عقیدت مندوں و مُریدوں سے اپنی تعریف سُن کر خوش رہنے کی عادت بنانے والے علماے کرام وپیرانِ عظام کے لیے سیدی اعلٰی حضرت،امام احمدرضاخان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا رہنما فتویٰ:
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
پیشکش: میثم قادری
پیشکش: میثم قادری
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
مسئلہ ۱۸۸: مرسلہ منشی عبیداللہ حسن قلعہ بھنگیاں امر تسر رجب ۱۳۲۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جو شخص اپنے مریدوں سے اشعار ذیل سنے اور سن کو خوش ہو بلکہ تمغاء انعام دے ایسا شخص لائق بیعت ہے یانہیں؟ خدا رسیدہ ہے یا نفس کا مطیع اہلسنت ہے یا اہل بدعت؟ شعار یہ ہیں: ؎
آفتاب چرخ علم وفضل شمس العارفین قبلہ عالم سراج المتقین شاہ جہاں
سید السادات مطلوب علی شیر خدا عاشق محبوب رب العالمین فخر زمان
ماہر علم لدنی واقف اسرار غیب قطب عالم غوث اعظم وارث پیغمبراں
کس طرح اہل جہاں پر راز ان کا کھل سکے راز داں ان کا خدا ہے وہ خدا کے رازداں
اولیاء ہونے کو دنیا میں بہت ہیں اولیاء ان کی صورت ان کی سیرت ان کی عادت کا کہاں
کچھ عجب ہیں یہ بھی حسن وعشق کے راز ونیاز مدح خواں ان کا خدا ہے وہ خدا کے مدح خوان۔
مسئلہ ۱۸۸: مرسلہ منشی عبیداللہ حسن قلعہ بھنگیاں امر تسر رجب ۱۳۲۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جو شخص اپنے مریدوں سے اشعار ذیل سنے اور سن کو خوش ہو بلکہ تمغاء انعام دے ایسا شخص لائق بیعت ہے یانہیں؟ خدا رسیدہ ہے یا نفس کا مطیع اہلسنت ہے یا اہل بدعت؟ شعار یہ ہیں: ؎
آفتاب چرخ علم وفضل شمس العارفین قبلہ عالم سراج المتقین شاہ جہاں
سید السادات مطلوب علی شیر خدا عاشق محبوب رب العالمین فخر زمان
ماہر علم لدنی واقف اسرار غیب قطب عالم غوث اعظم وارث پیغمبراں
کس طرح اہل جہاں پر راز ان کا کھل سکے راز داں ان کا خدا ہے وہ خدا کے رازداں
اولیاء ہونے کو دنیا میں بہت ہیں اولیاء ان کی صورت ان کی سیرت ان کی عادت کا کہاں
کچھ عجب ہیں یہ بھی حسن وعشق کے راز ونیاز مدح خواں ان کا خدا ہے وہ خدا کے مدح خوان۔
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
حُبِّ ثناء غالبًا خصلتِ مذمومہ ہے اور کم از کم کوئی خصلتِ محمودہ نہیں اور اس کے عواقب خطر ناک ہیں،حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"حب الثناء من الناس یعمی ویصم"۔
رواہ فی مسند الفردوس عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما۔"
(الفردوس بماثور المخطاب،جلد2،صفحہ142،حدیث: 2627،دارالکتب العلمیہ، بیروت)
(ترجمہ:."ستائش پسندی آدمی کو اندھا بہرا کردیتی ہے"۔
