سیرت النبی ﷺ قسط نمبر:- 25
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ایک مشرک کہنے لگا:
ایک مشرک کہنے لگا:
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
"آپﷺْ اسی طرح کھانا کھاتے ہیں جس طرح ہم کھاتے ہیں، اسی طرح بازاروں میں چلتے ہیں جس طرح ہم چلتے ہیں، ہماری طرح ہی زندگی کی ضروریات پوری کرتے ہیں،
لہٰذا آپ ﷺْ کو کیا حق ہے کہ نبیﷺْ کہہ کر خود کو نمایاں کریں اور یہ کہ آپﷺْ کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترا جو آپﷺْ کی تصدیق کرتا۔"
اس پر فرمانِ باری تعالٰی ہے۔ سورہ فرقان کی آیت 7 :
"ترجمہ: اور یہ کافر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یوں کہتے ہیں کہ اس رسولﷺْ کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ وہ اس کے ساتھ رہ کر ڈرایا کرتا۔ اس کے پاس غیب سے کوئی خزانہ آ پڑتا یا اس کے پاس کوئی (غیبی) باغ ہوتا جس سے یہ کھایا کرتا اور ایمان لانے والوں سے یہ ظالم لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم تو ایک بے عقل آدمی کی راہ پر چل رہے ہو۔"
پھر جب انہوں نے یہ کہا کہ اللہ تعالٰی کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ وہ ہم ہی میں سے ایک بندے کو رسول بنا کر بھیجے : اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ یونس میں فرمایا
"ترجمہ: کیا ان مکہ کے لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی کہ سب آدمیوں کو اللہ کے احکامات کے خلاف چلنے پر ڈرائیں اور جو ایمان لے آئے، انہیں خوش خبری سنادیں کہ انہیں اپنے رب کے پاس پہنچ کر پورا رتبہ ملے گا۔"
اس کے بعد ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
"ہم پر آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرادو، جیسا کہ تمہارا دعوی ہے کہ تمہارا رب جو چاہے کر سکتا ہے۔اس بات کے جواب میں فرمانِ الٰہی ہے۔ سورة الرعد :آیت 30 :
"ترجمہ: آپﷺْ فرمادیجئے کہ وہی میرا مربی اور نگہبان ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کر لیا اور اسی کے پاس مجھے جانا ہے۔"
اس وقت آپﷺْ پر رنج اور غم کی کیفیت طاری تھی۔ آپﷺْ کی عین خواہش تھی کہ وہ لوگ ایمان قبول کرلیں، لیکن ایسا نہ ہوسکا، اس لئے غمگین تھے، اسی حالت میں آپﷺْ وہاں سے اٹھ گئے۔
مشرکین نے اس قسم کی اور بھی فرمائشیں کیں۔ کبھی وہ کہتے صفا پہاڑ کو سونے کا بناکر دکھائیں، کبھی کہتے سیڑھی کے ذریعے آسمان پر چڑھ کر دکھائیں اور فرشتوں کے ساتھ واپس آئیں۔ ان کی تمام باتوں کے جواب میں اللہ تعالٰی نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپﷺْ کی خدمت میں بھیجا۔
انہوں نے آکر کہا:
"اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالٰی آپ کو سلام فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر آپﷺْ چاہیں تو صفا پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے۔ اسی طرح ان کے جو مطالبات ہیں، ان کو بھی پورا کر دیا جائے، لیکن اس کے بعد بھی اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے تو پھر سابقہ قوموں کی طرح ان پر ہولناک عذاب نازل ہوگا، ایسا عذاب کہ آج تک کسی قوم پر نازل نہیں ہوا ہوگا اور اگر آپ ایسا نہیں چاہتے تو میں ان پر رحمت اور توبہ کا دروازہ کھلا رکھوں گا۔"اس پرآپﷺْ نے توبہ ورحمت کادروازہ کھلا رکھنے کی بارگاہِ الٰہی میں عرض کی۔
