Type Here to Get Search Results !

تقویتہ الایمان سے متعلق چند حقائق


تقویتہ الایمان سے متعلق چند حقائق
_________(❤️)_________ 
ازقلم:- عبید الرضا ارسلان قادری رضوی
مورخہ 4 فروری بروز اتوار
••────────••⊰❤️⊱••───────••
ایک بے تحقیق محکک دیوبندی لئیق نے اپنی نالائقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے "تقویتہ الایمان" کے بارے میں پوسٹ لگائی جوکہ میثم عباس قادری بھائی اور غلام غوث بھائی کے پوسٹس کے جواب میں لگائی بیچارے نے جواب کیا دینا تھا اپنی نا لائقی کا مظاہرہ بخوبی کیا۔
موصوف کی پوسٹ بھی ہم نے یہاں کاپی کر دی ہے تاکہ قارئین ملاحظہ فرما سکیں کہ اس نے کیا گل افشانیاں کی ہیں۔
لئیق ساجد و عمر کی جانب توجہ مبذول کرا کے اپنا جواب لکھتا ہے:
   بندہ (راقم) یہاں اپنے فہم کے مطابق ایک الگ جواب عرض کرتا ہے ملاحظہ فرمائیں۔ 
   چند منٹ کے لئے ہم مان کر چلتے ہیں کہ بالفرض یہ حکایت ہر اعتبار سے صحیح اور معتبر ہو تب بھی رضاخانیوں کا شاہ شہید پر شورش برپا کرنے والا اعتراض درست نہیں۔ کیونکہ بالفرض شاہ شہید نے اگر یہ کہا بھی ہو کہ تقویت الایمان کی اشاعت سے شورش ہوگی تو ان کی مراد یہ ہوگی کہ شورش برپا کرنے والے اہل بدعت روافض ہوں گے، نہ کہ سنی مسلمان! اور واقعہ بھی یہی ہوا شورش اہل بدعت نے ہی برپا کی اور آج تک وہی برپا کررہے ہیں۔ باقی بعض سنی علماء کرام نے تقویت الایمان سے جو اختلاف کیا تو وہ شورش کے زمرے میں نہیں آتا ورنہ ہر شخصیت اور ہر کتاب سے علمی اختلاف کرنا انتشار و شورش کہلائے گا۔
جواب الجواب:-
موصوف کا کہنا کہ مان لیتے ہیں کہ یہ حکایت درست ہے کافی نہیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ روایت و حکایت درست ہے۔ جس پہ آگے چل کر ہم شواہد پیش کریں گے۔
پھر موصوف کا کہنا کہ اس شورش سے مراد یہ تھی کہ اہل بدعت و روافض شورش کریں گے نہ کہ سنی مسلمان
یہ بھی دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں۔ لئیق کا خود کو سنی کہنا بھی عوام الناس کو دھوکہ دینا ہے کیونکہ اس کے بڑے اقرار کر چکے ہیں وہ وہابی ہیں سوانح یوسف کاندھلوی ص 202 پہ ہے:
"ہم خود اپنے بارے میں صفائی سے کہتے ہیں کہ ہم بڑے سخت وہابی ہیں"
تھانوی کہتا ہے:
"اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کر دوں پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں"
ملفوظات ج 2 ص 249 ملفوظ نمبر 361
لیجئے جناب! یہ دو حوالے آپ کی سنیت کا بھرم کھولنے کے لئے کافی ہیں۔
اب یہ کہنا کہ اس پہ شورش اہل بدعت و روافض نے کی اسکا اہلسنت کو اہل بدعت کہنا بھی جھوٹ ہے دیوبندی مفتی سعید خان لکھتا ہے:
"ہم خدام اهل السنة والجماعة ، سب کے لیے لمحہ فکر یہ ہے کہ دیوبندیت کے نام پہ یہ کیا کچھ ہو رہا ہے اور یہ کیا گل کھلائے جا رہے ہیں؟ سنت و بدعت کا فرق مٹایا جا رہا ہے اور اہل بدعت کے اعمال سے بیزاری کے اظہار میں کمی واقع ہو رہی ہے"
"دیوبندیت کی تطہیر ضروری ہے ص 20
مزید لکھتا ہے کہ:
"یہ بدعتیں پچھلے دور میں ان کے ہاں ہوا کرتی تھیں، جنہیں اھل السنة والجماعة دیوبندی علماء کرام کثر الله سوادهم ، بدعتی کہتے تھے اور اب ہمارے اپنے علماء و مشائخ کے انتقال کے بعد ، یہی حرام کام اور بدعتیں خود دیوبندی مدارس اور خانقاہوں میں ہو رہی ہیں، یہ ظلم نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا ان بدعات کے ارتکاب اور وقف میں خیانت پر کوئی سزا نہیں ملے گی ؟ دیوبندی مدارس کے زوال اور خانقاہوں کے اجڑ جانے کی ایک وجہ اس بدعت کا ارتکاب بھی ہے"
