(سوال نمبر 5145)
میت کا کھانا کسے کھانا چاہئے اور کسے نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا میت کا یعنی چہارم کا کھانا کھانا چاہیئے اگر کھانا چاہیئے تو کس کو کھانا چاہیئے اور کس کو نہیں کھانا چاہیئے
میت کا کھانا کسے کھانا چاہئے اور کسے نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا میت کا یعنی چہارم کا کھانا کھانا چاہیئے اگر کھانا چاہیئے تو کس کو کھانا چاہیئے اور کس کو نہیں کھانا چاہیئے
علمائے کرام قران و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- حافظ محمد نوشاد چشتی سیتامڑہی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
صورت مستفسرہ میں
اصلا اس کا حقدار تو فقط فقراء ہیں پر تیجہ یا بسواں یا چالیسواں وغیرہ میں برائے ایصال ثواب میت جو دعوت طعام کرتے ہیں، وہ معروف ہے کہ غنی و فقیر، خیش و اقارب سب شامل دعوت ہوتے ہیں
پر احسن نہیں کہ ہم غرباء و مساکین کم نہیں انھیں شامل کیا جائے ۔
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں،
میت کے گھر والے تیجہ وغیرہ کے دن دعوت کریں تو ناجائز و بدعت قبیحہ ہے کہ دعوت تو خوشی کے وقت مشروع ہے نہ کہ غم کے وقت اور اگر فقرا کو کھلائیں تو بہتر ہے۔ جن لوگوں سے قرآن مجید یا کلمۂ طیبہ پڑھوایا، ان کے ليے بھی کھانا تیار کرنا ناجائز ہے۔ یعنی جب کہ ٹھہرا لیا ہو یا معروف ہو یا وہ اغنیا ہوں۔تیجے وغیرہ کا کھانا اکثر میت کے ترکہ سے کیا جاتا ہے، اس میں یہ لحاظ ضروری ہے کہ ورثہ میں کوئی نابالغ نہ ہو ورنہ سخت حرام ہے۔ يوہيں اگر بعض ورثہ موجود نہ ہوں جب بھی ناجائز ہے، جبکہ غیر موجودین سے اجازت نہ لی ہو اور سب بالغ ہوں اور سب کی اجازت سے ہو یا کچھ نابالغ یا غیر موجود ہوں مگر بالغ موجود اپنے حصہ سے کرے تو حرج نہیں۔
(بہار 4/203 دعوت اسلامی)
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌO
’جو لوگ ﷲ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں) اور ﷲ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور ﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہےo‘)البقرة، 2 : 261)
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
’جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب اتقو النار و لو لبشق تمرة والقليل من الصدقة، [2 : 514، رقم : 1351 البرقی)
یہ صدقہ نافلہ کا ذکر ہے اس کے مصرف مخصوص نہیں البتہ زکوة اور صدقہ واجبہ فقط انھیں کا حق ہے جو شرعا لینے کے لائق ہیں، ۔
عن إبراهیم بن مهاجر قال: سألت إبراهیم عن الصدقة علی غیر أهل الإسلام، فقال: أما الزکاة فلا، وأما إن شاء رجل أن یتصدق فلا بأس۔ (المصنف لابن أبي شیبة / ما قالوا في الصدقة یعطي منها أهل الذمة، البرقية )
والله ورسوله اعلم بالصواب
سائل:- حافظ محمد نوشاد چشتی سیتامڑہی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
صورت مستفسرہ میں
اصلا اس کا حقدار تو فقط فقراء ہیں پر تیجہ یا بسواں یا چالیسواں وغیرہ میں برائے ایصال ثواب میت جو دعوت طعام کرتے ہیں، وہ معروف ہے کہ غنی و فقیر، خیش و اقارب سب شامل دعوت ہوتے ہیں
پر احسن نہیں کہ ہم غرباء و مساکین کم نہیں انھیں شامل کیا جائے ۔
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں،
میت کے گھر والے تیجہ وغیرہ کے دن دعوت کریں تو ناجائز و بدعت قبیحہ ہے کہ دعوت تو خوشی کے وقت مشروع ہے نہ کہ غم کے وقت اور اگر فقرا کو کھلائیں تو بہتر ہے۔ جن لوگوں سے قرآن مجید یا کلمۂ طیبہ پڑھوایا، ان کے ليے بھی کھانا تیار کرنا ناجائز ہے۔ یعنی جب کہ ٹھہرا لیا ہو یا معروف ہو یا وہ اغنیا ہوں۔تیجے وغیرہ کا کھانا اکثر میت کے ترکہ سے کیا جاتا ہے، اس میں یہ لحاظ ضروری ہے کہ ورثہ میں کوئی نابالغ نہ ہو ورنہ سخت حرام ہے۔ يوہيں اگر بعض ورثہ موجود نہ ہوں جب بھی ناجائز ہے، جبکہ غیر موجودین سے اجازت نہ لی ہو اور سب بالغ ہوں اور سب کی اجازت سے ہو یا کچھ نابالغ یا غیر موجود ہوں مگر بالغ موجود اپنے حصہ سے کرے تو حرج نہیں۔
(بہار 4/203 دعوت اسلامی)
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌO
’جو لوگ ﷲ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں) اور ﷲ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور ﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہےo‘)البقرة، 2 : 261)
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
’جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب اتقو النار و لو لبشق تمرة والقليل من الصدقة، [2 : 514، رقم : 1351 البرقی)
یہ صدقہ نافلہ کا ذکر ہے اس کے مصرف مخصوص نہیں البتہ زکوة اور صدقہ واجبہ فقط انھیں کا حق ہے جو شرعا لینے کے لائق ہیں، ۔
عن إبراهیم بن مهاجر قال: سألت إبراهیم عن الصدقة علی غیر أهل الإسلام، فقال: أما الزکاة فلا، وأما إن شاء رجل أن یتصدق فلا بأس۔ (المصنف لابن أبي شیبة / ما قالوا في الصدقة یعطي منها أهل الذمة، البرقية )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
18/11/2023
18/11/2023