حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان الازہری علیہ الرحمہ کے درج ذیل شعر پر اعتراض کا جواب :
آپ کی خاطر بناۓ دو جہاں
اپنی خاطر جو بنایا آپ ہیں
اعتراض :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعر کے مصرع ثانی سے خدا کا معلل بالاغراض ہونا ثابت ہوتا ہے لہذا یہ شعر درست نہیں !
جواب :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذکورہ شعر کا مصرعِ ثانی
اپنی خاطر جو بنایا ، آپ ہیں
موضوعِ گفتگو ہے ، اس ایک مصرع کو سمجھنے کے لیے آپ کو قرآن اور اصولِ فقہ و بلاغت کی طرف رجوع کرنا پڑے گا ، جب تک آپ کی چشمِ ادراک پر وجوہِ اعجاز کا آفتاب طلوع نہیں ہوگا تب تک حقائق کے چہروں کی نقاب کشائی نہیں ہوگی ، اگر حقائق ہی پوشیدہ رہ جائیں گے تو وہاں آپ کی عقل تشکیک کے حصار سے باہر نہیں آسکتی اور آپ شعر پر سواۓ اظہارِ وہم کے کچھ نہیں کر سکتے ، یہی وجہ تھی کہ بعض لوگ ایسے وہمِ لایعنی کا شکار ہو کر رہ گئے جسے نفیس اور لطیف ذوق کبھی بھی قبول نہیں کرسکتے تھے ، مصرعِ موضوع لہ کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے مصرع کی لفظی ساخت و معنوی ماہیت کو دیکھا جاۓ گا ، اور یہ مشاہدہ علمِ معانی کے بغیر نہیں ہوسکتا
مصرعِ ھذا میں فقط ایک ترکیب ایسی ہے جس کی مراد وضاحت طلب ہے ، اور اسی ترکیب پر بعض لوگ وہم کا شکار ہوۓ ہیں اور دوسروں کے لیے بھی ایجادِ وہم کا سبب بنے ہیں ، وہ ترکیب ہے ( اپنی خاطر ) اسی ترکیب میں وہ حقائقِ بلاغت تھے جن تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے وہم فساد کی شکل اختیار کرگیا اور علمِ کلام کی پیچیدہ ترین بحث کا دروازہ کھول دیا گیا ، میں پوچھتا ہوں کہ جن لوگوں کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کو یہ شعر سمجھ نہیں آۓ گا اور وہ اس کا غلط مفہوم اخذ کریں گے تو کیا جس کلامی بحث کا آپ نے دروازہ کھولا ہے وہ بحث ایسے نااہل لوگوں کو سمجھ آتی ہے ؟ کیا وہ مسائلِ ذات و صفاتِ باری تعالیٰ سے آگاہ ہیں ؟ کیا وہ معلل بالاغراض کی تہہ در تہہ فلسفیانہ موشگافیوں سے شناسا ہیں ؟ کیا وہ تقدیم و تاخیرِ ارادہ کی نسبتوں اور ان میں موجود باریکیوں سے واقف ہیں ؟
یہ سب توہم اور عقلی بے ترتیبی تو آپ کی طرف سے ہے ، ادنی سے ادنی علم رکھنے والا بھی جب یہ مصرع سنتا ہے تو اس کا دماغ اس طرف جاتا ہی نہیں جس طرف آپ ان کو زبردستی لے کر جانا چاہتے ہیں ، اور یہ سب بگاڑ اس لیے ہوا کہ آپ اس ترکیب کے اندر پوشیدہ لطائف اور دقائق و حقائق تک پہنچے ہی نہیں ہیں
تعبیرات :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترکیب ھذا (اپنی خاطر) کی مختلف تعبیرات ہیں
1 : اپنے قیام و ثبوتِ ذات کے لیے
2 : اپنے قیام و ثبوتِ صفات کے لیے
3 : اپنے قیام و ثبوتِ ارادہ کے لیے
4 : اپنے قیام و ثبوتِ قدرت کے لیے
5 : اپنے قیام و ثبوتِ افعال کے لیے
6 : اپنے قیام و ثبوتِ کمال کے لیے
7 : اپنی وحی و رسالت کے لیے
8 : اپنے ظہورِ ذات و صفات کے لیے
یہ سب تعبیرات متعلقاتِ مسندالیہ ہیں ، یعنی ان سب کا تعلق مسندالیہ کے ساتھ ہے ، اب سوال یہ ہوتا ہے کہ ان جملہ تعبیرات میں سے کس تعبیر کا تعین کیا جاۓ ؟
تو اس تعیینِ تعبیر کے لیے آپ کو سب سے پہلے حقیقتِ اسناد سمجھنا ہوگی ، لیکن اس سے بھی پہلے آپ کو شعر میں مسند و مسندالیہ اور اسناد کا سمجھنا امرِ لازمی ہے
فلسفۂ اسناد :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلمہ و قائم مقام کلمہ کا دوسرے کلمہ و قائم مقام کلمہ کے ساتھ ایسے ملاقی ہونا جس سے مخاطب کو یہ فائدہ حاصل ہو کہ دونوں کلموں میں سے ایک کا مفہوم دوسرے کے لیے ثابت ہے یا منتفی ہے جیسے زید قائم اور زید لیس بقائم
جہاتِ اسناد :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسناد کی تین جہتیں ہیں
1 : نسبتِ کلامیہ
2 : نسبت ذہنیہ
3 : نسبتِ خارجیہ
اوّل :
۔۔۔۔۔۔۔
ایسا تعلق ہے جو طرفین میں سے ایک کا دوسرے کے ساتھ کلام سے سمجھا جاتا ہے
جیسے زید قائم ، اس جملے میں قیام کی نسبت جو کلام سے سمجھی جا رہی ہے یہی نسبتِ کلامیہ کہلاتی ہے
ثانی :
۔۔۔۔۔۔۔۔
طرفین میں سے ایک کے دوسرے کے ساتھ تعلق کا جو تصور ذہن متکلم میں ہو اس کو نسبتِ ذہنیہ کہتے ہیں
جیسا کہ زید قائم میں قیام کی نسبت جو زید کی طرف ہے اس کا ایک تصور ہے جو متکلم کے ذہن میں ہے ، یہی نسبتِ ذہنیہ ہے
ثالث :
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے تعلق کو کہتے ہیں جو طرفین میں سے ایک کا دوسرے کے ساتھ خارج میں ہو جیسے خارج میں قیام کی جو نسبت زید کی طرف ہے اسی نسبت کو نسبتِ خارجیہ کہتے ہیں !
1 : مسندالیہ :
اپنی خاطر جو بنایا
2 : مسند :
آپ (مراد ذات محمدی علیہ السلام)
3 : اسناد :
نسبت مابین مسند و مسندالیہ
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں نسبت ہے کون سی ؟ تو سمجھ لیجیے کہ ان میں تینوں نسبتیں ہیں
کلامیہ بھی ہے کہ کلام سے سمجھی جا رہی ہے
ذہنیہ بھی ہے کہ ذہنِ متکلم میں اس کا تصور ہے
خارجیہ بھی ہے کہ اپنے وجود میں متحقق بالامر الخارج ہے
اقسامِ اسناد :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسناد کی پھر دو اقسام ہیں
1 : اسنادِ حقیقی
2 : اسنادِ مجازی
اسنادِ حقیقی میں فعل و معنئ فعل کی نسبت ماہولہ کی طرف ہوتی ہے بشرطیکہ وہ نسبت متکلم کے اعتقاد کے مطابق ہو ، جبکہ اسنادِ مجازی میں فعل و معنئ فعل کی نسبت غیرماہولہ کی طرف ہوتی ہے اور اس میں ایسا قرینہ بھی موجود ہوتا ہے جو اسنادِ حقیقی مراد لینے سے مانع ہوتا ہے
اقسامِ قرینہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسنادِ مجازی میں ایسا قرینہ ہونا ضروری ہوتا ہے جو اس بات پر دلیل ہو کہ اس مقام پر لفظ و کلام کا معنئ حقیقی مراد نہیں ہے بلکہ معنئ مجازی مراد ہے ، قرینہ کی دو اقسام ہیں
1 : لفظیہ
2 : معنویہ
قرینہ لفظیہ وہ ہے جو لفظوں میں موجود ہو جبکہ قرینہ معنویہ وہ ہے جو لفظوں میں موجود نہ ہو
قرینہ معنویہ کی اقسام :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر قرینہ معنویہ کی دو اقسام ہیں
1 : وہ قرینہ ایسا ہو جس سے مسند کا مسندالیہ کے ساتھ قیام عقلاً یا عادۃً محال ہونا معلوم ہو جاۓ
2 : متکلم کی حالت اس بات پر دلیل ہو کہ اس مقام پر اس لفظ کا معنئ ظاہری مراد نہیں ہوسکتا
اقسامِ اسناد باعتبارِ مسند و مسندالیہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسند و مسندالیہ کی حقیقت و مجاز کے اعتبار سے اسنادِ مجازی کی چار اقسام ہیں
1 : مسند و مسندالیہ دونوں حقیقی ہوں
2 : مسند و مسندالیہ دونوں مجازی ہوں
3 : مسند حقیقی اور مسندالیہ مجازی ہو
4 : مسند مجازی اور مسندالیہ حقیقی ہو
اب آپ ذرا شعر کے سانچہ کی طرف دوبارہ توجہ کیجیے
1 : اپنی خاطر جو بنایا ، مسندالیہ حقیقی
2 : آپ ، مسند حقیقی
3 : مسند کا مسندالیہ کے لیے تحقق ، اسناد
