(سوال نمبر 4936)
معزز شیخ عالم دین و والدین کے ہاتھ کو بوسہ دینا شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمة الله وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک راسخُ العقیدہ سُنّی المذہب مسلک اعلٰی حضرت کے پیروکار عاشق رسول (صلی الله علیہ وآلہ وبارک وسلّم) باعمل عالم دین کے شاگرد ، مقتدی اور مُریدین ومحبین بطور ادب ومحبت ان کے ہاتھ مبارک چومتے ہیں اور مقتدی حضرات میں سے ہی چند آدمی لوگوں کو اس عالم دین کے خلاف (بلاعذرشرعی) بدظن کرکے دست بوسی سے روکتے ہیں کہ ان کے ہاتھ نہ چوما کرو ، یہ عمل جائز نہیں ہے بس ہاتھ ملا لیا کرو وغیرہ وغیرہ باتیں کرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمة الله وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک راسخُ العقیدہ سُنّی المذہب مسلک اعلٰی حضرت کے پیروکار عاشق رسول (صلی الله علیہ وآلہ وبارک وسلّم) باعمل عالم دین کے شاگرد ، مقتدی اور مُریدین ومحبین بطور ادب ومحبت ان کے ہاتھ مبارک چومتے ہیں اور مقتدی حضرات میں سے ہی چند آدمی لوگوں کو اس عالم دین کے خلاف (بلاعذرشرعی) بدظن کرکے دست بوسی سے روکتے ہیں کہ ان کے ہاتھ نہ چوما کرو ، یہ عمل جائز نہیں ہے بس ہاتھ ملا لیا کرو وغیرہ وغیرہ باتیں کرتے ہیں
براہ کرم رہنمائی فرمائیں
(١) باعمل سنی عالم دین کے ہاتھ مبارک چومنے والوں کے بارے میں اور
(٢) دست بوسی سے منع کرکے ایک سنی عالم دین کے ادب وتعظیم اور ان کی عزت کرنے سے روکنے والوں کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟
سائل:- محمّدعبدالمصطفٰی ارشدی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مکرم اساتذہ پیر عالم دین والدین کے ہاتھ کو بوسہ دینا شرعا جائز ہے۔
(١) باعمل سنی عالم دین کے ہاتھ مبارک چومنے والوں کے بارے میں اور
(٢) دست بوسی سے منع کرکے ایک سنی عالم دین کے ادب وتعظیم اور ان کی عزت کرنے سے روکنے والوں کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟
سائل:- محمّدعبدالمصطفٰی ارشدی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مکرم اساتذہ پیر عالم دین والدین کے ہاتھ کو بوسہ دینا شرعا جائز ہے۔
زید کا دست بوسی سے روکنا خلاف شرع ہے ساتھ ہی کسی مسلمان کے بارے میں بد ظن کرنا گناہ ہے بدون علم مسئلہ بتانا حرام ہے زید توبہ و استغفار کرے۔
یاد رہے معزز مکرم اشخاص اور والدین کے ہاتھ تو در کنار پاؤں کو بوسہ دینا بھی جائز ہے اور صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پاوں کا بوسہ دیا ہے جس کا ثبوت حدیث شریف میں موجود ہے
حدیث شریف میں ہے
عن زارہ وکان فی وفد عبدالقیس قال لما قدمنا المدینہ فجعلنا نتبادر من روا حلنا فنقبل ید رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورجلہ
حضرت زارہ جو وفد عبدالقیس میں سے تھے وہ فرما تے ہیں کہ جب ہم مدینہ میں آئے تو جلد اپنی سواریوں سے اتر پڑے اور ہم نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور پاوں کا بوسہ دیا (ابو داود شریف مشکوت شریف)
فتاوی رضویہ ج نمبر 22 جدید میں ہے
اور امام بخاری الادب المفرد میں اس کا ذکر کیا ہے
اس حدیث کے تحت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرما تے ہیں ازیں جا تجویز پائے بوس معلوم شود
(اشعت المعات جلد چہارم)
اور علامہ حصکفی علیہ الرحمہ فرما تے ہیں
لاباس فی تقبیل یدالرجل العالم والمتور ع علی سبیل التبرک
یاد رہے معزز مکرم اشخاص اور والدین کے ہاتھ تو در کنار پاؤں کو بوسہ دینا بھی جائز ہے اور صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پاوں کا بوسہ دیا ہے جس کا ثبوت حدیث شریف میں موجود ہے
حدیث شریف میں ہے
عن زارہ وکان فی وفد عبدالقیس قال لما قدمنا المدینہ فجعلنا نتبادر من روا حلنا فنقبل ید رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورجلہ
حضرت زارہ جو وفد عبدالقیس میں سے تھے وہ فرما تے ہیں کہ جب ہم مدینہ میں آئے تو جلد اپنی سواریوں سے اتر پڑے اور ہم نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور پاوں کا بوسہ دیا (ابو داود شریف مشکوت شریف)
فتاوی رضویہ ج نمبر 22 جدید میں ہے
اور امام بخاری الادب المفرد میں اس کا ذکر کیا ہے
اس حدیث کے تحت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرما تے ہیں ازیں جا تجویز پائے بوس معلوم شود
(اشعت المعات جلد چہارم)
اور علامہ حصکفی علیہ الرحمہ فرما تے ہیں
لاباس فی تقبیل یدالرجل العالم والمتور ع علی سبیل التبرک
(درمختا مع ردالمختار ج پنچم)
اور فتاوی عالمگیر ی میں ہے
ان قبل یدالعالم اوسلطان عادل لعلمہ و عدلہ لاباس فیہ یعنی اگر علم اور عدل کی وجہ سے عالم اور عادل بادشاہ کے ہاتھ کو چومے تو جائز ہے
حاصل کلام یہ ہے کہ مستحقِ تعظیم شخص جیسے والدین، اساتذہ، مرشد اور دیگر قابلِ احترام لوگوں کے ہاتھ کو تعظیماً چومنا جائز ہے، البتہ دنیوی غرض کے لیے یا بطورِ عبادت کسی کا بھی ہاتھ چومنا جائز نہیں ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے
(وأما الكلام في تقبيل اليد) فإن قبل يد نفسه لغيره فهو مكروه وإن قبل يد غيره إن قبل يد عالم أو سلطان عادل لعلمه وعدله لا بأس به هكذا ذكره في فتاوى أهل سمرقند وإن قبل يد غير العالم وغير السلطان العادل إن أراد به تعظيم المسلم وإكرامه فلا بأس به وإن أراد به عبادة له أو لينال منه شيئا من عرض الدنيا فهو مكروه."
(الباب الثامن والعشرون، ج:5، ص:369)
فتاویٰ شامی میں ہے
(ولا بأس بتقبيل يد) الرجل (العالم) والمتورع على سبيل التبرك درر ونقل المصنف عن الجامع أنه لا بأس بتقبيل يد الحاكم والمتدين (السلطان العادل) وقيل سنة مجتبى ... (ولا رخصة فيه) أي في تقبيل اليد (لغيرهما) أي لغير عالم وعادل هو المختار مجتبى وفي المحيط إن لتعظيم إسلامه وإكرامه جاز وإن لنيل الدنيا كره. (و) كذا ما يفعله الجهال من (تقبيل يد نفسه إذا لقي غيره) فهو (مكروه) فلا رخصة فيه۔ (باب الاستبراء، ج:6، ص:383، )
والله ورسوله اعلم بالصواب
اور فتاوی عالمگیر ی میں ہے
ان قبل یدالعالم اوسلطان عادل لعلمہ و عدلہ لاباس فیہ یعنی اگر علم اور عدل کی وجہ سے عالم اور عادل بادشاہ کے ہاتھ کو چومے تو جائز ہے
حاصل کلام یہ ہے کہ مستحقِ تعظیم شخص جیسے والدین، اساتذہ، مرشد اور دیگر قابلِ احترام لوگوں کے ہاتھ کو تعظیماً چومنا جائز ہے، البتہ دنیوی غرض کے لیے یا بطورِ عبادت کسی کا بھی ہاتھ چومنا جائز نہیں ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے
(وأما الكلام في تقبيل اليد) فإن قبل يد نفسه لغيره فهو مكروه وإن قبل يد غيره إن قبل يد عالم أو سلطان عادل لعلمه وعدله لا بأس به هكذا ذكره في فتاوى أهل سمرقند وإن قبل يد غير العالم وغير السلطان العادل إن أراد به تعظيم المسلم وإكرامه فلا بأس به وإن أراد به عبادة له أو لينال منه شيئا من عرض الدنيا فهو مكروه."
(الباب الثامن والعشرون، ج:5، ص:369)
فتاویٰ شامی میں ہے
(ولا بأس بتقبيل يد) الرجل (العالم) والمتورع على سبيل التبرك درر ونقل المصنف عن الجامع أنه لا بأس بتقبيل يد الحاكم والمتدين (السلطان العادل) وقيل سنة مجتبى ... (ولا رخصة فيه) أي في تقبيل اليد (لغيرهما) أي لغير عالم وعادل هو المختار مجتبى وفي المحيط إن لتعظيم إسلامه وإكرامه جاز وإن لنيل الدنيا كره. (و) كذا ما يفعله الجهال من (تقبيل يد نفسه إذا لقي غيره) فهو (مكروه) فلا رخصة فيه۔ (باب الاستبراء، ج:6، ص:383، )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
09/11/2023
09/11/2023