ص 16
حکیم محمد اختر لکھتا ہے:
"ارشاد حضرت مولانا منظور نعمانی اب دیوبندیت بریلویت سے ایک بالشت کے فاصلہ پر"
اسکے تحت لکھتا ہے:
"پس اس مقام پر احقر یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ سالکین علماء ، و طلباء کو اول درجے کو اپنانا چاہیئے یعنی جو کام جس انداز سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اس کو اسی طرح اپنائے اور اختیار کرے۔ یہ جو آج کل نیا ایک مزاج پیدا ہوا ہے کہ سنتوں کو چھوڑ کر نئے نئے طریقے اور عبادت کے نئے نئے انداز ایجاد کر لیے گئے اور جب اُن کو اس غلطی پر توجہ دلائی جائے تو جواب میں کہتے ہیں کہ یہ بدعت حسنہ ہے اور فی نفسہ جائز تو ہے سو جب کہ مباح اور جائز ہے تو اس کے کرنے میں کیا حرج ہے اور اسی طرح بہت سے نئے نئے قسم کے ختمات اور وظائف ایجاد کیے گئے ہیں جن کا دور نبوت اور دور صحابہ وتابعین میں کوئی وجود نہیں ملتا۔ انتہائی دکھ اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ دیوبندی مسلک پر چلنے والے اور اپنے کو علمائے دیوبند سے وابستہ قرار دینے والے لوگ بھی اس میں کثرت کے ساتھ مبتلا ہیں۔ چنانچہ احقر نے استاد محترم حضرت مفتی سعید صاحب پالن پوری دامت برکاتہم سے یہ بات سنی جو کہ حضرت نے دوران درس بیان فرمائی اور ایک مرتبہ رابطة المدارس کے جلسے کے موقع پر اس بات کا تذکرہ کیا اور لکھنے سے پہلے جنوبی افریقہ سے حضرت کو بذریعہ فون معلوم کی اور عرض کیا کہ کتاب میں آپ کے حوالہ سے لکھ سکتا ہوں تو ارشاد فرمایا کہ ضرور لکھو کہ حضرت مولانا منظور نعمانی دامت برکاتہم نے اُن سے یہ بات ارشاد فرمائی کہ اب دیوبندیت اور بریلویت میں ایک بالشت کے برابر فاصلہ رہ گیا ہے۔ اور دیوبندیت بریلویت کے انتہائی قریب پہنچ چکی ہے۔ تعجیب ہے ان لوگوں پر کہ جب اس طرح کے مسائل اور ختمات اور نئی نئی باتوں پر ان کو روک ٹوک کی جاتی ہے تو وہ دلیل اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ ان چیزوں کا عبادت ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ مگر یہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تو ثابت ہونا چاہیے کہ اس ہیئت اور کیفیت کے ساتھ ان خاص مواقع پر خاص انداز سے ان کاموں کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ و تابعین میں سے کسی نے کیا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں کیا تو پھر ہمیں اُن کے کرنے کی کیا ضرورت ہے"
عرفان محبت جلد 2 ص 252
لیجئے جناب اس عبارت پہ ہم تبصرہ نہیں کرتے صاف اور صریح عبارت ہے ہم نے آپ کا سنی نہ ہونا اور بدعتی ہونا آپ کے گھر سے ہی ثابت کر دیا 
اس کے بعد موصوف لکھتے ہیں:
مولوی احمد رضا خان لکھتے ہیں کہ: 
بڑے بڑے ائمہ کرام کی کتابوں میں سے کوئی بھی کتاب ایسی نہیں کہ اس کے بعض مقامات قابل تنقید و تنقیح نہ ہوں، تو ہم نئے لوگوں کی کتابوں کے بارے میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سب کچھ درست ہے
فتاویٰ رضویہ، جلد 7، ص 552 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور
  جب بڑے بڑے ائمہ کی کتب میں سے کوئی کتاب بھی ایسی نہیں کہ جس کے بعض مقامات قابل تنقید و تنقیح نہ ہوں تو اگر یہی خامی تقویت الایمان میں بھی بعض اہل علم کو نظر آئی اور انہوں نے تنقید و تردید کردی تو اس میں ہلّہ مچانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ کیونکہ مولوی احمد رضا خان خود اپنی کتب کے متعلق کہہ رہے ہیں کہ اس میں سب کچھ درست نہیں۔
جواب الجواب:-
اول تو یہ بات امام اہلسنت نے اسے باب الاختلاف میں ذکر فرمایا 
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اختلافات پہ تھانوی صاحب کہتے ہیں یہ تو ظاہر ہے کہ باہم اکابر و اصاغر و اوساط میں اختلاف رائے رہا اور ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان اختلافات کی وجہ سے باہم اعتراضات بھی ہوئے
اشرف السوانح ج 3 ص 226
اب جو بات امام اہلسنت نے کی وہی بات تھانوی نے کی لہذا اسے پیش کرنا دیوبندی قواعد کی رو سے عبث ہوا۔
آگے چل کے کہتے ہیں:
سب سے اول مشاجرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیکھا جائے کہ جلیل القدر صحابہ یہاں تک کہ عشرہ مبشرہ بلکہ خلفائے راشدین پر بھی بوجہ اختلاف اعتراض کئے گئے ہیں بلکہ بعض اوقات سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ یہاں تک کہ قتال کی نوبت پہنچ گئی لیکن یہ اسی حد تک تھا، جہاں تک اختلاف رائے کا تعلق تھا اور جب نفس ذات پر نظر جاتی تھی تو وہی ارتباط معلوم ہوتا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ صدیقہ و حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم کے واقعات موجود ہیں
آگے کہتے ہیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک فرعی مسئلہ میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی نسبت سخت الفاظ استعمال کئے
 ایضاََ ما ھوا جوابکم فھوا جوابنا
اس پہ پیش کرنے کو حوالے اور بھی ہیں مگر امید ہے کہ لئیق کی طبیعت انہی سے صاف ہو جائے گی۔
شورش کرنے والے کون تھے؟
احمد رضا بجنوری لکھتا ہے:
"افسوس ہے کہ اس کتاب کی وجہ سے مسلمانان ہند و پاک جن کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور تقریبا نوے فیصدی حنفی المسلک ہیں دو گروہ میں بٹ گئے ایسے اختلافات کی نظیر دنیائے اسلام کے کسی خطے میں بھی ایک امام اور ایک مسلک کے ماننے والوں میں موجود نہیں ہے۔"
(
انوار الباری، جلد 13، ص 392 ، اداره تالیفات اشرفیه ملتان )
لیجئے جناب! یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ تقویتہ الایمان کی وجہ سے دو مسلمان گروہ الگ ہو گئے اور اس سے وہ اختلاف ہوا جس کی نظیر نہیں ملتی اس کا اقرار بھی آپ کے گھر والوں نے کیا۔
قاضی شمس الدین درویش لکھتا ہے:
"انگریزوں نے مسلمانوں میں سر پھٹول پیدا کرنے کے لیے کسی کم علم دیہاتی مولوی سے گنواری اردو میں یہ کتاب لکھوائی کتاب کی اردو بے حد گھسیاری قسم کی ہے جسے عام اردو دان بھی سمجھ سکتا ہے"غلغلہ بر زلزلہ ص 18
مزید لکھتا ہے:
"انگریزوں نے اس کتاب کو ہندوستان کے گوشے گوشے میں پہنچایا ، تاکہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے مخالف ہوں ، وہ آپس میں لڑیں اور انگریز سکون سے حکومت کریں"
اب واضح ہو گیا کہ مسلمانوں میں فساد پیدا کرنے کے لئے اسماعیل دہلوی کا انتخاب کر کے انگریزوں نے یہ کتاب نہ صرف لکھوائی بلکہ اسے چھپوا کر مفت تقسیم کرایا۔
