Type Here to Get Search Results !

بیوی کی ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہے تو شوہرپر اس کی طرف سے صدقہ فطر کی ادائیگی لازم ہوگی، یانہیں؟


بیوی کی ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہے تو شوہرپر اس کی طرف سے صدقہ فطر کی ادائیگی لازم ہوگی، یانہیں؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زیدکانکاح ہوا، ابھی رخصتی نہیں ہوئی، تو کیا زید کو اس کابھی فطرہ لگے گا؟ علما رہنما فرمائیں ۔ 
سائل: 
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
اللہ تعالٰی نے نکاح کے مقدس رشتے کے ذریعے اگرچہ میاں بیوی کو جوڑ دیا ہے، مگر دونوں اپنی اپنی ملکیت میں مستقل ہیں، ان میں سے ایک کی مالداری دوسرے پر اثر انداز نہیں ہوگی.
یہی وجہ ہے کہ کبھی شوہر پر زکوٰۃ و قربانی اور صدقہ فطر کی ادائیگی تو لازم نہیں، مگر بیوی پر ہرسال ان سب کی ادائیگی لازم ہوتی ہے، اور شرعی اعتبار سے صاحب نصاب عورت کو بھی صدقہ فطر، زکوٰۃ، اور قربانی میں سے ہرایک کو انجام دینا ہوتا ہے ۔ 
اتنی بات کے بعد یہ ذہن نشیں کرلیں کہ صاحب نصاب مرد پر صرف اپنی طرف سے اور اپنے فقیر نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر کی ادائیگی واجب ہے ۔ 
رہی بات بیوی اور بالغ اولاد کی، تو یہ اگرچہ اس مرد کی دیکھ ریکھ اور نگہداشت میں ہوں، ان کی طرف سے ان پر ادائیگی واجب نہیں،پھر بھی اگر ان کی طرف سے ادا کردیتا ہے تو یہ اس مرد کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا، اور ان کی اجازت کے بغیر بھی ان کی طرف سے استحساناً ادائیگی مان لی جائے گی ۔ 
عالمگیری میں ہے : وتجب عن نفسہ وطفلہ الفقیر
(عالمگیری،192/1) 
اسی میں ہے :
وتجب عن نفسہ وطفلہ الصغير ،ولایؤدی عن زوجته ولا عن اولادہ الکبار وإن کانوا فی عیالہ، ولو أدی عنھم أو عن زوجتہ بغیر أمرھم أجزأھم استحساناً. کذا فی الھدایۃ۔
 (الھندیۃ ،193/1)
تو اب سائل نے جو پوچھا ہے اس کا بھی جواب ہوگیا کہ سرے سے بیوی کی طرف سے شوہر پر کچھ ادائیگی واجب نہیں، خواہ وہ سسرال میں ہو کہ میکے میں، رخصتی ہوچکی ہو، کہ نہ ہوئی ہو.
ہاں اگر عورت خود ہی اتنے مال کی مالک ہے تو پھر اس کے اوپر مستقلاً زکوٰۃ وفطر اور قربانی لازم ہیں۔ ــــــ مگر وہ بھی صرف اپنی ہی طرف سے، ایسا نہیں کہ کہ اب اپنے شوہر اور بچوں، اور والدین کی جانب سے بھی ادا کرنا واجب ہے، ہاں اگر ایسا کرتی ہے تو یہ اس کا تبرع اور احسان ہے، 
 مگر یہاں پر اتنا فرق ہے کہ شوہر بلااجازت بیوی کی طرف سے ادا کردے تو ادائیگی مانی جائے گی، اس کے برعکس بلا اذن عورت نے شوہر کا فطرہ دیا تو ادا نہ ہوا ۔ 
(دیکھیں:بہار شریعت،ح:5،ص:941بحوالہ عالمگیری)
ردالمحتار میں ہے :
تجب صدقۃ الفطر علی کل مسلم... ذی نصاب فاضل عن حاجۃ الاصلیۃ کدینہ و حوائج عیالہ وإن لم ینم۔
(شامی:98/2)
والأصل أن صدقۃ الفطر متعلقۃ بالولایۃ والمؤنۃ، فکل من کان علیہ ولایتہ ومؤنتہ ونفقتہ فإنہ تجب علیہ صدقۃ الفطر فیہ وإلا فلا۔
(عالمگیری 193/1)
بہارشریعت میں ایک مسئلہ ہے :
نابالغ لڑکی جو اس قابل ہے کہ شوہر کی خدمت کر سکے اس کا نکاح کر دیا اور شوہر کے یہاں  اُسے بھیج بھی دیا تو کسی پر اس کی طرف سے صدقہ واجب نہیں ، نہ شوہر پر نہ باپ پر اور اگر قابل خدمت نہیں  یا شوہر کے یہاں  اُسے بھیجا نہیں  تو بدستور باپ پر ہے پھر یہ سب اس وقت ہے کہ لڑکی خود مالکِ نصاب نہ ہو، ورنہ بہرحال اُس کا صدقۂ فطر اس کے مال سے ادا  کیا جائے۔
(بہار شریعت ،ح:5ص:939بحوالہ درمختار مع ردالمحتار)
واللہ تعالٰی اعلم
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- فیضان سرور مصباحی 
  15/رمضان المبارک 1439ھ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area