Type Here to Get Search Results !

درسگاہوں سے محبت اور تعلق کیسا ہو؟


آج کنز المدارس بورڈ کے تحت الشھادۃ العالمیۃ السنۃ الاولیٰ (درجہ سابعہ) کا امتحان دینے کے ساتھ اپنی درسگاہ کو خیرباد کہا جس پر یہ تحریر قلبی جذبات سے لکھی ہے
★____درسگاہوں سے محبت اور تعلق کیسا ہو؟____★
✍️محمد تحسین المصطفےٰ🍁
(متعلم جامعۃ المدینہ فیضان اعلیٰحضرت شیخوپورہ)
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
وفا یہ لفظ سننے میں جتنا اچھا لگتا ہے اپنا نے میں اتنا ہی مشکل ہے، ہر شخص اس لفظ کی تاثیر سے تو لطف اٹھاتا ہے مگر اس کے رموز سے واقف ہو کر اپنی زندگی میں شامل کرنے سے اکثر لوگ کتراتے ہیں، سماعتوں سے ٹکراتا یہ لفظ ہر شخص کو اپنے موضوع پر کلام کی اجازت دے دیتا ہے اور بمشکل کوئی اس موقعے کو ہاتھ سے جانے دیتا ہے مگر کردار کو نکھارنے کیلئے اسے اپنی ذات میں شامل کرنے کی طرف بہت کم۔ افراد توجہ کرتے ہیں، یہی سبب ہے کہ برسوں کی محبتیں چند لمحوں میں اڑتا ہوا غبارِ راہ دکھائی دیتی ہیں، وفا کی حاجت اس جہان میں سب کو ہے کوئی اس سے انکاری نہیں والدین کو اولاد سے کہ وہ بڑھاپے کا سہارا بنے، زوجین کو معاملات میں تاکہ امور خانگی اچھے انداز سے چلتے رہیں، اولاد کو والدین سے تاکہ وہ ان کے جذبات کی قدر کریں، دوست کو دوست سے تاکہ ہم راز بناتے ہوۓ دل خطرات سے دو چار نا ہو، بھائی کو بہن سے کہ وہ اس کا سر معاشرے میں جھکنے نا دے، بہن کو بھائی سے کہ وہ اسے محبت و اخوت کے سرور سے ہمکنار رکھے، مرشد کو مرید سے کہ وہ دل و جان سے اسے اپنا راہنما تسلیم کرے، مرید کو پیر سے کہ وہ اس کی دستگیری کرے اور معرفت کے جام پلاۓ،استاذ کو شاگرد سے کہ وہ اس کی محنت کا نعم البدل ثابت ہو جاۓ، شاگرد کو استاذ سے کہ وہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوۓ اسے اس کی ذات میں چھپے کمالات و صلاحیت سے آگاہ کرے اور اسی طرح "درسگاہ" کو اپنے مکین سے کہ وہ اسے اپنی یادوں کے گلشن میں سجا کر رکھے مگر!!! ان باتوں کو وہی جان پاۓ گا جو وفا کو ایک لفظ کی حد تک نہیں بلکہ ایک جذبے کی حد تک جانے اور جذبہ بھی ایسا جو زندہ رہنے کا سبب ہے اور اس کے بغیر موت لازم ہے
جیتے جاگتے وجود سے وفاداری کرنا بھی اپنے طور پر بہت اہم ہے اور اس تبادلے میں تو حرام بھی حلال کیا گیا جیسا کہ عربی محاورہ منقول ہے:
یجوز الربا فی الحب________محبت میں سود جائز ہے
مگر!!! چند لمحوں کیلئے اس بات کو دوسرے زاویے سے بھی سوچا جا سکتا ہے کیا معلوم کہ محب اپنی چاہتیں نچھاور ہی اس زیادتی کیلئے کر رہا ہو اور ایسا بالکل ممکن ہے، کوئی اپنی محبت کرنے میں کتنا سچا ہے یہ تب معلوم ہوگا کہ جب وہ اپنے کچھ عرصے کے محسن سے ہر وقت محبت کرے اور یہ محسن ایک خاص وقت کے بعد اسے کچھ نا بھی دے سکتا ہو مگر یہ محبت کا دعویٰ دار شخص اپنا سب کچھ اس کیلئے قربان کرنے کا جگر رکھتا ہو