اب اسی کا اعتراف قتیل نے خود کیا کہ:
"اس لئے میں نے یہ کتاب لکھ دی ہے گو اس سے شورش ہو گی مگر توقع ہے کہ لڑ بھڑ کر خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے"
ارواح ثلاثہ ص 65
لیجئے جناب اگر آپ ہمیں الزام دیتے ہیں کہ ہم نے شورش برپا کی تو موصوف کا لڑنے بھڑنے والا بیان تو آپ ہضم ہی کر گئے شمس الدین نے اس کو بھی واضح کر دیا
اب ان کا کہنا کہ شورش کرنے والے اہل بدعت و روافض تھے وہ جھوٹ بھی بے نقاب ہوا اخلاق حسین قاسمی لکھتا ہے:
"ایک عینی شاہد کے بیان کے مطابق خاندان کے دوسرے افراد مولانا مخصوص اللہ رحمہ اللہ تعالی وغیرہ کو تقویۃ الایمان کے اسلوب سے اختلاف ہے کہ اس میں مولانا شہید نے شرک کی مشابہ چیزوں کو جو مکروہ کے درجہ کی ہیں انہیں شرک جلی کے درجہ میں داخل کر دیا"
شاہ اسماعیل شہید اور ان کے ناقد ص 73
اب دیابنہ کا یہ کہنا کہ کسی امر کو شرک جلی نہ کہا یہ ان کے منہ پہ طمانچہ ہے جیسا کہ افضال نے چیلنج کے ساتھ کہا دیابنہ کا امام الہند ابو الکلام آزاد کہتا ہے:
"مولانا محمد اسماعیل شہید مولانا منور الدین کے ہم درس تھے شاہ عبد العزیز کے انتقال کے بعد کو جب انہوں نے تقویۃ الایمان اور جلاء العینین لکھی اور ان کے مسلک کا ملک میں چرچا ہوا تو تمام کا علماء میں ہل چل پڑگئی ان کے رد میں سب سے زیادہ سرگرمی بلکہ سربراہی مولانا منور الدین نے متعدد کتابیں لکھیں اور ۱۲۴۰ھ والا مشہور مباحثہ جامع مسجد کیا تمام علمائے ہند سے فتویٰ مرتب کرایا۔ پھر حرمین سے فتویٰ منگایا۔ ان کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ابتداء میں مولانا اسماعیل اور ان کے رفیق اور شاہ صاحب کے داماد مولانا عبد الحی کو بہت فہمائش کی اور ہر طرح سمجھایا لیکن جب ناکامی ہوئی تو بحث و رد میں سرگرم ہوئے اور جامع مسجد کا شہرہ آفاق مناظرہ ترتیب دیا جس میں ایک طرف مولانا اسماعیل اور مولانا عبدالحی تھے اور دوسری طرف مولانا منور الدین اور تمام علمائے دہلی"
ابو الکلام کی کہانی خود ان کی زبانی ص 44
لیجئے جناب!
یہ بھی آپ کے گھر کا اقرار ہے کہ دہلوی کو سب سے پہلے اس کے اپنوں نے ہی پکڑا مگر دہلوی نے جو فتنہ پیدا کر دیا تھا اس سے پیچھے ہٹنے کا نام تک نہ لیا اس نے۔ اب یہ بھی واضح ہو گیا کہ اس کا رد کرنے والے بھی وقت کے علماء تھے۔
ابوالکلام کی کہانی خود ان کی زبانی بی ۴۴۰، مکتبہ جمال لاہور
اس کے بعد لئیق لکھتا ہے:
 اگر بعض سنی علماء کرام نے شاہ اسماعیل شہید کو خطا پر سمجھ کر ان کا رد کیا تو ضروری نہیں کہ واقعی شاہ شہید ہی خطا پر تھے، معاملہ برعکس بھی ہوسکتا ہے، حوالہ ملاحظہ فرمائیں۔
  رضاخانیوں کے رازئ وقت غزالئ زماں علامہ احمد سعید کاظمی لکھتے ہیں 
 ضروری نہیں کہ جس چیز کو کوئی شخص خطا سمجھے وہ در حقیقت بھی خطا ہو، ہو سکتا ہے کہ ایک بات کسی کی رائے میں خطا ہو لیکن واقعہ اس کے خلاف ہو(درود تاج پر اعتراضات کے جوابات: ص 12، مطبوعہ کاظمی پبلیکیشنز
پس بعض سنی علماء کرام کا شاہ شہید کو خطا پر سمجھ کر رد کرنا واقعہ کے خلاف تھا۔ اصل میں وہ علماء ہی خطا پر تھے اگرچہ ان علماء حق کے اخلاص نیت پر ہمیں شک نہیں۔ اس بات کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ تقویت الایمان کے مخالف علماء میں سے بہت سے علماء نے بعد میں رجوع کرلیا اور شاہ شہید کے ساتھ ہوگئے۔
