(سوال نمبر 5126)
ٹورنامنٹ میچ کھیلنا اور اس میں انعامات وغیرہ لینا شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ آج کل جو ٹورنامنٹ کھیلتے ہیں اور اس میں انعامات وغیرہ بھی ملتا ہے تو میچ کھیلنا یا انعامات حاصل کرنا جائز ہے یا نا جائز ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد نورانی اکبر پور انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
موجودہ کوئی بھی کرکٹ میچ لہو لعب سے خالی نہیں ہے اس لئے کھیلنا اور دوطرفہ شرط لگائے ہوئے انعام لینا شرعا جائز نہیں ہے۔
البتہ اگر جسمانی ورزش کے لیے کھیلے اور تیسرے کوئی انعام دے یا دونوں پیسے جمع کر کے کسی ایک جیتنے والے کو دیدے جسم میں کوئی شرط نہ ہو تو کھیلنے اور انعام لینے کی گنجائش ہے۔ پر مروجہ کرکٹ جایز نہیں ہے جس میں کیمرے مرد و زن کا تخلط ہو نماز کا کوئی اہتمام نہیں۔ اس طرح ناجائز ہے ۔
١/ وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز بات نہ ہو۔
٢/ اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت ہو، مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔
٣/ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو۔
٤/ کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔.
مذکورہ چار شروط کے ساتھ کھیلنے کی گنجائش ہے۔
وقار الفتاوی میں سوال ہوا کہ
کرکٹ کھیلنا اور دیکھنا کیسا ہے ـ؟
تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: حدیث مبارکہ میں ہے: کل ما یلھو بہ المرء المسلم باطل إلا رمیہ بقوسہ و تأدیبہ فرسہ وملاعبتہ امرأتہ فإنھن من الحق. یعنی ہر وہ شے جس سے کوئی مسلمان غفلت میں پڑجائے باطل ہے مگر کمان سے تیر اندازی کرنا، اپنے گھوڑے کو سکھانا، اور اپنی بیوی سے ملاعبت ( کھیل کود) کرنا یہ تین کام حق ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ آج کل جو ٹورنامنٹ کھیلتے ہیں اور اس میں انعامات وغیرہ بھی ملتا ہے تو میچ کھیلنا یا انعامات حاصل کرنا جائز ہے یا نا جائز ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد نورانی اکبر پور انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
موجودہ کوئی بھی کرکٹ میچ لہو لعب سے خالی نہیں ہے اس لئے کھیلنا اور دوطرفہ شرط لگائے ہوئے انعام لینا شرعا جائز نہیں ہے۔
البتہ اگر جسمانی ورزش کے لیے کھیلے اور تیسرے کوئی انعام دے یا دونوں پیسے جمع کر کے کسی ایک جیتنے والے کو دیدے جسم میں کوئی شرط نہ ہو تو کھیلنے اور انعام لینے کی گنجائش ہے۔ پر مروجہ کرکٹ جایز نہیں ہے جس میں کیمرے مرد و زن کا تخلط ہو نماز کا کوئی اہتمام نہیں۔ اس طرح ناجائز ہے ۔
١/ وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز بات نہ ہو۔
٢/ اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت ہو، مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔
٣/ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو۔
٤/ کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔.
مذکورہ چار شروط کے ساتھ کھیلنے کی گنجائش ہے۔
وقار الفتاوی میں سوال ہوا کہ
کرکٹ کھیلنا اور دیکھنا کیسا ہے ـ؟
تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: حدیث مبارکہ میں ہے: کل ما یلھو بہ المرء المسلم باطل إلا رمیہ بقوسہ و تأدیبہ فرسہ وملاعبتہ امرأتہ فإنھن من الحق. یعنی ہر وہ شے جس سے کوئی مسلمان غفلت میں پڑجائے باطل ہے مگر کمان سے تیر اندازی کرنا، اپنے گھوڑے کو سکھانا، اور اپنی بیوی سے ملاعبت ( کھیل کود) کرنا یہ تین کام حق ہیں۔
( سنن ابن ماجہ، ص202 مطبوعہ :کراچی)
حدیث میں واضح طور پر بتادیاکہ مؤمن کی زندگی لہو و لعب کیلئے نہیں ہے۔ لہٰذا تندرستی کیلئے ٹہلنا یا ورزش کے لئے تھوڑا کھیلنا تو جائز ہے مگر کرکٹ وغیرہ کھیل جس طرح کھیلے جاتے ہیں اس میں کوئی مقصدِ صحیح نہیں بلکہ قوم اور ملک کا بہت بڑا نقصان ہے اس میں قوم کے مال کی بربادی اور وقت کو ضائع کرنا ہے اور دین کے نقصان کا تو عالم یہ ہے کہ ہزاروں آدمی بیٹھے دن بھر کھیل دیکھتے رہتے ہیں نہ نماز کی پرواہ نہ اپنا وقت ضائع ہونے کی پرواہ بہر صورت یہ کھیل کھیلنا ناجائز و حرام ہے اور ان کو دیکھنے اور سننے میں وقت ضائع کرنا بھی ناجائز ہے۔
حدیث میں واضح طور پر بتادیاکہ مؤمن کی زندگی لہو و لعب کیلئے نہیں ہے۔ لہٰذا تندرستی کیلئے ٹہلنا یا ورزش کے لئے تھوڑا کھیلنا تو جائز ہے مگر کرکٹ وغیرہ کھیل جس طرح کھیلے جاتے ہیں اس میں کوئی مقصدِ صحیح نہیں بلکہ قوم اور ملک کا بہت بڑا نقصان ہے اس میں قوم کے مال کی بربادی اور وقت کو ضائع کرنا ہے اور دین کے نقصان کا تو عالم یہ ہے کہ ہزاروں آدمی بیٹھے دن بھر کھیل دیکھتے رہتے ہیں نہ نماز کی پرواہ نہ اپنا وقت ضائع ہونے کی پرواہ بہر صورت یہ کھیل کھیلنا ناجائز و حرام ہے اور ان کو دیکھنے اور سننے میں وقت ضائع کرنا بھی ناجائز ہے۔
(ملخصاً از وقار الفتاوی، ج3 ،ص436۔437، کراچی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
16/11/2023
16/11/2023