(سوال نمبر 4937)
نعت و خطاب پر اجرت طے کرنا شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمة الله وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا کوئی سُنی باعمل عالم دین یا نعت خواں یا غیر عالم مقرر حضرات رقم یعنی اُجرت طے کرکے اجلاس و محافل وغیرہ پروگراموں میں خطاب و وعظ اور تقاریر یا نعت خوانی کرسکتے ہیں؟ اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟
نعت و خطاب پر اجرت طے کرنا شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمة الله وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا کوئی سُنی باعمل عالم دین یا نعت خواں یا غیر عالم مقرر حضرات رقم یعنی اُجرت طے کرکے اجلاس و محافل وغیرہ پروگراموں میں خطاب و وعظ اور تقاریر یا نعت خوانی کرسکتے ہیں؟ اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟
براہ کرم دلائل سے رہنمائی فرمائیں۔
سائل:- محمّد ارشد ارشدی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
حالات حاضرہ کے پیش نظر نعت و خطاب پر اجرت طے کرنا شرعا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
فتاویٰ اہل سنت میں ہے
فی زمانہ مقرّر کا تقریر و بیان اور نعت کی اجرت لینا جائز ہے اور جو مقرّر طے کرکے اجرت لیتا ہے اس کا وعظ و بیان سننا جائز ہے بشرطیکہ صحیح العقیدہ سنّی ہو۔ امامِ اہلسنّت مجدّدِ دین و ملّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں: ’’اصل حکم یہ ہے کہ وعظ پر اجرت لینی حرام ہے۔ درّمختار میں اسے یہود و نصاریٰ کی ضلالتوں میں سے گِنا مگر ’’کم مّن احکام یختلف باختلاف الزّمان، کما فی العٰلمگیریۃ (بہت سے احکام زمانہ کے اختلاف سے مختلف ہوجاتے ہیں جیسا کہ عالمگیریہ میں ہے۔) کلیہ غیرِِ مخصوصہ کہ طاعات پر اُجرت لینا ناجائز ہے ائمہ نے حالاتِ زمانہ دیکھ کر اس میں سے چند چیزیں بضرورت مستثنٰی کیں: امامت، اذان، تعلیمِ قرآنِ مجید، تعلیمِ فقہ، کہ اب مسلمانوں میں یہ اعمال بلانکیر معاوضہ کے ساتھ جاری ہیں، مجمع البحرین وغیرہ میں ان کا پانچواں وعظ گنا و بس۔ فقیہ ابواللیث سمرقندی فرماتے ہیں، میں چند چیزوں پر فتوٰی دیتا تھا، اب ان سے رجوع کیا، ازانجملہ میں فتوٰی دیتا تھا کہ عالم کو جائز نہیں کہ دیہات میں دورہ کرے اور وعظ کے عوض تحصیل کرے مگر اب اجازت دیتا ہوں، لہٰذا یہ ایسی بات نہیں جس پر نکیر لازم ہو۔
سائل:- محمّد ارشد ارشدی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
حالات حاضرہ کے پیش نظر نعت و خطاب پر اجرت طے کرنا شرعا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
فتاویٰ اہل سنت میں ہے
فی زمانہ مقرّر کا تقریر و بیان اور نعت کی اجرت لینا جائز ہے اور جو مقرّر طے کرکے اجرت لیتا ہے اس کا وعظ و بیان سننا جائز ہے بشرطیکہ صحیح العقیدہ سنّی ہو۔ امامِ اہلسنّت مجدّدِ دین و ملّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں: ’’اصل حکم یہ ہے کہ وعظ پر اجرت لینی حرام ہے۔ درّمختار میں اسے یہود و نصاریٰ کی ضلالتوں میں سے گِنا مگر ’’کم مّن احکام یختلف باختلاف الزّمان، کما فی العٰلمگیریۃ (بہت سے احکام زمانہ کے اختلاف سے مختلف ہوجاتے ہیں جیسا کہ عالمگیریہ میں ہے۔) کلیہ غیرِِ مخصوصہ کہ طاعات پر اُجرت لینا ناجائز ہے ائمہ نے حالاتِ زمانہ دیکھ کر اس میں سے چند چیزیں بضرورت مستثنٰی کیں: امامت، اذان، تعلیمِ قرآنِ مجید، تعلیمِ فقہ، کہ اب مسلمانوں میں یہ اعمال بلانکیر معاوضہ کے ساتھ جاری ہیں، مجمع البحرین وغیرہ میں ان کا پانچواں وعظ گنا و بس۔ فقیہ ابواللیث سمرقندی فرماتے ہیں، میں چند چیزوں پر فتوٰی دیتا تھا، اب ان سے رجوع کیا، ازانجملہ میں فتوٰی دیتا تھا کہ عالم کو جائز نہیں کہ دیہات میں دورہ کرے اور وعظ کے عوض تحصیل کرے مگر اب اجازت دیتا ہوں، لہٰذا یہ ایسی بات نہیں جس پر نکیر لازم ہو۔
(فتاویٰ رضویہ،19/538)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’بعض عُلَماء نے وعظ کو بھی ان امورِ مستثنیٰ میں داخل کیا جن پر اس زمانہ میں اخذِ اجرت (اجرت لینا) مشائخِ متاخرین نے بحکم ِضرورت جائز رکھا‘‘۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’بعض عُلَماء نے وعظ کو بھی ان امورِ مستثنیٰ میں داخل کیا جن پر اس زمانہ میں اخذِ اجرت (اجرت لینا) مشائخِ متاخرین نے بحکم ِضرورت جائز رکھا‘‘۔
(فتاویٰ رضویہ،19/435)
علامہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں کہ بعض علمانے وعظ پراجارہ کو بھی جائز کہا ہے اس زمانہ میں اکثر مقامات ایسے ہیں جہاں اہل علم نہیں ہیں ادھر ادھر سے کبھی کوئی عالم پہنچ جاتا ہے جو وعظ وتقریر کے ذریعہ انھیں دین کی تعلیم دے دیتا ہے اگر اس اجارہ کو ناجائز کردیا جائے تو عوام کو جو اس ذریعہ سے کچھ علم کی باتیں معلوم ہو جاتی ہیں اس کا انسداد ہوجائے گا۔(بہار شریعت ح 14 /147 اجارہ کا بیان)
والله ورسوله اعلم بالصواب
علامہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں کہ بعض علمانے وعظ پراجارہ کو بھی جائز کہا ہے اس زمانہ میں اکثر مقامات ایسے ہیں جہاں اہل علم نہیں ہیں ادھر ادھر سے کبھی کوئی عالم پہنچ جاتا ہے جو وعظ وتقریر کے ذریعہ انھیں دین کی تعلیم دے دیتا ہے اگر اس اجارہ کو ناجائز کردیا جائے تو عوام کو جو اس ذریعہ سے کچھ علم کی باتیں معلوم ہو جاتی ہیں اس کا انسداد ہوجائے گا۔(بہار شریعت ح 14 /147 اجارہ کا بیان)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
09/11/2023
09/11/2023