(دلیل میرے زمہ مطالبہ پر پیش کرسکتا ہوں)
جواب الجواب:-
اول تو یہاں ہم موصوف کو بتا دیں کہ ہمارے گھر کا حوالہ ان کو معتبر نہیں کیونکہ ہم نے جو کچھ پیش کیا ان کے گھر سے پیش کیا اور دیابنہ کا اصول ہے گھر کا گند گھر سے ہی صاف کریں پھر ان کا یہ اصول بھی ہے کہ ہمارے اصول ہمارے لئے ہیں اب چلیں مزید جواب کہ جانب۔
اول تو ہم پیش کر چکے کہ کن علماء نے اسکا رد کیا جبکہ رشید احمد گنگوہی نے تقویتہ الایمان کو عین اسلام کہا۔ اب لئیق کہا کہنا کہ جن علماء نے اسکا رد کیا وہ خطا پہ تھے تو بتائیں عین اسلام کے خلاف جا کر صرف وہ خطا پہ رہے؟
اس پہ مزید بھی کئی حوالے ہیں انور کشمیری نے تقویتہ الایمان کا رد کیا وہ عین اسلام کا رد کر کے کس نہج پہ پہنچا؟
لئیق مزید لکھتا ہے:
محققِ بے تحقیق جناب میثم عباس رضاخانی کا کہنا ہے کہ فلاں فلاں دیوبندی مولویوں نے تقویت الایمان کی شاہ اسماعیل شہید کی طرف نسبت سے انکار ہے۔
  جواباً عرض ہے کہ تقویت الایمان کے شاہ شہید کی تصنیف ہونے پر (چند ایک کو چھوڑ کر) تمام علماء دیوبند کا اتفاق ہے، بلکہ تمام علماء بریلویہ کا بھی اتفاق ہے ۔ لہزا چند ایک دیوبندی علما کا انکار شاذ، تفرد اور ذاتی آراء ہیں جو رضاخانی اصول سے ہرگز حجت نہیں۔(دست و گریباں کا تنقیدی جائزہ) 
اس سلسلے میں مزید تفصیل کے لیے مجلہ احوال آثار کاندھلہ شمارہ ۲۰-۲۱ کا مطالعہ کریں۔ 
جواب الجواب:-
میثم بھائی کو محقق بے محقق کہنا تیری مخبوط الحواسی کی دلیل ہے ان کو جواب دینے کے بجائے تم نے وقت کا ضیاع ہی کیا جن تیرے بڑوں نے انکار کیا اس میں ٹانڈوی و کشمیری بھی شامل ہیں ان کے مقابلے میں پہلے اپنی حیثیت تو واضح کر ؟ 
پھر دیوبندی اصول ہے کہ ذاتی رائے یا تفرد کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی حکم بتانا ہو گا؟ اب تسامح و کاتب کی غلطی و تفرد پہ افضال کی پوسٹ بھول گیا یا یاد کراؤں ؟
اس کے بعد لکھتا ہے:
   اسکے علاوہ جناب میثم نے حیض کے چیتھڑے والی بات پھر دہرائی۔((اسکرین شارٹ دیکھیں))
حالانکہ موصوف کے حیض کے چیتھڑے بندہ پہلے بھی اڑا چکا ہے، مگر عورت نما آدمی میں جب شرم و حیاء باقی نہ رہے تو ہم کر ہی کیا سکتے ہیں؟ موصوف کے چیتھڑوں سے دو قطرے یہاں پھر پیش کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیں۔ (۱) جناب میثم ہمیں یہ بتائیں کہ مولوی احمد رضا خان بریلوی کی بدنام زمانہ "حدائق بخشش" حصہ سوم، کس رضاخانی عورت کے حیض کے چیتھڑوں میں چُھپی ہے کہ برسوں بیت گئے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی؟؟؟ (نمبر۲) بقول مصطفی رضا خان ابن احمد رضا خان: "فتاوی رضویہ کی جلد پنجم کا مخطوطہ بالکل ضائع ہوگیا تھا"۔۔۔جبکہ آج مارکیٹ میں جلد پنجم دستیاب ہے۔ سوال یہ ہے کہ بریلی شریف کی کس رضاخانی شریفہ کے چیتھڑوں سے دستیاب ہوئی تھی کہ آج مارکیٹ میں موجود؟؟؟
جواب الجواب:-
حیض کے چیتھڑے والی بات تیرے ابو کی ہے اور اپنے گھر کا اصول دیکھ کہ تمہارا اصول تمہارے لئے ہے نہ کہ ہمارے لئے۔
 حدائق بخشش حصہ سوئم پہ "فیصلہ مقدسہ" اور "تحقیقات" میں جواب دیا جا چکا ہے۔ فتاوی رضویہ کے مخطوطات اگر ضائع ہوئے تو انہوں نے ضائع شدہ فتاوی کی اشاعت کا دعوی نہ کیا تاریخ میں کئی کتب ضائع ہو چکی ہیں اس پہ کیا کہو گے۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area