حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ سوم
••────────••⊰❤️⊱••───────••
اللہ عزوجل نے انسانوں کی ہدایت کےلیے
••────────••⊰❤️⊱••───────••
اللہ عزوجل نے انسانوں کی ہدایت کےلیے
انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام مبعوث فرمائے ،
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جتنے بھی انبیاء علیہم السلام تشریف لائے سب نے انسانوں کے ساتھ خیر خواہی کا بھر پور مظاہرہ فرمایا اور راہ بھٹکے انسانوں کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی دعوت دیتے رہے۔ ظاہرسی بات ہے کفر کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے اور ظلم و عصیاں کے سمندر میں ڈوبے ہوئے انسانوں کے لئے راہِ راست پر جلدی آنا آسان تو نہ تھا چنانچہ کبھی دعوتِ دین دینے والے مقدس انبیائے کرام علیہم السلام پر نصیحت کے جواب میں پتھر برسائے گئے اور کبھی نا شائستہ جملوں کے تیر برسا کر ان کے کلیجے کو چھلنی کیا گیا ۔ لیکن اللہ کے فرستادہ پیغمبر ہر ظلم سہتے رہے اور لوگوں پر شفقت و مہربانی کے بادل بن کر برستے رہے ۔
اگر ہم قرآنِ مقدس کا مطالعہ کریں تو بے شمار انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام انسانوں کو خود کے خیر خواہ ہونے کے دلائل پیش کرتے رہے ۔ جیسا کہ
اگر ہم قرآنِ مقدس کا مطالعہ کریں تو بے شمار انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام انسانوں کو خود کے خیر خواہ ہونے کے دلائل پیش کرتے رہے ۔ جیسا کہ
’’ اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَکُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ‘‘ ۔ (سورۂ ، آیت نمبر ۶۲)
ترجمہ : تمہیں اپنے رب کی رسالتیں پہنچاتا اور تمہارا بھلا چاہتا اور میں اللہ کی طرف سے وہ علم رکھتا ہوں جو تم نہیں رکھتے ۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں بھٹکے ہوئے انسانوں کے سامنے حضرتِ نوح علیہ السلام نے اپنا مقصد اور منصب بیان فرمایا۔ اسی طرح سے اگر ہم دوسرے مقام پر دیکھیں تو حضرتِ صالح علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بھی اپنی قوم سے اس طریقہ کا ارشاد فرمایا۔ جیسا کہ قرآنِ مقدس میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :
ترجمہ : تمہیں اپنے رب کی رسالتیں پہنچاتا اور تمہارا بھلا چاہتا اور میں اللہ کی طرف سے وہ علم رکھتا ہوں جو تم نہیں رکھتے ۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں بھٹکے ہوئے انسانوں کے سامنے حضرتِ نوح علیہ السلام نے اپنا مقصد اور منصب بیان فرمایا۔ اسی طرح سے اگر ہم دوسرے مقام پر دیکھیں تو حضرتِ صالح علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بھی اپنی قوم سے اس طریقہ کا ارشاد فرمایا۔ جیسا کہ قرآنِ مقدس میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :
لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ وَ لٰکِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النَّاصِحِیْنَ ۔
ترجمہ : بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی ہی نہیں۔ (سورۂ اعراف، آیت ۷۹)
مذکورہ آیتِ کریمہ میں قوم کی ہٹ دھرمی اور عدم شناسی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ خیر خواہوں سے تم کو کوئی غرض ہی نہیں۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہالت کی وادیوں میں بھٹکنے والے انسان اور کفر و ضلالت کی تاریکی میں گم ہونے والی قوم بھلے اور برے کی تمیز سے محروم رہتی ہے ۔
اگر ہم حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ و السلام کی قوم کا جائزہ لیں تو اس قوم کی بے راہ روی اور گمرہی کا اندازہ لگ سکتا ہے۔
اسی طرح سے حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ و السلام کا قول
ترجمہ : بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی ہی نہیں۔ (سورۂ اعراف، آیت ۷۹)
مذکورہ آیتِ کریمہ میں قوم کی ہٹ دھرمی اور عدم شناسی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ خیر خواہوں سے تم کو کوئی غرض ہی نہیں۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہالت کی وادیوں میں بھٹکنے والے انسان اور کفر و ضلالت کی تاریکی میں گم ہونے والی قوم بھلے اور برے کی تمیز سے محروم رہتی ہے ۔
اگر ہم حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ و السلام کی قوم کا جائزہ لیں تو اس قوم کی بے راہ روی اور گمرہی کا اندازہ لگ سکتا ہے۔
اسی طرح سے حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ و السلام کا قول
’’یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ‘‘
اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیوں کر غم کروں کافروں کا ۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں اللہ کے جلیل القدر پیغمبر نے اپنی ذمہ داریٔ منصب کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمادیا کہ رسالت اور نصیحت ہم نے پہنچا دی اب اگر تم ایمان نہ لائو تو قصور تمہارا ہے۔
ایک اور مقام پر حضرت ہود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اسی بات کو دوسرے انداز میں فرمایا
مذکورہ آیتِ کریمہ میں اللہ کے جلیل القدر پیغمبر نے اپنی ذمہ داریٔ منصب کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمادیا کہ رسالت اور نصیحت ہم نے پہنچا دی اب اگر تم ایمان نہ لائو تو قصور تمہارا ہے۔
ایک اور مقام پر حضرت ہود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اسی بات کو دوسرے انداز میں فرمایا
’’اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ‘‘
تمہیں اپنے رب کی رسالتیں پہنچاتا ہوں اور تمہارا معتمد خیر خواہ ہوں۔(سورۂ اعراف، آیت:۶۸)
کفّار کا حضرت ہود علیہ السلام کی جناب میں یہ گستاخانہ کلام کہ تمہیں بے وقوف سمجتے ہیں، جھوٹا گمان کرتے ہیں، انتہائی درجے کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ مستحق اس بات کے تھے کہ انہیں سخت ترین جواب دیا جاتا مگر آپ نے اپنے اخلاق و آداب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا اس میں شان مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور ان کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی۔ اس سے دنیا کو سبق ملتا ہے کہ سفہاء اور بد خصال لوگوں سے اس طرح مخاطبہ کرنا چاہئے مع ہٰذا آپ نے اپنی رسالت اور خیر خواہی و امانت کا ذکر فرمایا اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ اہلِ علم و کمال کو ضرورت کے موقع پر اپنے منصب و کمال کا اظہار جائز ہے۔
انسانوں کی خیر خواہی کے لئے شب و روز کاوشیں کرنے والے انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کو دنیا کیا کیا سمجھتی رہی اور کہتی رہی، لیکن صبر و استقامت کے پیکر بن کر وہ لوگوں کو دین حنیف کی طرف بلاتے رہے اور جواباً دنیا کیا کہہ رہی ہے اس کی پرواہ تک نہ کی اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ خالق عزت اللہ ہے اور بھلائی کی دعوت دینا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔
حرص و دنیا کی لالچ میں اندھی قوم اور ’’دنیا ہی کے لئے جینا دنیا ہی کے لئے مرنا‘‘ اس ضابطہ پر عمل کرنے والی قوم یہ تصور کر تی رہی کہ نصیحت کے عوض میں انبیائِ کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام شاید ہمیں دعوتِ اسلام دے کر اور دین کی اعلیٰ قدروں سے آشنا کرا کر کچھ مال و منفعت کے خواہش مند ہوں گے تو دولت و ثروت کی لالچ دے کر دعوتِ دین کے فروغ کو روکنے کے لئے انہوں نے کوشش کی حتی کہ تاجدارِ کائنات ا سے جزیرۃ العرب کی جو زمین اور جو دوشیزہ پسند ہو اس کی پیش کش کی گئی لیکن معبودِ برحق کے فرستادہ پیغمبر دردِ انسانیت سے لبریز سینہ لے کر جس مقصد کے تحت اس فرشِ گیتی پر تشریف لائے تھے اس مقصد کو کیسے چھوڑ سکتے تھے، چنانچہ ان کے شکوک و شبہات کو رفع کرتے ہوئے اللہ کے پیارے محبوب ا نے صاف لفظوں میں فرمایا
کفّار کا حضرت ہود علیہ السلام کی جناب میں یہ گستاخانہ کلام کہ تمہیں بے وقوف سمجتے ہیں، جھوٹا گمان کرتے ہیں، انتہائی درجے کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ مستحق اس بات کے تھے کہ انہیں سخت ترین جواب دیا جاتا مگر آپ نے اپنے اخلاق و آداب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا اس میں شان مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور ان کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی۔ اس سے دنیا کو سبق ملتا ہے کہ سفہاء اور بد خصال لوگوں سے اس طرح مخاطبہ کرنا چاہئے مع ہٰذا آپ نے اپنی رسالت اور خیر خواہی و امانت کا ذکر فرمایا اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ اہلِ علم و کمال کو ضرورت کے موقع پر اپنے منصب و کمال کا اظہار جائز ہے۔
