Type Here to Get Search Results !

سید عالم ﷺ نے پانچ بلاؤں سے اﷲ کی پناہ مانگی قسط: ہفدہم


سید عالم ﷺ نے پانچ بلاؤں سے اﷲ کی پناہ مانگی قسط: ہفدہم
_________(❤️)_________ 
ازقلم : شیرمہاراشٹر ڈاکٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدر افتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی
••────────••⊰❤️⊱••───────••
 ارشاد نبوی ہے اے گروہ مہاجرین!
 پانچ بلائیں ایسی ہیں جن کے متعلق میں اﷲ تعالیٰ سے تمہارے لئے پناہ مانگتاہوں۔
 ۱؎ جب کسی قوم میں کھلم کھلی بدکاریاں ہوتی ہیں تو اﷲ تعالیٰٰ ان پر ایسے مکروہات نازل کرتا ہے جو پہلے کسی پر نازل نہیں ہوتے۔
 ۲؎ جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو ان پر تنگدستی قحط سالی اور ظالم حاکم مسلط کر دیا جاتا ہے۔
 ۳؎ جب کوئی قوم اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتی انہیں خوشک سالی گھیر لیتی ہے اگر زمین پر چو پائے نہ ہوں تو کبھی ان پر بارش نہ پڑے۔
 ۴؎ جب کوئی قومﷲ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑ دیتی ہے تو اس پر اس کے دشمن مسلط ہوجاتے ہیں جو ان سے ان کا مال دولت چھین لیتے ہیں۔
 ۵؎ جس قوم کے فرما نروا کتاب سے فیصلہ نہیں کرتے ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے خوف پیدا ہوجاتا ہے۔فرمان نبوی ہے۔ کہﷲ تعالیٰٰ بخیل کی زندگی اور سخی کی موت کو ناپسند فرماتا ہے۔
 ایک حدیث ہےکہ دو عادتیں مومن میں جمع نہیں ہوسکتیں
 ۱؎ بخل ۲؎ بدخلقی
 اسی مضمون کی ایک اور حدیث ہےکہ جس قوم میں بخل آجاتا ہے وہ لوگ زکوٰۃ نہیں دیتے اور ناحق خون ریزیاں کرتے ہیں
 ایک مرتبہ حضرت حسن رضیﷲ عنہ سے بخل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا۔ بخل یہ ہے کہ انسان راہ خدا میں خرچ کرنے کو مال کا ضیاع اور مال جمع کرنے کو خوبی سمجھے، اولاد اور مال کی محبت، فقر وفاقہ کا خوف اور طویل امل بخل کی بنیاد ہے۔
 حضرت جناب بشر کا قول ہےکہ بخیل کی ملاقات موجب ملال اور اسے دیکھنا دل کی سنگینی میں اضافہ کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ اہل عرب ایک دوسرے کو بخل اور بزدلی پر شرم دلایا کرتے تھے۔
 حضرت امام ابوحنیفہ رضیﷲ تعالیٰ عنہ کا قول ہے۔میں بخیل کا فیصلہ نہیں کرسکتا کیوں کہ وہ اپنے بخل کی وجہ سے اپنے حق سے زیادہ لینے کی کوشش کرتا ہے اور ایسا آدمی امانت دار نہیں ہوتا۔
 حدیث شریف میں ہے۔کہ بعض آدمی ایسے ہیں جو اپنے مال کی زکوۃ کی ادائیگی اور اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے ان کی محبت روپیہ جمع کرنے اور اسے سنبھال کر رکھنے میں ہوتی ہے۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں ایک دن مرجانا ہے۔ 
(مکاشفتہ القلوب)
 مسلمانوں کو بخل سے بچنے کی بھر پور کوشش کرنا چاہئیے کیوں کہ بخل تمام بلاؤں میں سے ایک بلا ہے جو شیطان رجیم کا شیوہ اور اسی کا عطیہ ہے اور فضول خرچ کرنے والا شیطان کا بھائی ہے۔
 ارشاد باری ہے۔
 {اِنَّ الْمُبَذِریْنَ کَا نُوْاِخْوَانَا الشَّیَاطِیْنَ۔}
 ترجمہ: بے شک اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔ (کنزالایمان)
 *شیطان کی چاہت* 
 شیطان ہمہ وقت انسانوں اور مسلمانوں کا برا چاہتا ہے اس لئے وہ اس کو راہ راست سے ہٹا کر برائیوں کے راستے پر لا کھڑا کرنا چاہتا ہے جس کے لئے وہ طرح طرح کی چال چلتا ہے کبھی وہ انسان کو صوم وصلاۃ سے ہٹا کر ناچ، گانے کی طرف راغب کرتا ہے تو کبھی اسے شرعی زندگی سے ہٹا کر دنیا دار 
 بنانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے ۔
  دنیا سے محبت کا انجام
روایت ہےکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک روتے ہوئے شخص کے پاس سے گذرے جب آپ واپس ہوئے تو وہ شخص ویسے ہی رو رہا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے باری تعالیٰ سے عرض کیا یاﷲ!
 تیرا بندہ تیرے خوف سے رو رہا ہے۔
 ارشاد باری ہو اے موسیٰ!
 اگر آنسو کے راستے اس کا دماغ باہر نکل آئے اور اس کے اٹھے ہوئے ہاتھ ٹوٹ جائیں تب بھی میں اسے نہیں بخشونگا، کیوں کہ یہ دنیا سے محبت رکھتا ہے ۔(مکاشفتہ القلوب)
  میں دنیا دار کی خدمت میں چند احادیث نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں ملاحظہ ہو۔
 حضرت ابو امامہ باہلی رضیﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا تو شیطان اپنے لشکر کے پاس آیا اور کہا کہ ایک نبی مبعوث ہوا ہے اور اس کے ساتھ اس کی امت بھی ہے، شیطان نے پوچھا کیا وہ لوگ دنیا کو پسند کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں! شیطان نے کہا! تو کوئی پرواہ نہیں اگر وہ بتوں کو نہیں پوجتے تو نہ پوجیں ہم انہیں تین باتوں میں پھنسائیں گے ۔
 ۱؎ دوسرے کی چیز لے لینا 
۲؎ غیر پسندیدہ جگہوں پر خرچ کرنا
 ۳؎لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنا۔
 یہی تین چیزیں برائیوں کی بنیاد ہیں۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔میرے بعد تم پر دنیا آئے گی اور تمہارے ایمان کو ایسے کھا جائے گی جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔ ﷲ تبارک وتعالیٰٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی اے موسیٰ! دنیا کی محبت میں مشغول مت ہونا میری بارگاہ میں اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہے۔ 
(مکاشفتہ القلوب)
 دنیا دار کی مذمت میں اصحاب کرام (رضوان اﷲ علیھم اجمعین) کے اقوال۔
 حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول ہے۔کہ جس شخص میں چھ عادتیں پائی جاتی ہیں وہ نار جہنم سے دور اور جنت کا مطلوب ہے۔
 ۱؎ﷲ تعالیٰ کو پہچان کر اس کی عبادت کرنا
 ۲؎ شیطان کو پہچان کر اس کی مخالفت کرنا
 ۳؎ حق کو پہچان کر اس کی اتباع کرنا
 ۴؎ باطل کو پہچان کر اس سے اجتناب کرنا
 ۵؎ دنیا کو پہچان کر اسے ترک کردینا
 ۶؎ آخرت کو پہچان کر اس کا طلب گار رہنا
 ایک آدمی نے حضرت علی رضیﷲ تعالیٰ عنہ سے دنیا کی تعریف پوچھی آپ نے فرمایا میں اس گھر کی کیا تعریف کروں جس کا صحت مند اصل میں بیمار جس کا بے خوف پشیمان جس کا مفلس غمگین، جس کا مالدار مصائب میں مبتلا ہو اور مشکور پر ملامت ہو۔
 یہی بات آپ سے جب دوسری مرتبہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا وضاحت سے بیان کروں یا مختصر جواب دوں عرض کیا گیا مختصراََ جواب دیجئے آپ نے فرمایا اس کے مال حلال کا حساب ہے اور حرام پر عذاب ہے مزید فرماتے ہیں کہ دنیا کی چھ چیزیں ہیں ۔
 ۱؎ کھانے کی ۲؎پینے کی ۳؎ پہننے کی ۴؎سوار ہونے کی ۵؎ شادی کرنے کی ۶؎ اور سونگھنے کی سب سے بہتر کھانے کی چیز شہد ہے اور وہ مکھی کا لعاب ہے پینے کی سب سے عمدہ چیز پانی ہے اور اس میں سب اچھے برے شریک ہیں۔ پہننے کی سب سے اچھی چیز ریشم ہے اور وہ کپڑے کا بنا ہوا ہے۔ سب سے بہتر سواری گھوڑے کی ہے اور اس پر انسان کو قتل کیا جاتا ہے۔ شادی کے لئے عورت عمدہ چیز ہے مگر یہ محل مباشرت کے سوا کچھ بھی نہیں
 عورت کی سب سے عمدہ چیز (چہرہ) کو سنوارنا اور سب سے بری چیز (فرج) کو چاہاجاتا ہے۔سونگھنے والی چیزوں میں مشک سب سے عمدہ ہے۔ اور یہ خون ہوتا ہے، بس سمجھ لوکہ دنیا کیا چیز ہے۔
  حضرت ابن مسعود رضیﷲ عنہ کا قول ہے۔اس دنیا میں ہر شخص بطور مہمان ہے اور یہاں کی ہر چیز مستعار ہے، مہمان آخر کوچ کرجاتا ہے اور مستعار چیز واپس کرنی پڑتی ہے۔
 حضرت ابن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا قول ہے۔ﷲ تعالیٰ نے دنیا کے تین حصے کئے ہیں۔
 ایک حصہ مومن کے لئے۔
 دوسرا حصہ منافق کے لئے اور
 تیسرا حصہ کافر کے لئے ہے
 مومن اسے زاد راہ بناتا ہے، منافق اسے زیب و زینت کرتا ہے، اور کافر اس سے نفع اندوز ہوتا ہے۔
 اس لئے بعض صالحین کا قول ہے۔
 کہ دنیا مرداد ہے جو اسے حاصل کرنا چاہتا ہے وہ کتوں کی زندگی بسر کرنے پر تیار ہے ۔
 کسی عقل مند نے دنیا کو جانچا تو اسے دوست کے لباس میں ایک دشمن نظر آیا۔
 حضرت ابوہریرہ رضیﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہےکہﷲ تعالیٰٰ نے جب سے دنیا کو پیدا کیا ہے وہ زمین و آسمان کی طرح لٹکی ہوئی ہے اور اسی طرح قیامت تک لٹکتی رہے گی، جب وہﷲ تعالیٰ سے سوال کرتی ہے اےﷲ! تو نے مجھے کیوں ناپسند فرمایا ہے؟تو رب کریم ارشاد فرماتا ہے اے ناچیز خاموش رہ 
 حدیث شریف ہے {الدنیا جیفہ ویحبھا کلبہ}
 ایک مرتبہ حضرت عمر رضیﷲ عنہ شام کی مملکت میں حاضر ہوئے تو حضرت ابو عبیدہ رضیﷲ عنہ ایک اونٹنی پر آپ کے استقبال کے لئے حاضر ہوئے جس کی نکیل رسی کی تھی۔ سلام و دعا کے بعد حضرت عمر رضیﷲ عنہ ان کے خیمہ میں تشریف لائے وہاں اونٹ کے پالان، تلوار اور ڈھال کے علاوہ کچھ نہیں تھا، حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے پوچھا کوئی اور سامان ہے؟ انہوں نے عرض کیا۔ہمارے آرام کے لئے یہی کچھ کافی نہیں ہے؟
(مکاشفتہ القلوب)
 حضرت حسن رضی ا ﷲ عنہ کا قول ہےکہﷲ تعالیٰٰ نے ان لوگوں پر رحم فرمایا جن کے پاس دنیا امانت کے طور پر آئی اور انہوں نے اسے خیانت کے بغیر لوٹا دیا۔مزید فرمایا جو تجھے دین کی طرف رغبت دلائے اسے قبول نہ کر اور جو تجھے دنیا کی طرف رغبت دلائے اسے اس کے گلے میں ڈال دے ّقبول نہ کر
 ایک مرتبہ حضرت حسن رضیﷲ عنہ نے یوں فرمایابخدا رب نے ایسی قومیں بھی پیدا کی ہیں جن کے سامنے یہ دنیا مٹی کی طرح بے وقار ہے انہیں دنیا کے آنے جانے کی کوئی پرواہ نہیں چاہے وہ اس کے پاس ہو یا آس پاس ہو۔
 ایک مرتبہ کسی نے حضرت حسن رضیﷲ تعالیٰ عنہ سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا جس کوﷲ تعالیٰ نے مال دیا ہے۔ وہ اسے راہ خدا میں دیتا ہے اور لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہے کیا ایسا شخص تلاش معاش کرے تاکہ کچھ اور دنیا حاصل کرے؟آپ نے فرمایا نہیں۔ اگر ساری دنیا اسی کے دامن میں سمٹ آئے تب بھی اس کے لئے بس ایک دن کی روزی ہوگی۔
 حضرت حسن رضیﷲ عنہ نے یہ آیت،
 {فَلَاتَغَرَّنَّکُمْ الْحَیْوٰۃَ الدَّنْیَا۔} پڑھ کر فرمایاکہ جانتے ہو یہ کس کا فرمان ہے؟ یہ خالق دنیا مالک دنیا رب تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے۔ خود کو دنیا کی مشغولیت سے بچاؤ دنیا میں بہت سے شغل ہیں۔ اگر انسان دنیا کے کسی مشغل کا دروازہ کھول دیتا ہے تو اس پر دنیا کے دس دروازے خود بخود کھل جاتے ہیں۔
 مزید فرمایا کہ انسان کتنا مسکین ہے ایک ایسے گھر پر راضی ہوگیا ہے جس کے حلال کا حساب ہوگا اور حرام پر عذاب، اگر وہ کسب حلال سے دنیا حاصل کرتا ہے تو قیامت کے دن اس سے اس کا حساب لیا جائے گا اور اگر مال حرام کھاتا ہے تو عذاب میں مبتلا ہوگا مزید فرمایا کہ ہر انسان دل میں حسد لے کر مرتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنے جمع کردہ مال سے سیر ہوتا، اور نہیں ہوا دوسرے یہ کہ اپنی امیدوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتا مگر نہ پہنچا سکا۔اور تیسرے یہ کہ وہ آخرت کے لئے نیک عمل بھیجتا اور نہ بھیج سکا۔ اور آپ دنیا کے تعلق سے یوں فرمایا کرتے تھے۔کہ دنیا کی بے قدری کرو یہ اپنی بے قدری کرنے والوں پر بہت آسان ہے۔مزید ارشاد فرمایا کہ جبﷲ تعالیٰ کسی بندہ کی بہتری کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دنیا کا عطیہ دے دیتا ہے جب وہ ختم ہوجاتی ہے تو اور بھی دیتا ہے اور جب بندہ دنیا کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔توﷲ تعالیٰ اسے بے حساب مال و دولت دے دیتا ہے ایک صالح بندہ اپنی دعا میں کہا کرتے تھے۔
 کہ اے آسمان کو زمین پر گرنے سے روکنے والے!مجھ سے دنیا کو روک لے (یعنی مجھے دنیا نہ دے) ایک بندہ مومن سے کسی نے کہا۔ کہ میں نے غناکو پالیا ہے اس نے کہا جس نے خود کو دنیا کی غلامی سے آزاد کر لیا۔ حقیقی مالداری اسی نے پائی (یعنی غنا کو پانے کا دعویٰ وہی کرسکتا ہے۔(مکاشفتہ القلوب)
((جاری ہے)
••────────••⊰❤️⊱••───────••
ترسیل دعوت: محمد شاھد رضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی پوجانگر میراروڈ ممبئی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area