یہ وہ مقام ہے جہاں لوگوں کی عقل وہم کا شکار ہوگئی ، وہ صرف اتنا دیکھتے رہے کہ اسناد یعنی حضور کو اپنی ذات کے لیے تخلیق فرمانے کی نسبت مسندالیہ حقیقی کی طرف کی گئی ہے جس سے خدا کا معلل بالاغراض ہونا لازم آتا ہے ، یہ خرابی اس لیے لازم آئی کہ انہوں نے اسناد کی حقیقت پر غور نہیں کیا کہ کیا یہ اسناد حقیقی ہے یا مجازی ؟ کیا یہ اسناد متعلق بہ ذاتِ مسندالیہ ہے یا متعلق بہ متعلقاتِ مسندالیہ ہے ؟
لیکن یہ بات کیسے معلوم ہوتی جب ان کی نظر میں اسنادِ مجازی کے علاقے ہی نہیں تھے جن میں سے ایک الاسناد الی المتعلقات ہے جس میں اسناد کی نسبت لفظی طور پر تو مسندالیہ کی طرف ہوتی ہے لیکن مراد متعلقاتِ مسندالیہ میں سے کوئی ایک متعلق ہوتا ہے جس پر قرینہ لفظیہ یا معنویہ دلالت کرتا ہے اور یہ مجازِ مرسل کی قبیل سے ہے جسے اطلاق الشئء وارادۃ المتعلق کہتے ہیں یعنی شئ بول کو متعلقِ شئ مراد لینا جیسے قرآن میں ہے
اَوْ جَاءَ اَحَدٌ مِّنکُم مِنَ الغَائِطِ
" یا تم میں سے کوئی شخص قضاۓ حاجت کرکے آۓ"
تو یہاں لفظِ غائط یعنی کشادہ نشینی بول کر کشادہ زمین میں کیے جانے والا بول و براز مراد ہے ، گویا شئی بول کر متعلقِ شئی مراد لیا گیا ہے
اب آپ اوپر جملۂ ھذا (اپنی خاطر بنانے) کی تعبیرات میں سات متعلقات ملاحظہ فرمائیں جن کا تعلق ذاتِ باری تعالیٰ سے ہے ، اور غور کریں کہ بنانے کا تعلق کس متعلق سے ہے ؟
ہلکا سا غور کرنے سے معلوم ہو جاۓ گا کہ اس بنانے کا تعلق آخری دو متعلقات سے ہی ہو سکتا ہے
1 : ایک اپنی وحی و رسالت کے لیے ، 2 : یا پھر اپنے ظہورِ ذات و صفات کے ساتھ ہے یعنی خدا نے حضور علیہ السلام کو اپنی وحی و رسالت کے لیے بنایا یا اپنے ظہورِ ذات و صفات کے لیے تخلیق فرمایا
متعلق کو حذف کیوں کیا گیا ؟ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام عبدالقاہر جرجانی دلائل الاعجاز میں لکھتے ہیں
ھذا باب دقیق المسلک ، لطیف المأخذ ، عجیب الامر ، شبیہ بالسحر ، فانک تری بہ ترک الذکر افصح من الذکر ، والصمت عن الافادۃ ازید للافادۃ ، وتجدک انطق ماتکون اذا لم تنطق ، واتم ماتکون بیانا اذا لم تبین ، وھذہ جملۃ قد تنکرھا حتی تخبر ، وتدفعھا حتی تنظر
,, یہ حذف فی الکلام ایسا باب ہے کہ اس کی راہ دشوار ، اس کا حصول باریک ، اس کا معاملہ حیرت انگیز اور سحر آفرینی کے مشابہ ہے ، کیونکہ تم اس باب میں عدمِ ذکر کو ذکر سے فصیح تر اور کسی فائدے کے سبب سے خاموشی کو افادے کے لیے زیادہ مؤثر دیکھو گے اور تم عدمِ تکلم کو تکلم سے اور عدمِ بیان کو بیان سے کامل تر پاؤ گے اور تم اس بات کو اجنبی خیال کرو گے ، یہاں تک کہ تم ہماری اس بات کو تجربے سے آزماؤ اور تم ذکر کردہ کلام کو بعید سمجھو گے ، یہاں تک کہ اس میں کامل غور و فکر کرو ،،
علماۓ بلاغت نے اس کی شرائط میں سے ایک شرط یہ رکھی ہے کہ لفظ و معنی کی صحت کے لیے محذوف کا اعتبار ضروری ہوگا ، بلغا کی اسی بیان کردہ شرط کے تحت اب ہم پر محذوف متعلقات میں سے کسی ایک متعلق کا اعتبار کرنا ضروری ہو جاتا ہے
علامہ ابنِ نجیم مصری الاشباہ والنظائر میں لکھتے ہیں
ان اللفظ الصادر فی مقام التشریع اوالتصریف اذا کان حملہ علی احد المعانی الممکنۃ لایترتب علیہ حکم وحملہ علی معنی الاخر یترتب علیہ حکم فالواجب الحمل علی المعنی المفید للحکم الجدید لان خلافہ اھمال والغاء وان کلام العقلاء یصان عن الالغاء ماامکن
