کسی مسلمان کو کافر شیطان اور مردود کہنا کیسا ہے؟
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
(۱) زید نے کسی معاملہ کے تحت غصے کی حالت میں خالد کے خلاف درج ذیل کلمات کہا۔فرعون۔مردود۔ کافر۔ شیطان۔ معتوب۔ اس بات کا گواہ زید کے خوف سے گواہی سے منکر ہے اور زید بھی انکار کرتا ہے ایسی صورت میں زید حکم شرع کیا ہوگا۔
(۲) خالد اگر اس بات کو کسی جگہ تحریری شکل میں شائع کیا تو اس پر کیا حکم ہوگا جبکہ خالد براہ راست زید سے اس پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔
خالد نے اپنی تحریر میں لکھا: زید نے مجھے فرعون کہا،
مردود کہا، کافر کہا، شیطان کہا اور، معتوب کہا
السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
(۱) زید نے کسی معاملہ کے تحت غصے کی حالت میں خالد کے خلاف درج ذیل کلمات کہا۔فرعون۔مردود۔ کافر۔ شیطان۔ معتوب۔ اس بات کا گواہ زید کے خوف سے گواہی سے منکر ہے اور زید بھی انکار کرتا ہے ایسی صورت میں زید حکم شرع کیا ہوگا۔
(۲) خالد اگر اس بات کو کسی جگہ تحریری شکل میں شائع کیا تو اس پر کیا حکم ہوگا جبکہ خالد براہ راست زید سے اس پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔
خالد نے اپنی تحریر میں لکھا: زید نے مجھے فرعون کہا،
مردود کہا، کافر کہا، شیطان کہا اور، معتوب کہا
اور ان جیسے احکام مجھ پر جاری فرماتے رہے۔
اب خالد کا اس طرح کا اظہار کرنا مناسب ہے یا نہیں۔ اور زید کا کسی مسلم کو کافر کہنا کیسا ہے براے مہربانی تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
سائل:- محمد فیضان رضا علیمی استاد مدرسہ قادریہ سلیمیہ چاندپورہ چھپرہ بہار ۴/جنوری/۲۰۲۴ء
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
اب خالد کا اس طرح کا اظہار کرنا مناسب ہے یا نہیں۔ اور زید کا کسی مسلم کو کافر کہنا کیسا ہے براے مہربانی تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
سائل:- محمد فیضان رضا علیمی استاد مدرسہ قادریہ سلیمیہ چاندپورہ چھپرہ بہار ۴/جنوری/۲۰۲۴ء
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
حضور سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کو ایسے الفاظ سے یاد کرنا مسلمان کو ناحق ایذا دینا ہے اور مسلمان کو ناحق ایذا دینا شرعا حرام ہے ۔رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ
من اذی مسلما فقد ایذانی و من اذانی فقد اذی اللہ۔
بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کو ایسے الفاظ سے یاد کرنا مسلمان کو ناحق ایذا دینا ہے اور مسلمان کو ناحق ایذا دینا شرعا حرام ہے ۔رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ
من اذی مسلما فقد ایذانی و من اذانی فقد اذی اللہ۔
یعنی جس نے بلاوجہ شرعی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ عزوجل کو ایذا دی (تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 198)
مسلمانوں کو بلاوجہ شرعی مردود ابلیس کہنا سخت حرام ہے
مسلمانوں کو بلاوجہ شرعی مردود و ابلیس کہنا سخت حرام ہے ۔اللہ عزوجل فرماتا ہے
والذین یوذون المومنین والمومنات بغیر ما اکتسبوا فقد احتملوا بہ تانا و انما مبینا۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 203)
مومن صالح کو شیطان کہنا شیطان کا کام ہے۔
