قسط اول
قربانی کا نصاب
(1) جو شخص حوائج اصلیہ کے علاؤہ ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا کا مالک ہو یا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دوسو درہم ہو وہ مالک نصاب ہے اور اس پر قربانی واجب
(2) ساڑھے باون تولے چاندی کے متعلق جدید اوزان میں دو قول ہے ایک قول کہ جس کے پاس چاندی ساڑھے باون تولے کا جدید وزن 653 گرام 184 ملی گرام اور ساڑھے سات تولے سونے 93 گرام 312 ملی گرام ہے وہ صاحب نصاب ہے
(3) حاجت سے مراد رہنے کا مکان ۔خانہ داری کے سامان جن کی حاجت ہو ۔سواری کا جانور ۔خادم اور پہننے کے کپڑے ہیں ۔ان کے سوا جو چیزیں ہوں وہ حاجت سے زائد ہیں
(4) جو شخص مالک نصاب ہے مگر اس کے ذمہ قرض اتنا ہے کہ ادا کردیا تو نصاب نہیں باقی رہتی تو اس پر قربانی واجب نہیں اور اگر دین مجرا کرنے کے بعد نصاب باقی رہتی ہے تو واجب ہے
(5) حاجت اصلیہ کے علاوہ ہر وہ سامان مثلا کرایہ پر چلنے والی گاڑیاں ۔کرایہ والے فلیٹ ۔زمین ۔مارکیٹ وغیرہ قربانی و صدقہ فطر کے نصاب میں داخل ہیں ۔اگر صرف ایک کی یا دوسرے کے ساتھ ملا کر قیمت مقدار نصاب ہوجایے تو اس پر قربانی واجب ہے یعنی قربانی واجب ہے جب کہ وہ مکان تنہا یا اس کے اور مال سے کہ حاجت اصلیہ سے زائد ہو مل کر چھپن روپئے یعنی چاندی 653 گرام 184 ملی گرام کی قیمت کو پہونچیں اگرچہ وہ مکان کرایہ پر چلاتا ہو یا خالی پڑے ہوں یا سادی زمین ہو
(6) کسی کے رہنے کا مکان اتنا بڑا ہو کہ اس کا ایک حصہ اس کے جاڑے اور گرمی میں سکونت کے لئے کافی ہو اور دوسرا حصہ حاجت سے زائد ہو اور اس کی قیمت تنہا یا اسی قسم کے مال سے مل کر نصاب تک پہونچ جائے تو اس پر قربانی واجب ہے
(7) اگر کسی کے پاس زمین ہے اور اس کی آمدنی سے صرف اتنا حاصل ہوتا ہے کہ اس کا خرچ پورا ہوجاتا ہے یا اس سے بھی کم حاصل ہوتا ہے تو اس پر قربانی و صدقہ فطر واجب نہیں لیکن اگر اس کے پاس کسی طرح اتنی آمدنی ہوتی ہے کہ سال پھر کا خرچ پورا ہوجاتا ہے اور ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر مال عید الاضحی یا عید الفطر کے موقع پر موجود بھی ہے تو اس پر قربانی و صدقہ فطر واجب ہے
(8) کسی عورت کے پاس اوپر لکھے ہوئے نصاب کی مقدار زیورات ہیں تو اس پر قربانی واجب ہے اور قربانی کرنے کے لئے اس کے پاس روپئے نہیں تو قرض لے کر قربانی کرے ۔یا کچھ سامان بیچ کر
(9) کسی شخص کے روپئے بینک یا ڈاک خانہ میں فیکسڈ ہیں یا لائف انشورنش میں جمع ہیں یا کسی کو قرض دیا ہے یا پی ۔ایف کی شکل میں گورنمنٹ کے کھاتہ میں جمع ہے تو اگر وہ روپئے نصاب کے مقدار کو پہنچ جائیں۔ تو ہر سال قربانی واجب ہے ۔اگر قربانی کرنے کے لئے نقد روپئے نہیں تو قرض لے کر کرے ۔یا اپنا مال بیچ کر کرے
قربانی کے جانور
(10) قربانی کے بکرا کی عمر سال بھر ہونا ضروری ہے دانت کا نکلنا یا دانتا ہونا ضروری نہیں اگر بکرا سال بھر کامل کا ہو یعنی ایک دن بھی کم نہ ہو اور اسے دانت نہ نکلے ہو اس کی قربانی جائز ہے
(11) گائے کی عمر دو سال یا زائد کی ہوجائے اور اگرچہ سنگ نہ نکلے ہوں قربانی جائز ہے
(12) قربانی اگر منت کی ہے تو اس کا گوشت نہ خود کھاسکتا نہ اغنیاء کو کھاسکتا ہے بلکہ سارا گوشت صدقہ کردینا واجب ہے۔ منت ماننے والا فقیر ہو یا غنی دونوں کا ایک ہی حکم ہے
(13) غنی نے قربانی کی منت مانی تو اس پر دو قربانیاں واجب ہیں ایک وہ جو عنی پر کامل نصاب کی وجہ سے واجب ہوتی ہے اور ایک منت کی وجہ سے
(14) قربانی کا گوشت غنی ۔فقیر ۔مسلمان اور ذمی کافر کو دینا جائز ہے
(15) حربی کافر جو آج کل ہندوستان میں ہے اسے قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ہے
(16) ہاں اگر کافر نوکر ہے یا خادم ہے تو اس کو دو صورتوں سے قربانی کا گوشت دینا جائز ہے ایک یہ کہ اس کو اجرت میں دیا جائے یعنی ایک کلو گوشت کی قیمت چھ سو تو یہ گوشت لو اور تمہاری تنخواہ سے کاٹ لونگا اور چھ دوسری صورت یہ ہے کہ کافر خادم کو بطور انعام دے تاکہ اس کے کا دل خوش ہوجایے اداس نہ ہو اور اگر وہ رات دن مالک ہی کے گھر میں کھاتا تو اسے کھلانا بھی جائز ہے
(17):قربانی کا گوشت اپنے گھر پکاکر بھی کافر حربی یعنی ہندو کو یا ہندو افسروں کو کھلانا جائز نہیں لیکن کوئی کھلاتا ہے تو اس کی قربانی پر کوئی اثر نہیں ہوگی یعنی قربانی پہلے تو ہوچکی ہے اس لئے قربانی ہوجایے گی
(18) آج کل یہ بھی مسئلہ مشہور ہے کہ کیا ذابح کرنے والے کا سر یا گوری پر حق ہے تو مسئلہ صحیح یہی کہ کوئی حق نہیں ہے قصائی یا ذابح کو اجرت میں دینا جائز نہیں ہے مگر قربانی والے سب مل کر بطور ہدیہ دے دے تو جائز ہے کہ اب یہ اجرت نہیں ہے بلکہ ہدیہ ہے
(19)ذبح کرنے والے امام صاحب کو ذبح کرائی میں کچھ نقدی روپئے دے دے اور سریا کچھ گوشت یا پایا ان کو سب مل کر اپنی طرف سے ہدیہ میں دے دے یہ جائز ہے کہ یہ اجرت نہیں بلکہ ہدیہ ہے اب وہ امام صاحب ان سب کے مالک ہوگئے خود کھائے یا دوسرےکو دے دے یا کوئی مانگتا اسے دے دے اب وہ سر لینے والا کچھ ہدیہ بھی دیا تو کوئی حرج نہیں کہ اب امام صاحب کی وہ ذاتی ملکیت ہے خیال رہے کہ امام صاحب کو یا کس قصائی کو قربانی کا کوئی حصہ اجرت میں دینا یا چمڑا یا گوشت قصاب کی اجرت میں طے کرنا حرام ہے
(20) غریب نے قربانی کی نیت سے جانور رکھا یا خریدا۔ تو اس پر خاص اسی جانور کی قربانی واجب ہے ۔اس جانور کو دوسرے جانور سے بدل نہیں سکتا ۔نہ ہی اس کو بیچنا جائز ہے ۔اگر بیچ دیا تو سخت گناہ کیا ۔اس پر ضروری ہے کہ پورا پیسہ خدا کی راہ میں خیرات کرے
(21).غیر مالک نصاب نے قربانی کے لئے گائے خریدی تو خریدنے سے ہی اس پر اس گائے کی قربانی واجب ہوگئی ۔اب دوسرے کو شریک نہیں کرسکتا ۔ہاں قربانی کے دنوں میں یا پہلے سے قربانی کرنے والوں کے لئے خرید وفروخت کے لئے خریدتا ہے تو یہ جائز ہے اور نفع لے کر بھی بیچ سکتا ہے لیکن اگر غریب یعنی غیر نصاب نے صرف اپنی قربانی کے لئے جانور خریدا تو اس پر اسی جانور کی قربانی واجب ہے
