Type Here to Get Search Results !

سب سے قدیم مذہب ہندتو یا اسلام؟


سب سے قدیم مذہب ہندتو یا اسلام؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
وطن عزیز ہندوستان میں آۓ دن مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی ہوتی رہتی ہے۔
آر۔ایس۔ایس اور موجودہ برسر اقتدار سیاسی پارٹی بی۔جے۔پی کی مسلمانوں کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوششیں تیز ہیں۔ ایسے میں اسلام دشمنی میں ایک پروپیگنڈہ یہ کیا جاتاہے کہ یہ مذہب ساڑھے چودہ سو سالہ قدیم مذہب ہے اور ہندتو یا سناتن دھرم اس سے بھی پہلے کا ہے۔ اور سناتن دھرم یا ہندتو کے فروغ کے لیے متعدد تنظیمیں سر گرم عمل ہیں۔ مسلم بیٹیوں کو بھگوا لو ٹریپ میں پھنسا کر ان کا دین وایمان اور زندگی سب تباہ وبرباد کردیا جاتاہے۔ کبھی شدھی کرن کی تحریک چلائی جاتی ہے، کبھی گھر واپسی کے نام پر چند سکوں کے عوض مسلمانوں کا ایمان و اعتقاد مسلوب کرلیا جاتاہے۔
ہم اپنی اس تحریر میں یہی واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہندتو سب سے قدیم مذہب ہے یا اسلام؟
بلا شبہ مذہب اسلام ہی سب سے قدیم مذہب ہے کہ حضرت آدم علی نبینا و علیہ السلام سے ہی اسلام کا وجود ہے اور جو اصول و عقائد نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیے گئے قدر مشترک کے طور پر وہی عقائد جملہ انبیاء ومرسلین کو دیے گیے البتہ فروعی مسائل میں ہر شریعت میں کچھ نا کچھ تبدیلی ہوتی رہی،مثلا: شریعت موسوی میں شرک کی سزا خود کو قتل کرنا تھی اور اس شریعت میں توبہ ہے۔ شریعت موسوی میں زکات 25٪ تھی جب کہ اس شریعت میں 2.5٪ ہے۔ وغیرہ۔ اور یہ بھی ہے کہ اصطلاح کے اعتبار سے مسلمان کا اطلاق امت محمدیہ پر کیا جاتاہے جب کہ قرآن نے تمام انبیاء ومرسلین اور ان کے ماننے والوں کو مسلمان کہا ہے۔ واضح ہو کہ اسلام کا ایک عمومی معنی ہے اور ایک خصوصی۔ عمومی معنی کے لحاظ سے سارے انبیائے کرام مسلمان ہیں اور اسلام آدم علیہ السلام کے دور سے موجود ہے۔
باعتبار لغت اسلام کے معانی و مفاہیم 
باعتبار لغت اسلام کے تین معنی ہیں:
اول: اطاعت اور تابع داری۔
دوم: سلامتی پانا اور صلح کرنا۔
سوم: ایک خدا کی عبادت کرنا۔
     یہ تین معنی امام اجل فخر الدین رازی نے اپنی "تفسیر کبیر" میں بیان فرماۓ۔ لکھتے ہیں:
واما الاسلام، ففی معناہ فی اصل اللغۃ ثلثۃ اوجہ۔ الاول انہ عبارۃ عن الدخول فی الاسلام ای فی الانقیاد والمتابعۃ والثانی من اسلم ای دخل فی السلم واصل السلم السلامۃ والثالث المسلم معناہ المخلص للہ عبادتہ۔ انتھی ملخصا۔
(تفسیر کبیر،الجزء السابع، ص: 225)
ترجمہ: اور رہا اسلام، تو اس کے معنی میں اصل لغت میں تین وجہیں ہیں: اول: یہ نام ہے اطاعت اور تابع داری کا۔ دوسرا: صلح وسلامتی میں داخل ہونے کا، اور اسلام کی اصل سلامتی ہے۔ اور تیسرے: مسلمان کا معنی ہے اپنی عبادت کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرنے والا۔
قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی انبیاے سابقین کو مسلمان کہا گیا وہ اسی تیسرے معنی کے لحاظ سے ہے کہ سب خدا کی عبادت کرتے تھے،سب موحد یعنی توحید پرست تھے۔
تمام انبیاء ومرسلین کا مذہب، اسلام تھا!
اللہ تبارک تعالی نے سب سے پسندیدہ مذہب اسلام بتایا، اور اس اسلام سے مراد دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے۔ بلکہ شریعت عامہ مراد ہے۔ جس کے ساتھ تمام انبیاے کرام کو مبعوث فرمایا گیا اور جس کا مدار توحید پر ہے۔ جیساکہ عامۂ کتب تفسیر میں مذکور و مسطور ہے۔
(1) "تفسیر جلالین" میں " ان الدین عند اللہ الاسلام" کے تحت ہے: "ان الدین المرضی عند اللہ ھو الاسلام ای الشرع المبعوث بہ الرسل المبنی علی التوحید۔"
 کہ یقینا اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہے یعنی وہ شریعت جس کے ساتھ رسولوں کو مبعوث کیا گیا جس کی بنیاد توحید پر ہے۔
(2) ایسا ہی"تفسیر بیضاوی" میں ہے: "ای لا دین مرضی عند اللہ سوی الاسلام وھو التوحید والتدرع الذی جاء بہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔" 
(تفسیر بیضاوی،الجزء الثانی، ص:9)
       (3) ایسا ہی"تفسیر بغوی" میں ہے: " قال شھادۃ ان لاألہ الا اللہ والاقرار بما جاء بہ من عند اللہ وھو دین اللہ الذی شرع لنفسہ وبعث بہ رسلہ۔"
(تفسیر البغوی،الجزء الثالث، ص:9)
(4) "تفسیر کبیر" میں بھی ایسا ہی ہے:
" (الاول) ان التقدیر: شھد اللہ انہ لاألہ الا ھو ان الدین عند اللہ الاسلام و ذالک لأن کونہ تعالی واحدا موجب ان یکون الدین الحق ھو الاسلام لأن دین الاسلام ھو المشتمل علی ھذہ الوحدانیۃ۔"( تفسیر کبیر، الجزء السابع، ص: 224)
بے شمار تفاسیر اس پر شاہد وناطق ہے۔ مقالے کی طوالت اور رسالے کے محدود صفحات کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم مزید تفسیری عبارتیں نقل کرتے۔
محترم قارئین! اسلام اگر دین محمدی میں منحصر ہوتا تو دیگر انبیاے کرام کو مسلمان نہ کہا جاتا،البتہ اتنا ضرور ہے کہ انھیں مسلمان کہا جانا توحید پرستی ،اطاعت و فرماں برداری کے معنی میں ہے۔اصطلاحی معنی میں نہیں۔ 
(1) حضرت نوح علیہ السلام‌کو حکم ہوا کہ مسلمان ہوجائیں آدم ثانی حضرت نوح علیہ السلام کو حکم ہوا کہ مسلمان ہوجائیں جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
"فان تولیتم فما سألتکم من اجر ان اجری الا علی اللہ وأمرت أن اکون من المسلمین۔"
(س:یونس،آیت: 72)
ترجمہ: پھر اگر تم منہ پھیرو تو میں تم سےکچھ اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو نہیں مگر اللہ پر اور مجھے حکم ہوا کہ میں مسلمانوں سے ہوں۔
(2) حضرت ابراہیم و اسماعیل علیھما السلام نے خود مسلمان ہونے اور اپنی اولاد سے امت مسلمہ ہونے کی دعا کی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
" واذ یرفع ابرہیم القواعد من البیت واسمعیل ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم، ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک وارنا مناسکنا وتب علینا انک انت التواب الرحیم۔"
(س: بقرہ،آیت:27،28)
اور جب اٹھاتا تھا ابراہیم اس گھر کی نیویں (بنیادیں) اور اسماعیل یہ کہتے ہوۓ: کہ اے رب ہمارے! ہم سے قبول فرما، بے شک تو ہی ہے سنتا جانتا، اے رب ہمارے! اور کر ہمیں تیرے حضور گردن رکھنے والے(مسلمان)اور ہماری اولاد میں سے ایک امت تیری فرمان بردار (مسلمان)۔اور ہمیں ہماری عبادت کے قاعدے بتا، اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما، بے شک تو ہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔
      (3) ابراہیم علیہ السلام کو پروردگار کا حکم ہوا: کہ "مسلمان ہوجا"
ارشاد الٰہی ہے: "اذقال لہ ربہ اسلم، قال: اسلمت لرب العالمین۔" (س:بقرہ، آیت: (131)
جب کہ اس سے اس کے رب نے فرمایا:گردن رکھ، (مسلمان ہو)عرض کی: میں(مسلمان) نے گردن رکھی اس کے لیے جو رب ہے سارے جہان کا۔
(س: بقرہ، آیت: 132)
(4) ابراہیم و یعقوب علیھما السلام نے اپنی اولاد کو یہ وصیت کی: کہ "جب وفات پاؤ تو مسلمان ہوکر"
       ارشاد ربانی ہے: "ووصی بھا ابرہیم بنیہ ویعقوب یبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلا تموتن الا وانتم مسلمون، 
(س: بقرہ،آیت: 133)
       اور اسی دین کی وصیت کی ابراہیم نے اپنے بیٹھوں کو اور یعقوب نے، کہ اے میرے بیٹو! بے شک اللہ نے یہ دین تمھارے لیے چن لیا تو نہ مرنا مگر مسلمان۔
(5) یہودیوں کے ادعاے یہودیت کو مسترد کردیا گیا اور کہا گیا: کہ "تم نے مسلمان رہنے کا وعدہ کیا تھا"
یہودیوں نے یہ دعویٰ کیا کہ یعقوب علیہ السلام نے بوقت وفات یہودی مذہب پر قائم رہنے کی وصیت کی تھی۔ تو اللہ تبارک وتعالی نے ان کے اس دعوے کو یہ کہ کر مسترد کردیا کہ کیا تم یعقوب علیہ السلام کی موت کے وقت ان کے پاس حاضر تھے؟ جو تم نے یہ وصیت سن لی تھی۔ بلکہ یعقوب علیہ السلام نے بوقت مرگ اپنی اولاد سے یہ پوچھا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟ تو سب نے یہی کہا تھا: کہ آپ کے اور آپ کے آباء واجداد ابراہیم،اسماعیل اور اسحاق کے ایک معبود کی عبادت کریں گے اور مسلمان رہیں گے۔
        ارشاد ہوتاہے:"ام کنتم شھداء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبنیہ ماتعبدون من بعدی قالوا نعبد الھک والہ آبائک ابرہیم واسمعیل واسحق الھا واحدا ونحن لہ مسلمون۔
(س: بقرہ، آیت: 133)
بلکہ تم میں کے خود موجود تھے جب یعقوب کو موت آئی جب کہ اس نے اپنے بیٹھوں سے فرمایا: میرے بعد کس کی پوجا کروگے؟ بولے ہم پوجیں گے اسے جو خدا ہے آپ کا اور آپ کے والد ابراہیم و اسماعیل و اسحاق کا ایک خدا، اور ہم اس کے حضور گردن رکھے(مسلمان) ہیں۔
(6) حضرت یوسف علیہ السلام نے مسلمان ہوکر وفات ملنے کی دعا فرمائی: حضرت یوسف علیہ السلام کو بھی قرآن حکیم میں مسلمان کہا گیا۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
" رب قد آتیتنی من الملک وعلمتنی من تأویل الاحادیث فاطر السموت والارض انت ولیی فی الدنیا والآخرۃ توفنی مسلما والحقنی بالصالحین۔"
(س: یوسف،آیت: 101)
       اے میرے رب! بے شک تونے مجھے ایک سلطنت دی اور مجھے کچھ باتوں کا انجام نکالنا سکھایا اے آسمانوں اور زمین کے بنانے والے! تو میرا کام بنانے والا ہے دنیا و آخرت میں، مجھے مسلمان اٹھا اور ان سے ملا جو ترے قرب خاص کے لائق ہیں۔
        (7) حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم کو مسلمان ہونے کی تنبیہ کی
        حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا: اگر مسلمان ہو تو اللہ پر بھروسہ و ایمان رکھو۔
        ارشاد باری تعالی ہے:
"وقال موسی یقوم ان کنتم آمنتم باللہ فعلیہ توکلوا ان کنتم مسلمین۔"
(س: یونس،آیت: 84)
اور موسی نے کہا: اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لاۓ تو آسی پر بھروسا کرو اگر اسلام رکھتے ہو۔
(8) حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو مسلمان کہا گیا۔
 جب فرشتے قوم لوط کا تختہ الٹنے آۓ تو اس میں صرف حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی دو صاحب زادیوں کو اللہ کو ماننے والا پایا۔اس کو بھی اللہ تعالی نے قرآن میں یہ ذکر فرمایا کہ ہم نے اس میں مسلمانوں کا ایک گھر پایا۔
       ارشاد ہوتاہے:
"فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِیْهَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ، فَمَا وَجَدْنَا فِیْهَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔"
(الذاریات،آیت: 35،36)
ترجمہ: تو ہم نے اس شہر میں موجود ایمان والوں کو نکال لیا۔ تو ہم نے وہاں ایک ہی گھر مسلمان پایا۔
  (9) حضرت عیسی روح اللہ_علیہ السلام_ کے حواریوں نے کہا: "ہم مسلمان ہیں۔"
 سیدنا عیسی علیہ السلام کے حواریوں کے بابت فرمایا:
"وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ۔"(س:مائدہ، آیت: 111)
یعنی: جب میں نے حواریوں کی جانب وحی کی کہ: مجھ پر اور میرے رسولوں پر مکمل ایمان رکھو، تو انھوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، اور گواہ ہو جا کہ ہم سب یقیناً مسلمان ہیں۔
(10) جملہ انبیاے سابقین ومرسلین عظام بھی مسلمان تھے۔
اللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب توریت اور سابقہ انبیاے کرام کے بارے میں فرمایا: "يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا۔"
( س: مائدہ، آیت: 44)
یعنی: مسلمان نبی توریت کے ذریعے یہودیوں کے 
فیصلے کرتے تھے۔
(11) سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ بلقیس کو مسلمان ہوکر حاضر ہونے کا حکم دیا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی ملکہ بلقیس کو مسلمان ہوکر حاضر ہونے کا حکم دیا۔
ارشاد باری تعالی ہے: " الا تعلوا علیی وأتونی مسلمین۔"
(س: النمل، آیت: 31)
 کہ تم مجھ سے سرکشی نہ کرواور مسلمان ہوکر میرے پاس چلی آؤ۔
(12) ملکۂ سبا نے سلیمان علیہ السلام کی بارگاہ میں مسلمان ہونے کا اعتراف کیا۔
"فلما جاء ت قیل أھکذا عرشک قالت کأنہ ھو واوتینا العلم من قبلھا وکنا مسلمین۔"  
(س: نمل،آیت: 42)
پھر جب آئی ، کہاگیا: تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ کہنے لگی: گویا کہ یہ وہی ہے، اور ہمیں تو پہلے ہی معلوم ہوگیا تھا، اور ہم فرماں بردار (مسلمان) ہوچکے ہیں۔
(13) ملکۂ سبا حضرت بلقیس علیہا السلام‌مسلمان ہوئیں۔ 
       ملکہ سبا کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
"رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔"
(س: نمل، آیت: 44)
یعنی میرے پروردگار! میں نے اپنی جان پر ظلم ڈھایا، اور میں سلیمان کے ہمراہ اللہ رب العالمین کے لیے مسلمان ہو گئی ہوں۔
(14) فرعون کے جادوگروں نے کہا:" ہم مسلمان ہوۓ۔"
      وما تنقم منا الا من آمنا بآیات ربنا لما جاءتنا ربنا افرغ علینا صبرا وتوفنا مسلمین۔"
(س: اعراف، آیت: 126)
اور تمھیں ہم سے یہی دشمنی ہے کہ ہم نے اپنے رب کی نشانیوں کو مان لیا جب وہ ہمارے پاس آئیں، اے ہمارے رب! ہمارے اوپر صبر ڈال اور ہمیں مسلمان کرکے موت دے۔
(15) آخرکار فرعون بھی کہنے پر مجبور ہوا:کہ " میں مسلمان ہوتا ہوں"
 جابر و ظالم بادشاہ فرعون کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ اللہ تعالی نے اس طرح بیان فرمایا:
  "وَجَاوَزْنَا بِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُوْدُهٗ بَغْیًا وَّ عَدْوًاؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُۙ-قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔"
(س:یونس، آیت:90)
ترجمہ: اور ہم بنی اسرائیل کو دریا پار لے گئے تو فرعون اور اس کے لشکروں نے ان کا پیچھا کیا سرکشی اور ظلم سے یہاں تک کہ جب اسے ڈوبنے نے آ لیا بولا میں ایمان لایا کہ کوئی سچا معبود نہیں سوا اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمان ہوں۔
(16) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار بھی مسلمان ہیں
       دیگر انبیاے ومرسلین کی طرح حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پیروکاروں کو بھی قرآن نے مسلمان کہا۔ارشاد الہی ہے:
      "قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى وَ مَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ٘-وَ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ۔
(س: بقرہ، آیت: 36)
(اے مسلمانو!) تم کہو: ہم اللہ پر اور جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے اور اس پر جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف نازل کیا گیا اور موسٰی اور عیسیٰ کو دیا گیا اور جو باقی انبیاء کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا۔ ہم ایمان لانے میں ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے حضور گردن رکھے ہوئے(مسلمان) ہیں ۔
    (17) خدا نے اپنے بندوں کا نام قرآن میں اور پہلے نازل کیے گئے صحیفوں میں مسلم رکھا
      ارشاد ہوتاہے: 
وجاھدوا فی اللہ حق جھادہ وما جعل علیکم فی الدین من حرج ملۃ ابیکم ابراہیم ھو سماکم المسلمین من قبل وفی ھذا لیکون الرسول شھیدا علیکم وتکون شھداء علی الناس فأقیموا الصلوۃ وآتوا الزکوۃ واعتصموا باللہ ھو مولکم نعم المولی ونعم النصیر
( س: حج، آیت: 78)
      اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا اس (کی راہ) میں جہاد کرنے کا حق ہے۔اس نے تمھیں منتخب فرمایا اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی جیسے تمھارے باپ ابراہیم کے دین (میں کوئی تنگی نہ تھی)۔ اس نے پہلی کتابوں میں اور اس قرآن میں تمھارا نام مسلمان رکھا ہے۔ تاکہ رسول تم پر نگہبان و گواہ ہو اور تم دوسرے لوگوں پر گواہ ہو جاؤ، تو نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، وہ تمھارا دوست ہے، تو کیا ہی اچھا دوست اور کیا ہی اچھا مددگار ہے۔
       اسلام کا اطاعت کے معنی میں استعمال
     (1) اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
بلی من اسلم وجھہ للہ وھو محسن فلہ اجرہ عند ربہ۔
(البقرہ،آیت: 112)
      ہاں کیوں نہیں،جس نے اپنا منہ جھکایا اللہ کے لیے اور وہ نیکو کار ہے تو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔
      (2) ارشاد ربانی ہے:
"فَاِنْ حَآجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِیَ لِلّٰهِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِؕ-وَ قُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَ الْاُمِّیّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْؕ-فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ-وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ۔"
(س: آل عمران، آیت:20)
    پھر اے حبیب! اگر وہ تم سے جھگڑا کریں تو تم فرمادو: میں تواپنا منہ اللہ کی بارگاہ میں جھکائے ہوئے ہوں اور میری پیروی کرنے والے بھی۔ اور اے حبیب! اہلِ کتاب اور اَن پڑھوں سے فرمادو کہ کیا تم (بھی) اسلام قبول کرتے ہو؟ پھر اگر وہ اسلام قبول کرلیں جب تو انھوں نے بھی سیدھا راستہ پالیا اور اگر یہ منہ پھیریں تو تمھارے اوپر تو صرف حکم پہنچا دینا لازم ہے اور اللہ بندوں کودیکھ رہا ہے۔
قرآن پاک سابقہ تمام بنیادی عقائد واصول کو جامع
      تفسیر "مدارک" میں ہے: " ان القرآن برھان ما فی سائر الکتب المنزلۃ ۔" 
 (مدارک التنزیل، س: طہ، ص: 150/ مجلس برکات)
      یعنی قرآن ان تمام عقائد واصول کی دلیل ہے جو سابقہ نازل شدہ تمام کتابوں میں ہیں۔
ہندتو یا سناتن دھرم کی تاریخ
ہندتوا ہندو قوم پرستی میں انتہا پسندی تک چلے جانے کا اصطلاحی نام ہے۔ ونائک دمودر سورکر نے 1923ء میں اس اصطلاح کا پرچار کیا۔ اور راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ پریوار اور اس ذیلی تنظیموں مثلا: بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد، اور ہندو سینا نے اسے بام عروج تک پہنچایا۔ ہندو مذہب کا اصل نام سناتن دھرم ہے۔ اسے ہندو مت بھی کہتے ہیں۔ آریائی سماج بھی اسی کی ایک شاخ ہے، ہندو مت یا سناتن دھرم کا وجود 2000 ق م سے ہے۔ دراصل ہندو مت کی تاریخ کا پتا اس کے ویدوں سے چلتاہے ، ہندو مت کے تین وید ہیں: رگ وید سام وید، یجر وید۔ اور ویدوں کی تالیف 2000 ق م میں ہوئی۔
جب کہ اسلام آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہے تو سب سے قدیم مذہب اسلام ہے نہ کہ ہندتو۔ قرآن کے مطالعہ سے بھی عیاں ہوتاہے کہ بت پرستی حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں ہوتی تھی، جس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک روایت کے مطابق آدم علیہ السلام کے پانچ متقی ،پرہیزگار بیٹے تھے۔جب ان کا انتقال ہوا تو لوگ ان کی پوجا کرنے لگے۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
"حاشیۂ صاوی"میں "تفسیر مدارک" کے حوالے سے ہے:
" ود ھو صنم بصورۃ رجل، وسواع ھو علی صورۃ أمرأۃ، ویغوث ھو علی صورۃ اسد، ویعوق ھو علی صورۃ فرس، ونسر ھو علی صورۃ نسر، وفی روایۃ: ھذہ الاسماء کانت لابناء آدم علیہ السلام وکان ودا اکبرھم ۔ قال عروۃ ابن الزبیر انہ کان لآدم خمس بنین ود وسواع ویغوث ویعوق ونسر، وکانوا عبادا، فمات رجل منھم، فحزنوا علیہ، فقال الشیطان: "انا اصورلکم مثلہ اذا نظرتم الیہ ذکرتموہ۔" قالوا: افعل، فصورہ فی المسجد من صفر ورصاص، ثم مات آخر، فصورہ، فلما تقادم الزمان، ترکت الناس عبادۃ اللہ، فقال لھم الشیطان: مالکم لاتعبدون؟ قالوا: ومانعبد؟ قال: آلھتکم وآلھۃ آباءکم، الا ترون انھا فی مصلاکم، فعبدوھا من دون اللہ حتی بعث اللہ نوحا علیہ السلام۔"
 کہ "ود" مرد کی صورت میں، "سواع" عورت کی صورت میں، "یغوث" شیر کی شکل میں،"یعوق" گھوڑے کی شکل میں اور " نسر" گدھ کی صورت میں یہ سب بت تھے۔اور ایک روایت میں یہ آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے نام ہیں جن میں "ود" سب سے بڑا تھا۔ اسی میں ہے: حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"کہ آدم علیہ السلام کے انتہائی عبادت گزار پانچ بیٹے ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر تھے، ان میں سے ایک کا انتقال ہوگیا تو یہ اس پر بہت رنجیدہ ہوۓ، تو شیطان نے کہا: میں تمھارے لیے اس کا ایک مجسمہ بناۓ دیتا ہوں جب تم اس کی طرف دیکھو گے تو تمھیں اس کی یاد آجاۓ گی، لوگ بولے: ایسا کردے، تو ابلیس نے مسجد میں اس کا پیتل اور شیشے کا مجسمہ بنادیا، پھر دوسرے کا انتقال ہوا تو اس کا بھی مجسمہ بنادیا، پھر جب وقت گزر گیا تو لوگوں نے اللہ کی عبادت ترک کردی، ان سے شیطان بولا، تم عبادت کیوں نہیں کرتے؟ بولے ہم کس کی عبادت کریں؟ بولا اپنے معبودوں کی،اپنے آباء واجداد کے معبودوں کی،کیا تم دیکھتے نہیں وہ تمھاری مسجدوں میں ہیں،تو لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کی حتی کہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔
_________(❤️)_________
 کتبہ: محمد ایوب مصباحی پرنسپل وناظم تعلیمات دار العلوم گلشن مصطفی بہادرگنج وامام مکہ مسجد عالم پور،سلطان پور دوست، ٹھاکردوارہ، مراداباد،یو۔پی۔ہند
رابطہ نمبر:8279422079

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area