سیرت النبی ﷺ قسط نمبر:- 24
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
حضرت خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں گیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہم پر خوب ظلم کیا جاتا تھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا.
اے اللہ کے رسول، کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے.
میرے الفاظ سنتے ہی آپ ﷺْ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔آپﷺْ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا
۔پھر آپﷺْ نے فرمایا۔
تم سے پہلی امت کے لوگوں کو اپنے دین کے لیے کہیں زیادہ عذاب برداشت کرنے پڑے٬ ان کے جسموں پر لوہے کی کنگھییاں کی جاتی تھیں، جس سے ان کی کھال اور ہڈیاں الگ ہو جاتی تھیں، مگر یہ تکالیف بھی انہیں ان کے دین سے نہ ہٹا سکیں۔ ان کے سروں پر آرے چلا چلا کر ان کے جسم دو کر دییے گئے مگر وہ اپنا دین چھوڑنے پر تیار پھر بھی نہ ہوئے. اس دین اسلام کو اللہ تعالٰی اس طرح پھیلا دے گا کہ صنعاء کے مقام سے حضر موت جانے والے سوار کو سوائے اللہ تعالٰی کے کسی کا خوف نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ چرواہے کو اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیوں کا ڈر نہیں ہو گا۔
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن میرے لیے آگ دہکائی گئی، پھر وہ آگ میری کمر پر رکھ دی گئی اور پھر اس کو اس وقت تک نہیں ہٹایا گیا جب تک کہ وہ آگ میری کمر کی چربی سے بجھ نہ گئی۔
ایسے ہی لوگوں میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی تھے، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو ان کے دین سے پھیرنے کے لیے مشرکوں نے طرح طرح کے ظلم کیے، آگ سے جلا جلا کر عذاب دیے، مگر وہ دین پر قائم رہے۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں.
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس طرف تشریف لے جا رہے تھے اس وقت حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو آگ سے جلا جلا کر تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں۔ ان کی کمر پر جلنے کی وجہ سے کوڑھ جیسے سفید داغ پڑ گئے تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا۔
اے آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا، جیسا کہ تو ابراہیم علیہ السلام کے لیے ہو گئی تھی۔
اس دعا کے بعد انہیں آگ کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی۔
حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر، ان کے والد یاسر، ان کے بھائی عبداللہ اور ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہم، ان سبھی کو اللہ کا نام لینے کی وجہ سے سخت ترین عذاب دیے گئے۔ ایک روز جب انہیں تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس طرف سے گزرے
آپﷺْ نے ان کی تکالیف کو دیکھ کر فرمایا.
اے اللہ، آل یاسر کی مغفرت فرما.
ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کو ابو جہل کے چچا حذیفہ بن ابن مغیرہ نے ابو جہل کے حوالے کر دیا۔یہ اس کی باندی تھیں۔ابو جہل نے انہیں نیزہ مارا۔اس سے وہ شہید ہو گئیں۔ اس طرح اسلام میں انہیں سب سے پہلی شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔آخر انہی مظالم کی وجہ سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے والد یاسر رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو گئے۔
اپنے ان مظالم اور بدترین حرکات کے ساتھ ساتھ یہ لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزات کا مطالبہ بھی کرتے رہتے تھے۔
ایک روز ابو جہل دوسرے سرداروں کے ساتھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا:
"اے محمدﷺْ ! اگر تم سچے ہو تو ہمیں چاند کے دو ٹکڑے کرکے دکھاؤ، وہ بھی اس طرح کہ ایک ٹکڑا ابو قبیس پہاڑ پر نظر آئے اور دوسرا قعیقعان پہاڑ پر نظر آئے۔"
مطلب یہ تھا کہ دونوں ٹکڑے کافی فاصلے پر ہوں تاکہ اس کے دو ٹکڑے ہونے میں کوئی شک نہ رہ جائے۔
اس روز مہینے کی چودھویں تاریخ تھی۔ چاند پورا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ عجیب فرمائش سن کر فرمایا:
"اگر میں ایسا کر دکھاؤں تو کیا تم ایمان لے آؤ گے ۔"
انہوں نے ایک زبان ہو کر کہا:
"ہاں!بالکل! ہم ایمان لے آئیں گے۔"
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی سے دعا فرمائی کہ آپ کے ہاتھ سے ایسا ہوجائے،چنانچہ چاند فوراً دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس کا ایک حصہ ابوقبیس کے پہاڑ کےاوپر نظر آیا، دوسرا قعیقعان پہاڑ پر، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"لو اب گواہی دو۔"
ان کے دلوں پر تو قفل پڑے تھے، کہنے لگے:
"محمدﷺْ نے ہم لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا ہے۔"
کچھ نے کہا:
"محمدﷺْ نے چاند پر جادو کردیا ہے مگر ان کے جادو کا اثر ساری دنیا کے لوگوں پر نہیں ہو سکتا۔"
مطلب یہ تھا کہ ہر جگہ کے لوگ چاند کو دو ٹکڑے نہیں دیکھ رہے ہوں گے۔ اب انہوں نے کہا:
"ہم دوسرے شہروں سے آنے والوں سے یہ بات پوچھیں گے۔"
چنانچہ جب مکہ میں دوسرے شہروں کے لوگ داخل ہوئے تو انہوں نے چاند کے بارے میں ان سے پوچھا، آنے والے سب لوگوں نے یہی کہا:
"ہاں ہاں! ہم نے بھی چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔"
یہ سنتے ہی مشر۔ک بول اٹھے:
"بس! پھر تو یہ عام جادو ہے، اس کا اثر سب پر ہوا ہے۔"
کچھ نے کہا:
"یہ ایک ایسا جادو ہے جس سے جادوگر بھی متاثر ہوئے ہیں۔"
یعنی جادوگروں کو بھی چاند دو ٹکڑے نظر آیا ہے۔
اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ قمر کی آیات نازل فرمائی۔
"ترجمہ: قیامت نزدیک آ پہنچی اور چاند شق ہوگیا اور یہ لوگ کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں، یہ جادو ہے جو ابھی ختم ہو جائے گا۔
مختلف قوموں کی تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چاند کا دو ٹکڑے ہونا صرف مکہ میں نظر نہیں آیا تھا بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی اس کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔
اسی طرح ایک دن مشرکین نے کہا:
"اگر آپ واقعی نبی ہیں تو ان پہاڑوں کو ہٹادیجئے جن کی وجہ سے ہمارا شہر تنگ ہورہا ہے۔ تاکہ ہماری آبادیاں پھیل کر بس جائیں۔ اور اپنے رب سے کہہ کر ایسی نہریں جاری کرادیں جیسی شام اور عراق میں ہیں اور ہمارے باپ دادوں کو دوبارہ زندہ کراکے دکھائیں۔ ان دوبارہ زندہ ہونے والوں میں قصی بن کلاب ضرور ہو، اس لئے کہ وہ نہایت دانا اور عقل مند بزرگ تھا۔ ہم اس سے پوچھیں گے، آپ جو کچھ کہتے ہیں، سچ ہے یا جھوٹ، اگر ہمارے ان بزرگوں نے آپ کی تصدیق کردی اور آپ نے ہمارے یہ مطالبے پورے کردیئے تو ہم آپﷺْ کی نبوت کا اقرار کرلیں گے اور جان لیں گے کہ آپﷺْ واقعی اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں، اللہ تعالٰی نے آپ کو ہماری طرف رسولﷺْ بنا کر بھیجا ہے...جیسا کہ آپﷺْ دعوی کرتے ہیں۔"
ان کی یہ باتیں سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"مجھے ان باتوں کے لئے تمہاری طرف رسول بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ میں تو اس مقصد کے لیے بھیجا گیا ہوں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو۔"
جاری ہے۔ ........
سیرت_النبی صلی اللہ علیہ وسلم
قدم بقدم
حضرت خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں گیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہم پر خوب ظلم کیا جاتا تھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا.
اے اللہ کے رسول، کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے.
میرے الفاظ سنتے ہی آپ ﷺْ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔آپﷺْ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا
۔پھر آپﷺْ نے فرمایا۔
تم سے پہلی امت کے لوگوں کو اپنے دین کے لیے کہیں زیادہ عذاب برداشت کرنے پڑے٬ ان کے جسموں پر لوہے کی کنگھییاں کی جاتی تھیں، جس سے ان کی کھال اور ہڈیاں الگ ہو جاتی تھیں، مگر یہ تکالیف بھی انہیں ان کے دین سے نہ ہٹا سکیں۔ ان کے سروں پر آرے چلا چلا کر ان کے جسم دو کر دییے گئے مگر وہ اپنا دین چھوڑنے پر تیار پھر بھی نہ ہوئے. اس دین اسلام کو اللہ تعالٰی اس طرح پھیلا دے گا کہ صنعاء کے مقام سے حضر موت جانے والے سوار کو سوائے اللہ تعالٰی کے کسی کا خوف نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ چرواہے کو اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیوں کا ڈر نہیں ہو گا۔
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک دن میرے لیے آگ دہکائی گئی، پھر وہ آگ میری کمر پر رکھ دی گئی اور پھر اس کو اس وقت تک نہیں ہٹایا گیا جب تک کہ وہ آگ میری کمر کی چربی سے بجھ نہ گئی۔
ایسے ہی لوگوں میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی تھے، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو ان کے دین سے پھیرنے کے لیے مشرکوں نے طرح طرح کے ظلم کیے، آگ سے جلا جلا کر عذاب دیے، مگر وہ دین پر قائم رہے۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں.
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس طرف تشریف لے جا رہے تھے اس وقت حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو آگ سے جلا جلا کر تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں۔ ان کی کمر پر جلنے کی وجہ سے کوڑھ جیسے سفید داغ پڑ گئے تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا۔
اے آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا، جیسا کہ تو ابراہیم علیہ السلام کے لیے ہو گئی تھی۔
اس دعا کے بعد انہیں آگ کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی۔
حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر، ان کے والد یاسر، ان کے بھائی عبداللہ اور ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہم، ان سبھی کو اللہ کا نام لینے کی وجہ سے سخت ترین عذاب دیے گئے۔ ایک روز جب انہیں تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس طرف سے گزرے
آپﷺْ نے ان کی تکالیف کو دیکھ کر فرمایا.
اے اللہ، آل یاسر کی مغفرت فرما.
ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کو ابو جہل کے چچا حذیفہ بن ابن مغیرہ نے ابو جہل کے حوالے کر دیا۔یہ اس کی باندی تھیں۔ابو جہل نے انہیں نیزہ مارا۔اس سے وہ شہید ہو گئیں۔ اس طرح اسلام میں انہیں سب سے پہلی شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔آخر انہی مظالم کی وجہ سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے والد یاسر رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو گئے۔
اپنے ان مظالم اور بدترین حرکات کے ساتھ ساتھ یہ لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزات کا مطالبہ بھی کرتے رہتے تھے۔
ایک روز ابو جہل دوسرے سرداروں کے ساتھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا:
"اے محمدﷺْ ! اگر تم سچے ہو تو ہمیں چاند کے دو ٹکڑے کرکے دکھاؤ، وہ بھی اس طرح کہ ایک ٹکڑا ابو قبیس پہاڑ پر نظر آئے اور دوسرا قعیقعان پہاڑ پر نظر آئے۔"
مطلب یہ تھا کہ دونوں ٹکڑے کافی فاصلے پر ہوں تاکہ اس کے دو ٹکڑے ہونے میں کوئی شک نہ رہ جائے۔
اس روز مہینے کی چودھویں تاریخ تھی۔ چاند پورا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ عجیب فرمائش سن کر فرمایا:
"اگر میں ایسا کر دکھاؤں تو کیا تم ایمان لے آؤ گے ۔"
انہوں نے ایک زبان ہو کر کہا:
"ہاں!بالکل! ہم ایمان لے آئیں گے۔"
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی سے دعا فرمائی کہ آپ کے ہاتھ سے ایسا ہوجائے،چنانچہ چاند فوراً دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس کا ایک حصہ ابوقبیس کے پہاڑ کےاوپر نظر آیا، دوسرا قعیقعان پہاڑ پر، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"لو اب گواہی دو۔"
ان کے دلوں پر تو قفل پڑے تھے، کہنے لگے:
"محمدﷺْ نے ہم لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا ہے۔"
کچھ نے کہا:
"محمدﷺْ نے چاند پر جادو کردیا ہے مگر ان کے جادو کا اثر ساری دنیا کے لوگوں پر نہیں ہو سکتا۔"
مطلب یہ تھا کہ ہر جگہ کے لوگ چاند کو دو ٹکڑے نہیں دیکھ رہے ہوں گے۔ اب انہوں نے کہا:
"ہم دوسرے شہروں سے آنے والوں سے یہ بات پوچھیں گے۔"
چنانچہ جب مکہ میں دوسرے شہروں کے لوگ داخل ہوئے تو انہوں نے چاند کے بارے میں ان سے پوچھا، آنے والے سب لوگوں نے یہی کہا:
"ہاں ہاں! ہم نے بھی چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔"
یہ سنتے ہی مشر۔ک بول اٹھے:
"بس! پھر تو یہ عام جادو ہے، اس کا اثر سب پر ہوا ہے۔"
کچھ نے کہا:
"یہ ایک ایسا جادو ہے جس سے جادوگر بھی متاثر ہوئے ہیں۔"
یعنی جادوگروں کو بھی چاند دو ٹکڑے نظر آیا ہے۔
اس پر اللہ تعالٰی نے سورہ قمر کی آیات نازل فرمائی۔
"ترجمہ: قیامت نزدیک آ پہنچی اور چاند شق ہوگیا اور یہ لوگ کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں، یہ جادو ہے جو ابھی ختم ہو جائے گا۔
مختلف قوموں کی تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چاند کا دو ٹکڑے ہونا صرف مکہ میں نظر نہیں آیا تھا بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی اس کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔
اسی طرح ایک دن مشرکین نے کہا:
"اگر آپ واقعی نبی ہیں تو ان پہاڑوں کو ہٹادیجئے جن کی وجہ سے ہمارا شہر تنگ ہورہا ہے۔ تاکہ ہماری آبادیاں پھیل کر بس جائیں۔ اور اپنے رب سے کہہ کر ایسی نہریں جاری کرادیں جیسی شام اور عراق میں ہیں اور ہمارے باپ دادوں کو دوبارہ زندہ کراکے دکھائیں۔ ان دوبارہ زندہ ہونے والوں میں قصی بن کلاب ضرور ہو، اس لئے کہ وہ نہایت دانا اور عقل مند بزرگ تھا۔ ہم اس سے پوچھیں گے، آپ جو کچھ کہتے ہیں، سچ ہے یا جھوٹ، اگر ہمارے ان بزرگوں نے آپ کی تصدیق کردی اور آپ نے ہمارے یہ مطالبے پورے کردیئے تو ہم آپﷺْ کی نبوت کا اقرار کرلیں گے اور جان لیں گے کہ آپﷺْ واقعی اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں، اللہ تعالٰی نے آپ کو ہماری طرف رسولﷺْ بنا کر بھیجا ہے...جیسا کہ آپﷺْ دعوی کرتے ہیں۔"
ان کی یہ باتیں سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"مجھے ان باتوں کے لئے تمہاری طرف رسول بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ میں تو اس مقصد کے لیے بھیجا گیا ہوں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو۔"
جاری ہے۔ ........
سیرت_النبی صلی اللہ علیہ وسلم
قدم بقدم
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
کتبہ:-
حضرت علامہ مولانا وزیر احمد ھزاروی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی