مسلمانوں کو منافق کہنا کیسا ہے؟
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے الشاہ حضور مفتی اعظم بہار دامت برکاتہم القدسیہ
اس مسئلہ کے بارے میں کہ دوران تقریر امام صاحب نے کہا کہ اس محلہ کے سارے لوگ منافق ہیں ایسے امام کی اقتدا میں نماز درست ہے کہ نہیں برائے کرم جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- منھاج القادری رضوی سیتا مڑھی بہار
کیا فرماتے الشاہ حضور مفتی اعظم بہار دامت برکاتہم القدسیہ
اس مسئلہ کے بارے میں کہ دوران تقریر امام صاحب نے کہا کہ اس محلہ کے سارے لوگ منافق ہیں ایسے امام کی اقتدا میں نماز درست ہے کہ نہیں برائے کرم جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- منھاج القادری رضوی سیتا مڑھی بہار
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
فصل اول
فصل اول
محلے کے سارے صحیح العقیدہ مسلمان غیر فاسق و فاجر منافق نہیں ہوسکتے اس لئے سارے محلہ والے کو منافق کہنا شرعا جائز نہیں ہے وہ توبہ کرے اور آئندہ اس جیسے الفاظ نکالنے سے پرہیز کریں
حدیث میں ہے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ایۃ المنافق ثلث اذا احدث کذب و اذا وعدا خلف واذا اتمن خان یعنی منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔جب بات کرے جھوٹ کہے ۔اور جب وعدہ کرے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔
حدیث میں ہے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ایۃ المنافق ثلث اذا احدث کذب و اذا وعدا خلف واذا اتمن خان یعنی منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔جب بات کرے جھوٹ کہے ۔اور جب وعدہ کرے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔
(صحیح بخاری شریف،جلد اول کتاب الایمان)
جس میں یہ علامتیں ہوں وہ منافق ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ محلے کے سارے سنی صحیح العقیدہ مسلمان میں یہ تمام علامتیں ہوں لہذا تمام مسلمان کو منافق کہنا جائز نہیں ہے
۔حضور بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
نفاق کی دو قسمیں ہیں
(1) نفاق اعتقادی
(2) نفاق عملی
آج کل کسی کو منافق نہیں کہ سکتے۔ کیونکہ ہمارے پاس دلوں کا حال جاننے کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے دل میں چھپے ہوئے کفر کا پتہ چلایا جائے۔ آج کل تو مسلمان ہوگا یا کافر
بخاری شریف میں ہے کہ ۔جس میں چار باتیں ہوں وہ منافق خالص ہے ۔اگر اس میں کوئی ایک بات ہو تو اس میں ایک علامت منافقت کی ہے ۔وہ چار باتیں یہ ہیں
(1) جب اس کی یہاں امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرے
(2) اور بات کرے تو جھوٹ بولے
(3) اور وعدہ کرے تو پورا نہ کرے
(4) اور جھگڑا کرے تو گالی گلوج پر اتر آئے ۔
جس میں یہ علامتیں ہوں وہ منافق ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ محلے کے سارے سنی صحیح العقیدہ مسلمان میں یہ تمام علامتیں ہوں لہذا تمام مسلمان کو منافق کہنا جائز نہیں ہے
۔حضور بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
نفاق کی دو قسمیں ہیں
(1) نفاق اعتقادی
(2) نفاق عملی
آج کل کسی کو منافق نہیں کہ سکتے۔ کیونکہ ہمارے پاس دلوں کا حال جاننے کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے دل میں چھپے ہوئے کفر کا پتہ چلایا جائے۔ آج کل تو مسلمان ہوگا یا کافر
بخاری شریف میں ہے کہ ۔جس میں چار باتیں ہوں وہ منافق خالص ہے ۔اگر اس میں کوئی ایک بات ہو تو اس میں ایک علامت منافقت کی ہے ۔وہ چار باتیں یہ ہیں
(1) جب اس کی یہاں امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرے
(2) اور بات کرے تو جھوٹ بولے
(3) اور وعدہ کرے تو پورا نہ کرے
(4) اور جھگڑا کرے تو گالی گلوج پر اتر آئے ۔
(فتاویٰ بحرالعلوم جلد پنجم ص 299)
امام صاحب کو یہ بات نہیں کہنی چایئے
امام صاحب کی اگر یہ عادت ہے تو وہ بدزبان اور فحش گو ہے آج کل کسی کو منافق کہنا گناہ ہے کیونکہ ابھی کے دور میں نفاق اعتقادی کسی مسلم میں نہیں ہے اور جو مسلمان کو بے سبب گالی بکے گنہگار اور فاسق ہے حدیث شریف میں ہے سباب المسلم فاسوق یعنی مسلمان کو گالی دینا فسق ہے
امام صاحب کو یہ بات نہیں کہنی چایئے
امام صاحب کی اگر یہ عادت ہے تو وہ بدزبان اور فحش گو ہے آج کل کسی کو منافق کہنا گناہ ہے کیونکہ ابھی کے دور میں نفاق اعتقادی کسی مسلم میں نہیں ہے اور جو مسلمان کو بے سبب گالی بکے گنہگار اور فاسق ہے حدیث شریف میں ہے سباب المسلم فاسوق یعنی مسلمان کو گالی دینا فسق ہے
(مسند احمد جلد 1 ص 439)
امام صاحب نے پورے محلہ والے کو منافق کہا ان کو خیال ہونا چاہئے کہ ہر چالیس مومن میں ایک اللہ کا ولی ہوتے ہیں
علماء فرماتے ہیں جہاں چالیس مسلمان صالح جمع ہوتے ہیں ان میں ایک ولی اللہ ضرور ہوتا ہے
حدیث میں ہے
اذا شھدت امۃ من الامم وھم اربعون فصاعدا اجاز اللہ تعالیٰ شھادتھم۔
امام صاحب نے پورے محلہ والے کو منافق کہا ان کو خیال ہونا چاہئے کہ ہر چالیس مومن میں ایک اللہ کا ولی ہوتے ہیں
علماء فرماتے ہیں جہاں چالیس مسلمان صالح جمع ہوتے ہیں ان میں ایک ولی اللہ ضرور ہوتا ہے
حدیث میں ہے
اذا شھدت امۃ من الامم وھم اربعون فصاعدا اجاز اللہ تعالیٰ شھادتھم۔
یعنی جب کوئی جماعت حاضر ہو اور چالیس افراد یا اس سے زیادہ ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کو جائز قرار دیتا ہے
تیسیر شرح جامع صغیر میں فرمایا ۔
قیل و حکمۃ الاربعین انہ لم یجتمع ھذا العدد الاوفیھم ولی۔
تیسیر شرح جامع صغیر میں فرمایا ۔
قیل و حکمۃ الاربعین انہ لم یجتمع ھذا العدد الاوفیھم ولی۔
کہا گیا ہے کہ چالیس کے عدد میں حکمت یہ ہے کہ یہ تعداد کبھی پوری نہیں ہوتی بجز اس کے کہ ان میں کوئی نہ کوئی ولی ضرور ہوتا ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 24 ص 184.185)
۔پورے محلہ والے منافق ہوہی نہیں سکتے امام صاحب نے محلہ کے تمام سنی مسلمانوں کو منافق کہا امام صاحب کو کوئی حق نہیں پہو نچتا ہے کہ تمام محلے والے کو منافق کہ کر دل دکھائیں قرآن شریف میں ہے کہ
۔پورے محلہ والے منافق ہوہی نہیں سکتے امام صاحب نے محلہ کے تمام سنی مسلمانوں کو منافق کہا امام صاحب کو کوئی حق نہیں پہو نچتا ہے کہ تمام محلے والے کو منافق کہ کر دل دکھائیں قرآن شریف میں ہے کہ
یاایھا الذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم عسی ان یکونوا خیرا منھم ولا نساء من نساء عسی ان یکن خیرا منھن ولا تلمزوا انفسکم ولا تنابزوا با لالقاب بشس الاسم الفسوق (الحجرات ۔11)
یعنی اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسے۔عجب نہیں کہ وہ ہنسنے والوں سے بہتر ہو نہ عورتیں عورتوں سے ہنسیں ۔۔دور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے اچھی ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو برا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلاتا ۔۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لیس المؤمن بالطعن واللعان۔والفاحش۔والبذی۔
یعنی مومن لعنت کرنے والا فحش گو اور پھوہڑ بکنے والا نہیں ۔
فتاویٰ بحرالعلوم میں ہے کہ جس میں کوئی ایسا عیب ہے ۔جس سے اسے شرم لاحق ہوتی ہے تو اس کا صریح لفظ سے ذکر کرنا جیسے برص۔گنج۔بواسیر فحش میں داخل ہے ۔اس تشریح کی روشنی میں جاہل کو بھی جاہل کہنا فحش گوئی میں داخل ہے۔
فتاویٰ بحرالعلوم میں ہے کہ جس میں کوئی ایسا عیب ہے ۔جس سے اسے شرم لاحق ہوتی ہے تو اس کا صریح لفظ سے ذکر کرنا جیسے برص۔گنج۔بواسیر فحش میں داخل ہے ۔اس تشریح کی روشنی میں جاہل کو بھی جاہل کہنا فحش گوئی میں داخل ہے۔
(جلد چہارم ص 147)
محلہ کے سب لوگوں کو منافق کہنا شرعا جائز نہیں ہے کیونکہ منافق کی تعظیم جائز نہیں اور محلہ میں سب مسلمان قابل اہانت نہیں ہوسکتے۔
سارے محلے والے کو منافق کہنا جائز نہیں ہے کیونکہ کسی
منافق کو اچھے القاب سے بلانا جائز نہیں ہے اگر سارے محلہ والے منافق ہے تو کوئی ایک بھی قابل تعظیم نہیں اور کسی کو اچھا کہنا جائز نہ ہوگا
حدیث شریف میں ہے
اذا قال الرجل للمنافق یا سید فقد اغضب ربہ
محلہ کے سب لوگوں کو منافق کہنا شرعا جائز نہیں ہے کیونکہ منافق کی تعظیم جائز نہیں اور محلہ میں سب مسلمان قابل اہانت نہیں ہوسکتے۔
سارے محلے والے کو منافق کہنا جائز نہیں ہے کیونکہ کسی
منافق کو اچھے القاب سے بلانا جائز نہیں ہے اگر سارے محلہ والے منافق ہے تو کوئی ایک بھی قابل تعظیم نہیں اور کسی کو اچھا کہنا جائز نہ ہوگا
حدیث شریف میں ہے
اذا قال الرجل للمنافق یا سید فقد اغضب ربہ
یعنی جب کسی آدمی نے منافق سے کہا : اے میرے سردار ! تو اس نے اپنے رب کریم کو غضب ناک کرلیا۔
(مجموعہ احادیث الترغیب والترھیب جلد اول مترجم ص 413)
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
لاتقولوا للمنافق سید فانہ ان یک سیدا فقد اسخطتم ربکم عزوجل۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
لاتقولوا للمنافق سید فانہ ان یک سیدا فقد اسخطتم ربکم عزوجل۔
یعنی منافق کو سید (اے میرے اقا۔اے میرے سردار ۔اے میرے مالک وغیرہ الفاظ جس سے اس کی تعظیم ظاہر ہو) مت کہو کیونکہ اگر وہ سید ہو (اگر تم نے اسے سید یا معظم و محترم کہا) تو تونے اپنے رب عزوجل کو ناراض کردیا۔
(الترغیب والترھیب جلد اول ص 413 مترجم)
ہاں اس سے مراد بدعتی و فاسق و فاجر مراد ہے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ کافر ۔مرتد ۔گمراہ بد مذہب ۔ منافق ۔بدعتی ۔فاسق و فاجر قابل احترام نہیں ہوسکتا ہے کہ احترام تو ایمان ۔تقوی ۔پرہیزگاری اور خوف خدا کا ہوتا ہے اور یہ ان میں پایا نہیں جاتا مگر
پورے محلہ میں سب مسلمان نہ منافق اعتقادی ہوگا اور نہ سب منافق عملی ہوگا اس لئے
پورے محلہ کے سنی صحیح العقیدہ متقی و پرہیز گار نمازی اور غیر فاسق کو منافق کہنا جائز نہیں ہے وہ اس بولی پر توبہ کرے کہ ہر آدمی اپنی بات میں گرفتار ہے
حدیث شریف میں گستاخ علماء کو منافق کہا گیا ہے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ فرماتے ہیں
لا یستخف بحقھم آلا منافق
ہاں اس سے مراد بدعتی و فاسق و فاجر مراد ہے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ کافر ۔مرتد ۔گمراہ بد مذہب ۔ منافق ۔بدعتی ۔فاسق و فاجر قابل احترام نہیں ہوسکتا ہے کہ احترام تو ایمان ۔تقوی ۔پرہیزگاری اور خوف خدا کا ہوتا ہے اور یہ ان میں پایا نہیں جاتا مگر
پورے محلہ میں سب مسلمان نہ منافق اعتقادی ہوگا اور نہ سب منافق عملی ہوگا اس لئے
پورے محلہ کے سنی صحیح العقیدہ متقی و پرہیز گار نمازی اور غیر فاسق کو منافق کہنا جائز نہیں ہے وہ اس بولی پر توبہ کرے کہ ہر آدمی اپنی بات میں گرفتار ہے
حدیث شریف میں گستاخ علماء کو منافق کہا گیا ہے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ فرماتے ہیں
لا یستخف بحقھم آلا منافق
ترجمہ علماء کو ہلکا نہ جانے گا مگرنافق ۔
(المعجم الکبیر حدیث 7819,جلد 8 ص 238)
دوسری حدیث میں ہے کہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ۔
لایستخف بحقھم آلا منافق بین النفاق۔
دوسری حدیث میں ہے کہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ۔
لایستخف بحقھم آلا منافق بین النفاق۔
(ترجمعہ) ان کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھلا منافق۔
(کنزالعمال حدیث 43811 جلد 16 ص 32)
منافق کس قدر بے قدر ہے کہ جو علماء کے حق کو ان کی عزت کو ہلکا جانتا ہے اسے حدیث میں منافق کہا گیا ہے
مسلمان کی ناحق ایذا شرعاً حرام ہے۔
حضور سیدی مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بلا وجہ شرعی کسی مسلمان کو ایسے الفاظ سے یاد کرنا مسلمان کو ناحق ایذا دینا ہے اور مسلمان کی ناحق ایذا شرعاً حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : من اذی مسلما فقد اذانی و من اذانی فقد اذی اللہ۔
منافق کس قدر بے قدر ہے کہ جو علماء کے حق کو ان کی عزت کو ہلکا جانتا ہے اسے حدیث میں منافق کہا گیا ہے
مسلمان کی ناحق ایذا شرعاً حرام ہے۔
حضور سیدی مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بلا وجہ شرعی کسی مسلمان کو ایسے الفاظ سے یاد کرنا مسلمان کو ناحق ایذا دینا ہے اور مسلمان کی ناحق ایذا شرعاً حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : من اذی مسلما فقد اذانی و من اذانی فقد اذی اللہ۔
یعنی جس نے بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے اذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ عزوجل کو ایذا دی ۔(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 199)
اس پورے محلہ میں ضعیف اشخاص اور نیک بھی ہوں گے ویسے تمام مسلمانوں کے ساتھ حسن ظن رکھنا ضروری ہے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اس پورے محلہ میں ضعیف اشخاص اور نیک بھی ہوں گے ویسے تمام مسلمانوں کے ساتھ حسن ظن رکھنا ضروری ہے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
تین شخص ہیں جن کا حق ہلکا نہ جانے گا مگر منافق ۔ایک اسلام میں بڑھاپے والا۔دوسرا عالم تیسرا بادشاہ اسلام ۔
بلا وجہ کسی مسلمان کو سخت و سست کہنا حرام ہے
حضور سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ : بلا وجہ کسی مسلمان کو سخت و سست کہنا حرام ہے نہ کہ سید نہ کہ عالم نہ کہ اپنا مرشد زادہ
مسلمانوں کو بلاوجہ شرعی مردود و ابلیس کہنا سخت حرام ہے۔
حضور سیدی امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: مسلمانوں کو بلاوجہ شرعی مردود ابلیس کہنا سخت حرام ہے ۔
مسلمان کو گالی دینا گناہ کبیرہ۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی آللہ تعالیٰ عنھما سے مرفوعا روایت ہے : فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
سباب المسلم کالمشرف علی الھلکۃ۔
بلا وجہ کسی مسلمان کو سخت و سست کہنا حرام ہے
حضور سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ : بلا وجہ کسی مسلمان کو سخت و سست کہنا حرام ہے نہ کہ سید نہ کہ عالم نہ کہ اپنا مرشد زادہ
مسلمانوں کو بلاوجہ شرعی مردود و ابلیس کہنا سخت حرام ہے۔
حضور سیدی امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: مسلمانوں کو بلاوجہ شرعی مردود ابلیس کہنا سخت حرام ہے ۔
مسلمان کو گالی دینا گناہ کبیرہ۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی آللہ تعالیٰ عنھما سے مرفوعا روایت ہے : فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
سباب المسلم کالمشرف علی الھلکۃ۔
یعنی مسلمان کو گالی دینا خود کو تباہی میں ڈالنے کے قریب کرنا (الترغیب والترہیب جلد اول ص 357 اسے بزاز نے جید اسناد کے ساتھ روایت کیا)
دیکھوں:مسلمان کو شیطان کہنا جائز نہیں ہے مگر گالی دینے والے کو حدیث میں شیطان کہا گیا کتنی کم نصیبی کی بات ہے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
المتسابان شیطانان یتھاتران ویتکاذبان۔
دیکھوں:مسلمان کو شیطان کہنا جائز نہیں ہے مگر گالی دینے والے کو حدیث میں شیطان کہا گیا کتنی کم نصیبی کی بات ہے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
المتسابان شیطانان یتھاتران ویتکاذبان۔
یعنی ایک دوسرے کو گالی دینے والے دونوں آدمی شیطان ہیں ۔اپس میں بری باتیں کہتے ہیں اور ایک دوسرے پر جھوٹے بہتان لگاتے ہیں (اسے ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا)
امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ۔کسی مسلمان جاہل کو بھی بے اذن شرعی گالی دینا حرام قطعی ہے ۔مسلمان کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے۔
امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ۔کسی مسلمان جاہل کو بھی بے اذن شرعی گالی دینا حرام قطعی ہے ۔مسلمان کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص 51)
مسلمان کی تحقیر حرام ہے۔
سرکار سیدی امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کی بھی تحقیر حرام قطعی ہے۔
مسلمان کی تحقیر حرام ہے۔
سرکار سیدی امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کی بھی تحقیر حرام قطعی ہے۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص 51)
عالم کو گالی دینا
حضور مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔اگر عالم کو اس لئے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے ۔اور اگر بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دنیوی خصومت کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا ہے تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق فاجر ہے اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مریض القلب خبیث الباطن ہے اور اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔
عالم کو گالی دینا
حضور مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔اگر عالم کو اس لئے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے ۔اور اگر بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دنیوی خصومت کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا ہے تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق فاجر ہے اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مریض القلب خبیث الباطن ہے اور اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص 51)
اور خلاصہ کے حوالے سے فتاوی رضویہ میں ہے کہ
من البغض عالما من غیر سبب ظاھر خیف علیہ الکفر
اور خلاصہ کے حوالے سے فتاوی رضویہ میں ہے کہ
من البغض عالما من غیر سبب ظاھر خیف علیہ الکفر
جو کسی عالم سے بغیر سبب ظاہری کے عداوت رکھتا ہے اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 22 ص 129)
مومن صالح کو شیطان کہنا شیطان کا کام ہے۔
ہم سب کے امام سیدی اعلی حضرت قدس سرہ العزیز فرماتے فرماتے ہیں کہ: مومن صالح کو شیطان کہنا شیطان کا کام ہے۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 203.204)
جب کسی مسلمان کو سخت و سست کہنا مردود ابلیس کہنا سخت حرام ہے اور کسی مسلمان کو شیطان کہنا شیطان کا کام ہے تو پورے محلہ والے کو منافق کہنا کیوں کر جائز ہوگا چونکہ اس میں نیک ۔صالح ۔ضعیف سب رہتے ہیں
جب جاہل کو جاہل کہنا فحش گوئی میں داخل ہے تو محلہ کے تمام مسلمانوں کو منافق کہنا فحش میں داخل کے علاؤہ تمام لوگوں کا دل دکھانا بھی ہوا اور ایذا مسلم حرام ہے لہذا ایسے امام کو لوگوں سے معافی مانگیں اور توبہ کریں اگر اس پر اصرار کرتا ہے تو فاسق معلن ہوگا اور فاسق کو امام بنانا گناہ ہے اگر ایک ہی مرتبہ کہا تو فاسق معلن نہیں کہا جائے گا ہاں معافی مانگیں اور توبہ کریں
بدکاروں سے محبت نہ رکھو۔
شیخ الحدیث عبد المصطفیٰ اعظمی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ چور،ڈاکو،قاتل۔زناکار ۔غرض ہر بدکار سے بیزاری اور نفرت اسلامی معاشرہ کی ضروریات سے ہے ۔اور ان بدکاروں کو سزا دلانے کی کوشش ہر مسلمان پر لازم ہے اور ان کی سزاوں پر کوئی رحم اور ترس کھانا جائز نہیں ہے ۔
مومن صالح کو شیطان کہنا شیطان کا کام ہے۔
ہم سب کے امام سیدی اعلی حضرت قدس سرہ العزیز فرماتے فرماتے ہیں کہ: مومن صالح کو شیطان کہنا شیطان کا کام ہے۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 203.204)
جب کسی مسلمان کو سخت و سست کہنا مردود ابلیس کہنا سخت حرام ہے اور کسی مسلمان کو شیطان کہنا شیطان کا کام ہے تو پورے محلہ والے کو منافق کہنا کیوں کر جائز ہوگا چونکہ اس میں نیک ۔صالح ۔ضعیف سب رہتے ہیں
جب جاہل کو جاہل کہنا فحش گوئی میں داخل ہے تو محلہ کے تمام مسلمانوں کو منافق کہنا فحش میں داخل کے علاؤہ تمام لوگوں کا دل دکھانا بھی ہوا اور ایذا مسلم حرام ہے لہذا ایسے امام کو لوگوں سے معافی مانگیں اور توبہ کریں اگر اس پر اصرار کرتا ہے تو فاسق معلن ہوگا اور فاسق کو امام بنانا گناہ ہے اگر ایک ہی مرتبہ کہا تو فاسق معلن نہیں کہا جائے گا ہاں معافی مانگیں اور توبہ کریں
بدکاروں سے محبت نہ رکھو۔
شیخ الحدیث عبد المصطفیٰ اعظمی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ چور،ڈاکو،قاتل۔زناکار ۔غرض ہر بدکار سے بیزاری اور نفرت اسلامی معاشرہ کی ضروریات سے ہے ۔اور ان بدکاروں کو سزا دلانے کی کوشش ہر مسلمان پر لازم ہے اور ان کی سزاوں پر کوئی رحم اور ترس کھانا جائز نہیں ہے ۔
(مسائل القرآن ص 173)
غیبت کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
غیبت بھی معاشرہ میں نفاق و شقاق پیدا کرنے والی بدترین خصلت ہے۔ اور یہ بھی گناہ کبیرہ اور حرام یے۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر قبیح بتایا ہے ۔قران میں ہے
لایغتب بعضکم بعضا ۔ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتا فکر ھتموہ۔
غیبت کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
غیبت بھی معاشرہ میں نفاق و شقاق پیدا کرنے والی بدترین خصلت ہے۔ اور یہ بھی گناہ کبیرہ اور حرام یے۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر قبیح بتایا ہے ۔قران میں ہے
لایغتب بعضکم بعضا ۔ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتا فکر ھتموہ۔
یعنی اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے ۔کیا تم میں کوئی پسند کرے گا کہ آپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے۔ تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا ۔
اللہ اکبر ۔! اپنے مرے ہوئے بھائی کی لاش کو نوچ نوچ کر اس کا گوشت کھانا بھلا سوچئے تو سہی کہ کتنا گھناؤنا اور کس قدر گندہ دھندا ہے
غیبت کرنے والے کی مغفرت نہ ہوگی جب تک وہ معاف نہ کرے
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
الغیبۃ اشد من الزنا۔
اللہ اکبر ۔! اپنے مرے ہوئے بھائی کی لاش کو نوچ نوچ کر اس کا گوشت کھانا بھلا سوچئے تو سہی کہ کتنا گھناؤنا اور کس قدر گندہ دھندا ہے
غیبت کرنے والے کی مغفرت نہ ہوگی جب تک وہ معاف نہ کرے
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
الغیبۃ اشد من الزنا۔
یعنی غیبت زنا سے سخت تر ہے کسی نے عرض کی : یہ کیونکر؟ فرمایا
الرجل یزنی ثم یتوب فیتوب اللہ علیہ وسلم صاحب الغیبۃ کا یغفرلہ حتی یغفرلہ صاحبہ۔
الرجل یزنی ثم یتوب فیتوب اللہ علیہ وسلم صاحب الغیبۃ کا یغفرلہ حتی یغفرلہ صاحبہ۔
یعنی زانی توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ قبول فرما لے اور غیبت والے کی مغفرت نہ ہوگی جب تک وہ نہ بخشے جس کی غیبت کی ہے (ابن ابی الدنیا نے ذم الغیبۃ میں اور طبرانی نے اوسط میں روایت کیا)
اس سے معلوم ہوا کہ غیبت کرنے والا اگر توبہ کرے تو بھی معاف نہ کیا جائے گا جب تک جس کی غیبت نہ کی ہو وہ معاف نہ کردے
فاسق کی غیبت جائز ہے۔
پیٹھ پیچھے کسی کو برا کہنا غیبت ہے لیکن اگر کسی فسادی یا شرعی ظالم یا بدکردار کے ظلم اور بدکاری کو بیان کیا جائے تو یہ غیبت نہیں ہے حدیث میں ہے
اذ کروا الفاسق بما فیہ متی یحذرہ الناس۔
اس سے معلوم ہوا کہ غیبت کرنے والا اگر توبہ کرے تو بھی معاف نہ کیا جائے گا جب تک جس کی غیبت نہ کی ہو وہ معاف نہ کردے
فاسق کی غیبت جائز ہے۔
پیٹھ پیچھے کسی کو برا کہنا غیبت ہے لیکن اگر کسی فسادی یا شرعی ظالم یا بدکردار کے ظلم اور بدکاری کو بیان کیا جائے تو یہ غیبت نہیں ہے حدیث میں ہے
اذ کروا الفاسق بما فیہ متی یحذرہ الناس۔
فاسق کے فسق کو بیان کرو ۔اگر نہیں کروگے تو لوگ اس سے کیسے بچیں گے۔
(نزہۃ القاری جلد ہشتم ص 323)
کسی کا برا نام و لقب نہ رکھو اور نہ اسے چڑاو اور یہ حرام و گناہ ہے
کسی کو توہین آمیز نام سے پکارنا ۔اور برا لقب دے کر اس کو چڑھانا بھی معاشرہ میں خرابی پیدا کرنے والا۔اور فتنہ خیز طریقہ ہے ۔اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کو بھی حرام و گناہ کا کام بتایا ہےقران شریف میں ہے
ولا تنابزوا بالاقاب ۔بئس الاسم فسون بعد الایمان ۔ومن لم یتب فاولئک ھم الظالمون یعنی اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو ۔کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں
جو لوگ فاسق معلن ۔بدکار ۔فحش گو ۔شرابی ۔زانی ۔زانیہ یعنی ۔گناہ کبیرہ کرنے والے کے ساتھ دوستی کرتا ہے اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا
رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
لا یحب رجل قوما آلا جعلہ اللہ معھم۔
کسی کا برا نام و لقب نہ رکھو اور نہ اسے چڑاو اور یہ حرام و گناہ ہے
کسی کو توہین آمیز نام سے پکارنا ۔اور برا لقب دے کر اس کو چڑھانا بھی معاشرہ میں خرابی پیدا کرنے والا۔اور فتنہ خیز طریقہ ہے ۔اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کو بھی حرام و گناہ کا کام بتایا ہےقران شریف میں ہے
ولا تنابزوا بالاقاب ۔بئس الاسم فسون بعد الایمان ۔ومن لم یتب فاولئک ھم الظالمون یعنی اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو ۔کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں
جو لوگ فاسق معلن ۔بدکار ۔فحش گو ۔شرابی ۔زانی ۔زانیہ یعنی ۔گناہ کبیرہ کرنے والے کے ساتھ دوستی کرتا ہے اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا
رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
لا یحب رجل قوما آلا جعلہ اللہ معھم۔
یعنی جو جس قوم سے محبت رکھے گا آللہ تعالیٰ اسے انہیں کے ساتھ کردے گا۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 22ص 210 مسند امام احمد بن حنبل جلد ششم ص 160 کنز العمال ۔حدیث34422 ۔جلد 15ص 860)
رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
المرع من مع احب۔
المرع من مع احب۔
یعنی آدمی اپنے دوست کے ساتھ ہوگا۔
(صحیح البخاری کتاب الآداب جلد دوم ص 210)
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
من احب قوما حشرہ آللہ فی زمرتھم۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
من احب قوما حشرہ آللہ فی زمرتھم۔
یعنی جو جس قوم سے دوستی کرے گا اللہ تعالیٰ انہیں کے گروہ میں اٹھائے گا۔
(المعجم الکبیر حدیث2519. جلد 3ص 19)
ان تینوں احادیث کو امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز نے فتاویٰ رضویہ میں نقل فرمایا
سوال ۔جو کسی مسلمان سے کینہ و کدورت رکھتا ہو ۔یا مقتدیوں و مؤذن یا کسی مسلمان سے سخت کلامی ۔فحش گوئی کرتا ہو یا کسی مسلمان کی غیبت کرتا ہو اس کو امام بنانا جائز ہے یا نہیں ؟
الجواب ایسے شخص کو امام بنانا گناہ ہے کیونکہ اس فعل کی وجہ سے وہ فاسق معلن ہے اس کی پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
لا تبا غضوا ولا تحاسد وا ولا تدابروا و کونوا عباد اللہ اخوانا یعنی بغض نہ رکھو۔حسد اور غیبت نہ کرو اور اللہ کے بندے بن کر بھائی بھائی ہوجاو۔
ان تینوں احادیث کو امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز نے فتاویٰ رضویہ میں نقل فرمایا
سوال ۔جو کسی مسلمان سے کینہ و کدورت رکھتا ہو ۔یا مقتدیوں و مؤذن یا کسی مسلمان سے سخت کلامی ۔فحش گوئی کرتا ہو یا کسی مسلمان کی غیبت کرتا ہو اس کو امام بنانا جائز ہے یا نہیں ؟
الجواب ایسے شخص کو امام بنانا گناہ ہے کیونکہ اس فعل کی وجہ سے وہ فاسق معلن ہے اس کی پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
لا تبا غضوا ولا تحاسد وا ولا تدابروا و کونوا عباد اللہ اخوانا یعنی بغض نہ رکھو۔حسد اور غیبت نہ کرو اور اللہ کے بندے بن کر بھائی بھائی ہوجاو۔
(صحیح البخاری باب الہجرت حدثنا،جلد دوم ص 897)
اور پھر فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
لایحل لمسلم ان یھجرا خاہ فوق الثلث یعنی کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ دوسرے بھائی سے تین دن سے زائد سلام وکلام قطع کرے۔
اور پھر فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
لایحل لمسلم ان یھجرا خاہ فوق الثلث یعنی کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ دوسرے بھائی سے تین دن سے زائد سلام وکلام قطع کرے۔
(صحیح البخاری باب الہجرۃ جلد دوم ص 297)
پھر رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
الحیاء من الایمان والبذاء من النفاق یعنی حیا ایمان کا حصہ ہے اور بے حیائی نفاق کا حصہ ہے
پھر رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
الحیاء من الایمان والبذاء من النفاق یعنی حیا ایمان کا حصہ ہے اور بے حیائی نفاق کا حصہ ہے
(جامع الترمذی ۔جلد دوم ص 23 باب ماجاء فی العتی)
پھر فرماتے ہیں
لیس المؤمن بالطعان ولا الفحاش۔
پھر فرماتے ہیں
لیس المؤمن بالطعان ولا الفحاش۔
یعنی مومن طعن کرنے والا نہیں ہوتا اور نہ ہی فحش بکتا ہے۔
(جامع الترمذی باب ماجاء فی اللعنۃ جلد دوم ص 19)
اس تمام احادیث کی بنا پر حضور سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد اعظم امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں ۔مسلمان سے بلا وجہ شرعی کینہ و بغض رکھنا حرام ہے اور بلا مصلحت شرعیہ تین دن سے زیادہ ترک سلام و کلام بھی حرام ہے ۔اور فحش بکنا خصوصا بر سر بازار معصیت و فسق ۔خصوصا اگر اس فحش میں کسی مسلمان مرد و عورت کو زنا کی طرف نسبت کرتا ہو جیسے آج کل فحش لوگوں کی گالیوں میں عام طور پر رائج ہے جب تو اشد کبیرہ ہے ۔بالجملہ شخص مذکور فاسق معلن ہے اور فاسق معلن کو امام بنانا گناہ اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی یعنی پڑھنی منع ہے اور پڑھ لی تو پھیرنی واجب۔
اس تمام احادیث کی بنا پر حضور سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد اعظم امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں ۔مسلمان سے بلا وجہ شرعی کینہ و بغض رکھنا حرام ہے اور بلا مصلحت شرعیہ تین دن سے زیادہ ترک سلام و کلام بھی حرام ہے ۔اور فحش بکنا خصوصا بر سر بازار معصیت و فسق ۔خصوصا اگر اس فحش میں کسی مسلمان مرد و عورت کو زنا کی طرف نسبت کرتا ہو جیسے آج کل فحش لوگوں کی گالیوں میں عام طور پر رائج ہے جب تو اشد کبیرہ ہے ۔بالجملہ شخص مذکور فاسق معلن ہے اور فاسق معلن کو امام بنانا گناہ اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی یعنی پڑھنی منع ہے اور پڑھ لی تو پھیرنی واجب۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید ششم ص 527)
مسلمانوں فاحش اور بے حیاء نہ بنے اپنے اندر نیک عادتیں رکھے اور بری باتوں سے بچے اور اپنے نابالغ بچوں کو بچپن ہی سے اچھی عادتوں کی تعلیم دے اور بری باتوں سے روکے تاکہ وہ فاحش اور بے حیاء نہ بنے
فحش گیت شیطانی رسم اور کافروں کی ریت ہے شیطان ملعون بے حیا ہے۔
فحش گوئی کرنا
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
*الجنۃ حرام علی کل فاحش۔ان ید یدخلھا
یعنی ہر فحش بکنے والے پر جنت حرام ہے۔
مسلمانوں فاحش اور بے حیاء نہ بنے اپنے اندر نیک عادتیں رکھے اور بری باتوں سے بچے اور اپنے نابالغ بچوں کو بچپن ہی سے اچھی عادتوں کی تعلیم دے اور بری باتوں سے روکے تاکہ وہ فاحش اور بے حیاء نہ بنے
فحش گیت شیطانی رسم اور کافروں کی ریت ہے شیطان ملعون بے حیا ہے۔
فحش گوئی کرنا
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
*الجنۃ حرام علی کل فاحش۔ان ید یدخلھا
یعنی ہر فحش بکنے والے پر جنت حرام ہے۔
(اخرجہ ابن ابی الدنیا فی فضل الصمت و ابو نعیم فی الحلیۃ عن عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنھما حدیث 325.جلد پنجم ص 206)
یونہی بے ضرورت و حاجت شرعیہ لوگوں سے فحش کلامی بھی ناجائز و خلاف حیا ہے
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
الحیاء من الایمان والایمان فی الجنۃ والبذاء من الجفا والجفاء فی النار*.ض,یعنی حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں ہے اور فحش بکنے والا بے ادبی ہے اور بے ادبی دوزخ میں ہے۔
یونہی بے ضرورت و حاجت شرعیہ لوگوں سے فحش کلامی بھی ناجائز و خلاف حیا ہے
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
الحیاء من الایمان والایمان فی الجنۃ والبذاء من الجفا والجفاء فی النار*.ض,یعنی حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں ہے اور فحش بکنے والا بے ادبی ہے اور بے ادبی دوزخ میں ہے۔
(جامع ترمذی جلد دوم ص بچ 12)
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
الحیاء والعی شعبتان من الایمان والبذاء والبیان شعبتان من النفاق*یعنی شرم اور کم سخنی ایمان کی دو شاخیں ہیں اور فحش بکنا اور زبان طراز ہونا نفاق کی دو شعبے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
الحیاء والعی شعبتان من الایمان والبذاء والبیان شعبتان من النفاق*یعنی شرم اور کم سخنی ایمان کی دو شاخیں ہیں اور فحش بکنا اور زبان طراز ہونا نفاق کی دو شعبے ہیں۔
(ابن ماجہ حدیث 4184. باب الحیاء اور جامع الترمذی ۔جلد دوم ص 23)
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ماکان الفحش فی شئی قط آلا شانہ ولا کان الحیاءفی شئ قط الازانہ۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ماکان الفحش فی شئی قط آلا شانہ ولا کان الحیاءفی شئ قط الازانہ۔
یعنی فحش جب کسی چیز میں داخل پائے گا اسے عیب دار کردے گااور جب حیاء کسی چیز میں شامل ہوگی اس کا آراستہ کردے گی ( سنن ابن ماجہ نے بسند حسن حضرت انس بن مالک رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے اسے رویت کیا ہے حدیث 4285 ۔کتاب الزہد ۔باب الحیاء ۔جلد 3ص 165)
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
البذاء شوم
یعنی فحش بکنا منحوس ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
البذاء شوم
یعنی فحش بکنا منحوس ہے۔
(الجامع الصغیر حدیث3195. جلد اول ص 192)
اذا رایت الرجل بذی اللسان و قاحا دل علی انہ مدخول فی نسبہ۔
اذا رایت الرجل بذی اللسان و قاحا دل علی انہ مدخول فی نسبہ۔
یعنی جب تو کسی کو دیکھے کہ فحش بکنے والا بے حیا ہے تو جان لو کہ اس کی اصل خطا ہے۔
(التیسیر شرح الجامع الصغیر حدیث 3195 جلد اول ص191)
جس میں حیاء نہیں وہ جو چاہے کرے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ان مما اترک الناس من کلام النبوۃ الاولی اذا لم تستحی فاصنع ماشئت۔
جس میں حیاء نہیں وہ جو چاہے کرے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ان مما اترک الناس من کلام النبوۃ الاولی اذا لم تستحی فاصنع ماشئت۔
یعنی لوگوں کو سابقہ انبیاء کے کلام میں سے جو بات ملی ہے اس میں سے ایک یہ بھی بات ہے :جب تمہیں حیاء نہ آئے تو تم جو چاہو کرو؟ڈ(شرح سنن ابن ماجہ ۔حدیث 4183 جلد 6ص(682)
مسلمان غیر فاسق معلن قابل احترام و قابل تعظیم ہے
مسلمان غیر فاسق معلن قابل احترام و قابل تعظیم ہے
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و مالہ و عرضہ
کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و مالہ و عرضہ
یعنی ہر مسلمان کی جان ۔مال ۔اور عزت دوسرے مسلمان کے لئے قابل احترام ہیں( ابن ماجہ حدیث 3933)
قال المؤمن من آمنہ الناس علی اموالھم و انفسھم والمھاجر من ھجر الخطایا والذنوب
قال المؤمن من آمنہ الناس علی اموالھم و انفسھم والمھاجر من ھجر الخطایا والذنوب
یعنی مومن وہ ہے جس کے حوالے سے لوگ اپنی جان اور مال کے بارے محفوظ ہیں اور مہاجر وہ شخص ہے جو خطاؤں اور گناہوں سے لاتعلق ہو جائے۔
(ابن ماجہ ۔حدیث 3934)
کوئی بھی مسلمان ایسا کوئی کام نہ کرے نہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نکالے جس سے کسی مسلمان بھائی کی خون ریزی ہو یا اس کا مال تلف و ضائع ہو اور یا اس کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچے ۔کیونکہ ہر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا دینی بھائی ہے اس سے معلوم ہوا کہ کسی مسلمان کو لعن و طعن نہ کہے ۔کسی کو برادی کے لحاظ سے توہین نہ کرے یعنی ایے پیٹھان واں ۔اے شیخوا ۔اے جولہواں ۔اے دھونیا وا بیٹھو یا فلاں کا کرو یا کسی کو اے بنٹھواں ۔اے کبری اے بڈھا یا وہ بنٹھوا کہ رہا تھا یا وہ دھونیوا یا وہ فقیروا کہ رہا تھا وغیرہ الفاظ نہ کہے الحاصل کہ ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس سے مسلمان کی بے عزتی ۔توہین ۔ہوتی ہو یا اسے تکلیف یا ایذا پہنچے یا اس کا مال ضائع ہو یا وہ کسی پریشانی و رنج و غم میں مبتلا ہو جائے وہ سب حرام ہے
کسی کو برا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔
حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
یحسب آمری من الشر ان یحقر اخاہ المسلم۔
کوئی بھی مسلمان ایسا کوئی کام نہ کرے نہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نکالے جس سے کسی مسلمان بھائی کی خون ریزی ہو یا اس کا مال تلف و ضائع ہو اور یا اس کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچے ۔کیونکہ ہر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا دینی بھائی ہے اس سے معلوم ہوا کہ کسی مسلمان کو لعن و طعن نہ کہے ۔کسی کو برادی کے لحاظ سے توہین نہ کرے یعنی ایے پیٹھان واں ۔اے شیخوا ۔اے جولہواں ۔اے دھونیا وا بیٹھو یا فلاں کا کرو یا کسی کو اے بنٹھواں ۔اے کبری اے بڈھا یا وہ بنٹھوا کہ رہا تھا یا وہ دھونیوا یا وہ فقیروا کہ رہا تھا وغیرہ الفاظ نہ کہے الحاصل کہ ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس سے مسلمان کی بے عزتی ۔توہین ۔ہوتی ہو یا اسے تکلیف یا ایذا پہنچے یا اس کا مال ضائع ہو یا وہ کسی پریشانی و رنج و غم میں مبتلا ہو جائے وہ سب حرام ہے
کسی کو برا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔
حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
یحسب آمری من الشر ان یحقر اخاہ المسلم۔
یعنی کسی آدمی کے برا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو تحقیر سمجھے۔
(شرح ابن ماجہ ۔حدیث 4213. باب البغی جلد 6 ص 721)
مسلمانوں کو ذلیل و حقیر نہ سمجھے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان بھائی کے عیب کو اچھال کر اور اس کی برائیوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرکے ان کو رسوا اور بدنام نہ کرے اس کے ساتھ بدزبانی اور سخت کلامی نہ کرے اور کوئی مسلمان خواہ کتنا ہی غریب و محتاج کیوں نہ ہو کتنا ہی ضعیف و ناتواں اور کتنا ہی نامراد و خستہ حال ہو اس کا مذاق نہ اڑائے
جو کسی مسلم سے کہے کہ تو ہلاک ہوجا ۔تو برباد ہوجا خدا تعالیٰ تمہیں برباد کردے تجھے ہلاک کردے تو حقیقت میں وہ کہنے والا ہلاکت میں پڑھائے گا
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جب تم کسے آدمی کو یہ کہتے سنو :ھلک الناس : یعنی لوگ ہلاک ہوگئے ۔تو خود وہ سب سے زیادہ ہلاکت میں پڑنے والا ہے۔
مسلمانوں کو ذلیل و حقیر نہ سمجھے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان بھائی کے عیب کو اچھال کر اور اس کی برائیوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرکے ان کو رسوا اور بدنام نہ کرے اس کے ساتھ بدزبانی اور سخت کلامی نہ کرے اور کوئی مسلمان خواہ کتنا ہی غریب و محتاج کیوں نہ ہو کتنا ہی ضعیف و ناتواں اور کتنا ہی نامراد و خستہ حال ہو اس کا مذاق نہ اڑائے
جو کسی مسلم سے کہے کہ تو ہلاک ہوجا ۔تو برباد ہوجا خدا تعالیٰ تمہیں برباد کردے تجھے ہلاک کردے تو حقیقت میں وہ کہنے والا ہلاکت میں پڑھائے گا
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جب تم کسے آدمی کو یہ کہتے سنو :ھلک الناس : یعنی لوگ ہلاک ہوگئے ۔تو خود وہ سب سے زیادہ ہلاکت میں پڑنے والا ہے۔
(الترغیب والترہیب جلد اول مترجم ص 433)
پھر فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ایک آدمی نے کہا : خدا کی قسم اللہ تعالیٰ فلاں شخص کی بخشش نہیں فرمائے گا ۔اللہ عزوجل نے فرمایا: کون ہے جو میرے بارے میں قسم اٹھاتا ہے کہ میں فلاں کی بخشش نہیں فرماوں گا ؟ انی قد غفرت لہ واحبطت عملک : جا میں نے فلان کی بخشش فرمادی ہے اور تیرے اعمال کو ضائع کردیا ہوں۔
پھر فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ایک آدمی نے کہا : خدا کی قسم اللہ تعالیٰ فلاں شخص کی بخشش نہیں فرمائے گا ۔اللہ عزوجل نے فرمایا: کون ہے جو میرے بارے میں قسم اٹھاتا ہے کہ میں فلاں کی بخشش نہیں فرماوں گا ؟ انی قد غفرت لہ واحبطت عملک : جا میں نے فلان کی بخشش فرمادی ہے اور تیرے اعمال کو ضائع کردیا ہوں۔
(الترغیب والترہیب جلد اول مترجم ص 434)
اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے لئے بدعا نہیں کرنا چاہئے ۔کسی کی تحقیر نہیں کرتا چاہئے
مسلمان اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا رشتہ رکھتا ہے اور اس کا خیال رکھتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں
من کان یؤمن باللہ والیوم الاخرۃ فلیحسن الی جارہ۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے لئے بدعا نہیں کرنا چاہئے ۔کسی کی تحقیر نہیں کرتا چاہئے
مسلمان اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا رشتہ رکھتا ہے اور اس کا خیال رکھتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں
من کان یؤمن باللہ والیوم الاخرۃ فلیحسن الی جارہ۔
یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔
(شرح ابن ماجہ حدیث 3672 باب حق الجوار جلد 6ص 168)
مسلمان اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
ومن کان یؤمن باللہ والیوم الاخرۃ فلیقل خیرا او یسکت۔
مسلمان اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
ومن کان یؤمن باللہ والیوم الاخرۃ فلیقل خیرا او یسکت۔
یعنی جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔
(شرح ابن ماجہ جلد 6ص 169 حدیث 367)
مسلمانوں سے جب بھی ملاقات ہو تو منہ بناکر نہیں ملو بلکہ ہنسی خوشی سے ملو۔ اور اس سے تحقیر کے ساتھ نہ ملو بلکہ اس کی عزت کے ساتھ ملو۔
محسن کائنات رحمت کائنات حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
لا تحقرن من المعروف شیئا و لو ان تلقی اخک بوجہ طلیق۔
مسلمانوں سے جب بھی ملاقات ہو تو منہ بناکر نہیں ملو بلکہ ہنسی خوشی سے ملو۔ اور اس سے تحقیر کے ساتھ نہ ملو بلکہ اس کی عزت کے ساتھ ملو۔
محسن کائنات رحمت کائنات حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
لا تحقرن من المعروف شیئا و لو ان تلقی اخک بوجہ طلیق۔
یعنی نیکی کے کسی کام کو حقیر ہر گز نہ جانو اگرچہ اتنا ہی ہو کہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کرو۔
(الترغیب والترہیب جلد اول ص 324بحوالہ مسلم شریف)
اس سے پتہ چلا کہ مسلم بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا نیکی کا کام ہے اور کسی بھی نیکی کو کم نہ سمجھے
مسلم بھائی کو دیکھ کر مسکرا کر ملو
شافع المذنبین رحمت جان عالم حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
تبسک فی وجہ اخیک صدقہ۔
اس سے پتہ چلا کہ مسلم بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا نیکی کا کام ہے اور کسی بھی نیکی کو کم نہ سمجھے
مسلم بھائی کو دیکھ کر مسکرا کر ملو
شافع المذنبین رحمت جان عالم حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
تبسک فی وجہ اخیک صدقہ۔
یعنی اپنے بھائی کے ساتھ تیرا مسکرانا صدقہ ہے (اسے امام ترمذی نے روایت کیا اور حسن قرار دیا )
اور ان سے ابھی گفتگو کرو
مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
الکلمۃ الطیبۃ صدقہ یعنی ابھی اور پاکیزہ بات کہنا بھی صدقہ ہے (اسے بخاری و مسلم نے ایک حدیث میں روایت کیا ہے)
حضور سرور دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
موجب الجنۃ اطعام الطعام و افشاء السلام و حسن الکلام۔
اور ان سے ابھی گفتگو کرو
مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
الکلمۃ الطیبۃ صدقہ یعنی ابھی اور پاکیزہ بات کہنا بھی صدقہ ہے (اسے بخاری و مسلم نے ایک حدیث میں روایت کیا ہے)
حضور سرور دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
موجب الجنۃ اطعام الطعام و افشاء السلام و حسن الکلام۔
یعنی جنت واجب کرنے والی یہ تین چیزیں ہیں
(1) کھانا کھلانا
(2) سلام عام کرنا
(3) اچھی بات کرنا (جس سے کسی کا دل نہ دکھے بلکہ دلجوئی ہو)
اپنے مسلم بھائی سے خوشی خوشی ملنا ان کی دلجوئی کرنا ان کے اچھے لقب سے یاد کرنا ان کے ساتھ حسن اخلاق رکھنا یہ سب بہترین نیکیاں ہیں
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ۔اچھے اخلاق گناہ کو اس طرح پگھلا دیتا ہے جس طرح پانی برف کو پگھلا دیتا ہے اور برے اخلاق عمل ( نیکیاں )کو ایسے خراب کردیتا ہیں جیسے سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے۔
(1) کھانا کھلانا
(2) سلام عام کرنا
(3) اچھی بات کرنا (جس سے کسی کا دل نہ دکھے بلکہ دلجوئی ہو)
اپنے مسلم بھائی سے خوشی خوشی ملنا ان کی دلجوئی کرنا ان کے اچھے لقب سے یاد کرنا ان کے ساتھ حسن اخلاق رکھنا یہ سب بہترین نیکیاں ہیں
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ۔اچھے اخلاق گناہ کو اس طرح پگھلا دیتا ہے جس طرح پانی برف کو پگھلا دیتا ہے اور برے اخلاق عمل ( نیکیاں )کو ایسے خراب کردیتا ہیں جیسے سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے۔
(المعظم الکبیر رقم 10777.ج 10ص 319)
مسلم بھائی کبھی بھی اپنے دوسرے مسلم بھائی کو حقیر نگاہ سے مت دیکھو انہیں مردود ۔منافق ۔ملعون
بے وقوف ۔بے عقل ۔بدتمیز ۔بہودہ ۔ابلیس ۔شیطان ۔حرامی ۔حرام زادہ ۔حرام زادی ۔بنٹھا ۔یزید ۔مت کہو ۔اسے کسی بات سے کسی کام سے ایذا ۔دکھ ۔مت دو اس پر جھوٹا مقدمہ نہ کرو اس سے منہ بناکر مت ملو بلکہ مسلم بھائی کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش انا بہت بری نیکی ہے
مسلمانوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش انے والے کے لئے احادیث شریف میں مندرجہ ذیل بشارتیں وارد ہیں
(1)ابرار کے ساتھ داخل ہوجاگے
(2) اسے اللہ عزوجل عرش نے سایہ میں جگہ دے گا جس دن کوئی سایہ نہ ہوگا
(3) اسے اللہ عزوجل اپنی جنت کے شربت سے سیراب کرے گا
(4) اللہ تعالیٰ اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے گا
(5) بے شک اللہ تعالیٰ بندے کے اچھے اخلاق کے سب اسے روزی دار اور نمازی کے درجے پر پہنچا دیتا ہے
(6) مسلمان اچھے اخلاق کے سبب آخرت کے عظیم درجوں اور بلند منزلوں تک پہنچ جاتا ہے حالانکہ وہ عبادت میں کمزور ہوتا ہے اور اپنے برے اخلاق کے سبب جہنم کے سب سے نچلے درجے تک پہنچ جاتا ہے
*مسلمان بھائی سے اچھی بات کرو یا پھر خاموش رہو*.*اس کی تحقیر نہ کرو*.
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
(1) من صمت نجا یعنی جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا
(2) اکثر الناس ذنوبا اکثرھم کلاما فیما لا یعنیہ یعنی لوگوں میں زیادہ گنہگار زیادہ گفتگو کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ۔یعںی لا یعنی گفتگو کرنا ۔بک بک بولنا ۔کسی کو اپنی بولی کے سامنے بولنے نہ دینا
(3) من سرہ ان یسلم فلیزم الصمت یعنی جسے یہ پسند ہو کہ امن و سلامتی میں رہے اسے چاہئے کہ خاموشی اختیار کرلے
(4) حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ابودرداء سے فرمایا : کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتادوں جن کا کرنا آسان ہے اور ان کا اجر بہت بڑا ہے اس جیسا عمل کے کر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے نہیں ملا ۔
طول الصمت و حسن الخلق یعنی وہ ہیں لمبی خاموشی اور حسن اخلاق
(5) ان الرجل لیتکلم بالکلمۃ لا یری بھا باسا یھوی بھا سبعین خریفا یعنی بسا اوقات آدمی ایسی بات کہ بیٹھتا ہے جس میں کوئی حرج نہیں جانتا پھر اس کے وجہ سے (دوزخ میں ) ستر سال دوری تک جا گرتا ہے
بلکہ ولد الزنا کو اس طور پر حرامی کہنا جس میں اسے ایذا ہو جائز نہیں ۔
مسلم بھائی کبھی بھی اپنے دوسرے مسلم بھائی کو حقیر نگاہ سے مت دیکھو انہیں مردود ۔منافق ۔ملعون
بے وقوف ۔بے عقل ۔بدتمیز ۔بہودہ ۔ابلیس ۔شیطان ۔حرامی ۔حرام زادہ ۔حرام زادی ۔بنٹھا ۔یزید ۔مت کہو ۔اسے کسی بات سے کسی کام سے ایذا ۔دکھ ۔مت دو اس پر جھوٹا مقدمہ نہ کرو اس سے منہ بناکر مت ملو بلکہ مسلم بھائی کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش انا بہت بری نیکی ہے
مسلمانوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش انے والے کے لئے احادیث شریف میں مندرجہ ذیل بشارتیں وارد ہیں
(1)ابرار کے ساتھ داخل ہوجاگے
(2) اسے اللہ عزوجل عرش نے سایہ میں جگہ دے گا جس دن کوئی سایہ نہ ہوگا
(3) اسے اللہ عزوجل اپنی جنت کے شربت سے سیراب کرے گا
(4) اللہ تعالیٰ اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے گا
(5) بے شک اللہ تعالیٰ بندے کے اچھے اخلاق کے سب اسے روزی دار اور نمازی کے درجے پر پہنچا دیتا ہے
(6) مسلمان اچھے اخلاق کے سبب آخرت کے عظیم درجوں اور بلند منزلوں تک پہنچ جاتا ہے حالانکہ وہ عبادت میں کمزور ہوتا ہے اور اپنے برے اخلاق کے سبب جہنم کے سب سے نچلے درجے تک پہنچ جاتا ہے
*مسلمان بھائی سے اچھی بات کرو یا پھر خاموش رہو*.*اس کی تحقیر نہ کرو*.
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
(1) من صمت نجا یعنی جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا
(2) اکثر الناس ذنوبا اکثرھم کلاما فیما لا یعنیہ یعنی لوگوں میں زیادہ گنہگار زیادہ گفتگو کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ۔یعںی لا یعنی گفتگو کرنا ۔بک بک بولنا ۔کسی کو اپنی بولی کے سامنے بولنے نہ دینا
(3) من سرہ ان یسلم فلیزم الصمت یعنی جسے یہ پسند ہو کہ امن و سلامتی میں رہے اسے چاہئے کہ خاموشی اختیار کرلے
(4) حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ابودرداء سے فرمایا : کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتادوں جن کا کرنا آسان ہے اور ان کا اجر بہت بڑا ہے اس جیسا عمل کے کر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے نہیں ملا ۔
طول الصمت و حسن الخلق یعنی وہ ہیں لمبی خاموشی اور حسن اخلاق
(5) ان الرجل لیتکلم بالکلمۃ لا یری بھا باسا یھوی بھا سبعین خریفا یعنی بسا اوقات آدمی ایسی بات کہ بیٹھتا ہے جس میں کوئی حرج نہیں جانتا پھر اس کے وجہ سے (دوزخ میں ) ستر سال دوری تک جا گرتا ہے
بلکہ ولد الزنا کو اس طور پر حرامی کہنا جس میں اسے ایذا ہو جائز نہیں ۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 24 ص 344)
کسی کو دکھ دینا جائز نہیں
حضور مصطفی جان رحمت سیدنا نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
لا ضرر ولا ضرر فی الاسلام۔
کسی کو دکھ دینا جائز نہیں
حضور مصطفی جان رحمت سیدنا نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
لا ضرر ولا ضرر فی الاسلام۔
یعنی اسلام میں نہ کوئی دکھ ہے نہ دوسرے کو دکھ دینا ہے۔
(المعجم کبیر حدیث 5189 جلد 6 ص 384)
ایک شخص نے اپنے پڑوسی کی دیوار کی بنیاد میں پیشاب کردیا اس کو حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پاس بیٹھنے کی اجازت نہیں دی۔
رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
لایدخل الجنۃ من لایومن جارہ بوائقہ۔
ایک شخص نے اپنے پڑوسی کی دیوار کی بنیاد میں پیشاب کردیا اس کو حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پاس بیٹھنے کی اجازت نہیں دی۔
رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
لایدخل الجنۃ من لایومن جارہ بوائقہ۔
یعنی جنت میں نہیں داخل ہوگا وہ آدمی جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو۔
(الترغیب والترہیب جلد اول ص 271 اسے امام احمد،امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا)
ایک حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی آللہ تعالیٰ عنھما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ایک غزوہ پر تشریف لے گئے ۔فرمایا : آج ہمارے ساتھ وہ شخص نہ بیٹھے جس نے اپنے ہمسایہ کو اذیت پہنچائی ہو ۔لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کی ! میں نے اپنے ہمسایہ کی دیوار کی بنیاد میں پیشاب کردیا ہے۔ آپ نے فرمایا : یا لاتصحبنا الیوم یعنی تم آج ہمارے پاس نہ بیٹھو۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی آللہ تعالیٰ عنھما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ایک غزوہ پر تشریف لے گئے ۔فرمایا : آج ہمارے ساتھ وہ شخص نہ بیٹھے جس نے اپنے ہمسایہ کو اذیت پہنچائی ہو ۔لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کی ! میں نے اپنے ہمسایہ کی دیوار کی بنیاد میں پیشاب کردیا ہے۔ آپ نے فرمایا : یا لاتصحبنا الیوم یعنی تم آج ہمارے پاس نہ بیٹھو۔
(الترغیب والترہیب جلد اول ص 273)
اس سے سخت مصیبت اور کیا ہو کہ رحمت دو عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے پاس بیٹھنے سے محروم فرمادیا یہ ہے پڑوسی کا حق اپنے ماں باپ کی گستاخی کرنے والے کو سزا اسی دنیا میں ملے گی اور آخرت میں الگ سے سزا دی جائے گی۔
خبردار اپنے ماں باپ کو کسی بات پر یا کسی غلطی پر لعن وطعن نہ کرے ۔انہیں طعنہ نہ دے اگرچہ آپ اس پر خارج کرتے ہیں یہ تو آپ کا حق ہے جب تک باپ کی پرورش میں آپ تھے باپ نے خرچ کیا اب وہ ضعیفی و بیماری کی وجہ سے مجبور ہے نہ اس کی بے عزتی کرے نہ اسے تنگ کرے نہ اس کے لئے بدعا کرے نہ اس کے مرنے یا بیمار پڑنے کی بددعا کرے حالانکہ ماں باپ کا وہ دل بہت وسیع ہوتا ہے ہوتا ہے وہ سب کبھ برداشت کرکے بھی اولد سے محبت کرتا ہے۔
,مرکز سنت کے امام اہل سنت مجدداعظم امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں
باپ کا نافرمانی الللہ جبار و قہار کی نافرمانی ہے اور باپ کی ناراضگی اللہ جبار و قہار کی ناراضگی ہے۔ آدمی ماں باپ کو راضی کرے تو وہ اس کے جنت ہیں اور ناراض کرے تو وہی اس کے دوزخ ہیں ۔جب تک باپ کو راضی نہ کرے گا اس کا کوئی فرض ۔کوئی نفل ۔کوئی عمل نیک اصلا قبول نہ ہوگا ۔عذاب آخرت کے علاؤہ دنیا میں ہی جیتے جی سخت بلا نازل ہوگی مرتے وقت معاذ اللہ کلمہ نصیب نہ ہونے کا خوف ہے
(1) حدیث میں ہے حضور نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
اس سے سخت مصیبت اور کیا ہو کہ رحمت دو عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے پاس بیٹھنے سے محروم فرمادیا یہ ہے پڑوسی کا حق اپنے ماں باپ کی گستاخی کرنے والے کو سزا اسی دنیا میں ملے گی اور آخرت میں الگ سے سزا دی جائے گی۔
خبردار اپنے ماں باپ کو کسی بات پر یا کسی غلطی پر لعن وطعن نہ کرے ۔انہیں طعنہ نہ دے اگرچہ آپ اس پر خارج کرتے ہیں یہ تو آپ کا حق ہے جب تک باپ کی پرورش میں آپ تھے باپ نے خرچ کیا اب وہ ضعیفی و بیماری کی وجہ سے مجبور ہے نہ اس کی بے عزتی کرے نہ اسے تنگ کرے نہ اس کے لئے بدعا کرے نہ اس کے مرنے یا بیمار پڑنے کی بددعا کرے حالانکہ ماں باپ کا وہ دل بہت وسیع ہوتا ہے ہوتا ہے وہ سب کبھ برداشت کرکے بھی اولد سے محبت کرتا ہے۔
,مرکز سنت کے امام اہل سنت مجدداعظم امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں
باپ کا نافرمانی الللہ جبار و قہار کی نافرمانی ہے اور باپ کی ناراضگی اللہ جبار و قہار کی ناراضگی ہے۔ آدمی ماں باپ کو راضی کرے تو وہ اس کے جنت ہیں اور ناراض کرے تو وہی اس کے دوزخ ہیں ۔جب تک باپ کو راضی نہ کرے گا اس کا کوئی فرض ۔کوئی نفل ۔کوئی عمل نیک اصلا قبول نہ ہوگا ۔عذاب آخرت کے علاؤہ دنیا میں ہی جیتے جی سخت بلا نازل ہوگی مرتے وقت معاذ اللہ کلمہ نصیب نہ ہونے کا خوف ہے
(1) حدیث میں ہے حضور نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
طاعۃ اللہ طاعۃ الوالد و معصیۃ اللہ معصیۃ الوالد ۔
یعنی اللہ کی اطاعت والد کی اطاعت اور اللہ کی معصیت والد کی معصیت۔
(رواہ الطبرانی عن ابی ہریرہ رضی آللہ عنہ حدیث سے 2278 ص344)
(2) کل الذنوب یؤخر اللہ منھا ماشاء الی یوم القیامۃ آلا عقوق الوالدین فان الللہ لیعجلہ لصاحبہ فی الحیاۃ قبل الممات ۔
(2) کل الذنوب یؤخر اللہ منھا ماشاء الی یوم القیامۃ آلا عقوق الوالدین فان الللہ لیعجلہ لصاحبہ فی الحیاۃ قبل الممات ۔
یعنی سب گناہوں کی سزا آللہ تعالیٰ چاہے تو قیامت کےلئے اٹھ رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی پہنچاتا ہے (حاکم اور اصبہانی اور طبرانی نے ابی ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسے روایت کیا)
(3) ثلثۃ لا یدخلون الجنۃ العاق لوالدیہ والدیوث والرجلۃ من النار۔
(3) ثلثۃ لا یدخلون الجنۃ العاق لوالدیہ والدیوث والرجلۃ من النار۔
یعنی تین اشخاص جنت میں نہ جائیں گے ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا اور دیوث اور وہ عورت کی مردانی وضع بنائے (نسائی اور بزاز نے اسناد و جید کے ساتھ اور حاکم نے ابن عمر رضی آللہ تعالیٰ عنھما سے اسے روایت کیا)
کیا جنت کی خوشبو جنت میں جانے کے بعد سونگھی جائے گی یا پہلے سے؟
ایک روایت میں ہے کہ
ریح الجنۃ توجد من مسیرۃ الف عام۔
کیا جنت کی خوشبو جنت میں جانے کے بعد سونگھی جائے گی یا پہلے سے؟
ایک روایت میں ہے کہ
ریح الجنۃ توجد من مسیرۃ الف عام۔
یعنی جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی دوری سے محسوس ہوگی (الترغیب والترہیب جلد اول مترجم ص 252. اسے طبرانی نے اوسط میں روایت کیا) اسے معلوم ہوا کہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہی سے جنت کی خوشبو محسوس ہوگی. اور اسی حدیث میں ہے کہ
واللہ لایجدھا عاق
واللہ لایجدھا عاق
یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس بات پر قسم کھاتے ہیں کہ اللہ کی قسم یہ خوشبو والدین کا نافرمان نہ پاسکے گا یعنی ماں باپ کو ستانے والے، تکلیف دینے والا لعن و طعن کرنے والا ۔گالی گلوج کرنے والا اولاد جنت کی خوشبو نہیں پاسکے گا
امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں
بے عقل اور شریر اور ناسمجھ (اولاد) جب طاقت و توانائی حاصل کرلیتے ہیں تو بوڑھے باپ پر ہی زور آزمائی کرتے ہیں اور اس کی حکم کی خلاف ورزی اختیار کرتے ہیں جلد نظر آجائے گا کہ جب خود بوڑھے ہوں گے تو اپنے کئے ہوئے کی جزا اپنے ہاتھ سے چکھیں گے ۔جیسا کروگے ویسا بھروگے ۔اور اخرت کا عذاب سخت اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔
امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں
بے عقل اور شریر اور ناسمجھ (اولاد) جب طاقت و توانائی حاصل کرلیتے ہیں تو بوڑھے باپ پر ہی زور آزمائی کرتے ہیں اور اس کی حکم کی خلاف ورزی اختیار کرتے ہیں جلد نظر آجائے گا کہ جب خود بوڑھے ہوں گے تو اپنے کئے ہوئے کی جزا اپنے ہاتھ سے چکھیں گے ۔جیسا کروگے ویسا بھروگے ۔اور اخرت کا عذاب سخت اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 24 ص 424)
عمر و رزق میں برکت کا آسان طریقہ
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
من سرہ ان یمد لہ فی عمرہ و یزداد فی رزقہ فلیبر والدیہ و لیصل رحمہ۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
من سرہ ان یمد لہ فی عمرہ و یزداد فی رزقہ فلیبر والدیہ و لیصل رحمہ۔
یعنی جسے یہ پسند ہو کہ اس کی عمر دراز فرمائی جائے اور اس کے رزق میں برکت ہو۔ اسے چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرے اور صلہ رحمی سے پیش آئے۔ (الترغیب والترہیب جلد اول ص 244 ۔اسے امام احمد نے روایت کیا ۔ان کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔ اور یہ حدیث مختصر صحیح میں بھی ہے )
(2) حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں من بر والدیہ طوبی لہ زاد اللہ فی عمرہ۔
(2) حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں من بر والدیہ طوبی لہ زاد اللہ فی عمرہ۔
یعنی جس نے اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا ۔اسے مبارک ہو (یا اس کے لئے جنت میں شکری طوبی ہے ) ۔اللہ تعالیٰ اس کی عمر دراز فرمائے (الترغیب والترہیب ۔اسے ابو یعلیٰ ۔طبرانی ۔اور حاکم نے زبان بن قائد عن سہل بن معاذ ابیہ کے طریق سے روایت کیا۔حاکم نے صحیح الاسناد کہا)
(3) حضور مصطفی جان رحمت صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ولا یزید فی العمر الا البر۔
(3) حضور مصطفی جان رحمت صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ولا یزید فی العمر الا البر۔
یعنی عمر میں اصافہ صرف والدین کی خدمت سے ہوسکتا ہے۔
(الترغیب والترہیب جلد اول مترجم ص 244)
(3) حضرت سلمان رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی ہے
لایرد القضاء آلا الدعاء ولا یزید فی العمر الا البر۔
(الترغیب والترہیب جلد اول مترجم ص 244)
(3) حضرت سلمان رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی ہے
لایرد القضاء آلا الدعاء ولا یزید فی العمر الا البر۔
یعنی قضاء (تقدیر) کو صرف دعا ٹال سکتی ہے ۔اور عمر میں اصافہ صرف والدین کی خدمت و اطاعت ہی کرسکتی ہے۔
(الترغیب والترہیب جلد اول مترجم ص 244)
آپ نے اوپر پڑھا ہوگا کہ والدین کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی عطاعت ہے۔کیونکہ اولاد کے لئے والدین اللہ و رسول جل جلالہ و صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سائے اور (اللہ تعالیٰ) کی ربوبیت و رحمت کے مظہر ہیں و لہذا قرآن عظیم میں اللہ جل جلالہ نے اپنے حق کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا کہ ان اشکرلی ولوالدیک یعنی حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا مان باپ کا حق اپنے جان و مال ۔بیوی بچوں اور دیگر تمام رشتوں سے مقدم ہے یعنی سب سے بڑا ہے اور استاد کا حق والدین پر مقدم ہے
کیا ماں باپ کی بدعا اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے؟
اس کی دو صورتیں ہیں وہ بدعا قبول بھی ہے اور قبول نہ بھی ہے
کوئی ماں باپ دل سے اولاد کو بدعا نہی کرتا ہے اس لئے وہ بدعا مقبول نہیں ہوتی ہے
اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اولاد کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اس وقت ماں باپ بے چین ہوجاتا ہے یہ اس کی محبت کی دلیل ہے اگرچہ پہلے سے ماں باپ ناراض کیوں نہ ہو اور اس قول کی دلیل حدیث میں بھی ہے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ
انی سالت اللہ ان لا یقبل دعاء حبیب علی حبیبہ۔
آپ نے اوپر پڑھا ہوگا کہ والدین کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی عطاعت ہے۔کیونکہ اولاد کے لئے والدین اللہ و رسول جل جلالہ و صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سائے اور (اللہ تعالیٰ) کی ربوبیت و رحمت کے مظہر ہیں و لہذا قرآن عظیم میں اللہ جل جلالہ نے اپنے حق کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا کہ ان اشکرلی ولوالدیک یعنی حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا مان باپ کا حق اپنے جان و مال ۔بیوی بچوں اور دیگر تمام رشتوں سے مقدم ہے یعنی سب سے بڑا ہے اور استاد کا حق والدین پر مقدم ہے
کیا ماں باپ کی بدعا اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے؟
اس کی دو صورتیں ہیں وہ بدعا قبول بھی ہے اور قبول نہ بھی ہے
کوئی ماں باپ دل سے اولاد کو بدعا نہی کرتا ہے اس لئے وہ بدعا مقبول نہیں ہوتی ہے
اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اولاد کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اس وقت ماں باپ بے چین ہوجاتا ہے یہ اس کی محبت کی دلیل ہے اگرچہ پہلے سے ماں باپ ناراض کیوں نہ ہو اور اس قول کی دلیل حدیث میں بھی ہے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ
انی سالت اللہ ان لا یقبل دعاء حبیب علی حبیبہ۔
یعنی بے شک میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیاکہ کسی پیارے کی پیارے پر بدعا قبول نہ فرما (اس کو دیلمی وغیرہ نے عبداللہ بن عمر رضی آللہ تعالیٰ عنھما سے روایت کی )
بس ہر ماں باپ کی اولادیں اس کے لئے پیاری ہوتی ہے نور نظر ہوتا ہے ۔دل کا ٹکڑا ہوتا ہے اس لئے اس دعا کی برکت سے وہ بدعا قبول نہیں ہوتی ہے
ہاں اگر واقعی میں دکھی ہوکر دل سے بدعا کرتا ہے تو وہ قبول ہوجاتی ہے
حدیث شریف میں ہے کہ ماں باپ کی بدعا اولاد کے حق میں مقبول ہیں اس لئے کبھی بھی ماں باپ کا دل نہ دکھائے ایسا کوئی فعل یا بات نہ کرے جس سے ماں باپ کو تکلیف پہنچے اور وہ بدعا کوسنا شروع کردیں
کبھی بھی اپنی جانو پر بدعا نہ کرو اپنی اولاد پر بدعا نہ کرو اور اپنے خادم پر بدعا نہ کرو اور اپنے اموال پر بدعا نہ کرو کہیں اجابت ,(یعنی قبولیت) کی گھڑی سے موافق نہ ہو
اور فرماتے ہیں: تین دعائیں بے شک مقبول ہیں : دعا مظلوم کی ۔اور دعا مسافر کی ۔اور ماں باپ کا اپنی اولاد کو کوسنا
بس ہر ماں باپ کی اولادیں اس کے لئے پیاری ہوتی ہے نور نظر ہوتا ہے ۔دل کا ٹکڑا ہوتا ہے اس لئے اس دعا کی برکت سے وہ بدعا قبول نہیں ہوتی ہے
ہاں اگر واقعی میں دکھی ہوکر دل سے بدعا کرتا ہے تو وہ قبول ہوجاتی ہے
حدیث شریف میں ہے کہ ماں باپ کی بدعا اولاد کے حق میں مقبول ہیں اس لئے کبھی بھی ماں باپ کا دل نہ دکھائے ایسا کوئی فعل یا بات نہ کرے جس سے ماں باپ کو تکلیف پہنچے اور وہ بدعا کوسنا شروع کردیں
کبھی بھی اپنی جانو پر بدعا نہ کرو اپنی اولاد پر بدعا نہ کرو اور اپنے خادم پر بدعا نہ کرو اور اپنے اموال پر بدعا نہ کرو کہیں اجابت ,(یعنی قبولیت) کی گھڑی سے موافق نہ ہو
اور فرماتے ہیں: تین دعائیں بے شک مقبول ہیں : دعا مظلوم کی ۔اور دعا مسافر کی ۔اور ماں باپ کا اپنی اولاد کو کوسنا
(احسن الوعا الآداب الدعا ص 67 رواہ مسلم و ابوداؤد و ابن خزیمۃ عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما)
اس دونوں حدیث مسلم اور دیلمی کے تحت
امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:
بدعا دو طور پر ہوتی ہے۔
(1) ایک یہ کہ داعی کا قلب حقیقۃ اس کا یہ ضرر نہیں چاہتا ۔یہاں تک کہ اگر واقع ہوتو سخت صدمہ میں گرفتا ۔جیسے ماں باپ غصے میں اپنی اولاد کو کوس لیتے ہیں کہ لپ ۔مگر دل اس کا مرنا یا تباہ ہونا نہیں چاہتے ۔اور اگر ایسا ہوتا اس پر ان سے زیادہ بے چین ہونے والا کوئی نہیں ۔دیلمی کی حدیث میں اسی قسم بدعا کے لئے وارد کہ حضور رؤف رحیم رحمۃ للعالمین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا مقبول نہ ہونا اللہ تعالیٰ سے مانگا ۔نظیر اس کی وہ حدیث صحیح ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کی : الہی میں بشر ہوں ۔بشر کی طرح غضب فرماتا ہوں ۔توجسے میں لعنت کروں یا بدعا دوں اسے تو اس کے حق میں کفارہ و اجر و باعث طہارت کر ۔
(2) دوسری اس نے خلاف کہ داعی کا دل حقیقۃ اس سے بے زار اور اس کے اس ضرر کا خواست گار ہے ۔اور یہ بات ماں باپ کو معاذ اللہ اسی وقت ہوگی جب اولاد اپنی شقاوت سے عقوق کو اس درجہ سے نیچے گرا دے کہ ان کا دل واقعی اس کی طرف سے سیاہ ہو جائے ۔اور اصلا محبت نام کو نہ رہے ۔بلکہ عداوت آجائے ماں باپ کی ایسی ہی بدعا کے لئے فرماتے ہیں کہ رد نہیں ہوتی ۔والعیاذ باللہ تعالیٰ سبحانہ وتعالی ۔ما ظہرلی واللہ تعالیٰ اعلم۔
اس دونوں حدیث مسلم اور دیلمی کے تحت
امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:
بدعا دو طور پر ہوتی ہے۔
(1) ایک یہ کہ داعی کا قلب حقیقۃ اس کا یہ ضرر نہیں چاہتا ۔یہاں تک کہ اگر واقع ہوتو سخت صدمہ میں گرفتا ۔جیسے ماں باپ غصے میں اپنی اولاد کو کوس لیتے ہیں کہ لپ ۔مگر دل اس کا مرنا یا تباہ ہونا نہیں چاہتے ۔اور اگر ایسا ہوتا اس پر ان سے زیادہ بے چین ہونے والا کوئی نہیں ۔دیلمی کی حدیث میں اسی قسم بدعا کے لئے وارد کہ حضور رؤف رحیم رحمۃ للعالمین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا مقبول نہ ہونا اللہ تعالیٰ سے مانگا ۔نظیر اس کی وہ حدیث صحیح ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کی : الہی میں بشر ہوں ۔بشر کی طرح غضب فرماتا ہوں ۔توجسے میں لعنت کروں یا بدعا دوں اسے تو اس کے حق میں کفارہ و اجر و باعث طہارت کر ۔
(2) دوسری اس نے خلاف کہ داعی کا دل حقیقۃ اس سے بے زار اور اس کے اس ضرر کا خواست گار ہے ۔اور یہ بات ماں باپ کو معاذ اللہ اسی وقت ہوگی جب اولاد اپنی شقاوت سے عقوق کو اس درجہ سے نیچے گرا دے کہ ان کا دل واقعی اس کی طرف سے سیاہ ہو جائے ۔اور اصلا محبت نام کو نہ رہے ۔بلکہ عداوت آجائے ماں باپ کی ایسی ہی بدعا کے لئے فرماتے ہیں کہ رد نہیں ہوتی ۔والعیاذ باللہ تعالیٰ سبحانہ وتعالی ۔ما ظہرلی واللہ تعالیٰ اعلم۔
(احسن الوعا لاداب الدعا اور ذیل المدعا لاحسن الوعا ص 67)
جو اپنے پیر و مرشد ۔استاد ماں باپ اور اپنے محسن یعنی جو احسان کرتا رہتا ہے یعنی بھلائی کرتا ہے ان سب کا شکریہ ادا نہ کیا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکریہ ادانہ کیا
ان تمام کی ناشکری جو کہ خوفناک بلا اور تباہ کن بیماری ہے اور نعمتوں ۔علم کی برکتوں کو ختم کرنے والی ہے اگر ان محسن کا شکریہ ادا کرتا رہے گا تو نعمتوں کی دولت سے مالا مال ہوگا حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
یشکر الناس کم یشکر اللہ۔
جو اپنے پیر و مرشد ۔استاد ماں باپ اور اپنے محسن یعنی جو احسان کرتا رہتا ہے یعنی بھلائی کرتا ہے ان سب کا شکریہ ادا نہ کیا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکریہ ادانہ کیا
ان تمام کی ناشکری جو کہ خوفناک بلا اور تباہ کن بیماری ہے اور نعمتوں ۔علم کی برکتوں کو ختم کرنے والی ہے اگر ان محسن کا شکریہ ادا کرتا رہے گا تو نعمتوں کی دولت سے مالا مال ہوگا حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
یشکر الناس کم یشکر اللہ۔
یعنی جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے اللہ تعالٰی کا شکریہ ادا نہیں کیا ۔ اور جس کے ساتھ کوئی بھلائی کیا یا کسی پر کوئی احسان کیا یا کسی کے دکھ میں کوئی ساتھ دیا اور ان سب کو چھپایا تو وہ بہت بڑا ناشکرا ہے
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
من اولی معروفا فلم یجدلہ جزاء آلا الثناء فقد شکریہ۔
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
من اولی معروفا فلم یجدلہ جزاء آلا الثناء فقد شکریہ۔
یعنی جس کے ساتھ نیکی کی گئی وہ سوائے تعریف کے محسن کے لئے کچھ نہ کرسکا تو اس نے اس کا شکریہ ادا کردیا ۔اور جس نے اس احسان کو چھپایا وہ کافر نعمت (یعنی ناشکرہ) ہوا۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 24 ص 416)
مسلمانوں پر لعنت کرنا
کسی مسلمان پر لعنت و ملامت نہ کرے اور اسے مردود و ملعون نہ کہے ۔بلکہ مچھر اور ہوا ۔اور جمادات و حیوانات پر بھی لعنت ممنوع ہے ۔ ایک حدیث میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:مسلمان بہت طعن کرنے والا اور لعن کرنے والا اور فحش بے ہودہ بکنے والا نہیں ہوتا
دوسری حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے
ہیں لا یکون اللعانون شفعاہ ولا شھداء یوم القیمۃ
مسلمانوں پر لعنت کرنا
کسی مسلمان پر لعنت و ملامت نہ کرے اور اسے مردود و ملعون نہ کہے ۔بلکہ مچھر اور ہوا ۔اور جمادات و حیوانات پر بھی لعنت ممنوع ہے ۔ ایک حدیث میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:مسلمان بہت طعن کرنے والا اور لعن کرنے والا اور فحش بے ہودہ بکنے والا نہیں ہوتا
دوسری حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے
ہیں لا یکون اللعانون شفعاہ ولا شھداء یوم القیمۃ
یعنی قیامت کے روز لعنت کرنے والے کسی کی شفاعت کرنے والے اور کسی کی گواہی دینے والے نہ ہوں گے (نہ انہیں اذن شفاعت نہ اس کی گواہی قبول ہوگی۔
(الترغیب والترہیب جلد اول ص 369 اسے مسلم اور ابو داؤد نے روایت کیا ابوداد نے یوم القیامۃ کے الفاظ نہیں ذکر کئے)
تیسری حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: مسلمان کی لعنت مثل اس کے قتل کے ہے حدیث میں ہے ولعن المؤمن کقتلہ یعنی اور مومن آدمی پر لعنت کرنا اسے قتل کردینے کے مترادف ہے۔
تیسری حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: مسلمان کی لعنت مثل اس کے قتل کے ہے حدیث میں ہے ولعن المؤمن کقتلہ یعنی اور مومن آدمی پر لعنت کرنا اسے قتل کردینے کے مترادف ہے۔
(الترغیب والترہیب جلد اول ص 356. اسے بخاری و مسلم نے روایت کیا)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
لایکون المؤمن لعانا
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
لایکون المؤمن لعانا
یعنی مومن بندہ لعنت ملامت کرنے والا نہیں ہوا کرتا۔
(اسے ترمذی نے روایت کیا)
جس پر لعنت کی گئی اگر وہ قابل لعنت نہیں تو لعنت خود کہنے والے پر لوٹ آتی ہے۔
یعنی یہ لفظ اور اسی طرح ہر لفظ دونوں میں سے کسی ایک طرف ضرور لوٹے گا
چوتھی حدیث میں ہے: حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جب بندہ کسی پر لعنت کرتا ہے وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے ۔اسمان کے دروازے بند ہوجاتے ہیں کہ یہاں تیری جگہ نہیں ۔پھر زمین کی طرف اترتی ہے ۔اس کے دروازے بھی بند ہوجاتے ہیں کہ یہاں تیری جگہ نہیں ۔پھر دہنے بائیں پھرتی ہے جب کہیں ٹھکانہ نہیں پاتی ۔اگر جس پر لعنت کی لعنت کے لائق ہے تو اس پر جاتی ہے فان کان اھلا و الا رجعت الی قائلھا یعنی اگر وہ اس کا اہل ہے تو ٹھیک ہے ورنہ لعنت کہنے والے کی طرف واپس آجاتی ہے (یعنی اسی پر پڑتی ہے۔
جس پر لعنت کی گئی اگر وہ قابل لعنت نہیں تو لعنت خود کہنے والے پر لوٹ آتی ہے۔
یعنی یہ لفظ اور اسی طرح ہر لفظ دونوں میں سے کسی ایک طرف ضرور لوٹے گا
چوتھی حدیث میں ہے: حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جب بندہ کسی پر لعنت کرتا ہے وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے ۔اسمان کے دروازے بند ہوجاتے ہیں کہ یہاں تیری جگہ نہیں ۔پھر زمین کی طرف اترتی ہے ۔اس کے دروازے بھی بند ہوجاتے ہیں کہ یہاں تیری جگہ نہیں ۔پھر دہنے بائیں پھرتی ہے جب کہیں ٹھکانہ نہیں پاتی ۔اگر جس پر لعنت کی لعنت کے لائق ہے تو اس پر جاتی ہے فان کان اھلا و الا رجعت الی قائلھا یعنی اگر وہ اس کا اہل ہے تو ٹھیک ہے ورنہ لعنت کہنے والے کی طرف واپس آجاتی ہے (یعنی اسی پر پڑتی ہے۔
(الترغیب والترہیب جلد اول ص 360 اسے ابوداؤد نے روایت کیا)
امام عبداللہ یافعی یمنی :مراۃ الجنان: میں فرماتے ہیں:کسی مسلمان پر لعنت اصلا جائز نہیں ۔اور جو کسی مسلمان پر لعنت کرے وہ ملعون ہے
(احسن الوعا لاداب الدعا ص 58.59.61)
بس ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر نہ لعنت کرے نہ بدعا کرے اگر کرتا ہے تو وہ خود ہلاک ہوگیا حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
لا تلاعنوا بلعنۃ اللہ ولا بغضبہ ولابالنار۔
امام عبداللہ یافعی یمنی :مراۃ الجنان: میں فرماتے ہیں:کسی مسلمان پر لعنت اصلا جائز نہیں ۔اور جو کسی مسلمان پر لعنت کرے وہ ملعون ہے
(احسن الوعا لاداب الدعا ص 58.59.61)
بس ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر نہ لعنت کرے نہ بدعا کرے اگر کرتا ہے تو وہ خود ہلاک ہوگیا حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
لا تلاعنوا بلعنۃ اللہ ولا بغضبہ ولابالنار۔
یعنی ایک دوسرے کو اللہ کی لعنت ۔اس کی غضب اور دوزخ کی بدعائیں نہ کرو
یاد رکھوں مسلمانوں پر لعنت کرنے والا گناہ کبیرہ کے ایک دروازے میں داخل ہوگیا۔
یاد رکھوں مسلمانوں پر لعنت کرنے والا گناہ کبیرہ کے ایک دروازے میں داخل ہوگیا۔
(اسے طبرانی نے جید اسناد کے ساتھ روایت کیا)
مسلم بھائی کی بے عزتی کرنا
حضرت براء بن عازب رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سود کے بہتر (72) درجے ہیں ۔ان میں کم تردرجہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں کے ساتھ زنا کرے ۔
وان اربی الرباء استطالۃ الرجل فی عرض اخیہ اور سب سے بڑھ کر سود یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کی عزت کو خراب کرے (اسے طبرانی نے اوسط میں روایت کیا)
مسلمانوں ! اس حدیث کو غور سے پڑھیں کہ جب کم درجے کے سود کا گناہ تو ماں کے ساتھ بدکاری کرنے کے برابر ہے تو سب سے بڑھ کر گناہ کتنا ہوگا اسی لئے کسی کی غیبت نہ کرے کسی پر عیب نہ لگائے کسی کی توہین نہ کرے یعنی ہر وہ کام نہ کرے جس سے کسی مسلم کی بے عزتی ہو۔ حدیث شریف میں ہے
کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و عرضہ و مالہ۔
مسلم بھائی کی بے عزتی کرنا
حضرت براء بن عازب رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سود کے بہتر (72) درجے ہیں ۔ان میں کم تردرجہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں کے ساتھ زنا کرے ۔
وان اربی الرباء استطالۃ الرجل فی عرض اخیہ اور سب سے بڑھ کر سود یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کی عزت کو خراب کرے (اسے طبرانی نے اوسط میں روایت کیا)
مسلمانوں ! اس حدیث کو غور سے پڑھیں کہ جب کم درجے کے سود کا گناہ تو ماں کے ساتھ بدکاری کرنے کے برابر ہے تو سب سے بڑھ کر گناہ کتنا ہوگا اسی لئے کسی کی غیبت نہ کرے کسی پر عیب نہ لگائے کسی کی توہین نہ کرے یعنی ہر وہ کام نہ کرے جس سے کسی مسلم کی بے عزتی ہو۔ حدیث شریف میں ہے
کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و عرضہ و مالہ۔
یعنی ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون عزت اور اس کا مال حرام ہے (اسے مسلم و ترمذی نے ایک حدیث میں روایت کیا ہے)
بلکہ کوئی کسی مسلم کی غیبت کر رہا ہو یا کسی پر بہتان لگا رہا ہو یاکسی کو برا کہ رہا ہو یاکسی کی بے عزتی کرنے کی کوشش کررہا ہو اس کو سمجھا کر منع کردے حدیث شریف میں ہے:
من رد عن عرض اخیہ رد اللہ عن وجھہ النار یوم القیامہ۔
بلکہ کوئی کسی مسلم کی غیبت کر رہا ہو یا کسی پر بہتان لگا رہا ہو یاکسی کو برا کہ رہا ہو یاکسی کی بے عزتی کرنے کی کوشش کررہا ہو اس کو سمجھا کر منع کردے حدیث شریف میں ہے:
من رد عن عرض اخیہ رد اللہ عن وجھہ النار یوم القیامہ۔
یعنی جس نے اپنے بھائی کی عزت بچانے کی کوشش کی قیامت کے دن آللہ تعالیٰ اس کے سامنے سے دوزخ کی آگ دور فرمادے گا (اسے ترمذی ابن ابی الدنیا نے روایت کیا اور ابو الشیخ نے کتاب التوبیخ میں روایت کیا ابوالشیچ کے الفاظ اس طرح سے ہیں : جس نے اپنے بھائی کی عزت کا بچاؤ کیا ۔قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس سے عذاب جہنم دور فرمادے گا
کسی مسلم بھائی پر بہتان لگانا
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: جس نے کسی منافق کے مقابل کسی مومن کی حمایت کی ۔راوی فرماتے ہیں ہیں کہ میرا خیال ہے :
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: جس نے کسی منافق کے مقابل کسی مومن کی حمایت کی ۔راوی فرماتے ہیں ہیں کہ میرا خیال ہے :
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے یوں فرمایا :
بعث اللہ ملکا یحمی لحمہ یوم القیامۃ من نار جھنم۔
بعث اللہ ملکا یحمی لحمہ یوم القیامۃ من نار جھنم۔
یعنی اللہ تعالیٰ ایک فرشتے بھیجے گا جو اس کے جسم کو دوزخ کی آگ سے بچائے گا ۔اور جس نے کسی مسلمان پر اسے ذلیل کرنے کی غرض سے بہتان لگایا ۔تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم کے پل پر اس وقت تک روکے رکھے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نکل نہ آئے (یعنی جب تک وہ بہتان ثابت نہ کردے اور یہ وہ ثابت نہیں کرسکے گا یہاں تک کہ اپنی کہی ہوئی بات کی سزا نہ اٹھالے)
(الترغیب والترہیب جلد اول مترجم ص 385 اسے ابو داؤد اور ابن ابی الدنیا نے روایت کیا)
فصل ثانی
اپنی محتاجی کی شکایت لوگوں سے نہ کرو
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم:جس شخص کو کوئی فاقہ درپیش ہو اور اس نے لوگوں کے سامنے پیش کیا تو اس کا یہ فاقہ ختم نہیں ہوگا ۔اور جسے فاقہ پہنچا ۔اس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا تو جلد یا بدیر اللہ تعالیٰ اس کو رزق ارزانی فرمائے گا۔
(الترغیب والترہیب جلد اول مترجم ص 385 اسے ابو داؤد اور ابن ابی الدنیا نے روایت کیا)
فصل ثانی
اپنی محتاجی کی شکایت لوگوں سے نہ کرو
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم:جس شخص کو کوئی فاقہ درپیش ہو اور اس نے لوگوں کے سامنے پیش کیا تو اس کا یہ فاقہ ختم نہیں ہوگا ۔اور جسے فاقہ پہنچا ۔اس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا تو جلد یا بدیر اللہ تعالیٰ اس کو رزق ارزانی فرمائے گا۔
(الترغیب والترہیب جلد دوم مترجم ص 322)
اسے ابو داؤد اور ترمذی نے روایت فرمایا ۔ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ثابت ہے ۔حاکم نے بھی اسے روایت کیا اور کہا کہ یہ صحیح الاسناد ہے ۔مگر اس میں یہ الفاظ ہیں ۔
ارسل اللہ لہ بالغنی اما بموت عاجل او غنی اجل ۔اللہ تعالیٰ اس کے لئے بے نیازی کے سامان کردے گا ۔یا جلدی موت دے کر یا کچھ عرصہ بعد رزق دے کر
حضرت ابو ہریرہ رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جسے بھوک ہنچی یا محتاجی ہوگیا تو اس نے لوگوں سے چھپایا اور اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم ہے کہ اس کے لئے ایک سال تک حلال روزی کے دروازے کھول دے۔
اسے ابو داؤد اور ترمذی نے روایت فرمایا ۔ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ثابت ہے ۔حاکم نے بھی اسے روایت کیا اور کہا کہ یہ صحیح الاسناد ہے ۔مگر اس میں یہ الفاظ ہیں ۔
ارسل اللہ لہ بالغنی اما بموت عاجل او غنی اجل ۔اللہ تعالیٰ اس کے لئے بے نیازی کے سامان کردے گا ۔یا جلدی موت دے کر یا کچھ عرصہ بعد رزق دے کر
حضرت ابو ہریرہ رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جسے بھوک ہنچی یا محتاجی ہوگیا تو اس نے لوگوں سے چھپایا اور اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم ہے کہ اس کے لئے ایک سال تک حلال روزی کے دروازے کھول دے۔
(الترغیب والترہیب مترجم جلد دوم ص 322)
فصل ثالث
فصل ثالث
کیا کسی مسلم پر کسی کا قرض باقی ہے اور وہ نہیں دیتا ہے بار بار وعدہ کرکے ٹال مٹول کردیتا ہے ایسے شخص کے ساتھ قرض دینے والا برا بھلا کہتا ہے تو کیا وہ گنہگار ہوگا؟
الجواب بعون الملک الوہاب العلیم الخبیر وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
قرض حسنہ یعنی بغیر منافع طے کئے دینا صدقہ ہے اور قرض لینے والے کو حسب وعدہ واپس کرنا ضروری ہے حدیث میں قال صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم علی الید ما اخذت حتی تردھا ۔رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ہاتھ پر وہ چیز واجب ہے جو اس نے لی حتی کہ ادا کردے۔
الجواب بعون الملک الوہاب العلیم الخبیر وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
قرض حسنہ یعنی بغیر منافع طے کئے دینا صدقہ ہے اور قرض لینے والے کو حسب وعدہ واپس کرنا ضروری ہے حدیث میں قال صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم علی الید ما اخذت حتی تردھا ۔رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ہاتھ پر وہ چیز واجب ہے جو اس نے لی حتی کہ ادا کردے۔
(جامع ترمذی جلد اول ص 152)
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
اگر یہاں نہیں دیا تو روز قیامت اس کو اپنی نیکیاں میں سے دینا ہوگا قرض نہ واپس کرنے والے کا کتنا نقصان ہوگا وہ اس حدیث شریف سے اندازہ لگائیں
تین پیسہ قرض کے بدلے سات سو نمازیں باجماعت ان کے مطالبہ میں دی جائیں گی۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
اگر یہاں نہیں دیا تو روز قیامت اس کو اپنی نیکیاں میں سے دینا ہوگا قرض نہ واپس کرنے والے کا کتنا نقصان ہوگا وہ اس حدیث شریف سے اندازہ لگائیں
تین پیسہ قرض کے بدلے سات سو نمازیں باجماعت ان کے مطالبہ میں دی جائیں گی۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 25ص69)
جب تین پیسہ کے بدلے میں سات سو باجماعت نمازیں دی جائیں گی تو ایک روپیہ کا حساب لگالیا جائے پھر ایک سو روپے کا پھر ایک ہزار روپے کا اسی طرح جتنا باقی ہے اس پر قیاس کرلیں اور اپنے اعمال پر نگاہ ڈالیں کہ کیا اس قدر باجماعت میں نے نماز پڑھی ہیں یا نہیں ؟منفرد پڑھیں ہوئی نمازیں نہیں بلکہ جماعت کے ساتھ پڑھیں ہوئیں نمازیں
خیر صورت مسئولہ میں قرض واپس کرنے کا وعدہ کر کر کے نہیں دینا حرام ہے چونکہ قاعدہ ہے خلف الوعد حرام۔
خیر صورت مسئولہ میں قرض واپس کرنے کا وعدہ کر کر کے نہیں دینا حرام ہے چونکہ قاعدہ ہے خلف الوعد حرام۔
وعدہ جھوٹا کرنا حرام ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
یایھا الذین آمنوا اوفوا بالعقود۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
یایھا الذین آمنوا اوفوا بالعقود۔
اے ایمان والوں ! وعدے پوری کرو ۔(القرآن الکریم 1/5.
۔اور دوسری بات یہ ہے کہ وعدہ خلافی کرنا منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے
حدیث میں ہے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ایۃ المنافق ثلث اذا احدث کذب و اذا وعدا خلف واذا اتمن خان۔
۔اور دوسری بات یہ ہے کہ وعدہ خلافی کرنا منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے
حدیث میں ہے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ایۃ المنافق ثلث اذا احدث کذب و اذا وعدا خلف واذا اتمن خان۔
یعنی منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔جب بات کرے جھوٹ کہے ۔اور جب وعدہ کرے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے ۔
(صحیح بخاری شریف جلد اول کتاب الایمان)
جس پر قرض باقی ہو اسے برا بھلا کہنا جائز ہے
جو شخص قرض لے کر نہیں دیتا ہے ۔وعدہ کرکے بھی وقت مقرر پر نہیں دیتا ہے کبھی کہتا ہے انشاء اللہ خدا تعالیٰ ادا کردے گا کبھی کہتا ہے وعدہ کرلینا میرا کام ہے اور پورا کرنا اللہ تعالٰی کا کام ہے طرح طرح کے بہانہ بناتے ہیں اور قرض واپس نہیں کرتا اس طرح کے سوال کے جواب میں سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں ۔: لی الواجد یحل عرضہ ہاتھ ہنچتے ہوئے کا ادائے دین سے سرتابی کرنا اس کی آبرو کو حلال کردیتا ہے یعنی اسے برا کہنا اس پر طعن و تشنیع کرنا جائز ہے اور غنی کو دیر لگانا ظلم ہے (فتاوی رضویہ جلد جدید 25ص 69)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر وہ قرض دار غنی ہے پھر بھی قرض واپس نہیں کرتا ہے تو اس کا یہ فعل ظلم ہے اور کوئی تنگ دست ہے وہ وعدہ کرکے نہ دیتا ہے تو یہ دونوں کی آبرو قر ض دینے والے کے لئے حلال ہے یعنی اسے برا بھلا کہ سکتا ہے زبردستی کرسکتا ہے اس پر طعن و تشنیع کرسکتا ہے وہ گنہگار نہیں ہوگا جبکہ ایک دوسرے مومن کی عزت و خون ایک دوسرے کے لئے حرام ہے یعنی اس کو برا بھلا کہنا ناجائز و حرام ہے لیکن یہ قرض کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے اس کو بے آبرو کرنا جائز ہوجاتا ہے اور دائن یعنی قرض دینے والے کا دین یعنی قرض مار لینا حرام ہے اور قرض مارنے والے کے حق میں وہ روپیہ و سامان سب حرام و خبیث ہے کیونکہ قرض واجب الاعادہ ہوتا ہے ۔
یہ سوال کا اصل جواب ہے
تنگ دست مقروض پر آسانی کرنا ۔ سہولت دینا اور کچھ تھوڑا بہت قرضہ چھوڑ دینا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم: جو بندہ کسی تنگ دست پر آسانی کرتا ہے
یسراللہ فی الدنیا والآخرۃ۔
جس پر قرض باقی ہو اسے برا بھلا کہنا جائز ہے
جو شخص قرض لے کر نہیں دیتا ہے ۔وعدہ کرکے بھی وقت مقرر پر نہیں دیتا ہے کبھی کہتا ہے انشاء اللہ خدا تعالیٰ ادا کردے گا کبھی کہتا ہے وعدہ کرلینا میرا کام ہے اور پورا کرنا اللہ تعالٰی کا کام ہے طرح طرح کے بہانہ بناتے ہیں اور قرض واپس نہیں کرتا اس طرح کے سوال کے جواب میں سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں ۔: لی الواجد یحل عرضہ ہاتھ ہنچتے ہوئے کا ادائے دین سے سرتابی کرنا اس کی آبرو کو حلال کردیتا ہے یعنی اسے برا کہنا اس پر طعن و تشنیع کرنا جائز ہے اور غنی کو دیر لگانا ظلم ہے (فتاوی رضویہ جلد جدید 25ص 69)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر وہ قرض دار غنی ہے پھر بھی قرض واپس نہیں کرتا ہے تو اس کا یہ فعل ظلم ہے اور کوئی تنگ دست ہے وہ وعدہ کرکے نہ دیتا ہے تو یہ دونوں کی آبرو قر ض دینے والے کے لئے حلال ہے یعنی اسے برا بھلا کہ سکتا ہے زبردستی کرسکتا ہے اس پر طعن و تشنیع کرسکتا ہے وہ گنہگار نہیں ہوگا جبکہ ایک دوسرے مومن کی عزت و خون ایک دوسرے کے لئے حرام ہے یعنی اس کو برا بھلا کہنا ناجائز و حرام ہے لیکن یہ قرض کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے اس کو بے آبرو کرنا جائز ہوجاتا ہے اور دائن یعنی قرض دینے والے کا دین یعنی قرض مار لینا حرام ہے اور قرض مارنے والے کے حق میں وہ روپیہ و سامان سب حرام و خبیث ہے کیونکہ قرض واجب الاعادہ ہوتا ہے ۔
یہ سوال کا اصل جواب ہے
تنگ دست مقروض پر آسانی کرنا ۔ سہولت دینا اور کچھ تھوڑا بہت قرضہ چھوڑ دینا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم: جو بندہ کسی تنگ دست پر آسانی کرتا ہے
یسراللہ فی الدنیا والآخرۃ۔
اللہ تعالیٰ اس پر دنیا و آخرت میں آسانی کرتا ہے
مقروض کو مہلت دینے والے کو دوگنا ثواب ملتا ہے۔
حضرت بریدہ رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا: جو شخص تنگ دست مقروض کو قرض وصول کرنے میں مہلت دے اس کے لئے روزانہ قرض کے برابر صدقہ کرنے کا ثواب ہے ۔پھر ایک دن میں نے سنا آپ فرمارہے تھے : جو تنگ دست کو مہلت دے ۔اس کے لئے قرض سے دوگنا روزانہ صدقہ کرنے کا ثواب ہے
رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :قرضہ وصول کرنے کا ثواب اور جب وصولی کا وقت آپہنچے ۔پھر مہلت دے دے تو ایسے شخص کے لئے قرض سے دوگناہ روزانہ صدقہ کرنے کا ثواب ہے (اسے حاکم نے روایت کیا ہے)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ وہ قرض دیا تو اسے اس صدقہ کا ثواب اسے ملا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
کل قرض صدقہ۔
مقروض کو مہلت دینے والے کو دوگنا ثواب ملتا ہے۔
حضرت بریدہ رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا: جو شخص تنگ دست مقروض کو قرض وصول کرنے میں مہلت دے اس کے لئے روزانہ قرض کے برابر صدقہ کرنے کا ثواب ہے ۔پھر ایک دن میں نے سنا آپ فرمارہے تھے : جو تنگ دست کو مہلت دے ۔اس کے لئے قرض سے دوگنا روزانہ صدقہ کرنے کا ثواب ہے
رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :قرضہ وصول کرنے کا ثواب اور جب وصولی کا وقت آپہنچے ۔پھر مہلت دے دے تو ایسے شخص کے لئے قرض سے دوگناہ روزانہ صدقہ کرنے کا ثواب ہے (اسے حاکم نے روایت کیا ہے)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ وہ قرض دیا تو اسے اس صدقہ کا ثواب اسے ملا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
کل قرض صدقہ۔
یعنی ہر قرض صدقہ ہے حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے راوی ہے کہ آپ نے فرمایا:ایک آدمی جنت میں داخل ہوا تو اس نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا :
الصدقۃ بعشر امثالھا والقرض بشمانیۃ عشر۔
الصدقۃ بعشر امثالھا والقرض بشمانیۃ عشر۔
صدقہ کا دس گنا ثواب ہے اور قرض دینے کا اٹھارہ گناہ ثواب ہے ۔اور جب مقروض جو وقت قرض واپس کرنے کا وقت دیا تو اس دن وہ قرض وصول کرنے گیا تو اس کا ثواب اسے ملا اور اس مقروض نے کسی مجبوری کی وجہ سے اس دن قرض واپس نہیں کیا اور اس نے اسے مہلت دے دی پھر اس کا بھی اسے ہر روز دوگنا ثواب ملتا رہے گا جس نے کسی شخص تنگ دست پر دنیا میں آسانی کی ۔اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی فرمائے گا ۔
حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے کسی مقروض کو طلب کیا تو وہ چھپ گیا ۔پھر ایک دن اسے پالیا (ملاقات ہوگئی) وہ کہنے لگا کہ بہت تنگ دست ہوں (ابھی قرض واپس نہیں کرسکتا ہے) حضرت قتادہ نے کہا کیا اللہ کی قسم ؟اس نے جواب دیا : ہاں اللہ کی قسم ۔ قتادہ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے
من سرہ ان ینجیہ اللہ من کرب یوم القیامۃ فلینفس عن معسر اویضع عنہ۔
حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے کسی مقروض کو طلب کیا تو وہ چھپ گیا ۔پھر ایک دن اسے پالیا (ملاقات ہوگئی) وہ کہنے لگا کہ بہت تنگ دست ہوں (ابھی قرض واپس نہیں کرسکتا ہے) حضرت قتادہ نے کہا کیا اللہ کی قسم ؟اس نے جواب دیا : ہاں اللہ کی قسم ۔ قتادہ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے
من سرہ ان ینجیہ اللہ من کرب یوم القیامۃ فلینفس عن معسر اویضع عنہ۔
جسے یہ اچھا لگتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی سختیوں سے نجات عطا فرمائے ۔اسے تنگ دست پر آسانی کرنا چاہیئے یا قرض کا بوجھ اتار دینا چاہئے (یعنی معاف کر دینا چاہیے) ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:جسے یہ بات اچھی لگتی ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے روز قیامت کی سختیوں سے نجات عطا کرے اور اپنے عرش کے نیچے اسے سایہ عطا فرمائے تو اسے چاہیئے کہ تنگ دست کو مہلت دے
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کی روح کو (بعد از مرگ) فرشتے ملے اس نے پوچھا : تو نے کوئی نیک عمل کیا ؟ اس نے جواب دیا : نہیں ۔فرشتوں نے کہا : یاد کر ۔وہ بولا : میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور میں نے اپنے کام کرنے والے کو حکم۔ دیا تھا کہ وہ تنگ دست کو مہلت دیا کریں اور کھاتے پیتے لوگوں سے درگزر کیا کریں ۔حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے فرشتوں تجاوزوا عنہ اس سے درگزر کرو ۔ہم نے اس کی مغفرت فرمادی ۔
فصل چہارم
کیا کسی مسلم پر کسی کا قرض باقی ہے اور وہ نہیں دیتا ہے بار بار وعدہ کرکے ٹال مٹول کردیتا ہے ایسے شخص کے ساتھ قرض دینے والا برا بھلا کہتا ہے تو کیا وہ گنہگار ہوگا؟
الجواب بعون الملک الوہاب العلیم الخبیر وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
قرض حسنہ یعنی بغیر منافع طے کئے دینا صدقہ ہے اور قرض لینے والے کو حسب وعدہ واپس کرنا ضروری ہے حدیث میں قال صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم علی الید ما اخذت حتی تردھا رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ہاتھ پر وہ چیز واجب ہے جو اس نے لی حتی کہ ادا کردے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کی روح کو (بعد از مرگ) فرشتے ملے اس نے پوچھا : تو نے کوئی نیک عمل کیا ؟ اس نے جواب دیا : نہیں ۔فرشتوں نے کہا : یاد کر ۔وہ بولا : میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور میں نے اپنے کام کرنے والے کو حکم۔ دیا تھا کہ وہ تنگ دست کو مہلت دیا کریں اور کھاتے پیتے لوگوں سے درگزر کیا کریں ۔حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے فرشتوں تجاوزوا عنہ اس سے درگزر کرو ۔ہم نے اس کی مغفرت فرمادی ۔
فصل چہارم
کیا کسی مسلم پر کسی کا قرض باقی ہے اور وہ نہیں دیتا ہے بار بار وعدہ کرکے ٹال مٹول کردیتا ہے ایسے شخص کے ساتھ قرض دینے والا برا بھلا کہتا ہے تو کیا وہ گنہگار ہوگا؟
الجواب بعون الملک الوہاب العلیم الخبیر وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
قرض حسنہ یعنی بغیر منافع طے کئے دینا صدقہ ہے اور قرض لینے والے کو حسب وعدہ واپس کرنا ضروری ہے حدیث میں قال صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم علی الید ما اخذت حتی تردھا رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ہاتھ پر وہ چیز واجب ہے جو اس نے لی حتی کہ ادا کردے۔
(جامع ترمذی جلد اول ص 152)
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
اگر یہاں نہیں دیا تو روز قیامت اس کو اپنی نیکیاں میں سے دینا ہوگا قرض نہ واپس کرنے والے کا کتنا نقصان ہوگا وہ اس حدیث شریف سے اندازہ لگائیں
تین پیسہ قرض کے بدلے سات سو نمازیں باجماعت ان کے مطالبہ میں دی جائیں گی۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
اگر یہاں نہیں دیا تو روز قیامت اس کو اپنی نیکیاں میں سے دینا ہوگا قرض نہ واپس کرنے والے کا کتنا نقصان ہوگا وہ اس حدیث شریف سے اندازہ لگائیں
تین پیسہ قرض کے بدلے سات سو نمازیں باجماعت ان کے مطالبہ میں دی جائیں گی۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 25ص69)
جب تین پیسہ کے بدلے میں سات سو باجماعت نمازیں دی جائیں گی تو ایک روپیہ کا حساب لگالیا جائے پھر ایک سو روپے کا پھر ایک ہزار روپے کا اسی طرح جتنا باقی ہے اس پر قیاس کرلیں اور اپنے اعمال پر نگاہ ڈالیں کہ کیا اس قدر باجماعت میں نے نماز پڑھی ہیں یا نہیں ؟منفرد پڑھیں ہوئی نمازیں نہیں بلکہ جماعت کے ساتھ پڑھیں ہوئیں نمازیں
خیر صورت مسئولہ میں قرض واپس کرنے کا وعدہ کر کر کے نہیں دینا حرام ہے چونکہ قاعدہ ہے خلف الوعد حرام وعدہ جھوٹا کرنا حرام ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
یایھا الذین آمنوا اوفوا بالعقود
خیر صورت مسئولہ میں قرض واپس کرنے کا وعدہ کر کر کے نہیں دینا حرام ہے چونکہ قاعدہ ہے خلف الوعد حرام وعدہ جھوٹا کرنا حرام ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
یایھا الذین آمنوا اوفوا بالعقود
اے ایمان والوں ! وعدے پوری کرو ۔
(القرآن الکریم 1/5)
۔اور دوسری بات یہ ہے کہ وعدہ خلافی کرنا منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے
حدیث میں ہے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ایۃ المنافق ثلث اذا احدث کذب و اذا وعدا خلف واذا اتمن خان یعنی منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔جب بات کرے جھوٹ کہے ۔اور جب وعدہ کرے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔
۔اور دوسری بات یہ ہے کہ وعدہ خلافی کرنا منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے
حدیث میں ہے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ایۃ المنافق ثلث اذا احدث کذب و اذا وعدا خلف واذا اتمن خان یعنی منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔جب بات کرے جھوٹ کہے ۔اور جب وعدہ کرے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔
(صحیح بخاری شریف جلد اول کتاب الایمان)
جس پر قرض باقی ہو اسے برا بھلا کہنا جائز ہے
جو شخص قرض لے کر نہیں دیتا ہے ۔وعدہ کرکے بھی وقت مقرر پر نہیں دیتا ہے کبھی کہتا ہے انشاء اللہ خدا تعالیٰ ادا کردے گا کبھی کہتا ہے وعدہ کرلینا میرا کام ہے اور پورا کرنا اللہ تعالٰی کا کام ہے طرح طرح کے بہانہ بناتے ہیں اور قرض واپس نہیں کرتا اس طرح کے سوال کے جواب میں سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں ۔: لی الواجد یحل عرضہ ہاتھ ہنچتے ہوئے کا ادائے دین سے سرتابی کرنا اس کی آبرو کو حلال کردیتا ہے یعنی اسے برا کہنا اس پر طعن و تشنیع کرنا جائز ہے اور غنی کو دیر لگانا ظلم ہے
جس پر قرض باقی ہو اسے برا بھلا کہنا جائز ہے
جو شخص قرض لے کر نہیں دیتا ہے ۔وعدہ کرکے بھی وقت مقرر پر نہیں دیتا ہے کبھی کہتا ہے انشاء اللہ خدا تعالیٰ ادا کردے گا کبھی کہتا ہے وعدہ کرلینا میرا کام ہے اور پورا کرنا اللہ تعالٰی کا کام ہے طرح طرح کے بہانہ بناتے ہیں اور قرض واپس نہیں کرتا اس طرح کے سوال کے جواب میں سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں ۔: لی الواجد یحل عرضہ ہاتھ ہنچتے ہوئے کا ادائے دین سے سرتابی کرنا اس کی آبرو کو حلال کردیتا ہے یعنی اسے برا کہنا اس پر طعن و تشنیع کرنا جائز ہے اور غنی کو دیر لگانا ظلم ہے
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 25ص 69)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر وہ قرض دار غنی ہے پھر بھی قرض واپس نہیں کرتا ہے تو اس کا یہ فعل ظلم ہے اور کوئی تنگ دست ہے وہ وعدہ کرکے نہ دیتا ہے تو یہ دونوں کی آبرو قر ض دینے والے کے لئے حلال ہے یعنی اسے برا بھلا کہ سکتا ہے زبردستی کرسکتا ہے اس پر طعن و تشنیع کرسکتا ہے وہ گنہگار نہیں ہوگا جبکہ ایک دوسرے مومن کی عزت و خون ایک دوسرے کے لئے حرام ہے یعنی اس کو برا بھلا کہنا ناجائز و حرام ہے لیکن یہ قرض کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے اس کو بے آبرو کرنا جائز ہوجاتا ہے اور دائن یعنی قرض دینے والے کا دین یعنی قرض مار لینا حرام ہے اور قرض مارنے والے کے حق میں وہ روپیہ و سامان سب حرام و خبیث ہے کیونکہ قرض واجب الاعادہ ہوتا ہے ۔
یہ سوال کا اصل جواب ہے
تنگ دست مقروض پر آسانی کرنا ۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر وہ قرض دار غنی ہے پھر بھی قرض واپس نہیں کرتا ہے تو اس کا یہ فعل ظلم ہے اور کوئی تنگ دست ہے وہ وعدہ کرکے نہ دیتا ہے تو یہ دونوں کی آبرو قر ض دینے والے کے لئے حلال ہے یعنی اسے برا بھلا کہ سکتا ہے زبردستی کرسکتا ہے اس پر طعن و تشنیع کرسکتا ہے وہ گنہگار نہیں ہوگا جبکہ ایک دوسرے مومن کی عزت و خون ایک دوسرے کے لئے حرام ہے یعنی اس کو برا بھلا کہنا ناجائز و حرام ہے لیکن یہ قرض کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے اس کو بے آبرو کرنا جائز ہوجاتا ہے اور دائن یعنی قرض دینے والے کا دین یعنی قرض مار لینا حرام ہے اور قرض مارنے والے کے حق میں وہ روپیہ و سامان سب حرام و خبیث ہے کیونکہ قرض واجب الاعادہ ہوتا ہے ۔
یہ سوال کا اصل جواب ہے
تنگ دست مقروض پر آسانی کرنا ۔
سہولت دینا اور کچھ تھوڑا بہت قرضہ چھوڑ دینا۔
کسی قرض حسنہ دینا یعنی بغیر نفع لئے دینا صدقہ ہے اور ہر صدقہ نیکی ہے اسی لئے اگر وسعت ہو تو کسی مسلم بھائی کو وقت ضرورت ضرور قرض دے بہت ثواب ملے گا اور جو قرض لے وہ بھی وقت مقرر پر واپس کردے کہ یہ واجب الاعادہ ہے یہاں نہیں دینے پر کل قیامت میں جہاں لوگ ایک ایک نیکی کے لئے ترسیں گے اس بے کسی کے عالم میں آپ کی نیکی سے قرض دینے والے کو نیکی دی جائے گی
حضرت ابو ہریرہ رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم:جو بندہ کسی تنگ دست پر آسانی کرتا ہے
یسراللہ فی الدنیا والآخرۃ۔
کسی قرض حسنہ دینا یعنی بغیر نفع لئے دینا صدقہ ہے اور ہر صدقہ نیکی ہے اسی لئے اگر وسعت ہو تو کسی مسلم بھائی کو وقت ضرورت ضرور قرض دے بہت ثواب ملے گا اور جو قرض لے وہ بھی وقت مقرر پر واپس کردے کہ یہ واجب الاعادہ ہے یہاں نہیں دینے پر کل قیامت میں جہاں لوگ ایک ایک نیکی کے لئے ترسیں گے اس بے کسی کے عالم میں آپ کی نیکی سے قرض دینے والے کو نیکی دی جائے گی
حضرت ابو ہریرہ رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم:جو بندہ کسی تنگ دست پر آسانی کرتا ہے
یسراللہ فی الدنیا والآخرۃ۔
اللہ تعالیٰ اس پر دنیا و آخرت میں آسانی کرتا ہے
مقروض کو مہلت دینے والے کو دوگنا ثواب ملتا ہے۔
حضرت بریدہ رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا: جو شخص تنگ دست مقروض کو قرض وصول کرنے میں مہلت دے اس کے لئے روزانہ قرض کے برابر صدقہ کرنے کا ثواب ہے ۔پھر ایک دن میں نے سنا آپ فرمارہے تھے : جو تنگ دست کو مہلت دے ۔اس کے لئے قرض سے دوگنا روزانہ صدقہ کرنے کا ثواب ہے
رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :قرضہ وصول کرنے کا ثواب اور جب وصولی کا وقت آپہنچے ۔پھر مہلت دے دے تو ایسے شخص کے لئے قرض سے دوگنا روزانہ صدقہ کرنے کا ثواب ہے (اسے حاکم نے روایت کیا ہے)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ وہ قرض دیا تو اسے اس صدقہ کا ثواب اسے ملا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
کل قرض صدقہ یعنی ہر قرض صدقہ ہے حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے راوی ہے کہ آپ نے فرمایا:ایک آدمی جنت میں داخل ہوا تو اس نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا :
الصدقۃ بعشر امثالھا والقرض بشمانیۃ عشر۔
مقروض کو مہلت دینے والے کو دوگنا ثواب ملتا ہے۔
حضرت بریدہ رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا: جو شخص تنگ دست مقروض کو قرض وصول کرنے میں مہلت دے اس کے لئے روزانہ قرض کے برابر صدقہ کرنے کا ثواب ہے ۔پھر ایک دن میں نے سنا آپ فرمارہے تھے : جو تنگ دست کو مہلت دے ۔اس کے لئے قرض سے دوگنا روزانہ صدقہ کرنے کا ثواب ہے
رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :قرضہ وصول کرنے کا ثواب اور جب وصولی کا وقت آپہنچے ۔پھر مہلت دے دے تو ایسے شخص کے لئے قرض سے دوگنا روزانہ صدقہ کرنے کا ثواب ہے (اسے حاکم نے روایت کیا ہے)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ وہ قرض دیا تو اسے اس صدقہ کا ثواب اسے ملا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
کل قرض صدقہ یعنی ہر قرض صدقہ ہے حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے راوی ہے کہ آپ نے فرمایا:ایک آدمی جنت میں داخل ہوا تو اس نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا :
الصدقۃ بعشر امثالھا والقرض بشمانیۃ عشر۔
صدقہ کا دس گنا ثواب ہے اور قرض دینے کا اٹھارہ گناہ ثواب ہے ۔اور جب مقروض جو وقت قرض واپس کرنے کا وقت دیا تو اس دن وہ قرض وصول کرنے گیا تو اس کا ثواب اسے ملا اور اس مقروض نے کسی مجبوری کی وجہ سے اس دن قرض واپس نہیں کیا اور اس نے اسے مہلت دے دی پھر اس کا بھی اسے ہر روز دوگنا ثواب ملتا رہے گا جس نے کسی شخص تنگ دست پر دنیا میں آسانی کی ۔اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی فرمائے گا ۔
حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے کسی مقروض کو طلب کیا تو وہ چھپ گیا ۔پھر ایک دن اسے پالیا (ملاقات ہوگئی) وہ کہنے لگا کہ بہت تنگ دست ہوں (ابھی قرض واپس نہیں کرسکتا ہے) حضرت قتادہ نے کہا کیا اللہ کی قسم ؟اس نے جواب دیا : ہاں اللہ کی قسم ۔ قتادہ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے۔
حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے کسی مقروض کو طلب کیا تو وہ چھپ گیا ۔پھر ایک دن اسے پالیا (ملاقات ہوگئی) وہ کہنے لگا کہ بہت تنگ دست ہوں (ابھی قرض واپس نہیں کرسکتا ہے) حضرت قتادہ نے کہا کیا اللہ کی قسم ؟اس نے جواب دیا : ہاں اللہ کی قسم ۔ قتادہ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے۔
من سرہ ان ینجیہ اللہ من کرب یوم القیامۃ فلینفس عن معسر اویضع عنہ۔
جسے یہ اچھا لگتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی سختیوں سے نجات عطا فرمائے ۔اسے تنگ دست پر آسانی کرنا چاہیئے یا قرض کا بوجھ اتار دینا چاہئے (یعنی معاف کر دینا چاہیے) ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:جسے یہ بات اچھی لگتی ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے روز قیامت کی سختیوں سے نجات عطا کرے اور اپنے عرش کے نیچے اسے سایہ عطا فرمائے تو اسے چاہیئے کہ تنگ دست کو مہلت دے
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کی روح کو (بعد از مرگ) فرشتے ملے اس نے پوچھا : تو نے کوئی نیک عمل کیا ؟ اس نے جواب دیا : نہیں ۔فرشتوں نے کہا : یاد کر ۔وہ بولا : میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور میں نے اپنے کام کرنے والے کو حکم۔ دیا تھا کہ وہ تنگ دست کو مہلت دیا کریں اور کھاتے پیتے لوگوں سے درگزر کیا کریں ۔حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے فرشتوں تجاوزوا عنہ.'اس سے درگزر کرو ۔ہم نے اس کی مغفرت فرمادی ۔
فصل پنجم
صلہ رحمی کے مختصر فوائد
صلہ رحمی سے عمر لمبی ہوجاتی ہے اور رزق میں کشادگی آجاتی ہے اور یہ حدیث مجربات میں سے ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کی روح کو (بعد از مرگ) فرشتے ملے اس نے پوچھا : تو نے کوئی نیک عمل کیا ؟ اس نے جواب دیا : نہیں ۔فرشتوں نے کہا : یاد کر ۔وہ بولا : میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور میں نے اپنے کام کرنے والے کو حکم۔ دیا تھا کہ وہ تنگ دست کو مہلت دیا کریں اور کھاتے پیتے لوگوں سے درگزر کیا کریں ۔حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے فرشتوں تجاوزوا عنہ.'اس سے درگزر کرو ۔ہم نے اس کی مغفرت فرمادی ۔
فصل پنجم
صلہ رحمی کے مختصر فوائد
صلہ رحمی سے عمر لمبی ہوجاتی ہے اور رزق میں کشادگی آجاتی ہے اور یہ حدیث مجربات میں سے ہے۔
امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح البخاری شریف میں ایک باب بنام :باب من یبسط لہ فی الرزق لصلۃ الرحم۔
صلہ رحم کی وجہ سے جس کے رزق میں فراخی دی گئی باندھا اس کے تحت دو احادیث نقل فرماتے ہیں
عن سعید بن ابی سعید عن ابی ھریرۃ رضی آللہ تعالیٰ عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یقول من سرہ ۔ان یبسط لہ فی رزقہ و ان ہنساء لہ فی اثرہ فلیصل رحمہ۔ حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جس کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت دی جائے اور اس کی عمر دراز کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے ۔
دوسری حدیث میں ہے
اخبرنی انس بن مالک رضی آللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم قال من احب ان یبسط لہ رزقہ و ینساء لہ فی اثرہ فلیصل رحمہ ۔انس بن مالک نے یہ خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کو یہ پسند ہو کہ اس کے رزق کو کشادہ کیا جائے اور اس کی عمر کو بڑھایا جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔
عن سعید بن ابی سعید عن ابی ھریرۃ رضی آللہ تعالیٰ عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یقول من سرہ ۔ان یبسط لہ فی رزقہ و ان ہنساء لہ فی اثرہ فلیصل رحمہ۔ حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جس کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت دی جائے اور اس کی عمر دراز کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے ۔
دوسری حدیث میں ہے
اخبرنی انس بن مالک رضی آللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم قال من احب ان یبسط لہ رزقہ و ینساء لہ فی اثرہ فلیصل رحمہ ۔انس بن مالک نے یہ خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کو یہ پسند ہو کہ اس کے رزق کو کشادہ کیا جائے اور اس کی عمر کو بڑھایا جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔
(بخاری شریف کتاب الآداب باب 882 حدیث 2614۔ 2615)
پھر امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب البیع میں ایک باب بنام :باب من احب البسط فی الرزق جو روزی میں وسعت پسند کرے باندھا اس کے تحت ایک حدیث شریف نقل فرماتے ہیں کہ
قال محمد ھو الزھری عن انس بن مالک رضی آللہ تعالیٰ عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یقول من سرہ یبسط لہ رزقہ او نساء فی اثرہ فلیصل رحمہ۔
پھر امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب البیع میں ایک باب بنام :باب من احب البسط فی الرزق جو روزی میں وسعت پسند کرے باندھا اس کے تحت ایک حدیث شریف نقل فرماتے ہیں کہ
قال محمد ھو الزھری عن انس بن مالک رضی آللہ تعالیٰ عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یقول من سرہ یبسط لہ رزقہ او نساء فی اثرہ فلیصل رحمہ۔
حضرت انس بن مالک رضی آللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے میں نے سنا ہے جو رزق میں کشادگی یا عمر میں درازی چاہتا ہو وہ صلہ رحمی کرے۔
(صحیح البخاری شریف کتاب البیوع باب نمبر 277 حدیث 1212)
ینساء اس کا مادہ نساء ہے باب افعال سے انسا مصدر مضارع مجہول ہے اس کا معنی تاخیر کے ہیں اور اثر کے معنی یہاں بقیہ عمر کے ہیں ۔ینسا فی اثرہ کے معنی ہیں ۔یوخر فی بقیۃ عمرہ ۔اس کا حاصل یہ ہوا کہ اسے پسند ہو کہ اس کی عمر دراز ہو جائے۔
ینساء اس کا مادہ نساء ہے باب افعال سے انسا مصدر مضارع مجہول ہے اس کا معنی تاخیر کے ہیں اور اثر کے معنی یہاں بقیہ عمر کے ہیں ۔ینسا فی اثرہ کے معنی ہیں ۔یوخر فی بقیۃ عمرہ ۔اس کا حاصل یہ ہوا کہ اسے پسند ہو کہ اس کی عمر دراز ہو جائے۔
(نزہۃ القاری جلد پنجم ص 166)
صحیح بچاری و مسلم کے حوالے سے حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضوی رحمتہ اللہ علیہ احادیث شریف نقل فرماتے ہیں کہ
ابن ماجہ نے ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تقدیر کو کوئی چیز رد نہیں کرتی مگر دعا اور بر یعنی احسان کرنے سے عمر میں زیادتی ہوتی ہے ۔اور آدمی گناہ کرنے کی وجہ سے رزق سے محروم ہوجاتا ہے ۔
(2) حاکم نے مستدرک میں عاصم رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں درازی ہو اور رزق میں وسعت ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور رشتہ والوں سے سلوک کرے۔
صحیح بچاری و مسلم کے حوالے سے حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضوی رحمتہ اللہ علیہ احادیث شریف نقل فرماتے ہیں کہ
ابن ماجہ نے ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تقدیر کو کوئی چیز رد نہیں کرتی مگر دعا اور بر یعنی احسان کرنے سے عمر میں زیادتی ہوتی ہے ۔اور آدمی گناہ کرنے کی وجہ سے رزق سے محروم ہوجاتا ہے ۔
(2) حاکم نے مستدرک میں عاصم رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں درازی ہو اور رزق میں وسعت ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور رشتہ والوں سے سلوک کرے۔
(اسلامی اخلاق و آداب ص 207.208)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کے مندرجہ ذیل ف حجوائد ہیں
(1) دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے
(2) صلہ رحمی اور نیکی سے عمر لمبی ہوجاتی ہے
(3) صلہ رحمی اور نیکیاں سے رزق میں کشادگی آجاتی ہے
یہ تمام احادیث مجربات میں سے ہیں ۔
صلہ رحمی کا معنی رشتہ کا جوڑنا یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا۔ساری امت کا اس پر اتفاقِ ہے صلہ رحم واجب ہے اور قطع رحمی حرام ہے
ایک اشکال اور اس کا حل
اس حدیث شریف سے واضح طور پور معلوم ہوا کہ صلہ رحمی سے رزق میں فراخی اور عمر میں زیادتی ہوتی ہے ۔ یعنی موت میں تاخیر کی جائے گی لیکن قرآن شریف کی آیت
فاذا جاء اجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کے مندرجہ ذیل ف حجوائد ہیں
(1) دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے
(2) صلہ رحمی اور نیکی سے عمر لمبی ہوجاتی ہے
(3) صلہ رحمی اور نیکیاں سے رزق میں کشادگی آجاتی ہے
یہ تمام احادیث مجربات میں سے ہیں ۔
صلہ رحمی کا معنی رشتہ کا جوڑنا یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا۔ساری امت کا اس پر اتفاقِ ہے صلہ رحم واجب ہے اور قطع رحمی حرام ہے
ایک اشکال اور اس کا حل
اس حدیث شریف سے واضح طور پور معلوم ہوا کہ صلہ رحمی سے رزق میں فراخی اور عمر میں زیادتی ہوتی ہے ۔ یعنی موت میں تاخیر کی جائے گی لیکن قرآن شریف کی آیت
فاذا جاء اجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون۔
یعنی پھر جب وہ میعاد ختم ہوگی یعنی عمر پوری ہوگی اس وقت نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں گے نہ آگے پھڑیں گے (القرآن الکریم)
جب موت کا وقت متین ہے جس کی موت کا جو وقت اللہ تعالیٰ لکھ دیا ہے اس وقت سے نہ ایک لمحہ پہلے موت آسکتی ہے اور نہ ایک لمحہ بعد موت آسکتی ہے اسی طرح رزق مقرر ہے اس میں نہ کمی ہوسکتی اور نہ زیادتی ہو سکتی ہے پھر صلہ رحمی سے عمر اور رزق میں زیادتی ماننا اسلامی عقیدہ کے خلاف ہوگا اس کا حل کیا ہے ؟
الجواب ۔جن جن احادیث سے یہ ظاہر ہے کہ فلاں فلاں کام کرنے سے خصوصا حدیث میں آیا ہے کہ صلہ رحمی سے عمر زیادہ ہوتی ہے اور رزق میں وسعت ہوتی ہے اس کے متعلق علمائے کرام تین مطالب بیان فرماتے ہیں
(1) بعض علماء نے اس حدیث کو ظاہر پر عمل کیا ہے یعنی قضاء معلق مراد ہے کیونکہ قضاء مبرم ٹل نہیں سکتی جیسا کہ قرآن شریف کی آیت سے معلوم ہوا
(2) بعض نے فرمایا زیادتی عمر کا یہ مطلب ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس (یعنی صلہ رحمی ) کا ثواب لکھا جاتا ہے گویا وہ اب بھی زندہ ہے
(3) بعض نے فرمایا کہ مرنے کے بعد بھی اس کا ذکر خیر لوگوں میں باقی رہتا ہے۔
جب موت کا وقت متین ہے جس کی موت کا جو وقت اللہ تعالیٰ لکھ دیا ہے اس وقت سے نہ ایک لمحہ پہلے موت آسکتی ہے اور نہ ایک لمحہ بعد موت آسکتی ہے اسی طرح رزق مقرر ہے اس میں نہ کمی ہوسکتی اور نہ زیادتی ہو سکتی ہے پھر صلہ رحمی سے عمر اور رزق میں زیادتی ماننا اسلامی عقیدہ کے خلاف ہوگا اس کا حل کیا ہے ؟
الجواب ۔جن جن احادیث سے یہ ظاہر ہے کہ فلاں فلاں کام کرنے سے خصوصا حدیث میں آیا ہے کہ صلہ رحمی سے عمر زیادہ ہوتی ہے اور رزق میں وسعت ہوتی ہے اس کے متعلق علمائے کرام تین مطالب بیان فرماتے ہیں
(1) بعض علماء نے اس حدیث کو ظاہر پر عمل کیا ہے یعنی قضاء معلق مراد ہے کیونکہ قضاء مبرم ٹل نہیں سکتی جیسا کہ قرآن شریف کی آیت سے معلوم ہوا
(2) بعض نے فرمایا زیادتی عمر کا یہ مطلب ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس (یعنی صلہ رحمی ) کا ثواب لکھا جاتا ہے گویا وہ اب بھی زندہ ہے
(3) بعض نے فرمایا کہ مرنے کے بعد بھی اس کا ذکر خیر لوگوں میں باقی رہتا ہے۔
(اسلامی اخلاق و آداب ص 210 بحوالہ ردالمحتار)
اور نزہۃ القاری میں مفتی شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ۔عمر کی درازی سے مراد یہاں برکت ہے یعنی تھوڑی عمر میں وہ اتنے اہم اور کثیر کام مرجائے جو زیادہ عمر والے نہیں کروائیں ۔امام قاضی نے فرمایا ۔اس سے مراد ذکر خیر کا باقی رہنا ہے (نزہۃالقاری کتاب البیع باب من احب البسط فی الرزق جو روزی میں وسعت پسند کرے جلد پنجم ص 165)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
اور نزہۃ القاری میں مفتی شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ۔عمر کی درازی سے مراد یہاں برکت ہے یعنی تھوڑی عمر میں وہ اتنے اہم اور کثیر کام مرجائے جو زیادہ عمر والے نہیں کروائیں ۔امام قاضی نے فرمایا ۔اس سے مراد ذکر خیر کا باقی رہنا ہے (نزہۃالقاری کتاب البیع باب من احب البسط فی الرزق جو روزی میں وسعت پسند کرے جلد پنجم ص 165)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
2صفرالمظفر 1444
31 اگست 2022
2صفرالمظفر 1444
31 اگست 2022