جان قربان حیات جاوداں کردیں گے ہم
اس زمیں کو دے کے رفعت آسماں کردیں گے ہم
ان بےجان چیزوں میں اہم ترین چیز کسی بھی متعلم کیلئے اس کی درسگاہ ہے جو پانی، مٹی، اینٹ اور پتھر یا دیگر آلات کے اجتماع سے قائم کردہ ایک عمارت ہے، باوفا شخص کی پہچان یہی سے ہوگی کہ وہ اپنی درسگاہ کہ جس نے اسے چھت فراہم کی، غریب ہو یا امیر اپنے دامن میں جگہ دے کر اسے دین و دنیا کے ایسے علوم سے آراستہ کیا جو اس کی ترقی کا سبب بنے، اس کی دن کی شروعات سے لے کر رات کے اختتام تک اسے راحت و تسکین سے بھرا ماحول فراہم کیا، مطلبی دنیا میں اپنی آغوش میں اسے پڑھنے، سیکھنے، سمجھنے، بولنے، تفریح اور آرام دہ نیند کا تحفہ پیش کیا اس مبارک درسگاہ کو یہ محض ایک عمارت سمجھتا ہے یا پھر اپنا اہم ترین اثاثہ کہ جس کو باقی رکھنے کیلئے قلب و جگر کے خون سے بھی اگر اس کے نقوش باقی رکھنے ہوں تو یہ تردد کا شکار ہوۓ بغیر اپنے آپ کو پیش کر دے گا، یقیناً جن درسگاہوں نے ہمیں ایک بلند مقام پر فائز کیا ہوتا ہے ہمیں پھر ان کی تعمیر و تزئین کا خوب خوب خیال رکھنا ہے
حضرت سیدنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ آپ کے والد بزرگوار نے بوقت وصال اپنے ایک عزیز دوست کو ایک خطیر رقم دیتے ہوۓ اسے امام غزالی اور ان کے بھائی جان کی تعلیم کیلئے خرچ کرنے کی وصیت فرمائی، قربان ایسے دوست پر کہ جنہوں نے اس معاملے کو بخوبی سرانجام دیا مگر حالات کی گردش نے ایک ایسا وقت بھی لا کھڑا کیا کہ جب وصیت کردہ رقم ختم ہو گئی پھر بھی اس وفادار ساتھی نے اپنی کمائی، بچت آمدنی سے دونوں شہزادوں کی تعلیم کو جاری رکھا مگر حالات تھے کہ بعد والوں کو ایک احساس دلانا چاہتے تھے چنانچہ جب معاملہ شدید مشکل کا شکار ہوا تو اب امام غزالی کے اس محسن نے آپ سے کہا کہ بیٹا میں اپنی طرف سے بھرپور کوشش کرتا رہا مگر اب یہ معاملہ میرے بس سے باہر ہے چنانچہ آپ کو خود اب اس بارے کچھ سوچنا اور عمل کرنا چاہیئے تلاش بسیار اور سوچ و بچار کے بعد حل پھر یہی نکلا کہ اب مستقل طور پر تعلیم کیلئے بغداد میں سلجوقی وزیر حضرت خواجہ نظام الملک طوسی کے قائم کردہ "جامعہ نظامیہ" کیلئے تخت سفر باندھا جاۓ اور وہاں سکونت اختیار کی جاۓ
ایک لمحے کیلئے سوچیئے اگرچہ اﷲ عزوجل کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا مگر مسبب الاسباب ذات کی توفیق سے جو درسگاہ قائم کی گئی تھی اگر وہ نہ ہوتی تو کیا ہمیں امام غزالی جیسا عظیم عالم و محدث نصیب ہوتا؟ وہ غزالی علیہ الرحمہ کہ جن کی ایک تصنیف لطیف ”احیاء العلوم“ کے بارے کہا گیا اگر دنیا سے سارے علوم ختم کر دیے جائیں اور صرف یہ کتاب باقی بچ جاۓ تو اس میں اتنا مواد موجود ہے کہ ان علوم کو دوبارہ زندہ کر کے زمانے پر آشکار کیا جاسکتا ہے، امام غزالی نے بھی اپنی اس درسگاہ سے علم حاصل کر لینے کے بعد اس سے بیگانگی ظاہر نہیں کی بلکہ ایک وقت تک یہاں تدریس کی اور جب جب اس درسگاہ کیلئے لوگوں کے دلوں میں ابن صباح کے فرقہ باطنیہ نے نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی تو آپ میدان میں اترے اور شد و مد کے ساتھ ان فاجروں کا رد کیا اور اپنی درسگاہ کی ساکھ کو بالکل متاثر نہیں ہونے دیا
یقیناً آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی افراد کو انکی درسگاہیں ہی طالب علم سے عالم دین، مفکر، محدث، مفسر، مصنف، مبلغ، محرر، مفتی بناتی ہیں ان درسگاہوں نے تو اپنے اندر آنے والے ہر ایک سے حسن سلوک کیا جو اس میں محنت کے بغیر رہا اس کے کھانے پینے اور رہائش کو چپ چاپ برداشت کیا اور ہمیشہ اسے وہی مقام دیا جو ان چیزوں کا حق ادا کرنے والے کو دیا گویا کہ سوتیلی ماں کا سلوک تو یہ درسگاہیں جانتی ہی نہیں اور جو اس میں محنت کے ساتھ رہا اسے روشن مستقبل فراہم کیا کہ جو اسے زمانے میں باوقار شخصیت بنا گیا مگر!!! سوال تو یہ ہے کہ کیا ان افراد نے اپنی درسگاہوں کو کچھ دیا؟؟؟؟ 
ہماری درسگاہوں کے ہمارے اوپر جتنے احسان ہوتے ہیں ہم چاہ کر بھی انکا صلہ نہیں لوٹا پاتے مگر اپنی طاقت کے مطابق کوشش تو کر ہی سکتے ہیں کہ اس گلشن کی بہار میں اپنا بھی کچھ حصہ ملا جائیں، درسگاہوں کا صلہ یہی ہے کہ اس عمارت کو قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاۓ اس کے ذکر پر سر جھکا کر ادب بجالایا جاۓ، اس سے ملاقات کے وقت اپنی محبتوں کی شدتوں کو اس پر نچھاور کیا جاۓ، اس کی خیر خیریت کیلئے ہمہ تن گوش ہو کر دعا کرنی اور کروانی چاہیئے،اس کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے جانی و مالی خدمات پیش کرنی چاہیئے، اس میں رائج اگر کوئی خرابی اس کے وقار کو دھندلانے کی کوشش کر رہی ہے تو اسے جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا چاہیئے اور اسے ہر وہ ماحول، فرد، چیز فراہم کرنی چاہیئے جو اس کی بلندی اور افق پر چمکنے کا باعث بنے، اگر خود کوئی شہرت مل گئی ہے تو اس کے ذکر کے ساتھ اپنی زبان کو لبریز کرنا چاہیئے تاکہ اپنے دل میں قدر بڑھے اور متبعین کی محبتیں بھی اسے میسر ہوں، اس سے وابستہ ہر فرد سے کہ جو اس کیلئے نیک خیالات و جذبات رکھتا ہے جوش اسلوبی سے پیش آنا چاہیئے معلمین، منتظمین، خادمین ہر ایک سے اس کے مقام و مرتبے کے لحاظ سے محبتوں اور شفقتوں کا اظہار ہونا چاہیئے
تبھی ہم ایسے شخص بن سکیں گے جو "وفا" کو ایک لفظ نہیں اپنی زندگی کی بقا کیلئے لازمی جذبہ سمجھتے ہیں 
قرآن پاک میں رب کریم نے ارشاد فرمایا:
ھل جزاء الاحسان الا الاحسان______کیا احسان کا بدلہ احسان نہیں ہے؟ 