گمراہ بددین کو شیطان کہا جاسکتا ہے اور اسے بھی جو لوگوں میں فتنہ پردازی کرے ۔ادھر کی ادھر لگا کر فساد دلوائے ۔جو کسی کی ترغیب دے کر لے جائے وہ اس کا شیطان ہے۔ اور مومن صالح کو شیطان کہنا شیطان کا کام ہے
مسلمانوں کو بلاوجہ شرعی مردود ابلیس کہنا سخت حرام ہے
مسلمانوں کو بلاوجہ شرعی مردود و ابلیس کہنا سخت حرام ہے ۔اللہ عزوجل فرماتا ہے
والذین یوذون المومنین والمومنات بغیر ما اکتسبوا فقد احتملوا بہ تانا و انما مبینا۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 203)
مومن صالح کو شیطان کہنا شیطان کا کام ہے۔
گمراہ بددین کو شیطان کہا جاسکتا ہے اور اسے بھی جو لوگوں میں فتنہ پردازی کرے ۔ادھر کی ادھر لگا کر فساد دلوائے ۔جو کسی کی ترغیب دے کر لے جائے وہ اس کا شیطان ہے۔ اور مومن صالح کو شیطان کہنا شیطان کا کام ہے
(فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 204)
کسی مسلمان کو بلاوجہ شرعی یزید کہا سخت گنہ گار ہوگا۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر بلاوجہ شرعی (یزید ) کہا سخت گنہگار ہوگا۔
کسی مسلمان کو بلاوجہ شرعی یزید کہا سخت گنہ گار ہوگا۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر بلاوجہ شرعی (یزید ) کہا سخت گنہگار ہوگا۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 268)
جب کسی مسلم کو یزید کہنا گناہ ہے تو فرعون ہامان کہنا سخت گناہ ہوگا۔
کسی مسلمان کا کافر کہنا
حدیث شریف میں ہے کہ
لاتکفروا احدا من اھل القبلۃ۔
جب کسی مسلم کو یزید کہنا گناہ ہے تو فرعون ہامان کہنا سخت گناہ ہوگا۔
کسی مسلمان کا کافر کہنا
حدیث شریف میں ہے کہ
لاتکفروا احدا من اھل القبلۃ۔
یعنی اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہ کہو (اس کو عقیلی نے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا )
فتاوی شارح بخآری میں ہے کہ زید نے اگر بکر ۔عمر ۔خالد کو وہابی دیوبندی بہ نیت سب وشتم کہا ہے تو گنہگار ہے اور اگر ان سنیوں کو وہابی دیوبندی اعتقاد کرکے ان کو وہابی دیوبندی کہا ہے تو زید خود کافر ہے۔
فتاوی شارح بخآری میں ہے کہ زید نے اگر بکر ۔عمر ۔خالد کو وہابی دیوبندی بہ نیت سب وشتم کہا ہے تو گنہگار ہے اور اگر ان سنیوں کو وہابی دیوبندی اعتقاد کرکے ان کو وہابی دیوبندی کہا ہے تو زید خود کافر ہے۔
(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 375)
اور 377 پر ہے کہ
اگر سب وشتم اور زجر کے طور پر (وہابی یعنی کافر ) کہا تو گناہ ہے اور کافر اعتقاد کرکے کہا تو خود کافر ہے۔
اور 377 پر ہے کہ
اگر سب وشتم اور زجر کے طور پر (وہابی یعنی کافر ) کہا تو گناہ ہے اور کافر اعتقاد کرکے کہا تو خود کافر ہے۔
(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 377)
جب سب وشتم یا زجر کے طور پر کسی سنی کو وہابی کہا تو گناہ ہے اور سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں میں اپسی نااتفاقی ہے اور غصہ کا ماحول تھا جس میں زید نے بطور گالی کافر کہا تو سخت گنہگار ہوا ہاں اگر کفر اعتقاد کرکے کافر کہا تو خود کافر ہوا مگر سوال سے ظاہر ہورہا ہے کہ اعتقادا نہیں کہا اس لئے کفر کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا اور انکار بھی کررہا ہے اس کے انکار کو مان لینا چاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ
الاسلام یعلو و لا یعلی۔
جب سب وشتم یا زجر کے طور پر کسی سنی کو وہابی کہا تو گناہ ہے اور سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں میں اپسی نااتفاقی ہے اور غصہ کا ماحول تھا جس میں زید نے بطور گالی کافر کہا تو سخت گنہگار ہوا ہاں اگر کفر اعتقاد کرکے کافر کہا تو خود کافر ہوا مگر سوال سے ظاہر ہورہا ہے کہ اعتقادا نہیں کہا اس لئے کفر کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا اور انکار بھی کررہا ہے اس کے انکار کو مان لینا چاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ
الاسلام یعلو و لا یعلی۔
یعنی اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا
اس کے تحت سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
*احتمال اسلام چھوڑ کر احتمالات کفر کی طرف جانے والے اسلام کو مغلوب اور کفر کو غالب کرتے ہیں۔
اس کے تحت سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
*احتمال اسلام چھوڑ کر احتمالات کفر کی طرف جانے والے اسلام کو مغلوب اور کفر کو غالب کرتے ہیں۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 12 ص 317)
درمختار میں ہے کہ
لایفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن او کان فی کفرہ خلاف ولو کان ذلک روایۃ ضعیفۃ۔
درمختار میں ہے کہ
لایفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن او کان فی کفرہ خلاف ولو کان ذلک روایۃ ضعیفۃ۔
یعنی کسی مسلم کے کافر ہونے فتویٰ اس وقت تک نہیں دیا جائے گا جب تک کہ اس کے کلام کو کسی اچھی معنی پر محمول کرنا ممکن ہو یا اس کے کفر ہونے میں اختلاف ہو اگرچہ کسی ضعیف روایت ہی کی وجہ سے ہو۔
(درمختار جلد 7 ص 367)
کسی مسلمان کے کفر کا حکم کرنے کے لئے ایسا ثبوت درکار ہے جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔
کسی مسلمان کے کفر کا حکم کرنے کے لئے ایسا ثبوت درکار ہے جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔
(فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 472)
اب اس عبارت سے واضح ہوا کہ کسی مسلمان کو کافر کہنے کے لئے ایسا ثبوت چایئے جس میں کوئی شک و شبہ ہو اور کسی کی تحریر میں یا قول میں ایسا ثبوت نہیں ہے اور بغیر شرعی ثبوت کے اسے کافر و مرتد جس نے کہا کہ کفر اس پر لوٹ جائے گا ۔
اور جب زید انکار کردیا ہے کہ میں نے نہیں کہا تو اس کی بات مانی جائے گی اور خالد کے پاس گواہ بھی نہیں ہے ۔کیونکہ علماء فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کو کافر کہنے کے لئے ایسا ثبوت چایئے جس میں کوئی شک وشبہ نہ ہو اور صورت مسئولہ میں زید انکار کردیا ہے اور خالد کے پاس گواہ بھی نہیں ہے تو یہ پختہ ثبوت نہیں ہوا کہ زید پر کفر کا فتویٰ دیا جائے
جیسے علمائے دین کی توہین کفر ہے ۔سس شخص پر تجدید اسلام لازمی ہے اور اس کے بعد اپنی عورت سے نکاح جدید کرے (تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 270)
مگر اسی کے آگے ہے کہ کسی خاص عالم دین کو کسی دنیوی وجہ سے گالی دینے سے عورت نکاح سے نہیں نکلتی ۔ہاں مطلقا علماء کو یا خاص کسی عالم کو بوجہ علم دین برا کہنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے ۔عورت فورا نکاح سے نکل جاتی ہے مگر یہ فسخ نکاح ہوتا ہے طلاق نہیں ۔نہ ایک نہ تین ۔اسلام لانے کے بعد اگر عورت راضی ہو تو اس سے نکاح کرسکتا ہے۔
