Type Here to Get Search Results !

کیا معتدہ اپنی بیٹی کا علاج کے لیے گھر سے باہر ہاسپٹل جا سکتی ہے؟

 (سوال نمبر 5213)
کیا معتدہ اپنی بیٹی کا علاج کے لیے گھر سے باہر ہاسپٹل جا سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع مسئلہ ذیل میں کہ اگر کوئی عورت عدّت میں ہو اور اس کی لڑکی بیمار ہے جس کو ڈاکٹر نے آپریشن کا بول دیا ہے اور کوئی ساتھ جانے والا نہیں ہے جو اُس کی دیکھ بھال کر سکے تو ایسے میں کیا وہ عورت اپنی لڑکی کو آپریشن کے لیے اسپتال لےجا سکتی ہے؟ وہاں اسے رُکنا بھی پڑے گا جب تک چھٹی نہ ملے رہنمائی فرماٸیں بڑی نوازش ہوگی 
سائلہ:- سعدیہ فاطمہ وشہر ناگپور انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ عورت اگر عدت موت یا عدت طلاق بائنہ میں ہو پھر شوہر کے گھر عدت گزارنا لازم ہے بغیر ضرورت شرعی کے گھر سے باہر نہیں نکل سکتی ۔جیسے بیوہ ہو کھانے کا بند و بست نہیں پھر باہر دن میں کام کر سکتی ہے رات میں نہیں۔
اسی طرح جب ڈاکٹر کو بلانے کی طاقت نہ ہو پھر اپنا علاج کے لیے ہاسٹل جا سکتی یے ۔
مذکورہ صورت میں بیٹی کی زمہ داری باپ کے ذمہ ہے اگر باپ زمہ داری نہ لے پھر اپنے میکے کے کسی معتبر محارم کے ساتھ بھیج کر علاج کروائے ۔
اگر کوئی نہ ہو جس کے حوالے بیٹی کو کر کے علاج کر واسکے اور آپریشن نہ کروالے سے جان کا خطرہ ہو پھر علاج ومعالجہ کے لئے گھر سے نکلنے کی رخصت پر قیاس کرتے ہوئے دن میں جانے کی گنجائش ہے لیکن رات عدت والے گھر ہی میں گذارنی ضروری ہوگی۔
عن ابن جریج قال: قلت لعطاء: الرجل یطلق المرأۃ فلا یبتہا، أیستأذن؟ قال: لا، ولکن یستأنس، وتحذر ہي، وتشوف لہ، فإن کان لہ بیتان، فیجعلہا في أحدہما، وإن لم یکن لہ إلا بیت واحد، فلیجعل بینہ وبینہا سترًا۔
(المصنف لعبد الرزاق، الطلاق / باب استأذن علیہا ولم یبتہا ۶؍۳۲۴ رقم: ۱۱۰۲۷)
وتعتدان أي معتدۃ طلاق وموت في بیت وجبت فیہ، ولا یخرجان منہ إلا أن تخرج أو ینہدم المنزل أو تخاف إنہدامہ أو تلف مالہا أو لا تجد کراء البیت ونحو ذٰلک من الضرورات، فتخرج لأقرب موضع إلیہ۔
(الدر المختار مع الشامي، باب العدۃ / فصل في الحداد ۵؍۲۲۵، ۳؍۵۳۶ کراچی، الہدایۃ ۲؍۴۲۸-۴۲۹، مجمع الأنہر ۲؍۱۵۵ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ویعرف من التعلیق أیضًا أنہا إذا لہا قدر کفایتہا، صارت کالمطلقۃ فلا یحل لہا أن تخرج لزیارۃ ونحوہا لیلاً ونہارًا۔
(فتح القدیر / فصل علی المبتوتۃ والمتوفی عنہا زوجہا الحداد ۴؍۳۴۳)
معتدہ اگر نکلنے پر لاچار ہو جائے تو اس وقت گھر سے نکلنے کی اجازت ہے مثلا
معتدہ اتنی بیمار ہو جائے کہ ڈاکٹر کو دکھانا ضروری ہو محض حال کہہ کر دوا نہ مل سکتی ہو اور ڈاکٹر کو گھر پر بلانے کی استطاعت نہ ہو یا ایسی تکلیف ہو جائے کہ عورت کو ہسپتال لے جانا ضروری ہو۔
مکان گرنے کا خطرہ ہو تو دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے۔
عدت والی عورت کے والدین میں سے یا اولاد میں سے کسی کا یا بھائی بہن کا انتقال ہو جائے یا ان میں سے کوئی بہت بیمار ہو اور کوئی اور دیکھ بھال کرنے والا نہ ہو اور وہاں جائے بغیر بہت رنج و غم ہوتا ہو تو عدت والی عورت ان وجوہات سے دن دن میں نکل سکتی ہے۔
البحر الرائق میں ہے 
و معتدۃ الموت تخرج یوما و بعض اللیل) لتکتسب لا جل قیام المعیشۃ لانہ لا نفقۃ لھا حتی لوکان عندھا کفایتھا صارت کالمطلقۃ فلا یحل لھا ان تخرج لزیارۃ ولا لغیرھا لیلا و لا نھارا و الحاصل ان مدار الحل کون خروجھا بسبب قیام شغل المعیشۃ فیتقدر بقدرہ فمتی انقضت حاجتھا لا یحل لھا بعد ذلک صرف الزمان خارج بیتھا کذا فی فتح القدیر و اقول لو صح ہذا عمم اصحابنا الحکم فقالوا لا تخرج المعتدۃ عن طلاق او موت الا لضرورۃ لان المطلقۃ تخرج للضروری بحسبھا لیلا کان او نھارا والمعتدۃ عن موت کذلک فاین الفرق فالظاہر من کلامھم جواز خروج المعتدۃ عن وفاۃ نھارا ولو کانت قادرۃ علی النفقۃ و لھذا استدل اصحابنا بحدیث فریعۃ بنت ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ ان زوجھا لما قتل أتت النبیا فاستاذنتہ بالانتقال الی بنی خدرۃ فقال لھا امکثی فی بیتک حتی یبلغ الکتاب اجلہ فدل علی حکمین اباحۃ الخروج بالنھار و حرمۃ الانتقال حیث لم ینکر خروجھا و منعھا من الانتقال۔
(البحرالرائق ص ۱۵۳ج ۴)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
25/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area