(22) قربانی اگر فقیر نے کی ہو تو اس کا گوشت کسی کافر کو دینا جائز نہیں ۔اگر دے گا تو اتنے گوشت کا تاوان دینا لازم آئے گا
(23) کسی شخص نے اپنے ماں باپ کے نام سے قربانی کی تو وہ قربانی صحیح ہے ۔لیکن اگر وہ شخص خود مالک نصاب ہے تو اسے اپنے نام سے بھی قربانی کرنی واجب ہے ۔نہیں کیا تو گنہگار ہوگا ۔
(24) جس پر قربانی واجب ہے اس کو خود اپنے نام سے قربانی کرنی چاہئے ۔لڑکے یا زوجہ یا کسی ولی بزرگ کی طرف سے کرے گا تو واجب ساقط نہ ہوگا ۔اپنے نام سے قربانی کرنے کے بعد جتنی قربانیاں کرے گا حرج نہیں ۔مگر واجب کو ادا نہ کرنا اور دوسروں کی طرف سے نفل ادا کرنا بہت بڑی غلطی ہے ۔پھر بھی دوسروں کی طرف سے قربانی ہوگئی
(25) اس مسئلہ پر خاص دھیان دینا ہے کہ قربانی کرنے والا ذبح کرتے وقت کم سے کم تین رگیں کاٹے یا تین رگیں کٹنے سے پہلے ہی چاقو چھوڑدے پھر قصاب یا کوئی دوسرا شخص اس چاقو کو لے لیا اب امام صاحب سے چاقو کے لے کر خود ذبح کرے تو تو اس قصائی یا دوسرے پر بھی بسم اللہ اللہ اکبر کہنا واجب ہے کیونکہ یہ بھی ذابح کا معین ہے اگر قصائی یا دوسرا شخص بغیر بسم اللہ اللہ اکبر پڑھے تو قربانی جائز نہیں ہوگی اس مسئلہ پر خوب۔ دھیان دیں کیونکہ مشاہدہ ہے کہ وہ قصائی فورا چاقو امام صاحب سے لے لیتا ہے اور بغیر بسم اللہ اللہ اکبر کہے باقی گردن میں چاقو لگا کر ذبح کرتا تو قربانی نہیں ہوگی
(26) مرد ہو یا عورت قربانی صحیح ہونے کے لئے صرف اس کا نام لینا کافی ہے باپ ۔ماں یا شوہر کا نام لینا ضروری نہیں بلکہ قربانی جس کی طرف سے کرنی ہے اس کا نام لیا جائے تب بھی قربانی ہوجایے گی ۔اس لئے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ قربانی کس کی طرف سے ہے
(27) انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام و دیگر اموات مسلمین کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے ۔اس کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسرے کو بھی کھلا سکتا ہے
(یہ تمام مسائل فتاویٰ مفتی اعظم بہار جلد اول سے ماخذ اور رسالہ مسائل قربانی سے ہے)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
قربانی کا نصاب
(1) جو شخص حوائج اصلیہ کے علاؤہ ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا کا مالک ہو یا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دوسو درہم ہو وہ مالک نصاب ہے اور اس پر قربانی واجب
(2) ساڑھے باون تولے چاندی کے متعلق جدید اوزان میں دو قول ہے ایک قول کہ جس کے پاس چاندی ساڑھے باون تولے کا جدید وزن 653 گرام 184 ملی گرام اور ساڑھے سات تولے سونے 93 گرام 312 ملی گرام ہے وہ صاحب نصاب ہے
(3) حاجت سے مراد رہنے کا مکان ۔خانہ داری کے سامان جن کی حاجت ہو ۔سواری کا جانور ۔خادم اور پہننے کے کپڑے ہیں ۔ان کے سوا جو چیزیں ہوں وہ حاجت سے زائد ہیں
(4) جو شخص مالک نصاب ہے مگر اس کے ذمہ قرض اتنا ہے کہ ادا کردیا تو نصاب نہیں باقی رہتی تو اس پر قربانی واجب نہیں اور اگر دین مجرا کرنے کے بعد نصاب باقی رہتی ہے تو واجب ہے
(5) حاجت اصلیہ کے علاوہ ہر وہ سامان مثلا کرایہ پر چلنے والی گاڑیاں ۔کرایہ والے فلیٹ ۔زمین ۔مارکیٹ وغیرہ قربانی و صدقہ فطر کے نصاب میں داخل ہیں ۔اگر صرف ایک کی یا دوسرے کے ساتھ ملا کر قیمت مقدار نصاب ہوجایے تو اس پر قربانی واجب ہے یعنی قربانی واجب ہے جب کہ وہ مکان تنہا یا اس کے اور مال سے کہ حاجت اصلیہ سے زائد ہو مل کر چھپن روپئے یعنی چاندی 653 گرام 184 ملی گرام کی قیمت کو پہونچیں اگرچہ وہ مکان کرایہ پر چلاتا ہو یا خالی پڑے ہوں یا سادی زمین ہو
(6) کسی کے رہنے کا مکان اتنا بڑا ہو کہ اس کا ایک حصہ اس کے جاڑے اور گرمی میں سکونت کے لئے کافی ہو اور دوسرا حصہ حاجت سے زائد ہو اور اس کی قیمت تنہا یا اسی قسم کے مال سے مل کر نصاب تک پہونچ جائے تو اس پر قربانی واجب ہے
(7) اگر کسی کے پاس زمین ہے اور اس کی آمدنی سے صرف اتنا حاصل ہوتا ہے کہ اس کا خرچ پورا ہوجاتا ہے یا اس سے بھی کم حاصل ہوتا ہے تو اس پر قربانی و صدقہ فطر واجب نہیں لیکن اگر اس کے پاس کسی طرح اتنی آمدنی ہوتی ہے کہ سال پھر کا خرچ پورا ہوجاتا ہے اور ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر مال عید الاضحی یا عید الفطر کے موقع پر موجود بھی ہے تو اس پر قربانی و صدقہ فطر واجب ہے
(8) کسی عورت کے پاس اوپر لکھے ہوئے نصاب کی مقدار زیورات ہیں تو اس پر قربانی واجب ہے اور قربانی کرنے کے لئے اس کے پاس روپئے نہیں تو قرض لے کر قربانی کرے ۔یا کچھ سامان بیچ کر
(9) کسی شخص کے روپئے بینک یا ڈاک خانہ میں فیکسڈ ہیں یا لائف انشورنش میں جمع ہیں یا کسی کو قرض دیا ہے یا پی ۔ایف کی شکل میں گورنمنٹ کے کھاتہ میں جمع ہے تو اگر وہ روپئے نصاب کے مقدار کو پہنچ جائیں۔ تو ہر سال قربانی واجب ہے ۔اگر قربانی کرنے کے لئے نقد روپئے نہیں تو قرض لے کر کرے ۔یا اپنا مال بیچ کر کرے
قربانی کے جانور
(10) قربانی کے بکرا کی عمر سال بھر ہونا ضروری ہے دانت کا نکلنا یا دانتا ہونا ضروری نہیں اگر بکرا سال بھر کامل کا ہو یعنی ایک دن بھی کم نہ ہو اور اسے دانت نہ نکلے ہو اس کی قربانی جائز ہے
(11) گائے کی عمر دو سال یا زائد کی ہوجائے اور اگرچہ سنگ نہ نکلے ہوں قربانی جائز ہے
(12) قربانی اگر منت کی ہے تو اس کا گوشت نہ خود کھاسکتا نہ اغنیاء کو کھاسکتا ہے بلکہ سارا گوشت صدقہ کردینا واجب ہے۔ منت ماننے والا فقیر ہو یا غنی دونوں کا ایک ہی حکم ہے
(13) غنی نے قربانی کی منت مانی تو اس پر دو قربانیاں واجب ہیں ایک وہ جو عنی پر کامل نصاب کی وجہ سے واجب ہوتی ہے اور ایک منت کی وجہ سے
(14) قربانی کا گوشت غنی ۔فقیر ۔مسلمان اور ذمی کافر کو دینا جائز ہے
(15) حربی کافر جو آج کل ہندوستان میں ہے اسے قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ہے
(16) ہاں اگر کافر نوکر ہے یا خادم ہے تو اس کو دو صورتوں سے قربانی کا گوشت دینا جائز ہے ایک یہ کہ اس کو اجرت میں دیا جائے یعنی ایک کلو گوشت کی قیمت چھ سو تو یہ گوشت لو اور تمہاری تنخواہ سے کاٹ لونگا اور چھ دوسری صورت یہ ہے کہ کافر خادم کو بطور انعام دے تاکہ اس کے کا دل خوش ہوجایے اداس نہ ہو اور اگر وہ رات دن مالک ہی کے گھر میں کھاتا تو اسے کھلانا بھی جائز ہے
(17):قربانی کا گوشت اپنے گھر پکاکر بھی کافر حربی یعنی ہندو کو یا ہندو افسروں کو کھلانا جائز نہیں لیکن کوئی کھلاتا ہے تو اس کی قربانی پر کوئی اثر نہیں ہوگی یعنی قربانی پہلے تو ہوچکی ہے اس لئے قربانی ہوجایے گی
(18) آج کل یہ بھی مسئلہ مشہور ہے کہ کیا ذابح کرنے والے کا سر یا گوری پر حق ہے تو مسئلہ صحیح یہی کہ کوئی حق نہیں ہے قصائی یا ذابح کو اجرت میں دینا جائز نہیں ہے مگر قربانی والے سب مل کر بطور ہدیہ دے دے تو جائز ہے کہ اب یہ اجرت نہیں ہے بلکہ ہدیہ ہے
(19)ذبح کرنے والے امام صاحب کو ذبح کرائی میں کچھ نقدی روپئے دے دے اور سریا کچھ گوشت یا پایا ان کو سب مل کر اپنی طرف سے ہدیہ میں دے دے یہ جائز ہے کہ یہ اجرت نہیں بلکہ ہدیہ ہے اب وہ امام صاحب ان سب کے مالک ہوگئے خود کھائے یا دوسرےکو دے دے یا کوئی مانگتا اسے دے دے اب وہ سر لینے والا کچھ ہدیہ بھی دیا تو کوئی حرج نہیں کہ اب امام صاحب کی وہ ذاتی ملکیت ہے خیال رہے کہ امام صاحب کو یا کس قصائی کو قربانی کا کوئی حصہ اجرت میں دینا یا چمڑا یا گوشت قصاب کی اجرت میں طے کرنا حرام ہے
(20) غریب نے قربانی کی نیت سے جانور رکھا یا خریدا۔ تو اس پر خاص اسی جانور کی قربانی واجب ہے ۔اس جانور کو دوسرے جانور سے بدل نہیں سکتا ۔نہ ہی اس کو بیچنا جائز ہے ۔اگر بیچ دیا تو سخت گناہ کیا ۔اس پر ضروری ہے کہ پورا پیسہ خدا کی راہ میں خیرات کرے
(21).غیر مالک نصاب نے قربانی کے لئے گائے خریدی تو خریدنے سے ہی اس پر اس گائے کی قربانی واجب ہوگئی ۔اب دوسرے کو شریک نہیں کرسکتا ۔ہاں قربانی کے دنوں میں یا پہلے سے قربانی کرنے والوں کے لئے خرید وفروخت کے لئے خریدتا ہے تو یہ جائز ہے اور نفع لے کر بھی بیچ سکتا ہے لیکن اگر غریب یعنی غیر نصاب نے صرف اپنی قربانی کے لئے جانور خریدا تو اس پر اسی جانور کی قربانی واجب ہے
(22) قربانی اگر فقیر نے کی ہو تو اس کا گوشت کسی کافر کو دینا جائز نہیں ۔اگر دے گا تو اتنے گوشت کا تاوان دینا لازم آئے گا
(23) کسی شخص نے اپنے ماں باپ کے نام سے قربانی کی تو وہ قربانی صحیح ہے ۔لیکن اگر وہ شخص خود مالک نصاب ہے تو اسے اپنے نام سے بھی قربانی کرنی واجب ہے ۔نہیں کیا تو گنہگار ہوگا ۔
(24) جس پر قربانی واجب ہے اس کو خود اپنے نام سے قربانی کرنی چاہئے ۔لڑکے یا زوجہ یا کسی ولی بزرگ کی طرف سے کرے گا تو واجب ساقط نہ ہوگا ۔اپنے نام سے قربانی کرنے کے بعد جتنی قربانیاں کرے گا حرج نہیں ۔مگر واجب کو ادا نہ کرنا اور دوسروں کی طرف سے نفل ادا کرنا بہت بڑی غلطی ہے ۔پھر بھی دوسروں کی طرف سے قربانی ہوگئی
(25) اس مسئلہ پر خاص دھیان دینا ہے کہ قربانی کرنے والا ذبح کرتے وقت کم سے کم تین رگیں کاٹے یا تین رگیں کٹنے سے پہلے ہی چاقو چھوڑدے پھر قصاب یا کوئی دوسرا شخص اس چاقو کو لے لیا اب امام صاحب سے چاقو کے لے کر خود ذبح کرے تو تو اس قصائی یا دوسرے پر بھی بسم اللہ اللہ اکبر کہنا واجب ہے کیونکہ یہ بھی ذابح کا معین ہے اگر قصائی یا دوسرا شخص بغیر بسم اللہ اللہ اکبر پڑھے تو قربانی جائز نہیں ہوگی اس مسئلہ پر خوب۔ دھیان دیں کیونکہ مشاہدہ ہے کہ وہ قصائی فورا چاقو امام صاحب سے لے لیتا ہے اور بغیر بسم اللہ اللہ اکبر کہے باقی گردن میں چاقو لگا کر ذبح کرتا تو قربانی نہیں ہوگی
(26) مرد ہو یا عورت قربانی صحیح ہونے کے لئے صرف اس کا نام لینا کافی ہے باپ ۔ماں یا شوہر کا نام لینا ضروری نہیں بلکہ قربانی جس کی طرف سے کرنی ہے اس کا نام لیا جائے تب بھی قربانی ہوجایے گی ۔اس لئے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ قربانی کس کی طرف سے ہے
(27) انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام و دیگر اموات مسلمین کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے ۔اس کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسرے کو بھی کھلا سکتا ہے
(یہ تمام مسائل فتاویٰ مفتی اعظم بہار جلد اول سے ماخذ اور رسالہ مسائل قربانی سے ہے)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ 4 ذوالحجہ 1444
مطابق 23 جون 2023
ازقلم:-حضور مصباح ملت مفتی اعظم بہار حضرت مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی۔
ترسیل:- محمد محب اللہ خاں ڈائریکٹر مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک سیتامڑھی
اسمائے اراکین مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آذاد چوک سیتا مڑھی بہار۔
اور اسمائے اراکین تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی مرپا شریف
سرپرست: حضور توصیف ملت حضور تاج السنہ شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان صاحب قادری بریلوی مدظلہ العالی۔
صدر رکن اکیڈمی تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی
شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی اعظم مہاراشٹر حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی ثنائی صاحب میرا روڈ ممبئی۔
(2) رکن خصوصی۔
مورخہ 4 ذوالحجہ 1444
مطابق 23 جون 2023
ازقلم:-حضور مصباح ملت مفتی اعظم بہار حضرت مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی۔
ترسیل:- محمد محب اللہ خاں ڈائریکٹر مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک سیتامڑھی
اسمائے اراکین مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آذاد چوک سیتا مڑھی بہار۔
اور اسمائے اراکین تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی مرپا شریف
سرپرست: حضور توصیف ملت حضور تاج السنہ شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان صاحب قادری بریلوی مدظلہ العالی۔
صدر رکن اکیڈمی تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی
شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی اعظم مہاراشٹر حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی ثنائی صاحب میرا روڈ ممبئی۔
(2) رکن خصوصی۔
شیخ طریقت ماہر علم و حکمت حضرت علامہ مفتی اہل سنت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شمس الحق رضوی ثنائی کھوٹونہ نیپال۔
(3) رکن خصوصی۔
جامع معقولاٹ و منقولات ماہر درسیات حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ قادری بریلوی شریف
(4) ناشر مسلک اعلیٰ حضرت عالم علم و حکمت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قمر الزماں یار علوی ثنائی بانی دارالعلوم ملک العلماء گونڈی ممبئی۔
(5) حضرت سراج العلماء مفتی محمد سراج احمد مصباحی ممبئی۔
(6) ساحر البیان عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ مولانا محمد فیضان رضا علیمی صاحب گنگٹی۔
(7) رکن سراج ملت حضرت مفتی عبد الغفار خاں نوری مرپاوی سیتا مڑھی بہار۔
(8) پابند شرع متین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد علی زین اللہ خاں ثنائی صدر دارالافتاء شاخ حضور مفتی اعظم بہار۔
نیتاجی نگر گھاٹکرپر مشرق ممبئی 77 مہاراشٹر۔
(9) عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ مفتی محمد جیند عالم شارق بیتاہی امام جامع مسجد کوئلی سیتامڑھی۔
(10) ناصر قوم و ملت حضرت علامہ مولانا محمد صلاح الدین مخلص ایٹہروی کنہولی۔
(11) استاذ الحفاظ ممتاز القراء حضرت قاری غلام رسول نیر غزالی بانی رضا دارالقرات کچور۔
(12) حضرت مولانا محمد سلیم الدین ثنائی کوئلی مدرس اکڈنڈی سیتامڑھی۔
(13) خطیب ہند و نیپال حضرت علامہ مولانا محمد توقیر رضا صاحب کھوٹونوی نیپال
(14) ماہر عملیات و تعویذات ہمدرد قوم و ملت حضرت علامہ مولانا
محمد عثمان احمد قادری اشرفی رضوی برکاتی
مقام برکاتی نگر گھور گھورا ضلع سیتامڑھی بہار
(15) شاعر اسلام مداح رسول کائنات ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا محمد شمیم انجم نیپالی موہن پور نیپال۔
(16) مقرر عالی شان ۔خطیب ہند و نیپال ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا محمد قطب الدین صاحب شمیمی ثنائی صاحب بانی فیضان مفتی اعظم بہار گروپ نیپال
خطیب و امام موہن ہور نیپال۔
(17) سچا عاشق مسلک سیدی اعلی حضرت بےمثال خطیب حضرت علامہ مولانا محمد اویس رضا قادری مینا پور شیوہر۔
(18) عامل تعویزات متقی شریعت حضرت علامہ مولانا غلام مصطفی ثنائی مرپا
(19) شاعر اسلام مداح رسول الثقلین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد غلام رسول احمد ضیاء مرغیاچک۔
(20) ناشر سلسلہ ثنائیہ حضرت مولانا جہانگیر صاحب ثنائی خطیب و امام پلسی نیپال۔
(21) ناشر مسلک اعلی حضرت عظیم البرکت حضرت علامہ مولانا محمد عالم نوری مرغیاچک سیتا مڑھی۔
(3) رکن خصوصی۔
جامع معقولاٹ و منقولات ماہر درسیات حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ قادری بریلوی شریف
(4) ناشر مسلک اعلیٰ حضرت عالم علم و حکمت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قمر الزماں یار علوی ثنائی بانی دارالعلوم ملک العلماء گونڈی ممبئی۔
(5) حضرت سراج العلماء مفتی محمد سراج احمد مصباحی ممبئی۔
(6) ساحر البیان عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ مولانا محمد فیضان رضا علیمی صاحب گنگٹی۔
(7) رکن سراج ملت حضرت مفتی عبد الغفار خاں نوری مرپاوی سیتا مڑھی بہار۔
(8) پابند شرع متین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد علی زین اللہ خاں ثنائی صدر دارالافتاء شاخ حضور مفتی اعظم بہار۔
نیتاجی نگر گھاٹکرپر مشرق ممبئی 77 مہاراشٹر۔
(9) عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ مفتی محمد جیند عالم شارق بیتاہی امام جامع مسجد کوئلی سیتامڑھی۔
(10) ناصر قوم و ملت حضرت علامہ مولانا محمد صلاح الدین مخلص ایٹہروی کنہولی۔
(11) استاذ الحفاظ ممتاز القراء حضرت قاری غلام رسول نیر غزالی بانی رضا دارالقرات کچور۔
(12) حضرت مولانا محمد سلیم الدین ثنائی کوئلی مدرس اکڈنڈی سیتامڑھی۔
(13) خطیب ہند و نیپال حضرت علامہ مولانا محمد توقیر رضا صاحب کھوٹونوی نیپال
(14) ماہر عملیات و تعویذات ہمدرد قوم و ملت حضرت علامہ مولانا
محمد عثمان احمد قادری اشرفی رضوی برکاتی
مقام برکاتی نگر گھور گھورا ضلع سیتامڑھی بہار
(15) شاعر اسلام مداح رسول کائنات ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا محمد شمیم انجم نیپالی موہن پور نیپال۔
(16) مقرر عالی شان ۔خطیب ہند و نیپال ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا محمد قطب الدین صاحب شمیمی ثنائی صاحب بانی فیضان مفتی اعظم بہار گروپ نیپال
خطیب و امام موہن ہور نیپال۔
(17) سچا عاشق مسلک سیدی اعلی حضرت بےمثال خطیب حضرت علامہ مولانا محمد اویس رضا قادری مینا پور شیوہر۔
(18) عامل تعویزات متقی شریعت حضرت علامہ مولانا غلام مصطفی ثنائی مرپا
(19) شاعر اسلام مداح رسول الثقلین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد غلام رسول احمد ضیاء مرغیاچک۔
(20) ناشر سلسلہ ثنائیہ حضرت مولانا جہانگیر صاحب ثنائی خطیب و امام پلسی نیپال۔
(21) ناشر مسلک اعلی حضرت عظیم البرکت حضرت علامہ مولانا محمد عالم نوری مرغیاچک سیتا مڑھی۔