Type Here to Get Search Results !

حضرت علی کا قول اگر شریعت میں عقل کی دخل ہوتی تو میں موزے میں تلوے پر مسح کرنے کا حکم دیتا؟

 (سوال نمبر 5186)
حضرت علی کا قول اگر شریعت میں عقل کی دخل ہوتی تو میں موزے میں تلوے پر مسح کرنے کا حکم دیتا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حضرت علی نے فرمایا کہ چمڑے کے موزے پر مسح اوپری حصے پر ہوتا ہے اگر شریعت میں عقل کو دخل ہوتا تو میں نیچے یعنی تلوے پر مسح کرنے کا حکم دیتا کیونکہ نجاست تلوے پر لگتی ہے کیا یہ صحیح ہے؟ مع حوالہ وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی 
سائل:- محمد حسنین رضا پیلی بھیت شریف یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
ہاں مذکورہ حدیث صحیح ہے 
پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں فرمایا میں حکم دیتا بلکہ انہوں نے فرمایا ایسا ہونا چاہیے عقلا۔۔۔ پر شریعت میں عقل کی دخل نہیں۔
حدیث شریف میں ہے 
عن عبد خير، عن علي رضي الله عنه ، قال: لو كان الدين بالرأي لكان أسفل الخُفِّ أولى بالمسح من أعلاه، وقد «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح على ظَاهر خُفَيْهِ».  
(صحيح رواه أبو داود)
عبد بن خیر علی رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ نے کہا اگر دین (کا معاملہ) رائے اور قیاس پر ہوتا، تو موزے کے نچلے حصے پر مسح کرنا اوپری حصے پر مسح کرنے سے بہتر ہوتا، حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے دونوں موزوں کے اوپری حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ صحیح - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت
علی رضی الله عنہ خبر دے رہے ہیں کہ اگر دین وحی کو چھوڑ کر عقل اور رائے سے لیا جاتا تو موزوں کے نیچے والے حصے پر مسح کرنا اوپری حصہ سے اَوْلیٰ ہوتا کیونکہ موزے کے نیچے کا حصہ زمین اور گندگیوں سے ملا ہوا رہتا ہے چنانچہ عقلی طور پر یہ مسح کا زیادہ حقدار ہے، لیکن شریعت نے اس کے خلاف حکم دیا ہے، لہذا شریعت پر عمل کرنا ضروری ہے اور وہ رائے اور نظریہ جو نصوصِ شرعیہ کے مخالف ہو اسے ترک کرنا ضروی ہے اور یہ کہ آپ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کو موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کرتے دیکھا ہے۔
 اگر دیکھا جائے تو رسول اللہ ﷺ نے جو کیا وہ دوسرے ناحیہ سے عقل کے عین موافق ہے کیونکہ جب موزوں کے نچلے حصہ کو پانی سے مسح کیا جائے تو وہ نجاست کے لگ جانے کا سبب بنتا ہے چنانچہ اوپری حصہ پر مسح کرنے کا حکم دیا تاکہ اوپری حصہ میں جو گرد وغبار ہے زائل ہو جائے، اور چونکہ موزے کے اوپر والا حصہ ہی نظر آتا ہے اسی بنا پر موزے کے اوپر والے حصہ پر مسح کرنا اولی ہے اور شریعت کے جتنے بھی احکام ہیں وہ عقل سلیم کے مخالف نہیں ہوتے ہیں، لیکن بعض صورتوں میں یہ عقل والوں پر پوشیدہ رہ جاتی ہیں۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
21/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area