انسانوں کی خیر خواہی کے لئے شب و روز کاوشیں کرنے والے انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کو دنیا کیا کیا سمجھتی رہی اور کہتی رہی، لیکن صبر و استقامت کے پیکر بن کر وہ لوگوں کو دین حنیف کی طرف بلاتے رہے اور جواباً دنیا کیا کہہ رہی ہے اس کی پرواہ تک نہ کی اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ خالق عزت اللہ ہے اور بھلائی کی دعوت دینا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔
حرص و دنیا کی لالچ میں اندھی قوم اور ’’دنیا ہی کے لئے جینا دنیا ہی کے لئے مرنا‘‘ اس ضابطہ پر عمل کرنے والی قوم یہ تصور کر تی رہی کہ نصیحت کے عوض میں انبیائِ کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام شاید ہمیں دعوتِ اسلام دے کر اور دین کی اعلیٰ قدروں سے آشنا کرا کر کچھ مال و منفعت کے خواہش مند ہوں گے تو دولت و ثروت کی لالچ دے کر دعوتِ دین کے فروغ کو روکنے کے لئے انہوں نے کوشش کی حتی کہ تاجدارِ کائنات ا سے جزیرۃ العرب کی جو زمین اور جو دوشیزہ پسند ہو اس کی پیش کش کی گئی لیکن معبودِ برحق کے فرستادہ پیغمبر دردِ انسانیت سے لبریز سینہ لے کر جس مقصد کے تحت اس فرشِ گیتی پر تشریف لائے تھے اس مقصد کو کیسے چھوڑ سکتے تھے، چنانچہ ان کے شکوک و شبہات کو رفع کرتے ہوئے اللہ کے پیارے محبوب ا نے صاف لفظوں میں فرمایا
’’لَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبٰی‘‘
اور واضح کر دیا کہ مال و زر کی حرص تو بہت دور کی بات ہے اگر چاند و سورج بھی میرے ہاتھوں میں رکھ دئے جائیں تو بھی لمحے بھر کے لئے میں اپنے مقصد سے انحراف نہیں کر سکتا۔
ارے جس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ اپنے خزانوں کی کنجیاں عطا فرمادے اور جس کے ارد گرد پہاڑ سونے اور چاندی کے بن کر چلنے کے لئے تیار ہوں اسے کسی انسان سے مال و دولت کی کیا حاجت۔ سچ کہا ہے بریلی کے تاجدار نے ؎
مالکِ کونین ہیں وہ پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں
رسولِ معظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی شفقت ، رحمت اور بے غرضی سے انسانوں کے دلوں کا تزکیہ فرمایا اور دیکھتے دیکھتے تیئیس سال کی قلیل مدت میں ایک لاکھ سے زائد انسانوں کو شربتِ اسلام پلا کر نشۂ اسلام میں مخمور کر دیا اور وہ لوگ جن کے دل اتنے سخت تھے کہ جنہیں بچیوں کے زندہ در گور کرنے پر احساسِ جرم تک نہ تھا ان کے دلوں میں یتیم بچیوں کی پرورش کرنے کا جذبہ پیدا کرکے یہ واضح کر دیا کہ اسلام ہی وہ سچا مذہب ہے جس کے ایک ایک حکم میں ہزارہا بھلائیاں اللہ نے رکھی ہے ۔ چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ کے آخری نبی بن کر تشریف لائے تھے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی نبی کا آنا تو ممکن نہ تھا تو اللہ عزوجل نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ فروغِ اسلام کا کام لیا، ان کے بعد تابعین نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور پھر تبعِ تابعین نے ۔ غرض کہ خلافتِ راشدہ کے بعد چوں کہ ملوکیت کے دور کا آغاز ہو چکا تھا لہٰذا جو کام خلیفۂ وقت کیا کرتے اور مضطرب انسانوں کو قانونِ اسلام کا پابند کر کے اطمینان و چین کی دولت سے مالا مال فرماتے، وہ کام آہستہ آہستہ ملوکیت کے عروج کے ساتھ ساتھ مدہم پڑتا رہا۔ چوں کہ اسلام خیر خواہی کا مذہب ہے اس لئے بھٹکے ہوئے انسانوں کی خیر خواہی کےلیے اللہ کے وہ بندے جن کو رب نے اپنی دوستی کا تاج عطا فرمایا وہ میدانِ عمل میں کود پڑے اور اپنے پاکیزہ کردار کے ذریعہ اور بے لوثی کے ذریعہ مخلوقِ خدا کی وہ خدمت کی اور ایسا بھلا چاہا کہ دنیا ان کے حسنِ اخلاق و خیر خواہی سے متاثر ہو کر دامنِ اسلام میں پناہ لینے لگی۔ انہیں اولیاء میں سلطان الہند، عطائے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، خواجۂ خواجگاں معین الدین چشتی علیہ الرحمہ ہیں جن کے وصال کو آج صدیاں گزر گئیں لیکن آج بھی دکھی انسانوں کی خیر خواہی اور مضطرب انسانوں کو چین کی دولت اپنے مزارِ پر انوار سے بانٹتے نظر آتے ہیں۔(چشتی)
خواجۂ خواجگاں ، خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ و الرضوان اپنی مرضی سے ہند کی زمین پر تشریف نہیں لائے بلکہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں سلطان الہند بنا کر ہندوستان کی سرزمین پر اجمیر کے علاقے میں جانے کا حکم عطا فرمایا ۔ ہند کی سرحد میں داخل ہونے سے پہلے شہاب الدین غوری کی شکست خوردہ فوج کا ایک سپاہی جو پرتھوی راج سے شکست خوردہ فوج کا ایک سپاہی تھا، اس نے غریب نواز کو جب دیکھا کہ آپ عازمِ اجمیر ہیں تو عرض کرنے لگا اے اللہ کے برگزیدہ بندے! خدا کےلیے تم اجمیر نہ جاؤ، ابھی ہم پرتھوی راج کی فوج سے شکست کھا کر لوٹ رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے ساتھ کوئی برا سلوک وہ کر بیٹھے لہٰذا میری گزارش ہے کہ آپ اجمیر کا ارادہ ترک کر دو ۔
سلطان الہند غریب نواز علیہ الرحمہ نے اس کے کلمات جب سنے تو آپ کا عشق الٰہی جوش میں آیا اور برجستہ آپ نے ارشاد فرمایا ’’اے شہاب الدین غوری کی شکست خوردہ فوج کے سپاہی! کان کھول کر سن لے، تم لوگ جب چلے تھے تو تلواروں کے بھروسے پر اور معین الدین چلا ہے تو اللہ کے بھروسے پر ‘‘ کچھ ہی دنوں میں دنیا نے دیکھ لیا کہ بوسیدہ لباس میں ملبوس اور اللہ کے رنگ میں رنگے ہوئے اس عاشق نے صرف اجمیر کی دھرتی ہی کو تکبیر کے لاہوتی نغموں سے مسحور نہ کیا بلکہ لاکھوں انسانوں کے دلوںمیں شمعِ اسلام کو جلا کر یہ واضح کر دیا کہ جب بھی مادی طاقتوں کا مقابلہ روحانی طاقتوں سے ہوا تو اللہ عزوجل نے اپنے فرمان ’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی‘‘ کے مطابق کامیابی انہیں کو عطا فرمائی جن کا دل یادِ الٰہی اور یادِ رسول ا اور دردِ امت میں تڑپتا ہے ۔
حضرت خواجہ خاندانِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وہ روشن چراغ ہیں جس کی نورانی شعاعوں نے نہ صرف سر زمینِ ایشیا میں ہزاروں قلوب کو نورِ توحید و ضیائے معرفت سے منور کر دیا بلکہ تمام عالم میں اپنی لا زوال روشنی پھیلا دی، آپ کے آباء و اجداد کو علم و فضل، زہد و تقویٰ اور حق شناسی و خدا رسی میں طرۂ امتیاز حاصل رہا ہے، جس طرح سرورِ عالم ا کا شجرۂ نسب حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور ا تک نہ صرف جاہلیت سے پاک و صاف ہے بلکہ ہدایت خلق کےلیے بعض انبیاء علیہم السلام کا بھی حامل ہے، اسی طرح آپ کا نسب نامہ رسول خدا ا سے لے کر آپ کی ذات اقدس تک نہ صرف دینداری اور پرہیزگاری میں ممتاز ہے بلکہ اس میں مخلوق کی رہبری کےلیے بعض اماموں کی مقدس شخصیتیں بھی نظر آتی ہیں، یہ حضرات فقر و درویشی اور بزرگی میں یگانۂ روزگار ہوئے ہیں۔ آپ کے شجرہ میں بہت سے اختلافات ہیں مگر یہ امر مسلمہ ہے کہ آپ بلحاظ نسب نامۂ پدری حسینی ہیں اور بموجبِ شجرۂ مادری حسنی ہیں ۔
غوث الاعظم سے قرابت :
ارے جس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ اپنے خزانوں کی کنجیاں عطا فرمادے اور جس کے ارد گرد پہاڑ سونے اور چاندی کے بن کر چلنے کے لئے تیار ہوں اسے کسی انسان سے مال و دولت کی کیا حاجت۔ سچ کہا ہے بریلی کے تاجدار نے ؎
مالکِ کونین ہیں وہ پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں
رسولِ معظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی شفقت ، رحمت اور بے غرضی سے انسانوں کے دلوں کا تزکیہ فرمایا اور دیکھتے دیکھتے تیئیس سال کی قلیل مدت میں ایک لاکھ سے زائد انسانوں کو شربتِ اسلام پلا کر نشۂ اسلام میں مخمور کر دیا اور وہ لوگ جن کے دل اتنے سخت تھے کہ جنہیں بچیوں کے زندہ در گور کرنے پر احساسِ جرم تک نہ تھا ان کے دلوں میں یتیم بچیوں کی پرورش کرنے کا جذبہ پیدا کرکے یہ واضح کر دیا کہ اسلام ہی وہ سچا مذہب ہے جس کے ایک ایک حکم میں ہزارہا بھلائیاں اللہ نے رکھی ہے ۔ چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ کے آخری نبی بن کر تشریف لائے تھے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی نبی کا آنا تو ممکن نہ تھا تو اللہ عزوجل نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ فروغِ اسلام کا کام لیا، ان کے بعد تابعین نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور پھر تبعِ تابعین نے ۔ غرض کہ خلافتِ راشدہ کے بعد چوں کہ ملوکیت کے دور کا آغاز ہو چکا تھا لہٰذا جو کام خلیفۂ وقت کیا کرتے اور مضطرب انسانوں کو قانونِ اسلام کا پابند کر کے اطمینان و چین کی دولت سے مالا مال فرماتے، وہ کام آہستہ آہستہ ملوکیت کے عروج کے ساتھ ساتھ مدہم پڑتا رہا۔ چوں کہ اسلام خیر خواہی کا مذہب ہے اس لئے بھٹکے ہوئے انسانوں کی خیر خواہی کےلیے اللہ کے وہ بندے جن کو رب نے اپنی دوستی کا تاج عطا فرمایا وہ میدانِ عمل میں کود پڑے اور اپنے پاکیزہ کردار کے ذریعہ اور بے لوثی کے ذریعہ مخلوقِ خدا کی وہ خدمت کی اور ایسا بھلا چاہا کہ دنیا ان کے حسنِ اخلاق و خیر خواہی سے متاثر ہو کر دامنِ اسلام میں پناہ لینے لگی۔ انہیں اولیاء میں سلطان الہند، عطائے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، خواجۂ خواجگاں معین الدین چشتی علیہ الرحمہ ہیں جن کے وصال کو آج صدیاں گزر گئیں لیکن آج بھی دکھی انسانوں کی خیر خواہی اور مضطرب انسانوں کو چین کی دولت اپنے مزارِ پر انوار سے بانٹتے نظر آتے ہیں۔(چشتی)