,, امورِ تشریعی یا تصرفات کے بیان میں صادر ہونے والے کسی لفظ کو اگر اس کے ممکنہ معانی میں سے کسی ایک معنی پر محمول کرنے پر کوئی حکم مترتب نہ ہو اور دوسرے معنی پر محمول کرنے پر کوئی حکم مترتب ہو تو اس لفظ کو ایسے معنی پر محمول کرنا واجب ہے جو حکمِ جدید کا فائدہ دے ، کیونکہ اس کے خلاف کی صورت میں اس لفظ کو مہمل و لغو قرار دینا لازم آۓ گا ، اور عقلاء کے کلام کو حتی الامکان لغو ہونے سے بچایا جاتا ہے ،،
اوپر جو ہم نے دو متعلقات ذکر کیے ہیں آئیے ان پر براہین ملاحظہ فرمائیے
متعلقِ اوّل :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآنِ عظیم کی سورۂ طہ میں اللہ سبحانہ ارشاد فرماتا ہے
وَاصْطَنَعْتُکَ لِنَفْسِی
,, اور میں نے تجھے خاص اپنے لیے بنایا ،،
مولانا نعیم الدین مرادآبادی اس کے تحت لکھتے ہیں
,, یعنی اپنی وحی و رسالت کے لیے تاکہ تو میرے ارادہ اور میری محبت پر تصرف کرے اور میری حجت پر قائم رہے اور میرے اور میری خلق کے درمیان خطاب پہنچانے والا ہو ،،
متعلقِ ثانی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام یوسف بن اسماعیل نبھانی جواہر البحار میں لکھتے ہیں
فرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھوالذاتی الوجود وما سواہ فصفاتی الوجود وذالک ان شاءاللہ تعالیٰ لما افراد ان یتجلی فی العالم اقتضی کمال الذات ان یتجلی بکمالہ الذاتی فی اکمل موجودیاتہ من العالم فخلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم من نور ذاتہ لتجلی ذاتہ لان العالم جمیعہ لایسع تجلیہ الذاتی لانھم مخلوقون من انوار الصفات فھو فی العالم بمنزلہ القلب الذی وسع الحق
,, حضور کا وجود ذاتی ہے ، حضور کے علاوہ سب کا وجود صفاتی ہے اور یہ سب اس لیے کہ اللہ سبحانہ نے جب دنیا میں ظاہر ہونے کا ارادہ فرمایا تو پھر کمالِ ذات نے اپنے ذاتی کمال سے دنیا کے اکمل موجودات میں ظاہر ہونے کا اقتضاء کیا ، تو حضور کو اپنی ذات کے ظہور کے لیے اپنے نورِ ذات سے پیدا کیا ، کیونکہ اس کی ذاتی تجلی ساری دنیا میں نہیں سما سکتی تھی ، اس لیے کہ ساری دنیا کی تخلیق انوارِ صفات سے ہے ، تو حضور اس دنیا میں اس دل کی طرح ہیں جس میں تجلئ حق سما سکتی ہے ،،
مذکور متعلقات مراد لینے کی وجہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ اوپر قرینۂ معنویہ کی اقسام میں پڑھ آۓ ہیں کہ متکلم کی حالت اس بات پر دلیل ہو کہ اس مقام پر اس لفظ و عبارت کا معنئ ظاہری مراد نہیں ہے اور متکلم کا اعتقاد اس کے معنئ ظاہری کے مطابق نہیں ، اب کون ہے جو حضور تاج الشریعہ کی ذات کے متعلق یہ خیال کرے کہ انہوں نے خدا کو معلل بالاغراض ٹھہرانے کے لیے کہا ہو
,,اپنی خاطر جو بنایا ، آپ ہیں،،
اور علامہ ابن نجیم مصری کی عبارت میں بھی آپ پڑھ آۓ ہیں کہ
,,عقلاءکے کلام کو حتی الامکان لغو ہونے سے بچایا جاتا ہے،،
اب کون ہے جو حضور تاج الشریعہ کا شمار اہلِ عقل میں نہیں کرتا اور عقل بھی وہ کہ جسے خدا کی خاص توفیقات سے نوازا گیا ہو
ایسا صرف وہی سوچے گا جس کی عقل میں کمی اور جس کے علم میں نقص ہو ورنہ کوئی صاحبِ دیدہ و دل ان کی ذات سے متعلق ایسا نہیں سوچ سکتا لہذا حضور علیہ السلام کی مدح میں کہا گیا یہ شعر شعری و شرعی دنوں قسم کی خرابیوں سے صاف ہے
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
آپ کی خاطر بناۓ دو جہاں
اپنی خاطر جو بنایا آپ ہیں
اعتراض :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعر کے مصرع ثانی سے خدا کا معلل بالاغراض ہونا ثابت ہوتا ہے لہذا یہ شعر درست نہیں !
