ہم شب برات کس طرح منائیں قسط دوم
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بسم الله الرحمن الرحيم
شب برأت کی عبادت گزاروں اور توبہ کرنے والوں کو چاہیے کہ اس رات بار بار اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتے رہیں اور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے رہیں، اشک ندامت بہاتے رہیں، یہ وہی رات ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساری رات سجدہ میں گزارتے تھے، اس رات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع کے قبرستان جاتے تھے اور مردوں کے لیے مغفرت طلب کرتے تھے اور امت کی بخشش کے لیے دعائیں کرتے تھے، سو اس رات ہمیں بھی زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا چاہیے۔ اپنے لیے بھی، اپنے والدین کے لیے بھی، دیگر قرابت داروں کے لیے بھی اور عامۃ المسلمین کے لیے بھی اور اس شب میں قبرستان جاکر اپنے اعزہ کی قبروں کی زیارت کرنی چاہیے اور ان کے لیے بخشش کی دعا کرنی چاہئیں
توبہ پر اصرار اور استغفار کو لازم رکھیں حدیث پاک میں ہے ۔
١/ حضرت عبداللہ بن مسعود رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی مثل ہے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔
(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٤٥٠، شعب الایمان رقم الحدیث : ٧١٩٦، جامع المسانید مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٨٩٠)
٢ / حضرت انس رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص سوال کرے تو پورے عزم اور وثوق سے سوال کرے اور یہ ہرگز نہ کہے : اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا فرما کیونکہ کوئی شخص اللہ سبحانہ کو مجبور کرنے والا نہیں ہے۔
شب برأت کی عبادت گزاروں اور توبہ کرنے والوں کو چاہیے کہ اس رات بار بار اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتے رہیں اور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے رہیں، اشک ندامت بہاتے رہیں، یہ وہی رات ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساری رات سجدہ میں گزارتے تھے، اس رات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع کے قبرستان جاتے تھے اور مردوں کے لیے مغفرت طلب کرتے تھے اور امت کی بخشش کے لیے دعائیں کرتے تھے، سو اس رات ہمیں بھی زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا چاہیے۔ اپنے لیے بھی، اپنے والدین کے لیے بھی، دیگر قرابت داروں کے لیے بھی اور عامۃ المسلمین کے لیے بھی اور اس شب میں قبرستان جاکر اپنے اعزہ کی قبروں کی زیارت کرنی چاہیے اور ان کے لیے بخشش کی دعا کرنی چاہئیں
توبہ پر اصرار اور استغفار کو لازم رکھیں حدیث پاک میں ہے ۔
١/ حضرت عبداللہ بن مسعود رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی مثل ہے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔
(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٤٥٠، شعب الایمان رقم الحدیث : ٧١٩٦، جامع المسانید مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٨٩٠)
٢ / حضرت انس رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص سوال کرے تو پورے عزم اور وثوق سے سوال کرے اور یہ ہرگز نہ کہے : اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا فرما کیونکہ کوئی شخص اللہ سبحانہ کو مجبور کرنے والا نہیں ہے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٣٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦١٨، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ١٨٦٠)
٣/ حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے : اے اللہ مجھے معاف کردے، اے اللہ مجھے معاف کردے اگر تو چاہے، اس کو چاہیے کہ پورے عزم اور زور سے سوال کرے، کیونکہ اللہ پر کوئی جبر کرنے والا نہیں ہے۔
٣/ حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے : اے اللہ مجھے معاف کردے، اے اللہ مجھے معاف کردے اگر تو چاہے، اس کو چاہیے کہ پورے عزم اور زور سے سوال کرے، کیونکہ اللہ پر کوئی جبر کرنے والا نہیں ہے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٣٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٧٩)
٤/ حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کسی شخص کی دعا اس وقت قبول ہوتی ہے جب وہ دعا قبول ہونے میں جلدی نہ کرے، وہ کہے : میں نے دعا کی تھی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٤٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٣٥، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٤٨٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٨٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٥٣ )
٥/ حضرت سیدنا آدم علیہ السلام نے بھولے سے شجر ممنوع سے کھالیا، پھر تین سو سال تک اس پر روتے رہے اور استغفار کرتے رہے، تب جاکر اللہ نے انہیں مغفرت کی نوید سنائی، حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ میں مبعوث فرمانے کے لیے یہ دعا کی تھی :
ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیہم ایتک ویعلمھم الکتب والحکمۃ ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم (البقرہ : 129)
اے ہمارے رب ! ان میں ایک (عظیم) رسول بھیج دے جو ان پر تیری آیتوں کی تلاوت کرے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا باطن صاف کرے، بیشک تو بہت غالب، بےحد حکمت والا ہے
٦/ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو دو ہزار سے زیادہ برس گزر گئے، اس کے بعد مکہ میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی، یہ تو مقبولان بارگاہ کی دعائیں ہیں جو اس قدر طویل عرصہ گزر جانے کے بعد قبول ہوئیں تو ہمار اور آپ کی حیثیت ہے، اس لیے دعا کرنے کے فوراً بعد یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ ہماری قبول ہوجائے گی اور اگر دعا جلد قبول نہ ہو تو پھر دعا کرنے کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔
٧/ حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں
صحیح مسلم اور سنن ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے : بندہ کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی رہتی ہے جب تک دو گناہ کی دعا نہ کرے یا قطع رحم کی دعا نہ کرے یا جب تک جلدی نہ کرے، کہا گیا کہ جلدی کا کیا معنی ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ کہے کہ میں نے دعا کی اور دعا کی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ پھر اس کو افسوس ہوا اور وہ دعا کرنا چھوڑ دے۔ اس حدیث میں دعا کے آداب کی تعلیم ہے کہ وہ بار بار طلب کرتا رہے اور مایوس نہ ہو۔
علماء نے کہا ہے کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے دعا کی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی اس کے متعلق اندیشہ ہے کہ وہ دعا کے قبول ہونے سے محروم ہوجائے گا۔
(فتح الباری ج ١٢ ص ٤٢٨، دارالفکر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
دعا قبول نہ ہونے سے نہ اکتائے نہ مایوس ہو بلکہ مسلسل دعا کرتا رہے ایک عارف نے کہا : میری دعا قبول ہوجائے پھر بھی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اگر میری دعا قبول نہ ہو پھر بھی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں، کسی نے کہا : اگر آپ کی دعا قبول ہو پھر تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی وجہ سمجھ آتی ہے اور اگر آپ کی دعا قبول نہ ہو تو پھر کس لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں ؟ عارف نے کہا : ہرچند کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ کا مجھ پر یہ کرم کم تو نہیں ہے کہ اس نے مجھے اپنے در کا منگتا بنایا ہوا ہے، کسی اور کے دروازہ پر گدائی کرنے کے لیے نہیں چھوڑا ہوا۔
٨/ علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ لکھتے ہیں
ایک بوڑھا آدمی ایک نوجوان کے ساتھ حج کرنے کے لیے گیا، بوڑھے نے احرام باندھ کر کہا : لبیک (میں تیری بارگا میں حاضر ہوں) غیب سے آواز آئی : لا لبیک (تیری حاضری قبول نہیں) ، نوجوان نے بوڑھے سے کہا : کیا تم یہ جواب نہیں سن رہے، بوڑھے نے کہا : میں تو ستر سال سے یہ جواب سن رہا ہوں، میں ہر بار کہتا ہوں : لبیک، جواب آتا ہے : لا لبیک، نوجوان نے کہا پھر تم کیوں آتے ہو اور سفر کی مشقت برداشت کرتے ہو اور تھکتے ہو ؟ وہ بوڑھا رو کر کہنے لگا : پھر میں کس کے دروازہ پر جائوں ؟ مجھے رد کیا جائے یا قبول کیا جائے میں نے یہیں آنا ہے، اس گھر کے سوا میری اور کہیں پناہ نہیں ہے، پھر غیب سے آواز آئی، جائو تمہاری ساری حاضریاں قبول ہوگئیں۔
(روح البیان ج ٨ ص ٤٥٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ بحواله تفسير تبيان القرآن تحت أية الدخان)
معلوم ہوا کہ توبہ میں ہمیں جلد بازی نہیں کرنی چاہئے ہمارا کام ہے توبہ کرتے رہنا قبول کرنا اور نہ کرنا اس مالک حقیقی کا کام ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
٤/ حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کسی شخص کی دعا اس وقت قبول ہوتی ہے جب وہ دعا قبول ہونے میں جلدی نہ کرے، وہ کہے : میں نے دعا کی تھی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٤٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٣٥، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٤٨٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٨٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٥٣ )
٥/ حضرت سیدنا آدم علیہ السلام نے بھولے سے شجر ممنوع سے کھالیا، پھر تین سو سال تک اس پر روتے رہے اور استغفار کرتے رہے، تب جاکر اللہ نے انہیں مغفرت کی نوید سنائی، حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ میں مبعوث فرمانے کے لیے یہ دعا کی تھی :
ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیہم ایتک ویعلمھم الکتب والحکمۃ ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم (البقرہ : 129)
اے ہمارے رب ! ان میں ایک (عظیم) رسول بھیج دے جو ان پر تیری آیتوں کی تلاوت کرے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا باطن صاف کرے، بیشک تو بہت غالب، بےحد حکمت والا ہے
٦/ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو دو ہزار سے زیادہ برس گزر گئے، اس کے بعد مکہ میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی، یہ تو مقبولان بارگاہ کی دعائیں ہیں جو اس قدر طویل عرصہ گزر جانے کے بعد قبول ہوئیں تو ہمار اور آپ کی حیثیت ہے، اس لیے دعا کرنے کے فوراً بعد یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ ہماری قبول ہوجائے گی اور اگر دعا جلد قبول نہ ہو تو پھر دعا کرنے کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔
٧/ حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں
صحیح مسلم اور سنن ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے : بندہ کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی رہتی ہے جب تک دو گناہ کی دعا نہ کرے یا قطع رحم کی دعا نہ کرے یا جب تک جلدی نہ کرے، کہا گیا کہ جلدی کا کیا معنی ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ کہے کہ میں نے دعا کی اور دعا کی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ پھر اس کو افسوس ہوا اور وہ دعا کرنا چھوڑ دے۔ اس حدیث میں دعا کے آداب کی تعلیم ہے کہ وہ بار بار طلب کرتا رہے اور مایوس نہ ہو۔
علماء نے کہا ہے کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے دعا کی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی اس کے متعلق اندیشہ ہے کہ وہ دعا کے قبول ہونے سے محروم ہوجائے گا۔
(فتح الباری ج ١٢ ص ٤٢٨، دارالفکر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
دعا قبول نہ ہونے سے نہ اکتائے نہ مایوس ہو بلکہ مسلسل دعا کرتا رہے ایک عارف نے کہا : میری دعا قبول ہوجائے پھر بھی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اگر میری دعا قبول نہ ہو پھر بھی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں، کسی نے کہا : اگر آپ کی دعا قبول ہو پھر تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی وجہ سمجھ آتی ہے اور اگر آپ کی دعا قبول نہ ہو تو پھر کس لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں ؟ عارف نے کہا : ہرچند کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ کا مجھ پر یہ کرم کم تو نہیں ہے کہ اس نے مجھے اپنے در کا منگتا بنایا ہوا ہے، کسی اور کے دروازہ پر گدائی کرنے کے لیے نہیں چھوڑا ہوا۔
٨/ علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ لکھتے ہیں
ایک بوڑھا آدمی ایک نوجوان کے ساتھ حج کرنے کے لیے گیا، بوڑھے نے احرام باندھ کر کہا : لبیک (میں تیری بارگا میں حاضر ہوں) غیب سے آواز آئی : لا لبیک (تیری حاضری قبول نہیں) ، نوجوان نے بوڑھے سے کہا : کیا تم یہ جواب نہیں سن رہے، بوڑھے نے کہا : میں تو ستر سال سے یہ جواب سن رہا ہوں، میں ہر بار کہتا ہوں : لبیک، جواب آتا ہے : لا لبیک، نوجوان نے کہا پھر تم کیوں آتے ہو اور سفر کی مشقت برداشت کرتے ہو اور تھکتے ہو ؟ وہ بوڑھا رو کر کہنے لگا : پھر میں کس کے دروازہ پر جائوں ؟ مجھے رد کیا جائے یا قبول کیا جائے میں نے یہیں آنا ہے، اس گھر کے سوا میری اور کہیں پناہ نہیں ہے، پھر غیب سے آواز آئی، جائو تمہاری ساری حاضریاں قبول ہوگئیں۔
(روح البیان ج ٨ ص ٤٥٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ بحواله تفسير تبيان القرآن تحت أية الدخان)
معلوم ہوا کہ توبہ میں ہمیں جلد بازی نہیں کرنی چاہئے ہمارا کام ہے توبہ کرتے رہنا قبول کرنا اور نہ کرنا اس مالک حقیقی کا کام ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
28/3/2021
28/3/2021