خواجۂ خواجگاں ، خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ و الرضوان اپنی مرضی سے ہند کی زمین پر تشریف نہیں لائے بلکہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں سلطان الہند بنا کر ہندوستان کی سرزمین پر اجمیر کے علاقے میں جانے کا حکم عطا فرمایا ۔ ہند کی سرحد میں داخل ہونے سے پہلے شہاب الدین غوری کی شکست خوردہ فوج کا ایک سپاہی جو پرتھوی راج سے شکست خوردہ فوج کا ایک سپاہی تھا، اس نے غریب نواز کو جب دیکھا کہ آپ عازمِ اجمیر ہیں تو عرض کرنے لگا اے اللہ کے برگزیدہ بندے! خدا کےلیے تم اجمیر نہ جاؤ، ابھی ہم پرتھوی راج کی فوج سے شکست کھا کر لوٹ رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے ساتھ کوئی برا سلوک وہ کر بیٹھے لہٰذا میری گزارش ہے کہ آپ اجمیر کا ارادہ ترک کر دو ۔
سلطان الہند غریب نواز علیہ الرحمہ نے اس کے کلمات جب سنے تو آپ کا عشق الٰہی جوش میں آیا اور برجستہ آپ نے ارشاد فرمایا ’’اے شہاب الدین غوری کی شکست خوردہ فوج کے سپاہی! کان کھول کر سن لے، تم لوگ جب چلے تھے تو تلواروں کے بھروسے پر اور معین الدین چلا ہے تو اللہ کے بھروسے پر ‘‘ کچھ ہی دنوں میں دنیا نے دیکھ لیا کہ بوسیدہ لباس میں ملبوس اور اللہ کے رنگ میں رنگے ہوئے اس عاشق نے صرف اجمیر کی دھرتی ہی کو تکبیر کے لاہوتی نغموں سے مسحور نہ کیا بلکہ لاکھوں انسانوں کے دلوںمیں شمعِ اسلام کو جلا کر یہ واضح کر دیا کہ جب بھی مادی طاقتوں کا مقابلہ روحانی طاقتوں سے ہوا تو اللہ عزوجل نے اپنے فرمان ’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی‘‘ کے مطابق کامیابی انہیں کو عطا فرمائی جن کا دل یادِ الٰہی اور یادِ رسول ا اور دردِ امت میں تڑپتا ہے ۔
حضرت خواجہ خاندانِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وہ روشن چراغ ہیں جس کی نورانی شعاعوں نے نہ صرف سر زمینِ ایشیا میں ہزاروں قلوب کو نورِ توحید و ضیائے معرفت سے منور کر دیا بلکہ تمام عالم میں اپنی لا زوال روشنی پھیلا دی، آپ کے آباء و اجداد کو علم و فضل، زہد و تقویٰ اور حق شناسی و خدا رسی میں طرۂ امتیاز حاصل رہا ہے، جس طرح سرورِ عالم ا کا شجرۂ نسب حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور ا تک نہ صرف جاہلیت سے پاک و صاف ہے بلکہ ہدایت خلق کےلیے بعض انبیاء علیہم السلام کا بھی حامل ہے، اسی طرح آپ کا نسب نامہ رسول خدا ا سے لے کر آپ کی ذات اقدس تک نہ صرف دینداری اور پرہیزگاری میں ممتاز ہے بلکہ اس میں مخلوق کی رہبری کےلیے بعض اماموں کی مقدس شخصیتیں بھی نظر آتی ہیں، یہ حضرات فقر و درویشی اور بزرگی میں یگانۂ روزگار ہوئے ہیں۔ آپ کے شجرہ میں بہت سے اختلافات ہیں مگر یہ امر مسلمہ ہے کہ آپ بلحاظ نسب نامۂ پدری حسینی ہیں اور بموجبِ شجرۂ مادری حسنی ہیں ۔
غوث الاعظم سے قرابت :
حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلی المعروف بہ غوث پاک حضرت عبداللہ الحنبلی کے پوتے ہیں اور غریب نواز کی والدہ ماجدہ بی بی ماہِ نور حضرت عبداللہ الحنبلی کی پوتی ہیں۔ ان ہر دو کے والد آپس میں بھائی ہیں۔ اس رشتہ سے غریب نوازکی والدہ غوث الاعظم کی چچا زاد بہن ہیں اور غوث پاک غریب نواز کے ماموں ہیں۔ ایک دوسرے رشتہ سے غریب نواز اور غوثِ پاک آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں، تیسرے رشتہ سے غریب نواز غوث الاعظم کے ماموں ہوتے ہیں۔ ان رشتوں کی مطابقت اس طرح ہو جاتی ہے کہ غوثِ پاک کی والدہ غریب نواز کی ننہالی رشتہ میں خالہ اور ددھیالی رشتہ میں بہن ہیں ۔
آپ کی جائے ولادت میں اختلاف ہے ، مؤلف سیر العارفین نے آپ کا مولد سجستان لکھا ہے۔ بعض نے سنجار متصل موصل لکھا ہے۔ بعض نے متصل اصفہان سنجر لکھا ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ حسبِ سیر الاقطاب آپ کا آبائی وطن سنجرستان (صوبہ سجستان یعنی سنجر یا سیسان ہے اور جائے ولادت صفاہان (اصفہان) ہے لیکن آپ کی بود و باش سنجان میں رہی جو سنجر کے نام سے مشہور ہے بقولِ ابوالفضل یہ قصبہ سنجر سیسان سے متعلق ہے۔ یہاں آپ کے خاندان کے افراد اب تک موجود ہیں، اس کے گرد پہاڑ ہیں پھل بکثرت ہوتے ہیں باشندگان نیک خصلت ہیں ۔
خلفائے عباسیہ سادات پر مظالم کرتے تھے اس لیے اغلب گمان ہے کہ آپ کے اجداد نے ان کے مظالم سے تنگ آکر دارالخلافت بغداد سے دور سنجر (جس کو ابوالفضل نے سنکر یا سنگر لکھا ہے اور گاف کو جیم سے بدل کر آپ کو سنجری لکھا ہے) میں اقامت اختیار کر لی تھی مگر آپ کی ولادت کے موقع پر آپ کی والدہ اصفہان میں تھیں۔ اس سیستان کے سنجری خاندانِ رسالت کی جائے قیام آبائی سابقہ نسبت مکانی کی وجہ سے اصفہان میں بھی سنجر (اصفہان کا مضافاتی محلہ) کہلائی۔
تاریخ و سنہ ولادت : آپ کی ولادت کے مختلف سنین ۵۲۳ھ اور ۵۳۷ھ کے درمیان لکھے گئے ہیں مگر بحوالہ کلمات الصادقین مؤلف مرأت الاسرار نے آپ کا بعمر ۹۷ سال ۶۲۷ھ میں وصال پانا لکھا ہے ۶۲۷ میں سے ۹۷ سال عمر کے کم کر دینے سے آپ کا سنہ ولادت ۵۳۰ھ بر آمد ہوتا ہے یہی سالِ ولادت مؤلف مرأت الانساب (ص:۱۶۰) اور خاندان زبیر کبنوی (جلد اول ص:۳۱۶) وغیرہ نے لکھا ہے۔ مرقعہ خواجگان نے ص:۱۱ پر بحوالہ آئینہ تصوف اور بعض دوسرے تذکرہ نویسوں نے آپ کی تاریخِ ولادت ۹؍جمادی الثانی لکھی ہے۔ ۵۳۰ھ کی یہ تاریخ ۱۵؍مارچ ۱۱۳۶ء روز یکشنبہ سے مطابقت کرتی ہے ۔
بعض کے نزدیک آپ کا پورا نام معین الدین حسن ہے مگر بعض کے نزدیک معین الدین ہے اور والدین کے پکارنے کا مختصر نام حسن ہے۔ بعدِ وصال آپ کی پیشانی پر بخط نور ’’ہٰذَا حَبِیْبُ اللّٰہِ‘‘ مرقوم تھا۔ اس لئے یہ دربارِ ایزدی سے عطا کردہ خطاب سمجھا جاتا ہے۔مدینہ منورہ پہنچ کر جب آپ نے دربارِ رسالت میں سلام پیش کیا تو جوابِ سلام کے ساتھ قطب مشائخ بر و بحر کا خطاب عطا ہوا۔ چوں کہ آپ نے ہندوستان میں بفیض رسالت محمدی نبیوں کی طرح خدمت انجام دیں اس لئے بعض پرانے تذکروں میں آپ کا خطاب ہند النبی مرقوم ہے۔ عام طور سے لوگ آپ کو عطائے رسول، خواجہ اجمیر، خواجہ بزرگ ہند الولی، غریب نواز، سلطان الہند، نائب رسول فی الہند و غیرہ کے خطابات سے یاد کرتے ہیں۔بعض حضرات فاتحہ کے موقعہ پر آپ کے نام کے ساتھ تاج المقربین و المحققین، سید العابدین، تاج العاشقین، برہان الواصلین، آفتابِ جہاں، رحمتِ ہندوستاں، پناہِ بے کساں، دلیل العارفین کے القاب لگاتے ہیں ۔
