Type Here to Get Search Results !

مدارس اسلامیہ کا نصاب ونظام قابل اعتراض


مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
مدارس اسلامیہ کا نصاب ونظام قابل اعتراض
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
(1)بھارت میں مدارس اسلامیہ کا نصاب تعلیم خالص مذہبی ہے،لہذا مدارس اسلامیہ پر حکومت ہند کی جانب سے اعتراض ضرور ہو گا۔ابھی الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے مدارس کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔کل سپریم کورٹ بھی یہی فیصلہ دے سکتا ہے یا کم از کم مدارس کے نصاب ونظام کی اصلاح کی نوٹس ضرور دے گا۔
مدارس کے موجودہ نصاب تعلیم کے سبب بچے بنیادی عصری تعلیم سے محروم رہتے ہیں اور حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کے لئے بنیادی تعلیم کا انتظام کرے،لہذا مرکزی حکومت یا ریاستی حکومت مدارس کے خلاف ایکشن لے سکتی ہے۔
مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران طویل مدت سے غفلت کے شکار ہیں۔وہ مدارس کے نصاب ونظام کی اصلاح کی جانب مائل نہیں ہو سکتے۔آسام میں مدارس ہی ختم کر دیئے گئے،لیکن مدارس کے دانشوروں نے اپنے نصاب ونظام کی تبدیلی نہ کی۔
جن من گن کو جائز بتا دیا گیا،سوریہ نمسکار بھی بعض اہل مدارس نے کر لیا اور حکومتی ہدایات کے مطابق بعض دیگر غیر شرعی امور بھی انجام دے چکے،لیکن نصاب ونظام میں تبدیلی نہ لا سکے،لہذا جو آفت آنی تھی،وہ آ چکی ہے۔
(2)مدارس اسلامیہ کو بچانے کے دو راستے ہیں:
(الف)مدارس اسلامیہ میں صرف ان بچوں کا ایڈمیشن لیا جائے جو میٹرک یا انٹرمیڈیٹ پاس کر چکے ہوں۔
(ب)دوسری صورت یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں دینی تعلیم کے ساتھ بنیادی عصری تعلیم کا نظم ہو اور طلبہ باضابطہ طور پر اسکولی امتحانات دے سکیں۔
اس کے لئے مدارس کو ریاستی اسکولنگ سسٹم یا مرکزی اسکولنگ سسٹم سے منسلک کرنا ہو گا۔
(3)ایک طویل مدت سے مدارس اسلامیہ کے نصاب ونظام کی تبدیلی کی بات کی جا رہی ہے،لیکن اہل مدارس اس جانب توجہ نہیں دیتے۔
(4)الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں لے جانے سے قبل ہی وکیلوں اور مدارس کے ذمہ داروں کو مشترکہ نشست ہو اور مدارس کے جدید نصاب ونظام کی تجویز کے ساتھ سپریم کورٹ جائیں۔
جوش میں ہوش نہ کھوئیں۔بھارت ایک جمہوری ملک ہے۔مسلمانوں کو اپنے مذہب پر عمل اور مذہبی تعلیم کے فروغ کی اجازت ضرور ملے گی،لیکن اس کا طریق کار ویسا ہو گا جو حکومتی قانون سے متصادم نہ ہو۔
اگر حکومتی تجویز اسلام کے خلاف نہیں ہے تو اسے قبول کیا جائے اگر حکومتی قانون خلاف اسلام ہے تو اس سے بچنے کی کوشش کی جائے۔
(5)آسام میں مدارس ختم کر دیئے گئے،لیکن مدارس کے ذمہ داروں نے نصاب ونظام نہیں بدلا۔اگر اپنا نصاب ونظام بدل کر آسام ہائی کورٹ میں جاتے تو حکومتی اعتراض ختم ہو جاتا۔
مسلم وکلا بھی منہ میں دہی جمائے بیٹھے رہتے ہیں۔انہیں واضح کرنا چاہئے کہ حکومت کیوں کسی معاملہ کی مخالفت کر رہی ہے اور اس کا مناسب حل کیا ہے؟
 شاہ بانو کیس(1985) سے آج تک بھارتی سیاست اور مسلمانان ہند ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہو جاتے ہیں اور جب اہل سیاست ہی مسلمانوں کے خلاف ہو تو کورٹ کا فیصلہ متاثر ہونا کچھ بعید نہیں۔
ہمیشہ مسلمانوں کے جذبات کو ابھار کر لیڈروں نے ان کو سڑک پر لایا اور اپنی سیاست چمکائی اور مقرروں وشاعروں نے جلسے کروائے اور اپنے جیب گرم کئے،لیکن معاملات حل نہ ہو سکے۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- طارق انور مصباحی
جاری کردہ: 23:مارچ2024

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area