اب اس عبارت سے واضح ہوا کہ کسی مسلمان کو کافر کہنے کے لئے ایسا ثبوت چایئے جس میں کوئی شک و شبہ ہو اور کسی کی تحریر میں یا قول میں ایسا ثبوت نہیں ہے اور بغیر شرعی ثبوت کے اسے کافر و مرتد جس نے کہا کہ کفر اس پر لوٹ جائے گا ۔
اور جب زید انکار کردیا ہے کہ میں نے نہیں کہا تو اس کی بات مانی جائے گی اور خالد کے پاس گواہ بھی نہیں ہے ۔کیونکہ علماء فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کو کافر کہنے کے لئے ایسا ثبوت چایئے جس میں کوئی شک وشبہ نہ ہو اور صورت مسئولہ میں زید انکار کردیا ہے اور خالد کے پاس گواہ بھی نہیں ہے تو یہ پختہ ثبوت نہیں ہوا کہ زید پر کفر کا فتویٰ دیا جائے
جیسے علمائے دین کی توہین کفر ہے ۔سس شخص پر تجدید اسلام لازمی ہے اور اس کے بعد اپنی عورت سے نکاح جدید کرے (تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 270)
مگر اسی کے آگے ہے کہ کسی خاص عالم دین کو کسی دنیوی وجہ سے گالی دینے سے عورت نکاح سے نہیں نکلتی ۔ہاں مطلقا علماء کو یا خاص کسی عالم کو بوجہ علم دین برا کہنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے ۔عورت فورا نکاح سے نکل جاتی ہے مگر یہ فسخ نکاح ہوتا ہے طلاق نہیں ۔نہ ایک نہ تین ۔اسلام لانے کے بعد اگر عورت راضی ہو تو اس سے نکاح کرسکتا ہے۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 299)
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
فرض قطعی ہے کہ اہل کلمہ کے ہر قول و فعل کو اگرچہ بظاہر کیسا ہی شنیع وفظیح ہو حتی الامکان کفر سے بچائیں اگر کوئی ضعیف سے ضعیف ۔نجیف سے نجیف تاویل پیدا ہو جس کی رو سے حکم اسلام نکل سکتا ہو تو اس کی طرف جائیں ۔اور اس کے سوا ہر گز احتمال جانب کفر جاتے ہوں خیال میں نہ لائیں۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
فرض قطعی ہے کہ اہل کلمہ کے ہر قول و فعل کو اگرچہ بظاہر کیسا ہی شنیع وفظیح ہو حتی الامکان کفر سے بچائیں اگر کوئی ضعیف سے ضعیف ۔نجیف سے نجیف تاویل پیدا ہو جس کی رو سے حکم اسلام نکل سکتا ہو تو اس کی طرف جائیں ۔اور اس کے سوا ہر گز احتمال جانب کفر جاتے ہوں خیال میں نہ لائیں۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 12 ص 317)
عورت مسئولہ زید انکار کرتا ہے کہ ہم نے نہیں کہا اور نہ کوئی گواہ ہے تو اس تو سے حکم کفر سے بچا جائیں
حضور شارح بخآری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
کسی مسلمان کو کافر کہنے کا حکم بہت سخت ہے ۔حدیث میں ہے : جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی کو کافر کہا اور واقع میں وہ کافر نہیں تو کہنے والے پر کفر لوٹ آتا ہے ۔فقہاء فرماتے ہیں
*اگر کسی مسلمان کو کافر اعتقاد کر کے کافر کہا تو کہنے والا کافر ہے اور اگر گالی کے طور پر کہا تو گنہگار ہے اور تعزیز کا مستحق ہے۔
اور یہی حکم ابوجہل کہنے کا ہے بکر نے اگر ان مسلمان کو کافر اس بنا پر کہا کہ واقعی اس کا اعتقاد یہی ہے کہ یہ لوگ کافر ہیں تو وہ خود کافر ہوگیا اور اگر اس کا اعتقاد یہ نہیں صرف گالی کے لئے کہا تو فاسق معلن اور مستحق تعزیز ہوا۔
عورت مسئولہ زید انکار کرتا ہے کہ ہم نے نہیں کہا اور نہ کوئی گواہ ہے تو اس تو سے حکم کفر سے بچا جائیں
حضور شارح بخآری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
کسی مسلمان کو کافر کہنے کا حکم بہت سخت ہے ۔حدیث میں ہے : جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی کو کافر کہا اور واقع میں وہ کافر نہیں تو کہنے والے پر کفر لوٹ آتا ہے ۔فقہاء فرماتے ہیں
*اگر کسی مسلمان کو کافر اعتقاد کر کے کافر کہا تو کہنے والا کافر ہے اور اگر گالی کے طور پر کہا تو گنہگار ہے اور تعزیز کا مستحق ہے۔
اور یہی حکم ابوجہل کہنے کا ہے بکر نے اگر ان مسلمان کو کافر اس بنا پر کہا کہ واقعی اس کا اعتقاد یہی ہے کہ یہ لوگ کافر ہیں تو وہ خود کافر ہوگیا اور اگر اس کا اعتقاد یہ نہیں صرف گالی کے لئے کہا تو فاسق معلن اور مستحق تعزیز ہوا۔
(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 368)
وہ شخص یعنی زید ایک تقدیر پر کافر ہے اور ایک تقدیر پر فاسق معلن
اسی طرح فرعون نمرود ہامان کہنے کا حکم ہے زید پر فرض ہے کہ وہ توبہ کرے اور خالد سے معافی مانگے
اسی طرح گالی کے طور پر کافر کہنا اور بات ہے اور اعتقادا کافر کہنا اور بات ہے قسم اول میں توبہ کا حکم ہے قسم دوم میں توبہ تجدید ایمان اور نکاح کا حکم ہے
جس نے کسی مسلمان کو یہ ناپاک کلمات کہا سخت گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ان پر فرض ہے کہ علانیہ توبہ کریں جس طرح یہ علانیہ کلمہ کہا اور مسلمان سے معافی مانگیں ورنہ حق العباد میں گرفتار رہیں گے اور جب وہ توبہ اور معافی مانگ لیں تو اس کی توبہ و معافی قبول کرنی واجب ہے جس کے پاس مسلمان بھائی معذرت کرتا ہوا آئے اس پر لازم ہے کہ اس کا عذر قبول کرے چاہے وہ حق پر ہو یا ناحق پر اگر عذر قبول نہ کرے گا تو روز قیامت حوض کوثر پر میرے حضور حاضر ہونا نصیب نہ ہوگا
اللہ عزوجل خود اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے
خالد کو بھی اشتہار نہیں نکلا لنا چایئے جب زید انکار کردیا ہے تو اس پر یقین کرنا چایئے اور یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کو لکھ کر شائع کیا جائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
وہ شخص یعنی زید ایک تقدیر پر کافر ہے اور ایک تقدیر پر فاسق معلن
اسی طرح فرعون نمرود ہامان کہنے کا حکم ہے زید پر فرض ہے کہ وہ توبہ کرے اور خالد سے معافی مانگے
اسی طرح گالی کے طور پر کافر کہنا اور بات ہے اور اعتقادا کافر کہنا اور بات ہے قسم اول میں توبہ کا حکم ہے قسم دوم میں توبہ تجدید ایمان اور نکاح کا حکم ہے
جس نے کسی مسلمان کو یہ ناپاک کلمات کہا سخت گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ان پر فرض ہے کہ علانیہ توبہ کریں جس طرح یہ علانیہ کلمہ کہا اور مسلمان سے معافی مانگیں ورنہ حق العباد میں گرفتار رہیں گے اور جب وہ توبہ اور معافی مانگ لیں تو اس کی توبہ و معافی قبول کرنی واجب ہے جس کے پاس مسلمان بھائی معذرت کرتا ہوا آئے اس پر لازم ہے کہ اس کا عذر قبول کرے چاہے وہ حق پر ہو یا ناحق پر اگر عذر قبول نہ کرے گا تو روز قیامت حوض کوثر پر میرے حضور حاضر ہونا نصیب نہ ہوگا
اللہ عزوجل خود اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے
خالد کو بھی اشتہار نہیں نکلا لنا چایئے جب زید انکار کردیا ہے تو اس پر یقین کرنا چایئے اور یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کو لکھ کر شائع کیا جائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
23 جمادی الاخری 1445
(6 جنوری 2024)
23 جمادی الاخری 1445
(6 جنوری 2024)