چشتی کہلانے کی وجہ تسمیہ : یہ خیال غلط ہے کہ چشتی سلسلہ حضرتِ خواجہ غریب نواز سے شروع ہوا بلکہ اس کی ابتدا حضرتِ خواجہ ابواسحاق سے ہوئی، مبدأ و منشأ چشتیاں حضرت خواجہ ابواسحاق شامی جب بقصدِ حصولِ بیت حضرت خواجہ ممشادعلودینوری کے یہاں بغداد میں حاضر ہوئے اور شرفِ بیعت و ارادت سے مشرف ہوئے تو حضرت خواجہ ممشاد علودینوری رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت فرمایا ’’تیرا نام کیا ہے؟‘‘ عرض کیا اس عاجز کو ابو اسحاق شامی کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا آج سے ہم تجھ کو ابو اسحاق چشتی کہیں گے اور جو تیرے سلسلۂ ارادت میں تا قیامِ قیامت داخل ہوگا وہ بھی چشتی کہلائے گا۔ پس حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی حسبِ فرمانِ مرشد چشت (شاقلان جو ہرات سے تیس کوس ہے) میں تشریف لائے اور رشد و ہدایت میں مصروف ہوئے۔ آپ کے سلسلہ کے بزرگان میں سے حضرت خواجہ ابو احمد چشتی، حضرت خواجہ محمد چشتی، حضرت خواجہ ابو یوسف چشتی اور حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی بھی چشت میں قیام پذیر ہو کر مدفون ہوئے بایں وجہ یہ سلسلہ چشتی کے نام سے مشہور ہوا چوں کہ مذکورہ بالا حضرات حضور خواجہ غریب نواز کے پیرانِ سلسلہ ہیں اس لئے حضرت خواجہ غریب نواز بھی چشتی کہلائے ۔ آپ کا عہدِ طفلی عام بچوں جیسا نہ تھا بلکہ ایامِ رضاعت تک میں شانِ غریب نوازی کا اظہار فرماتے تھے ’’بزمانۂ رضاعت جب کوئی عورت اپنا بچہ لے کر آپ کے یہاں آ جاتی اور اس کا بچہ دودھ کے لئے روتا تو آپ کا اشارہ سمجھ جاتیں اور آپ کا دودھ اسے پلا دیتیں۔ اس نظارے سے آپ بہت بہت خوش ہوتے اور فرطِ مسرت سے ہنستے۔ تین چار سال کی عمر کے زمانہ میں آپ اپنے ہم عمر بچوں کو بلاتے اور انہیں کھانا کھلاتے ۔ ایک عید کے موقع پر حضرتِ خواجہ بزمانہ صغرِ سنی عمدہ لباس پہنے ہوئے نماز کےلیے جا رہے تھے، راستے میں آپ نے ایک نابینا لڑکے کو پھٹے پرانے کپڑوں میں دیکھا، آپ کو اس پر رحم آیا اسی وقت اپنے کپڑے اتار کر اس بچے کو دے دئے اور اس کو اپنے ساتھ عید گاہ لے گئے۔ آپ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کبھی کھیل کود میں شریک نہ ہوتے تھے ۔ آپ کی نشو و نما خراسان میں ہوٸی ، ابتدائی تعلیم کے متعلق کتابوں میں تفصیلات نہیں ہیں مگر حال کے ایک تذکرہ میں لکھا ہے کہ ابتدائی تعلیم آپ نے گھر پر حاصل کی۔ نو سال کی عمر میں قرآنِ مجید حفظ کیا بعد ازآں آپ سنجر کے مدرسے میں داخل ہو گئے یہاں آپ نے تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور تھوڑے عرصے میں بہت علم حاصل کر لیا ۔ ایک دن آپ اپنے باغ کو سیراب کر رہے تھے کہ اپنے وقت کے مشہور مجذوب حضرت ابراہیم قندوری کا وہاں سے گزر ہوا۔ حضرت خواجہ نے نہایت عزت و احترام کے ساتھ انہیں بٹھایا اور خوشۂ انگور سے ان کی تواضع کی۔ خواجہ کے حسنِ سلوک سے مجذوب کا دل خوش ہو گیا انہوں نے اپنی بغل سے سوکھی ہوئی روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور دانت سے چبا کر حضرت خواجہ کو دیا، اسے کھاتے ہی دل کی حالت بدل گئی، کیف و سر مستی کے عالم میں باغ و پن چکی فروخت کر کے ساری قیمت فقراء اور مساکین میں تقسیم کر دی اور خراسان کی طرف نکل گئے ۔ (ماہنامہ استقامت کا اولیاء نمبر جولائی ۱۹۷۷ء صفحہ ۶۳،چشتی)
سَرزمینِ ہِند میں جہاں عرصۂ دراز سے کفر و شرک کا دَوْر دَوْرَہ تھا ، اور ظُلْم و جَوْر کی فَضا قائم تھی اور لوگ اَخلاق و کِردار کی پستی کا شِکار تھے ۔ اِس خطّے کے لوگوں کو نورِ ہدایت سے روشناس کروانے ، ظُلْم وسِتَم سے نجات دلانے اور لوگوں کے عقائد و اَعمال کی اِصلاح کرنے والے بُزرگانِ دین میں حضرت خواجہ مُعینُ الدِّین سیّدحَسَن چشتی اَجمیری رَحْمَۃُ اللہ علیہ کا اِسمِ گرامی بہت نُمایاں ہے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ علیہ کی وِلادت 537 ھجری بمطابق 1142 عیسوی کو سِجِسْتان یا سِیْسْتان کے علاقے سَنْجَر میں ایک پاکیزہ اور علمی گھرانے میں ہوئی ۔ (اقتباس الانوار صفحہ 345) ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ علیہ سر زمینِ ہِند تشریف لائے اور اَجمیر شریف (راجِستھان) کو اپنا مُسْتَقِل مسکن بناتے ہوئے دینِ اسلام کی تَرْوِیج و اِشَاعَت کا آغاز فرمایا ۔ خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی دینی خدمات میں سب سے اَہَم کارنامہ یہ ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے اَخْلاق ، کِرْدَاراور گُفْتَار سے اس خطّے میں اسلام کا بول بالا فرمایا ۔ لاکھوں لوگ آپ کی نگاہِ فیض سے متاثّر ہو کرکفر کی اندھیریوں سے نکل کر اسلام کے نور میں داخل ہو گئے ، یہاں تک کہ جادوگر سادھو رام ، سادو اَجے پال اور حاکم سبزوار جیسے ظالم و سَرْکَش بھی آپ کے حلقۂ اِرادت (مریدوں) میں شامل ہو گئے ۔
آپ کی جائے ولادت میں اختلاف ہے ، مؤلف سیر العارفین نے آپ کا مولد سجستان لکھا ہے۔ بعض نے سنجار متصل موصل لکھا ہے۔ بعض نے متصل اصفہان سنجر لکھا ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ حسبِ سیر الاقطاب آپ کا آبائی وطن سنجرستان (صوبہ سجستان یعنی سنجر یا سیسان ہے اور جائے ولادت صفاہان (اصفہان) ہے لیکن آپ کی بود و باش سنجان میں رہی جو سنجر کے نام سے مشہور ہے بقولِ ابوالفضل یہ قصبہ سنجر سیسان سے متعلق ہے۔ یہاں آپ کے خاندان کے افراد اب تک موجود ہیں، اس کے گرد پہاڑ ہیں پھل بکثرت ہوتے ہیں باشندگان نیک خصلت ہیں ۔
خلفائے عباسیہ سادات پر مظالم کرتے تھے اس لیے اغلب گمان ہے کہ آپ کے اجداد نے ان کے مظالم سے تنگ آکر دارالخلافت بغداد سے دور سنجر (جس کو ابوالفضل نے سنکر یا سنگر لکھا ہے اور گاف کو جیم سے بدل کر آپ کو سنجری لکھا ہے) میں اقامت اختیار کر لی تھی مگر آپ کی ولادت کے موقع پر آپ کی والدہ اصفہان میں تھیں۔ اس سیستان کے سنجری خاندانِ رسالت کی جائے قیام آبائی سابقہ نسبت مکانی کی وجہ سے اصفہان میں بھی سنجر (اصفہان کا مضافاتی محلہ) کہلائی۔
تاریخ و سنہ ولادت : آپ کی ولادت کے مختلف سنین ۵۲۳ھ اور ۵۳۷ھ کے درمیان لکھے گئے ہیں مگر بحوالہ کلمات الصادقین مؤلف مرأت الاسرار نے آپ کا بعمر ۹۷ سال ۶۲۷ھ میں وصال پانا لکھا ہے ۶۲۷ میں سے ۹۷ سال عمر کے کم کر دینے سے آپ کا سنہ ولادت ۵۳۰ھ بر آمد ہوتا ہے یہی سالِ ولادت مؤلف مرأت الانساب (ص:۱۶۰) اور خاندان زبیر کبنوی (جلد اول ص:۳۱۶) وغیرہ نے لکھا ہے۔ مرقعہ خواجگان نے ص:۱۱ پر بحوالہ آئینہ تصوف اور بعض دوسرے تذکرہ نویسوں نے آپ کی تاریخِ ولادت ۹؍جمادی الثانی لکھی ہے۔ ۵۳۰ھ کی یہ تاریخ ۱۵؍مارچ ۱۱۳۶ء روز یکشنبہ سے مطابقت کرتی ہے ۔
بعض کے نزدیک آپ کا پورا نام معین الدین حسن ہے مگر بعض کے نزدیک معین الدین ہے اور والدین کے پکارنے کا مختصر نام حسن ہے۔ بعدِ وصال آپ کی پیشانی پر بخط نور ’’ہٰذَا حَبِیْبُ اللّٰہِ‘‘ مرقوم تھا۔ اس لئے یہ دربارِ ایزدی سے عطا کردہ خطاب سمجھا جاتا ہے۔مدینہ منورہ پہنچ کر جب آپ نے دربارِ رسالت میں سلام پیش کیا تو جوابِ سلام کے ساتھ قطب مشائخ بر و بحر کا خطاب عطا ہوا۔ چوں کہ آپ نے ہندوستان میں بفیض رسالت محمدی نبیوں کی طرح خدمت انجام دیں اس لئے بعض پرانے تذکروں میں آپ کا خطاب ہند النبی مرقوم ہے۔ عام طور سے لوگ آپ کو عطائے رسول، خواجہ اجمیر، خواجہ بزرگ ہند الولی، غریب نواز، سلطان الہند، نائب رسول فی الہند و غیرہ کے خطابات سے یاد کرتے ہیں۔بعض حضرات فاتحہ کے موقعہ پر آپ کے نام کے ساتھ تاج المقربین و المحققین، سید العابدین، تاج العاشقین، برہان الواصلین، آفتابِ جہاں، رحمتِ ہندوستاں، پناہِ بے کساں، دلیل العارفین کے القاب لگاتے ہیں ۔
چشتی کہلانے کی وجہ تسمیہ : یہ خیال غلط ہے کہ چشتی سلسلہ حضرتِ خواجہ غریب نواز سے شروع ہوا بلکہ اس کی ابتدا حضرتِ خواجہ ابواسحاق سے ہوئی، مبدأ و منشأ چشتیاں حضرت خواجہ ابواسحاق شامی جب بقصدِ حصولِ بیت حضرت خواجہ ممشادعلودینوری کے یہاں بغداد میں حاضر ہوئے اور شرفِ بیعت و ارادت سے مشرف ہوئے تو حضرت خواجہ ممشاد علودینوری رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت فرمایا ’’تیرا نام کیا ہے؟‘‘ عرض کیا اس عاجز کو ابو اسحاق شامی کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا آج سے ہم تجھ کو ابو اسحاق چشتی کہیں گے اور جو تیرے سلسلۂ ارادت میں تا قیامِ قیامت داخل ہوگا وہ بھی چشتی کہلائے گا۔ پس حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی حسبِ فرمانِ مرشد چشت (شاقلان جو ہرات سے تیس کوس ہے) میں تشریف لائے اور رشد و ہدایت میں مصروف ہوئے۔ آپ کے سلسلہ کے بزرگان میں سے حضرت خواجہ ابو احمد چشتی، حضرت خواجہ محمد چشتی، حضرت خواجہ ابو یوسف چشتی اور حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی بھی چشت میں قیام پذیر ہو کر مدفون ہوئے بایں وجہ یہ سلسلہ چشتی کے نام سے مشہور ہوا چوں کہ مذکورہ بالا حضرات حضور خواجہ غریب نواز کے پیرانِ سلسلہ ہیں اس لئے حضرت خواجہ غریب نواز بھی چشتی کہلائے ۔ آپ کا عہدِ طفلی عام بچوں جیسا نہ تھا بلکہ ایامِ رضاعت تک میں شانِ غریب نوازی کا اظہار فرماتے تھے ’’بزمانۂ رضاعت جب کوئی عورت اپنا بچہ لے کر آپ کے یہاں آ جاتی اور اس کا بچہ دودھ کے لئے روتا تو آپ کا اشارہ سمجھ جاتیں اور آپ کا دودھ اسے پلا دیتیں۔ اس نظارے سے آپ بہت بہت خوش ہوتے اور فرطِ مسرت سے ہنستے۔ تین چار سال کی عمر کے زمانہ میں آپ اپنے ہم عمر بچوں کو بلاتے اور انہیں کھانا کھلاتے ۔ ایک عید کے موقع پر حضرتِ خواجہ بزمانہ صغرِ سنی عمدہ لباس پہنے ہوئے نماز کےلیے جا رہے تھے، راستے میں آپ نے ایک نابینا لڑکے کو پھٹے پرانے کپڑوں میں دیکھا، آپ کو اس پر رحم آیا اسی وقت اپنے کپڑے اتار کر اس بچے کو دے دئے اور اس کو اپنے ساتھ عید گاہ لے گئے۔ آپ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کبھی کھیل کود میں شریک نہ ہوتے تھے ۔ آپ کی نشو و نما خراسان میں ہوٸی ، ابتدائی تعلیم کے متعلق کتابوں میں تفصیلات نہیں ہیں مگر حال کے ایک تذکرہ میں لکھا ہے کہ ابتدائی تعلیم آپ نے گھر پر حاصل کی۔ نو سال کی عمر میں قرآنِ مجید حفظ کیا بعد ازآں آپ سنجر کے مدرسے میں داخل ہو گئے یہاں آپ نے تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور تھوڑے عرصے میں بہت علم حاصل کر لیا ۔ ایک دن آپ اپنے باغ کو سیراب کر رہے تھے کہ اپنے وقت کے مشہور مجذوب حضرت ابراہیم قندوری کا وہاں سے گزر ہوا۔ حضرت خواجہ نے نہایت عزت و احترام کے ساتھ انہیں بٹھایا اور خوشۂ انگور سے ان کی تواضع کی۔ خواجہ کے حسنِ سلوک سے مجذوب کا دل خوش ہو گیا انہوں نے اپنی بغل سے سوکھی ہوئی روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور دانت سے چبا کر حضرت خواجہ کو دیا، اسے کھاتے ہی دل کی حالت بدل گئی، کیف و سر مستی کے عالم میں باغ و پن چکی فروخت کر کے ساری قیمت فقراء اور مساکین میں تقسیم کر دی اور خراسان کی طرف نکل گئے ۔ (ماہنامہ استقامت کا اولیاء نمبر جولائی ۱۹۷۷ء صفحہ ۶۳،چشتی)
