کیا حضور ﷺ پر کوڑا پھینکنے والا واقعہ درست ہے؟
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر بڑھیا کے کچرا پھینکنے کا واقعہ درست ہے یا نہیں بینوا و توجروا
المستفتی:- محمد حسیب رضا بہرائچ شریف
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر بڑھیا کے کچرا پھینکنے کا واقعہ درست ہے یا نہیں بینوا و توجروا
المستفتی:- محمد حسیب رضا بہرائچ شریف
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
یہ روایت بالکل موضوع اور من گھڑت ہے۔ کتب حدیث و سیرت میں کہیں اس واقعے کا پتا نہیں ملتا۔ اس روایت کے موضوع ہونے کی چند وجوہات درج ذیل ہیں:
اولاً اس روایت کی سند مفقود ہے جو کہ اس کے بے اصل ہونے کی دلیل ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
" الاسناد من الدین و لو لا الاسناد لقال من شاء ما شاء "
یعنی حدیث کی سند امورِ دین میں سے ہے۔ اگر حدیث کے ثبوت کے لیے اسناد ضروری نہ ہوتیں تو جس کے جی میں جو آتا کہتا۔
(مقدمہ صحیح مسلم، جلد ۱، صفحہ ۳۱٦ مطبوعہ دار التاصیل بیروت)
ثانیاً اس روایت کے متن میں آثارِ وضع اظہر من الشمس ہیں اور یہ روایت عقلاً و نقلاً مخدوش ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اللہ عزوجل جو سب سے بڑا غیور ہے، جس نے حضور ﷺ کے جسم اطہر کو بے سایہ بنایا کہ کسی کافر کا قدم آپ ﷺ کے سائے پر نہ پڑے، وہ کس طرح گوارا فرما سکتا ہے کہ ایک بڑھیا روزانہ حضور ﷺ پر کوڑا پھینکے۔
ولید بن مغیرہ نے حضور ﷺ کو معاذاللہ مجنوں کہا تو اللہ نے اس کے دس عیوب سورۂ قلم میں بیان فرما دیا، ام جمیل اور ابولہب نے گستاخیاں کی تو ان کی مذمت میں سورۂ لہب نازل ہو گئی، بنوتمیم کے وفد نے حضور ﷺ کو حجرہ اقدس کے باہر سے ندا دی تو سورۃ الحجرات میں ان کی سر زنش کی گئی لیکن دوسری جانب ایک بڑھیا روزانہ سرور دو عالم ﷺ پر کوڑا پھینکتی رہی مگر اس کی مذمت نہ قرآن میں کہیں ہے نہ حدیث میں۔ فیاللعجب
ثالثاً یہ کہ جو جانثار صحابۂ کرام حضور ﷺ کے مائے مستعمل کو زمین پر نہ گرنے دیتے تھے، جن کی شمشیریں حضور ﷺ کی ادنی سی توہین پر میان سے باہر آجاتی تھیں، کیا وہ ایک بڑھیا کو رسول اللہ ﷺ پر معاذاللہ کوڑا ڈالتے خاموشی سے دیکھتے رہتے تھے؟
رابعاً یہ کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضور ﷺ یہ جاننے کے باوجود کہ یہاں بڑھیا روزانہ کوڑا پھینکتی ہے، اسی راستے سے روزانہ گزریں جبکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے :
" لا ينبغي للمؤمن ان يذل نفسه "*
یعنی مومن کو جائز نہیں کہ خود کو ذلت و رسوائی پر پیش کرے۔
(جامع ترمذی، کتاب الفتن، جلد ۳، صفحہ ۳۲۷ مطبوعہ دارالتاصیل بیروت)
ان وجوہات کی بنا پر عرب و عجم کے بیسیوں علماء کا متفقہ فتویٰ ہے کہ یہ روایت موضوع ہے۔ ان فتاوی کو ''رسول اللہ ﷺ پر کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کی حقیقت'' نامی مستقل رسالے میں جمع کر دیا گیا ہے۔
لہذا اس روایت کو بیان کرنا اور پھیلانا حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
" من کذب عليّ متعمداً فلیتبوا مقعدہ من النار "
یعنی جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
(صحیح بخاری، کتاب العلم، باب اثم من کذب الخ، جلد ۱، صفحہ ۲۷٤ مطبوعہ دارالتاصیل بیروت)
و اللہ تعالی ورسولہ اعلم
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــ
کتبہ:- محمد عثمان رضوی غفرلہ پاکستان
صح الجواب : حضرت مفتی محمد اسرار احمد نوری بریلوی صاحب قبلہ خادم التدریس والافتاء مدرسہ عربیہ اہل سنت فیض العلوم کالا ڈھونگی ضلع نینی تال اتراکھنڈ۔
اولاً اس روایت کی سند مفقود ہے جو کہ اس کے بے اصل ہونے کی دلیل ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
" الاسناد من الدین و لو لا الاسناد لقال من شاء ما شاء "
یعنی حدیث کی سند امورِ دین میں سے ہے۔ اگر حدیث کے ثبوت کے لیے اسناد ضروری نہ ہوتیں تو جس کے جی میں جو آتا کہتا۔
(مقدمہ صحیح مسلم، جلد ۱، صفحہ ۳۱٦ مطبوعہ دار التاصیل بیروت)
ثانیاً اس روایت کے متن میں آثارِ وضع اظہر من الشمس ہیں اور یہ روایت عقلاً و نقلاً مخدوش ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اللہ عزوجل جو سب سے بڑا غیور ہے، جس نے حضور ﷺ کے جسم اطہر کو بے سایہ بنایا کہ کسی کافر کا قدم آپ ﷺ کے سائے پر نہ پڑے، وہ کس طرح گوارا فرما سکتا ہے کہ ایک بڑھیا روزانہ حضور ﷺ پر کوڑا پھینکے۔
ولید بن مغیرہ نے حضور ﷺ کو معاذاللہ مجنوں کہا تو اللہ نے اس کے دس عیوب سورۂ قلم میں بیان فرما دیا، ام جمیل اور ابولہب نے گستاخیاں کی تو ان کی مذمت میں سورۂ لہب نازل ہو گئی، بنوتمیم کے وفد نے حضور ﷺ کو حجرہ اقدس کے باہر سے ندا دی تو سورۃ الحجرات میں ان کی سر زنش کی گئی لیکن دوسری جانب ایک بڑھیا روزانہ سرور دو عالم ﷺ پر کوڑا پھینکتی رہی مگر اس کی مذمت نہ قرآن میں کہیں ہے نہ حدیث میں۔ فیاللعجب
ثالثاً یہ کہ جو جانثار صحابۂ کرام حضور ﷺ کے مائے مستعمل کو زمین پر نہ گرنے دیتے تھے، جن کی شمشیریں حضور ﷺ کی ادنی سی توہین پر میان سے باہر آجاتی تھیں، کیا وہ ایک بڑھیا کو رسول اللہ ﷺ پر معاذاللہ کوڑا ڈالتے خاموشی سے دیکھتے رہتے تھے؟
رابعاً یہ کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضور ﷺ یہ جاننے کے باوجود کہ یہاں بڑھیا روزانہ کوڑا پھینکتی ہے، اسی راستے سے روزانہ گزریں جبکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے :
" لا ينبغي للمؤمن ان يذل نفسه "*
یعنی مومن کو جائز نہیں کہ خود کو ذلت و رسوائی پر پیش کرے۔
(جامع ترمذی، کتاب الفتن، جلد ۳، صفحہ ۳۲۷ مطبوعہ دارالتاصیل بیروت)
ان وجوہات کی بنا پر عرب و عجم کے بیسیوں علماء کا متفقہ فتویٰ ہے کہ یہ روایت موضوع ہے۔ ان فتاوی کو ''رسول اللہ ﷺ پر کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کی حقیقت'' نامی مستقل رسالے میں جمع کر دیا گیا ہے۔
لہذا اس روایت کو بیان کرنا اور پھیلانا حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
" من کذب عليّ متعمداً فلیتبوا مقعدہ من النار "
یعنی جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
(صحیح بخاری، کتاب العلم، باب اثم من کذب الخ، جلد ۱، صفحہ ۲۷٤ مطبوعہ دارالتاصیل بیروت)
و اللہ تعالی ورسولہ اعلم
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــ
کتبہ:- محمد عثمان رضوی غفرلہ پاکستان
صح الجواب : حضرت مفتی محمد اسرار احمد نوری بریلوی صاحب قبلہ خادم التدریس والافتاء مدرسہ عربیہ اہل سنت فیض العلوم کالا ڈھونگی ضلع نینی تال اتراکھنڈ۔