Type Here to Get Search Results !

آہ! ایک عظیم شخصیت نہ رہی


آہ! ایک عظیم شخصیت نہ رہی
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ہر مومن کا عقیدہ ہے کہ جو بھی اس دنیا میں آئے ہیں، اس کا سفر لقمۂ اجل سے ہی پورا ہوگا اور ہر فرد کو موت کا تلخ یا شیریں ذائقہ چکھنا ہی ہوگا مگر پھر بھی جانے والے کے فراق میں اس کے محبین سمندر نچوڑتے ہیں ، ان کی آنکھیں خشک نہیں ہوتیں اور ان کا غم پہاڑ بن کر سینے پر منڈلاتا رہتا ہے__
     یہ تو عیاں ہے کہ عالم فانی میں بقا و استحکام ، دوام اور استمرار کسی کو حاصل نہیں؛ تاہم بہت سی شخصیات کے جانے کے بعد پریشانی و اضطراب غم و افسوس سے زیادہ اس بات کی زیادہ ہوتی ہے کہ اس قحط رجالی کے دور میں جانے والے کا نعم البدل کون ہوگا؟ نعم البدل تو در کنار ، اگر عشر عشیر بھی مل جائے ، تو زہے نصیب!___
     لیکن اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایسی شخصیات کے نقوش موجود، ان کے پاس انفاس کی خوشبو محفوظ اور ان کے آہ سحر گاہی کے درد کی کسک اور تڑپ محسوس ہوتی رہتی ہے؛ کیوں کہ با فیض ہستیاں کبھی نہیں مرتی ہیں ، ان کے کارناموں سے دنیا بعد میں بھی فیض یاب ہو کر راہ یاب ہوتی رہتی ہے: ع
الجاہلون فموتی قبل موتھم 
والعالمون و ان ماتوا فاحیاء 
(جہلاء موت سے پہلے بھی مرے ہوئے ہوتے ہیں، جب کہ علما مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں)
     پاک اور پاکیزہ ہستیوں کا جانا صرف پردہ کر جانا ہے، وہ اپنے علمی، دینی، روحانی، اصلاحی و عرفانی خدمات اور کمالات سے مرنے کے بعد بھی فیض پہنچاتے رہتے ہیں ، ان کے لگائے ہوئے شجر علم سے لوگ سایہ پاتے ہیں، ان کے ذریعے پروان چڑھنے والے مدارس اور خانقاہوں سے لوگوں کے قلوب منور اور روشن ہوتے ہیں، ان کے آب سحر گاہی کی برکت سے بعد والے روشنی حاصل کرتے رہتے ہیں:ع
قدم قدم مری ہمت بڑھائی جاتی ہے
نفس نفس تری آہٹ سنائی جاتی ہے
     انھیں باعظمت اور باوقار شخصیتوں میں ایک نام ہے چمن رشیدی کے گل صدا بہار، راس العلماء والفقہاء، مجمع البحرین حضرت علامہ مفتی عبیدالرحمٰن رشیدی نوراللہ مرقدہ سجادہ نشین خانقاہ عالیہ رشدیہ جون پور شریف کا۔ طویل علالت کے بعد یہ اقلیم علم کا تاجدار، مسند ولایت کا صدر نشین، گلشن دین کا باغباں، حریم نبوت کا پاسباں ، علم و معرفت کا بحر بیکراں، اسرار شریعت کا نکتہ رس ہمیشہ کے لیے آج بتاریخ ١١ رمضان ١٤٤٥ھ مطابق ٢٢ مارچ ٢٠٢٤ء بروز جمعہ ہم سے جدا ہوکر راہئی عالم آخرت ہوا۔”كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاکرام“_____
ممکن نہیں ہے دوسرا تجھ سا ہزار میں 
ہوتا ہے اک بہشت کا دانہ ہزار میں
آپ صوبۂ بہار کے ایک معروف ضلع کٹیہار کے ’’بینی باڑی‘‘ نامی گاؤں میں ایک عظیم الشان عالم دین ، صوفی باصفا، حضرت مولانا حکیم لطیف الرحمٰن رشیدی قدس سرہ کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ہی میں شروع کی اور پھر باضابطہ تعلیم کے لیے دارالعلوم مصطفائیہ،چمنی بازار، پورنیہ، بہار پہنچے۔ جہاں آپ نے شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ اور خواجۂ علم و فن حضرت علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ جیسے معتبر شخصیات کی صحبت میں رہ کر شرح جامی تک پڑھا۔ اس کے بعد دارالعلوم حنفیہ رضویہ بنارس، مدرسہ مظہراسلام بریلی شریف اور جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں میں تعلیم حاصل کی اور ۱۹۹۷ء میں جملہ علوم و فنون کی تکمیل فرماکر ’’العلماء ورثۃ الانبیا‘‘ کا تاج زریں اپنے سر باندھا۔آپ کے اساتذہ میں مذکورہ شخصیات کے علاوہ مولانا مبین الدین محدث امروہوی، مولانا تحسین رضا خاں بریلوی ، مفتی بلال احمد نوری، مولانا سید سلیمان اشرف بھاگلپوری، مفتی شمس الدین جونپوری، حافظ ملت مولانا شاہ عبدالعزیز، مولانا حافظ عبدالرؤف بلیاوی، مولانا سید حامد اشرف کچھوچھوی علیہم الرحمۃ الرضوان تھے________
     ظاہری علوم کی تکمیل کے بعد آپ کو محبت الہٰی کی سوزش اور تڑپ کی بنا پر باطنی علوم اور فیوض و برکات کی نسبتیں حاصل ہوئیں، سلوک و تصوف کے درجات طے فرمائے ۔ سب سے پہلے آپ کو اپنے والد بزرگوار مولانا حکیم شاہ لطیف الرحمٰن رشیدی سے تمام سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل ہوئی۔ علاوہ ازیں مولانا شاہ غلام محمد یٰسین رشیدی اور حضرت سید شاہ سجاد جعفری نے بھی اجازت و خلافت کے شرف سے نوازا_____
     زمانۂ طالب علمی سے ہی اساتذہ آپ کی صلاحیت اور ذہانت کے گرویدہ تھے، اس لیے جامعہ اشرفیہ میں ہی معین المدرسین کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہو گیا،اس کے بعد آپ حضرت حافظ ملت کے حکم سے قائد اہل سنت علامہ ارشد القادری کا قائم کردہ ادارہ مدرسہ فیض العلوم جمشید پور گئے اور بحیثیت صدرالمدرسین اور شیخ الحدیث اپنا علمی فیضان عام کرنے لگے۔ یہیں سے آپ نے فتوی نویسی کا بھی آغاز فرمایا اور دار الافتا کا گراں قدر منصب آپ کے سپر د کیا گیا۔چندسال جمشید پور میں رہ کر اپنے استاذ حافظ عبدالرؤف بلیاوی کے حکم سے جامعہ حمید یہ رضویہ بنارس تشریف لے گئے۔جب آپ بنارس پہنچے تو آپ کی کافی قدر و منزلت کی گئی،آپ نے کئی سال وہاں قیام فرمایا، تدریسی خدمات کے علاوہ فتوی نویسی بھی آپ کی منصبی ذمہ داریوں میں شامل تھی۔ آپ کے استاذ گرامی مولانا سید حامد اشرف کچھو چھوی نے ممبئی میں اپنے قائم کردہ ادارہ دار العلوم محمدیہ میں جب دورۂ حدیث کی تعلیم کا اضافہ کیا تو طلبہ دورۂ حدیث کی تعلیم و تربیت کے لیے آپ کا انتخاب فرمایا۔ اپنے استاذ کی دعوت و طلب پر آپ دار العلوم محمدیہ تشریف لے گئے ، یہاں کچھ عرصے قیام فرمانے کے بعد حضرت حافظ ملت کے حکم سے مدرسہ مظہر اسلام بریلی شریف میں کچھ عرصے درس دیا ۔ اس کے بعد دار العلوم امجد یہ، ناگپور۔بعدہ دار العلوم ندائے حق، جلال پور، فیض آباد تشریف لے گئے ، جہاں اس وقت شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی شیخ الحدیث وصدر المدرسین کے عہدے پر فائز تھے؛لیکن اسی سال ۱۹۷۶ء میں جب حضرت حافظ ملت کا وصال ہوا تو حضرت شارح بخاری یہاں سے رخصت لے کر جامعہ اشرفیہ مبارک پور تشریف لے گئے ، نتیجے میں ان کے یہ دونوں اہم عہدے آپ ہی کے حصے میں آگئے۔ یہاں کئی سال تک قیام فرمانے کے بعد جامعہ شمس العلوم، گھوسی تشریف لے گئے ، یہاں آپ نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ با قاعدہ کا رفقہ وافتا بھی بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا اور ۱۹٨٦ء تک ۵ سال کا ایک طویل عرصہ یہاں آپ نے گزارا۔ اسی سال جب گیارہویں صدی ہجری کی معروف خانقاہ’’خانقاہ رشیدیہ‘‘ جون پور کی سجادگی آپ کے سپرد کی گئی تو آپ نے تدریسی زندگی کو خیر باد کہا اور اسلاف کی اس عظیم امانت کی حفاظت میں اپنے آپ کو وقف کر دیا______
     آپ کے تلامذہ میں مفتی مختار عالم رضوی، مولانا معین الحق علیمی ، مولا ناسجاد احمد رشیدی، مفتی معین الدین رضوی ،مفتی ذوالفقار علی رشیدی، مفتی بدر عالم مصباحی، مولا نا عبدالحق مصباحی، مفتی خواجہ نیر عالم وحیدی، مولانا عارف اللہ فیض مصباحی ، مولانا غلام حیدر القادری، مفتی محمدنسیم اشرفی ،مولانا سید غلام ارشد رشیدی ، مولانا نور عالم عبیدی ، مولانا عبدالباری اعظمی ، مولانا اعجاز انجم لطیفی خاص طور پر قابل ذکر ہیں_____
     جب آپ علامہ ارشد القادری کا قائم کردہ ادارہ مدرسہ فیض العلوم جمشید پور گئے تو حضرت علامہ نے قلمدان افتا آپ کے حوالے کر دیا تھا، یہاں سے آپ کی فقہی زندگی کا آغاز ہوا۔ آپ میں فقہ افتا کی فطری صلاحیت تھی ، حضرت علامہ اس جو ہر قابل کو پہچان رہے تھے۔ آپ نے بھی کمال محنت اور عرق ریزی سے اس شعبے میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کیں اور اس عہد کے اکابر علما و مشائخ کے معتمد ہوگئے____
     ۱۰؍۱۱؍۱۲؍مئی ۱۹۹۸ءمیں حضرت علامہ ارشد القادری نے سیوان میں ایک تاریخی سہ روزہ ’’صوبائی سنی کا نفرنس‘‘ کی تھی، جس میں انھوں نے اکابر علما کی رائے سے یہ تجویز پاس کرائی کہ ہمارا اپنا ایک دارالقضا ہونا چاہیے اور سر دست یہ دارالقضا صوبہ بہار، بنگال اور اڑیسہ کے لیے قائم کیا جائے اور اس کا ہیڈ کوارٹر پٹنہ ہو۔ اس طرح ادارہ شرعیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ تین ریاستوں پر مشتمل اس دار القضا کے پہلے مفتی و قاضی کی حیثیت سے اکابر علما نے آپ کا انتخاب فرمایا اور اس کے دستور العمل مرتب کرنے کی غیر معمولی ذمہ داری بھی آپ ہی کے سپرد کی گئی۔ آپ کے مرتب کردہ اس دستور العمل کی توثیق اکابر علما نے فرمائی اور اس سمت میں ایک تازہ ولولے کے ساتھ کام کا آغاز ہوا۔ آپ نے تدریس کے لیے جہاں جہاں قیام فرمایا وہاں درس وتدریس کے ساتھ ساتھ فقہ وافتا کےبھی فرائض انجام دیے۔ جب جمشید پور سے آپ جامعہ حمیدیہ رضویہ، بنارس تشریف لے گئے۔ اس وقت وہاں آپ کے استاذ مفتی شمس الدین جون پوری مصنف قانون شریعت بھی موجود تھے، انھوں نے آپ کو فقہ وافتا کے کام میں اپنا ہاتھ بٹانے کو کہا ، آپ نے بطیب خاطر اسے قبول فرمایا ۔ اس طرح آپ دار العلوم حمیدیہ رضویہ بنارس میں اپنے استاذ گرامی حضرت شمس العلما کے ساتھ ملک سے آئے ہوئے بے شمار استفتا کے جوابات مرحمت فرمانے لگے۔البتہ آپ نے فتاویٰ نویسی کا زیادہ تر کام مستقل مزاجی کے ساتھ جامعہ شمس العلوم ، گھوسی میں انجام دیا ہے، یہاں آپ نے خدمت حدیث کے ساتھ ساتھ فقہ وافتا کی ترویج و تبلیغ میں بھی قابل قدر خدمات پیش کیں____
     آپ نے درس و تدریس ، فقہ وافتا وغیرہ کے علاوہ کچھ بیش بہا علمی وتحقیقی کارنامے بھی انجام دیے ہیں۔ جب آپ جامعہ شمس العلوم ، گھوسی میں قیام فرما تھے تو وہاں ’’اختیار نبوت‘‘ نامی ایک علمی و تحقیقی کتاب تصنیف فرمائی، جو ایک غیر مقلد مولوی صفی الرحمن اعظمی کی کتاب ’’رزم حق و باطل‘‘ کے جواب میں ہے۔ جب دار العلوم حمیدیہ رضویہ، بنارس میں تھے تو وہاں’’بیان حقیقت‘‘رقم فرمائی، جو ایک دیوبندی مولوی کاکتابچہ’’ نور حق‘‘ کے جواب میں ہے۔ دار العلوم محمدیہ مئی کے دوران قیام چند مخلص افراد کی فرمائش پر ’’جواہر الحدیث‘‘ لکھی۔ ’’گنج ارشدی‘‘ میں فارسی زبان میں مذکور حضرت شمس الحق شیخ محمد رشید جون پوری کے معمولات کو اردو زبان میں ترجمہ کر کے’’معمولات قطب الاقطاب‘‘ کے نام سے ایک رسالہ مرتب فرمایا ۔ ان کے علاوہ ۷۰؍اور۸۰؍ کے دہے میں مختلف رسائل و جرائد، خصوصاً علامہ ارشد القادری کی ادارت و قیادت میں نکلنا والا ماہنامہ ’’جام نور‘‘ میں آپ کے قیمتی وتحقیقی مقالات اور اس کے باب الاستفتا کے کالم میں گراں قدر فتاوے شائع ہوتے تھے۔آپ نے ماہنامہ جام نور اور متعدد اداروں میں جو بے شمار فتاوے رقم فرمائے ہیں ، وہ بھی کئی ضخیم جلدوں میں ہوں گے، جو بلا شبہ آپ کا زبردست علمی و فقہی کارنامہ اور دینی احکام و مسائل کی رہنمائی میں مذہب وملت کے لیے اہم سرمایہ ہے۔[تلخیص از تذکرۂ مشائخ رشیدیہ، ص:٢٤٠ تا ٢٤٦]
     پرودگار عالم نے مجمع البحرین حضرت علامہ مفتی عبید الرحمٰن رشیدی نوراللہ مرقدہ کو اتنی زیادہ خوبیاں عطا فرمائی تھیں کہ ان کو دیکھنا ذ کر الہٰی کا باعث بنتا تھا، ان کا چہرہ ”سیماهم في وجوههم من اثر السجود“ کا مظہر تھا ، لہٰذا ان کا دیدار درون قلب میں نورانیت پیدا کرتا تھا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "النظر على وجہ على عبادة“ یعنی حضرت علی کے چہرے پر دیکھنا بھی عبادت ہے۔ اہل اللہ کا چہرہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ دیکھنے سے اللہ کی یاد آ جاتی اور زبان پر اللہ اللہ جاری ہو جاتا ہے، کچھ ایسا ہی حال حضرت مجمع البحرین رحمۃ اللہ علیہ کا تھا۔ بلاشبہ ان کی وفات ”موت العالم موت العالم“ کی مصداق ہے، اور یہ کسی فرد یا کسی خاندان کا سانحہ نہیں؛ بلکہ پوری ملت اور امت کا سانحہ ہے۔ البتہ یہ جدائی عارضی ہے، ہمیشہ کے لیے نہیں؛ بلکہ اب جو ملاقات ہوگی وہ دائمی ہوگی، پھر کبھی جدائیگی نہیں ہوگی۔ اخیر میں درد دل سے دعائیہ کلمات کے ساتھ اپنا قلم روکتا ہوں کہ رب کریم حضرت علیہ الرحمہ کو دار رحمت میں مقام کریم نصیب فرمائے اور ہم سب کو ان کے فیوض سے مستفیض ہونے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمين بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
آسماں تیری لحد پر شبنم افسانی کرے 
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از: فقیر محمد سبطین رضا مرتضوی
جامعہ تاج الشریعہ، دھامی گچھ، سوناپور ضلع اتردیناج پور، بنگال

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area