سَرزمینِ ہِند میں جہاں عرصۂ دراز سے کفر و شرک کا دَوْر دَوْرَہ تھا ، اور ظُلْم و جَوْر کی فَضا قائم تھی اور لوگ اَخلاق و کِردار کی پستی کا شِکار تھے ۔ اِس خطّے کے لوگوں کو نورِ ہدایت سے روشناس کروانے ، ظُلْم وسِتَم سے نجات دلانے اور لوگوں کے عقائد و اَعمال کی اِصلاح کرنے والے بُزرگانِ دین میں حضرت خواجہ مُعینُ الدِّین سیّدحَسَن چشتی اَجمیری رَحْمَۃُ اللہ علیہ کا اِسمِ گرامی بہت نُمایاں ہے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ علیہ کی وِلادت 537 ھجری بمطابق 1142 عیسوی کو سِجِسْتان یا سِیْسْتان کے علاقے سَنْجَر میں ایک پاکیزہ اور علمی گھرانے میں ہوئی ۔ (اقتباس الانوار صفحہ 345) ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ علیہ سر زمینِ ہِند تشریف لائے اور اَجمیر شریف (راجِستھان) کو اپنا مُسْتَقِل مسکن بناتے ہوئے دینِ اسلام کی تَرْوِیج و اِشَاعَت کا آغاز فرمایا ۔ خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی دینی خدمات میں سب سے اَہَم کارنامہ یہ ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے اَخْلاق ، کِرْدَاراور گُفْتَار سے اس خطّے میں اسلام کا بول بالا فرمایا ۔ لاکھوں لوگ آپ کی نگاہِ فیض سے متاثّر ہو کرکفر کی اندھیریوں سے نکل کر اسلام کے نور میں داخل ہو گئے ، یہاں تک کہ جادوگر سادھو رام ، سادو اَجے پال اور حاکم سبزوار جیسے ظالم و سَرْکَش بھی آپ کے حلقۂ اِرادت (مریدوں) میں شامل ہو گئے ۔
(معین الہند حضرت خواجہ معین الدین اجمیری صفحہ 56)
ہِندمیں خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ کی آمد ایک زبردست اسلامی ، روحانی اور سماجی اِنقلاب کا پَیْش خَیْمَہ ثابت ہوئی ۔ خواجہ غریب نواز ہی کے طُفیل ہِندمیں سِلسِلۂ چِشتیہ کا آغازہوا۔
ہِندمیں خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ کی آمد ایک زبردست اسلامی ، روحانی اور سماجی اِنقلاب کا پَیْش خَیْمَہ ثابت ہوئی ۔ خواجہ غریب نواز ہی کے طُفیل ہِندمیں سِلسِلۂ چِشتیہ کا آغازہوا۔
(تاریخ مشائخ چشت صفحہ 136)
آپ رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے اِصلاح و تبلیغ کے ذریعے تَلَامِذَہ و خُلَفَا کی ایسی جماعت تیار کی جس نے بَرِّاعظیم (پاک و ہند) کے کونے کونے میں خدمتِ دین کا عظیم فَرِیْضہ سَرْ اَنْجَام دیا ۔ دِہلی میں آپ کے خلیفہ حضرت شیخ قُطْبُ الدِّین بَخْتیار کاکی رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے اور ناگور میں قاضی حمیدُ الدِّین ناگوری رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے خدمتِ دین کے فرائض سَر اَنْجَام دیے۔
آپ رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے اِصلاح و تبلیغ کے ذریعے تَلَامِذَہ و خُلَفَا کی ایسی جماعت تیار کی جس نے بَرِّاعظیم (پاک و ہند) کے کونے کونے میں خدمتِ دین کا عظیم فَرِیْضہ سَرْ اَنْجَام دیا ۔ دِہلی میں آپ کے خلیفہ حضرت شیخ قُطْبُ الدِّین بَخْتیار کاکی رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے اور ناگور میں قاضی حمیدُ الدِّین ناگوری رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے خدمتِ دین کے فرائض سَر اَنْجَام دیے۔
(تاریخ مشائخ چشت صفحہ 139 تا 142)
خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ کے اس مِشَنْ کو عُرُوْج تک پہنچانے میں آپ کے خُلَفَا کے خُلَفَانے بھی بھر پور حصّہ ملایا ، حضرت بابا فرید گَنْجِ شَکَر رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے پاکپتن کو ، شیخ جمالُ الدِّین ہَانْسْوی رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے ہَانْسی کو اور شیخ نِظامُ الدِّین اَوْلِیا رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے دِہلی کو مرکز بنا کر اِصلاح و تبلیغ کی خدمت سَرْ اَنْجَام دی ۔
خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ کے اس مِشَنْ کو عُرُوْج تک پہنچانے میں آپ کے خُلَفَا کے خُلَفَانے بھی بھر پور حصّہ ملایا ، حضرت بابا فرید گَنْجِ شَکَر رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے پاکپتن کو ، شیخ جمالُ الدِّین ہَانْسْوی رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے ہَانْسی کو اور شیخ نِظامُ الدِّین اَوْلِیا رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے دِہلی کو مرکز بنا کر اِصلاح و تبلیغ کی خدمت سَرْ اَنْجَام دی ۔
(تاریخ مشائخ چشت صفحہ 147 تا 156)
خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے تحریر و تصنیف کے ذریعے بھی اِشاعتِ دین اور مخلوقِ خدا کی اِصلاح کا فریضہ سر اَنجام دیا ۔ آپ کی تصانیف میں اَنِیْسُ الاَرْوَاح ، کَشْفُ الاَسْرَار ، گَنْجُ الاَسْرَار اور دیوانِ مُعِیْن کا تذکرہ ملتا ہے ۔
خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ نے تحریر و تصنیف کے ذریعے بھی اِشاعتِ دین اور مخلوقِ خدا کی اِصلاح کا فریضہ سر اَنجام دیا ۔ آپ کی تصانیف میں اَنِیْسُ الاَرْوَاح ، کَشْفُ الاَسْرَار ، گَنْجُ الاَسْرَار اور دیوانِ مُعِیْن کا تذکرہ ملتا ہے ۔
(معین الہند حضرت خواجہ معین الدین اجمیری صفحہ 103،چشتی)
خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ نےتقریباً 45 سال سر زمینِ ہِند پر دینِ اِسْلام کی خدمت سَرْاَنْجَام دی اور ہِند کےظُلْمت کَدے میں اسلام کا اُجالا پھیلایا ۔ آپ کا وِصال 6 رجب627ھ کو اَجمیر شریف (راجِستھان ، ہند) میں ہوا اور یہیں مزارشریف بنا ۔ آج برِّ عظیم پاک و ہِند میں ایمان واسلام کی جو بہار نظر آرہی ہے اِس میں حضرت خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ کی سعی بے مثال کا بھی بہت بڑا حصہ ہے ۔
ملفوظات ، اولیاء و صالحین کے اس دلنشین کلام کو کہا جاتا ہے جو وہ تشنگانِ علم و عرفان کے سامنے اپنے گہرے مشاہدات و تجربات اور علوم و معارف لدنیہ کی روشنی میں پیش کرتے ہیں اور جن کے جمع کرنے کا اہتمام ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زبانِ گہربار سے جو موتی نکلے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شانِ عشق نے بڑے اہتمام کے ساتھ اسے ضبط فرمایا اور پوری امانت و دیانت کے ساتھ آنے والی نسلوں کے سپرد کیا ، ان موتیو ں کا نام اصطلاح شریعت میں ’حدیث‘ ہے جو قرآنِ حکیم کی علمی اور عملی تشریح بھی ہے اور اسلامی اصولوں میں سے قرآنِ حکیم کے بعد دوسری بڑی بنیاد بھی ، یعنی وہ بڑی بنیاد جس پر اسلام کی عمارت قائم ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد صحابہ کرام ، تابعین ، فقہائے کرام اور اولیاء کرام رضی اللہ عنہم نسلاً بعد نسل اسلام کی دعوت کو نئے نئے اسلوب کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے رہے ، ان کی پر اثر باتوں سے دلوں کا میل دھلتا رہا، اعمالِ حسنہ اور مضر رسوم و رواج کے درمیان تمیز قائم ہوتی رہی اور حق کی وضاحت کا عمل مسلسل جاری رہا، اولیا اللہ کی مختصر مگر دلنشین باتیں لوگوں میں حیران کن انقلاب برپا کرتی رہیں اور ان کی بدولت مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے تزکیہ نفوس میں بہت گہرے اور دور رس نتائج اور اثرات مرتب ہوئے اور یہ انہیں صاحبِ دل، صاحب علم و عمل، بوریا نشین،درویشانِ خدا مست کی باتوں کا اثر ہے کہ مرور زمانہ کے باوجود دین کی عملی و علمی شکل بالکل نکھری ہوئی ہے اور آج بھی اخلاص کے ساتھ عمل کرنے والے کیلئے دین حق پوری طرح واضح ہے، اولیاء اللہ کی انہیں دلنشین باتوں کا دوسرا نام ’ملفوظات‘ ہے ۔ ملفوظات کے اس لامتناہی اور طویل سلسلے کی اک اہم کڑی ہے ملفوظاتِ خواجہ الہند معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جو "دلیل العارفین” کے نام سے مشہور و معروف ہیں ۔
عظیم مبلغ اسلام اور جلیل القدر صوفی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے ایک نہایت اہم بزرگ ہیں ۔ آپ برِّصغیر پاک و ہند میں سلسلہَ چشت کے بانی تصور کئے جاتے ہیں اور ’سلطان الہند‘ اور ’غریب نواز‘ کے القاب سے مشہور ہیں ۔ آپ ہندوستان میں اسلام کے اولین مبلغین میں سے تھے اور آپ کی کاوشوں سے لاکھوں افراد دائرہَ اسلام میں داخل ہوئے ۔
ابوالحسن علی ندویدیوبندی لکھتا ہے : ہندوستان میں جو کچھ خدا کا نام لیا اور اسلام کا کام کیا گیاوہ سب چشتیوں اور ان کے مخلص اور عالی ہمت بانیِ سلسلہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے حسنات اور کارناموں میں شمارکئے جانے کے قابل ہے ۔ (تاریخ دعوت و عزیمت جلد ۳ صفحہ ۹۲)
نیز ابو الفضل اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’آئینِ اکبری‘ میں لکھتا ہے : [آپ] اجمیر میں عزلت گزیں ہوئے اور اسلام کا چراغ بڑی آب و تاب سے روشن کیا ، ان کے انفاسِ قدسیہ سے جوق در جوق انسانوں نے ایمان کی دولت پائی ۔
خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ نےتقریباً 45 سال سر زمینِ ہِند پر دینِ اِسْلام کی خدمت سَرْاَنْجَام دی اور ہِند کےظُلْمت کَدے میں اسلام کا اُجالا پھیلایا ۔ آپ کا وِصال 6 رجب627ھ کو اَجمیر شریف (راجِستھان ، ہند) میں ہوا اور یہیں مزارشریف بنا ۔ آج برِّ عظیم پاک و ہِند میں ایمان واسلام کی جو بہار نظر آرہی ہے اِس میں حضرت خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہ علیہ کی سعی بے مثال کا بھی بہت بڑا حصہ ہے ۔
ملفوظات ، اولیاء و صالحین کے اس دلنشین کلام کو کہا جاتا ہے جو وہ تشنگانِ علم و عرفان کے سامنے اپنے گہرے مشاہدات و تجربات اور علوم و معارف لدنیہ کی روشنی میں پیش کرتے ہیں اور جن کے جمع کرنے کا اہتمام ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زبانِ گہربار سے جو موتی نکلے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شانِ عشق نے بڑے اہتمام کے ساتھ اسے ضبط فرمایا اور پوری امانت و دیانت کے ساتھ آنے والی نسلوں کے سپرد کیا ، ان موتیو ں کا نام اصطلاح شریعت میں ’حدیث‘ ہے جو قرآنِ حکیم کی علمی اور عملی تشریح بھی ہے اور اسلامی اصولوں میں سے قرآنِ حکیم کے بعد دوسری بڑی بنیاد بھی ، یعنی وہ بڑی بنیاد جس پر اسلام کی عمارت قائم ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد صحابہ کرام ، تابعین ، فقہائے کرام اور اولیاء کرام رضی اللہ عنہم نسلاً بعد نسل اسلام کی دعوت کو نئے نئے اسلوب کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے رہے ، ان کی پر اثر باتوں سے دلوں کا میل دھلتا رہا، اعمالِ حسنہ اور مضر رسوم و رواج کے درمیان تمیز قائم ہوتی رہی اور حق کی وضاحت کا عمل مسلسل جاری رہا، اولیا اللہ کی مختصر مگر دلنشین باتیں لوگوں میں حیران کن انقلاب برپا کرتی رہیں اور ان کی بدولت مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے تزکیہ نفوس میں بہت گہرے اور دور رس نتائج اور اثرات مرتب ہوئے اور یہ انہیں صاحبِ دل، صاحب علم و عمل، بوریا نشین،درویشانِ خدا مست کی باتوں کا اثر ہے کہ مرور زمانہ کے باوجود دین کی عملی و علمی شکل بالکل نکھری ہوئی ہے اور آج بھی اخلاص کے ساتھ عمل کرنے والے کیلئے دین حق پوری طرح واضح ہے، اولیاء اللہ کی انہیں دلنشین باتوں کا دوسرا نام ’ملفوظات‘ ہے ۔ ملفوظات کے اس لامتناہی اور طویل سلسلے کی اک اہم کڑی ہے ملفوظاتِ خواجہ الہند معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جو "دلیل العارفین” کے نام سے مشہور و معروف ہیں ۔
عظیم مبلغ اسلام اور جلیل القدر صوفی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے ایک نہایت اہم بزرگ ہیں ۔ آپ برِّصغیر پاک و ہند میں سلسلہَ چشت کے بانی تصور کئے جاتے ہیں اور ’سلطان الہند‘ اور ’غریب نواز‘ کے القاب سے مشہور ہیں ۔ آپ ہندوستان میں اسلام کے اولین مبلغین میں سے تھے اور آپ کی کاوشوں سے لاکھوں افراد دائرہَ اسلام میں داخل ہوئے ۔
ابوالحسن علی ندویدیوبندی لکھتا ہے : ہندوستان میں جو کچھ خدا کا نام لیا اور اسلام کا کام کیا گیاوہ سب چشتیوں اور ان کے مخلص اور عالی ہمت بانیِ سلسلہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے حسنات اور کارناموں میں شمارکئے جانے کے قابل ہے ۔ (تاریخ دعوت و عزیمت جلد ۳ صفحہ ۹۲)
نیز ابو الفضل اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’آئینِ اکبری‘ میں لکھتا ہے : [آپ] اجمیر میں عزلت گزیں ہوئے اور اسلام کا چراغ بڑی آب و تاب سے روشن کیا ، ان کے انفاسِ قدسیہ سے جوق در جوق انسانوں نے ایمان کی دولت پائی ۔
(بحوالہ تاریخ دعوت و عزیمت جلد۳:۰۳)
تبلیغِ اسلام کے مشن کے دوران آپ نے لمبے لمبے سفر کئے،آپ کے پیروں میں سوجن اور چھالے پڑگئے ۔ آپ نے تزکیہ نفس، اصلاح اخلاق اور روحانی تربیت کا مرکز اپنی خانقاہ کو بنایا اور اسلامی معاشرے کو مستحکم اور مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی انتھک کاوشیں کیں ۔ آپ نے اہل ہند کی زبان سیکھ کر اسے ابلاغ کا ذریعہ بنایا اور یوں لسانی عصبیت پر ضرب کاری لگائی ۔ (شرح دیوانِ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری : محمد علی چراغ : صفحہ ٣٠،چشتی)
اپنے روحانی کمالات اور علمی و اخلاقی طریقہَ تبلیغ سے آپ نے شمشیرِ کردار سے دلوں کو فتح کیا اور اقلیم ولایت کے ’سلطان‘ تسلیم ہوئے ۔ اپنی مومنانہ بصیرت و اعلیٰ اخلاق سے آپ لوگوں کو سادہ اور سیدھی نصیحتیں کرنے لگے اور اپنی اصلاحی مجالس سے دعوتِ دین کا کام کرنے لگے ۔ آپ نے دعوت الی اللہ کے کام کو قرآن مجید کے علم و حکمت اور تزکیہ و تصفیہ پر مبنی منہج پرچلانے کا عزم کیا اور اخلاص و امید سے اپنے کام کا آغاز کیا ۔ آپ نے دعوت و اصلاح کے کام کو قرآنی خطوط پر چلانے کی مخلص کوشش کی ، ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعلی کا یہ فرمان ہمیشہ ان کے زیرِ نظر رہا ہے : اُدعُ اِلیٰ سَبِیلِ رَبِّکَ بِا الحِکمَۃِ وَالمَوعِظَۃِ الحَسَنَۃِ وَجَا دِلھُم بِا الَّتِی ھِیَ اَحسَنُ ط ۔ (۶۱:۵۲) ۔ ترجمہ: آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث بھی ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو ۔
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے لیے حسین طرزِ تبلیغ کا انتخاب کیا جس میں علم و حکمت بھی ہے اور حسنِ کردار بھی، دلائل کی جولانی بھی اور روحانی اُبھار بھی ۔ ان ہی جیسے نفیس گلوں سے ان کے ملفوظات کا چمن بھی سر سبز و شاداب ہے ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کےملفوظات کو دلیل العارفین کے نام سے ان کے مریدِ خاص اور علمی و روحانی جانشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اوشی رحمۃ اللہ علیہ نے مرتب فرمایا اور راہِ سلوک کے مسافروں پر احسانِ عظیم فرمایا ۔ دلیل العارفین حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی بارہ علمی و عرفانی مختصر مجالس پر مشتمل ہے جن کو مرتِب نے چارقسموں میں منقسم فرمایا ہے،فقر و صواب،مکتوبات و تسبیح،اوراد و وظائف اور فوائدِ سلوک ۔
اپنی پہلی مجلس کا آغاز ہی حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ اس سہانی گھڑی کے تذکرہ سے کرتے ہیں جب انکی حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بیعت ہوئی جو ان کی زندگی کو ایک نئے رخ کی طرف لے گئی ۔ اپنے آپ کو حضرت خواجہ کے غلاموں میں سے ایک غلام کے طور پر پیش کرتے ہوئے وہ انکی قدم بوسی اور انکی مجالس میں شرکت کو اپنے لئے سرمایہَ افتخار قرار دیتے ہیں ۔ اس سے یہ صوفانہ اصول نکھر کر سامنے آتا ہے کہ احترام و تعظیم مرشد کے بغیر سالک ایک قدم بھی آ گے نہیں بڑھ سکتایوں نسبتِ شیخ سے دل کے اندھیروں میں علم و عرفان کا چراغ ضوفشانی کرتا ہے ۔ اسی مجلسِ اول میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ ایک جملہ بیان فرماتے ہیں جو اسلامی تصوف کا زریں اصول تصور کیا جاتا ہے ، آپ فرماتے ہیں : جو شخص اللہ تعلی کا فرض بجا نہیں لاتا، وہ کبھی اللہ تعلی کے حقوق سے عہدہ برآنہیں ہو سکتا۔
تبلیغِ اسلام کے مشن کے دوران آپ نے لمبے لمبے سفر کئے،آپ کے پیروں میں سوجن اور چھالے پڑگئے ۔ آپ نے تزکیہ نفس، اصلاح اخلاق اور روحانی تربیت کا مرکز اپنی خانقاہ کو بنایا اور اسلامی معاشرے کو مستحکم اور مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی انتھک کاوشیں کیں ۔ آپ نے اہل ہند کی زبان سیکھ کر اسے ابلاغ کا ذریعہ بنایا اور یوں لسانی عصبیت پر ضرب کاری لگائی ۔ (شرح دیوانِ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری : محمد علی چراغ : صفحہ ٣٠،چشتی)
اپنے روحانی کمالات اور علمی و اخلاقی طریقہَ تبلیغ سے آپ نے شمشیرِ کردار سے دلوں کو فتح کیا اور اقلیم ولایت کے ’سلطان‘ تسلیم ہوئے ۔ اپنی مومنانہ بصیرت و اعلیٰ اخلاق سے آپ لوگوں کو سادہ اور سیدھی نصیحتیں کرنے لگے اور اپنی اصلاحی مجالس سے دعوتِ دین کا کام کرنے لگے ۔ آپ نے دعوت الی اللہ کے کام کو قرآن مجید کے علم و حکمت اور تزکیہ و تصفیہ پر مبنی منہج پرچلانے کا عزم کیا اور اخلاص و امید سے اپنے کام کا آغاز کیا ۔ آپ نے دعوت و اصلاح کے کام کو قرآنی خطوط پر چلانے کی مخلص کوشش کی ، ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعلی کا یہ فرمان ہمیشہ ان کے زیرِ نظر رہا ہے : اُدعُ اِلیٰ سَبِیلِ رَبِّکَ بِا الحِکمَۃِ وَالمَوعِظَۃِ الحَسَنَۃِ وَجَا دِلھُم بِا الَّتِی ھِیَ اَحسَنُ ط ۔ (۶۱:۵۲) ۔ ترجمہ: آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث بھی ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو ۔
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے لیے حسین طرزِ تبلیغ کا انتخاب کیا جس میں علم و حکمت بھی ہے اور حسنِ کردار بھی، دلائل کی جولانی بھی اور روحانی اُبھار بھی ۔ ان ہی جیسے نفیس گلوں سے ان کے ملفوظات کا چمن بھی سر سبز و شاداب ہے ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کےملفوظات کو دلیل العارفین کے نام سے ان کے مریدِ خاص اور علمی و روحانی جانشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اوشی رحمۃ اللہ علیہ نے مرتب فرمایا اور راہِ سلوک کے مسافروں پر احسانِ عظیم فرمایا ۔ دلیل العارفین حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی بارہ علمی و عرفانی مختصر مجالس پر مشتمل ہے جن کو مرتِب نے چارقسموں میں منقسم فرمایا ہے،فقر و صواب،مکتوبات و تسبیح،اوراد و وظائف اور فوائدِ سلوک ۔
اپنی پہلی مجلس کا آغاز ہی حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ اس سہانی گھڑی کے تذکرہ سے کرتے ہیں جب انکی حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بیعت ہوئی جو ان کی زندگی کو ایک نئے رخ کی طرف لے گئی ۔ اپنے آپ کو حضرت خواجہ کے غلاموں میں سے ایک غلام کے طور پر پیش کرتے ہوئے وہ انکی قدم بوسی اور انکی مجالس میں شرکت کو اپنے لئے سرمایہَ افتخار قرار دیتے ہیں ۔ اس سے یہ صوفانہ اصول نکھر کر سامنے آتا ہے کہ احترام و تعظیم مرشد کے بغیر سالک ایک قدم بھی آ گے نہیں بڑھ سکتایوں نسبتِ شیخ سے دل کے اندھیروں میں علم و عرفان کا چراغ ضوفشانی کرتا ہے ۔ اسی مجلسِ اول میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ ایک جملہ بیان فرماتے ہیں جو اسلامی تصوف کا زریں اصول تصور کیا جاتا ہے ، آپ فرماتے ہیں : جو شخص اللہ تعلی کا فرض بجا نہیں لاتا، وہ کبھی اللہ تعلی کے حقوق سے عہدہ برآنہیں ہو سکتا۔
اور جو شخص سنّت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ادا نہیں کرتا اور تجاوز کرتا ہے وہ شفاعتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بے بہرہ رہے گا ۔۔۔ جس نے کچھ پایا ہے خدمت سے پایا ہے ۔ پس مرید کو لازم ہے کہ پیر کے فرمان سے ذرہ برابر بھی تجاوز نہ کرے۔۔۔شریعت میں ثابت قدم ہو جانے کے بعد دوسرا مرتبہ طریقت ہے ۔ طریقت میں شریعت کے امور بجا لانے کے بعد درجہ معرفت ہے، تو شناخت اور سنائی کا مقام آجاتا ہے، اس مقام پر ثابت قدم ہو جانے کے بعد درجہ حقیقت ہے ۔ یہ وہ مرتبہ ہے کہ جہاں پر جو طلب کیا جاتا ہے وہ پا لیا جاتا ہے ۔ (دلیل العارفین صفحہ ۵،۶،۹،چشتی)
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے ان سنہرے الفاظ سے ایک طرف تو ہم دور حاضر کے کئی فتنوں سے نپٹ سکتے ہیں تو دوسری طرف یہ نتائج اخذ کر سکتے ہیں : ⬇
۱ ۔ اللہ تعلی کی ذات کو مرکز و محور تصور کرتے ہوئے اسکی بندگی و معرفت کے شعور کو پیدا کرنا سالک کا مقصدِ حیات ہے ۔
۲ ۔ خدا تک رسائی واسطہَ رسالت کے بغیر نا ممکن ہے اور خدا کی عبادت و بندگی وہی قابلِ قبول ہے جو سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مطابق ہے ۔
۳ ۔ سنّت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تجاوز کرنا ، حد سے بڑھ جانا افراط و تفریط کے راستہ پر ڈال دیتا ہے جو سالک کو شفاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے محروم کر دیتی ہے ۔
۴ ۔ شریعت کی پابندی کے بغیر نہ تو طریقت تک پہنچاجا سکتا ہے اور نہ ہی حقیقت تک ۔
۵ ۔ راہِ سلوک پر قدم قدم پر بھٹکنے اور گمراہ ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے لہذا ایک پابندِ شریعت مرشدکی صحبت ناگزیر ہے اور اس رہبری و رہنمائی کے بغیر حقیقت تک پہنچنا ناممکن ہے ۔
جہاں تک دور حاضر کا تعلق ہے ، ہم خدا پرستی کی جگہ مادہ پرستی، اعتدال کی جگہ افراط و تفریط اور امن کی جگہ خون خرابے کو پروان چڑھتا دیکھتے ہیں ۔ دور حاضر کا انسان اپنی مادی ضروریات و خواہشات کو پورا کرنے میں اپنی زندگی کھپا دیتا ہے اور یوں بے سکونی اور مایوسی کی دلدل میں پھنس کر رہ جاتا ہے ۔ جب ہم آج اپنے سماج پر نظر ڈالتے ہیں تو اکابر کے سلوک و تصوّف کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا بلکہ اس کے برعکس نفس پرستی، قبر پرستی ، رسم پرستی اور پیر پرستی کے ایک طوفان کو دیکھتے ہیں جس نے صوفیانہ اخلاق و اقدار کو دیمک کی طرح چاٹ کر رکھ دیا ہے اور تصوف کو پیسے بٹورنے اور اپنا کاروبار چمکانے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ جن اکابر نے خود پسندی کو فنا کر کے خداشناسی کو اپنا حرز جان بنانے کی تلقین کی تھی، آج ان اشخاص کو دیومالائی کردار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور ان کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کردین و شریعت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے ۔ کہیں پر تقویٰ و طھارت کا، کہیں پر نماز و وظائف کا، کہیں پر انفاق و صوم کا اور کہیں پر حجِ بیت اللہ کا مذاق اڈایا جاتا ہے ۔ حضرت خواجہ معین الدّین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ملفوضات میں تصوف کو ہمیشہ قرآن و سنّت کے تابع رکھنے کی وکالت کرتے ہیں اور جاہل صوفیوں اور مکاروں سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ آپ علماء اور صوفیاء کے طبقات کو ایک دوسرے سے الگ اور متوازی نہیں سمجھتے بلکہ دونوں سے استفادہ کرنا ناگزیر سمجھتے ہیں ۔ چونکہ دلیل العارفین کی دوسری اور تیسری مجلس میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ طھارت اور نماز کے فضائل و مسائل کو موضوعِ سخن بناتے ہیں اور دعوتِ علم و عمل دیتے ہیں تاکہ پروردگار عالم کی خوشنودی حاصل ہو ۔ ساتویں مجلس میں سورہ فاتحہ اور قرآنِ مجید کے فضائل و اسرار پر روشنی ڈالتے ہیں اور قرآن مجید اور دیگر اورادو وظائف کو اپنا حرزِ جان بنانے کی نصیحت کرتے ہیں ۔ نہ صرف وہ عبادات کے باطنی اسرار و رموز پر گفتگو کرتے ہیں بلکہ فقہی اور علمی نکات بھی ساتھ ساتھ بیان کر تے ہیں ۔
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ تصوف کو خدا پرستی اور خدمتِ خلق کا سنگھم قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک سب سے اعلیٰ عبادت، طاعت کی صورت میں یہ تھی کہ مصیبت زدہ لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیا جائے، بے یارو مددگار لوگوں کی ضروریات پوری کی جائیں اور بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے کیونکہ یہی قرآنی تعلیمات ہیں ۔ محمد علی چراغ حضرت خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں رقمطراز ہیں : آپ اپنے مریدوں کو یہ تعلیم دیتے تھے، کہ وہ اپنے اندر دریا کی سی فیاضی،سورج جیسی گرم جوشی اور ز میں جیسی مہمان نوازی پیدا کریں۔
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے ان سنہرے الفاظ سے ایک طرف تو ہم دور حاضر کے کئی فتنوں سے نپٹ سکتے ہیں تو دوسری طرف یہ نتائج اخذ کر سکتے ہیں : ⬇
۱ ۔ اللہ تعلی کی ذات کو مرکز و محور تصور کرتے ہوئے اسکی بندگی و معرفت کے شعور کو پیدا کرنا سالک کا مقصدِ حیات ہے ۔
۲ ۔ خدا تک رسائی واسطہَ رسالت کے بغیر نا ممکن ہے اور خدا کی عبادت و بندگی وہی قابلِ قبول ہے جو سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مطابق ہے ۔
۳ ۔ سنّت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تجاوز کرنا ، حد سے بڑھ جانا افراط و تفریط کے راستہ پر ڈال دیتا ہے جو سالک کو شفاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے محروم کر دیتی ہے ۔
۴ ۔ شریعت کی پابندی کے بغیر نہ تو طریقت تک پہنچاجا سکتا ہے اور نہ ہی حقیقت تک ۔
۵ ۔ راہِ سلوک پر قدم قدم پر بھٹکنے اور گمراہ ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے لہذا ایک پابندِ شریعت مرشدکی صحبت ناگزیر ہے اور اس رہبری و رہنمائی کے بغیر حقیقت تک پہنچنا ناممکن ہے ۔
جہاں تک دور حاضر کا تعلق ہے ، ہم خدا پرستی کی جگہ مادہ پرستی، اعتدال کی جگہ افراط و تفریط اور امن کی جگہ خون خرابے کو پروان چڑھتا دیکھتے ہیں ۔ دور حاضر کا انسان اپنی مادی ضروریات و خواہشات کو پورا کرنے میں اپنی زندگی کھپا دیتا ہے اور یوں بے سکونی اور مایوسی کی دلدل میں پھنس کر رہ جاتا ہے ۔ جب ہم آج اپنے سماج پر نظر ڈالتے ہیں تو اکابر کے سلوک و تصوّف کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا بلکہ اس کے برعکس نفس پرستی، قبر پرستی ، رسم پرستی اور پیر پرستی کے ایک طوفان کو دیکھتے ہیں جس نے صوفیانہ اخلاق و اقدار کو دیمک کی طرح چاٹ کر رکھ دیا ہے اور تصوف کو پیسے بٹورنے اور اپنا کاروبار چمکانے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ جن اکابر نے خود پسندی کو فنا کر کے خداشناسی کو اپنا حرز جان بنانے کی تلقین کی تھی، آج ان اشخاص کو دیومالائی کردار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور ان کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کردین و شریعت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے ۔ کہیں پر تقویٰ و طھارت کا، کہیں پر نماز و وظائف کا، کہیں پر انفاق و صوم کا اور کہیں پر حجِ بیت اللہ کا مذاق اڈایا جاتا ہے ۔ حضرت خواجہ معین الدّین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ملفوضات میں تصوف کو ہمیشہ قرآن و سنّت کے تابع رکھنے کی وکالت کرتے ہیں اور جاہل صوفیوں اور مکاروں سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ آپ علماء اور صوفیاء کے طبقات کو ایک دوسرے سے الگ اور متوازی نہیں سمجھتے بلکہ دونوں سے استفادہ کرنا ناگزیر سمجھتے ہیں ۔ چونکہ دلیل العارفین کی دوسری اور تیسری مجلس میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ طھارت اور نماز کے فضائل و مسائل کو موضوعِ سخن بناتے ہیں اور دعوتِ علم و عمل دیتے ہیں تاکہ پروردگار عالم کی خوشنودی حاصل ہو ۔ ساتویں مجلس میں سورہ فاتحہ اور قرآنِ مجید کے فضائل و اسرار پر روشنی ڈالتے ہیں اور قرآن مجید اور دیگر اورادو وظائف کو اپنا حرزِ جان بنانے کی نصیحت کرتے ہیں ۔ نہ صرف وہ عبادات کے باطنی اسرار و رموز پر گفتگو کرتے ہیں بلکہ فقہی اور علمی نکات بھی ساتھ ساتھ بیان کر تے ہیں ۔
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ تصوف کو خدا پرستی اور خدمتِ خلق کا سنگھم قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک سب سے اعلیٰ عبادت، طاعت کی صورت میں یہ تھی کہ مصیبت زدہ لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیا جائے، بے یارو مددگار لوگوں کی ضروریات پوری کی جائیں اور بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے کیونکہ یہی قرآنی تعلیمات ہیں ۔ محمد علی چراغ حضرت خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں رقمطراز ہیں : آپ اپنے مریدوں کو یہ تعلیم دیتے تھے، کہ وہ اپنے اندر دریا کی سی فیاضی،سورج جیسی گرم جوشی اور ز میں جیسی مہمان نوازی پیدا کریں۔
(شرح دیوانِ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری;231;: صفحہ ۶۳،چشتی)
ان کی نظر میں خدا کو پہچاننے والا وہی ہے جو دنیا اور اسکے فریبوں سے خود کو بچا کر طاعتِ خالق میں لگ جائے،حضرت خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : محبت کے چار معنی ہیں :ذکر ِ اللہ میں جی جان سے خوش رہنا، ذکرِ اللہ کو ہی بڑا جاننا ، (طمعِ دنیا سے ) قطع تعلق کرنا،اپنی اور جو کچھ بھی اسکے سوا ہے سب کی حالت پہ رونا، جیسا کہ قرآنِ مجید میں آیا ہے:
ان کی نظر میں خدا کو پہچاننے والا وہی ہے جو دنیا اور اسکے فریبوں سے خود کو بچا کر طاعتِ خالق میں لگ جائے،حضرت خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : محبت کے چار معنی ہیں :ذکر ِ اللہ میں جی جان سے خوش رہنا، ذکرِ اللہ کو ہی بڑا جاننا ، (طمعِ دنیا سے ) قطع تعلق کرنا،اپنی اور جو کچھ بھی اسکے سوا ہے سب کی حالت پہ رونا، جیسا کہ قرآنِ مجید میں آیا ہے:
قُل اِن کَانَ اٰباء کُم وَ اَ بنَا ءَ کُم وَ اِخوَانکُم وَ اَزوَاجکُم ۔ ۔ ۔ الخ ۔
(توبہ : ۴۲)
ترجمہ : آپ فرما دیں : اگرتمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں اور تمہارے رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جن کو تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ ) اور محبوں کی صفت یہ ہے کہ ان کی محبت ایثار بن جائے، اس کے بعد چار منزلیں طے کریں :محبت، علم ،حیا اور تعظیم ۔ محبت میں سچا وہی ہے جو والدین اور خویش و اقرباء کے بجائے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تعلق پیدا کرے، پس محبت کرنے والا وہ شخص ہے جو کلامِ الٰہی کے حکم پر چلے اور اللہ کے ساتھ محبت کے دعوے میں سچا ہو ۔ ۔ ۔ اللہ کی دوستی اس بات سے پیدا ہوتی ہے کہ جن چیزوں کو اللہ دشمن جانتا ہے ان چیزوں سے دشمنی کی جائے یعنی دنیا اور نفس ۔ (دلیل العارفین صفحہ ۳۴)
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد کو سامنے رکھا جائے تو شائد ہی آج و لایت کے اَ ن گنت دعوے داروں میں ہمیں آسانی سے کوئی ولی اللہ نظر آئے ۔ ان کی نظر میں تصوف دنیا و مافیہا اور نفسانی خواہشات کو ترک کرنے کا نام ہے کیونکہ ایک سچا طالب صرف اللہ کا طلب گار ہوتا ہے اور کسی دوسری طلب سے وہ مانوس نہیں ہوتا ۔ دیکھا جائے تو دور حاضرکا انسان طلبِ دنیا ، ہوائے نفس اور خود پسندی کا اسیر ہے اور یہی نہ صرف اس کے خدا سے دور ہونے کی وجہ ہے بلکہ اس کے سکونِ قلب کے حاصل نہ ہونے کا سبب بھی ۔ آخر میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ رحمہ کی حیات اور ان کے پیغام کو ان کے اس قول میں سمیٹا جا سکتا ہے : عارف آفتاب کی طرح روشن ہوتا ہے ، (اپنی روشنی کسی سے اخذ نہیں کرتا) سارے جہاں کو روشنی بخشتا ہے اور جس کی روشنی سے کوئی چیز خالی نہیں رہتی ۔ (دلیل العارفین صفحہ ۸۴)
ترجمہ : آپ فرما دیں : اگرتمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں اور تمہارے رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جن کو تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ ) اور محبوں کی صفت یہ ہے کہ ان کی محبت ایثار بن جائے، اس کے بعد چار منزلیں طے کریں :محبت، علم ،حیا اور تعظیم ۔ محبت میں سچا وہی ہے جو والدین اور خویش و اقرباء کے بجائے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تعلق پیدا کرے، پس محبت کرنے والا وہ شخص ہے جو کلامِ الٰہی کے حکم پر چلے اور اللہ کے ساتھ محبت کے دعوے میں سچا ہو ۔ ۔ ۔ اللہ کی دوستی اس بات سے پیدا ہوتی ہے کہ جن چیزوں کو اللہ دشمن جانتا ہے ان چیزوں سے دشمنی کی جائے یعنی دنیا اور نفس ۔ (دلیل العارفین صفحہ ۳۴)
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد کو سامنے رکھا جائے تو شائد ہی آج و لایت کے اَ ن گنت دعوے داروں میں ہمیں آسانی سے کوئی ولی اللہ نظر آئے ۔ ان کی نظر میں تصوف دنیا و مافیہا اور نفسانی خواہشات کو ترک کرنے کا نام ہے کیونکہ ایک سچا طالب صرف اللہ کا طلب گار ہوتا ہے اور کسی دوسری طلب سے وہ مانوس نہیں ہوتا ۔ دیکھا جائے تو دور حاضرکا انسان طلبِ دنیا ، ہوائے نفس اور خود پسندی کا اسیر ہے اور یہی نہ صرف اس کے خدا سے دور ہونے کی وجہ ہے بلکہ اس کے سکونِ قلب کے حاصل نہ ہونے کا سبب بھی ۔ آخر میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ رحمہ کی حیات اور ان کے پیغام کو ان کے اس قول میں سمیٹا جا سکتا ہے : عارف آفتاب کی طرح روشن ہوتا ہے ، (اپنی روشنی کسی سے اخذ نہیں کرتا) سارے جہاں کو روشنی بخشتا ہے اور جس کی روشنی سے کوئی چیز خالی نہیں رہتی ۔ (دلیل العارفین صفحہ ۸۴)
(مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
طالب دعا و دعا گو
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوراں حضرت علامہ مولانا مفتی
ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی