Type Here to Get Search Results !

کامیاب طالب علم قسط نمبر ١


کامیاب طالب علم
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ازقلم:- محمدمنیرالدین رضوی مصباحی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
طالب علم کے لیے ایک چشم کشااور کارآمدتحریر ضرورمطالعہ کریں (قسط اول) جاری
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
طالب علم کامعنی اورمفہوم
”طالب“ کالفظ ”الطلب“ مصدر کااسم فاعل ہے ”الطلب“مصدر کامعنی ڈوھونڈنا،تلاش کرنااورکھوجنا، جستجوکرناہے توطالب علم کامعنی ہواعلم کوتلاش کرنے والا،جستجوکرنےوالا،حصول علم میں کوشش کرنے والاوغیرہ تواس معنی کر حقیقی طالب علم وہی ہے جوحصول علم میں کوشش اورمحنت کرے -
اورطالب کامعنی عاشق بھی ہوتاہے تو علم حاصل کرنے والاہواعاشق اور علم مطلوب یعنی معشوق اورعشق کامزاج یہ ہے کہ عاشق جب تک اپنے معشوق کو نہ دیکھ لے اس کو چین وسکون نہیں ملتا بلکہ اس کو دیکھنے کے لیے بے قراررہتاہےیہ تو عشق مجازی میں ہوتاہے اورطالب علم توعاشق حقیقی ہے اس کوایسا ہوناچاہیے کہ جب تک اپنے معشوق علم یعنی حصول علم کا ذریعہ کتابوں کونہ دیکھ لےاس کو چین وسکون نہیں ملناچاہیے بلکہ جہاں رہے ،جہاں جاۓ اس کوکتابوں کودیکھنے اورکتابوں کو سمجھنے کی فکر ہونی چاہیے
توان مذکورہ بالاعبارتوں سے ظاہر ہوگیاکہ صرف مدرسہ میں داخلہ لینے سے طالب علم نہیں ہوجاتا اورنہ احادیث میں طالب علم کی جوفضیلتیں وارد ہیں اس کے مستحق ہوتاہے بلکہ حقیقی طالب علم بننے کے لیے حصول علم میں محنت اور کوشش کرنی پڑے گی اورجانفشانی سے علم دین حاصل کرناپڑے گا-
  عیش وآرام کے ساتھ علم حاصل نہیں ہوسکتا
کسی بھی چیز کوحاصل کرنے کے لیے محنت اورمشقت شرط ہے جیساکہ حدیث شریف میں ہے 
”من طلب شیأًوجَدّوجد“ یعنی جوکسی چیز کاطالب ہو اوراس میں وہ کوشش کرے تووہ اس چیز کوپالے گا(حاصل کرلےگا)
علم دین توعظیم نعمت ہے اس کو حاصل کرنے کے لیے بھی محنت ومشققت شرط ہے- 
جسمانی راحت کے ساتھ علم حاصل نہیں ہوتا
امام مسلم رحمةاللہ علیہ نے اپنی کتاب مسلم شریف میں درج ذیل مقولہ کونقل فرماکرثابت کردیاکہ بغیرمحنت کے علم حاصل نہیں ہوتا
 
”لایستطاع العلم براحةالجسم“
(مسلم شریف جلداول ص٢٢٣ باب اوقات الصلٰوٰت الخمس) یعنی جسمانی راحت کے ساتھ علم کاحصول نہیں ہوسکتا---
 اب سوال یہ پیداہوتاہےکہ حضرت امام مسلم جواپنی کتاب میں صرف اورصرف احادیث شریفہ ہی نقل کرنے کااہتمام فرماۓ ہیں ،انہوں نے اس مذکورہ مقولہ کوکیوں نقل فرمایا ،
تو شارح مسلم حضرت قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بعض اساتذہ کے حوالہ سے بحث کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ حضرت امام مسلم نے مواقیت الصلوۃ سے متعلق صحابٸ رسول سیدنا حضرت ابو مسعود بدری کی روایتیں اپنے ۱۳/ا سا تذہ سے جمع فرمائی ہیں ، اور یہ اساتذہ بھی کسی ایک شہر کے نہ تھے؛ بلکہ افغانستان، نیشا پور ،کوفہ، بغداد، رقہ ، بصرہ اور مصر وغیرہ شہروں کے رہنے والے تھے ۔ ظاہر ہے کہ ان سب اسا تذہ سے روایات کے حصول میں کس قدر مشقت آپ کو اٹھانی پڑی ہوگی ؟ غالبا اس جانب قارئین کو متنبہ فرمانے کے لئے آپ نے مذکورہ مواقیت والی روایتوں کو جمع کرنے کے بعد سند کے ساتھ یہ قیمتی اور یادگار مقولہ نقل فرمایا؛ تا کہ طالبان علوم نبویہ کے لئے عبرت کا سامان ہو؛ گویا کہ یہ مقولہ بنیاد کے پتھر کی حیثیت رکھتا ہے ( جو اس کا خیال رکھتے ہوئے محنت و مشقت کا راستہ اپنائے گا وہی طلب علم میں کامیاب ہوگا، اور جو ہر وقت اسی دھن میں مست رہے کہ کیا کھاؤں اور کیا پہنوں؟ تو اسے علم نصیب ہونا مشکل ہے 
 ( معالم ارشاد یہ ۱۰۳-۱۰۵)
 شمع علم پر پگھلے بغیر رونق نہیں آسکتی
(یعنی بغیر مشقت عظیمہ کے علم حاصل نہیں ہوسکتا)
مشہور صاحب حکمت عالم دین ” امام ابن عطاء اللہ الاسکندری کا مشہور مقولہ 
ہے،جوہر عالم اور طالب علم کو ہر وقت یا درکھنا چاہئے کہ : ”مَنْ لَمْ تَكُنُ لَهُ بِدَايَةٌ مُحْرِقَةٌ لَمْ تَكُنُ لَهُ نِهَايَةٌ مُشْرِقَةٌ“
 یعنی جس طالب علم کی ابتداٸی زندگی محنت و مشقت میں نہ گذری ہو اس کی
آخری زندگی روشن اور چمک دار نہیں ہو سکتی- (معالم ارشادیہ )
یعنی جوطالب علم طلب علم کے زمانے میں محنت اورمشقت سے نہیں پڑھے گااس کامستقبل روشن اورتابناک نہیں ہوگا 
 جس نے مشقت کا مزا نہ چکھا ہو وہ علم کی قدر نہیں کر سکتا
علامہ ابو بکر محمد بن الامام داؤد الظاہری فرماتے ہیں: "مَنْ لَمْ يَشْرَبُ مَاءَ
الغُربةِوَلَمْ يَضَعُ رَأْسَهُ عَلَى سَاعِدِ الْكُرْبَةِ لَمْ يَعْرِفَ حَقَّ الْوَطَنِ وَالتَّرْبَةِ وَلَمْ يَعْرِفُ
حَقِّ ذِي العِلْمِ وَالشَّيْبَةِ - (یعنی جس شخص نے پر دیس کا پانی نہ چکھا ہو اور 
اپناسرتکلیف اورپریشانی کے سامنے نہ رکھا ہو، وہ نہ تو اپنے وطن عزیز کا حق پہچان سکتا ہے، اور نہ ہی 
اہل علم اورمشائخ کی قدر جان سکتا ہے -
( معالم ارشاد یہ ۱۰۷)
 قوت حافظہ بڑھانے کی کامیاب تدبیر
عرب کے اندر بلاذر نام کی ایک دوا قوت حافظہ کے لئے لوگ استعمال کیا کرتے تھے ، تو جب امام بخاری کے حافظہ کا شہرہ ہوا تو لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ انہوں نے بلاذر کا پھل کھایا ہے، جس کی بناء پر ان کا حافظہ قوی ہو گیا ہے۔ تو ایک بڑے عالم محمد بن ابی 
حاتم الوراق نے خود حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے تنہائی میں پوچھا کہ کیا قوت حافظہ بڑھانے کے لئے کوئی دوا مفید ہے، تو امام بخاری نے فرمایا کہ میرے علم میں نہیں ہے، پھر 
خودہی فرمانے لگے کہ میرے نزدیک دو باتوں سے زیادہ کوئی چیز قوت حافظہ کے لئے نفع بخش نہیں : 
(1) نَهْمَةُ الرَّجُلِ (یعنی آدمی کے دل میں علم کا انتہائی شوق و ذوق ہو) 
(۲) ومُدَاوَمَةُ النَّظَرِ ( اور مسلسل تکرار و مطالعہ ) ( معالم ارشاد یه ۹۰-۹۱)
قوت حافظہ کیسے بڑھے
حضرت امام ابو حنیفہ سے پوچھا گیا کہ وہ کون ساعمل ہے جس سے قوت حافظہ بڑھ جاتی ہے؟
 تو آپ نے فرمایا کہ: ” البذر - البذر“ (یعنی چراغ کا تیل) مطلب یہ ہے کہ جو 
شخص (جتنازیادہ چراغ میں تیل ڈال کر) راتوں کو جاگ کر جتنا زیادہ مطالعہ کرے گا ، اسی اعتبار سے اس کے حافظہ میں قوت پیدا ہوگی۔ منقول ہے کہ سقراط سے پوچھا گیا کہ آپ نے اتنا زیادہ علم کیسے محفوظ رکھا ؟ 
توآپ نےجواب دیا: "أَوْ قَدْتُ مِنَ الزَّيْتِ أَكْثَرَ مِمَّا شَرِبْتُ مِنَ الْمَاءِ“ (یعنی میں نے زندگی میں جتنا پانی پیا ہے اس سے زیادہ ( علم کی تحصیل کے لئے ) چراغ میں تیل جلایا ہے۔
(معالم ارشاد یہ ۹۳)
 ان سب مذکورہ عبارتوں کاماحصل یہی ہے کہ بغیر محنت ومشقت کے علم کاحصول محال ہے- 
محنت ومشقت کے اعتبارسے بلندمقام حاصل ہوتاہےجوجتنی زیادہ محنت ومشقت کرے گاوہ اتنازیادہ اونچامقام حاصل کرےگا-
ایک عربی شاعر نے کہاہے 
بقدرالقد تکتسب المعالی
من طلب العلی سھراًلیالی
(ازھارالعرب)
ترجمہ :محنت ومشقت کے مقداربلندی حاصل ہوتی ہے 
جوبلندمرتبہ کاطالب ہے وہ راتوں رات جاگتاہے 
یعنی راتوں کوجاگ کر علم یادنیاوی مال ودولت حاصل کرتاہے-
اسی کی ترجمانی کسی اردوشاعر نے کیاہے
مٹادواپنی ہستی کوگرمرتبہ چاہو
دانہ خاک میں مل کر گل گلزارہوتاہے-
 محنت و مجاہدہ ؛ کلید کامیابی ہے
  یعنی کامیابی کی کنجی ہے
علامہ خطیب بغدادی نے اپنی جامع میں حضرت ابو القاسم جنید بغدادی کے دو  
نہایت قیمتی مقولے نقل فرمائے ہیں :
(1)”مَا طَلَبَ أَحَدٌ شَيْئًا بِجِدٌ وَصِدْقٍ إِلَّا نَالَهُ، فَإِنْ لَمْ يَنلُهُ 
کُلُّہ ناَلَ بَعْضَهُ“
یعنی جو شخص بھی محنت اور خلوص سے کسی مقصد کو حاصل کرنے کی سعی کرے گا ، وہ ضرور اس
مقصد کو پالے گا ، اور اگر پورا نہ پاسکے تو بعض کو تو ضرور ہی پالے گا 
(۲) اور دوسرا مقولہ یہ ہے : بَابُ كُلِّ عِلْمٍ نَفِيسٍ جَلِيلٍ 
مِفٗتاَحُہ بَذلُ الْمَجْهُودِ.
 یعنی ہر شاندار اور جلیل القدر علم کا ایک دروازہ ہوتا ہے، جس کی چابی محنت صرف کرنا ہے گویا بغیر محنت کے محض تمنا کرنے سے کوئی بڑا مقصد آدمی کو حاصل نہیں ہوتا 
(معالم ارشادیہ٢٥٠)
 ازھارالعرب میں ہے 
لوکان العلم یدرک بالمنی ماکان فی البریة جاھل
ترجمہ:اگر صرف تمنا کرنے سے علم حاصل ہوجاتاتودنیا میں کوٸی جاہل باقی نہ رہتا
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
راقم الحروف محمدمنیرالدین رضوی مصباحی استاذمدرسہ اسلامیہ کنزالعلوم اسلامیہ گوپی ناتھ پور،تھانہ اسلام پور،ضلع مرشدآباد
 مغربی بنگال

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area