(اس کو "مسندالفردوس" میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے روایت کیا ہے۔ت)
اوراگر اپنی جھوٹی تعریف کو دوست رکھےکہ لوگ ان فضائل سے اس کی ثناء کریں جو اس میں نہیں جب تو صریح حرام قطعی ہے۔
قال اللہ:
لَاتَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا وَّیُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَاتَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍمِّنَ الْعَذَابِۚ-وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔
(اٰلِ عِمْرَان:220)
والعیاذ باللہ تعالٰی۔
(اللہ تعالٰی نے فرمایا):
ترجمہءکنزالایمان:
"ہرگز گمان نہ کرنا ان کو جو اپنے کیے پر خوش ہوتے اور دوست رکھتے ہیں کہ بے کئے پر سراہے جائیں تو زنہار انھیں عذاب کے بچاؤ کی جگہ نہ گمان کرنا اور ان کے لیے دردناک مار ہے"۔
والعیاذ باللہ تعالٰی۔
ہاں اگر تعریف واقعی ہو تو اگر چہ تاویل معروف ومشہور کے ساتھ،جیسے:
"شمس الائمہ وفخر العلماء وتاج العارفین"۔وامثال ذٰلک۔
(اماموں کے آفتاب، اہل علم کے لئے فخر، اور عارفوں کے تاج، اور اسی قسم اور نوع کے دوسرے توصیف کلمات(جو مدح کی تعریف وتوصیف ظاہر کریں)
کہ مقصود اپنے عصر یا مصر کے لوگ ہوتے ہیں اور اس پر اس لیے خوش نہ ہو کہ میری تعریف ہورہی ہے بلکہ اس لیے کہ ان لوگوں کی ان کو نفع دِینی پہنچائے گی سمع قبول سے سُنیں گے جو ان کو نصیحت کی جائے گی تویہ حقیقۃً حُبِّ مدح نہیں بلکہ حُبِّ نصحِ مسلمین ہے اور وہ محض ایمان ہے۔
"وَاللّٰهُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِح".(اَلْبَقَرَة:220)
ترجمہءکنزالایمان:
"اور خدا خوب جانتا ہے بگاڑنے والے کو سنوارنے والے سے".
"طریقہ محمدیہ وحدیقہ ندیہ"میں ہے:
"سبب حب الریاسۃ ثلٰثۃ ثانیھا التوسل بہ الی تنقیذ الحق واعزاز الدین واصلاح الخلق فہذا ان خلا عن المحذور کالریا والتلبیس وترک الواجب والسنۃ فجائز بل مستحب قال اللہ تعالٰی عن العباد الصالحین واجعلنا للمتقین اماما"۔اھ ملتقطا۔
(الطریقۃ المحمدیہ،باب حب الناس یعمی ویصم،جلد۔1،صفحہ 153،154،مکتبہ حنفیہ کوئٹہ۔الحدیقہ الندیہ،حب الریاستہ الدنیویۃ ھو الخلق الثالث،جلد 1،صفحہ441،442،مکتبہ نوریہ رضویہ،فیصل آباد)
ترجمہ:"ریاست کی چاہت اور محبت کے تین اسباب ہیں، دوسرا یہ ہے کہ اقتدار اس لئے چاہتاہے تاکہ اس کی وجہ سے نفاذ حق اعزاز دین اور لوگوں کی اصلاح کر سکے، اگر یہ ممنوع امور مثلا ریاء تلبیس، اور واجب اور سنت کے چھوڑنے سےخالی ہو تو نہ صرف جائزہے بلکہ مستحب (موجب اجرو ثواب ہے) چنانچہ اللہ تعالٰی نے نیک بندوں کی حکایت بیان فرمائی (کہ وہ بارگاہ ربّ العزَّت میں عرض گزار ہوتے ہیں) اے پروردگار! ہمیں پرہیزگار اور ڈرنے والے لوگوں کا امام (یعنی پیشوا) بنا دے".
