مستحق ہے۔
(2)فرمایا:حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
(3)فرمایا:حرام مال کا کوئی صدقہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
(4)فرمایا:رشوت لینے والا، دینے والا جہنمی ہے
(5)فرمایا:رشوت دینے والے اور لینے والے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے لعنت بھیجی ہے۔ )
(6)حرام کھانے والے کی عبادت و نماز قبول نہیں ہوتی ہے۔
تعلیم ایک ایسی چیز ہے جو کسی کو بھی زمین سے آسمان پر پہنچا سکتی ہے:
مدرسہ سے فارغ نوجوان ڈاکٹرمعین الدین بنے زرعی سائنسداں کی ہم یہاں پر بات کرنے جا رہے ہیں جنہوں نے مدرسہ سے اپنی تعلیم شروع کی اور وہ اب زرعی سائنسدان بن گئے ہیں۔ ڈاکٹر معین الدین اترپردیش کے قصبہ جلال پورمیں پیدا ہوئے۔ اور اپنی ابتدائی تعلیم قصبہ کے مدرسہ ندائے حق میں حاصل کی۔ اس کے بعد مسلسل اپنے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے رہے۔ اور بالآخر انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لی۔ اور فی الحال وہ شری گرو رام رائے یونیورسٹی کے شعبہ زراعت سکول آف ایگریکلچرل سائنسز میں ایسوسی ایٹ پروفیسرکے عہدہ پر فائز ہیں۔ ڈاکٹر معین الدین بتاتے ہیں کہ طالب علمی کے دوران کی زندگی بہت مشکل تھی۔ اور سفر آسانی سے پورا نہیں ہوا ہے۔ جب مَیں دین دیال اپادھیائے گورکھپور یونیورسٹی کے زیر اہتمام چلنے والے این پی جی کالج بڑہل گنج میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اس دوران کئی طرح سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے وہاں پر کرایہ پر مکان نہیں مل رہا تھا۔ جہاں بھی مکان کے لئے جاتا،مجھے ہر جگہ انکار کا ہی سامنا کرنا پڑتا،بلآخر مجھے دو سال تک بھیم سوا آشرم میں زندگی گزارنا پڑا۔ دو سال کے بعد ایک ہندو پریوار نے مجھے کرایہ پر مکان دیا۔
ڈاکٹر معین الدین کے راستہ میں کئی طرح کی مشکلات آئیں، لیکن وہ کبھی ہمت نہیں ہارے۔ اور اپنی پوری توجہ اپنے تعلیم پر رکھتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ زندگی میں کچھ بھی بننا ہے تو تعلیم بغیر محال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ اپنے اندر قوت و طاقت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کی اولین ترجیح بہترین تعلیم ہونی چاہئے۔اور اس کے لئے آپ کو جیسے بھی وسائل دستیاب ہوں۔انہیں کے ساتھ اپنے مقررہ اہداف کو حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھتے رہنا چاہئے۔
ڈاکٹر معین الدین نے ''مونگ پھلی کی نمو، پیداوار اور تیل کے مواد پر نائٹرکے مختلف نامیاتی ذرائع کا اثرکے موضوع پر سیم ہیگن باٹم انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچر، ٹیکنالوجی اینڈ سائنسز، الہ آباد سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر معین الدین نے اپنی تعلیمی لیاقت و صلاحیت اور تحقیقی ذہن سے لوگوں کے دل ودماغ پر ایک نقش چھوڑ رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی کم عمری میں انہیں کئی قومی و بین الاقوامی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ انہیں سب سے پہلے بائیویڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچر اینڈ ٹکنالوجی الہ آباد اتر پردیش کی طرف سے ''15ویں انڈین ایگریکلچرل سائنٹسٹ اینڈ کسان کانگریس'' کے موقع پر۔ 22-24 فروری 2013ء/ کے دوران الہ آباد یونیورسٹی اتر پردیش میں ینگ سائنٹسٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ماحول دوست ماحول کے لیے زرعی اور اپلائیڈ سائنسز میں عالمی اقدامات'' پر تیسری بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر۔ 16-18 جون، 2019ء/ کے دوران تریبھون یونیورسٹی کھٹمنڈو نیپال میں انہیں بہترین استاذ کا ایوارڈ دیا گیا۔
ایوارڈ ملنے پر ڈاکٹر معین الدین کہتے ہیں کہ اتنی کم عمری میں جو عزت مجھے لوگوں سے ملی ہے۔ اسے میں بیان نہیں کر سکتا۔ آج مجھے اگر کہیں پر بھی کسی لائق سمجھا جاتا ہے تو وہ میری تعلیم کی وجہ سے ہے۔ تعلیم ایک ایسی چیز ہے جو کسی کو بھی زمین سے آسمان پر پہنچا سکتی ہے۔ میں جب تعلیم حاصل کر رہا تھا تو میرے لئے سب کچھ آسان نہیں تھا۔ بلکہ اکثر غیر مناسب ماحول کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ لیکن میں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اور آج اسی تعلیم نے سب کچھ میرے لئے مناسب بنا دیا۔ اور جن چیزوں کا حاصل کرنا میرے لئے ناممکن ہوتا تھا آج وہ سب ممکن ہو چکا ہے۔
نوٹ : امام صاحبان مقامی ضرورت کے مطابق اپنا حصہ لے سکتے ہیں. البتہ دین داری کو عام کرنے کی نیت سے اس خطاب کو عام کرتے رہیں_
اور زیادہ سے زیادہ فیس بک گروپ، پیجز، وہاٹس اپ پر شیئر کرتے رہیں _
مرتب:- محمد قمرانجم قادری فیضی
میڈیا سکریٹری ایم ایس او، یوپی
پیشکش:- کل ہند مرکزی امام فاؤنڈیشن دہلی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
نَحمَدہُ و نُصلی علی رسولہ الکریم
اَمّاَ بَعَدْ! فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الْشَّیْطٰنِ الْرّجِیْمِ بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الْرَّحِیْمِ!
یَٰاَیُّھَا النّاَسُ کُلُوْا مِمّاَ فیِ الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّباً وَّ لاَتَتَّبِعُواْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہ لَکُمْ عَدُوُ مُّبِیْن۔
(پارہ 2: سورہ بقرہ: آیت 168)
ترجمہ:
اے لوگو! کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (کنز الایمان)
حضرات محترم : میری تلاوت کردہ آیت کریمہ میں حلال روزی اور حلال رزق کے ذرائع کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ رزق حلال سے مراد حلال اور جائز طریقے سے روزی کمانا ہے۔ کیا آپ نے کبھی اسلام میں کمائی کے تصور کے بارے میں سوچا ہے؟ دولت اور روزی کس طرح کمائی جائے اور مذہب اسلام اس بارے میں ہمیں کیا حکم دیتا ہے؟ کمائی کا کون سا طریقہ بہتر ہے اور کس طریقے کی اسلام میں مذمت کی گئی ہے؟ ان سب باتوں کی وضاحت کی جائے گی.
اسلام اور رزق حلال کا کیا تعلق ہے؟
مسلمانوں کا خیال ہے کہ دولت اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں میں سے ایک ہے جسے قرآن کریم کی کچھ آیات میں خیر یعنی نیکی کے مفہوم میں کہا جاتا ہے ایک آیت میں، اس کا دنیاوی زندگی کی توجہ کے طور پر (سورة الكہف آیت 46) میں ذکر کیا گیا ہے۔
مال اور بیٹے تو دنیا کی زندگی کی (رونق و) زینت ہیں اور نیکیاں جو باقی رہنے والی ہیں وہ ثواب کے لحاظ سے تمہارے پروردگار کے یہاں بہت اچھی اور امید کے لحاظ سے بہت بہتر ہیں۔
مزید یہ کہ مذہب اسلام میں دولت حاصل کرنے کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ہر مسلمان کے لئے حلال آمدنی کی تلاش لازمی ہے.
اسلام بھی سختی اور جدوجہد کے ذریعہ خدا کی طرف سے فراہم کردہ رزق کو حاصل کرنے کی سنجیدگی سے حکم کرتا ہے۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو آمدنی کے لئے دعا کرتا ہو جبکہ اس نے کمائی چھوڑ دی ہو اور اس کے لئے کوشش نہ کرے۔ قرآن پاک میں یہ بھی بیان کردہ ہے: کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی۔ پھر اس کو اس کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا۔(سورة النجم آیت 39-41)
رزق حلال کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
اسلام محنت کے ذریعہ دولت حاصل کرنے کی اہمیت کے ساتھ، انسان کو حلال طریقوں سے پیسہ کمانے پر زیادہ زور دیتا ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے: لوگو جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ۔ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اس آیت کریمہ کی بنیاد پر، صرف وہی کمانا جو حلال ہے، اور غیر قانونی (حرام) چیزوں سے پرہیز کرنا ہی، اسلامی طرز زندگی کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔ بہت ساری اسلامی روایات منصفانہ ذرائع سے معاش کے حصول کے لئے مشورے اور تعریف کرتی ہیں، چوری، دھوکہ دہی، جوئے وغیرہ کے ذریعے نہیں۔
اسلام دراصل پیداواری کاروباری اداروں کی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے جو پیداوار میں اضافہ اور روزگار پیدا کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوئے کے ذریعے پیسہ کمانا ہمارے مذہب اسلام میں حرام ہے۔
اسلام میں حلال کمانے کے فوائد:
خدائے تعالی کا قرب حاصل کرنا ایک ایسا کام ہے جس سے انسان کی دنیا و آخرت میں بھی مدد ہو سکتی ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کریں گے تو لازمی ہے کہ اس کی قربت حاصل کرسکتے ہیں۔ اللہ رب العزت کی قربت حاصل کرنے سے اور اس کے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دعاؤں کی قبولیت ہوگی جو ہم رب تعالیٰ کے حضور مانگتے ہیں۔ اگر اسی طرح ہم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے گئے اور اس کی خوشنودی حاصل کرتے گئے تو قیامت کے دن خدائے وحدہ لاشریک کی شان و شوکت کے سائے تلے رہ سکیں گے۔ ان سب باتوں سے ہمارا ایمان بھی مضبوط ہوتا ہے اور ہم اللہ پاک کی عطا کردہ برکات و احسانات سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔
اسلام میں غیر قانونی کمائی کے منفی اثرات:
جس معاشرے میں ناجائز ذرائع آمدنی یعنی نا انصافی، بد دیانتی، رشوت ستانی، سود خوری، چوری، ڈاکہ زنی، ذخیرہ اندوزی، فریب دہی اور سٹے بازی کا رواج عام ہو جائے تو اس معاشرے کی کشتی بربادی کے گرداب میں پھنس کر رہ جاتی ہے اور بربادی اس معاشرے کا مقدر بن کر رہ جاتی ہے۔ اسلام ہر معاملے میں کسبِ معاش کے ان تمام غلط طریقوں سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اور ناجائز ذرائع اختیار کرنے والوں کو جہنم کی خبر دیتا ہے۔ اسلام کاروباری لین دین، خاص طور پر حلال اور حرام پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ اللہ نے قرآن مجید میں حلال (جائز) اور حرام (ناجائز) کی واضح طور پر تعریف کی ہے۔ انسان کو آمدنی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم پڑھنا چاہئے تاکہ وہ کمائی کے راستے پر اپنا فیصلہ خود کرے۔ اسلام نے کاروبار پر آمدنی اور منافع کے جواز کی پیمائش کے لئے ایک پیمانہ بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: کہ ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اورنہ اس کو (رشوةً) حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو۔
آج کے اس مادی دور نے حلال اور حرام کے فرق کو مٹا دیا جو رزق حلال کماتا ہے اسکا دل نور سے معمور ہوتا ہے، حکمت اور عقلمندی رزق حلال کو بڑھاتی ہے کسب حلال کے معنی ہیں حلال روزی کمانا اس سے مراد یہ ہے کہ رزق کمانے کے ایسے طریقے استعمال کرنا ہے جسے اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز قرار دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان اس کرہ ارض پر اپنی ضرورتیں لیکر پیدا ہوا ہے۔ مثلاً اسے کھانے کیلئے غذا، پینے کیلئے پانی، پہننے کیلئے لباس، گرمی، سردی، بارش اور طوفان یا دیگر موسمی کیفیات سے بچنے کیلئے گھر چاہئے یہ انسان کی بنیادی ضروریات ہیں۔ زندہ رہنے کا دارومدار بھی ان ہی پر ہے۔انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے شب و روز بڑی محنت و مشقت کرتا ہے۔ بے حد دوڑ دھوپ کے بعد اپنا روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے کیونکہ یہ انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں اور اس کے زندہ رہنے کا دارومدار ان ہی ضرورتوں کے پورا ہونے پر ہے۔ خالق کائنات نے تمام بنیادی ضروریات و سہو لتیں تو اس زمین میں پیدا کرکے رکھ چھوڑی ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ہم نے تمہارے لئے اس زمین میں وسائل پیدا کردیئے ہیں اور انکے لئے بھی جن کو تم رزق نہیں پہنچاتے۔ ہر شخص خود محنت و مشقت کرکے ان وسائل کو حاصل کرکے اپنے لئے رزق تلاش کرے یا پھر ان سے اپنی ضروریات اور اپنی جائز خواہشات کی تکمیل کرے۔ اسی جدوجہد او رمحنت کو احکام الہیٰ اور سنت رسول کے مطابق انجام دے تو یہ سب عین عبادت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسب حلال کی اہمیت پر بے حد زور دیا ہے اور کہا کہ حلال روزی، اللہ کی عبادات کے بعد فرض ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اپنے اہل و عیال کیلئے حلال رزق کا بندوبست کرو اور یہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ یعنی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر اور کوئی کمائی نہیں۔ ویسے بھی زرق حلال کی طلب تو ہر مسلمان میں ہونی چاہئے لیکن افسوس آج کے اس مادی دور نے انسان میں حلال اور حرام کے فرق کو مٹا دیا ہے جو حلال روزی کماتا ہے اسکا دل نور سے معمور ہوتا ہے حکمت اور عقلمندی رزق حلال کو بڑھاتی ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ
اے طاہر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
حلال رزق کے ذرائع :
تجارت ، صنعت، زراعت، مویشی پالنا، محنت مزدوری وغیرہ کرنا یہ سارے جائز اور حلال طریقے ہیں۔ روزی روٹی کمانے کیلئے شرط ہے کہ اس میں اسلامی احکامات اپنائے جائیں ۔جب کوئی شخص اپنے لئے کسی پیشے کا انتخاب کرتا ہے تو اللہ رب العزت اس کے مال میں برکت عطا فرماتا ہے اور اس کے گھر میں مال و دولت کے انبار لگا دیتا ہے اور انسان کو اللہ کی اس عنایت پر شکر بجا لانا چاہئے۔ ہمارا دین ہمیں جائز طریقوں سے روزی روٹی کمانے کا حکم دیتا ہے۔حرام مال کے نقصانات اور اسکے مہلک اثرات سے بھی خبردار کرتا ہے تاکہ انسان مال و دولت کی لالچ میں حلال و حرام کی تمیز ہی نہ کھو بیٹھے لیکن افسوس: آج کل دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ لوگ دولت کی حرص میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ ان کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ دولت ناجائز طریقے سے حاصل ہورہی ہے۔کسب حلال شرافت کی علامت اور عزت اور وقار کی دلیل ہے۔ جب تک انسان حلال زرق کی تلاش میں سرگرم رہتا ہے تو اس کو نہ سستی چھوتی ہے اور نہ ہی وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے
بے شک دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا معیوب بات ہے اسلئے کہا جاتا ہے کہ انسان کو حصول رزق کے لئے استقلال سے کام لینا چاہئے۔ جتنا رزق انسان کے مقدر میں اللہ نے رکھ دیا ہوتا ہے وہ اسے مل کر ہی رہتا ہے کوئی اس کے منہ سے نوالہ تک نہیں چھین لیتا ہے۔ خواہ کوئی اسکی راہ میں کتنی ہی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کیوں نہ کرے۔ اسکے حصے کا رزق کوئی نہیں چھین سکتا۔ یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ اللہ کی رضا شامل نہ ہو تو اکوئی پتا اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا۔
انسان اپنی روزی کمانے کیلئے جو اور جیسی بھی محنت کرتا ہے خواہ وہ محنت جسمانی ہو یا دماغی اور اپنا پیسہ بہا کر اپنی روزی روٹی حاصل کرتا ہے۔ اس کوعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پیشے کی حقارت مٹانے کیلئے محنت اور مزدوری کی عزت افزائی کیلئے حضورﷺ نے خود بھی اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ طلب معاش اور کسب حلال ایسا مشغلہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام اور عوام کو جمع فرما دیا۔ اس لئے کسب حلال سنت رسول سمجھ کر کرنا چاہئے۔ اس میں دنیا کی عزت بھی ہے۔ اور آخرت کی سرخروئی بھی ہے اسلئے ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف انبیائے کرام، اولیاء کا ملین، علمائے کرام نے مختلف پیشے اپنائے مثلاً
(1)حضرت آدم علیہ السلام، حضرت لوط علیہ السلام، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے
(2) حضرت نوح علیہ السلام لکڑی کا کام کرتے تھے
(3)حضرت ادریس علیہ السلام کپڑا سینے کا کام کرتے تھے
(4)حضرت ہود اور صالح علیہما السلام تجارت کا کام کرتے تھے
(5) حضرت شعیب علیہ السلام جانور پالنے اور ان کا دودھ بیچنے کا کام کرتے تھے
(6)حضرت داوٗد علیہ السلام لوہے کا کام کرتے تھے
(7)حضرت سلیمٰن علیہ السلام (درخت کے) پَتوں سے پنکھے اور برتن بنانے کا کام کرتے تھے
(8) ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے بکریاں بھی چرائیں اور تجارت کا کام بھی کیا ہے
(9) خلفائے راشدین میں سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ تجارت کا کام کرتے تھے
(10)عظیم صحابی حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ گوشت کا کام کرتے تھے
(11)عشرہ مُبَشَّرَہ سے ایک حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ تجارت کا کام کرتے تھے
(12)امام الأئمہ امام اعظم کپڑا بیچنے کا کام کرتے تھے
(13)ائمَّۂ اَربَعَہ سے ایک امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ کبھی قلی کا کام کرتے تھے تو کبھی پا جامے کا ناڑہ سِل کر بیچتے تھے تو کبھی کچھ کرتے تھے
(14)حضرت عبد اللہ بن مبارک تجارت کا کام کرتے تھے
(15)مصنفین صحاح ستہ سے ایک امام مسلم کپڑے کا کام کرتے تھے
(16)علامہ قاسم بن قطلوبغا حنفی سِلائی کا کام کرتے تھے۔
(17)قُرَّاءِ سَبعَہ سے ایک حضرت حمزہ بن حبیب تمیمی زَیَّات زَیت یعنی زیتون کا تیل بیچنے کا کام کرتے تھے
(18) شمس الائمہ حَلوانی حَلواء یعنی مٹھائی بیچنے کا کام کرتے تھے
(19)صاحب الواقعات و النوازل امام ناطِفی ناطِف یعنی ایک مخصوص مٹھائی بنانے اور بیچنے کا کام کرتے تھے
(20)امام یحیی بن سعید قَطَّان قُطن یعنی روئی بیچنے کا کام کرتے تھے۔
(21) مؤلف کتاب الجوھرہ النیرة امام حَدَّادی حدید یعنی لوہے کا کام کرتے تھے
(22)مؤلف کتاب المغنی فی اصول الفقہ امام صابونی صابون بنانے اور بیچنے کا کام کرتے تھے
(23)امام حسن بن زیاد لُؤلُؤی لُؤلُؤ یعنی موتی بیچنے کا کام کرتے تھے
(24)امام رازی جَصَّاص جَصّ یعنی چونا لگا کر دیوار کو سفید کرنے کا کام کرتے تھے
(25)امام رازی حنفی ابو علی دقَّاق دقیق یعنی آٹا بیچنے یا سونا چاندی کوٹنے کا کام کرتے تھے
(26)امام طحاوی کے استاذ محترم محمد بن احمد جَوارِبی جَوارِب یعنی موزے بنانے یا بیچنے کا کام کرتے تھے
(27)فقیہ حنفی صاحب الفتاوی امام بزّازی بَزّ یعنی کپڑے کا کام کرتے تھے
(28)علامہ جلال الدین عمر بن محمد حنفی خَبَّازی خُبز یعنی روٹی بیچنے کا کام کرتے تھے
(29)علامہ فَنَاری فَنَار یعنی سینگ یا لکڑی کا برتن جس میں چراغ رکھتے تھے تاکہ ہوا سے بجھ نہ جائے، اسے بنانے کا کام کرتے تھے
(30)امام ابو بکر ایوب سَِختِیانی سَِختِیان یعنی بکری کی دباغت شدہ کھال بیچنے کا کام کرتے تھے
(31)امام ابو الحسن علی بن محمد شافعی ماوَردی ماءِ وَرد یعنی گلاب کا عرق بیچنے کا کام کرتے تھے
(32)صاحب المسند احمد بن عمرو بَزَّار بزر یعنی ایک دانہ جس سے چراغ کے لیے تیل نکالا جاتا ہے، اسی تیل کے بیچنے کا کام کرتے تھے
(33)امام ذَہَبی ذَہَب یعنی سونا بیچنے کا کام کرتے تھے
(34)شیخ فرید الدین عَطَّار عطر بیچنے کا کام کرتے تھے
(35)قاضی ابو بکر باقِلَّانی باقِلَّاء یعنی ایک مخصوص سبزی بیچنے کا کام کرتے تھے
(36)شیخ سری سَقَطی سَقَط یعنی چھوٹی موٹی معمولی چیزیں بیچنے کا کام کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ محنت مزدوری کرنا ہاتھ سے کما کر کھانا کوئی کسب اختیار کرنا ،کسی ہنر، فن یا کسی بھی قسم کی کاریگری اور صنعت و حرفت کو ذریعہ معاش کیلئے بطور پیشہ اختیار کرنا کوئی معیوب چیز نہیں اسی لئے محنت کش اللہ کا دوست ہوتا ہے ۔
بلاشبہ ہنر کسی چیز کا بھی ہو وہ اس شخص کے کام آتا ہے۔ اس پر انسان کو چاہئے کہ کچھ نہ کچھ مزید ہنر سیکھتا رہے۔ اسلئے کہا جاتا ہے کہ تعلیم اور ہنر انسان کا زیور ہوتا ہے جسے ہم سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ زندگی میں انسان کو ہر طرح کے وقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چاہے خوشی ہو یا غم پرسکون زندگی ہو یا پھر غربت و مفلسی کی کڑی دھوپ ہو جینا تو ہر حال میں پڑتا ہی ہے۔ خوشی غم میں غم خوشی میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ پیسہ مال بزنس سب ختم ہوسکتا ہے مگر ہنر ایک ایسی دولت ہے جو انسان کا زندگی بھر ساتھ دینا ہے جب سب کچھ ختم ہوجاتا ہے اور غربت کے کالے بادل چھاجائیں اور انسان مایوسیوں کی اندھیری کوٹھری میں بند ہوکر رہ جاتا ہے ایسی صورت میں انسان کے ہاتھ کا ہنر ہی اس کے کام آتا ہے اور وہ اپنے ہنر کو بروئے کار لاتے ہوئے غربت کے اندھیرے سے نکل سکتا ہے اس لئے انسان کو کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنا چاہئے اس سے ملک میں بھی خوشحالی آتی ہے۔
آج دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی ترقی کا راز بھی یہی ہے کہ انکی عوام ہنر مند ہے ۔ وہاں کے لوگ اپنے گھروں کے اندر چھوٹی چھوٹی صنعتیں لگا کر بیٹھے ہیں۔ جو ان کے ہنر پر منحصر ہے اور وہ اپنے ہنر سے خاک کو سونے میں تبدیل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ بیکار کی چیزوں کو بھی کارآمد بنا دیتے ہیں اور اپنے ملک کیلئے زرمبادلہ بھی کماتے ہیں اور اپنی زندگی کو بھی بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے ہنر کبھی ضائع نہیں ہوتا وہ انسان کے برے وقت کا ساتھی ہوتا ہے۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ لوگوں کو اس جانب راغب کرے لوگوں کو کسی نہ کسی ہنر کے سیکھنے پر مجبور کرے آج دنیا میں جتنے بھی مشہور لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنا نام پیدا کیا ان میں ایک چیز قابل مشترک ہے کہ انہوں نے ا پنے وقت کا بہترین استعمال کیا ہے اور وقت کو اپنی بہتری کیلئے اپنے ملک و قوم کی بہتری کیلئے استعمال کیا ہے اسلئے وقت کا بہترین استعمال کرنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ(51)
ترجمہ:اے رسولو !پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو، بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں۔ (پارہ 18، سورۃ المومنون:51)
عزیزان ملت اسلامیہ : رزقِ حلال کھانے اور نیک اعمال کرنے کا حکم صرف امتیوں کو ہی نہیں بلکہ تمام تمام رُسلان عظام کو بھی دیا گیا تھا ۔ ہر رسول کو اُن کے زمانے میں یہ ندا فرمائی گئی تھی۔ پاک رسولوں کو دیا گیا حکم ذکر کرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ رزقِ حلال اور اعمالِ صالحہ (نیکیوں) کی عظمت و اہمیت اُجاگر ہو۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ ہر نبی علیہ السَّلام کا عمل اس کی اُمت کے لئے نمونہ ہوتا ہے، یوں جب امت اپنے نبی علیہ السَّلام کے عمل یعنی رزقِ حلال کو نہایت اہمیت دینے اور نیکیوں کی طرف رغبت کا مشاہدہ کرے گی تو ان اعمال میں پیروی کرے گی جیسے نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اخلاقِ حسنہ اور عبادت و ریاضت کے واقعات بیان کئے جائیں تو لوگوں کو بہت ترغیب ملتی ہے۔ رزقِ حلال کھانے کا یہی حکم اہل ِ ایمان کو بھی دیا گیا چنانچہ اسی آیت کے متعلق نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:”اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں فرماتا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا۔
حلال کمانے کی بہت بڑی فضیلت ہے، رزقِ حلال کھانے والا جنّتی ہے چنانچہ نبیِّ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص پاکیزہ یعنی حلال چیز کھائے اور سنت کے مطابق عمل کرے اور لوگ ا س کے شر سے محفوظ رہیں تو وہ جنّت میں داخل ہو گا۔“
رزقِ حلال کھانے والے کی دعائیں قبول ہوتی ہیں چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ یَارَسول ﷲ:
آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے مُسْتَجَابُ الدَّعوَات بنادے (یعنی ميری سب دعائیں قبول ہوں)رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:”لقمۂ حلال اپنے لئے لازم کرلو تو مُسْتَجَابُ الدَّعْوَات ہوجاؤ گے۔“
حلال و حرام روزی کے متعلق قرآن کے احکام ملاحظہ ہوں:
(1)پاکیزہ رزق کھانے کا حکم پروردگارِ عالَم نے یوں دیا:”اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔ (پ2، البقرۃ: 172)
(2) ناحق مال كھانے اور تھانے کچہری میں لوگوں کو گھسیٹ کر مال بنانے والوں کو یوں منع فرمایا: کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر جان بوجھ کر کھالو۔ (پ2، البقرۃ: 188)
(3)مالِ یتیم ہڑپ کرنے والوں کو سخت وعید سناتے ہوئے فرمایا:
بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔
(پارہ 4،سورۃ النساء:10)
(4)امانت کی ادائیگی کے متعلق حکم دیا: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کرو(پ5،النساء:58)
رزقِ حرام کے متعلق احادیث کریمہ:
(1)نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو اور ایسا حرام گوشت دوزخ کا زیادہ مستحق ہے۔
(2)فرمایا:حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
(3)فرمایا:حرام مال کا کوئی صدقہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
(4)فرمایا:رشوت لینے والا، دینے والا جہنمی ہے
(5)فرمایا:رشوت دینے والے اور لینے والے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے لعنت بھیجی ہے۔ )
(6)حرام کھانے والے کی عبادت و نماز قبول نہیں ہوتی ہے۔
تعلیم ایک ایسی چیز ہے جو کسی کو بھی زمین سے آسمان پر پہنچا سکتی ہے:
مدرسہ سے فارغ نوجوان ڈاکٹرمعین الدین بنے زرعی سائنسداں کی ہم یہاں پر بات کرنے جا رہے ہیں جنہوں نے مدرسہ سے اپنی تعلیم شروع کی اور وہ اب زرعی سائنسدان بن گئے ہیں۔ ڈاکٹر معین الدین اترپردیش کے قصبہ جلال پورمیں پیدا ہوئے۔ اور اپنی ابتدائی تعلیم قصبہ کے مدرسہ ندائے حق میں حاصل کی۔ اس کے بعد مسلسل اپنے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے رہے۔ اور بالآخر انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لی۔ اور فی الحال وہ شری گرو رام رائے یونیورسٹی کے شعبہ زراعت سکول آف ایگریکلچرل سائنسز میں ایسوسی ایٹ پروفیسرکے عہدہ پر فائز ہیں۔ ڈاکٹر معین الدین بتاتے ہیں کہ طالب علمی کے دوران کی زندگی بہت مشکل تھی۔ اور سفر آسانی سے پورا نہیں ہوا ہے۔ جب مَیں دین دیال اپادھیائے گورکھپور یونیورسٹی کے زیر اہتمام چلنے والے این پی جی کالج بڑہل گنج میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اس دوران کئی طرح سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے وہاں پر کرایہ پر مکان نہیں مل رہا تھا۔ جہاں بھی مکان کے لئے جاتا،مجھے ہر جگہ انکار کا ہی سامنا کرنا پڑتا،بلآخر مجھے دو سال تک بھیم سوا آشرم میں زندگی گزارنا پڑا۔ دو سال کے بعد ایک ہندو پریوار نے مجھے کرایہ پر مکان دیا۔
ڈاکٹر معین الدین کے راستہ میں کئی طرح کی مشکلات آئیں، لیکن وہ کبھی ہمت نہیں ہارے۔ اور اپنی پوری توجہ اپنے تعلیم پر رکھتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ زندگی میں کچھ بھی بننا ہے تو تعلیم بغیر محال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ اپنے اندر قوت و طاقت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کی اولین ترجیح بہترین تعلیم ہونی چاہئے۔اور اس کے لئے آپ کو جیسے بھی وسائل دستیاب ہوں۔انہیں کے ساتھ اپنے مقررہ اہداف کو حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھتے رہنا چاہئے۔
ڈاکٹر معین الدین نے ''مونگ پھلی کی نمو، پیداوار اور تیل کے مواد پر نائٹرکے مختلف نامیاتی ذرائع کا اثرکے موضوع پر سیم ہیگن باٹم انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچر، ٹیکنالوجی اینڈ سائنسز، الہ آباد سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر معین الدین نے اپنی تعلیمی لیاقت و صلاحیت اور تحقیقی ذہن سے لوگوں کے دل ودماغ پر ایک نقش چھوڑ رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی کم عمری میں انہیں کئی قومی و بین الاقوامی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ انہیں سب سے پہلے بائیویڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچر اینڈ ٹکنالوجی الہ آباد اتر پردیش کی طرف سے ''15ویں انڈین ایگریکلچرل سائنٹسٹ اینڈ کسان کانگریس'' کے موقع پر۔ 22-24 فروری 2013ء/ کے دوران الہ آباد یونیورسٹی اتر پردیش میں ینگ سائنٹسٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ماحول دوست ماحول کے لیے زرعی اور اپلائیڈ سائنسز میں عالمی اقدامات'' پر تیسری بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر۔ 16-18 جون، 2019ء/ کے دوران تریبھون یونیورسٹی کھٹمنڈو نیپال میں انہیں بہترین استاذ کا ایوارڈ دیا گیا۔
ایوارڈ ملنے پر ڈاکٹر معین الدین کہتے ہیں کہ اتنی کم عمری میں جو عزت مجھے لوگوں سے ملی ہے۔ اسے میں بیان نہیں کر سکتا۔ آج مجھے اگر کہیں پر بھی کسی لائق سمجھا جاتا ہے تو وہ میری تعلیم کی وجہ سے ہے۔ تعلیم ایک ایسی چیز ہے جو کسی کو بھی زمین سے آسمان پر پہنچا سکتی ہے۔ میں جب تعلیم حاصل کر رہا تھا تو میرے لئے سب کچھ آسان نہیں تھا۔ بلکہ اکثر غیر مناسب ماحول کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ لیکن میں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اور آج اسی تعلیم نے سب کچھ میرے لئے مناسب بنا دیا۔ اور جن چیزوں کا حاصل کرنا میرے لئے ناممکن ہوتا تھا آج وہ سب ممکن ہو چکا ہے۔
نوٹ : امام صاحبان مقامی ضرورت کے مطابق اپنا حصہ لے سکتے ہیں. البتہ دین داری کو عام کرنے کی نیت سے اس خطاب کو عام کرتے رہیں_
اور زیادہ سے زیادہ فیس بک گروپ، پیجز، وہاٹس اپ پر شیئر کرتے رہیں _
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
مرتب:- محمد قمرانجم قادری فیضی
میڈیا سکریٹری ایم ایس او، یوپی
پیشکش:- کل ہند مرکزی امام فاؤنڈیشن دہلی