جواب :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذکورہ شعر کا مصرعِ ثانی
اپنی خاطر جو بنایا ، آپ ہیں
موضوعِ گفتگو ہے ، اس ایک مصرع کو سمجھنے کے لیے آپ کو قرآن اور اصولِ فقہ و بلاغت کی طرف رجوع کرنا پڑے گا ، جب تک آپ کی چشمِ ادراک پر وجوہِ اعجاز کا آفتاب طلوع نہیں ہوگا تب تک حقائق کے چہروں کی نقاب کشائی نہیں ہوگی ، اگر حقائق ہی پوشیدہ رہ جائیں گے تو وہاں آپ کی عقل تشکیک کے حصار سے باہر نہیں آسکتی اور آپ شعر پر سواۓ اظہارِ وہم کے کچھ نہیں کر سکتے ، یہی وجہ تھی کہ بعض لوگ ایسے وہمِ لایعنی کا شکار ہو کر رہ گئے جسے نفیس اور لطیف ذوق کبھی بھی قبول نہیں کرسکتے تھے ، مصرعِ موضوع لہ کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے مصرع کی لفظی ساخت و معنوی ماہیت کو دیکھا جاۓ گا ، اور یہ مشاہدہ علمِ معانی کے بغیر نہیں ہوسکتا
مصرعِ ھذا میں فقط ایک ترکیب ایسی ہے جس کی مراد وضاحت طلب ہے ، اور اسی ترکیب پر بعض لوگ وہم کا شکار ہوۓ ہیں اور دوسروں کے لیے بھی ایجادِ وہم کا سبب بنے ہیں ، وہ ترکیب ہے ( اپنی خاطر ) اسی ترکیب میں وہ حقائقِ بلاغت تھے جن تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے وہم فساد کی شکل اختیار کرگیا اور علمِ کلام کی پیچیدہ ترین بحث کا دروازہ کھول دیا گیا ، میں پوچھتا ہوں کہ جن لوگوں کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کو یہ شعر سمجھ نہیں آۓ گا اور وہ اس کا غلط مفہوم اخذ کریں گے تو کیا جس کلامی بحث کا آپ نے دروازہ کھولا ہے وہ بحث ایسے نااہل لوگوں کو سمجھ آتی ہے ؟ کیا وہ مسائلِ ذات و صفاتِ باری تعالیٰ سے آگاہ ہیں ؟ کیا وہ معلل بالاغراض کی تہہ در تہہ فلسفیانہ موشگافیوں سے شناسا ہیں ؟ کیا وہ تقدیم و تاخیرِ ارادہ کی نسبتوں اور ان میں موجود باریکیوں سے واقف ہیں ؟
یہ سب توہم اور عقلی بے ترتیبی تو آپ کی طرف سے ہے ، ادنی سے ادنی علم رکھنے والا بھی جب یہ مصرع سنتا ہے تو اس کا دماغ اس طرف جاتا ہی نہیں جس طرف آپ ان کو زبردستی لے کر جانا چاہتے ہیں ، اور یہ سب بگاڑ اس لیے ہوا کہ آپ اس ترکیب کے اندر پوشیدہ لطائف اور دقائق و حقائق تک پہنچے ہی نہیں ہیں
تعبیرات :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترکیب ھذا (اپنی خاطر) کی مختلف تعبیرات ہیں
1 : اپنے قیام و ثبوتِ ذات کے لیے
2 : اپنے قیام و ثبوتِ صفات کے لیے
3 : اپنے قیام و ثبوتِ ارادہ کے لیے
4 : اپنے قیام و ثبوتِ قدرت کے لیے
5 : اپنے قیام و ثبوتِ افعال کے لیے
6 : اپنے قیام و ثبوتِ کمال کے لیے
7 : اپنی وحی و رسالت کے لیے
8 : اپنے ظہورِ ذات و صفات کے لیے
یہ سب تعبیرات متعلقاتِ مسندالیہ ہیں ، یعنی ان سب کا تعلق مسندالیہ کے ساتھ ہے ، اب سوال یہ ہوتا ہے کہ ان جملہ تعبیرات میں سے کس تعبیر کا تعین کیا جاۓ ؟
تو اس تعیینِ تعبیر کے لیے آپ کو سب سے پہلے حقیقتِ اسناد سمجھنا ہوگی ، لیکن اس سے بھی پہلے آپ کو شعر میں مسند و مسندالیہ اور اسناد کا سمجھنا امرِ لازمی ہے
فلسفۂ اسناد :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلمہ و قائم مقام کلمہ کا دوسرے کلمہ و قائم مقام کلمہ کے ساتھ ایسے ملاقی ہونا جس سے مخاطب کو یہ فائدہ حاصل ہو کہ دونوں کلموں میں سے ایک کا مفہوم دوسرے کے لیے ثابت ہے یا منتفی ہے جیسے زید قائم اور زید لیس بقائم