لہذا ہمیں بھی اپنا سب کچھ وقف کر دینا ہے اس درسگاہ کیلئے جس نے ہمیں اپنا سب کچھ وقف کیا ہماری ترقی و خوشحالی کیلئے کیونکہ ہمارے بزرگوں نے اسی شخص کو وفادار گردانا ہے جو اس رویے کا متحمل ہے
اصلاں نال جے نیکی کریے، تاں نسلاں نئی بھلدے
بے اصلاں نال نیکی کریے، پُٹّھیاں چالاں چلدے
(منسوب میاں محمد بخش علیہ الرحمہ رومی کھڑی شریف)
درسگاہوں سے محبت کا ایک عمدہ طریقہ اساتذہ سے پیار اور ادب کرنا ہے، دست بوسی، تعظیمی قیام، وغیرہ امور اگرچہ ادب کے اظہار کا بہترین طریقہ ہیں مگر!!! یہ ادب حقیقی ہے یا بناوٹی اس سوال کا جواب اپنے دل سے لینا ہے اگر دل مؤدب ہے تو پھر یہ ظاہری چیزیں کم مقدار میں بھی ہوں تو وافر ہیں اور اگر دل ہی بیزار ہے تو وقتی جھکاؤ اور گفتگو کا لیپ بالکل نامناسب رویہ ہے غائبانہ محبت سامنے کی محبت سے لاکھوں درجے زیادہ اخلاص رکھتی ہے سامنے آنے پر تعریفی کلمات کہے یا نہیں کہے یہ اہم نہیں اہم یہ ہوتا ہے کہ غائبانہ طور پر سوچ مثبت رکھی یا نہیں؟؟؟ اساتذہ کا باادب شخص انکی عزت کا محافظ، انکی محنت کا معترف، انکی تربیت کا عکس جمیل ہوتا ہے اسی طرح اصل ادب یہ ہے کہ اپنے اساتذہ کے ساتھ اتنا اخلاص رکھنا چاہیئے کہ ان کی تکالیف اور پریشانیوں کا جس حد تک ہو سکے ازالہ کیا جاۓ اور انہیں راحت و تسکین پہنچائی جاۓ، استاذ سے دائرہ ادب میں رہتے ہوۓ علمی اختلاف رکھنا یا طریقہ کار بدلنا کوئی گستاخی نہیں ہے بلکہ اسلاف سے ہمیں کثیر ایسی مثالیں مل جائیں گی کہ مؤقف تبدیل ہے لیکن دل میں تعظیمی رشتہ باقی ہے
ہم آئمہ اربعہ کے احوال پڑھ لے تو معلوم ہو جائیں کہ ان کا آپس میں رشتہ کیسا تھا امام شافعی، امام مالک کے اور امام احمد بن حنبل، امام شافعی کے شاگرد رشید تھے اور یہ تمام آئمہ امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی تابعی علیہ الرحمہ کا حد درجہ ادب اور تعظیم کیا کرتے تھے، جیسا کہ خطیب بغدادی نے اپنی کتاب میں امام شافعی کا کلام نقل کیا ہے:
إِنِّي لَأَتَبَرَّكُ بِأَبِي حَنِيفَةَ، وَأَجِينُ إلى قَبْرِهِ فِي كُلِّ يَوْمٍ . يَعْنِي زَائِرًا . فَإِذَا عُرِضَتْ لِي حَاجَةً صَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ، وَجِئْتُ إِلَى قَبْرِهِ، وَسَأَلْتُ اللَّهَ تَعَالَى الْحَاجَةَ عِنْدَه، فَمَا تَبْعُدُ عَنِّي حَتَّى تقضى.
" میں امام ابو حنیفہ کی ذات سے برکت حاصل کرتا ہوں اور روزانہ ان کی قبر پر زیارت کے لیے آتا ہوں. جب مجھے کوئی ضرورت اور مشکل پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر آتا ہوں اور اس کے پاس کھڑے ہوکر) حاجت برآری کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں. پس میں وہاں سے نہیں ہٹتا یہاں تک کہ قبر کی برکت کے سبب میری حاجت پوری ہوچکی ہوتی ہے."
(تاريخ بغداد،جلد:1،صفحہ:123)
اہل علم جانتے ہیں کہ ان احباب کا آپس میں کس طرح ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں اختلاف واقع ہے مگر اختلاف تھا مخالفت نہیں تھی، اسی طرح آج بھی اگر کسی شاگرد کو مختلف سوچ پر گستاخ ثابت کر کے اس پر اپنی سوچ کا تھوپنا لازم ہوگا تو یہ ہرگز طریقہ سلف نہیں بلکہ اسے دین سے دور اور خود سے متنفر کرنے کا ایک سامان بن سکتا ہے، مگر اس سب میں شاگرد ہرگز نہ بھولے کہ اس کا اختلاف کس سے ہے غور و فکر کا حکم قرآن میں بھی آیا ہے مگر حدود کو توڑنے کی وعیدیں بھی اسی کلام حکمت میں مرقوم ہیں
کسی سے بھی محبت میں سب سے اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ محب کی وجہ سے محبوب پر کوئی انگلی نہ اٹھے، عظیم فلسفی سقراط نے اپنے نے اپنے شاگردوں کو ہر وقت قانون اور ملک کی محبت سکھائی اور وہ خود بھی ٹوٹ کر ان چیزوں سے پیار کرتا تھا آخر کار جب انصاف کے تقاضوں سے ہٹا ہوا ایک فیصلہ جو اس کی موت کیلئے سنایا گیا تھا اس نے برجستہ قبول کیا اور محض اس لیئے زہر سے بھرا پیالہ پی لیا کہ جن چیزوں کو وہ محبوب رکھتا ہے ان پر کوئی انگلی نہ اٹھاۓ؂
ہوا ہے وہ اگر منصف تو امجد احتیاطاً ہم
سزا تسلیم کرتے ہیں کسی الزام سے پہلے
اسی طرح ہم اپنی درسگاہوں سے وابستہ لوگ معاشرے میں انکی تعلیم و تربیت کا عکس ہوتے ہیں اب ہمیں دیکھنا ہے ہم ان کیلئے عکس جمیل بنتے ہیں یا عکس رذیل ثابت ہوتے ہیں، ہمیں اپنے اقوال و اخلاق کو اس قدر سنوارنا ہے کہ زمانہ ہماری درسگاہوں سے پیار کرنے پر مجبور ہو جاۓ ہماری ذات ان کے ماتھے پر لگا کلنک نہیں بلکہ سجا ہوا جھومر ثابت ہو، کہیں ہماری زبان کی کرواہٹ سے بدظن ہو کر عوام الناس ہماری درسگاہوں کے نام پر معوّذات پڑھنا نا شروع کر دے بلکہ ہماری گفتگو میں ایسی چاشنی اور مٹھاس ہو کہ ہر کوئی اس میخانے کا پتہ پوچھے جہاں سے ہمیں یہ جان میسر آیا، ہماری ذات اس فتنوں کے دور میں لوگوں کو دینی تعلیم سے دور کرنے والی نہیں بلکہ کھینچ کر قریب لانے والی ثابت ہونی چاہیئے اس کیلئے ہمیں تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرنا ہوگی اور سب سے اہم بات ہمیں توکل علی ﷲ کرتے ہوۓ احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دینا ہے مگر حکمت عملی کے ساتھ، حسد اور کینہ سے دل کو پاک و صاف رکھنا ہے، معاملات میں درستگی اور عمدہ اسلوبی سے جڑے رہنا ہے، جب ہمیں اپنی درسگاہوں کا خوبصورت تشہیری شخص بننا ہے تو ہمیں اپنے اسلاف سے دیکھنا چاہیئے کہ وہ ہستیاں جن کے نام سے آج بھی کئی مدارس قابل عزت بنے انہوں نے ہماری کیسی راہنمائی فرمائی ہے،
 چنانچہ سیدنا امام برہان الدین زرنوجی علیہ الرحمہ طلباء کی راہنمائی کرتے ہوۓ جن امور پر عمل کرنا انہیں دنیا و آخرت کا سرخرو انسان بنا سکتا ہے ان کے بارے تلقین کرتے ہوۓ ارشاد فرماتے ہیں:
پرہیزگاری کے کاموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جھگڑالو، عصیاں شعار اور بے کارافراد کی صحبت سے بچا جائے اور نیک لوگوں کی صحبت کو اختیار کیا جائے کہ صحبت ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے۔ اسی طرح ایک طالب علم کو چاہیے کہ ہمیشہ قبلہ رو بیٹھے اور حضور نبی مگرم، نُورِ مُجسّم صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کی سنتوں پر سختی سے عمل کرے۔ لوگوں کی دعاؤں کو غنیمت سمجھے اور مظلوم کی بددعا سے ہمیشہ اپنے آپ کو بچائے
(راہ علم، صفحہ:84، مطبوعہ:مکتبۃالمدینہ)

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area