جب معاملہ نیت پر ٹھہرا اور دلوں کا مالک اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے تو اس شخص کے حالات پر نظر لازم ہے۔اگر بے شرع ہے معاصی میں بےباک ہے یاجاہل بے ادراک ہے اور شوق پیری میں انہماک ہے تو خود ہی اس کے ہاتھ پر بیعت جائز نہیں اور اب اس کا ان تعریفوں پر خوش ہونا ضرور قسم دوم میں ہے جسے قرآن عظیم میں فرمایا کہ انھیں عذاب سے دُور نہ جانیو ان کے لیے دردناک سزا ہے اور اگر ایسا نہیں بلکہ سنی صحیح العقیدہ صالح الاعمال متصل السلسلہ ہے خلق اللہ کو حق کی طرف دعوت کرتا منکرات سے روکتا باز رکھتاہے تو ضرور قابلِ بیعت ہے اور اب اس کے فعلِ مذکور کو اسی محلِ حسن پر حمل کرنا فرض اور اس پر بدگمانی حرام ہے۔
قال اللہ تعالٰی:
"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ"۔(اَلْحُجُرٰت:12)
(اللہ تعالٰی نے فرمایا):
ترجمہءکنزالایمان:
"اے ایمان والو!بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈھو".
قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
"ایاکم والظن فان الظن اکذب"۔الحدیث۔
(صحیح البخاری،کتاب الوصایا،جلد1،صفحہ384،و کتاب الفرائض،جلد2،صفحہ995،قدیمی کتب خانہ،کراچی۔
صحیح مسلم،کتاب البروالصلۃ،باب تحریم الظن،جلد2،صفحہ316۔
جامع الترمذی، ابواب البر،باب ماجاء فی سوء الظن،جلد2،صفحہ20)
(ترجمہ):-رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:
"گمان سے دُور بھاگو کہ گمان سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے"۔الحدیث۔
پھر بھی اسے چاہیے کہ اظہارِتواضع میں کمی نہ کرے، مُریدوں کو اس پر انعام تمغے دے کر اور زیادہ برانگیختہ نہ کرے۔لوگوں کو اپنے اُوپر بدگمانی کی راہ نہ دے، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی نعتِ کریم کے قصائد سُنے اور ان پر انعام عطا فرمائے،اس پر قیاس نہ کرے،خاک کو علام پاک سے نسبت نہ دے۔ان کی تعظیم،ان کی محبت، ان کی ثناء، ان کی مدحت، سب عینِ ایمان ہے اور اس کا اظہار واعلان فرض اہم اور ان کاذکر عین ذکرِ الٰہی، ان کی ثناء عین حمدِ الٰہی۔
امیر المومنین خلیفہءراشد سیدناعمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حضور ایک شاعر حاضر ہوا کہ میں نے حضرت کی مدح میں کچھ اشعار کہے ہیں فرمایا میں سُننا نہیں چاہتا، عرض کی نعت شریف میں کچھ عرض کیا ہے۔ فرمایا:سُناؤ۔
ایسے ائمہ راشدین کااتباع کرے،خصوصا قطبِ عالم،غوثِ اعظم جیسے الفاظ کہ غالبًا وہ اپنے وجدان سے ان الفاظ کو اپنے لیے صادق نہ جان سکے گا۔
نسأل اللہ العفو والعافیۃ والتوفیق لاتباع اقوام طریق۔
(یعنی)ہم اللہ تعالٰی سے معافی، صحت اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق مانگتے ہیں۔واللہ تعالٰی اعلم۔
(فتاوٰی رضویہ،جلد21،صفحہ596تا599،مسئلہ188،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،جامعہ نظامیہ،اندرون لوہاری دروازہ،لاہور)
سیدی اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کے اس فتویٰ میں یہ دو اقتباس قابل غور ہیں:
1."حُبِّ ثناء غالبًا خصلتِ مذمومہ ہے اور کم از کم کوئی خصلتِ محمودہ نہیں اور اس کے عواقب خطر ناک ہیں،حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
حب الثناء من الناس یعمی ویصم"۔
2."اگر ایسا نہیں بلکہ سنی صحیح العقیدہ صالح الاعمال متصل السلسلہ ہے خلق اللہ کو حق کی طرف دعوت کرتا منکرات سے روکتا باز رکھتاہے تو ضرور قابلِ بیعت ہے اور اب اس کے فعلِ مذکور کو اسی محلِ حسن پر حمل کرنا فرض اور اس پر بدگمانی حرام ہے..............پھر بھی اسے چاہیے کہ اظہارِتواضع میں کمی نہ کرے، مُریدوں کو اس پر انعام تمغے دے کر اور زیادہ برانگیختہ نہ کرے۔لوگوں کو اپنے اُوپر بدگمانی کی راہ نہ دے، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی نعتِ کریم کے قصائد سُنے اور ان پر انعام عطا فرمائے،اس پر قیاس نہ کرے،خاک کو عالمِ پاک سے نسبت نہ دے۔ان کی تعظیم،ان کی محبت، ان کی ثناء، ان کی مدحت، سب عینِ ایمان ہے اور اس کا اظہار واعلان فرض اہم اور ان کاذکر عین ذکرِ الٰہی، ان کی ثناء عین حمدِ الٰہی۔
امیر المومنین خلیفہءراشد سیدناعمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حضور ایک شاعر حاضر ہوا کہ میں نے حضرت کی مدح میں کچھ اشعار کہے ہیں فرمایا میں سُننا نہیں چاہتا، عرض کی نعت شریف میں کچھ عرض کیا ہے۔ فرمایا:سُناؤ۔
ایسے ائمہ راشدین کااتباع کرے،خصوصا قطبِ عالم،غوثِ اعظم جیسے الفاظ کہ غالبًا وہ اپنے وجدان سے ان الفاظ کو اپنے لیے صادق نہ جان سکے گا".
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
حُبِّ ثناء غالبًا خصلتِ مذمومہ ہے اور کم از کم کوئی خصلتِ محمودہ نہیں اور اس کے عواقب خطر ناک ہیں،حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"حب الثناء من الناس یعمی ویصم"۔
رواہ فی مسند الفردوس عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما۔"
(الفردوس بماثور المخطاب،جلد2،صفحہ142،حدیث: 2627،دارالکتب العلمیہ، بیروت)
(ترجمہ:."ستائش پسندی آدمی کو اندھا بہرا کردیتی ہے"۔
(اس کو "مسندالفردوس" میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے روایت کیا ہے۔ت)
اوراگر اپنی جھوٹی تعریف کو دوست رکھےکہ لوگ ان فضائل سے اس کی ثناء کریں جو اس میں نہیں جب تو صریح حرام قطعی ہے۔
قال اللہ:
لَاتَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا وَّیُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَاتَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍمِّنَ الْعَذَابِۚ-وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔
(اٰلِ عِمْرَان:220)
والعیاذ باللہ تعالٰی۔
(اللہ تعالٰی نے فرمایا):
ترجمہءکنزالایمان:
"ہرگز گمان نہ کرنا ان کو جو اپنے کیے پر خوش ہوتے اور دوست رکھتے ہیں کہ بے کئے پر سراہے جائیں تو زنہار انھیں عذاب کے بچاؤ کی جگہ نہ گمان کرنا اور ان کے لیے دردناک مار ہے"۔
والعیاذ باللہ تعالٰی۔
ہاں اگر تعریف واقعی ہو تو اگر چہ تاویل معروف ومشہور کے ساتھ،جیسے:
"شمس الائمہ وفخر العلماء وتاج العارفین"۔وامثال ذٰلک۔
(اماموں کے آفتاب، اہل علم کے لئے فخر، اور عارفوں کے تاج، اور اسی قسم اور نوع کے دوسرے توصیف کلمات(جو مدح کی تعریف وتوصیف ظاہر کریں)
کہ مقصود اپنے عصر یا مصر کے لوگ ہوتے ہیں اور اس پر اس لیے خوش نہ ہو کہ میری تعریف ہورہی ہے بلکہ اس لیے کہ ان لوگوں کی ان کو نفع دِینی پہنچائے گی سمع قبول سے سُنیں گے جو ان کو نصیحت کی جائے گی تویہ حقیقۃً حُبِّ مدح نہیں بلکہ حُبِّ نصحِ مسلمین ہے اور وہ محض ایمان ہے۔
"وَاللّٰهُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِح".(اَلْبَقَرَة:220)
ترجمہءکنزالایمان:
"اور خدا خوب جانتا ہے بگاڑنے والے کو سنوارنے والے سے".
"طریقہ محمدیہ وحدیقہ ندیہ"میں ہے:
"سبب حب الریاسۃ ثلٰثۃ ثانیھا التوسل بہ الی تنقیذ الحق واعزاز الدین واصلاح الخلق فہذا ان خلا عن المحذور کالریا والتلبیس وترک الواجب والسنۃ فجائز بل مستحب قال اللہ تعالٰی عن العباد الصالحین واجعلنا للمتقین اماما"۔اھ ملتقطا۔
(الطریقۃ المحمدیہ،باب حب الناس یعمی ویصم،جلد۔1،صفحہ 153،154،مکتبہ حنفیہ کوئٹہ۔الحدیقہ الندیہ،حب الریاستہ الدنیویۃ ھو الخلق الثالث،جلد 1،صفحہ441،442،مکتبہ نوریہ رضویہ،فیصل آباد)
ترجمہ:"ریاست کی چاہت اور محبت کے تین اسباب ہیں، دوسرا یہ ہے کہ اقتدار اس لئے چاہتاہے تاکہ اس کی وجہ سے نفاذ حق اعزاز دین اور لوگوں کی اصلاح کر سکے، اگر یہ ممنوع امور مثلا ریاء تلبیس، اور واجب اور سنت کے چھوڑنے سےخالی ہو تو نہ صرف جائزہے بلکہ مستحب (موجب اجرو ثواب ہے) چنانچہ اللہ تعالٰی نے نیک بندوں کی حکایت بیان فرمائی (کہ وہ بارگاہ ربّ العزَّت میں عرض گزار ہوتے ہیں) اے پروردگار! ہمیں پرہیزگار اور ڈرنے والے لوگوں کا امام (یعنی پیشوا) بنا دے".
جب معاملہ نیت پر ٹھہرا اور دلوں کا مالک اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے تو اس شخص کے حالات پر نظر لازم ہے۔اگر بے شرع ہے معاصی میں بےباک ہے یاجاہل بے ادراک ہے اور شوق پیری میں انہماک ہے تو خود ہی اس کے ہاتھ پر بیعت جائز نہیں اور اب اس کا ان تعریفوں پر خوش ہونا ضرور قسم دوم میں ہے جسے قرآن عظیم میں فرمایا کہ انھیں عذاب سے دُور نہ جانیو ان کے لیے دردناک سزا ہے اور اگر ایسا نہیں بلکہ سنی صحیح العقیدہ صالح الاعمال متصل السلسلہ ہے خلق اللہ کو حق کی طرف دعوت کرتا منکرات سے روکتا باز رکھتاہے تو ضرور قابلِ بیعت ہے اور اب اس کے فعلِ مذکور کو اسی محلِ حسن پر حمل کرنا فرض اور اس پر بدگمانی حرام ہے۔
قال اللہ تعالٰی:
"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ"۔(اَلْحُجُرٰت:12)
(اللہ تعالٰی نے فرمایا):
ترجمہءکنزالایمان:
"اے ایمان والو!بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈھو".
قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:
"ایاکم والظن فان الظن اکذب"۔الحدیث۔
(صحیح البخاری،کتاب الوصایا،جلد1،صفحہ384،و کتاب الفرائض،جلد2،صفحہ995،قدیمی کتب خانہ،کراچی۔
صحیح مسلم،کتاب البروالصلۃ،باب تحریم الظن،جلد2،صفحہ316۔
جامع الترمذی، ابواب البر،باب ماجاء فی سوء الظن،جلد2،صفحہ20)
(ترجمہ):-رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:
"گمان سے دُور بھاگو کہ گمان سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے"۔الحدیث۔
پھر بھی اسے چاہیے کہ اظہارِتواضع میں کمی نہ کرے، مُریدوں کو اس پر انعام تمغے دے کر اور زیادہ برانگیختہ نہ کرے۔لوگوں کو اپنے اُوپر بدگمانی کی راہ نہ دے، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی نعتِ کریم کے قصائد سُنے اور ان پر انعام عطا فرمائے،اس پر قیاس نہ کرے،خاک کو علام پاک سے نسبت نہ دے۔ان کی تعظیم،ان کی محبت، ان کی ثناء، ان کی مدحت، سب عینِ ایمان ہے اور اس کا اظہار واعلان فرض اہم اور ان کاذکر عین ذکرِ الٰہی، ان کی ثناء عین حمدِ الٰہی۔
امیر المومنین خلیفہءراشد سیدناعمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حضور ایک شاعر حاضر ہوا کہ میں نے حضرت کی مدح میں کچھ اشعار کہے ہیں فرمایا میں سُننا نہیں چاہتا، عرض کی نعت شریف میں کچھ عرض کیا ہے۔ فرمایا:سُناؤ۔
ایسے ائمہ راشدین کااتباع کرے،خصوصا قطبِ عالم،غوثِ اعظم جیسے الفاظ کہ غالبًا وہ اپنے وجدان سے ان الفاظ کو اپنے لیے صادق نہ جان سکے گا۔
نسأل اللہ العفو والعافیۃ والتوفیق لاتباع اقوام طریق۔
(یعنی)ہم اللہ تعالٰی سے معافی، صحت اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق مانگتے ہیں۔واللہ تعالٰی اعلم۔
(فتاوٰی رضویہ،جلد21،صفحہ596تا599،مسئلہ188،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،جامعہ نظامیہ،اندرون لوہاری دروازہ،لاہور)
سیدی اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کے اس فتویٰ میں یہ دو اقتباس قابل غور ہیں:
1."حُبِّ ثناء غالبًا خصلتِ مذمومہ ہے اور کم از کم کوئی خصلتِ محمودہ نہیں اور اس کے عواقب خطر ناک ہیں،حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
حب الثناء من الناس یعمی ویصم"۔
2."اگر ایسا نہیں بلکہ سنی صحیح العقیدہ صالح الاعمال متصل السلسلہ ہے خلق اللہ کو حق کی طرف دعوت کرتا منکرات سے روکتا باز رکھتاہے تو ضرور قابلِ بیعت ہے اور اب اس کے فعلِ مذکور کو اسی محلِ حسن پر حمل کرنا فرض اور اس پر بدگمانی حرام ہے..............پھر بھی اسے چاہیے کہ اظہارِتواضع میں کمی نہ کرے، مُریدوں کو اس پر انعام تمغے دے کر اور زیادہ برانگیختہ نہ کرے۔لوگوں کو اپنے اُوپر بدگمانی کی راہ نہ دے، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی نعتِ کریم کے قصائد سُنے اور ان پر انعام عطا فرمائے،اس پر قیاس نہ کرے،خاک کو عالمِ پاک سے نسبت نہ دے۔ان کی تعظیم،ان کی محبت، ان کی ثناء، ان کی مدحت، سب عینِ ایمان ہے اور اس کا اظہار واعلان فرض اہم اور ان کاذکر عین ذکرِ الٰہی، ان کی ثناء عین حمدِ الٰہی۔
امیر المومنین خلیفہءراشد سیدناعمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حضور ایک شاعر حاضر ہوا کہ میں نے حضرت کی مدح میں کچھ اشعار کہے ہیں فرمایا میں سُننا نہیں چاہتا، عرض کی نعت شریف میں کچھ عرض کیا ہے۔ فرمایا:سُناؤ۔
ایسے ائمہ راشدین کااتباع کرے،خصوصا قطبِ عالم،غوثِ اعظم جیسے الفاظ کہ غالبًا وہ اپنے وجدان سے ان الفاظ کو اپنے لیے صادق نہ جان سکے گا".