دراصل آپﷺْ جانتے تھے کہ قریش کے یہ مطالبات جہالت کی بنیاد پر ہیں، کیونکہ یہ لوگ رسولوں کو بھیجنے کی حکمت کو نہیں جانتے تھے...رسولوں کا بھیجا جانا تو در اصل مخلوق کا امتحان ہوتا ہے تاکہ وہ رسولوں کی تصدیق کریں اور رب تعالٰی کی عبادت کریں۔ اگر اللہ تعالٰی درمیان سے سارے پردے ہٹادے اور سب لوگ آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیں تو پھر تو انبیاء اور رسولوں کو بھیجنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی اور غیب پر ایمان لانے کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا۔
مکہ کے مشرکین نے دو یہودی عالموں کے پاس اپنے آدمی بھیجے۔ یہ یہودی عالم مدینہ میں رہتے تھے۔ دونوں قاصدوں نے یہودی عالموں سے ملاقات کی اور ان سے کہا:
"ہم آپ کے پاس اپنا ایک معاملہ لے کر آئے ہیں، ہم لوگوں میں ایک یتیم لڑکا ہے، اس کا دعوی ہے کہ وہ اللہ کا رسولﷺْ ہے۔"
یہ سن کر یہودی عالم بولے:
"ہمیں اس کا حلیہ بتاؤ۔"
قاصدوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بتادیا۔ تب انہوں نے پوچھا:
"تم لوگوں میں سے کن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے؟"
انہوں نے جواب دیا:
"کم درجے کے لوگوں نے۔"
اب انہوں نے کہا:
"تم جاکر ان سے تین سوال کرو، اگر انہوں نے ان تین سوالات کے جوابات دے دیے تو وہ اللہ کے نبی ہیں اور اگر جواب نہ دے سکے تو پھر سمجھ لینا، وہ کوئی جھوٹا شخص ہے۔"جاری ہے۔
سیرت_النبی صلی اللہ علیہ وسلم
قدم بقدم... وزیر احمد ھزاروی
"آپﷺْ اسی طرح کھانا کھاتے ہیں جس طرح ہم کھاتے ہیں، اسی طرح بازاروں میں چلتے ہیں جس طرح ہم چلتے ہیں، ہماری طرح ہی زندگی کی ضروریات پوری کرتے ہیں،
لہٰذا آپ ﷺْ کو کیا حق ہے کہ نبیﷺْ کہہ کر خود کو نمایاں کریں اور یہ کہ آپﷺْ کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترا جو آپﷺْ کی تصدیق کرتا۔"
اس پر فرمانِ باری تعالٰی ہے۔ سورہ فرقان کی آیت 7 :
"ترجمہ: اور یہ کافر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یوں کہتے ہیں کہ اس رسولﷺْ کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ وہ اس کے ساتھ رہ کر ڈرایا کرتا۔ اس کے پاس غیب سے کوئی خزانہ آ پڑتا یا اس کے پاس کوئی (غیبی) باغ ہوتا جس سے یہ کھایا کرتا اور ایمان لانے والوں سے یہ ظالم لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم تو ایک بے عقل آدمی کی راہ پر چل رہے ہو۔"
پھر جب انہوں نے یہ کہا کہ اللہ تعالٰی کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ وہ ہم ہی میں سے ایک بندے کو رسول بنا کر بھیجے : اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ یونس میں فرمایا
"ترجمہ: کیا ان مکہ کے لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی کہ سب آدمیوں کو اللہ کے احکامات کے خلاف چلنے پر ڈرائیں اور جو ایمان لے آئے، انہیں خوش خبری سنادیں کہ انہیں اپنے رب کے پاس پہنچ کر پورا رتبہ ملے گا۔"
اس کے بعد ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
"ہم پر آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرادو، جیسا کہ تمہارا دعوی ہے کہ تمہارا رب جو چاہے کر سکتا ہے۔اس بات کے جواب میں فرمانِ الٰہی ہے۔ سورة الرعد :آیت 30 :
"ترجمہ: آپﷺْ فرمادیجئے کہ وہی میرا مربی اور نگہبان ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کر لیا اور اسی کے پاس مجھے جانا ہے۔"
اس وقت آپﷺْ پر رنج اور غم کی کیفیت طاری تھی۔ آپﷺْ کی عین خواہش تھی کہ وہ لوگ ایمان قبول کرلیں، لیکن ایسا نہ ہوسکا، اس لئے غمگین تھے، اسی حالت میں آپﷺْ وہاں سے اٹھ گئے۔
مشرکین نے اس قسم کی اور بھی فرمائشیں کیں۔ کبھی وہ کہتے صفا پہاڑ کو سونے کا بناکر دکھائیں، کبھی کہتے سیڑھی کے ذریعے آسمان پر چڑھ کر دکھائیں اور فرشتوں کے ساتھ واپس آئیں۔ ان کی تمام باتوں کے جواب میں اللہ تعالٰی نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپﷺْ کی خدمت میں بھیجا۔
انہوں نے آکر کہا:
"اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالٰی آپ کو سلام فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر آپﷺْ چاہیں تو صفا پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے۔ اسی طرح ان کے جو مطالبات ہیں، ان کو بھی پورا کر دیا جائے، لیکن اس کے بعد بھی اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے تو پھر سابقہ قوموں کی طرح ان پر ہولناک عذاب نازل ہوگا، ایسا عذاب کہ آج تک کسی قوم پر نازل نہیں ہوا ہوگا اور اگر آپ ایسا نہیں چاہتے تو میں ان پر رحمت اور توبہ کا دروازہ کھلا رکھوں گا۔"اس پرآپﷺْ نے توبہ ورحمت کادروازہ کھلا رکھنے کی بارگاہِ الٰہی میں عرض کی۔
دراصل آپﷺْ جانتے تھے کہ قریش کے یہ مطالبات جہالت کی بنیاد پر ہیں، کیونکہ یہ لوگ رسولوں کو بھیجنے کی حکمت کو نہیں جانتے تھے...رسولوں کا بھیجا جانا تو در اصل مخلوق کا امتحان ہوتا ہے تاکہ وہ رسولوں کی تصدیق کریں اور رب تعالٰی کی عبادت کریں۔ اگر اللہ تعالٰی درمیان سے سارے پردے ہٹادے اور سب لوگ آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیں تو پھر تو انبیاء اور رسولوں کو بھیجنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی اور غیب پر ایمان لانے کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا۔
مکہ کے مشرکین نے دو یہودی عالموں کے پاس اپنے آدمی بھیجے۔ یہ یہودی عالم مدینہ میں رہتے تھے۔ دونوں قاصدوں نے یہودی عالموں سے ملاقات کی اور ان سے کہا:
"ہم آپ کے پاس اپنا ایک معاملہ لے کر آئے ہیں، ہم لوگوں میں ایک یتیم لڑکا ہے، اس کا دعوی ہے کہ وہ اللہ کا رسولﷺْ ہے۔"
یہ سن کر یہودی عالم بولے:
"ہمیں اس کا حلیہ بتاؤ۔"
قاصدوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بتادیا۔ تب انہوں نے پوچھا:
"تم لوگوں میں سے کن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے؟"
انہوں نے جواب دیا:
"کم درجے کے لوگوں نے۔"
اب انہوں نے کہا:
"تم جاکر ان سے تین سوال کرو، اگر انہوں نے ان تین سوالات کے جوابات دے دیے تو وہ اللہ کے نبی ہیں اور اگر جواب نہ دے سکے تو پھر سمجھ لینا، وہ کوئی جھوٹا شخص ہے۔"جاری ہے۔
سیرت_النبی صلی اللہ علیہ وسلم
قدم بقدم... وزیر احمد ھزاروی