Type Here to Get Search Results !

جس امام کی قرات میں زبر زیر کی غلطی ہو اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 4969)
جس امام کی قرات میں زبر زیر کی غلطی ہو اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایسا امام جس کی قرات کے اندر غلطی ہو حروف کی ادائیگی صحیح طریقے سے ادا نہ کرتا ہو خصوصا حروف قریب الصوت کی پہچان اس کو نہ ہو زبر کو زیر زیر کو زبر پڑھتا ہوں تو کیا اس کے پیچھے بھی نماز ہو جائے گی ؟
شرعی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا 
سائل:- حافظ محمد علی پاک پٹن پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں زبر زیر کی 
غلطی اگر ایسی ہو جس سے فساد معنی یا معنی میں تغیر لازم آئے تو مذہب صحیح کے مطابق خود اس کی نماز باطل ہے۔ اور اگر غلطی ایسی ہے کہ صحیح طور پر حروف ادا نہیں کر سکتا تو اس کی اقتدا میں صحیح پڑھنے والے کی نماز نہ ہوگی۔ اور اگر ایسی غلطی نہیں کرتا جس سے فساد معنی ہوتا ہو لیکن ضروریات قراءت کی ادائیگی نہیں ہو پاتی تو اس کی اقتدا میں نماز بشدت مکروہ ہے اور اگر ضروریات قرات سب ادا کر لیتا ہے، صرف محسنات زائدہ مثلاً اخفا، ادغام وغیرہ کی ادائیگی نہیں ہو پاتی تو اس کی اقتدا میں نماز ہو جائے گی
یاد رہے کہ عربی زبان میں اعراب یعنی زبر زیر پیش کی بڑی اہمیت ہے اور اکثر اوقات اس سے معنی میں غیر معمولی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے، اس لئے نماز میں خصوصا اور نماز کے باہر بھی قرآن مجید پڑھنے میں خوب احتیاط کرنی چاہئے تھوڑی سی محنت اور کوشش کے ذریعہ ایسی غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے 
فقہاء کی رائے ہے کہ اگر زیر وزبر کی غلطی ہوجائے اور معنی میں خرابی پیدا نہ ہو تو نماز فاسد نہیں ہوگی.
فتاوی ہندیہ میں ہے 
ولو قرأ النصب مکان الرفع ، والرفع مکان النصب أو الخفض مکان الرفع أو النصب ، لا تفسد صلاته. (الفتاوى الھندیة: 1/ 82)
المحيط البرهاني میں ہے 
إذا لحن في الإعراب لحنا، فهو على وجهين: إما أن يتغير المعنى بأن قرأ ….. {الرحمن على العرش} (طه: ٥) بنصب الرحمن، وفي هذا الوجه لا تفسد صلاته بالإجماع. وأما إن غير المعنى، بأن قرأ {هو االخالق البارىء المصور} (الحشر: ٢٤) بنصب الواو ورفع الميم ….. وفي هذا الوجه اختلف المشايخ، قال بعضهم؛ لا تفسد صلاته وهكذا روي عن أصحابنا وهو الأشبه؛ لأن في اعتبار الصوابفي الإعراب إيقاع الناس بالحرج، والحرج مرفوع شرعا. (المحيط البرهاني: 1/ 331)
فتاوی شامی میں ہے 
وأما المتأخرون كابن مقاتل وابن سلام وإسماعيل الزاهد وأبي بكر البلخي والهندواني وابن الفضل والحلواني، فاتفقوا على أن الخطأ فيالإعراب لا يفسد مطلقا ولو اعتقاده كفرا لأن أكثر الناس لا يميزون بين وجوه الإعراب. (رد المحتار: 1/ 631).
یاد رہے کہ قرآنِ کریم کو مجہول پڑھنا جائز نہیں ہے، مجہول پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ حرکات کو اس طرح مبہم پڑھا جائے کہ واضح نہ ہو کہ کون سی حرکت پڑھی جا رہی ہے یا حرکات کو اِس قدر لمبا اور دراز کرکےپڑھنا کہ حرکت سے حرف بن جائے،جیسے: زبر کو لمباکرکے الف بنادینا پیش کو لمباکرکے واؤ بنادینا ، اِسی طرح زیر کو دراز کرتے ہوئے یاء بنادینا ، نماز کے اندر مجہول قرأت کرنے کا حکم یہ ہے کہ مجہول پڑھنے سے اگر ایسی فحش غلطی ہوجائے کہ قرأت میں لحنِ جلی کا ارتکاب لازم آجائے اور معنی بدل کر بالکل فاسد ہو جائے تو نماز بھی فاسد ہوجائے گی مثلا لْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کو مجہول طریقے سے اِس طرح پڑھائے جائے کہ الحمد کی دال کے بعد واؤ بڑھادیا جائے لِلّٰهِ میں لام یا ہاء کے بعد یاء بڑھادی جائے ربّ میں راء کے بعد الف بڑھادیں، یہ سب فحش غلطیاں ہیں اِن سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، لہٰذا ایسی قرأت کرنے والے امام کے پیچھے نماز نہیں ہوگی، البتہ اگر مجہول پڑھنے سے قرأت میں کسی لحنِ جلی کا ارتکاب لازم نہ آئے اور نہ ہی معنیٰ کا فساد لازم آئے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔
فتاوی رضویہ میں ہے 
(1) اگر ایسی غلطیاں کرتا ہے کہ معنی میں فساد آتا ہے مثلا حرف کی تبدیل جیسے ع ط ص ح ظ کی جگہ و ت س ہ ز پڑھنا کہ لفظ مہمل رہ جائے،
(2) یا معنی میں تغیر فاحش راہ پائے،
(3) یاکھڑا پڑا کی بدتمیزی کہ حرکات بڑھ کر حروف مدہ ہوجائیں اور وہی قباحتیں لازم آئیں، جس طرح بعض جہال نستعین کو نستاعین پڑھتے ہیں کہ بے معنی یا لالی اﷲ تحشرون
بلام تاکید کو لا الی ﷲ تحشرون بلائے نافیہ کہ تغیر معنی ہے تو ہمارے ائمہ متقدمین کے مذہب صحیح ومعتمد محققین پر مطلقا خود اس کی نماز باطل ہے۔ کما حققہ ورجححہ المحقق فی الفتح والحلبی فی الغنیۃ وغیرھما. (محقق نے فتح میں اورحلبی نےغنیہ میں اور دیگر لوگوں نے اپنی کتب میں اس کی تحقیق کی ہے۔ت)
اور جب اس کی اپنی نہ ہوگی تو قوعدداں وغیرہ کسی کی اس کے پیچھے نہ ہو سکے گی؛ فان صلوۃ المأموم مبتنیۃ علی صلوۃ الامام. (کیوں کہ مقتدی کی نماز امام کی نماز پر مبنی ہے۔ت
(4) اور اگر غلطی یوں ہے کہ حرف بروجہ صحیح ادا نہیں کرسکتا جس طرح آج کل عام دہقانوں اور بہت شہریوں کا حال ہے تو اب جمہور متاخرین کا بھی فتوی اسی پر ہے کہ اس کے پیچھے صحیح خواں کی نماز باطل۔کما افادہ العلامۃ الغزی والعلامۃ الخیر الرملی وغیرھما. (جیسے علامہ غزی اورعلامہ خیررملی اور دیگر علما نے اس کا تذکرہ کیاہے۔ت)
(5) اور اگر عجز یوں ہے کہ سیکھنے کی کوشش نہ کی یا کچھ دنوں کرکے چھوڑ دی اگر لپٹا رہتا تو امید تھی کہ آ جاتا جب تو ایسی غلطی ان کے نزدیک بھی خود اس کی اپنی نماز بھی باطل کرے گی۔ کما فی الخلاصۃ والفتح وغیرھماعامۃ الکتب. (جیسے خلاصہ، فتح اور ان کے علاوہ عام کتب میں ہے ۔ت)
غرض ایسا شخص امام بنانے کے لائق نہیں۔ وقد فصلناالقول فی تلک المسائل فی عدۃ مواضع من فتاونا. (ہم نے ان مسائل پر اپنے فتاوی میں متعدد جگہ پر تفصیل سے لکھا ہے ۔ت)
(6) اور اگر ایسی غلطی نہیں کرتا جس سے فسادمعنی ہو تو نماز خود اس کی بھی صحیح اور اس کے پیچھے اور سب کی صحیح، پھر اگر حالت ایسی ہے کہ تجوید کے امور ضروریہ واجبات شرعیہ ادا نہیں ہوتے جن کا ترک موجب گناہ ہے جیسے مدمتصل بقدر ایک الف وغیرہ۔ فما فصلنا فی فتاوی لنا فی خصوص الترتیل. (جس کا ہم نے اپنے فتاوی میں ترتیل کے تحت تفصیلا ذکر کیا ہے۔ت)
جب بھی اسے امام بنایا جائے گا۔ اس کے پیچھے بشدت مکروہ ہوگی۔ لاشتمالہاعلی امرمؤثم وکونہ فاسقا بتمادیہ علی ترک واجب متحتم. (کیوں کہ وہ ایسے امر پر مشتمل ہے جو گناہ ہے اور اس کا فاسق ہونا اس شک میں ڈالتا ہے کہیں وہ حتمی واجب کا ترک نہ کر بیٹھے۔ت)
(7) اور اگر ضروریات سب ادا ہولیتے ہیں صرف محسنات زائد و مثل اظہار و اخفا و روم و اشمام وتفخیم و ترقیق وغیرہا میں فرق پڑتا ہے تو حرج نہیں، ہاں قواعد داں کی امامت اولی ہے۔لان الامام کلما کان اکمل کان افضل. ( اس لیے کہ وہ شخص جو ہر لحاظ سے اکمل ہو وہی افضل امام ہوگا۔ت)
(فتاویٰ رضویہ، ج: 6، ص: 489-490)
حاصل کلام یہ ہے کہ اگر امام کم پڑھا لکھا ہے اور اکثر مذکورہ غلطی کرتا ہے پھر اچھے پڑھے لکھے کو امام رکھیں چونکہ یہ امامت کا معاملہ ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
27/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area