جہاتِ اسناد :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسناد کی تین جہتیں ہیں
1 : نسبتِ کلامیہ
2 : نسبت ذہنیہ
3 : نسبتِ خارجیہ
اوّل :
۔۔۔۔۔۔۔
ایسا تعلق ہے جو طرفین میں سے ایک کا دوسرے کے ساتھ کلام سے سمجھا جاتا ہے
جیسے زید قائم ، اس جملے میں قیام کی نسبت جو کلام سے سمجھی جا رہی ہے یہی نسبتِ کلامیہ کہلاتی ہے
ثانی :
۔۔۔۔۔۔۔۔
طرفین میں سے ایک کے دوسرے کے ساتھ تعلق کا جو تصور ذہن متکلم میں ہو اس کو نسبتِ ذہنیہ کہتے ہیں
جیسا کہ زید قائم میں قیام کی نسبت جو زید کی طرف ہے اس کا ایک تصور ہے جو متکلم کے ذہن میں ہے ، یہی نسبتِ ذہنیہ ہے
ثالث :
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے تعلق کو کہتے ہیں جو طرفین میں سے ایک کا دوسرے کے ساتھ خارج میں ہو جیسے خارج میں قیام کی جو نسبت زید کی طرف ہے اسی نسبت کو نسبتِ خارجیہ کہتے ہیں !
1 : مسندالیہ :
اپنی خاطر جو بنایا
2 : مسند :
آپ (مراد ذات محمدی علیہ السلام)
3 : اسناد :
نسبت مابین مسند و مسندالیہ
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں نسبت ہے کون سی ؟ تو سمجھ لیجیے کہ ان میں تینوں نسبتیں ہیں
کلامیہ بھی ہے کہ کلام سے سمجھی جا رہی ہے
ذہنیہ بھی ہے کہ ذہنِ متکلم میں اس کا تصور ہے
خارجیہ بھی ہے کہ اپنے وجود میں متحقق بالامر الخارج ہے
اقسامِ اسناد :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسناد کی پھر دو اقسام ہیں
1 : اسنادِ حقیقی
2 : اسنادِ مجازی
اسنادِ حقیقی میں فعل و معنئ فعل کی نسبت ماہولہ کی طرف ہوتی ہے بشرطیکہ وہ نسبت متکلم کے اعتقاد کے مطابق ہو ، جبکہ اسنادِ مجازی میں فعل و معنئ فعل کی نسبت غیرماہولہ کی طرف ہوتی ہے اور اس میں ایسا قرینہ بھی موجود ہوتا ہے جو اسنادِ حقیقی مراد لینے سے مانع ہوتا ہے
اقسامِ قرینہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسنادِ مجازی میں ایسا قرینہ ہونا ضروری ہوتا ہے جو اس بات پر دلیل ہو کہ اس مقام پر لفظ و کلام کا معنئ حقیقی مراد نہیں ہے بلکہ معنئ مجازی مراد ہے ، قرینہ کی دو اقسام ہیں
1 : لفظیہ
2 : معنویہ
قرینہ لفظیہ وہ ہے جو لفظوں میں موجود ہو جبکہ قرینہ معنویہ وہ ہے جو لفظوں میں موجود نہ ہو
قرینہ معنویہ کی اقسام :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر قرینہ معنویہ کی دو اقسام ہیں
1 : وہ قرینہ ایسا ہو جس سے مسند کا مسندالیہ کے ساتھ قیام عقلاً یا عادۃً محال ہونا معلوم ہو جاۓ
2 : متکلم کی حالت اس بات پر دلیل ہو کہ اس مقام پر اس لفظ کا معنئ ظاہری مراد نہیں ہوسکتا
اقسامِ اسناد باعتبارِ مسند و مسندالیہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسند و مسندالیہ کی حقیقت و مجاز کے اعتبار سے اسنادِ مجازی کی چار اقسام ہیں
1 : مسند و مسندالیہ دونوں حقیقی ہوں
2 : مسند و مسندالیہ دونوں مجازی ہوں
3 : مسند حقیقی اور مسندالیہ مجازی ہو
4 : مسند مجازی اور مسندالیہ حقیقی ہو
اب آپ ذرا شعر کے سانچہ کی طرف دوبارہ توجہ کیجیے
1 : اپنی خاطر جو بنایا ، مسندالیہ حقیقی
2 : آپ ، مسند حقیقی
3 : مسند کا مسندالیہ کے لیے تحقق ، اسناد
یہ وہ مقام ہے جہاں لوگوں کی عقل وہم کا شکار ہوگئی ، وہ صرف اتنا دیکھتے رہے کہ اسناد یعنی حضور کو اپنی ذات کے لیے تخلیق فرمانے کی نسبت مسندالیہ حقیقی کی طرف کی گئی ہے جس سے خدا کا معلل بالاغراض ہونا لازم آتا ہے ، یہ خرابی اس لیے لازم آئی کہ انہوں نے اسناد کی حقیقت پر غور نہیں کیا کہ کیا یہ اسناد حقیقی ہے یا مجازی ؟ کیا یہ اسناد متعلق بہ ذاتِ مسندالیہ ہے یا متعلق بہ متعلقاتِ مسندالیہ ہے ؟
لیکن یہ بات کیسے معلوم ہوتی جب ان کی نظر میں اسنادِ مجازی کے علاقے ہی نہیں تھے جن میں سے ایک الاسناد الی المتعلقات ہے جس میں اسناد کی نسبت لفظی طور پر تو مسندالیہ کی طرف ہوتی ہے لیکن مراد متعلقاتِ مسندالیہ میں سے کوئی ایک متعلق ہوتا ہے جس پر قرینہ لفظیہ یا معنویہ دلالت کرتا ہے اور یہ مجازِ مرسل کی قبیل سے ہے جسے اطلاق الشئء وارادۃ المتعلق کہتے ہیں یعنی شئ بول کو متعلقِ شئ مراد لینا جیسے قرآن میں ہے
اَوْ جَاءَ اَحَدٌ مِّنکُم مِنَ الغَائِطِ
" یا تم میں سے کوئی شخص قضاۓ حاجت کرکے آۓ"
تو یہاں لفظِ غائط یعنی کشادہ نشینی بول کر کشادہ زمین میں کیے جانے والا بول و براز مراد ہے ، گویا شئی بول کر متعلقِ شئی مراد لیا گیا ہے
اب آپ اوپر جملۂ ھذا (اپنی خاطر بنانے) کی تعبیرات میں سات متعلقات ملاحظہ فرمائیں جن کا تعلق ذاتِ باری تعالیٰ سے ہے ، اور غور کریں کہ بنانے کا تعلق کس متعلق سے ہے ؟
ہلکا سا غور کرنے سے معلوم ہو جاۓ گا کہ اس بنانے کا تعلق آخری دو متعلقات سے ہی ہو سکتا ہے
1 : ایک اپنی وحی و رسالت کے لیے ، 2 : یا پھر اپنے ظہورِ ذات و صفات کے ساتھ ہے یعنی خدا نے حضور علیہ السلام کو اپنی وحی و رسالت کے لیے بنایا یا اپنے ظہورِ ذات و صفات کے لیے تخلیق فرمایا
متعلق کو حذف کیوں کیا گیا ؟ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام عبدالقاہر جرجانی دلائل الاعجاز میں لکھتے ہیں
ھذا باب دقیق المسلک ، لطیف المأخذ ، عجیب الامر ، شبیہ بالسحر ، فانک تری بہ ترک الذکر افصح من الذکر ، والصمت عن الافادۃ ازید للافادۃ ، وتجدک انطق ماتکون اذا لم تنطق ، واتم ماتکون بیانا اذا لم تبین ، وھذہ جملۃ قد تنکرھا حتی تخبر ، وتدفعھا حتی تنظر
,, یہ حذف فی الکلام ایسا باب ہے کہ اس کی راہ دشوار ، اس کا حصول باریک ، اس کا معاملہ حیرت انگیز اور سحر آفرینی کے مشابہ ہے ، کیونکہ تم اس باب میں عدمِ ذکر کو ذکر سے فصیح تر اور کسی فائدے کے سبب سے خاموشی کو افادے کے لیے زیادہ مؤثر دیکھو گے اور تم عدمِ تکلم کو تکلم سے اور عدمِ بیان کو بیان سے کامل تر پاؤ گے اور تم اس بات کو اجنبی خیال کرو گے ، یہاں تک کہ تم ہماری اس بات کو تجربے سے آزماؤ اور تم ذکر کردہ کلام کو بعید سمجھو گے ، یہاں تک کہ اس میں کامل غور و فکر کرو ،،
علماۓ بلاغت نے اس کی شرائط میں سے ایک شرط یہ رکھی ہے کہ لفظ و معنی کی صحت کے لیے محذوف کا اعتبار ضروری ہوگا ، بلغا کی اسی بیان کردہ شرط کے تحت اب ہم پر محذوف متعلقات میں سے کسی ایک متعلق کا اعتبار کرنا ضروری ہو جاتا ہے
علامہ ابنِ نجیم مصری الاشباہ والنظائر میں لکھتے ہیں
ان اللفظ الصادر فی مقام التشریع اوالتصریف اذا کان حملہ علی احد المعانی الممکنۃ لایترتب علیہ حکم وحملہ علی معنی الاخر یترتب علیہ حکم فالواجب الحمل علی المعنی المفید للحکم الجدید لان خلافہ اھمال والغاء وان کلام العقلاء یصان عن الالغاء ماامکن
,, امورِ تشریعی یا تصرفات کے بیان میں صادر ہونے والے کسی لفظ کو اگر اس کے ممکنہ معانی میں سے کسی ایک معنی پر محمول کرنے پر کوئی حکم مترتب نہ ہو اور دوسرے معنی پر محمول کرنے پر کوئی حکم مترتب ہو تو اس لفظ کو ایسے معنی پر محمول کرنا واجب ہے جو حکمِ جدید کا فائدہ دے ، کیونکہ اس کے خلاف کی صورت میں اس لفظ کو مہمل و لغو قرار دینا لازم آۓ گا ، اور عقلاء کے کلام کو حتی الامکان لغو ہونے سے بچایا جاتا ہے ،،
اوپر جو ہم نے دو متعلقات ذکر کیے ہیں آئیے ان پر براہین ملاحظہ فرمائیے
متعلقِ اوّل :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآنِ عظیم کی سورۂ طہ میں اللہ سبحانہ ارشاد فرماتا ہے
وَاصْطَنَعْتُکَ لِنَفْسِی
,, اور میں نے تجھے خاص اپنے لیے بنایا ،،
مولانا نعیم الدین مرادآبادی اس کے تحت لکھتے ہیں
,, یعنی اپنی وحی و رسالت کے لیے تاکہ تو میرے ارادہ اور میری محبت پر تصرف کرے اور میری حجت پر قائم رہے اور میرے اور میری خلق کے درمیان خطاب پہنچانے والا ہو ،،
متعلقِ ثانی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام یوسف بن اسماعیل نبھانی جواہر البحار میں لکھتے ہیں
فرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھوالذاتی الوجود وما سواہ فصفاتی الوجود وذالک ان شاءاللہ تعالیٰ لما افراد ان یتجلی فی العالم اقتضی کمال الذات ان یتجلی بکمالہ الذاتی فی اکمل موجودیاتہ من العالم فخلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم من نور ذاتہ لتجلی ذاتہ لان العالم جمیعہ لایسع تجلیہ الذاتی لانھم مخلوقون من انوار الصفات فھو فی العالم بمنزلہ القلب الذی وسع الحق
,, حضور کا وجود ذاتی ہے ، حضور کے علاوہ سب کا وجود صفاتی ہے اور یہ سب اس لیے کہ اللہ سبحانہ نے جب دنیا میں ظاہر ہونے کا ارادہ فرمایا تو پھر کمالِ ذات نے اپنے ذاتی کمال سے دنیا کے اکمل موجودات میں ظاہر ہونے کا اقتضاء کیا ، تو حضور کو اپنی ذات کے ظہور کے لیے اپنے نورِ ذات سے پیدا کیا ، کیونکہ اس کی ذاتی تجلی ساری دنیا میں نہیں سما سکتی تھی ، اس لیے کہ ساری دنیا کی تخلیق انوارِ صفات سے ہے ، تو حضور اس دنیا میں اس دل کی طرح ہیں جس میں تجلئ حق سما سکتی ہے ،،
مذکور متعلقات مراد لینے کی وجہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ اوپر قرینۂ معنویہ کی اقسام میں پڑھ آۓ ہیں کہ متکلم کی حالت اس بات پر دلیل ہو کہ اس مقام پر اس لفظ و عبارت کا معنئ ظاہری مراد نہیں ہے اور متکلم کا اعتقاد اس کے معنئ ظاہری کے مطابق نہیں ، اب کون ہے جو حضور تاج الشریعہ کی ذات کے متعلق یہ خیال کرے کہ انہوں نے خدا کو معلل بالاغراض ٹھہرانے کے لیے کہا ہو
,,اپنی خاطر جو بنایا ، آپ ہیں،،
اور علامہ ابن نجیم مصری کی عبارت میں بھی آپ پڑھ آۓ ہیں کہ
,,عقلاءکے کلام کو حتی الامکان لغو ہونے سے بچایا جاتا ہے،،
اب کون ہے جو حضور تاج الشریعہ کا شمار اہلِ عقل میں نہیں کرتا اور عقل بھی وہ کہ جسے خدا کی خاص توفیقات سے نوازا گیا ہو
ایسا صرف وہی سوچے گا جس کی عقل میں کمی اور جس کے علم میں نقص ہو ورنہ کوئی صاحبِ دیدہ و دل ان کی ذات سے متعلق ایسا نہیں سوچ سکتا لہذا حضور علیہ السلام کی مدح میں کہا گیا یہ شعر شعری و شرعی دنوں قسم کی خرابیوں سے صاف ہے
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بندۂ لاشئ
میرزا امجد رازیٓ
میرزا امجد رازیٓ